’’مغل اور اردو‘‘ اور ’’داستان عجم‘‘ جیسی کتابیں لکھ کر نصیر حسین خیال کم از کم موضوعاتی اعتبار سے تو مولوی محمد حسین آزاد کی ہی اتباع کر رہے تھے لیکن خالص علمی اعتبار سے ’’مغل اور اردو‘‘ نہ تو تنقیدی تصنیف ہے اور نہ ہی تحقیقی۔ یہ کتاب مغلوں کے دور حکومت میں اردو کے فروغ سے بھی تعلق نہیں رکھتی، اور نہ ہی مغلوں کی ’اردو خدمات‘ کا تنقیدی یا تحقیقی جائزہ ہے۔ اس میں تاریخ و تحقیق کی بھی بعض غلطیاں موجود ہیں، لہذا اسے اس ضمن میں کسی مستند حوالے کے طور پر بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ان سب پہلوؤں کے باوجود ’’مغل اور اردو‘‘ اسلوب و انشا اور اپنے مقصد تالیف کے سبب اردو نثر کی ایک اہم کتاب ہے جسے دانستہ یا غیر دانستہ، خیال نے مولوی محمد حسین آزاد کی تصنیف ’’آب حیات‘‘ کے جواب میں، اور صفیر بلگرامی کی تالیف ’’جلوۂ خضر‘‘، اور اس وقت تک موجود ثقافتی تاریخ کی قدیم انگریزی کتابوں کی روشنی میں قلمبند کیا تھا۔ مجوزہ ’’داستان اردو‘‘ کا یہ باب جسے بطور خاص کتابی صورت میں شائع کروایا گیا، خیال کو بہت ہی عزیز تھا۔ انھوں نے اپنے کئی مراسلوں میں لکھا ہے کہ اس کے ذریعہ وہ ایک پیغام دینا چاہتے تھے جس پہ توجہ نہیں دی گئی۔
’’داستان اردو‘‘ کے مختلف اجزا جب رسائل میں منظر عام پر آئے تو انھیں انشا کا منفرد نمونہ تصور کیا گیا۔ لیکن جب ’’مغل اور اردو‘‘ کتابی صورت میں شائع ہوئی تو اس کے سلسلے میں دو قسم کے رد عمل سامنے آئے۔ چند بزرگوں نے اسے تحقیق اور تنقید کی عینک سے دیکھا تو بعض اصحاب نے اس کے اسلوب و انشا کو مرکز بنایا۔ جنھوں نے تنقیدی یا تحقیقی اعتبار سے اس کا مطالعہ کیا انھوں نے اس کی انشا کے سلسلے میں کچھ نہیں لکھا، وہیں جن حضرات نے اس کے اسلوب کو مد نظر رکھا، ان کے یہاں تحقیق یا تنقید کے اعتبار سے اس پہ گفتگو نہیں کی گئی۔ اس ضمن میں میرا استدلال یہ ہے کہ ’’مغل اور اردو‘‘ یا ’’داستان اردو‘‘ کو جب تحقیق یا تنقید کی کتاب کی حیثیت سے لکھا ہی نہیں گیا تو اس کا مطالعہ اس نقطۂ نظر سے کرنے کا کوئی جواز ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ’’مغل اور اردو‘‘ یا داستان اردو کے سلسلے کے مضامین در اصل نصیر حسین خیال کے اس مخصوص زاویۂ فکر کی مثالیں ہیں جو اردو کو ہندوستان کی ’راشٹر بھاشا‘ ثابت کرنے پہ کمر بستہ تھا۔ خیال نے بار بار اپنے خطوط میں یہ لکھا ہے کہ ’’مغل اور اردو‘‘ کی تصنیف کا مقصد کوئی نہیں سمجھ پایا۔
اس کتاب میں موجود مولانا شائق احمد عثمانی اور علامہ جمیل مظہری کی تحریروں پہ تاریخ مئی 1933ء درج ہے۔ اس لحاظ سے یہ کتاب جون یا جولائی 1933ء میں طبع ہوئی ہو گی۔ خیال کا انتقال ۱۱ دسمبر 1934ء کو ہوا تھا۔ گویا اس کتاب کی اشاعت کے بعد خیال کم و بیش ڈیڑھ برس زندہ رہے۔ ان کی حیات میں ہی ’’مغل اور اردو‘‘ پہ تبصرے بھی شائع ہوئے تھے جن میں اس کی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی تھی، اور بطور خاص مولوی محمد حسین آزاد کے لئے استعمال کیے گئے سخت الفاظ پر ان کی گرفت بھی کی گئی۔ ’’مغل اور اردو‘‘ پہ جو اعتراضات کیے گئے، ان میں سے بعض اپنی جگہ پہ درست ہیں۔ لیکن اس کتاب کی اشاعت کے بعد ان کے خلاف جس طرح سے محاذ آرائی ہونے لگی تھی اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اس کی لسانی یا اسلوبیاتی خوبیاں بالائے طاق رکھ دی گئیں۔ ان پر اگر توجہ دی بھی گئی تو محض اس حیثیت سے کہ اسے آزاد کا چربہ کہہ کر درکنار کر دیا جائے۔
’’مغل اور اردو‘‘ پر اعتراضات
انشا پردازی کے معاملے میں ’’مغل اور اردو‘‘ اپنے تمام تر کمال کے باوجود تاریخی تسامحات کی وجہ سے اردو کے ناقدین و محققین کی نگاہوں میں قابل قدر نہیں ٹھیری۔ اس کی اشاعت کے فوراً بعد ’’سہیل‘‘، ’’اردو‘‘ اور ’’اورینٹل کالج میگزین‘‘ جیسے مقتدر رسائل میں اس پہ طویل تبصرے شائع ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ کئی برسوں تک جاری رہا۔ یہ تمام تبصرے ایک شدید رد عمل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ نے آزاد کو برا کہا تو اب آپ سے برا کوئی نہیں، ہماری تنقید یہی ثابت کرتی رہی۔ آزاد کے سلسلے میں یقیناً خیال نے سخت الفاظ استعمال کیے تھے مگر وہ ایسے بھی سخت نہ تھے کہ انہیں ہی خیال کے لئے آئینہ بنا دیا جاتا۔
آزاد کے نکتہ چیں حافظ محمود شیرانی نے حکیم ابو القاسم میر قدرت اللہ قاسم کی تصنیف ’’مجموعۂ نغز‘‘ کی تالیف شروع کی تو مولوی محمد حسین آزاد کے سلسلے میں لکھا تھا کہ مولانا نے اگرچہ ہر موقع پر اس تالیف سے استفادے کا اظہار نہیں کیا ہے، تاہم وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ’’آب حیات‘‘ کا ایک بڑا حصہ اسی تذکرے سے ماخوذ ہے۔ اس کے بعد انھوں نے مماثلتوں کی مثالیں پیش کی ہیں۔ (صادق 1973، 2) محمد صادق نے لکھا تھا کہ ہر وہ حوصلہ مند نقاد یا ادبی محقق جس نے گذشتہ ۵۷ سال میں تاریخ ادب اردو کے میدان میں قدم رکھا ہے اس نے اپنی شہرت کی بنیاد کو ’’آب حیات‘‘ کی شکست و ریخت پر مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یا یوں کہیے کہ آزاد دشمنی مذہب تنقید کی سنت اولین قرار دی گئی ہے۔ مزید کہتے ہیں کہ (6)
’’جب نواب سید نصیر (کتاب میں ناصر لکھا ہے) حسین خیال نے مغل اور اردو پر قلم اٹھایا تو دل کھول کر آزاد کو ملامت کیا۔ لطف یہ ہے کہ تاریخی اعتبار سے بہت کم کتابیں اتنی ساقط الاعتبار ہیں جتنی مغل اور اردو‘‘۔
ان کا یہ ’دل کھول کر ملامت‘ کرنا اور ’ساقط الاعتبار‘ کہہ دینا بھی انتہا پسندی ہی تھی۔
انجمن ترقی اردو کے رسالہ ’’اردو‘‘، اورنگ آباد کے شمارہ بابت جنوری 1934ء میں اس کتاب پر مفصل تبصرہ شائع ہوا تھا جس میں چن چن کر اس میں موجود تاریخی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ احمد شاہ بادشاہ سے عالمگیر، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ اشتیاق، فدوی، ولی دکنی، وغیرہ تک کئی بیانات کی گرفت کی گئی ہے اور اخیر میں لکھا گیا ہے کہ
’ان نقائص اور خامیوں کے باوجود لائق مولف نے نہایت دلیری سے بعض قدیم واجب التعظیم ادیبوں کو لعن طعن اور شب و ستم کا ہدف بنایا ہے۔ ان میں مرحوم آزاد دہلوی سب سے زیادہ مورد ملامت ہیں۔ آزاد مرحوم کی ’آب حیات‘ اپنی بعض واقعاتی غلطیوں کے باوجود اردو زبان میں ایک خاص پایہ رکھتی ہے۔ تاریخ کی حیثیت سے نہ سہی، افسانے کی حیثیت سے اس کو دیکھیے۔ اس کی زبان اور اس کا اسلوب بیان اس قدر شستہ و رفتہ، سلیس و پاکیزہ اور دلچسپ ہے کہ ہمارے ادب میں اس کی بہت کم مثالیں ہیں۔ آزاد مرحوم کا یہ کیا کم احسان ہے کہ اس نے سب سے پہلے تاریخ ادب کے لکھنے کا ڈول ڈالا اور ہمیں یہ خیال سمجھایا۔ بے شک آزاد کی غلطیوں کو دکھائیے لیکن اس پر لعن طعن کی بوچھار نہ کیجیے اور خصوصاً ناروا اور بیجا۔‘ (مغل اور اردو (تبصرہ) 1934، 220)
اس بیان کے بعد مولوی آزاد کے سلسلے میں خیال کی کتاب سے اقتباسات نقل کیے گئے ہیں:
’آزاد مرحوم کی روح نہ شرمائے، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی انشا پردازی کی دھن میں آنکھیں بند کر لیتے اور اپنے قلم کو آزاد کر دیتے ہیں۔ ہمارے آزاد اپنی قصہ گوئی میں اکثر بہت بڑھ جاتے اور ادھر ادھر نہیں دیکھتے۔ آزاد مرحوم اپنے مورخ ہونے کے مدعی نہیں اس لئے وہ تاریخی غلطیاں کر جائیں تو قابل معافی ہیں مگر تذکرے کی غلطیاں اور پھر اس طرح کی داستان سرائیاں لائق معافی نہیں۔‘ (1934، 220)
یہ داستان سرائی تو خیال بھی کر رہے تھے، لیکن آزاد اور خیال کے مقاصد میں فرق تھا۔ مزید برآں، خیال نے مولوی آزاد کے لئے جو زبان استعمال کی ہے وہ اتنی سخت بھی نہیں کہ اس کے سلسلے میں اتنے شدید رد عمل کا اظہار کیا جاتا۔ تبصرے کی ابتدا میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ لکھنؤ کے صدارتی خطبہ میں خیال نے اردو زبان کی تاریخ کا سرسری خاکہ پیش کیا تھا جس کا اس وقت ’ذرا کچھ چرچا‘ ہوا تو محض اس وجہ سے کہ اس وقت تک تاریخ ادبیات اردو کا مواد زیادہ روشنی میں نہیں آیا تھا۔ پچھلے صفحات پہ عرض کیا گیا ہے کہ ’’مغل اور اردو‘‘ یا ’’داستان اردو‘‘ کی تخم کاری اسی خطبہ میں ہوئی تھی۔ اس ضمن میں دو پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ پہلا یہ کہ خیال نہ تو دانشگاہوں کے سند یافتہ تھے اور نہ ہی درس و تدریس سے ان کا کوئی تعلق تھا۔ لہذا تحقیق و تفتیش کی جستجو ان کے یہاں نہیں ہونی چاہیے۔ ن کی زندگی ہی اور تھی، اور اسی زندگی میں وہ اس خطبہ کو متاع عزیز بنائے رہے۔ قرائن سے واضح ہے کہ انھوں نے اس خطبہ کی تحریر کے دوران جن ماخذ کا استعمال کیا، ان پر ہی بعد میں بھی ان کا انحصار رہا۔ دوسرا یہ کہ لکھنؤ والے اجلاس کے بعد 1933ء تک جس طرح مسلسل حالات بگڑتے گئے اور جگہ جگہ فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے مسلمانوں پہ زندگی تنگ ہوتی گئی اس کے مد نظر خیال کے نزدیک ادبی حقائق کو پیش کرنے سے زیادہ اہم یہ تھا کہ معاشرتی حقائق و تقاضات سے چشم پوشی نہ کی جائے۔ شاید اسے محض اتفاق نہیں کہا جائے گا کہ خیال اور بطور خاص ’’مغل اور اردو‘‘ کے سلسلے میں اگلے وقتوں میں جن اصحاب نے تلخ تبصرے کیے ان میں زیادہ تر نے تشکیل پاکستان کے بعد ہجرت کی ہی ٹھانی۔
’’اردو‘‘ کے بعد جن اہم رسائل میں اس کتاب پہ تفصیلی بحث کی گئی ان میں ’’اورینٹل کالج میگزین‘‘ بھی شامل ہے۔ تبصراتی مضمون کا عنوان ہے ’مغل اور اردو: دو تاریک پہلو‘۔ مضمون نگار کا نام د۔ ش۔ لکھا ہے۔ اس میں جس انداز میں ’’مغل اور اردو‘‘ پہ بحث کی گئی ہے وہ بذات خود دلچسپ بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔ پہلے اس کی افتتاحی عبارتیں ملاحظہ کیجیے:
’نواب سید نصیر حسین خیال عظیم آبادی اردو زبان کے بلند مرتبہ انشا پرداز ہیں۔ اکثر نقاد ان کو اردو کا بہترین فصیح البیان اور سلاست نگار صاحب طرز تسلیم کرتے ہیں۔ بلا شبہ جو روانی اور آمد ان کی انشا میں پائی جاتی ہے، اردو کی دنیائے ادب میں مفقود ہے۔ 1916 میں آل انڈیا اردو کانفرنس قائم ہوئی۔ اس موقع پر جو طویل خطبہ آپ نے صدر کی حیثیت سے ابلاغ کیا، وہ اپنی ادبی لطافت اور انشائی حلاوت کے لحاظ سے بہت مقبول ہوا، اور شائع ہونے پر ہاتھوں ہات نکل گیا۔ اس کی یہ ہر دلعزیزی اور قبولیت دیکھ کر خیال صاحب نے اس کی بنیادوں پر ایک طویل تالیف ’داستان اردو‘ کی طرح ڈالی جس کا ایک باب ’مغل اور اردو‘ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔‘ (1934، 77)
پھر دو تاریک پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئے پہلا مفروضہ یہ قائم کیا گیا ہے کہ ’اردو کا وہ سرمایۂ شعر و ادب جو مغل حکمرانوں کی پیداوار ہے، ان حکمرانوں کی دلچسپی یا احسان کا مرہون نہیں ہے، بلکہ قدرتی نتیجہ ہے۔ ‘ اس کے بعد ’’مغل اور اردو‘‘ سے جستہ جستہ اقتباسات نقل کر کے ان پہ تبصرہ کیا گیا ہے۔ چند حصے ملاحظہ کیجیے:
’اکبر کا یہ شرف جو اس نے اردو زبان و ادب کو بخشا، یا اردو کی وجہ سے خود حاصل کیا، خیال صاحب کے نزدیک دو باتوں پر مبنی ہے۔ اول تو یہ کہ اس نے کرنگ کو سرنگ اور الہ آباد کو الہ باس کے نام سے بدل دیا۔ دوسرے یہ کہ اس نے ایک مرتبہ جہانگیر کی کسی عرضی پر یہ رباعی دستخط کی۔ (رباعی نقل کرنے کے بعد) سنگ اور الہ باس سے ہمیں یاد آیا کہ خاکروب کا نام حلال خور، کنجری کا کنچنی اور ہاتھی کی اندھیاری کا نام اجیالی اکبر ہی کا رکھا ہوا ہے۔ مگر یہ الفاظ اس کی طبیعت کی ایجاد اور اپج کی دلیل مانے جا سکتے ہیں نہ اس کی اردو نوازی کی۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اکبر نے اور ایسے نام ایجاد کیے ہیں جو یقیناً اردو کے محاورہ اور اس کی روح کے مخالف ہیں۔ مثلاً فارسی مہینہ مرداد کو اکبر امرداد کی شکل میں تبدیل کرتا ہے۔ ہاتھی کے ایک خاص قسم کے شامیانہ کا نام میگھ ڈنبر رکھتا ہے۔ ایک نو ایجاد شکار کا نام جس میں کئی چیتے بیک وقت ہرنوں کی ڈار پر چھوڑے جاتے تھے چتر مندل، ایک نئے کھیل کا نام جسے سولہ آدمی کھیلتے تھے چندل مندل، اور اپنی چہیتی بندوق کا نام سنگرام رکھتا ہے۔ اس طرح سو تولہ کی اشرفی کا نام سہنسہ، اس کے نصف کا رہس، چہارم کا آتمہ، اور پانچویں حصہ کا نام بِنست رکھا تھا۔ علی ہذا، روپیہ کے نصف کا درب، چونی کا چرن، پانچویں حصہ کا پانڈو، آٹھویں کا اشٹ، دسویں کا دسا، سولھویں کا کلا اور بیسویں حصہ کا نام سوکی رکھا تھا۔ (81)
مختلف لباس کے نام گنائے جاتے ہیں اور اس خیال کا اظہار کیا جاتا ہے کہ چونکہ یہ الفاظ اردو کے بمقابلہ برج کے ذخیرہ سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ’مہابلی کو اردو کے محسنوں میں شمار کرنا حضرت خیال کا حسن ظن ہے‘۔ اس قسم کے تبصرے اس خاص ذہنیت کی نمائندگی کرتے ہیں جس نے اردو۔ ہندی اور مسلمانوں۔ ہندوؤں کے درمیان فاصلوں کو بڑھانے میں افسوسناک کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح یہ بیان بھی ہے کہ جہانگیر کی اردو نوازی کو ہندی نوازی کہا جائے تو بہتر ہے۔ دارا شکوہ کا کاشی جانا اور بھاشا اور سنسکرت سے اس کے لگاؤ کے خیال کے بیانات کو بھی تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
’دیکھا آپ نے! دارا شکوہ کو اردو سے کیسا زبردست تعلق تھا؟ غریب اردو سیکھنے کے لئے کاشی جاتا اور پنڈتوں کے آگے زانوئے ادب تہ کرتا ہے۔ گیتا اس لئے پڑھتا ہے کہ وہ اردو ادب کی بہترین کتاب تھی! اپانی شادش اور اور جوگ وششٹا کو وہ ’اردو‘ سے فارسی میں منتقل کرتا ہے، اور اس لئے فارسی پر نہیں، اردو پر احسان کرتا ہے! سار سنگرہ کی سی دوہوں کی بیاض مرتب کروا کر وہ ’اردو زبان‘ کو زندہ جاوید بنا دیتا ہے! اور اپنی انگوٹھی پر ’پرابھو‘ کی نشانی کھدوا کر ’اردو‘ کی خاتم پر اپنا نگینہ جڑوا دیتا ہے۔‘ (85)
متذکرہ مضمون میں خیال کے بیان کو ’حد درجہ مضحکہ خیز‘ کہا گیا ہے کیونکہ پنڈت، دوہے، جوگ وششٹا، اپانی شادش، ہندی، بھاشا، سنسکرت، پرابھو کوئی نام بھی تو ایسا نہیں جس کی تفصیل یا تذکرے کو اردو سے دور کا بھی تعلق ہو! (86) اسی روانی کے ساتھ ہندی الفاظ نقل کرتے ہوئے ’یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ اردو یا فارسی میں اس قسم کے الفاظ کے بے دریغ استعمال کو اردو کی ترقی نہیں کہا جا سکتا۔ ’’مغل اور اردو‘‘ کی جس عبارت کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے، اسے ملاحظہ فرمائیے۔ واوین میں لکھی عبارتیں متذکرہ مضمون کے اقتباس میں شامل نہیں کی گئی ہیں:
’دارا ولیعہد سلطنت اور خو بو میں شاہجہاں اور انشا و ادب کے ذوق و شوق میں دوسرا بابر تھا۔ یہ متحد ہوتا تو اتحاد زبان کا نشان اور بلند ہو جاتا۔‘‘ بھاشا اور سنسکرت سے اس کا اخلاص پوشیدہ نہیں۔ کاشی (بنارس) میں بیٹھ کر اس نے پنڈتوں کے آگے زانوئے ادب و شاگردی تہہ کیا۔ گیتا کا وہ وظیفہ خواں رہا۔ اور اپانی شاداش کو اسی نے سر الاسرار بنا دیا۔ جس نے جوگ وششٹا (یوگ وششٹھ) کو فارسی جامہ بخش کر اپنی ددھیالی زبان کو سجایا۔ وہ اپنے گرو بابا لال داس اور اپنے برہمن مشیر و دیوان چندربھان کے سے شاعر و ادیب کی مدد سے اپنی مادری اور باپ کی پیاری زبان کو کہاں تک نہ سنوارتا۔ مگر مشیت اس کے خلاف تھی ’اور اپنے مذاق و حوصلہ کے موافق وہ کچھ نہ کر سکا۔‘
’یہ زمانہ بھی کچھ عجیب بہار کا زمانہ ہے۔ صدیوں کا ارتباط و اتحاد پھل دے رہا، حاکم و محکوم کی زبان ایک ہو رہی اور باغ ہند میں وہ ہوا چل رہی ہے کہ ایک دوسرے کو بھائی سمجھتا اور ان پر اعتبار کر رہا ہے۔ مسلمان ہندی سے آشنا ہوتا تو ہندو فارسی پڑھتا اور اس پر ناز کرتا ہے۔ اس عہد کی تعلیم کا حال ابو فضل یوں لکھتا اور اس پر اتراتا ہے۔ (آئین اکبری سے اقتباس نقل کیا گیا ہے۔) یہ اسی طریقۂ تعلیم اور ہندیوں کے بچوں کے بے تکلف، پہلو بہ پہلو بیٹھنے کا خوش گوار نتیجہ تھا کہ اس وقت زبان ہی ایک نہ ہوئی بلکہ ان کے خیالات بھی یکساں ہو گئے۔ یہ پشتوں کی محنت تھی۔ دارا شکوہ اسی طرح کے مدرسے کا طالبعلم تھا۔ اس کی مسند بھی عالموں اور پنڈتوں سے گھری رہتی اور ان کی خاطر میں اس کی اوقات صرف ہوتی۔ ہندی سے فارسی اور فارسی سے ہندی میں ترجمے کراتا اور ان دونوں زبانوں کو برابر کا حق دیتا‘‘۔ سار سنگرہ کی سی دوہوں کی بیاض اسی کے حکم سے ترتیب پائی اور اپنی انگوٹھی پر پرابھو (پربھو) کی سی نشانی اسی نے کھدوائی۔‘ (مغل اور اردو، 22-23)
خیال کے اس بیان کہ ’جب بنگالے سے ایک شخص اس بادشاہ کا مرید ہونے آتا اور صلابت خاں میر توزک اسے حضور میں پیش کرتا ہے تو وہ عالمگیر مسکراتا اور عربی فارسی مثل کے عوض بے اختیار یہ ہندی کہاوت کہتا ہے ‘پر یہ بھی عرض کیا گیا ہے کہ ’خیال صاحب خود ہی اسے ہندی کہاوت کہتے ہیں، پھر کیا کسی ہندی کہاوت کا عالمگیر کی زبان سے ادا ہونا اس کا ’’اردو‘‘ پر احسان ہے‘؟ (86) مضمون کا یہ مکمل حصہ اسی قسم کی نکتہ چینیوں سے پر ہے، اور نتیجہ یہ اخذ کیا گیا ہے کہ ’خیال صاحب کعبہ سے ترکستان پہنچ گئے ہیں‘۔ اس سے ظاہر ہے کہ خیال متذکرہ بیانات کے ذریعہ جس ثقافتی شیرازہ بندی کی تصویر کشی کر رہے تھے وہ اس وقت عام طور پہ پسندیدگی کی نگاہوں سے نہیں دیکھی گئی۔ اسی مضمون کے دوسرے حصے کا تعلق ’’مغل اور اردو‘‘ میں حوالوں کی کمی اور صفیر بلگرامی کے ’’جلوۂ خضر‘‘ پر خیال کے انحصار سے ہے۔ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ خیال نے حافظ محمود شیرانی کے بعض تصورات کو دہرایا ہے۔ چونکہ یہ تحقیقی معاملات تھے، خیال کو ان سے کوئی سروکار ہی نہیں تھا، لہٰذا ان کے یہاں اس کی جستجو بھی نامناسب تھی۔ جب محمد حسین آزاد کے یہاں یہ پہلو کشادہ قلبی کے ساتھ نظر انداز کیے جا سکتے ہیں تو خیال سے ان کی توقع رکھنا ہی فضول تھا۔ خیال نے ’’مغل اور اردو‘‘ کے لئے در اصل ’’آب حیات‘‘ کی بجائے ’’جلوۂ خضر‘‘ سے ہی استفادہ کیا تھا۔ حافظ محمود شیرانی کے اثرات پہ جس طرح ’’اورینٹل کالج میگزین‘‘ کے تبصرے میں خامہ فرسائی کی گئی تھی اس سے ظاہر ہے کہ مضمون نویس کی رسائی لکھنؤ والے خطبے تک نہ تھی۔ ’’پنجاب میں اردو‘‘ کی اشاعت 1927ء میں ہوئی تھی جبکہ خیال نے ’’مغل اور اردو‘‘ کے زیادہ تر نکات کو 1916ء کے اپنے خطبے میں پیش کر دیا تھا۔ ممکن ہے کہ کتابی صورت میں اس کی اشاعت کے لئے بعض اشعار شیرانی صاحب کی کتاب سے لیے گئے ہوں۔ لیکن ان کے ماخذ وہ کتابیں بھی ہو سکتی ہیں جو خود حافظ محمود شیرانی کے پیش نظر تھیں۔ خیال کے جو بھی تصورات ہیں ان کا تعلق یا تو صفیر بلگرامی، امداد مام اثر و شاد عظیم آبادی سے ہے یا پھر وہ خود خیال کے ذہن کی اختراع ہیں۔ ’’مغل اور اردو‘‘ میں علی ابراہیم خاں خلیل (گلزار ابراہیم)، کریم الدین (تذکرہ شعرائے اردو) اور غلام حسین خاں طباطبائی (سیر المتاخرین) وغیرہ سے جا بجا حوالے بھی پیش کیے گئے ہیں۔
’’مغل اور اردو‘‘ کی اشاعت کے بعد قاضی عبد الودود نے ’’معیار‘‘ میں اس سے متعلق چند استفسارات کیے تھے۔ ایک کا تعلق ’’گلزار ابراہیم‘‘، مصنف علی ابراہیم خان کے حوالے سے درج کیے گئے بیانات سے ہے، دوسرے کا تعلق میر ضاحک اور سکندر کے دست و گریباں ہونے کے سلسلے میں محمد حسین کے آزاد کے بیان سے، جسے خیال گڑھی ہوئی روایت کہتے ہیں۔ کلیات سودا میں میر ضاحک سے متعلق ہجویہ مخمس کا ذکر کرتے ہوئے قاضی صاحب نے لکھا ہے کہ ’’مغل اور اردو‘‘ کے مصنف نصیر حسین خان خیال مرحوم اس روایت کو از سر تا پا لغو سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد خیال کا بیان درج کیا گیا ہے اور لکھا گیا ہے کہ ’خیال کا استدلال زیادہ تر قیاسی ہے۔ سطور بالا کے مطالعہ سے ہمیں امید ہے کہ ناظرین بھی ہماری طرح اس نتیجے پر پہنچے ہوں گے کہ خیال مرحوم کی دلیلیں آزاد کی روایت کو مسترد کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں (سکندر اور ضاحک 1981، 343) وہ یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ اگر ان دلیلوں سے یہ روایت غلط ثابت نہ ہو سکی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اسے (آزاد کی روایت کو) صحیح تسلیم کر لیں ‘۔ (346) تیسرے استفسار کا تعلق میر امامی کی ہندوستان آمد سے ہے۔ ان کے علاوہ چند اور بھی پہلو ہیں۔ قاضی صاحب کے استفسارات کے حصے (اور دوسرے حضرات کا بھی) یہاں نقل کیے جاتے ہیں جن سے دو بنیادی باتوں کی نشاندہی مقصود ہے۔ اول تو یہ کہ عام طور پہ خیال کی اس کتاب کے سلسلے میں تاریخی تسامحات کو ہی مد نظر رکھا گیا، دوئم یہ کہ اس کتاب میں خیال جس پیغام پہ اپنا سارا زور صرف کرتے ہیں، اس پہ کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ قاضی صاحب مئی 1936ء کے ’’معیار‘‘ میں خیال کے درج ذیل بیانات پیش کرتے ہوئے ان کی صداقت پہ اعتراض کرتے ہیں:
الف۔ ص 63۔ مغل اور اردو ’نواب شجاع الدولہ اور بکسر کی لڑائی تک اردو کا وہ مکتب اودھ میں کھلا رہا‘۔
ب۔ ص 85۔ ’فدوی‘ مسلمان ہونے پر محمد حسن ہو گئے۔ احمد شاہ کی تعریف میں انھوں نے ایک قصیدہ عرض کر کے گزرانا۔ حضور نے ہزار روپے نقد اور گھوڑا اور تلوار انعام دی‘۔
ج۔ ص 115-16۔ ’صاحب عالم نے اردو شعرا کا ایک تذکرہ بھی ترتیب دیا تھا جو ان کی وفات کے سبب پورا نہ ہو سکا۔ وہ ناقل ہیں کہ وارن ہیسٹنگز بنارس آئے تو صاحب عالم نے اپنے شعروں کی بیاض بطور تحفہ انھیں دی جو ان کے ساتھ ولایت گئی‘۔
د۔ شاہ صاحب شاہ ولی اللہ نے 1180ھ میں رحلت کی۔
ہ۔ ص ۱۳۱- مراد شاہ، ایک مشہور پنجابی اردو گو جب یورپ کے سفر سے لوٹ کر دلی آئے ہیں تو بادشاہ انھیں انعام و اکرام دیتا ہے۔ (عبد الودود، استفسارات 1981، 207)
الف اور ب کے بیانات خیال نے ’’گلزار ابراہیم‘‘ کے حوالے سے پیش کیے ہیں۔ اس بنا پر قاضی صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ انھیں ایسے کسی نسخے کی خبر نہیں۔ ج کے لئے خیال نے نواب علی ابراہیم کی تحریر کا حوالہ پیش کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ کی رحلت کے سلسلے میں خیال نے حاشیے میں ’’ گلزار ابراہیم ‘‘ کے حوالے سے سال 1180ھ درج کیا ہے۔ مراد شاہ والا خیال کا بیان بھی ’’گلزار ابراہیم‘‘ سے ہی ہے۔ اب اگر خیال کے پاس ’’گلزار ابراہیم‘‘ کے نسخے میں ایسی معلومات تھیں تو ان کی تصدیق کے لئے خیال کو بجائے انشا پرداز کے محقق ہونا تھا۔ ضرورت اس بات کی تھی اور ہے کہ جس پس منظر میں خیال یہ باتیں لکھ رہے تھے انھیں اجاگر کیا جاتا۔ اسی زمانے میں ’’سہیل‘‘ کے سالنامہ جنوری 1936ء میں محمد ابو اللیث صدیقی نے مضمون ’’اردو اور اس کے بعض تاریخی ماخذ‘‘ کے حصہ ’مغل اور اردو‘ میں اس کتاب کے سلسلے میں یہ اعتراض کیا تھا کہ جن اشعار کو خیال کے ذریعہ ’’جلوۂ خضر‘‘ کے حوالے سے زیب النسا سے منسوب کیا گیا ہے ان میں روانی اور صفائی کے معاملے میں اس زمانے کی اردو کا عکس موجود نہیں ہے۔ (1936، 92) یہاں بھی معاملہ یہی ہے کہ ’’جلوۂ خضر‘‘ میں تسامحات کی نشاندہی خیال کا نہ تو مقصد تھا اور نہ انھیں اس کی ضرورت تھی۔ ان کے علاوہ خیال کے ذریعہ برج بھاشا کو اردو کا ماخذ بتانے پر بھی ان کی گرفت کی گئی۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ خیال نے مغلوں کی اردو نوازی کی تصویر کشی کے دوران ایک تہذیبی مرقع نگار کا کردار ادا کیا ہے اور اس عمل میں اپنی جولانیِ طبع اور فرط جوش میں بعض حقائق کی پیشکش میں بہت محتاط نہیں رہے ہیں۔ اس کے باوجود زبان اردو اور اس کے شعر و ادب کے فروغ میں ان عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
’’مغل اور اردو‘‘ پہ نصیرالدین ہاشمی کا لکھا تبصرہ رسالہ ’’شاہ جہاں ‘‘ کے 1933ء کے کسی شمارہ میں شائع ہوا تھا جو ’’مقالات ہاشمی ‘‘جلد اول میں مضمون بعنوان ’مغل اور اردو پر ایک سرسری نظر‘ کی شکل میں شامل ہے جس میں اس کتاب کی کل نو تاریخی غلطیوں کی نشاندہی فرمائی گئی ہے۔ اجمال یہ ہے کہ:
۱۔ مولوی شائق احمد عثمانی نے خیال کی زندگی کے حالات لکھے ہیں لیکن یہ اہم بات نہیں لکھی کہ خیال سر سید علی امام کے زمانۂ صدارت عظمی میں ان کے پرائیوٹ سکریٹری تھے اور ایک عرصہ تک حیدر آباد میں مقیم تھے۔
۲۔ ’عالمگیر اور اردوئے معلی‘ کے عنوان کو چھ جلی صفحوں میں لکھا گیا ہے۔ عالمگیر کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ناکافی ہے، اس میں بہت کچھ اضافہ کی گنجائش تھی۔
۳۔ ’طفل اردو کا مکتب‘ کے عنوان میں اس امر کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ عمدۃ الملک کا گھر گویا طفل اردو کا مکتب تھا۔ جو دلائل اس کے متعلق پیش کیے گئے ہیں وہ ناکافی ہیں۔
۴۔ چوتھا اعتراض اس تاریخی صداقت سے خیال کے اتفاق نہ کرنے پر ہے کہ نادر شاہ کے قتل عام کے خلاف پیش قدمی آصف جاہ نے کی تھی نہ کہ عمدۃ الملک نے۔
۵۔ خیال کا یہ تصور کہ ولی نے دلی آنے کے بعد اپنی اردو کو نکھارا۔
۶۔ خیال نے ولی کی زبان کو اردوئے معلی یعنی دلی کی اردو سے کمتر کہا ہے۔
۷۔ نواب خیال ’کربل کتھا‘ کو اردو نثر کی پہلی کتاب کا درجہ دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ ادبی کتاب بھی نہیں ہے۔
۸۔ مولانا محمد حسین آزاد پر سخت تبصرے کیے گئے ہیں۔ اور،
۹۔ ’مغل اور اردو‘ میں ماخذ کے حوالے بہت کم بلکہ شاذ دیے گئے ہیں۔ (مقالات ہاشمی، 389-93)
’’مغل اور اردو‘‘ پہ اعتراضات کے یہی بنیادی پہلو تھے۔ ہاشمی صاحب کے اعتراضات کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ خیال نے اردو کے فروغ کے سلسلے میں دکن کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا، اور ولی جیسے شاعر کے سلسلے میں بھی یہ لکھ دیا کہ ولی کی اردو میں نکھار ان کے دلی آنے کے بعد آیا۔ یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے اور در حقیقت خیال نے دلی کی اردو نوازی کے جوش میں بظاہر دکن کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ’’داستان اردو‘‘ کے دیگر مطبوعہ اجزا میں انھوں نے دکن کی ادبی خدمات کا بھر پور اعتراف کیا ہے۔ یہ تحریریں ’’مغل اور اردو‘‘ کی اشاعت سے قبل شائع ہو چکی تھیں۔ ان میں حسب ضرورت حوالے اور حواشیاں بھی پیش کی گئی تھیں۔ تاہم بعض امور ایسے ہیں جن کا تعلق خیال کی ذاتی زندگی سے ہے۔ اس کتاب کے پہلے باب میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ دکن سے پرخاش کی ذاتی وجوہ تھیں لیکن ان کا اطلاق کسی بھی قسم کی تاریخ کے رقم کرنے کے دوران کیا جانا ادبی بد دیانتی ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ عمدۃ الملک کو آصف جاہ پہ فوقیت دینے کے معاملے بھی شامل رہی۔ یوں، ایک ہندو شاعر کے علاوہ کسی بھی غیر مسلم شاعر اور دکنی شعرا کو مولوی محمد حسین آزاد بھی خاطر میں نہ لائے جبکہ خیال نے دکنی شاعری پہ با ضابطہ باب قائم کیے ہیں۔ ان کی تحریر کا وہ حصہ جس میں انھوں نے دکن کی اردو خدمات کا بھرپور جائزہ پیش کیا ہے، ایک لگ صورتحال کی غمازی کرتا ہے۔ یہ حصہ ’’داستان اردو‘‘ کے لئے لکھا گیا تھا اور اس کی اشاعت متذکرہ تبصرے سے دس برسوں قبل ’’لسان الملک‘‘ میں 1923ء میں ہو چکی تھی۔ انھوں نے کئی مقامات پہ دکنی کو شمالی ہندوستان کی اردو پہ فوقیت دی ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
’دکھنی دربار اور دکھنی شعرا و مصنفین کا احوال ابھی سن چکے ہو کہ اپنی زبان کے لئے انھوں نے کیا کیا۔ ان کی کاوشوں سے دکھنی (اردو) اپنے عروج پر تھی کہ عالمگیر کا لشکر ادھر پہنچا اور چھاؤنی چھا کر رہا۔ ادھر دلی (شمالی ہند) کے امرا و لشکری وہاں پہنچے تو اپنی زبان دکھنیوں کو سکھانے اور ان کی خود سیکھنے لگے، اور جب عرصہ کے بعد گھر آئے تو سوغات میں وہ دکھنی تحفہ بھی ساتھ لائے جو اس طرف ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ (داستان اردو 1923، 31)
داستان اردو
’’مغل اور اردو‘‘ کے سلسلے میں اردو کے اکابرین کا رد عمل یہیں تک محدود رہا اور بعد کے محققین و نقاد حضرات نے بس ان باتوں کو دہرانے پر ہی اکتفا کیا۔ داستان میں تاریخ کی جو ترتیب اور اصل متن نیز حواشی میں جو واقعات درج ہیں ان سے ہی واضح ہے کہ خیال نہ تو محمد حسین آزاد کی طرح قیاس کے گھوڑے دوڑاتے ہیں اور نہ ہی ان کے یہاں تخیل کی بے لگامی نظر آتی ہے۔ غیر مصدقہ روایات پہ کہیں کہیں ان کا اصرار رہتا ہے، اس کے باوجود جس ذہن سازی کے مقصد سے وہ اقوام عالم سے رشتہ استوار کرتے ہوئے اردو کی پیدائش اور نشو و نما کے لئے زمینیں تیار کرتے ہیں وہ بذات خود ان کے پرواز تخیل کا عمدہ نمونہ ہے۔ اس ضمن میں ماہنامہ ’’ادب‘‘ میں ’’داستان اردو‘‘ کے آخری حصے میں شامل یہ ادارتی نوٹ یہ ثابت کرتا ہے کہ خیال نے اپنے وسیع مطالعات کی بنیاد پر ہی ’’داستان اردو‘‘‘ کے تاریخی واقعات رقم کیے تھے۔ ان کے سامنے ادب کا ایک ذخیرہ موجود تھا۔
’جناب خیال کے گذشتہ مضمون (داستان اردو۔ بودھ مت، جین مت اور سنسکرت) کے ساتھ شائع کرنے کے لئے ہمیں ان کتابوں کے نام بھی موصول ہوئے تھے جو اس باب کے لکھتے وقت فاضل مصنف کے پیش نظر تھیں۔ یہ فہرست گذشتہ پرچے میں شائع نہ ہو سکی اس لئے اس مرتبہ یہاں درج کی جاتی ہے۔‘ (داستان اردو: دوسری قسط 1930، 12-13)
اس فہرست میں میکس ویبر کی تاریخ ادب سنسکرت، میکس ملر کی تاریخ قدیم ادب سنسکرت، جون میور کی ترجمۂ غیر مطبوعہ کتب سنسکرت، پروفیسر ڈیوڈ کی گوتم بدھ وغیرہ کے ساتھ عربی اور فرانسیسی کی کل 17 کتابوں کے نام درج ہیں جن کا پڑھ لینا ہی بڑی بات رہی ہو گی۔ نصیر الدین ہاشمی اور دیگر اصحاب نے بھی ’’مغل اور اردو‘‘‘ کے سلسلے میں لکھا تھا کہ اس میں حوالات موجود نہیں ہیں لیکن خیال نے جا بجا کتابوں کے نام لکھے ہیں۔ ’’داستان اردو‘‘ میں حوالوں کی فہرست موجود ہے۔ اس فہرست میں میکس ویبر، جان میور، میکس مولر، جان اسٹوارٹ وغیرہم سے عبد الاحد مصری اور ابو القاسم فرشتہ و جرجی زیدان جیسے ادیبوں کی سترہ تصانیف کے حوالے موجود ہیں اور مقالے میں بھی حسب موقع یہ حوالے پیش کیے گئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ غور و فکر اور تصنیف و تالیف میں ان کے وسیع مطالعہ کا بھرپور دخل تھا نیز تاریخ اور تاریخی ماخذ کے تئیں ان کی دلچسپی مولانا محمد حسین آزاد سے مختلف تھی۔
مولوی محمد حسین آزاد کے سلسلے میں خیال کے بیانات کا جتنا شدید رد عمل ہوا ویسا رد عمل سر سید احمد خاں کے بارے میں لکھے گئے فقروں کا نہیں ہوا۔ اب اگر صرف ان کی روشنی میں اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے تب بھی یہ ’’آب حیات‘‘ سے بہتر ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس میں ان تاریخی تسامحات سے قطع نظر تعصبات نہیں ہیں۔ شمس الرحمن فاروقی کا یہ خیال توجہ طلب ہے کہ:
’ملحوظ رہے کہ ’آب حیات‘ کے ذیلی عنوان میں دعوی تھا کہ یہ ’اردو کے مشاہیر شعرا‘ کی سوانح ہے۔ لہٰذا پڑھنے والے کو، خاص کر جدید اردو ادب کی صورت حال میں، جہاں ایسی کوئی تاریخ یا فہرست استناد پہلے سے موجود نہ تھی، خواہ مخواہ یہ خیال ہوا کہ جو لوگ اس کتاب کے باہر ہیں وہ ’مشاہیر شعرا‘ کہلانے کی مستحق نہیں ہیں۔ اس کا نقصان سب کو اٹھانا پڑا، گجراتی اردو ادیبوں کو ان کا نام و نشان بھی اس کتاب میں نہیں، دکنی اردو ادیبوں کو ان کے بارے میں کہا گیا کہ دکن کی شاعری قابل اعتنا نہیں۔ یہاں دکن سے مراد موجودہ کرناٹک اور تمل ناڈو، اور مہاراشٹر بھی مراد ہیں۔ عورتوں اور ہندوؤں، پنجاب اور پورب کے لکھنے والوں کا نقصان اور بھی زیادہ ہوا…۔ خیر، یہاں بات ہو رہی تھی انگریزوں کی پالیسی کے زیر اثر، یا اس کی وجہ سے، مسلمانوں کے رجحان کی کہ ہندوؤں کو اردو کی فہرست استناد سے خارج رکھا جائے۔ ’آب حیات‘ نے اس کام میں اہم کردار ادا کیا۔‘ (فاروقی 2009، 42-43)
آزاد اور خیال میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ آزاد متعصب اور جانبدار تھے جبکہ خیال غیر متعصب اور غیر جانبدار۔ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود ’’آب حیات‘‘ مشترکہ ثقافت کی آئینہ داری نہیں کرتی اور اس کے بغیر اردو کا قصہ ہی ادھورا ٹھیرے گا۔ خیال کی نگاہوں میں یہ معاملہ اہم تھا کہ اس تہذیب کی باز آفرینی کی سبیلیں نکالی جائیں جن سے ہندو مسلم اتحاد قائم رہے اور اسی بنا پر انھوں نے مراثی کو بھی ہندوستانی رزمیوں کی روایات سے جوڑ کر دیکھنے کی پہل کی تھی۔ انھوں نے حسب ضرورت عصری علوم میں یورپ کی پیش رفت پہ ثنا خوانی بھی کی لیکن جب ہندوستان میں برطانوی تعلیمی پالیسیاں قومی مفاد سے متصادم ہونے لگیں تو اس کی بھرپور مخالفت بھی کی۔ برطانوی افسروں سے اچھے مراسم کے باوجود ان کی غلطیوں کی نشاندہی سے کبھی نہیں چوکے، اور جب اردو سے وابستہ کسی معاملے میں ضرورت ہوئی تو ان سے تعاون کے لئے بھی پریشان رہے۔ ’’مغل اور اردو‘‘ سے ایک نسبتاً طویل اقتباس پیش خدمت ہے:
’جنگِ بکسر (1746ء) کے بعد شاہ عالم اور لارڈ کلائیو کے درمیان جو عہد نامہ ہوا اس کے رو سے اس ملک کے علم و زبان کی نگہداشت بھی کمپنی پر فرض تھی۔ کلائیو کے بعد وارن ہیسٹنگ (1722ء) کا دور دورہ ہوا۔ انھوں نے ایک بہانہ نکال کر شاہ عالم کا 26 لاکھ سالانہ وہ نذرانہ بند کر دیا جس کی ادائیگی اس عہد نامہ کی اول شرط تھی۔ اس پر ملک میں ایک ہیجان ہوا۔ اس اضطراب کو دھیما کرنے کے لئے زبان کی نگہداشت کے پیمان کو قائم رکھنے کا ڈھونگ نکالا گیا۔ جان گلکرسٹ نے اس سیاسی چال میں کمپنی کی بڑی مدد کی۔ انھوں نے کلکتہ میں مشرقی زبانوں کی پرداخت کے لئے ایک انجمن یا سوسائٹی قائم کر دی۔ ادھر یہ انجمن دھیرے دھیرے اپنا کام کر رہی تھی، اُدھر ہیسٹنگ چپکے چپکے اپنا راستہ نکال رہے تھے۔ انھوں نے کلکتہ میں دو کالج قائم کیے، ایک سنسکرت کا، وہ ہندوؤں کے لئے اور دوسرا عربی و فارسی کا (کلکتہ مدرسہ)۔ وہ مسلمانوں کے لئے۔
اکبر سے لے کر اس وقت تک اس ملک کی تعلیم کا رنگ اور تھا۔ ہندو، مسلمان ساتھ ایک مکتب میں، ایک ہی استاد سے پڑھتے تھے۔ ہندو فارسی خواں اور عربی خواں اور مسلمان بھاشا داں و سنسکرت داں بنتے۔ ایک کے ادب کا اثر دوسرے پر پڑتا اور اس لئے ایک دوسرے کا حریف نہیں بلکہ بھائی بنا رہتا۔ اس نئی تجویز سے جب دو الگ الگ کالج کھڑے ہو گئے تو ہندو اور مسلمان بھی دو ہو گئے۔ ایک مکتب میں ساتھ کی تربیت بند ہوئی اور ملک میں دو طرح کی تعلیم کھل گئی۔ دونوں نے آخر اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد اور مندر بنانا اور اس پر فخر کرنا اپنا دین سمجھا۔ یہ دوئی پھر تو بڑھتی رہی اور ذرا ذرا سی بات میں نمایاں ہوتی رہی۔‘ (مغل اور اردو، 48-49)
استعماریت کی تخریبی طاقتوں کو انھوں نے شدت کے ساتھ محسوس کیا تھا۔ انھیں یہ قلق ہمیشہ رہا کہ نوآبادیات نے اردو تہذیب کو اس طرح مجروح کر دیا تھا کہ اس کے بحال ہونے کی امیدیں ہی ختم ہو چکی تھیں۔ مظفر حسین شمیم نے اپنے مضمون ’’مغل اور اردو کے بعض محاسن‘‘ میں لکھا تھا کہ
’عام طور پہ یہ باور کیا جاتا ہے کہ جان گلکرسٹ کے زیر ہدایت فورٹ ولیم کالج نے اردو کی بڑی خدمت کی ہے لیکن نواب صاحب نے یہ ثابت کیا ہے کہ خدمت اردو محض ایک بہانہ تھا۔ حقیقی مقصد یہ تھا کہ کمپنی کے اہلکاروں کو ملکی زبان اردو سکھانے کے لئے قصہ کہانیوں کا ترجمہ کرایا جائے۔ انھوں نے دانائے فرنگ کی اس سیاسی چال کا بھی انکشاف کیا ہے جس کی وجہ سے پہلے فارسی ہندوستان سے رخصت ہوئی اور اس کے بعد ملکی زبان کا جنازہ نکالا گیا۔‘ (1933، 9)
رسالہ ’اردو‘ میں خیال کے اسلوب کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ دیسی یا ہندی الفاظ کے استعمال پر بعض عبارتوں کو غیر معیاری کہا گیا اور ڈرامائی انداز تحریر کو بھی نشانۂ تحقیر بنایا گیا۔ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’فاضل مصنف ایک کہنہ مشق ادیب ہیں۔ ان کی طرز تحریر کے متعلق کسی کو یہ گمان بھی نہیں ہو سکتا کہ وہ زبان کی علمی تاریخ کے لئے ناموزوں و نامناسب ہو گی۔ کتاب کے موضوع کے لئے ایک سنجیدہ و پختہ اسلوب ادا کی ضرورت ہے۔ قلم پر ضبط و قابو چاہیے۔ جب ہم اس نظر سے کتاب کو دیکھتے ہیں تو بڑی مایوسی ہوتی ہے۔ اس میں ضبط و متانت اور تمکین و تحمل کے آثار بہت کم ہیں۔ کتاب میں جا بجا خطیبانہ جوش اور واعظانہ بلند آہنگی ہے اور اکثر جگہ ڈرامائی زبان میں اثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرز ادا اور اسلوب بیان کو نبھانے کی غرض سے لائق مولف کو جگہ جگہ تشبیہات و استعارات سے کام لینے اور صنائع بدائع کے استعمال کرنے میں پورا زور مارنا پڑا اور اور طرز ادا کے ایسے سانچے وضع کرنے پڑے جن میں جدت و ندرت نظر آئے۔‘ (مغل اور اردو (تبصرہ) 1934، 217-18)
ظاہر ہے کہ یہ خیال محض ’’مغل اور اردو‘‘ کے پس منظر میں ظاہر کیا گیا ہے اور مضمون نگار نے ان کی کسی دوسری تحریر کو غالباً دیکھا بھی نہیں تھا۔ جسے خیال کا نقص بتایا جا رہا ہے وہی شمس العلما کی انشا کا ہنر کہلاتا ہے۔ اس تضاد خیالات پہ کوئی بحث سود مند نہیں۔ تاہم چند اقتباسات صرف اشاروں کی حیثیت سے یہاں نقل کیے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر احسن فاروقی نے لکھا ہے کہ:
’آزاد (محمد حسین) کی فطرت میں تنقید نگار کا محرک بالکل نہ تھا۔ وہ بالکل نہیں سمجھتے تھے کہ شاعری کیا چیز ہے۔ ان کو حقیقی اور غیر فطری شاعری میں تمیز کرنے کا شعور نہ تھا۔ وہ شاعری کی میکانکی صفات سے آگے نہیں جا سکتے تھے۔ وہ کسی شاعر کی شاعرانہ انفرادیت تک پہنچ ہی نہیں سکتے تھے۔ وہ پرانے زمانے کے سخن طراز تھے۔‘ (تذکرہ نگاری اور محمد حسین کی آب حیات 1981، 66)
ڈاکٹر محمد صادق کے الفاظ ہیں کہ:
’آزاد نے اپنے پڑھنے والوں پر جو جادو کا اثر کیا ہے وہ تخیل کی اس براقی اور ذکاوت ہی کا کرشمہ ہے اور ساتھ ہی اس کی پر لطف خامیوں کا باعث بھی یہی ہے۔ بعض موضوعات فی نفسہ ایسے ہیں کہ وہ تخیلی پیرائے کے متحمل ہو سکتے ہیں لیکن اس کے برعکس کئی ایسے بھی ہیں جن کو سنجیدگی کے ساتھ صاف، سیدھے پیرائے میں براہ راست پیش کرنا ہی مناسب ہوتا ہے۔ آزاد کو استعارات اور مرقع کشی کا اس قدر شوق تھا کہ اس نے ایک وطیرے کی شکل اختیار کر لی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ جو موضوع بھی سامنے آئے اسے اپنے طبعی رجحانات کے ماتحت تخیل کے سانچے میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔‘ (1981، 24-25)
خیال کے یہاں یہ تخیلی سانچہ نہیں ہے۔ ان کی نگاہوں کے سامنے اقوام و ملل کی مکمل ثقافت موجود تھی۔ ایسی صورت میں خیال مورد الزام کیوں ٹھیرائے گئے؟ اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ خیال کی نگاہ میں مولوی آزاد کی کتاب ’’آب حیات‘‘ کی حیثیت ایک مثالی نمونہ کی تھی۔ انھوں نے اردو کے سلسلے میں آزاد کی چند اصطلاحوں کو بھی اپنایا ہے اور انداز تحریر کو بھی، لیکن خیال کی نثر میں یہ اثرات کہیں کہیں ہی نظر آتے ہیں۔ تاریخی واقعات کو دلچسپ بنانے کے لئے خیال نے حسب موقع ایسا اسلوب تو اختیار کیا ہی ہے لیکن اس سے حقیقتیں مجروح نہیں ہوتیں۔ بعض مقامات پہ حسب ضرورت، یا قاری کے ذوق کی تسکین کے لئے ڈرامائیت کے عناصر یقیناً سموئے گئے ہیں۔ لیکن یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ’’داستان اردو‘‘ کے وہ تمام ابواب جن کا تعلق خالص ہندوستانی ثقافتی روایتوں سے ہے وہاں ان کا اسلوب نگارش بالکل مختلف انداز اختیار کر لیتا ہے، اور جب مغلوں کا ذکر کرتے ہیں تو وہاں بالکل علیحدہ آہنگ بیان نظر آتا ہے۔ خیال کے محاکاتی اسلوب کی وجہ سے عبد الخالق نے بھی انھیں مئے خانۂ آزاد کا جرعہ نوش کہہ دیا:
’نواب صاحب نے نہ صرف معلومات کا دفتر کھول دیا ہے، تاریخی حقائق و شواہد کو متشکل کر دیا ہے بلکہ تاریخی حقائق کو ڈرامائی حسن اور محاکاتی خوبصورتی کے ساتھ قلمبند کر دیا ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے ’دربار اکبری‘ میں یہی انداز اختیار کیا ہے۔‘ (اردو نثر کے اسالیب 1984، 330)
پروفیسر ابو ذر عثمانی نے جب ’’صنم‘‘، پٹنہ کے بہار نمبر کے لئے 1955ء میں ’بہار میں اردو تنقید کا ارتقا‘ کے عنوان سے مقالہ لکھا تو اثر اور شہباز کے ساتھ ہی خیال کا تذکرہ بھی انھوں نے کیا، اور ان کی خدمات کا اعتراف بھی۔ لیکن خیال سے متعلق حصے کے لئے انھوں نے ثانوی ماخذ ہی کا سہارا لیا اور اپنی بے بضاعتی کا افسوس کر کے رہ گئے۔ انھوں نے لکھا کہ ’اس دور کی دوسری اہم بزرگ شخصیت نواب نصیر حسین خیال کی ہے۔ خیال ایک اعلیٰ پایہ کے زبان داں تھے اور اپنی دلآویز اور شگفتہ طرز تحریر کی وجہ سے انھوں نے شہرت و مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ سر سید اور عبد الحلیم شرر بھی نواب خیال کی زباندانی کے مداح و معترف تھے‘۔ (1955، 160) اس کے بعد انھوں نے خیال کی تحریروں پر روشنی ڈالنے کے دوران یہ عرض کیا کہ ’افسوس یہ چیزیں ہماری نظروں سے نہیں گزریں۔ (160) اس کے باوجود اس مقالے کی اہمیت اس لئے ہے کہ اس میں خیال کو ان کے اصل روپ میں دیکھنے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ پروفیسر اعجاز علی ارشد نے ’بہار میں اردو تنقید‘ میں خیال پر ایک باب قائم کیا ہے۔ انھوں نے اقرار کیا ہے کہ ’’مغل اور اردو‘‘ ایک تاریخی کتاب ہے جس میں ’’اردو زبان کے مختلف گوشے منور کیے گئے ہیں۔‘‘ (1981، 28) انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’اس کی زبان بہر صورت، کسی تنقیدی کتاب کی زبان نہیں ہے۔ ‘‘ چوں کہ خود خیال بھی اپنی تحریروں کے تنقیدی ہونے کے ادعائی نہیں تھے اس لئے انھیں تنقید کے دائرے میں رکھ کر دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ محولہ بالا کتاب میں ہی یہ بھی عرض کیا گیا ہے کہ ’’پوری کتاب میں اس طرح کی مسجع اور مقفیٰ عبارت استعمال کی گئی ہے۔‘‘ (28) حالانکہ پوری کتاب میں شاذ و نادر ہی ایسی عبارتیں ملتی ہیں۔ انھوں نے ’’داستان اردو‘‘ سے جس اقتباس کو حوالے کے طور پہ پیش کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے، اسے ملاحظہ فرمائیں:
’جو زبان بادشاہ کے منہ لگ چکی ہو اس کا سلطنت کے دودھ سے پلنا کیا بڑی بات تھی۔ ایسا ہی ہوتا۔ مگر بابر کی عمر نے وفا نہ کی اور ہمایوں برگشتہ تقدیر رہا اور شرفوں کے ساتھ یہ شرف بھی اکبر ہی کے لئے اٹھا رکھا گیا تھا۔ جب وہ نِچِنت ہو کر بیٹھا تو ادھر بھی متوجہ ہوا۔ بکرماجیت کا وقت آیا اور اپنے دربار کو بھی نورتن سے سجایا۔ چار ایوان کھڑا کیا گیا اور وہاں حکمت و ادب کا درس دیا گیا۔‘ (50)
اس زبان میں مسجع اور مقفیٰ عبارتیں مفقود ہیں۔ عام طور پہ ہمیں خیال کی نثر میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ دلچسپ پیرایۂ بیان، علاقائی اثرات بِہاری پن اور علمیت کا وقار نظر آتا ہے۔ بعض عبارتیں یقیناً ایسی ہیں جن پر محمد حسین آزاد کے لب و لہجہ کا گمان ہوتا ہے۔ لیکن محض ان کی بنیاد پر خیال کی نثر نگاری کے سلسلے میں کوئی حتمی نتیجہ اخذ کر لینا محل نظر ہے۔ اعجاز علی ارشد صاحب نے جس تصنیف کے حوالے سے گفتگو کی ہے اس میں مصنف کا تاریخی اور تحقیقی شعور واضح طور پہ موجود ہے، اور ان کے ساتھ ہی اس کا منفرد اسلوب نگارش بھی، جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ جب ’’آب حیات‘‘ کو افسانہ سمجھ کر پڑھ لینے کی وکالت کی جا سکتی تھی تو خیال کی تحریر کو داستان سمجھ کر پڑھنے میں کیا مضائقہ ہو سکتا تھا؟
خیال لکیر کے فقیر بھی نہ تھے کیونکہ انھیں عربی، فارسی، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کا علم تھا۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ یورپ کی سیاحت بھی کر چکے تھے۔ زندگی بھر اردو کی خدمت کرتے رہے اور اسے ہی نصب العین بھی بنائے رکھا۔ وہ مقصدی تخلیقی نثر اور افادی ادب کے حامی تھے، اور جب فکر و تحریر پر مقصد حاوی ہو تو لفاظی اور صناعی کا گزر نہیں ہو سکتا۔ وہ عوام سے ان کی زبان میں مخاطب ہوتے ہیں۔ خیال جس طبقے سے مخاطب تھے اس تک فکر کی ترسیل کے لئے زبان کی سادگی لازم تھی، اور ساتھ ہی اس کا پر تاثیر ہو نا بھی۔ محمد حسین آزاد کے اندر، بقول کلیم الدین احمد، نقد کا مادہ نہ تھا۔ لیکن خیال زبان و ادب، ثقافت و معاشرت سب پہ مخصوص نظر رکھتے تھے، اور خود آزاد کے ثنا خواں بھی نہ تھے۔ انھوں نے آزاد کی گرفت بھی کی ہے جس کے حوالے پیش کیے جا چکے ہیں۔ ایک بار پھر وہ مثالیں دیکھیے:
’نہ معلوم آزاد مرحوم نے یہ حکایت کس سے سنی، اور اسے جانچے بغیر اپنے تذکرہ میں نقل کر گئے۔ (مغل اور اردو، 89)
آزاد مرحوم کی روح نہ شرمائے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی انشا پردازی کی دھن میں آنکھیں بند کر لیتے اور اپنے قلم کو آزاد کر دیتے ہیں۔‘ (91)
’یہ باتیں ہمارے گھر کی یا ہمارے تعلقات کی ہیں۔ پروفیسر آزاد ہمارے امیرانہ و رئیسانہ اندازوں اور نزاکتوں کو کیا سمجھیں!‘ (92)
وہیں انھوں نے یہ اقرار بھی کیا ہے کہ:
’آزاد مرحوم اپنے مورخ ہونے کے مدعی نہیں۔ اس لئے وہ تاریخی غلطیاں کر جائیں تو قابل معافی ہیں۔ مگر تذکروں کی غلطیاں اور پھر اس طرح کی داستان سرائیاں لائق معافی نہیں۔‘ (124)
تینوں اقتباسات کا تعلق نواب اشرف علی خاں کے عظیم آباد جانے اور مہاراجا شتاب رائے سے ان کے ربط و ضبط کے ضمن میں مولانا آزاد کے بیان سے ہے۔ خیال کی اس عبارت کی زبان پر نکتہ چینیاں تو ہوئیں لیکن خود خیال کے استفسار کا جواب کسی نے نہیں دیا۔ تیسرے اقتباس میں خیال نے یہ احساس دلایا ہے کہ اشرف علی فغاں کو عظیم آباد والوں اور بطور خاص ان کے خاندان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ آزاد کے متعلقہ بیان اور خیال کے ان بیانات کے تعلق سے نبیرۂ شاد نقی احمد ارشاد کی کتاب ’’کاروان رفتہ‘‘ میں سیر حاصل تفصیلات پیش کر دی گئی ہیں۔
سر سید احمد خاں کی بے پایاں خدمات کی وجہ سے خیال ان کے ثنا خواں تو تھے لیکن ملکی معاملات میں ان کے بعض خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے تھے اور اس کا انھوں نے برملا اظہار بھی کیا۔ اقبال کی شاعری کا سحر جب ہندوستان کے مسلمانوں پہ قائم ہو چکا تھا تبھی انھوں نے اقبال سے بھی اختلاف کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح مولانا ابو الکلام آزاد کے سلسلے میں بھی انھوں نے بیباک رائے ظاہر کی تھی۔ پٹنہ کے مولوی حمید عظیم آبادی دیوان شاد مرتب کر رہے تھے اور اس کے لئے وہ مسلسل خیال کے رابطے میں بھی رہتے تھے۔ خیال کا ماننا تھا کہ مقدمہ کے بغیر دیوان شاد کے سمجھنے والے نہیں ملیں گے۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی مناسب ترین اہل علم سے یہ کام کروایا جائے۔ اسی سلسلے میں ان بزرگوں کے بارے میں انھوں نے حمید عظیم آبادی کو لکھا تھا کہ:
’ہاں، اقبال شاعری کے مفہوم و غایت کو سمجھتے ہیں مگر وہ اور لکھ نہیں سکتے۔ فارسی البتہ جانتے ہیں، اور فارسی ہمارے لئے بیکار۔ انگریزی ان کی بری نہیں، ہے مگر عالمانہ۔ اس دیوان کے لئے محمد علی کا قلم ہونا چاہیے تھا۔ وہ جیتا ہوتا تو گردن دبا کر میں اس سے کام لے لیتا۔ آزاد ابو الکلام بہت کچھ جانتے اور بہت کچھ سمجھتے ہیں، اور اس کام کے لائق ہیں۔ مگر انھوں نے اور زندگی کر لی۔ ہماری گرفت سے باہر ہو گئے۔ اب کون انھیں گرفتار کرے! باقی سات کروڑ مسلمانوں کی حالت معلوم!‘ (نصیر حسین خیال کے دو خطوط 1950، 20)
ان زمانوں میں صاف گوئی کی اس سے بہتر مثال شاذ ہی نظر آئے گی۔ سر سید احمد خاں کے سلسلے میں اسی ’’مغل اور اردو‘‘ میں کہتے ہیں:
اسباب غدر پر جن تاریخ دانوں نے غور کیا ہے وہ سر سید مرحوم کی اس رائے کا ساتھ نہیں دے سکتے کہ ملک کی اس وقت کی بے چینی محض اس وجہ سے تھی کہ ’ہندیوں کو ملکی انتظام میں دخل نہ تھا‘! یہ فقرہ مشہور چلا آتا ہے، اور سید صاحب کی بزرگیوں میں سے ایک بزرگی اس جملہ میں پوشیدہ سمجھی جاتی ہے۔ تاریخ ہند پر کافی نظر کیے بغیر’ حیات جاوید از مولوی حالی مرحوم میں بھی اس فقرہ کو خاص جگہ دے کر کہا گیا ہے کہ ’ملکی انتظام میں سر سید کی اس رائے نے تبدیلی کرائی اور ہندیوں کو جب سے کونسل میں جگہیں ملنے لگیں ‘۔ (162)
مولوی محمد حسین آزاد پر دیے گئے بیان سے اتنی ہائے توبہ مچی تو سر سید اور مولانا آزاد پر دیے گئے ان دو ٹوک بیانات کا بھی مثبت اثر نہ ہوا ہو گا۔ اس صورت حال میں یہ نا ممکن تھا کہ خیال کو ان کا کوئی ہمنوا مل جاتا۔ ’’مغل اور اردو‘‘ میں موجود اس قسم کے بیانات زیادہ مہلک ثابت ہوئے۔ سر سید احمد خاں ہوں یا مولوی محمد حسین آزاد یا علامہ اقبال، خیال کو جس پیغام کی جستجو ہے وہ انھیں ان میں سے کسی کے یہاں نہیں ملتی۔ اسی روانی میں خیال مزید سوالات قائم کرتے ہیں اور ان کے جوابات بھی پیش کرتے ہیں۔ ان فقروں میں موجود جامعیت اور دو ٹوک انداز بیان خیال کے اسلوب نگارش کا اہم وصف ہے۔ وہ اپنی باتوں کو صاف صاف، کسی تکلف یا تصنع کے بغیر کہہ جاتے ہیں۔ انھوں نے سر سید کے ذریعہ پیش کیے گئے اسباب غدر کو نا مناسب تصور کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’یہاں اس سے بحث نہیں کہ کونسلوں میں ہم کو جگہیں کیوں کر ملیں۔ مگر سنہ ستاون کا غدر ملکی انتظام میں ہمارے دخیل نہ ہونے کی وجہ سے ہوا؟ اگر اس غدر کا یہی سبب تھا تو 1805ء کی ویلور کی شورش آخر کس بنا پر تھی؟ اور پھر جب کہ لارڈ رِپن کے بعد ہی یہ کونسلیں ملکیوں سے بھرنے لگیں تو گرمایا ہوا ملک کیوں ٹھنڈا نہ ہو گیا؟ اور اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ہندیوں کے اختیارات جوں جوں بڑھتے گئے ملک کی شورش بھی تیز ہوتی چلی گئی۔ اور آج بھی وہ نمایاں ہے۔ ہاں، پہلے بے آئینی طور پر ہیجان تھا، اب وہ ذرا باقاعدہ شکل میں ہے۔ اس لئے سر سید کے دماغ میں غدر کا جو سبب تھا وہ صحیح نہیں مانا جا سکتا اور ان کے مقلدوں نے اس سے جو نتیجہ نکالا ہے وہ درست نہیں سمجھا جا سکتا۔‘ (163)
یہ تمام عبارتیں ایسی ہیں جن کی بنا پر خیال کے سلسلے میں پیش کردہ اب تک کے تمام بیانات بے وقعت ہو جاتے ہیں۔ خیال کی نثر نگاری کے ان پہلوؤں کو پردۂ خفا میں کیوں رکھا گیا، خدا معلوم! لیکن اب یہ تو بہر حال سامنے کی بات ہے کہ ’محمد حسین آزاد کا طرز بیان چھین لینے‘ (رائے پوری 1984, 80) کے باوجود وہ مئے خانہ آزاد کے جرعہ نوش نہیں تھے۔ بہار کے ہی پروفیسر منصور عالم نے بھی خیال کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بہار کی تذکرہ نگاری کے اس دور میں دو ایسی تصنیفات کا ذکر ضروری ہے جو صنفی لحاظ سے تذکروں میں شمار نہ ہوں گی لیکن جن سے بہار میں تذکرہ نگاری کی نشو و نما اور رفتار و سمت کا دلکش اندازہ ہوتا ہے۔ ان میں ایک نواب سید امداد امام اثر کی ’’کاشف الحقائق‘‘، اور دوسری نواب سید نصیر حسین خیال عظیم آبادی کی ’’مغل اور اردو‘‘ ہے۔ (بہار میں تذکرہ نگاری 1980، 189) انھوں نے ’’مغل اور اردو‘‘ کو تذکرہ سے تاریخ کو جدا کرنے والی تصنیف کہا ہے۔
’مغل اور اردو‘ در اصل خیال کی ضخیم تصنیف ’داستان اردو‘ کا ایک باب ہے۔ یہ کتابی شکل میں 1933ء میں شائع ہوئی۔ اس سے قبل 1930ء میں سید عزیز الدین بلخی کی ’تاریخ شعرائے بہار‘ منظر عام پر آ چکی تھی جو تاریخ نگاری پر بہار میں اٹھایا گیا پہلا قدم ہے۔ لیکن عزیز الدین اس میں تاریخ کی خوبیاں پیدا نہ کر سکے۔ اس لحاظ سے نواب خیال کی ’مغل اور اردو‘ سامنے آ جاتی ہے جس میں خالصتاً تاریخی طور پر عہد مغلیہ کے شاہان اردو نواز کو پیش کیا گیا ہے۔ ان کی مختصر سوانح حیات اور اردو کلام کے نمونے دیے گئے ہیں۔ تذکرہ کہ ہم شکل ہوتی ہوئی یہ تصنیف پہلی بار صحیح معنوں میں تذکرہ سے تاریخ کو جدا کرتی ہے۔ (190)
پروفیسر رشید احمد صدیقی نے آزاد و خیال کی انشا کے سلسلے میں لکھا ہے کہ’ وہ تنقید کی زبان نہیں ہے‘۔ (داستان عجم 1935، 9) یہاں بھی معاملہ یہی ہے کہ اسے تنقید سمجھا ہی کیوں جائے، یا اس کے تنقیدی ہونے یا نہ ہونے پر اصرار کیا ہی کیوں جائے! خود انھوں نے ہی خیال کے بارے میں یہ نتیجہ بھی اخذ کیا ہے کہ
’داستان اردو‘ کو وہ خیال اپنی زندگی کا کارنامہ سمجھتے تھے۔ اور اس میں شک نہیں کہ جس جوش و خلوص کے ساتھ اور لطف لے لے کر اپنے نظریے بیان کیے ہیں وہ بجائے خود لطف انگیز ہیں اور قابل اعتنا بھی۔ اب بہت سی باتیں منظر عام پر آ چکی ہیں لیکن خیال نے اس طرف بہت پہلے اشارے کر دیے تھے …
وہ اردو کو ہندستان کی فطری اور تمدنی زبان بتاتے تھے اور اردو کو اسی راستہ پر لانا اور دیکھنا چاہتے تھے جس پر وہ خود پھوٹی، پنپی اور پروان چڑھی۔ اسی پر وہ ہندو مسلم نجات کا انحصار رکھتے تھے۔ اردو کی داستان انھوں نے حتی الوسع اردو ہی کی زبان میں سنائی ہے اور لطف یہ ہے کہ اردو کی شباہت و شیرینی، گہرائی و گیرائی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔‘ (داستان عجم، 9-10)
صدیقی صاحب کا اشارہ مشرقی اور بطور خاص سنسکرت شعریات میں خیال کی دلچسپی کی طرف ہے۔ ’’داستان اردو‘‘ کے اولین حصے سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں جن میں سنسکرت شعریات کی عظمتوں کے سلسلے میں خیال کا بہت ہی واضح موقف موجود ہے۔
’باغ ہند چمنستان عالم کا ایک نمونہ ہے مگر کھلتا نہیں کہ اول کس آدم نے اس زمین پر قدم رکھا جس کی برکت سے ہندوستان جنت نشان مانا گیا۔ یہ بہت بعد کی حکایتیں ہیں کہ اس ارض پاک کی عالمگیر شہرت نے دنیا کو اس طرف کھینچا اور یہاں کی خاک پر ان کے سروں کو جھکا دیا۔‘ (داستان اردو 1926، 46)
’اگر صرف مذہب اور شاعری ہی کسی قوم کی بڑائی کی سند ہوں تو آریا اس میں بھی کسی قوم سے پیچھے دکھائی نہ دیں گے۔ جب عالم میں اندھیرا تھا، یہ مخلوق اپنے خالق کو ڈھونڈھ لائی۔ اور جب دماغ محدود اور علم مفقود تھے، ان کی قوت تخیل آسمان پر تھی۔ رِگ وید کا زمانہ چار ہزار برس قبل مسیح ہے، اس وقت کوہ طور بھی اگر بے نور نہ تھا تو دور ضرور تھا۔‘ (1926، 53)
’’سہیل ‘‘میں شائع ’’داستان اردو‘‘ کے ساتھ مدیر و مرتب کا یہ نوٹ قابل غور ہے کہ
’جناب خیال کا یہ اچھوتا، پر از معلومات اور عام فہم مضمون کئی حیثیت سے قابل قدر ہے۔ جس لطف و خوبی کے ساتھ ایک علمی موضوع کو عالمانہ انداز سے دلچسپ اور عام فہم بنایا ہے وہ انشا پردازی کا ایک قابل رشک نمونہ ہے۔‘‘ (43)
خیال اس نظریہ کے پابند ہیں کہ اردو برج بھاشا کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے، اور نیز یہ کہ بھاشا سنسکرت کی ایک شاخ نہیں بلکہ غیر آریا، یعنی ہند کے قدیم و اصلی باشندوں کی زبان ہے جس کی اصل پراکرتوں میں ہے۔ حکمراں قوم و زبان، یعنی آریوں اور سنسکرت نے پراکرتوں پر وہی اثر ڈالا جو عربی نے فارسی پر اور فارسی نے ترکی پر یا فرنچ نے انگریزی پر اور پھر انگریزی نے اپنی محکوم زبانوں پر ڈالا ہے۔ قدیم ہندوستان کی مختلف پراکرتوں میں شورسینی ہر اعتبار سے معتبر تھی اور وہی برج بھاشا کہلائی۔ یہ زبان برج، یعنی، متھرا کی بھاکھا تھی۔ اسے خیال نے مہا بھاشا کہا ہے۔ بیرونی الفاظ یہاں کی اور بھاکھاؤں کی نسبت برج بھاشا میں اس سبب سے زیادہ ملے اور پھوٹے کہ وہ خطہ ان قوموں تاتاری، ترکی و تورانی، ژند و پہلوی کے تجارتی و جنگی حملوں کا ہمیشہ سے چاند ماری بنا رہا ہے۔ پھر سکندر اور اس کے اردو نے یہاں یونانی و رومی الفاظ کا ایک لشکر اتار دیا۔ عربی اس کے بعد آئی اور شمال ہند و مغربی ہند سندھ کی راہوں سے وہ وسط ہند تک پہنچی اور برج آ کر وہاں کی بھاشا سے مصافحہ کرنے لگی۔ جب ترکی و ایرانی مسلمان ادھر آئے تو ان کی پذیرائی نے اس مہا بھاشا کو غوریوں کے وقت فارسی بھاشا بنا دیا، اور ان کے برادرانہ تعلقات نے اسے اردو بنا دیا۔ ’سہیل‘ میں ’داستان اردو‘ کی روشنی میں خیال کے تصورات کے بنیادی نکات اجمالاً پیش کیے گئے تھے جو اس کتاب میں متعلقہ مضمون کے ساتھ شامل کر دیے گئے ہیں۔
’’داستان اردو‘‘ نئے الفاظ کی اختراع اور جدت اصطلاحات کے معاملے میں بھی اہم ہے۔ اس کے سلسلے میں خود خیال نے بھی یہ لکھا ہے کہ انھوں نے حسب ضرورت نئے الفاظ کا بھی استعمال کیا ہے۔
’داستان اردو‘ کی تحریر میں مجھے اکثر ایسی دقتیں پیش آئیں اور میں نے مجبوراً اردو میں ایسے الفاظ بڑھا دیے۔ اور چونکہ ان کا محل استعمال درست تھا اس لئے میں نے اس زیادتی کو جائز سمجھا۔ اس داستان میں ایک جگہ ادب سنسکرت کا ذکر آ گیا۔ اس زبان کے دو دور ہیں ؛ ایک تو ویدی عہد، جبکہ زبان محض فطرت کے تابع تھی، یعنی تراش خراش کے بغیر وہ منہ سے نکلی اور چلی۔ سنسکرت کے اس دور کو میں نے ویدی آمد سے تعبیر کیا کیونکہ حقیقتاً وہ ایک آمد تھی۔
اس کا دوسرا دور وہ ہے جبکہ اس زبان کی تدوین اور تدہین کی گئی۔ اس دور کو میں نے سنسکرتی آورد لقب دیا ہے، کیونکہ وہ واقعی کاوش اور آورد تھی۔ معنی و مطلب کے سمجھانے کی خاطر ان فقروں سے بہتر جملے ہمارے پاس نہ تھے۔ اس لئے میں نے بر محل، بے تکلف فقرات گڑھ دیے۔
اسی طرح ہماری زبان پر زرخیز و زر ریز وغیرہ الفاظ گو چڑھے ہوئے ہیں مگر دکن کے ذکر میں اور اس زمین کی مناسبت و رعایت سے ایک جگہ دکن ریز کا سا نیا لفظ بے تکلف لے آیا۔ پھر سلطنت گردی و نادر گردی وغیرہ ہمارا روز مرہ ہے۔ اردو ادب کے ذکر میں ایک خاص زمانہ کو ملحوظ رکھ کر میں نے ادب گردی کے سے لفظ کا اختراع نا مناسب و بے محل نہ سمجھا۔
ان مثالوں سے مطلب ہے کہ کوئی اہل زبان یا قادر الکلام زبان داں ضرورتاً بشرطیکہ وہ بر محل بھی ہوں، تصرفات سے کام لے، یا اختراع کر دے تو وہ لائق ستائش ہے نہ کہ قابل ملامت۔‘ (ارشاد 1981، 195)
گویا یہ بنیادی حقیقت ہے کہ خیال کی نثر نگاری پہ کوئی رائے قائم کرنے سے قبل ان کی تحریروں کے مقصد کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ مجھے جتنی بھی تحریریں حاصل ہو سکیں ہیں ان کے مطالعہ سے واضح ہے کہ خیال بنیادی طور پہ مقصدی ادیب تھے اور ادب کی افادیت پسندی کے حامی تھے۔ ان کے پیش نظر جو مقاصد رہے ہیں انھیں تین زمروں میں تقسیم کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں اہم ترین تو یہ ہے کہ اردو زبان و ادب اور اردو تہذیب کے بقا ہی نہیں، فروغ اور استحکام کے لئے بھی بساط بھر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرا یہ کہ اردو کا تعلق کسی ایک قوم، نسل، فرقہ یا مذہب سے نہیں ہے کیونکہ اس کی بُنت میں وہ تمام لسانی اور ثقافتی عوامل کار فرما رہے ہیں جن سے خود ملک عزیز کی تہذیبی شناخت قائم ہوتی ہے۔ ان کا تصور تھا کہ اردو کو سنسکرت کی روایتوں سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ انھوں نے بار بار اس پہ اصرار کیا ہے کہ اردو زبان اور اس کا ادب، خواہ وہ مرثیہ ہی کیوں نہ ہو، ہندوستان کی قدیم ثقافتی روایات سے ہی نمو پاتا ہے، اور، تیسرا یہ کہ اردو میں علاقائی زبان یا بولیوں کے الفاظ کو شامل کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ خود ان کی تحریروں میں اس کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔
داستان اردو لکھنے کا مقصد
تاریخی نقطۂ نظر سے ’’داستان اردو‘‘ اور ’’مغل اور اردو‘‘ کے بعض نظریے یقیناً محل نظر ہیں لیکن ویسے بیانات یا تو امتیازات قائم کیے بغیر جذبات کی رو میں بہہ جانے کی وجہ سے پیش کر دیے گئے ہیں یا انھیں اس وقت تک موجود شواہد کی بنیاد پر ہی پیش کیا گیا ہے۔ عام طور پہ جو نکتہ چینیاں کی گئی ہیں ان کا تعلق ’’مغل اور اردو‘‘ سے ہے۔ حالانکہ خیال کی تحریر کے پس پردہ ان کا وہ خلوص بھی کارفرما ہے جو مغلوں کی اردو نوازی ثابت کر کے یہ دکھانا چاہتا ہے کہ زبان اردو پیدا خواہ جہاں بھی ہوئی ہو، اس پہ ازمنۂ قدیم کی ہندوستانی ثقافت کا بہت ہی گہرا اثر ہے اور وہ دکن و شاہجہاں آباد کے بازراوں کے ساتھ ہی مغلوں کے محلوں اور حرم سراؤں میں بھی اٹھکھیلیاں کرتی رہی ہے۔ گویا مغلوں نے جس زبان کو منہ لگایا وہ خالص ہندوستانی تھی۔ یہ در حقیقت اس زبان کی اسی فطری اور تمدنی ارتقا کا ہی بیانیہ ہے جس کے خمیر میں غیر آریاؤں اور آریاؤں کی علمی رفعتیں شامل ہیں۔
خیال کے عہد میں ان کی ان تحریروں کے تئیں جو عام رائے تھی اس کے سلسلے میں ’’سہیل‘‘ کے شمارہ بابت جنوری 1926ء اور ’’ادب‘‘ کے اگست 1930ء کے شمارے میں شامل سید مجتبیٰ حسین خان کی تعارفی تحریریں ’’داستان اردو‘‘ کے حوالے سے خیال فہمی کے ضمن میں کلیدی اہمیت کی حامل تو ہیں ہی، ان سے زبان اردو کے آغاز و ابتدا سے متعلق خیال کے نظریات پر بھی سیر حاصل روشنی پڑتی ہے۔
خیال کے اس لسانی نظریہ کی اصل خصوصیت ان کا مافی الضمیر اور اس کی پیشکش کا انداز ہے جس کے متعلق ’’سہیل‘‘ کے متذکرہ شمارہ کے تعارفی نوٹ میں یہ قابل توجہ بیان رقم ہے کہ:
’اس مضمون کے طرز ادا اور اس کی زبان پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ جہاں تک ممکن ہو سکا ہے عربی اور فارسی الفاظ کو خواہ مخواہ جگہ نہیں دی گئی ہے بلکہ کسی حد تک خالص اردو سے کام لیا گیا ہے۔ دوسرے مہابھارت اور رامائن کے خلاصہ میں بھاشا کا عنصر کافی حد تک دلچسپ اور خوشگوار ہے۔ تشبیہ و استعارہ میں بھی اس رعایت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ جناب خیال کا طرز انشا، ہم کو یقین ہے، بہت سی ان ہستیوں کو بھی رام کر لے گاجو اردو کو ہندوستان کی قومی زبان اکثر اس بنا پر تسلیم نہیں کرتے کہ اس میں عربی اور فارسی الفاظ کا زیادہ دخل ہے۔‘ (45)
’’مغل اور اردو‘‘ کے حوالے سے اور بھی تنقیدی تحریریں منظر عام پر آئی تھیں جن میں اس کتاب کی ادبی اہمیت کو تو تسلیم کیا گیا لیکن تاریخ کی حیثیت سے اسے قابل اعتنا نہیں مانا گیا۔ خیال نے اسے ’زبان کا قصہ‘ کہا ہے جس کے پس منظر میں ہندوستان کی مشترکہ ثقافت کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ لہذا تاریخ کی حیثیت سے اس کا مطالعہ ہی بے سود ہو گا۔ خطبہ میں ابتدائی کلمات کے بعد جب وہ اس ’داستان اردو‘ کی ابتدا کرتے ہیں تو سامعین سے کہتے ہیں کہ:
’صاحبو، رات تھوڑی اور سانگ بہت۔ اردو کا فسانہ اور اتنا کم زمانہ۔ ایک نشست میں کیونکر دل خالی ہو۔ یہ تو صرف عرضداشت تھی۔ زبان کا قصہ تو اب آگے آتا ہے۔ وہ بھی گو مفصل نہیں مگر ایسی رواداری اور اختصار پر بھی دفتر ہو گیا۔ آپ جی لگا کر اسے بھی سن لیں تو ایک مریض کی محنت سوارت اور اس کی عزت افزائی ہو۔‘ (داستان اردو: پہلی قسط 1917، 58)
ظاہر ہے کہ یہ سماں بندی تاریخ یا تحقیق و تنقید کے لئے نہ تھی۔ انھوں نے انجم مانپوری کے نام ایک خط میں لکھا تھا کہ
’’’مغل اور اردو‘‘ کا مفہوم و مطلب سو میں دو نے بھی نہیں سمجھا۔ دوسرے خط میں انھیں ہی لکھتے ہیں کہ 1916ء کے ان کے خطبہ کو جس طرح اس وقت غلط سمجھا گیا اسی طرح ’’مغل اور اردو‘‘ کو بھی اور نظر سے دیکھا گیا۔ لکھتے ہیں کہ امید نہیں کہ اسے صحیح طور پر سمجھا جا سکے کیونکہ موجودہ تعلیم نے قوائے عقلی کو شل کر دیا ہے۔ مفلوج دماغ کیا کر سکتا ہے؟ اس مسئلہ کو ذرا وضاحت سے ’مغل اور اردو‘ کے اخیر باب میں بیان کر دیا گیا ہے۔ مگر حاصل؟ مجھے بہت شبہ ہے کہ سو میں ایک نے بھی اس پر نظر کی۔ جہاں دماغ ہی پیدا نہ ہوں وہاں طبیب کیونکر پیدا ہو سکتے ہیں!‘ (مکتوبات مشاہیر 1999، 25)
’’داستان اردو‘‘ کا مقصد محض یہ تھا کہ مسلمانوں کو اس کے ذریعہ یہ احساس دلایا جائے کہ ان کی زبان کا خمیر اس سرزمین کی مٹی کا ہے، اور ہندوؤں کو یہ بتایا جائے کہ یہ زبان اسی طرح خالص ہندوستانی ہے جس طرح ان کے رزمیوں کی زبان ہے، اور اس کا ادب بھی اسی طرح خالص ہندوستانی ہے جیسا کہ ان رزمیوں کا۔ خیال نے اپنے معاصر عظیم شاعر اقبال کی شاعری پہ کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ اس کی بظاہر وجہ یہی ہے کہ اقبال ملت اسلامیہ سے مخاطب تھے جبکہ خیال کا مقصد مسلمانوں اور ہندوؤں کو ایک چنے کی دو دال جیسا دیکھنا اور بنانا تھا۔
’’مغل اور اردو‘‘ پر رسالہ ’’ندیم‘‘، گیا میں شائع تبصرہ ملاحظہ فرمائیے:
’’مغل اور اردو‘ ایک حصہ ہے حضرت خیال کے ان مضامین کا جس کے مجموعے کا نام ’داستان اردو‘ رکھا گیا ہے۔ بہر حال، ’مغل اور اردو‘ ’داستان اردو‘ کے ابواب میں شاہکار باب کہا جا سکتا ہے۔ ’مغل اور اردو‘ میں مصنف نے بابر سے لے کر بہادر شاہ تک کے عہد کی اس تاریخ پر نہایت واضح طور سے روشنی ڈالی ہے جسے شاہان مغلیہ اور زبان سے تعلق تھا۔ حقیقت میں بادشاہوں ہی کا یہ فیض ہے کہ جنھوں نے ادبا و شعرا کی قدر شناسی کر کے زبان کی نہایت اہم خدمت انجام دی۔ لہذا ہمیں بھی ان کے احسانات کو فراموش نہ کر دینا چاہیے۔ مصنف نے زبان اردو کے تذکرے کے ساتھ ہی ساتھ ملک کے اخلاقی، مذہبی اور تاریخی پہلوؤں پر بھی اس طرح روشنی ڈالی ہے اور انھیں زبان سے اس طرح دست و گریباں دکھلایا ہے کہ زبان اردو کو ملک کی سیاست سے قطعاً الگ نہیں کر سکتے۔ زبان کی پاکیزگی، عبارت کی سلاست و لطافت اور تسلسل کلام اس کتاب میں شروع سے آخر تک موجود ہے۔‘ (تبصرہ “مغل اور اردو” 1933، 318-19)
خیال کے اسلوب نگارش کی دبی زبانوں میں تعریفیں کی گئیں، اور کئی بزرگوں نے اس کی انفرادیت کا اقرار بھی کیا۔ تاہم خیال کے اسلوب کو مولوی محمد حسین آزاد یا ابو الکلام آزاد کا پرتو کہہ کر اسے ناقدری کا شکار بھی بنا دیا گیا۔ ان دونوں حضرات کے سلسلے میں خیال کے جو تصورات تھے ان کی روشنی میں یہ باور کرنا مناسب ہی نہیں ہو گا کہ وہ ان کے اسلوب کی پیروی بھی کر سکتے تھے۔
مزید برآں، اپنے پیغام امن و آشتی کو عام کرنے کے لئے خیال نے ایسی تصانیف پیش نظر رکھی تھیں جو ان کے عہد میں معروف و مقبول تھیں۔ چونکہ وہ محقق نہیں تھے اس لئے انھیں اس سے کوئی مطلب نہیں تھا کہ ان میں درج تفصیلات جدید تحقیق کی روشنی میں درست ہیں یا نہیں۔ بس یہ مقصود تھا کہ ان میں سے تاریخی حوالوں کے طور پہ جو نظریات اپنے تلازمۂ خیال کے لئے مناسب لگیں، انھیں اپنا لیا جائے۔ انھوں نے سنسکرت، انگریزی، فرانسیسی، عربی اور فارسی تصانیف کے ساتھ ساتھ امداد امام اثر، مولوی محمد حسین آزاد اور حافظ محمود شیرانی کا بھی مطالعہ کیا تھا، اور ان کے یہاں سے بھی اپنی ضرورت کے اسباب مہیا کر لیے تھے۔ بنیادی تصور یہ ہے کہ اردو آریائی زبان نہیں بلکہ غیر آریائی یعنی خالص دیسی زبان ہے، اور اس کے ڈانڈے آریوں سے قبل کے اصل ہندوستانی یا غیر آریائی نسل سے ملتے ہیں۔ لسانیاتی اعتبار سے یہ نظریہ محل نظر تو ہے مگر خیال نے جن دلائل کے ساتھ اسے مضبوطی فراہم کی ہے وہ بے مثل ہے۔
خیال نے ’’داستان اردو‘‘ کے سلسلے کے مضامین میں زبان کے معاملے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے اختلاط کے پس منظر میں اردو کو جس شدت کے ساتھ قومی شناخت عطا کرنے کی کوشش کی ہے وہ ان کے معاصرین میں چند حضرات کے یہاں ہی نظر آتی ہے۔ ابتداءً شمالی ہند کی بجائے دکن میں اس پہ خاص توجہ دی گئی تھی۔ اسی طرح معاصرین میں اردو شاعری پر سنسکرت شعری روایات کے اثرات کا جتنا واضح اعتراف خیال کے یہاں لکھنؤ کے صدارتی خطبہ سے ہی نظر آتا ہے وہ بذات خود بے نظیر ہے۔ ’’داستان اردو‘‘ کی روشنی میں سید مجتبیٰ حسین خان، مدیر ’’ادب‘‘، لکھنؤ کا درج ذیل بیان خیال کے اس ذہنی رجحان کی عکاسی کرتا ہے:
’عام شکایت ہے کہ ہماری تخئیل اور ہماری زبان ملکی سے زیادہ غیر ملکی یعنی بدیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی زیادہ تر وجہ یہ ہے کہ ہمارے ادیب و شعرا اب تک بازار عکاظ اور سوق بغداد کا خواب دیکھ رہے اور اب رکنا باد و گلگشت مصلا کی سیر فرما رہے اور سیحوں و جیحوں میں اس طرح غرق ہیں کہ اپنے وطن کی پیش پا افتادہ چیزیں بھی انھیں نظر نہیں آتیں۔ اس زمین کے دفینے اگر نکالے جائیں تو ہم گنج قاروں کو بھی بھول جائیں! مگر چونکہ اس میں زحمت و محنت ہے، یہ کانیں کھدیں کیونکر اور نکلیں کس طرح؟ ملک بھر میں چند ہی ایسے بزرگوار ملیں گے جنھوں نے اس عام شکایت کو سمجھا اور اس کے دور کرنے کا رستہ نکالا ہو۔ داستان اردو میں، جس کا ایک باب ادب میں قبل میں شائع ہوا، اس کا خاص لحاظ نظر آتا اور وہ ہماری دلیل نگاہ بن سکتی ہے۔ اس بیان میں یوں تو اکثر باتیں قابل لحاظ و سبق آموز اور ہماری معلومات میں اضافہ کرتی ہیں۔ مگر دو چیزیں خاص طور پر لائق توجہ ہیں۔ اول یہ کہ شاید ہی کسی مسلمان اہل قلم نے ادب سنسکرت کا اپنے کسی بیان میں اتنا ادب و لحاظ رکھا اور اسلامی بے تعصبی کی ایسی مثال و شان دکھائی ہو۔ دوسرے یہ کہ قصۂ شکنتلا اس انداز و زبان میں دہرایا گیا ہے جو اس کا اقتضا ہے۔ حسیات و جذبات کے لفظوں میں وہ تصویر کھینچی گئی ہے کہ نثر نظم معلوم ہوتی ہے۔‘ (داستان اردو: دوسری قسط 1930، 8)
’’داستان اردو‘‘ کے مختلف اجزا کی اشاعت کے بعد ان سے متعلق جو عام تصورات تھے ان کی نشاندہی کے لئے سید مجتبیٰ حسین کا بیان مجموعی طور پہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں پیش کردہ نکات سے چشم پوشی کرتے ہوئے ہی خیال کے سلسلے میں تنقیدی خیالات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
٭٭٭