خیال کی جن تصانیف کا خصوصی تذکرہ ہمیں عام طور پہ ملتا ہے، وہ ’’مغل اور اردو‘‘ اور ’’داستان اردو‘‘ ہیں۔ اول الذکر کی اشاعت 1933ء میں علامہ جمیل مظہری کے تعارف کے ساتھ شائق احمد عثمانی اینڈ سنز پبلشرس، کلکتہ سے ہوئی۔ اس مطبع کے مالک خیال کے دوست شائق احمد عثمانی تھے جنھوں نے کتاب ہذا میں خیال کی زندگی کے حالات بھی رقم کیے ہیں۔ اس کا پورا نام ’’داستان اردو کا ایک دلچسپ باب مغل اور اردو‘‘ہے۔ یہ کتاب نامکمل ہے، اور بقول ناشر، خیال کی زیر تصنیف کتاب ’’داستان اردو‘‘ کا ایک باب ہے۔ مصنف کا پورا نام ادیب الملک نواب سید نصیر حسین خاں صاحب خیال لکھا گیا ہے۔ حالانکہ بہ لحاظ موضوع اس میں ایسی کوئی کمی نہیں جو گراں گزرے۔ ’’داستان اردو‘‘ کے نام سے بھی ایک کتاب چھپی تھی لیکن خیال پہ لکھے گئے مضامین، تبصروں یا حوالوں میں اس کا ذکر کہیں نہیں ملتا۔ ’’مغل اور اردو‘‘ کو ’’داستان اردو‘‘ کا حصہ کہہ کر پیش کیا جاتا رہا اور اردو تنقید و تحقیق کے سرمایے میں خیال سے متعلق بزرگوں کے خیالات اسی کتاب تک محدود رہے۔
مغل اور اردو
’’مغل اور اردو‘‘ 168 صفحات پر مبنی ہے۔ کتاب کے خاتمہ کے بعد دس صفحوں پہ ’مجمل فہرست مضامین داستان اردو از ادیب الملک نواب خیال مد ظلہ‘ کے عنوان سے اصل کتاب ’’داستان اردو‘‘ کا مکمل خاکہ درج کیا گیا ہے۔ شائق احمد عثمانی نے ’’مختصر سوانح ادیب الملک‘‘ کے عنوان سے سات صفحوں میں خیال کی سوانحی تفصیلیں پیش کی ہیں۔ اس کے بعد دو صفحوں پر رسالہ ’جادو‘، ڈھاکہ میں شامل خیال کی سوانحی تحریر ’تزک خیال‘ سے ’نسب نامۂ ادیب الملک‘ کے تحت چار شجرے پیش کیے گئے ہیں۔ صفحہ 10 سے 20 تک خیال کی شراکت سے علامہ جمیل مظہری کاظمی کا تحریر کردہ مقدمہ بعنوان ’بہ نام خدائے زباں آفریں‘ شامل ہے۔ ان دونوں تحریروں میں تاریخ مئی 1933ء درج ہے۔ اس مقدمہ کے کچھ حصے خود خیال نے لکھے تھے۔ ’’مغل اور اردو‘‘ کی اشاعت کا بیان کرتے ہوئے جمیل مظہری فرماتے ہیں کہ جب آغا حشر کاشمیری اور خیال کے درمیان رسم و راہ قائم ہو گئی تو ان دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اول الذکر کے ڈراموں کا انگریزی ترجمہ کیا جائے اور اس غرض سے ایک کمیٹی تشکیل کی جائے۔ اسی طرح خیال کی ’’داستان اردو‘‘ کی اشاعت کا بھی نظم کیا جائے۔
’نواب صاحب اردو کے بہترین انشا پرداز تھے اور جب کوئی ان سے ملنے جاتا تو وہ اپنے نثری شہ پاروں کو اسی ذوق و شوق سے سناتے جس طرح شاعر اپنی غزلوں کو سناتا ہے۔ ہر جملے پر لوگ داد دیتے اور نواب صاحب موصوف کی باچھیں کھل جاتیں۔ استاذی حضرت وحشت بھی اکثر تشریف لاتے اور خیال صاحب کی اس عادت سے بہت بور ہوتے لیکن خندہ پیشانی سے سہتے رہتے اور داد دیتے رہتے۔ ایک ملاقات کے دوران وہ، آغا حشر اور مولانا شائق احمد عثمانی، مالک عصر جدید پریس یکجا ہوئے اور باہمی مشورے سے نواب خیال کی ’’داستان اردو‘‘ کے پہلے باب ’’مغل اور اردو‘‘ کو کتابی شکل میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مولانا شائق نے اس کی طباعت اور اشاعت کی پوری ذمہ داری قبول کی۔ کتاب چھپی اور شائع ہوئی۔ اس کا مقدمہ لکھنے کا شرف مجھے سونپا گیا۔ مقدمہ میرے نام سے جو اس کتاب میں شائع ہوا تھا کچھ میرا اور کچھ نواب صاحب کا لکھا ہوا تھا۔‘ (منثورات جمیل مظہری 1991، 389-90)
اسی سلسلے میں ایک اور وضاحت بھی موجود ہے کہ 1916ء میں اردو کانفرنس، منعقدہ لکھنؤ کی صدارت کے دوران انھوں نے جو خطبہ پیش کیا تھا وہ ’’داستان اردو‘‘ کا مکمل خلاصہ تھا، اور یہ وہی مقالہ ہے جس کی اشاعت اس کتاب کی صورت میں عمل میں آئی۔ در اصل یہ وہی مقالہ نہیں ہے بلکہ خیال نے کتابی صورت میں اس کی اشاعت کے لئے کئی ترامیم و اضافے کیے تھے۔ ان کا یہ بیان نیشنل لائبریری، کلکتہ میں محفوظ اس کتاب کے مسودہ کے ساتھ منسلک ہے۔ ہاں، علامہ جمیل مظہری نے اس خطبہ کے کچھ حصوں کو اپنی تعارفی تحریر میں شامل کیا ہے۔ انھوں نے جو اقتباسات پیش کیے ہیں ان کے موضوعات کا تعلق ان عوامل سے ہے جو خیال کی تحریروں کے محور رہے ہیں۔
’’مغل اور اردو‘‘ کی ابتدا امیر تیمور سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد کے ذیلی ابواب میں مہابلی جی اور اردو، جہانگیر اور اردو، نور جہاں اور اردو، خرم اور اردوئے معلی، دارا شکوہ اور اردوئے معلی، عالمگیر اور اردوئے معلی، زیب النسا اور اردوئے معلی، بہادر شاہ اول اور اردوئے معلی، فرخ سیر اور اردوئے معلی، طفل اردو کا مکتب، محمد شاہ اور اردوئے معلی، اردوئے معلی کی پہلی نثر، احمد شاہ اور اردوئے معلی، عالمگیر ثانی اور اردوئے معلی، شاہ عالم اور اردوئے معلی، جہاندار شاہ اور اردوئے معلی، شہزادہ سلیمان شکوہ اور اردوئے معلی، اکبر ثانی اور اردوئے معلی، بہادر شاہ اردوئے معلی، اور بہادر شاہ 1856ء تک شامل ہیں۔ آخری دو ابواب میں خیال نے غیر مسلم ادبا و شعرا کے ساتھ ساتھ فورٹ ولیم کالج، سائنٹفک سوسائٹی اور انگریزی تعلیم کو بھی اپنا موضوع بنایا ہے۔ یہ ایک عام تصور ہے کہ ’’مغل اور اردو‘‘ کا اسلوب مسجع و مقفی ہے اور اس میں مولوی محمد حسین آزاد کی ’’آب حیات‘‘ کا اسلوب نگارش اپنا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ خیال اس معاملے میں بِہار کے آزاد ہیں۔ حالانکہ پوری کتاب میں چند ہی عبارتیں ایسی ہیں جنھیں مسجع و مقفی کہا جا سکتا ہے وگرنہ حاوی اسلوب خطیبانہ اور ناصحانہ ہے۔ زبان و بیان کے معاملے میں یہ آزاد سے الگ ایسے اسلوب پر مبنی ہے جو خیال سے ہی مختص تھا۔ یہ نہ تو تنقیدی کتاب ہے نہ ہی تحقیقی سرمایہ۔ اس کتاب کے بعض اجزا تاریخی تسامحات کی وجہ سے قابل گرفت قرار دیے گئے ہیں۔ تاہم اس کا اختصاص یہ ہے کہ خیال نے اسے زبان اردو کی تاریخ کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس کی ثقافتی عظمت و اہمیت کے بیان اور معاصر حالات میں اس کے کردار کو نمایاں کرنے کے لئے لکھا تھا۔ چونکہ یہ مجوزہ ’’داستان اردو‘‘ کے ایک باب کی حیثیت رکھتی ہے اس لئے ’’داستان اردو‘‘ کی روشنی میں ہی اس کا مطالعہ سودمند ثابت ہو سکتا تھا۔
داستان اردو
خیال کے انتقال اور ’’مغل اور اردو‘‘ کی اشاعت کے چند برسوں کے بعد 1945ء میں ایک کتاب ’’داستان اردو‘‘ ادارۂ اشاعت، حیدر آباد سے شائع ہوئی جس میں ’’مغل اور اردو‘‘ کی اشاعت کا بھی ذکر ہے، اور یہ باب بھی بالاجمال اور جا بجا بعض تبدیلیوں کے ساتھ شامل ہے۔ اس میں پیش کردہ تفصیلوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ خیال کی کوئی مستقل کتاب شائع نہیں ہوئی۔ خیال ’’داستان اردو‘‘ کے نام سے ایک بسیط کتاب لکھ رہے تھے یا لکھ چکے تھے جو زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوئی البتہ اس کے بعض اجزا رسائل میں شائع ہوئے ہیں۔ اس کا ایک حصہ ’’مغل اور اردو‘‘ کے نام سے چھپ گیا ہے۔ (داستان اردو 1945، 4) یہ بیان کئی جگہ ملتا ہے کہ انھوں نے ’’داستان اردو‘‘ کے نام سے کتاب لکھنے کے لئے کوئی بڑا خاکہ بنایا تھا۔
مختلف رسائل میں موجود داستان اردو کے اجزا ’’مغل اور اردو‘‘ یا ’’داستان اردو‘‘ کا تعلق لکھنؤ کی کانفرنس میں خیال کے صدارتی خطبے سے ہے۔ وہ خطبہ خیال فہمی کے معاملے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس میں بیان کردہ حصوں کو ہی انھوں نے بعد ازاں شرح و بسط کے ساتھ ’’مغل اور اردو‘‘ کی اشاعت سے قبل ’’داستان اردو‘‘ کے مختلف ابواب کی صورت میں شائع کروایا تھا۔ اس کانفرنس کے انعقاد کے کم و بیش پندرہ برسوں کے بعد ’’مغل اور اردو‘‘ کی اشاعت ہوئی تھی لیکن اس سلسلے کے مضامین اس وقفے میں شائع ہوتے رہے۔ محولہ بالا کانفرنس کی تفصیل ماہنامہ ’’العصر‘‘ (مدیر پیارے لال شاکر) کے سال 1917 کی جلد ۶ نمبر ۱ میں ’’لکھنؤ کا قومی ہفتہ‘‘ کے عنوان سے درج کی گئی تھی۔ خیال کے اس خطبہ کے سلسلے میں یہ بیان موجود ہے کہ وہ گرچہ نہایت طویل تھا لیکن زبان اردو کے متعلق قیمتی معلومات کا ایک ذخیرہ بھی تھا۔ یہ محض خطبہ نہ تھا بلکہ اسے اگر زبان اردو کی ایک مستقل تاریخ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔ (1917, 3-9) یہ صحیح معنوں میں تاریخ نہیں ہے لیکن اسے زبان کی ثقافتی تاریخ اور عصر حاضر میں لسانی سیاست پر تبصرہ کہنا مناسب ہے۔ اسی تحریر میں مدیر کے ذریعہ یہ اعلان بھی ہے کہ یہ خطبہ ’’العصر‘‘ میں شائع کیا جائے گا۔ خیال نے خود ہی تصحیح کے بعد اشاعت کے لئے ’’العصر‘‘ کو ایک نسخہ بھیجا بھی تھا۔ اس کے بعد کے تین شماروں (العصر، جلد ۶ نمبر ۲، ص 57 تا 70؛ جلد ۶، نمبر ۳، ص 133 تا 145، اور جلد ۶، نمبر ۴،ص 173 سے 190) میں ’داستان اردو‘ کے عنوان سے وہ خطبہ شامل اشاعت بھی ہوا۔ ان اشاعتوں کا ذکر خیال سے متعلق تحریروں میں کہیں موجود نہیں ہے۔
’العصر‘ میں شائع ’’داستان اردو‘‘ کے اجزا کی تفصیل درج ذیل ہے:
’العصر‘، فروری 1917۔ جلد۶، نمبر ۲۔ عنوان: داستان اردو یعنی خطبۂ صدارت، اردو کانفرنس، منعقدہ لکھنؤ، 1916۔ ص 57 تا 70۔ اسی شمارے میں پروفیسر محفوظ الحق کا مضمون ’نواب نصیر حسین خان صاحب خیال‘ بھی شامل اشاعت ہے۔ یہ خیال کی شخصیت پہ لکھا گیا پہلا مضمون ہے۔
’العصر‘، مارچ 1917۔ جلد ۶، نمبر ۳۔ عنوان: داستان اردو۔ ص 133 تا 147۔
’العصر‘، اپریل 1917۔ جلد ۶، نمبر ۴۔ عنوان: داستان اردو۔ ص 173 سے 190۔
’’مسٹر چیر مین، عزیزو اور دوستو‘‘ سے شروع ہونے والے اس خطبہ کی آخری قسط ان الفاظ پہ ختم ہوتی ہے:
’صاحبو، یہ چار ہزار برس کی داستان، جو کومیڈی اور ٹریجیڈی دونوں کا مرقع تھی، آج آپ کے سامنے پیش کر دی گئی ہے! ہماری حکایت تمام ہوئی اور اب آنے والے اس وقت کا قصہ چھیڑیں گے اور پھر آپ دل لگا کر سنیں گے! جس دلدہی و صبر کے ساتھ آپ نے اس دکھڑے کو سنا، میں اس کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا اور چلتے چلتے مقدس و برگزیدہ بودھ کی زبان سے بس اتنا اور کہے جاتا ہوں کہ دھرم کرو، دھرم کرو، اردو کا سنکھ پھونکو اور اردو کی دُند مچاؤ! اور بس!‘ (داستان اردو: پہلی قسط، 190)
یہ واحد رسالہ تھا جس نے خیال کے اس خطبۂ صدارت کے مکمل متن کی اشاعت کی تھی۔ اسی خطبہ کے کچھ حصے مزید تفصیلات کے ساتھ مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ’’مغل اور اردو‘‘ بھی اسی کا ایک جز ہے جسے خیال نے حذف و اضافہ کے ساتھ الگ سے کتابی صورت میں شائع کروایا تھا۔ اس داستان کا ایک بڑا حصہ ’’سہیل‘‘ (مدیر رشید احمد صدیقی)کے پہلے شمارہ بابت جنوری 1926ء میں بھی ’داستان اردو‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ ’’العصر‘‘ میں خطبہ کی اشاعت کے آٹھ برسوں کے بعد ’’سہیل‘‘ میں شائع ’’داستان اردو‘‘ کا تعلق ہندوستان کی ان قدیم لسانی روایتوں سے ہے جنھوں نے بقول خیال اردو کی پیدائش اور نشو و نما کے لئے زمینیں تیار کیں۔ ’العصر‘ میں شائع خطبہ ’’مغل اور اردو‘‘ اور ’’داستان اردو‘‘ کے مختلف اجزا کی تلخیص کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے ہی بعض حصے ترمیم و اضافوں کے ساتھ ’’لسان الملک‘‘ یا دوسرے رسائل میں شائع ہوتے رہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا ’سہیل‘ میں شامل اشاعتوں کا تعلق ہندوستان کے قدیم زبان و ادب سے تھا جن میں خیال نے ہندوستان میں آریوں کی آمد سے رامائن اور مہابھارت تک کی ادبی صورتحال پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ متذکرہ رسائل کے ساتھ جن دیگر رسائل میں خیال کی تحریروں کی دریافت کر سکا ہوں ان میں اسی سلسلے کا ایک مضمون ’’سنسکرت ادب‘‘ ’اولڈ بوائے‘ میں 1927ء میں شائع ہوا تھا۔ ادارتی نوٹ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ’’اردو دکن میں‘‘ (یا، اردو کا دوسرا دور) رسالہ ’لسان الملک‘ میں شائع ہو چکا ہے، رسالہ ’سہیل‘ میں بھی اس کے دو ابواب شائع ہوئے ہیں، اور یہ مضمون اسی کڑی کی تکمیل کرتا ہے (سنسکرت ادب 1927, 7)۔ اداریہ کے الفاظ ہیں کہ
’’ہم … شائقین سے ملتمس ہیں کہ وہ ہمارے ادیب الملک کی سحر نگاری پر بطور خاص نظر کریں اور شکنتلا کے سے ناٹک کے خلاصہ کو پڑھ کر ہماری زبان کے اس کالیداس کے ادب و انشا پر سر دھنیں‘‘ (7)
مضامین کا یہی سلسلہ رسالہ ’ادب‘، لکھنؤ، کے تین مختلف شماروں ؛جلد ۲، نمبر ۱۱ بابت اگست 1930ء (ص ۷ تا ۶۱)؛ جلد ۲، نمبر 13، بابت اکتوبر 1930ء (ص ۸ تا ۳۱) اور جلد۳، نمبر ۱، بابت جنوری 1931ء (ص 135 تا 136) میں ’’داستان اردو‘‘ کے عنوان سے شامل اشاعت ہے۔ اس رسالہ میں مرتب یا مدیر کی حیثیت سے سید اعظم حسین کا نام درج ہے جبکہ جنوری 1931ء اور اس کے بعد کے شماروں میں مدیر و نگراں کی حیثیت سے سید انور حسین آرزو اور مدیر مسئول کی حیثیت سے سید اعظم حسین کے نام درج ہیں۔ خیال کے سلسلے میں لکھی گئی تحریروں میں ان مضامین کا ذکر موجود نہیں ہے۔ مضمون کے عنوان ’’داستان اردو‘‘ کے ساتھ ذیلی عنوانوں میں بالترتیب بودھ مَت، جین مَت اور سنسکرت، 543 قبل مسیح تا ہزار عیسوی؛ ادب سنسکرت، اور آریا بَرَن (ورن) لکھا ہے۔ پہلی اور دوسری قسطوں میں مضمون سے پہلے سید مجتبیٰ حسین خاں کا نوٹ شامل ہے جس میں انھوں نے موضوع کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے خیال کے سلسلے میں یہ لکھا ہے کہ اسلامی بے تعصبی کی مثال قائم کرتے ہوئے سنسکرت ادب کا جتنے ادب و لحاظ کے ساتھ انھوں نے ذکر کیا ہے اس کی مثال مسلمان اہل قلم میں برائے نام ہی ملتی ہے۔ انھوں نے یہ صراحت بھی پیش کر دی ہے کہ خیال کی مجوزہ کتاب ’’داستان اردو‘‘ کے اولین دو ابواب ’’سہیل‘‘ میں شائع ہو چکے ہیں۔
دنیائے ادب بہ مسرت سنے گی کہ ملک کے بہترین ادیب نواب سید نصیر حسین خان صاحب خیال کی تازہ تصنیف داستان اردو، جس کی کافی زیادہ شہرت ہو چکی ہے، اب قریب الختم ہے۔ اس نادر کتاب کے اول دو باب، غیر آریا و آریا، جس میں ان کی زبان و ادب کا نہایت عالمانہ و فلسفیانہ طور پر ذکر کیا گیا ہے، علی گڑھ کے مشہور رسالہ ’’سہیل‘‘ میں شائع ہو چکے ہیں۔ اس داستان کا تیسرا نام بودھ مت، جین مت اور سنسکرت ہے۔ اس بیان کی ایک نقل ہمیں ملی ہے جسے بہ فخر ہم رسالہ ادب میں شائع کرتے ہیں۔ (داستان اردو: دوسری قسط 1930، 7)
’’سہیل‘‘ میں یہ مضمون ادارتی نوٹ کے ساتھ شائع ہوا تھا۔
وہ تمام رسائل جن تک میری رسائی ہو سکی ان میں ایک اور اہم رسالہ ’’لسان الملک‘‘ ہے جو دلاور گنج، حیدرآباد، دکن سے سید محمد ضامن کنتوری اور سید منظر علی اشہر کی ادارت میں شائع ہوا کرتا تھا۔ اس میں مضمون نگار کا مکمل نام ادیب الملک جناب نواب سید نصیر حسین خاں صاحب خیال لکھا ہے۔ اس میں شامل ’’داستان اردو‘‘ کی تفصیل درج ذیل ہے:
’لسان الملک‘، شمارہ بابت ماہ اکتوبر 1923ء۔
عنوان: داستان اردو۔ ذیلی عنوان: اردو کا دوسرا دور۔ صفحات ۳ تا 32۔
اس پہ مدیر کا نوٹ ملاحظہ فرمائیں:
’لسان الملک‘ کے اجرا کے وقت ہم نے اپنے محترم دوست سے اصرار کیا کہ وہ بھی اس رسالہ کو اپنے زور قلم سے سرفراز فرمائیں اور ہم ممنون ہیں کہ انھوں نے ہماری درخواست پر توجہ کر کے ’داستان اردو‘ کا ایک باب ہمیں مرحمت فرمایا۔ اس حصۂ داستان کا نام ’اردو کا دوسرا دور‘ ہے اور چونکہ اس دور کو دکھن سے خاص تعلق حاصل ہے، اس لحاظ سے اس کا ’لسان الملک‘ میں شائع ہونا بہت ہی موزوں ہے۔ اہل نظر اس مضمون کو بغور پڑھیں اور دیکھیں کہ اس میں اردو زبان کس رنگ میں جلوہ گر نظر آتی ہے۔‘ (داستان اردو 1923، 4)
اس مضمون میں دکن میں اردو کی ابتدا، عروج اور زوال کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ لیکن مضمون کے آخری حصے میں ’’مغل اور اردو‘‘ کا ایک حصہ بھی شامل کر دیا گیا ہے جس کا ذیلی عنوان ’اردو اپنے گھر میں ‘ ہے۔ ’’لسان الملک‘‘ میں شائع مضامین کے سلسلے اردو کے دوسرے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کتاب میں ’’العصر‘‘، ’’سہیل‘‘ اور ’’لسان الملک‘‘ میں شائع تمام مضامین شامل کر لیے گئے ہیں تا کہ مختلف وقتوں میں ان میں کی جانے والی تبدیلیوں کی پہچان کی جا سکے۔ یہ پہلو قابل غور ہے کہ ’’مغل اور اردو‘‘ کی اشاعت کے بعد جو چند نکتہ چینیاں ہوئی تھیں، ’’داستان اردو‘‘ ان سے محفوظ رہی اور اس حصے کو عموماً خیال کی انشا کا بہترین نمونہ بھی کہا گیا۔
’’ادب‘‘ میں شائع پہلا مضمون ’’نیرنگ خیال‘‘ (مدیر: حکیم محمد یوسف حسن) کے سالنامہ بابت دسمبر 1933ء کے شمارے میں بھی ’’داستان اردو کا ایک ورق‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ مضمون نگار کا مکمل نام جناب ادیب الملک نواب نصیر حسین صاحب خیال مصنف داستان اردو لکھا ہے۔ اس مضمون کا ذیلی عنوان ’بودھ مت، جین مت اور سنسکرت 543 ق م تا ہزار عیسوی‘ ہے۔ ’’نیرنگ خیال‘‘ کے ہی شمارہ بابت نومبر 1942ء میں سید علمدار حسین واسطی کے نام خیال کا ایک مکتوب بھی شامل اشاعت ہے۔ ماہنامہ ’’ساقی‘‘ (مدیر شاہد احمد دہلوی کے مئی 1934ء کے شمارے میں ’’داستان اردو کا ایک ورق‘‘ کے عنوان سے دو صفحات کا ایک مضمون موجود ہے جس کا ذیلی باب ’غیر آریا‘ ہے۔
(داستان اردو کا ایک ورق 1934) کتاب ’’داستان اردو‘‘ میں یہ سبھی حصے مختلف ابواب کی صورت میں شامل ہیں۔ چودھری محمد اقبال سلیم گاہندری نے غالباً انھی اشاعتوں کی بنیاد پر ’’داستان اردو‘‘ کو شائع کیا تھا لیکن انھوں نے ’’سہیل‘‘، ’’لسان الملک‘‘، ’’نیرنگ خیال‘‘، ’’العصر‘‘ اور ’’ادب‘‘ کی ان اشاعتوں کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ’’داستان اردو ‘‘ میں صفحات کی تعداد 150 ہے۔ کتاب میں صفحہ دو سے آٹھ تک پیش لفظ کے تحت سلیم گاہندری کی تحریر شامل ہے جس کے آخری حصے میں وہ لکھتے ہیں:
’اس سلسلے میں ہم یہ ظاہر کرنا مناسب خیال کرتے ہیں کہ نواب خیال کے دیگر علمی، ادبی اور تنقیدی مضامین کا ایک مجموعہ بھی زیر ترتیب ہے۔ بہت سے مضامین فراہم ہو چکے ہیں۔ اس بارے میں ارباب علم و ادب سے اور خصوصاً نواب خیال کے عزیز و اقارب سے گزارش ہے کہ ان کے پاس نواب صاحب کے جس قدر مضامین ہوں وہ از راہ کرم ہمارے پاس بھیج دیں۔‘ (داستان اردو 1945، 8)
شاد بک ڈپو نے بھی خیال کے مکتوبات کی اشاعت کی منصوبہ بندی کی تھی۔ مگر یہ منصوبے، منصوبے ہی رہ گئے اور زیادہ تر چیزیں ضائع ہو گئیں۔ جو دستیاب ہو سکیں وہ نقی احمد ارشاد نے پیش کر دی ہیں۔ لیکن ان معاملوں سے یہ علم ہوتا ہے کہ خیال کے انتقال کے چند برسوں بعد تک ان کی تحریروں کے قدردانوں کی اچھی تعداد موجود تھی۔ خیال کا منصوبہ تھا کہ وہ داستان اردو کے عنوان سے اردو کے ارتقا اور عروج و زوال کی ایک مفصل تاریخ قلمبند کرتے اور دستیاب تفاصیل سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ مکمل بھی ہو چکی تھی۔ اس سلسلے میں یہ امر توجہ طلب ہے کہ وہ اگر کسی باب کو مکمل کر لیتے تھے تو کسی نہ کسی رسالے میں اسے شائع بھی کروا دیتے تھے۔ مطبوعہ ’’داستان اردو‘‘ اس لحاظ سے نامکمل ہے کہ اس میں وہ تمام تحریریں شامل نہیں ہو پائیں۔
خیال کی گوناگوں مصروفیات نے انھیں اتنا موقع نہ دیا کہ ان کی حیات میں ہی یہ کتاب شائع ہو پاتی۔ احباب کے اصرار اور فرمائش پر محض اس کے ایک باب، جو اس کتاب کا کلیدی باب بھی ہے، مغل اور اردو کو کتابی صورت میں شائع کرنے کے لئے تیار ہوئے۔ ان کے ایک مکتوب بنام پروفیسر محمد مسلم عظیم آبادی، مورخہ ۲۱ جون 1933ء سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’مغل اور اردو‘‘ کی اشاعت ان کے لئے کتنی اہم تھی۔
’داستان اردو کا ایک باب مغل اور اردو بھیجا جاتا ہے۔ اس کے مطالعہ کے بعد قلم و زبان سے اس کی ’قصیدہ خوانی‘ کی چنداں ضرورت نہیں۔ ضرورت اور اردو کی بڑی خدمت یہ ہے کہ بہار میں اس کی کافی شہرت ہو اور وہاں اس کی خاطر خواہ اشاعت کی جائے۔ اس کے علاوہ یہ چیز جب تک وہاں کے اسکولوں میں رائج نہ ہو گی، بہار کا مذاق اس طرح جلد درست نہیں ہو سکتا، ایک عرصہ سے آپ جس کی فکر کر رہے ہیں۔ غرض میں کچھ نہیں جانتا۔ یہ چیز آپ کی ہے اور اس کے پبلشر صاحب جنھوں نے اس کی اشاعت میں کمال محنت و صرف سے کام لیا ہے، آپ کے بھائی، یعنی بہاری ہیں اس لئے ان کا خیال و لحاظ کیجیے اور اپنے تدبر و اثر سے پٹنہ یونیورسٹی تک اسے پہنچا کر وہاں کی درسگاہوں میں اسے داخل کرا دیجیے۔ ‘ (نصیر حسین خاں خیال کے خطوط 1957، 478)
’’ندیم‘‘ کے مختلف شماروں اور متذکرہ دونوں تصانیف کے مطالعہ سے ہی پتہ چلتا ہے کہ داستان کے بعض حصے مختلف رسائل میں شائع ہوئے اور ایک حصہ غیر شائع شدہ رہا اور دستبرد زمانہ سے محفوظ نہ رہ سکا۔ ان میں سے بعض مضامین انھوں نے ارژنگ کے نام سے شائع کرائے۔ ان کے انتقال کے بعد خاندان تو اجڑ ہی گیا، ساکنان عظیم آباد و کلکتہ نے بھی ان جواہر پاروں کی قدر نہ کی اور نہ ہی ان کی حفاظت کا انتظام کیا۔
’’داستان اردو‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے مضامین کے علاوہ دیگر مطبوعہ مضامین میں سے صرف چار مضامین ایسے ہیں جنھیں وثوق کے ساتھ مجوزہ ’’داستان اردو‘‘ (مکمل) کا حصہ مانا جا سکتا ہے۔ ان میں ’’ہماری شاعری‘‘ کی اشاعت ’’جامعہ‘‘، علی گڑھ کے جنوری 1932ء کے شمارے میں، ’’ہماری زبان‘‘، ’’نادر اتحاد‘‘ اور ’’ہماری عورتیں‘‘ کی اشاعت ’’ندیم‘‘، گیا، میں بالترتیب اگست، اکتوبر اور دسمبر 1934ء میں ہوئی تھی۔ اسی سلسلے کی ایک تحریر نقی احمد ارشاد کی کتاب میں بھی شامل ہے جس پہ انھوں نے ’’داستان اردو کا ابتدائی باب‘‘ کی سرخی لگائی ہے۔ یہ ’’ہند کا جغرافیہ‘‘ ہے۔ اس سلسلے میں چراغ حسن حسرت نے خیال سے اپنی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’ایک دن میں ان سے ملنے گیا۔ بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے میں نے پوچھا ’’کوئی نئی کتاب شروع کی ہے؟‘‘ کہنے لگے ’’بھئی کہاں کی کتاب۔ امیر نواب کو اردو پڑھانا چاہتا ہوں۔ کوئی ڈھب کی کتاب نہیں ملتی۔ اس کے لئے ایک چھوٹا سا رسالہ لکھا ہے۔ ‘‘ کوئی سو ڈیڑھ سو صفحات کی کتاب تھی۔ ہند اور اہل ہند اس کا نام رکھا تھا۔ اس میں ہندوستان کے جغرافیہ کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کے لباس، رسم و رواج، خیالات و عادات اچھی خاصی تفصیل کے ساتھ بیان کر دیے گئے تھے۔ اس کے چند اجزا میں نے ’’آفتاب‘‘ میں بھی چھاپے تھے۔‘ (حسرت 1939، 42)
ہندوستان کے جغرافیہ سے متعلق اسی کتاب کا ایک جز نقی احمد ارشاد نے اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔ اس لحاظ سے اسے داستان اردو کا باب نہیں کہا جا سکتا۔ خیال نے آریوں کی ہندوستان میں آمد سے اس داستان کی ابتدا کا خاکہ تیار کیا تھا تو ممکن ہے کہ جغرافیہ والا حصہ بھی شامل کرنے کا ارادہ رہا ہو۔ لیکن اس کی زبان اور اس کا لب و لہجہ ایسا نہیں کہ اسے داستان کا حصہ تصور کیا جائے۔ یہ خیال کے اوائل عمری کی تحریر ہے۔
خیال کی مطبوعہ تحریروں اور متذکرہ دونوں کتابوں کی روشنی میں ’’داستان اردو‘‘(مکمل )کی ترتیب کا خاکہ تیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ خیال کے ذہنی رو کو سمجھنے میں بھی معاون ہو گا۔ ’’مغل اور اردو‘‘ کے آخری حصے میں موجود مجمل فہرست کے مطابق رسالہ’’جادو‘‘ میں شامل سوانح ’’تزک خیال‘‘ کے کچھ حصے جن کا تعلق عظیم آباد سے ہے، مجوزہ کتاب کے ۳۲ ویں باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ’’ندیم‘‘ میں شائع متذکرہ مضامین میں ’ہماری زبان‘، ’نادر اتحاد‘، ’ہماری عورتیں‘ اور ’ہماری شاعری‘ بھی اسی ۳۲ ویں باب کے حصے ہیں۔ ان کا تعلق سر زمین بہار میں اردو کے ارتقا اور فروغ کے ثقافتی پہلوؤں سے ہے۔ مجمل فہرست کے مطابق مضمون ’نادر اتحاد‘ داستان کا 24 واں باب ہے، اور ’ہماری عورتیں‘ کی حیثیت ۶۲ ویں باب کی ہے۔ متذکرہ ابواب کے علاوہ مجمل فہرست کا تیسرا باب، جس میں سامی نسلوں اور سامی زبانوں کے ذکر کے ساتھ ہی سریانی، عبرانی کے عروج و زوال، ہند، مصر و عرب اور شام کی تاریخوں پر نظر ڈالی گئی ہے ؛ اور آٹھواں باب جس میں مصر و بابل اور فلسطین و شام اور دربار حضرت سلیمانؑ تک رسائی کا تذکرہ کیا گیا ہے، ان کے کسی رسالے میں شائع ہونے کی شہادت نہیں ملی لیکن ’’داستان اردو‘‘ میں یہ اجمالاً موجود ہیں۔ اس میں جو بعض حصے ’’مغل اور اردو‘‘ کے علاوہ شامل ہیں وہ تقریباً تین چوتھائی حصے کی تلخیص ہیں لیکن ان میں وہ ترتیب نہیں جو مجمل فہرست میں موجود ہے۔
مجوزہ ’’داستان اردو‘‘ (مکمل)کے پہلے اور دوسرے باب میں ہندوستان کے اصل باشندوں اور آریوں کی آمد، ان کی زبان اور تمدن کو موضوع بنایا گیا ہے جو ’’داستان اردو‘‘ میں اختصار کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں مذہب اور ادب کا بھی ذکر ہے جس میں رامائن اور مہابھارت کی کہانیاں شامل ہیں (پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ’داستان عجم‘ کے تعارف میں ان حصوں سے ہی اقتباسات پیش کیے ہیں جو ’سہیل‘ میں شائع ہوئے تھے)۔ تیسرا باب بودھ مت اور پراکرت کے عروج اور سنسکرت کے زوال پر مبنی ہے۔ اس کے دو حصے ’ادب‘ میں شائع ہوئے تھے۔ اس مکمل باب میں سامی نسلوں اور زبانوں، سریانی اور عبرانی کے عروج و زوال، مصر کے یہود کے حالات، علمائے بنی اسرائیل اور پنڈتوں کے موازنہ کے ساتھ ہند و مصر اور عرب و شام کی تاریخ بھی اجمالاً شامل ہے۔ ’داستان اردو‘ میں یہ حصہ قدرے اختصار کے ساتھ موجود ہے۔ چوتھے باب میں برج بھاشا کے آغاز کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ پانچواں باب ژند اور سنسکرت کے تعلقات کو روشن کرتا ہے جبکہ اس کے بعد سقراط، افلاطون اور ارسطو کی تعلیمات اور پھر مذہب زردشت کا بیان ہے۔ یہ حصہ بھی ’’داستان اردو‘‘ میں شامل ہے۔ ساتویں باب میں بھی یونان کے علوم و فنون کا تذکرہ ہے اور آٹھویں باب میں مصر، بابل، فلسطین اور شام کے ساتھ ہندستان کے تعلقات اور ان کی زبانوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ نویں سے بارھویں باب تک ہندیوں اور ساسانیوں کے تعلقات، عرب و فارس، عربی ہندی اتحاد، عربی جمہوریت، خلافت و بادشاہت، عربوں کی ہندستان میں آمد اور تغیرات زبان کو موضوع بنایا گیا ہے۔ تیرہواں باب سندھ میں مسلمانوں کی آمد اور تمدن کے امتزاج پر مشتمل ہے جبکہ چودہواں باب خلفائے دمشق اور عربی و فارسی کی ہندستان میں مقبولیت کا جائزہ پیش کرتا ہے۔ پندرھویں باب میں فارسی، ترکی، تاتاری اور بھاشا کے ربط کا بیان ہے۔ سولھویں اور سترھویں باب میں ترکوں، تغلقوں اور لودھیوں کی مجلسوں میں زبان کی بدلتی صورتوں کا خاکہ شامل ہے اور گرو نانک و کبیر داس کی زبانوں کا حال بھی۔
یہ تمام ابواب کسی نہ کسی شکل میں ’’داستان اردو‘‘ میں شامل کیے گئے ہیں۔ عناوین سے تو ظاہر ہے کہ یہ واقعی ایک بسیط علمی کام کی منصوبہ بندی تھی۔ لیکن خیال اجمال کے ساتھ ان سب موضوعات پر سرسری نظر ڈالتے گزر جاتے ہیں۔ ان ابواب میں ہندوستان اور اس سے کسی نہ کسی صورت متعلق ان مختلف اقوام کی ثقافت اور زبان کا بالاجمال تذکرہ ہے جو خیال کے مطابق زبان اردو کے لئے زمینیں ہموار کرنے میں معاون ثابت ہوئیں۔ مجمل فہرست کے اٹھارھویں باب بعنوان ’اردو‘ کا موضوع بھاشا کا کینچلی بدل کر نکھرنا، راشٹر بھاشا فارسی کا قالب بدلنا اور اردو کا خطاب اختیار کرنا ہے۔ مغلیہ عہد اور دکن میں اردو کی صورتحال سے انیسویں سے اکیسویں اور پچیسویں باب میں گفتگو کی گئی ہے۔ اس حصے میں بادشاہوں اور والیان ریاست کی اردو نوازی اور اردو پروری کا محاکمہ پیش کیا گیا ہے اور اس تصور سے متعلق استدلال بھی کہ اردو گلیوں کوچوں اور بازاروں میں ہی نہیں، شاہان ہند اور والیان ریاست کے درباروں اور مجلسوں میں بھی پلی اور بڑھی اور اسی پرورش کے نتیجے میں وہ اس لائق بنی کہ چاروں جانب ’اردو کا ڈنکا بجنے لگا‘۔
خیال نے اس کلیدی حصے میں یہ صراحت پیش کی ہے کہ مغل، دکنی، بہمنی، نظام شاہی، عادل شاہی، قطب شاہی سلطنت کے علمی و ادبی ذوق و شوق کی وجہ سے، ان کے منہ لگ کر، ان کےد امان تربیت میں پروان چڑھ کر اردو نے اپنی جوانی کی دھوم مچائی۔ اس کے بعد کے دو ابواب بہار و بنگال میں اردو کے تدریجی فروغ و ارتقا اور ان ثقافتی، تہذیبی پہلوؤں کی تصویریں پیش کرتے ہیں جن میں یہ پروان چڑھی، اور جنھیں خود اس سے جلا ملی۔ مختلف گہواروں میں نشو و نما پاتی، اٹھکھیلیاں کرتی اردو جب بالیدہ ہوئی تو قومی اتحاد کی علامت بن گئی۔ اس کی صراحت 26 ویں باب میں ہے۔ 27 ویں سے 31 و یں باب تک انگریزی اقتدار، اردو زبان کے ساتھ اس کے برتاؤ، ان کے تعلیمی نظام، فورٹ ولیم کالج کے قیام، سر سید احمد خاں کی تگ و دو اور اردو اکیڈمی علی گڑھ کے قیام کا ذکر ہے۔ اس کے بعد کے دو ابواب اردو کے زوال کی تصویریں پیش کرتے ہیں اور آخری باب میں اردو کے بکھرتے وقار اور گرتے معیار کو سنبھالنے کے لئے عزم پیہم، اور اردو کی حیات نو کے لئے تحریک کو موضوع بنایا گیا ہے۔
مجمل فہرست مضامین ’’داستان اردو‘‘ کے مطابق پہلے پانچ ابواب قدیم تاریخ ہند، آریوں کی ہند میں آمد، بودھ مت، جین مت، اور ہند کی پراکتیں مختلف رسائل میں شائع ہو چکے تھے۔ یہ کتاب ’’داستان اردو‘‘ میں بھی شامل ہیں۔ پانچواں باب ’ایران و زردشت‘ کا کچھ حصہ چھپا تھا لیکن اس پر ایک مفصل مضمون خیال کے انتقال کے بعد ’نگار‘ میں شائع ہوا۔ مجمل فہرست کے اس کے بعد کے ابواب یونانیوں کا عروج، موجودہ افغانستان، ہند کے ساتھ دنیا کے تعلقات، ہندیوں اور قدیم فارسیوں نیز ساسانیوں کے تعلقات، ملک عرب، عربی مسلمانوں کا ہندیوں سے برتاؤ، عربی جمہوریت، خلافت و بادشاہت، مسلمان سندھ میں، خلفائے دمشق کا دربار، قدیم ترک و تاتار، ترک ہند میں، ہند میں مختلف مذہبوں کا خروج، سے اردو تک، یعنی چھٹا سے اٹھارھواں باب ’’داستان اردو‘‘ میں شامل ہے۔ اس کے اجزا الگ سے رسائل میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔ انیسواں باب ’’مغل اور اردو‘‘ ہے۔ یہاں سے چوبیسویں باب تک اسی کا قصہ ہے۔ تئیسواں باب بہار میں اردو کے لئے وقف ہے۔ پچیسویں باب کا تعلق دکن سے ہے جو ’’مغل اور اردو‘‘ میں شامل نہیں ہے لیکن رسائل میں شائع ہو چکا ہے اور ’’داستان اردو‘‘ میں بھی شامل ہے۔ 23 ویں سے 34 ویں باب تک کے چند حصے بعد ازاں مختلف تبدیلیوں کے ساتھ رسائل میں شائع ہوئے تھے۔ ’’داستان اردو‘‘ میں شامل کیے گئے ابواب کسی ترتیب میں نہیں ہیں۔ جو مضامین جیسے ملے ہوں گے ان کی کتابت کروا دی گئی ہو گی۔ چودھری محمد اقبال سلیم گاہندری کے ذریعہ لکھے اس کے پیش لفظ میں بھی تاریخ کی غلطیاں موجود ہیں۔ بہر کیف، ’’مغل اور اردو‘‘ اور ’’داستان اردو‘‘ میں موجود یہ ابواب گرچہ کسی مخزن علوم کا خاکہ پیش کرتے ہیں لیکن خیال نے اپنی ذہنی ترنگوں سے قاری کو متعارف کرانے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ لہذا، ’’داستان اردو‘‘ (مکمل) کسی قسم کا لسانیاتی جائزہ، یا تذکرہ یا تاریخ محض نہیں ہے بلکہ اس کا موضوع وہ ثقافتی، تہذیبی حالات و معاملات ہیں جو اردو کے فروغ میں ممد ثابت ہوئے۔ یہ اس تہذیب کی تاریخ بھی ہے جو اردو کی بدولت مشترکہ ثقافت کا پیش خیمہ بنی، اور یہ اس زبان کا تہذیبی سفر بھی ہے جس کے لئے زمینیں مسلمانوں کے یہاں آنے سے قبل ہی تیار ہو چکی تھیں۔ مزید برآں، یہ خیال کی علمی دلچسپیوں کے ساتھ ہی ان کی اس ہنر مندی کا بھی ثبوت ہے کہ داستان کی ہی فضا میں سہی، انھوں نے کس طرح زبان اردو کو مختلف اقوام کی مدد سے نشو و نما پاتی دکھایا ہے۔
نیشنل لائبریری، کلکتہ میں ’’مغل اور اردو‘‘ کا قلمی نسخہ محفوظ ہے۔ یہ مخطوطہ کتب خانہ کو ان دنوں حاصل ہوا جب اس کا نام امپیریل لائبریری تھا۔ امپیریل لائبریری کے لائبریرین محمد اسداللہ کے ایما پر اسے کتب خانے کی زینت بنا گیا تھا۔ اس پہ تاریخ 27 جون 1923ء درج ہے۔ اس نسخہ سے علم ہوتا ہے کہ خیال خوش خط لکھا کرتے تھے۔ اوراق کی کل تعداد 89 ہے جن میں مختلف سائز کے کاغذات شامل ہیں۔ کہیں کہیں ورق کی دونوں جانب اور کہیں حاشیے پر بھی لکھا گیا ہے۔ اس مسودہ کے ساتھ خیال کا ایک نوٹ بھی شامل ہے:
’1916ء کے دسمبر میں بمقام لکھنؤ مجھے آل انڈیا اردو کانفرنس کے سالانہ اجلاس میں صدارت کا موقع ملا تھا۔ اس جلسے کے لئے جو ایڈرس لکھا گیا وہ بے حد مقبول ہوا۔ اس کے بعد مجھ پر برابر تقاضہ ہوتا رہا کہ اس خطبے پر، جو حقیقتاً اردو کی ایک تاریخ ہے، نظر ثانی کر کے اسے بصورت کتاب شائع کر دوں، لیکن عرصے تک مجھے اس کا موقع نہ مل سکا۔ آخر اس کی ترتیب کا خیال آیا ور اضافوں کے ساتھ اس کے چند باب قلم بند ہو گئے۔ بعض رسالوں میں وہ شائع ہوئے اور بہت پسند بھی کیے گئے۔ یہ چیز اب بہت آگے بڑھ گئی ہے اور اس کا نام ’داستان اردو‘ رکھا گیا ہے۔ اسی لئے کہ یہ حقیقتاً اردو کی ہزار سالہ تاریخ اور اس کی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ اسی سلسلے میں مغل اور اردو کا باب تحریر کیا گیا ہے …
اس ملک کا گو یہ دستور نہیں کہ کسی مصنف کی کوئی تحریر محفوظ کر دی جائے مگر حبیب مکرم جناب محمد اسد اللہ صاحب، لائبریرین، امپیریل لائبریری، کلکتہ کی فرمائش ہوئی کہ یہ مسودہ کتب خانہ میں بحفاظت رکھ دیا جائے کہ اس وقت اور آئندہ شوقینوں کو ہماری تحریر اور اس مسودے میں اصلاح و ترمیم کے دیکھنے کا موقع مل سکے۔
باب مغل اور اردو چوتھی جنوری 1923ء سے لکھنا شروع ہوا اور 25 فروری 1933ء کو ختم ہوا۔‘ (بھٹاچاریہ 1998، 292)
اس سے یہ حقیقت ظاہر ہو تی ہے کہ کانفرنس کے خطبہ سے الگ اسے ایک باضابطہ کتاب کی صورت عطا کی گئی تھی۔ مزید یہ کہ خیال نے 1916ء کی کانفرنس میں خطبہ کے لئے جس موضوع کا انتخاب کیا تھا، وہ تا حیات اس پہ غور و خوض کرتے رہے اور عمر کے آخری حصوں میں اس میں ہی ترامیم و اضافے بھی کرتے رہے۔
٭٭٭