جنازے کا وقت ہوگیا ہے اتنا وقت روکنا ٹھیک نہی۔علی نے ہزیل سے کہا ۔
ہممممم میں سمجھ سکتا ہوں۔ہزیل نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتےہوۓ کہا۔
نہی میں کہیں نہی جانے دونگی۔رانیہ بولی۔
بابا آنکھیں کھولیں ۔آپ کہیں نہی جائیں گے اٹھے نہ آپ کی بیٹی کو آپکی ضرورت ہے دیکھیں نہ وہ ماجد خان سے لپٹ کر رو رہی تھی ۔
وہاں سبھی اس کی حالت دیکھ کر افسردہ تھے۔
اچانک وہ بے ہوش ہوگئ۔
عون اور ہزیل جلدی سے اس کی طرف بڑھے۔اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔
عون اسے لے کر ہسپتال چلا گیا۔
***************************
ناجانے جیسے جیسے وہ اپنے گھر کے قریب پہنچ رہی تھیں ان کا دل گھبرارہا تھا انھیں یوں محسوس ہورہا تھا جیسے انکا برسوں کا انتظار ختم ہوجاۓ گا۔جو وک اپنے بھائ کا کررہی تھیں۔
جیسے ہی وہ گاڑی سے باہر نکلیں تو دیکھا اس گھر کے باہر بھیڑ ہے اور ایک لڑکا لڑکی کو گاڑی میں بٹھا کر کہیں لے کر جارہا ہے۔
ان کا دل رک گیا۔
یہاں کیا ہورہا ہے۔حاذق نے بولا۔
مام آپ نے تو کہا تھا کہ یہ گھر بند ہے پھر یہ بھیڑ۔وہ دوبارہ بولا
وہ دیکھیں علی بھائ۔ہما بولی۔
تم آفس کا کام سنبھال لینا مجھے یہاں ٹائم لگ جاۓ گا شاید میں آج بلکل بھی نہ آسکوں ہاں اور میٹنگ ابھی ملتوی کردو ورکرز کو میں نے کام سمجھادیا ہے میں نے تم بس ان کی نگرانی کرنا وہ فون پر کسی سے بات کررہا تھا کہ اسے اپنے کندھے پر دباؤ محسوس ہوا۔اس نے مڑ کر دیکھا تو حاذق ہما مومنہ اور ایمن کھڑے تھے۔
آپ لوگ ادھر۔اس نے حیرت سے پوچھا۔
تم یہاں کیا کررہے ہو اور یہاں کیا چل رہا ہے۔مومنہ نے اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوۓ اس سے پوچھا۔
ماما آپکو وہ آدمی یاد ہے ھس سے ہماری گاڑی کی ٹکر ہوئی تھی اور آپکی بحث بھی۔علی نے یاد کروانے والے انداز میں بولا۔
تم ماجد خان کی بات کررہے ہو۔۔ان کی آواز کنویں سے آتی ہوئی سنائ دی
جی ان کی ہی بات کررہا ہوں یہ ان کا ہی گھر ہے۔
ان کا انتقال ہوگیا ہے تو بس یہ رش ان لوگوں کا ہے جو تعزیت کے لیے آۓ ہیں۔علی نے تفصیل سے بتایا۔
اس کی بات سن کر مومنہ تو سکتے میں چلی گئی
ایمن کو یوں لگا کہ انکے پیروں کے نیچے سے زمین کسی نے کھنچ لی ہو۔۔
آپ لوگ یہاں کیسے؟؟؟اس نے ان سے ہوچھا۔
یہ تو مام کا گھر تھا تو ہم۔دیکھنے آۓ مگر ماجد خان۔۔۔۔ہما کنفیوژن میں بولی۔
وہ تم لوگوں کے ماموں ہیں۔مومنہ نے جواب دیا۔
ان دونوں کے سر پر گویا بم گرپڑا
***************”**********
اس وقت وہ دونوں پاکستان کے دل “زندہ دلانِ لاہور” میں موجود تھے اور فیمس مسجد بادشاہی مسجد میں موجود تھے جو مغلیہ فن تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
وہ اس مسجد کےوسیع صحن میں موجود تھا
ان کے ساتھ چلتا ہوا گائیڈ انھیں بادشاہی مسجد کے بارے میں بتارہا تھا۔ابھی ابھی وہ شاہی قلعہ سے نکل کر بادشاہی مسجد میں داخل ہوۓ تھے۔
سر اس مسجد کو اورنگزیب عالمگیر نے تعمیر کروایا تھا۔اس کے لیے دوردراز سے عمدہ پتھر منگوایا گیا تھا۔ وہ انھیں بتارہا تھا۔
وہ دونوں اسے غور سے سن رہے تھے۔
سرخ و سفید پتھروں سے تعمیر شدہ یہ عمارت ان دونوں کی دلچسپی کا باعث بنی ہوئ تھی۔ وہ دونوں چلتے ہوۓ اس کے اندرونی حصے میں داخل ہوگۓ۔اندرونی دیواروں پر روایتی نقش کاری ان کو بہت بھلی معلوم ہوئی۔
سر یہ مسجد سولہ سو تہتر میں بنائ گئی تھی۔تب جس شخص نے اس کی دیواروں پر نقش کاری کی تھی اس کے ہاتھ ہی کٹوادیے تھے۔گائیڈ نے انھیں بتایا۔
اس کی بات سن کر وہ دونوں حیران ہوگۓ تھے۔ایک نظر انھوں نے اپنے ارد گرد دوڑائ مختلف قیمتی پتھروں سے کی گئی یہ نقش کاری بے شک اپنے آپ میں ایک نمونہ تھی مگر وہ دونوں ابھی تک اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ ہاتھ کیوں کٹواۓ۔
مانا کہ بہت خوبصورت نقش کاری ہے مگر اس میں ہاتھ کیوں کٹواۓ۔امان بولا۔
سر اسی لیے تو کٹواۓ تاکہ وہ دوبارہ نقش کسی دوسرے کے لیے نہ بناۓ۔
امان اور جوزف اس کی بات سن کر حیران ضرور ہوۓ تھے مگر خاموش رہے۔
وہ بادشاہی مسجد کے ایک حصے میں آۓ اس حصے میں بہت رش تھا۔
یہاں کیا ہے۔امان نے پوچھا۔
یہاں پر محمد ﷺ اور آل محمدی ﷺ سے منسوب چیزیں ہیں۔
اس کی نظر عورت پر ہڑی جو شیشے کے پار ایک سفید چادر کو دیکھ کر رورہی تھی۔
سر یہ ان کی نعلین پاک ہے۔ گائیڈ نے ایک جوتے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔
اس کا دوسرا کہاں پر ہے۔امان نے دوبارہ پوچھا۔
سر اس حوالے سے لوگ بہت کچھ کہتے ہیں حقیقت سے میں بھی ناپید ہوں۔
امان کو ناجانے وہ چیزیں بہت خاص لگیں۔
وہ ان سب کو دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ لوگوں کی ان چیزوں سے اتنی محبت اسکی دلچسپی کو بڑھا رہے تھے۔
عام سا تو ہے سب کچھ۔جوزف بولا۔
اسے اس وقت یہاں سے نکلنا تھا وہ ان لوگو سے چڑ گیا تھا۔
نہیں کچھ خاص تو ہے۔ان چیزوں میں لوگ جو اتنی محبت دکھا رہے ہیں۔امان بولا۔
اس کی بات سن کر اس نے لاپروائ سے سر جھٹکا۔ ادھر ادھر نظریں گھماکر وہ گائیڈ کو دیکھنے لگا جو رش میں ناجانے کہا کھوگیا تھا۔
امان کو اس کا یہ ردعمل اچھا نہ لگا۔
جوزف جو کہ گائیڈ کی تلاش میں ادھر ادھر نظر دوڑا رہا تھا بالآخر وہ اسے مل گیا اور وہ اس سمت چلا گیا۔امان کو بھی اس کی پیچھے ناچاہتے ہوۓ جانا پڑا۔
*****”*””*”***************************
وہ دھیرے دھیرے سے گھر کی سرحد پار کررہی تھی اسے ایسا محسوس ہوررہا تھا جیسے وہ دوبارہ قدم نہی اٹھا پاۓ گی۔
اس کے پیچھے اس کے دونوں بچے شاک کی حالت میں داخل ہوۓ۔
آہستہ آہستہ جاکر وہ میت کے پاس بیٹھ گئی۔
مومنہ ایک طرف کھڑی ہو گئی۔ہما،حاذق اور علی بھی ایک طرف تھے۔
ایمن نے میت چہرے سے کپڑا ہٹایا۔
مومنہ نے منہ دوسری طرف کرلیا اور اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی ناکام کوشش کی۔
ایمن ماجد کے چہرے پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔
چہرے پر مختلف خراشیں تھیں۔وہ ان خراشوں کو چھو رہی تھی۔اچانک اس کا ہاتھ ماتھے پر بندھی ہوئی پٹی کی طرف بڑھا۔ اس سے پہلے وہ پٹی کو چھوتی علی نے آگے بڑھ کر ایمن کا ہاتھ پکڑ لیا۔
یہاں ہاتھ مت لگاۓ۔خون نکل پڑے گا۔
ایک دم ہاتھ نیچے گر پڑا۔اور اس نے دونوں ہاتھوں کا ہالہ بناکر ماجد کے چہرے کو اس میں لیا۔
وہ چہرے کو غور سے دیکھ رہی تھی۔
جس چہرے کو دیکھنے کے لیے وہ پچھلے ستائس سال تڑپی اور دعا مانگتی کہ ﷲ مجھے وہ چہرہ ایک بار دکھا دے۔آج اسی چہرے کو وہ دیکھ رہی تھی اس کی دعا قبول ہوچکی تھی۔آج وہ چہرہ اس کے سامنے تھا مگر اس میں حرکت نہی تھی۔۔
ستائس سال پہلے جو چہرہ ہر وقت شاداب رہتا تھا۔آج وہ جھڑیوں زدہ ہوچکا تھا۔عنابی لب جو ہر وقت مسکراتے تھے۔وہ زرد پڑچکے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی وہ چہرے کو غور سے دیکھ رہی تھی کہ اسے اپنے کندھے پر دباؤ محسوس ہوا۔
اس نے مڑ کر دیکھا تو مومنہ تھی۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس نے ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس بٹھایا۔
ایمن کی آنکھوں میں ایک آنسو نہ تھا۔یہی حیرانی والی بات تھی۔
مومی دادی کہا کرتی تھیں یہ لڑکی کبھی نہی بدلے گی۔وہ سادہ لوح تھی انھیں نہی معلوم تھا کہ ایمن تو بدل جاۓ گی مگر ماجد نہی بدلے گا۔ وہ پہلے بھی ایسے ہی چپ چاپ چلے گئے تھے اب بھی ایسے ہی بغیر کچھ کہے چلے گئے۔
ایمن دل کا بوجھ ہلکا کرلو تھوڑے سے آنسو بہالو۔تاکہ تمھیں سکون آجاۓ۔مومنہ نے کہا۔
میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا۔اب کوئ بوجھ نہی دل پر پتا ہے میں ہر نماز میں ﷲ سے کہتی تھی کہ ﷲمجھے میرے بھائ سے ملوادے دیکھو نہ میں مل گئی اس سے اب مجھ کو سکوں آگیا۔میں کیوں آنسو بہاؤ میرے بھائ سے میری ملاقات ہورہی ہے۔ایمن بولی۔
اس وقت وہ کوئ دیوانی معلوم ہورہی تھی۔
ایک بار پھر وہ اپنے بھائ کی طرف متوجہ ہوگئی۔
بھائ آپ نے تو ناراض ہونے کا بھی موقع نہی دیا۔جانتے ہے میں سوچتی تھی کہ جب میں آپ سے ملونگی نہ تو بہت نخرے دکھاؤگی کہ ایسے ہی چلے گئے آپ مجھے مناۓ گے۔
آپ کو مجھ پر بھروسہ نہی تھا۔ایک بار تو کہتے مجھ سے میرا دل آج بھی گواہی دیتا ہے کہ آپ غلط نہی ہو آپ کو آپکی بہن پر بھی بھروسہ نہ تھا۔بھائ آپ کی تو جان تھی نہ میں پھر اپنی جان سے ایسے ناراض ہوتے ہیں کوئ۔وہ ماجد سے ایسے باتیں کرہی تھی جیسے وہ اسکے سامنے بیٹھا ہو۔
مومنہ سے اسکی یہ حالت دیکھی نہی گئ وہ وہاں سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی۔گئیں۔
حاذق بیٹا ادھر آؤ ماموں سے نہی ملو گے۔اس نے حاذق کو آواز دیتے ہوۓ کہا۔
وہ خاموشی سے آکر ان کے پہلو میں بیٹھ گیا۔
ہما ہما کہاں ہو بیٹا آؤ تم کہتی تھی نا کہ حاذق بھائی کسی سے نہیں ملتے یہ دیکھو بلکل اپنے مامو کی کاپی ہیں ۔آؤ ملو۔ایمن آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر ان کے پاس آئ۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے لبریز تھا۔
ہما نے ماجد کے چہرے کی طرف دیکھا۔
کچھ سال پیچھے چلے جاؤ تو ایسا لگے گا جیسے واقعی حاذق ہے۔
دیکھیں بھائی یہ میرا بیٹا ہے۔بلکل آپ جیسا اسکی عادتیں بھی آپ سے ہی ملتی ہیں کھانے میں بھی وہی پسند ہے جو آپکو پسند ہے ۔وہ مسلسل بول رہی تھی ایک دم رک گئی۔
ہے نہیں پسند تھی۔وہ تھوڑا ہنس کر بولی ۔
میں بھی نا آپ سے کیا باتیں کرنے لگی آپ نے تو جواب بھی نہی دینا۔ وہ ایسے ہی مسکراکر بولی۔
اس وقت وہ کوئی دیوانی معلوم ہوررہی تھی۔
چچی جنازے کا وقت ہورہا ہے پہلے ہی دیر ہوگئ ہے۔۔علی نے رک رک کر کہا۔
ہاں زیادہ دیر روکنا نہیں چاہیے جاؤ لے جاؤ۔
ایمن سرد لہجے میں بولی۔
اسکی آنکھ میں ایک آنسو بھی نہی تھا۔
دیکھتے دیکھتے وہاں سے وہ لوگ چلے گئے۔ہما ایمن کے سارھ لگ کر بیٹھی تھی۔آج جو ہوا وہ اس سب سے ڈر گئ تھی۔اس نے پہلی بار اتنے قریب سے جنازہ دیکھا تھا اور اوپر سے اپنی ماں کی یہ حالت اسے اندر تک ہلا گئی تھی۔
†********””””””””””””*”**””*************
اس گھر کی دہلیز آج وہ صرف اپنے بیٹے کی خاطر پار کر رہے تھے ۔
جیسے ہی وہ اندر داخل ہونے لگے گارڈ نے روک لیا ۔
کون ہو تم ۔گارڈ نے سخت لہجے میں پوچھا ۔
بدر حمدانی جاؤ جا کر اپنے صاحب سے بولو بدر آیا ہے ۔اس نے جواب دیا ۔
گارڈ نے اس پر بھرپور نظر ڈالی اور اندر کی جانب بڑھ گیا ۔
کچھ دیر بعد وہ آیا اور اندر جانے کی اجازت دی
وہ گہرا سانس لے کر اندر بڑھ گیا
لاؤنج میں داخل ہوا تو اسکی نظر سامنے بیٹھے شخص پر پڑی تو اسکا خلق کڑوا ہوگیا مگر وو خاموش رہا۔
تشریف رکھیں آپ ۔۔ مراد اپنے مغرور لہجے میں بولا۔
ایک نظر اس پر ڈال کر وہ بیٹھ گیا ۔
بولیے ہمارے غریب خانے میں کیسے آنا ہوا۔
میں یہاں اپنے بیٹے کے لیے تمہاری بیٹی کا رشتہ لے کر آیا ہوں ۔اس نے یہاں آنے کا مقصد بیان کیا۔
اسکی بات سن کر وو غصّے میں اگیا۔
اوقات کیا ہے تمہاری ہاں جو میری بیٹی کا رشتہ مانگنے آۓ ہو۔وہ غصے میں بولا۔
انسان کی اوقات اس کے لباس سے نہیں بلکے اسکے کردار سے لگائ جاتی ہے اور میرے بیٹے کا کردار تمہارے سامنے ہے۔وہ انتہائی سکون سے بولا
دفع ہوجاؤ یہاں سے۔ جب وہ کوئ جواب نہ دے پایا تو یوں چلایا۔
میری بیٹی تم جیسوں کے بیٹوں کے لیے پیدا نہیں ہوئی۔وہ تو راج کرنے کے لیے پیدا ہوئیں ہیں ۔میں نے اپنی بیٹی کا رشتہ زمیل کے بیٹے باسل سے طے کیا ہے۔وہ مغرورانہ لہجے میں بولا
اسکی بات سن کر وہ حیران ہوگۓ۔
***********************
وہ قبرستان سے سیدھا ہسپتال چلا گیا کیونکہ گھر واپس جانے کی ہمت ہی نہیں ہو پائ۔وہ یہ تو جانتا تھا کہ اسکے باپ کی بہن ہے مگر ماضی سے وہ بھی بےخبر تھا۔
ہسپتال آنے کے بعد وہ عون سے ملا اور رانیہ کا حال احوال پوچھا۔
بھائ ڈاکٹر نے کہا ہے صدمہ گہرا ہے نارمل ہونے میں وقت لگے گا آجکی رات ہسپتال میں ہی گزارے گی۔آپ بتائیں وہاں سب ٹھیک تھا۔عون نے اسے بتاکر اس سے دریافت کیا۔
اس نے دوپہر والا واقعہ اسے سنادیا جسے سن کر وہ بھی حیران پریشان ہوگیا۔
اب۔اس نے پوچھا۔
کچھ نہیں کل جائیں گے اور یہ سب ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا تم بس خود کو تیار رکھنا۔
جی بھائی۔
****************************
تائ ہمارے کوئی ماموں تھے یہ ہمیں کیوں نہیں معلوم تھا ہم سے کیوں چھپایا۔ہما نے مومنہ سے پوچھا جو ابھی ابھی ایمن کو نیند کی گولی دے کر آئ تھی۔
رات کے گہرے ساۓ چھا چکے تھے۔اس وقت وہ سب لاؤنج میں موجود تھے ہما نے مومنہ سے پوچھا ۔
بیٹا کچھ چیزیں راز میں رہیں تو زیادہ بہتر ہوتا ہے ان سے پردہ اٹھ جائے تو شاید حالات خراب ہوجاۓ۔اسی طرح یہ بات اگر راز میں چھپی ہوئی ہے اسکو راز میں ہی رهنے دو۔آج کے بعد اس بات کا ذکر مت کرنا اپنی ماں کے سامنے تو بلکل بھی مت کرنا۔مومنہ نے سنگین لہجے میں کہا۔
اسکی بات سن کر وہ خاموش ھوگئ۔
علی نے اپنی ماں چہرے کو غور سے دیکھا جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو۔لیکن ناکام رہا ہمیشہ کی طرح
*†***********************************
وہ جیسے خالی ہاتھ آۓ تھے۔ویسے ہی خالی ہاتھ لوٹ رہے تھے ان کی نظر رجا پر پڑی وہ اپنے آنسو صاف کر رہی تھی۔
کیا ہوا بیٹا۔وہ اسکے قریب آکر محبت سے بولے ۔
کچھ نہیں انکل میں نے آپکی اور بابا کی باتیں سنی مجھے دکھ ہوا جس لہجے میں انہوں نے آپ سے بات کی ۔وہ بولی
ارے وہ ہے ہی ایسا اسکو چھوڑو اور میری بات سنو یہ تو تمھیں معلوم ہو چکا ہوگا کے تمہارے بابا نے تمہارا اور راہم کا رشتہ پکّا کردیا ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کے کے تم اور فہام ایک دوسرے کو پسند کرتے ہو۔ اتنا کہ کر وہ چپ ہوگۓ۔
انکل میں بابا سے بات کروں گی وہ مان جائےگے۔وہ پرامید لہجے میں بولی۔
اسکی نظروں میں امید تھی۔بدر کو اس وقت اس پر پیار بھی آیا اور ترس بھی۔
بیٹا میں اسے جانتا ہوں وہ جو ایک بار فیصلہ کرلیتا ہے اس سے دوبارہ پیچھے نہیں ہٹتا۔انھسں نے گہرا سانس لے کربولا۔
انکی آنکھوں میں کچھ تھا جسے سمجھنے سے ول قاصر تھی۔
*****************************************
آسمان پر بادل کے ساۓ چھاۓ ہوۓ تھے رات بہت خاموش تھی آج کی رات بہت لمبی تھی کچھ لوگو کے لیے ۔۔۔
ایک طرف دو بھائی ہیں جو ہسپتال میں ہیں جنکو ایک طرف اپنی بہن کی فکر ہے دوسری طرف اپنے آنے والے کل کی فکر ہے۔
دوسری طرف حاذق اور ہما تھے جن پر آج ایک انکشاف ہوا تھا اور وہ ساری رات اس معاملے پر سوچنا چاہتے تھے۔
علی جس نے آج اپنی ماں کی آنکھوں میں بہت کچھ دیکھا تھا ایک شخض کے لیے جو کہ اس کے لیے انجان تھا مگر شاید اسکی ماں کے لیے نہی۔
ماجد خان پہلے بھی تم ایسے ہی گئے تھے بغیر بتاۓ اب بھی ویسے ہی گئے ہو ماجد خان تم ہمارے قریب نہی تھے۔ تب بھی ہماری زندگیوں میں یہ ویرانی نہیں تھی مگر تمہارے جانے کے بعد یوں لگ رہا ہے جیسے آدھی دنیا ہی خالی ہوچکی ہو۔۔
مومنہ شاہ نے اپنے خیالاوں میں ماجد خان کو مخاطب کیا۔
آجکی رات یہ لوگ نہیں سونے والے تھے یہ تو طے تھا۔
*****************************
رجا باجی آپکو صاب بلارہے ہیں ملازمہ نے آکر اسے بتایا جو کسی گہری سوچ میں تھی۔
ہاں اچھا جاؤ آتی ہوں میں۔وہ بولی۔
ملازمہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔جس کا لہجہ ہمیشہ مغرور رہا آج اتنا دھیما کیسے ہوگیا۔
وہ پلٹ گئی۔
اسکے جانے کے بعد وہ بھی مرے مرے قدموں سے وہ اپنے والد کے کمرے کی جانب بڑھ گئی
دستک کے بعد اجازت مل جانے پر وہ اندر داخل ہوئی۔
آؤ بیٹا بیٹھو۔مراد نے محبت پاش لہجے میں کہا ۔
بیٹا میں تمہارا باپ ہوں اور میں تمہارے لیے کچھ اچھا ہی سوچو گا بیٹا میں نے تمہارے لئے زمیل کے بیٹے راہم کو پسند کیا ہے۔ وہ بولے۔
وہ پہلے منٹ انکے چہرے کو غور دیکھتی رہی اور پھر گہرا سانس لے کر بولی
بابا اپکا فیصلہ میرے حق میں بہتر ہوگا مجھے آپکا ہر فیصلہ منظور ہے۔ یہ کہہ کر وہ اپنے بسل کے چہرے کی طرف دیکھنے لگی وہاں پر فخر تگا سینہ جو پہلے ہی چوڑا تھا وہ اور چوڑا ہوگیا۔
وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی پیچھے سے وہ کسی کس کال کرنے لگ گئے۔
کمرے میں آکر اس نے دروازہ لوک کیا وہیں ٹیک لگا کر بیٹھ کر دل کے غبار کو آنسوؤں میں بہانے لگی۔
******************************************
بھائی انکا ریکشن کیا ہوگا جب وہ ہمیں دیکھیں گی۔رانیہ نے ہزیل سے کہا
کچھ نہیں ہوگا بچے تم فکر مت کرو۔ہزیل نے اسے کہا
وہ بھی پریشان تھا مگر اپنی پریشانی کوظاہر نہیں ہونے دیا۔
اس وقت وہ سب ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھی۔
ایمن بھی آگئی سب کی نظریں اسکے چہرے پر تھیں۔
ایسا لگتا تھا ایک رات میں وہ کتنا سفر کرچکی ہوں۔انکی لال ہوتی آنکھیں اس بات کی گواہ تھی کہ وہ رات بھر روتی رہی ہے۔
ناشتہ لگ گیا ہے اور تم لوگوں نے مجھے بلایا بھی نہیں۔وہ بولیں انکے لہجے میں سنجیدگی ہی تھی۔
جی وہ ہم آہی رہے تھے ۔ہما بولی۔
ٹن ٹن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باہر دروازے کی گھنٹی بجی ۔
علی دیکھو باہر۔مومنہ نے کہا۔
جی یہ کہہ کر وہ باہر کی جانب بڑھ گیا۔
کچھ دیر میں وہ اندر آیا مگراکیلا نہی تھا اس کے ساتھ تین لوگ اور تھے۔
یہ کون ہیں۔مومنہ نے پوچھا ۔
یہ ہزیل ہیں یہ عون ہے اور یہ رانیہ ہیں۔اس نے تینوں کا تعارف کرواتے ہوۓ کہا اور ایمن کی طرف بڑھا اور ہاتھ پکڑ کران کے سامنے لایا انھوں نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
یہ ماجدانکل کے سب سے بڑے بیٹے ہزیل دوسرے بیٹے عون اور یہ تیسری چھوٹی اور اکلوتی بیٹی رانیہ ہیں۔ اور یہ تم لوگوں کی اکلوتی پھپھو ایمن ہیں۔
ایمن اسکی بات سن کر حیرانگی سے ان کو دیکھ رہی تھی۔
اس سے پہلے وہ کچھ کہتی رانیہ اس کی گلے لگ گئی ۔
پھپھو کدھر تھیں آپ اتنے عرصے سے۔بہت شوق تھا ہمیں آپ سے ملنے کا۔وہ نون اسٹاپ بول رہی تھی
رانیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہزیل کی آواز آئی۔
اسکی آواز سن کر وو ان سے جدا ہوئی اور بولی سوری میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئی تھی۔اس نے نظریں نیچے کر کے کہا۔ ایمن اسکے چہرے کو غور سے دیکھ رہی تھی اس کا چہرہ ٹھوڑی سے پکڑ کر اوپر کیا اور غور سے دیکھنے لگی ۔
کچھ دیر کے وقفے کے بعد وہ دوبارہ بولیں
تم ماجد بھائی کی بیٹی ہو۔؟؟؟جیسے کنفرم کرنا چارہی ہو۔
ج جی ۔اس نے گھبراکر کہا۔
میرے بھائی کی بیٹی مومی اسے دیکھو میرے بھائی کی بیٹی ۔اس نے رانیہ کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوۓ بت بنی مومنہ سے کہا۔
وہ اب عون اور ہزیل کی طرف بڑھیں اور ان سے ملنے لگی انکی آنکھوں میں آنسو تھے بے یقینی کے
وہ تینوں کو اپنے ساتھ لائیں اور پیار سے بٹھایا اور ناشتہ پیش کیا۔
حاذق کی نظر رانیہ پر پڑی تو پلٹنا بھول گئی۔یک ٹک وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔علی نے کہنی ماری تو وو سیدھا ہوا ۔
پرسکون ماحول میں ناشتہ کیا گیا ناشتے کے بعد سب لاؤنج میں بیٹھ کر باتیں کررہے تھے۔
پھپھو بہت اشتیاق تھا آپ سے ملنے کا۔بابا نے جیسا اپکے بارے میں کہا تھا نہ آپ بلکل ویسی ہی ہیں۔
ایمن حیران ہوگئی۔
بھائ نے تم لوگوں کو میرے بارے میں بتایا تھا ۔وہ حیران تھیں ۔
آپکا ذکر تو ہمارے گھر ہر وقت ہوتا تھا بابا باتوں باتوں میں ہر بات میں آپکا ذکر کرتے تھے۔
آپ ہم سے ناآشنا ضرور تھیں مگر ہم نہیں۔بابا کبھی بھی آپ سے بےخبر نہی تھے۔وہ آپکی پل پل کی خبر رکھتے تھے۔ہزیل نے انھیں بتایا۔
ناجانے ایمن کب وہاں سے اٹھ کر گئی تھی اب جب وہ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں تصویریں تھیں وہ آکر ایمن کے پہلو میں بیٹھ گئی۔تصویریں اس نگ یزیل کے حوالے کردیں۔
یہ دیکھیں یہ آپکے نکاح کی تصویریں ہیں جب آپکا نکاح ہوا تھا تو میں چھ سال کا تھا تب بابا نے یہ تصویریں دکھائیں تھیں۔ہزیل نے اسے بتایا وہ بےیقینی سے دیکھ رہی تھی۔
آپکو ایک مزے کی بات بتاؤ۔اس نے تھوڑا۔مسکرا کر کہا ۔
وہ اسی کی طرف دیکھ رہیں تھیں۔
حاذق کو گود میں لینے والے سب سے پہلے وہی تھے
اور انھوں نے ہی اس کے کان میں آذان دی تھی۔
ایمن کو یقین نہ آیا وہ ایک بار پھر ماضی میں چلا گئ۔
زمان آپ نے اسکے کان میں آذان دے دی۔اسے ابھی ابھی ہوش آیا تھا اس نے اپنے شوہر سے پوچھا جس
نے اسکے گول مٹول سے بیٹے کو اسکی گود میں دیا تھا۔
ہاں آذان دے دی گئی ہے۔انھوں نے محبت سے جواب دیا۔
تمہیں کیسے معلوم۔ماضی کے دریچوں سے باہر آکر اس نے اس سے پوچھا۔
آٹھ سال کا تھا جب بابا مجھ کو ایک دن لے کر ہسپتال آۓ تھے اور پھوپھا جان سے ملے تھے انھوں نے حاذق کو بابا کی گود میں دیا تھا اور بابا نے آذان دی تھی۔ہزیل نے بتایا۔
ایمن وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔
مگر اسکی آنکھوں کی نمی کسی سے چھپی نہیں۔
***********************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...