میٹرک کلاس کا آج لاسٹ پریکٹیکل دے کر وہ گھر آئی تو خاموش سی تھی کھانا بھی نہیں کھایا آتے ہی اپنے روم میں چلی گئی رات کے کھانی پہ بھی اس نے برائے نام ہی کھایا اور اٹھ گئی ماما نے پوچھا بھی مگر وہ طبیعت کا بہانہ کر کے اپنے کمرے میں آگئی طبیعت میں تھوڑا بوجھل پن سا تھا وہ آکے بیڈ پہ بیٹھ گئی آج کے واقعے کے بارے میں سوچنے لگی آج اسکول میں اس کے ایک کلاس فیلو نے اسے پرپوز کیا تھا وہ کنفیوز ہوگئی تھی کہ کیا جواب دے وہ فطرتا بہت شرمیلی سی تھی اسے کچھ نہ سمجھ آیا اور وہ لڑکا جو اس کے جواب کے انتظار میں تھا اسے جواب دیے بغیر گھر آگئی
خیر کچا ذہن تھا کچھ دنوں تک وہ ڈسٹرب رہی اور پھر سب بھول گئی اسکول بھی ختم ہو گیا تھا اب وہ فری تھی
وہ اسکول سے ہی بہت اچھی فٹ بال پلئیر تھی اب کالج
میں بھی وہ اسپورٹس میں اپنا نمایا کردار ادا کرتی رہی
وہ فٹ بال کھیل کے آئی پانی پی رہی تھی کہ اس کی فرینڈز چلی آئیں
” یار عنیزہ دیکھو وہ لڑکا کتنا ڈیشنگ ہے نا” ہما کی بات پہ یشل اور عنیزہ نے بھی مڑ کے دیکھا سامنے علی اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا ان تینوں کے دیکھنھ پر علی نے بھی دیکھا
” توبھہ ہما کسی کو تو چھوڑ دو ہر آنے جانے والا تمہیں ہینڈسم لگتا ہےہر ایک پہ مر جاتی ہو” یشل چڑ کر بولی تو عنیزہ نے بھی اس کی تائید کی
” اففففف۔۔۔۔۔ مر کون رہا ہے میں تو جسٹ بول رہی ہوں اور یہ صرف میں ہی نہیں کالج کی ہر لڑکی کہتی ہے”
” ویسے یہ بات تو ہما ٹھیک کہہ رہی ہے ہر لڑکی فدا ہے اس بندے پر پر یہ کسی کو گھاس بھی نہیں ڈالتا۔۔۔۔۔ کل بھی وہ زینی والوں کا گروپ کہہ رہا تھا ایسا بندہ لائف میں نہیں دیکھا پتا نہیں کس کا نصیب ہو گا یہ” عنیزہ نے بتایا
” ٹوپک چینج کرو یار کیا لے کر بیٹھ گئے” یشل نے کہا ” یہ بتاؤ سر کریم والے نوٹس بنے یا نہیں” یشل نے باتوں کا رخ چینج کردیا تھا
———
وہ گھر آئی تو بے حد تھکی ہوئی تھی کھانا کھایا اور سو گئی شام میں اٹھ کے لان میں چلی آئی چاروں بہن بھائی لڈو کھیل رہے تھے اور مصطفٰی کسی بات پہ ناراض ہورہا تھا
” کیا ہوا میرے بھییا کو کون تنگ کررہا ہے” وہ ان کے پاس آکے بولی
” آپی دیکھو نا ئی غزل مجھےبار بار ہرا رہی ہے گیم میں میں نے نہیں کھیلنی” وہ چڑ کے بولا
ارے میں ہوں نا میں اپنے بھائی کے ساتھ کھیلوں گی”
” رئیلی آپی اوہ گریٹ اب دیکھنا میں اس غزل کو کیسے ہراتا ہوں” وہ خوشی سے بولا تو غزل چڑ گئی
” ہاں بھائی تو آپی کا ہے میں تو بہن نہیں ہوں نا ان کی” وہ منہ پھلا کے بیٹھ گئی ” ایک دن چلی جاؤں گی نا تو یاد کریں گی” وہ ہنس دی
” کہاں جانے لگی ہو تم ابھی تو بہت چھوٹی ہو”
” میں بات نہیں کررہی آپ سے ”
” آں۔۔۔۔۔ میری گڑےا تو ناراض ہو گئی مجھ سے” وہ اس کے گلے میں بانہیں ڈال کے بولی
” ہاں” وہ ناراضی سے بولی
“اچھا نیکسٹ تمہاری ہیلپ کرواؤں گی جان دیکھو نا بھائی چھوٹا ہے”
” میں بھی تو چھوٹی ہوں”
“اچھا اوکے نیکسٹ ٹائم تم اب خوش”
” پکا؟؟؟”
” یس پکا”
مسٹر اینڈ مسز وقار آفندی کے پانچ بچے تھے چار بئٹیاں اور ایک بیٹا بڑی بیٹی یشل ابھی میٹرک کے پیپر دے رہی تھی وہ بہت زیادہ لائق تھی دوسری بیٹی کا نام مشعل تیسری کا نام امل اور چوتھی کا نام غزل تھا اور بیٹے کا نام مصطفٰی تھا
زندگی بہت اچھی بسر ہو رہی تھی دونوں ماں باپ نے اپنے بچوں کو بڑے ناز سے پالا تھا اور اچھی تعلیم و تربیت دے رہے تھے
——-
دن یوں ہی تیزی سے گزرتے گئے یشل کا کالج میں ایڈمیشن ہوگیا تھا وہ ایف ایس سی پری میڈیکل کررہی تھی
آج اتفاق سے سر احسان کی کلاس نہیں ہوئی تھی سب اسٹوڈنٹس بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ کوئی اس کے پاس آکے رکا
” یشل ایکسکیوزمی میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ” یشل ڈائس کے پاس کھڑی اپنی فرینڈز سے نوٹس ڈسکس کررہی تھی علی کے یوں کہنے پہ اس نے پلٹ کے دیکھا یہ تو وہی لڑکا تھا جس نے اسے میٹرک کلاس میں پرپوز کیا تھا
” جی کہیے”
علی گھٹنے کے بل نیچے بیٹھا اور دائیں ہاتھ میں پکڑی رنگ اس کی طرف بڑھائی پوری کلاس یک دم متوجہ ہوئی
” ول یو میری می یشل؟؟؟” یشل کا دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا اس نے نظر اٹھا کے پوری کلاس کو دیکھا سب ان دونوں کو ہی دیکھ رہے تھے اور پھر علی کو دیکھا جو اس کی محبت میں ڈوبا اس کی ایک ہاں کا منتظر تھا
” یشل آئی لو یو سو مچ۔۔۔۔۔ پتا نہیں کب سے میں تم سے محبت کرتا ہوں یہ میں خود بھی نہیں جانتا۔۔۔۔۔بس مجھے یہ معلوم ہے کہ تمہاری محبت میں رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے میں تمہیں کھونے سے ڈرتا ہوں اور تمہیں پانے کی چاہ رکھتا ہوں۔۔۔۔۔ پلیز جواب دو” وہ بےصبری سے اس کی ایک ہاں کا منتظر تھا
یشل نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں محبتوں کا سمندر موجزن تھا اور پھر اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا
” یس آئی ڈو” یشل نے ایک ٹرانس کی کیفیت میں کہا اور شرما کے مسکرادی پوری کلاس خوشی سے شور مچانے لگی یشل یوں مسکراتی ہوئی بہت حسین لگ رہی تھی اتنے لوگوں میں وہ بہت زیادہ شرما رہی تھی علی نے بیت چاہت سے اس کا گلابی پڑتا چہرہ دیکھا اور مسکرا دیا اور کھڑا ہوا اور اس کا ہاتھ جو وہ پہلے ہی تھامیں ہوئے تھا اس میں رنگ پہنا دی
“تھینک یو تھینک یو مائے پرنسز ۔۔۔۔۔ لو یو” علی محبت پاش نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا یشل مسکرادی۔
——-
علی ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اس کے بابا کی ڈیتھ ہو چکی تھی وہ چار بھائی اور تین بہنیں تھیں پہلے عمر پھر شفق پھر عمار پھر انابیہ پھر علی اور حیدر اور لاسٹ میں فاطمہ تھی بابا کی ڈیتھ کے بعد ان کی ماں نے ان کی دیکھ بھال کی اچھی سے اچھی تعلیم و تربیت دی عمر شفق اور عمار کی شادی ہو چکی تھی اور باقی بہن بھائی سب اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے تھے
علی کا ایڈمیشن بھی بہت اچھے اسکول میں تھا ان کی ماں نے ان لوگوں کے لیے بہت کچھ کیا تھا اب اس کی باری تھی اپنی ماں کے لیے کچھ کرنے کی وہ بہت ہارڈ ورکنگ اسٹوڈنٹ تھا وہاں اس کی ملاقات یشل سی ہوئی آہستہ آہستہ وہ اسے پسند کرنے لگا اور یہ پسندیدگی محبت میں کب بدلی وہ جان ہی نا پایا اور سب سمجھ آئی تو بنا کچھ سوچے سمجھے اس کے پاس گیا اور اسے پرپوز کردیا لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا اور چلی گئی۔
——–
شام میں سب چائے پی رہے تھے کہ علی تیار ہو کے آیا بلیک کرتے میں وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا سنہری رنگت دمک رہی تھی صرف یہیں نہیں علی ویسے بھی بہت خوبرو تھا چھے فٹ سے نکلتا قد چوڑے شانے بلیک آئیز اور بلیک سلکی بال جو ماتھے پہ گرتے تھے وہ مردانہ وجاہت کا شاہکار تھا
” کہیں جا رہے ہو؟؟؟” بھابی نے پوچھا
” جی بھابی ” اس نے مختصراً کہا
” اچھا باہر جا ہی رہے ہو تو لیلیٰ کو بھی لے جاؤ گھر میں بھی بور ہو رہی ہے یہ” شہلا بھابی نے فوراً اپنی بہن کو آگے کیا
” آج نہیں بھابی پھرکبھی ابھی مجے تھوڑا کام ہے” کہہ کر وہ جانے لگا تو لیلیٰ بولی
” یہ کیا بات ہوئی مہمان سے عزیز تمہیں اپنے کام لگ رہے ہیں ناٹ فئیر”
” پلیز لیلٰی کہا ہے نا میں بزی ہوں اور ویسے بھی صبح تو تم بھابی کے ساتھ شاپنگ پہ گئی تھیں میں پھر کبھی لے چلوں گا باہر ورنہ اگر ابھی جانا ہے توتم عمر بھائی کے ساتھ چلی جانا ” اس نے امی کو اللٰہ حافظ کہا اور گیٹ عبور کیا
———-
یہ وقار کو تو دیکھو ذرا کیسی عیش سے جی رہا ہے ذرا بہن بھائی کا خیال نہیں کہ ان کو بھی کچھ دے دے” یہ بولنے والے وقار آفندی کے چھوٹے بھائی احمد آفندی تھے جو وقار آفندی کے سامنے بھائی بھائی کرتے نا تھکتے تھے
” تم تو چھوڑو چھوٹے ہو میں تو بڑی ہوں تم لوگوں سے مجھ کو بھی آج تک کچھ نہیں دیا حالانکہ اتنی دولت ہے اس کے پاس”
” خیر باجی یہ تو نا کہیں آپ پہلے خود بولتی ہیں کہ جب بھی وقار بھائی صاحب آتے ہیں اتنے تحائف لاتے ہیں اور کیش الگ دیتے ہیں ” انعم نے کہا
” تو ان تحائف اور دو پیسوں سے میرا کیا ہوگا پہلے بڑے بھائی صاحب نے بھی یہ ہی کیا انہوں نے بھی اپنی کمائی دولت میں سے ہمیں کچھ نہ دیا اور اب یہ وقار۔۔۔۔۔ اللٰہ تو ان پہ بہت ہی مہربان ہے” رابعہ بولیں جو کہ وقار آفندی کی بڑی بہن تھیں
” یہ تو سچ کہہ رہی ہیں آپ” دونوں میاں بیوی نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی
” ویسے ان کی دولت پہ ہمارا بھی تو کچھ حق ہے نا آخر کو سگے بہن بھائی ہیں ان کے آپ لوگ” زرمینہ بھی بولی
” ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو ہمیں کچھ تو کرنا ہی پڑے گا” ہاشم آفندی بھی بولے
” پر کیا؟؟؟” سمیہ ( وقار آفندی کی دوسری بہن) بولیں تو ہاشم آفندی سوچ میں پڑ گئے
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...