مفلسی میں بھی محبت کو غنیمت جانا
ہم نے ہر طور عبادت کو غنیمت جانا
ہم کو عجلت تھی کہانی سے نکل جانے کی
خود کشی جیسی حماقت کو غنیمت جانا
عین ممکن ہے کہ اظہار پہ وہ چھوڑ ہی دے
ہم نے خاموش محبت کو غنیمت جانا
سازشی قتل سے بہتر تھا کہ لڑ کر مرتے
ہم نے لشکر سے بغاوت کو غنیمت جانا
دے بھی کیا سکتے ہیں اب لوگ سوائے اس کے
ہم نے در پردہ حقارت کو غنیمت جانا
میں ترے ہجر میں کچھ اور تو کر پایا نہیں
بس ترے ہجر میں وحشت کو غنیمت جانا
بھیک مانگی نہ گئی ہم سے محبت کی
گھٹ کے مرنے کی اذیت کو غنیمت جانا
کار میں دو نفوس ہونے کے باوجود خاموشی تھی۔ اور ابان کے فون کی رنگنگ نے ہی اس خاموشی کو توڑا تھا۔
ہاں بڈی بول۔۔۔۔۔۔ اس نے فون کان کو لگاتے ہی کہا۔ مگر اگلا بندہ اس پر خوب تپا ہوا تھا۔
کمینے!!! ” کیا تو بھول گیا ہے، کہ تجھے آج عاشی کو ایئر پورٹ سے پک کرنا ہے، یقیناً تو نے اس کے رہنے کا انتظام بھی اب تک نہیں کیا ہوگا۔”
ایسا کچھ نہیں ہے میرے دوست، میں کچھ نہیں بولا، ابھی اس کی فلائٹ میں دو گھنٹے ہیں اور جہاں تک بات اس کے رہنے کی ہے تو وہ میرے گھر رہے گی۔
تو دیکھ لے آغا جان تو مان جائیں گے، لیکن آنٹی کا مشکل لگ رہا ہے،مجھے نہیں لگتا وہ ایسے ____
کچھ نہیں ہوگا تو سب مجھ پر چھوڑ دے، چل اب فون رکھ اور بے فکر ہوجا۔۔۔۔۔۔
_______________
ماہی! میں نے جو کہا تھا وہ ہوگیا نا میرے بچے؟ آغا جان نے ماہین سے پوچھا، جو کچن کی طرف بڑھ رہی تھی۔
آغا جان آپ ٹینشن مت لیں۔ میں چچی اور زری کا سارا ضروری سامان لے آئی ہوں اور ان دونوں کے روم بھی نجمہ کے ساتھ مل کر سیٹ کروا چکی ہوں۔ آپ بے فکر ہو جائیں۔
بھائی کی کال آئی تھی وہ لوگ آتے ہی ہوں گے میں زری کے لئے سوپ بنانے جا رہی ہوں، آپ کو کچھ چاہیے؟
نہیں میرے بچے، مجھے کچھ نہیں چاہئے بس میری دونوں بچیاں خوش رہیں۔۔۔۔۔۔
________________
تم اندر جاؤ، اگر آغا جان میرا پوچھیں تو انہیں بتا دینا کہ مجھے کچھ ضروری کام تھا، اسی لیے جانا پڑا۔
وہ اسے اپنے گھر کے گیٹ کے پاس اتارتا ہوا بولا۔
لیکن مجھے پہلے امی کو دیکھنا ہے۔۔۔۔۔۔
وہ سمجھ گیا کہ وہ اپنے گھر جانے کی بات کر رہی ہے۔
چاچی اندر ہی ہیں اور اب تمہیں بھی یہیں رہنا ہے۔ اب جاؤ، وہ اسے ایک چھوٹا بیگ پکڑاتے ہوا بولا اور دوبارہ اپنی سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی زن سے اڑا لے گیا۔
اور وہ اندر کی طرف بڑھ گئی جہاں آغاجان ہال میں ہی موجود تھے۔
اسلام علیکم! بی بی جی آئیے نجمہ اس کے ہاتھ سے بیگ پکڑے اندر کی طرف لے آئی۔۔۔۔۔
او میری بچی آگئی، میں کب سے اپنے بچے کا انتظار کر رہا تھا۔ آغا جان نے اٹھتے ہوئے کہا۔
اور وہ جلدی سے آگے بڑھ کر آغاجان کے گلے لگ گئی۔
اب کیسا ہے میرا بچہ؟
میں بالکل ٹھیک ہوں آغا جان۔۔۔۔
آغا جان نے اسے اپنے ساتھ صوفے پر بٹھایا۔
ابان کہاں رہ گیا؟
انہیں کوئی ضروری کام تھا، اسی لیے وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔
اس لڑکے کے بھی کام ختم نہیں ہوتے۔۔۔۔۔
اتنے میں ماہی بھی آ گئی اور جھٹ سے اس کے گلے لگی۔
زری تم نے تو ہمیں ڈرا ہی دیا تھا۔ وہ اپنی ہی بولے جا رہی تھی۔
او ہو۔۔۔۔ لڑکی بس بھی کرو، بہن ابھی ہسپتال سے آئی ہے اور تم کیسے حوالدارنی بن گئی ہو۔
جاؤ بہن کو کمرے میں لے جاؤ اور اسے کچھ کھانے پینے کو دو۔
جی۔۔۔۔۔ آغاجان ماہی اسے لئیے اوپر کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔
________________
نہیں۔۔۔۔ ابان کیا تم دونوں پاگل ہو گئے ہو؟
میں ایسے کیسے۔۔۔۔ میرا مطلب ہے، اچھا نہیں لگتا، اور ویسے بھی تمہارے گھر والے کیا سوچیں گے؟ اور تو اور تمہاری بیوی کیا کہے گی؟ جب وہ مجھے تمہارے گھر میں دیکھے گی؟
عاشی صرف دو ہفتے کی بات ہے۔ اس کے بعد تو ویسے بھی تم اپنے پیا کے گھر سدھار جاؤ گی۔ اورمیں نہیں جاہتا کہ تم کسی ہوٹل میں ٹھہرو۔ اچھا نہیں لگتا یار، تم مجھے اپنا بھائی سمجھو اور بس اب تمہیں اپنے بھائی کے گھر سے ہی رخصت ہونا ہے۔
تم اگر اپنی ایک فیملی چھوڑ آئی ہو، تو یہاں تمہیں دو فیملی ملیں گئی۔ ایک مائیکا اور دوسری سسرال والی۔۔۔۔۔ وہ اس کا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے بولا۔
بھائی!!!! اتنے ہینڈسم لڑکے کو اپنا بھائی میں تو کبھی بھی نہ بناؤ۔۔۔۔۔ وہ چڑتے ہوئے بولی اور دونوں اس بات پر مسکرا دیئے۔۔۔۔۔
داغ دنیا نے دیے، زخم زمانے سے ملے
ہم کو تحفے یہ تمہیں دوست بنانے سے ملے
__________________
رات کے کھانے پر سب موجود تھے۔ سوائے ابان اور زری کے۔
بیٹا زری کو کھانا اس کے روم میں ہی بھجوا دو۔ احمد لغاری ماہی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔
ڈیڈ میں پہلے سے ہی زری کے لیے کھانا اوپر بھجوا چکی ہوں۔
اسلام علیکم! ابان کی آواز پر سب نے مڑ کر دیکھا، لیکن وہ اکیلا نہ تھا بلکہ اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی موجود تھی۔
اسلام علیکم! عاشی نے بھی سلام کیا۔
وعلیکم السلام بیٹا۔۔۔۔۔ آغا جان نے ہی بس سلام کا جواب دیا اور جب کہ باقی سب خاموش تھے۔
ماہی عاشی کو اپنے کمرے میں لے جاؤ۔
جی بھائی۔۔۔۔۔ ماہی آگے بڑھی اور عاشی کو لئیے اوپر اپنے کمرے کی طرف چل دی۔
یہ سب کیا ہے؟ آمنہ بیگم کو سب سے پہلے ہوش آئی۔
موم میں سب بتاتا ہوں وہ انہیں واپس چیئر پر بٹھائے اپنی چئیر کی طرف بڑھا۔
اور شروع سے لے کر آخر تک سب کو سچ بتا دیا۔
ٹھیک ہے پھر ہم اس کی رخصتی اپنے گھر سے ہی کریں گئے، وہ بھی ماہی اور زری کی طرح ہماری بیٹی ہے۔ احمد لغاری یہ کہہ کر کھانے کی ٹیبل سے جاچکے تھے۔۔۔
________________
آپ ابان بھائی کی دوست ہیں؟ ماہی نے عاشی سے پوچھا۔
جی ہاں۔۔۔۔ میں آپ کے ابان بھائی کی دوست ہوں۔ لیکن آپ کی ہونے والی بھابھی بھی ہوں۔
اس کی بات سن کر ماہی کو شوکڈ لگا، لیکن باہر کھڑی زری کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا اور اس میں اور سننے کی سکت نہ تھی اسی لیے بنا کچھ اور سنے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
زخم کب کا تھا درد اب اٹھا ہے
اس کے جانے کا دکھ اب ہوا ہے
میں تمہارے بھائی کے دوست فہد کی بات کر رہی ہوں۔
اچھا تو آپ فہد بھائی سے شادی کرنے والی ہیں۔ واؤ پھر تو بہت مزہ آئے گا، آپ کی اور ان کی شادی پر۔
کب ہے آپ کی شادی؟
ان 12 دنوں میں۔۔۔۔۔۔
اتنی جلدی۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی فیملی کہاں ہے؟ ماہی نے حیرانی سے پوچھا۔
فیملی۔۔۔۔ فیملی۔۔۔۔ اب تم لوگوں کے علاوہ میرے پاس اور کوئی رشتہ نہیں بچا وہ بجھے دل سے بولی۔
ہم آپ کی فیملی ہیں۔۔۔۔ ماہی اس کے گلے لگتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
________________
رابیعہ بیگم اپنے کمرے میں نماز ادا کر رہی تھیں۔ جب زری ان کے کمرے میں داخل ہوئی اور انہی کے پاس بیٹھ گئی۔
انہوں نے سلام پھیرا اور دعا کے لئے ہاتھ بلند کیے۔
امی پلیز بات کریں مجھ سے، آپ کی زری ایسے نہیں جی سکتی امی، پلیز کچھ بولیں امی، پلیز۔۔۔۔۔۔ اس کے رونے میں شدت آئی تھی۔
انہوں نے دعا کے بعد اس کی طرف منہ کیا تھا۔ زری تم جانتی ہو، تم جب چھوٹی تھی تو اپنی ہر بات اپنے بابا کو بتاتی تھی اور ان کے بعد تم ڈائری لکھنے لگی، لیکن تم نے مجھ سے کبھی کوئی بات شیئر نہیں کی۔
میں ماں ہوں، تم مجھ سے کچھ شیئر نہ بھی کرو تو بھی ایک ماں اپنے بچے کے بارے میں سب جانتی ہے۔ لیکن کبھی یہ نا سوچنا کہ تمہاری ماں تم سے غافل رہی ہے، وہ سب جانتی ہے۔ لیکن میں تم سے سننا چاہتی ہوں، تمہارے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی ہوں۔
میری جان اپنی ماں سے کچھ مت چھپاؤ زری، اپنی ماں کو بتاؤ، کیا بات ہوئی ہے؟ جس کا صدمہ اتنا گہرا ہے کہ میری بہادر بیٹی برداشت نہیں کر سکی۔۔۔۔۔
وہ ان کے گلے لگ گئی۔۔۔۔ امی میں کبھی کچھ نہیں چھپاؤ گی، کبھی بھی نہیں، بس آپ مجھ سے بات کرنا مت بند کریں۔
امی ابان مج۔۔۔۔ مجھے پسند نہیں کرتے وہ مجھے بہت جلد طلاق دے دیں گے۔ وہ اتنا کہہ کر پھر سے رونے لگی۔
زری یہ کیسی باتیں کر رہی ہو میری جان، کیا ابان نے خود تم سے کہا ہے؟
نہیں۔۔۔ انہوں نے خود نہیں کہا، لیکن میں۔۔۔۔ میں جانتی ہوں وہ ایسا ہی کریں گے۔ وہ انہیں آمنہ بیگم کی بات بتا نہ سکی۔
نہیں میری جان ایسا نہیں سوچتے، ابان تو بہت اچھا ہے وہ ایسا کبھی کر ہی نہیں سکتا۔
پھر کافی دیر رابیعہ بیگم اسے سمجھاتی رہیں۔
_________________
بیٹا ابان ہمیں حقیقت سے آگاہ کر چکا ہے۔ اور ہم تم پر کوئی ترس یا ہمدردی نہیں دکھا رہے بلکہ بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تم بھی ہماری بیٹی ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم تمہیں لغاری ہاوس سے رخصت کریں۔
وہ سب اس وقت ماہی کے کمرے میں موجود تھے۔ جب آغاجان نے عاشی کے سر پر پیار رکھتے ہوئے کہا۔
اور ہاں کل ہم سب فہد کی طرف چلیں گے اپنی بیٹی کی شادی کی تاریخ رکھنے کے لئے۔۔۔
واہ آغا جان آپ گریٹ ہیں۔۔۔۔ ماہی چہکتے ہوئے بولی۔
اچھا بس اب سب سونے کی تیاری کرو۔۔۔۔ آمنہ بیگم بولی تھی۔
ابان تم رابیعہ بیگم کو بھی بتا دینا کہ صبح کی تیاری رکھیں اپنی۔۔۔۔۔۔ احمد صاحب بولے تھے۔
جی۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر سب اپنے کمروں کی طرف چل دیے۔۔۔
__________________
وہ اب کافی اچھا محسوس کر رہی تھی۔ ورنہ جب سے ہسپتال سے آئی تھی اور رابیعہ بیگم نے اس سے بات نہیں کی تھی، تو اس کا دل بجھ گیا تھا، لیکن اب خوش تھی۔
لیکن جیسے ہی وہ لڑکی یاد آتی تو اس کا دل اداس ہو جاتا۔
وہ ڈریسنگ کے سامنے موجود اپنے گیلے بال سکھا رہی تھی، جب اس لڑکی کا سراپا اس کی آنکھوں کے سامنے آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں وہ پیاری ہے، مگر اتنی بھی پیاری نہیں ہے۔ میک اپ کرنے سے تو ہر کوئی پیارا ہی دیکھتا ہے وہ بڑبڑاتی ہوئی لپسٹک اٹھا کر لگا چکی تھی۔
اور واقع ہی وہ صرف ایک لپسٹک سے ہی کافی پیاری لگ رہی تھی۔ خوبصورت تو پہلے ہی تھی لیکن کھلے بالوں اور لپسٹک سے اور خوبصورت دیکھ رہی تھی۔
کس طرح چھوڑ دوں اے یار میں چاہت تیری
میرے ایمان کا حاصل ہے محبت تیری
اب نگاہوں میں جچے گا نہ کوئی رنگ و جمال
میری آنکھوں کو پسند آ گئی رنگت تیری
اپنی قسمت پہ فرشتوں کی طرح ناز کروں
مجھ پہ ہو جائے اگر چشم عنایت تیری
حرم و دیر کے جلووں سے مجھے کیا مطلب
شیشۂ دل میں اتر آئی ہے صورت تیری
آستانے سے ترے سر نہ اٹھے گا میرا
مدعا بن کے ملی ہے مجھے نسبت تیری
اچانک دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ مڑی تھی۔
لیکن مقابل دروازہ کھولنے کے بعد اسے بند بھی کر چکا تھا۔
تو مس زرفشاں لغاری بہت شوق ہے آپ کو دوسروں کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کا وہ اس کی طرف بڑھتا ہوا بولا تھا۔
می۔۔۔۔ میں کچھ سمجھی نہیں۔۔۔۔ وہ دوپٹے کی غرض سے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
اتنی بھی معصوم نہیں ہو تم، جتنی میں تمہیں سمجھ بیٹھا تھا۔
مجھے آپ کی باتیں سمجھ نہیں آرہی اور یہ کیا طریقہ ہے کسی کے کمرے میں آنے کا؟ وہ یہ کہہ کر اس کے پاس سے گزرنے کو تھی جب وہ اس کا ہاتھ پکڑ چکا تھا۔
طریقے کی تم بات ہی مت کرو، میں تمہارے طریقے بھی دیکھ چکا ہوں۔ اسے ایک دم زری کی بات یاد آئی تھی جو وہ رابیعہ بیگم سے کہہ رہی تھی اور ابان جو رابیعہ بیگم کو کل کی تیاری کا کہنے آیا تھا۔ لیکن زری کی آواز پر باہر ہی رک گیا تھا۔
تب وہ بڑی مشکل سے اپنے غصے کو کنٹرول کیے کمرے میں چلا گیا تھا۔ مگر آدھا گھنٹہ بھی اس سے اور برداشت نہ ہوا تھا، اسی لئے وہ زری کے کمرے میں اس سے اس بکواس کا جواب لینے آ پہنچا۔
مجھے تکلیف۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولی۔
آخر کیا سوچ کر وہ ساری بکواس تم نے چچی سے کی تھی۔
آزادی چاہئیے تو صاف آکر کہو کہ تم اس رشتے سے جان چھڑوانا چاہتی ہو، یوں میرے سر پر بندوق رکھ کر چلانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس نے ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑا تھا اور وہ گھوم کر اس کے سامنے آئی تھی۔
اس نے سر تا پیر اس کا جائزہ لیا، جو کھلے بالوں میں تھی اور لال رنگ کی لپسٹ لگائے ہوئے تھی۔ ابان کے خیال میں اسے عارضی بناوٹ کی ضرورت نہ تھی لیکن لپسٹک اور کھلے بالوں میں وہ غضب ڈھا رہی تھی۔
میں یہ کیسے بھول گیا کہ زرفشاں لغاری اب بڑی ہو چکی ہیں، اور تو اور یونیورسٹی بھی جانے لگی ہیں اور یقیناً یونیورسٹی کے ماحول میں ڈھل بھی چکی ہوں گی۔۔۔۔۔۔ وہ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
زری نے شدت تکلیف سے اپنی نم آنکھوں کو اوپر کئیے اپنے سامنے کھڑے اس ستمگر کو دیکھا تھا۔ جس کے الفاظ ہمیشہ کی طرح آج بھی دل چیر دینے کے لیے کافی تھے۔
بس زرفشاں لغاری کو ہر بات برداشت ہے ابان لغاری کی، لیکن جہاں بات زرفشاں لغاری کے کردار کی آئے گی وہاں وہ مرنا پسند کرے گی۔
اور رہی بات علیحدگی کی تو یہ الفاظ آپ کے ہی ہیں جو تائی امی کے ذریعے مجھ تک پہنچے ہیں، مجھ تک ہی نہیں بلکہ ان عورتوں تک بھی پہنچے ہیں جو ماہی کے رشتے کے لئے آئی تھیں۔
ابان نے آگے بڑھ کر اس کے منہ کو دبوچا تھا۔
تم جھوٹی ہونے کے باوجود اپنے کردار پر بات برداشت نہیں کرسکتی، تو تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ ابان لغاری اپنی ماں کے خلاف کچھ سنے گا۔
تم شاید کچھ گھنٹے پہلے تک ابان لغاری کو اپنی معصومیت سے اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب رہی تھی۔
لیکن اب ابان لغاری اپنے پورے ہوش وحواس میں کہتا ہے کہ تم اپنی معصومیت تو کیا ان ہتھکنڈوں سے بھی اس کے دل میں جگہ نہیں بنا سکتی وہ اس کی لپسٹک صاف کرتا کمرے سے باہر نکل گیا۔
___________________
اگلے مہینے کی پانچ تاریخ کو عاشی اور فہد کی شادی کی تاریخ طے کر دی گئی تھی اور سب اس تاریخ پر راضی بھی تھے۔
فہد کا کوئی بہن بھائی تھا نہیں اور نہ ہی ان کا کوئی لمبا چوڑا خاندان تھا، اسی لیے فہد کے ماں باپ بھی اس تاریخ پر رضامند تھے۔
لغاری ہاوس میں خوب شوروغل تھا عاشی کی شادی کو لے کر اور سب سے زیادہ ماہی چہک رہی تھی۔
زری کو جب عاشی کے بارے میں ماہی سے معلوم ہوا تو اپنی سوچ پر افسوس ہوا۔ لیکن صد شکر تھا کہ اس نے اپنی زبان اس معاملے میں کسی اور کے سامنے نہیں کھولی تھی، خاص کر ابان کے سامنے لیکن وہ اب اپنا دل اس شخص سے بدظن کر چکی تھی۔۔۔۔
زیب دیتا نہیں بندے کو خدا ہو جانا
ورنہ دشوار ہے کیا خود میں فنا ہو جانا
زہر کے واسطے ممکن ہے دوا ہو جانا
تیرے بیمار کو تجھ سے ہی شفا ہو جانا
ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں اے دل لیکن
اس طرح مرنے پہ تیار بھی کیا ہو جانا
یاد کو کیوں نہ کہیں زلزلۂِ عالمِ دل
آن کی آن میں طوفان بپا ہو جانا
بدگمانی سے بچیں ہم بھی کریں گے کوشش
تم بھی آئینے سے محتاط ذرا ہو جانا
نئے احمق نئے دانا نئے شوشے نئے خبط
اسے کہتے ہیں زمانے کا نیا ہو جانا
اس نے دیکھا بھی تو دیکھے نہ گئے ہم یا رب
تھی اسی تیر کی تقدیر خطا ہو جانا
مت زباں بول کسی کی کہ میسر ہے ہمیں
آنکھوں آنکھوں میں ہر اک مطلب ادا ہو جانا
کیسے مایوس ہو وہ جس نے کبھی دیکھا ہو
بند ہوتے ہوئے دروازے کا وا ہو جانا
اپنی پروازِ تخیل بہ زمینِ غالبؔ
دیکھ کر دام پرندے کا ہوا ہو جانا
ہائے راحیلؔ سے مستغنئِ دو عالم کا
ان کی گلیوں میں پہنچنا تو گدا ہو جانا
______________
ماہی اور عاشی ہال میں موجود تھی جبکہ زری اپنے اور ان دونوں کے لئے کافی بنانے کچن میں مصروف تھی۔
عاشی اور زری میں بھی اب خوب بننے لگی تھی اور عاشی تو ویسے بھی جلد ہی گھل مل جانے والوں میں سے تھی، اپنی عادتوں اور باتوں سے وہ لغاری ہاوس کے دل میں جگہ بنا چکی تھی۔
کیا ہو رہا ہے؟ ابان ہال میں آتا ہوا بولا اور سوفے پر بیٹھ گیا۔
ہم عاشی کے لئے لہنگے کے ڈیزائن دیکھ رہے ہیں بھائی۔۔۔۔۔ اب آپ کو ہمیں ٹائم دینا ہوگا اور ہمیں خوب شوپنگ بھی کروانی پڑے گی۔۔۔
سارے کام بعد میں، پہلے مجھے ایک کپ کافی کا پلا دو۔۔۔۔
وہ اٹھ کر کچن میں چل دی۔
اور سب سیٹ ہے؟ وہ عاشی کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
ہاں! میری طرف سے سب سیٹ ہے لیکن مجھے تم ٹھیک نہیں لگ رہے؟
مطلب۔۔۔۔۔ وہ ناسمجھی سے بولا۔
مطلب یہ کہ میں جب سے آئی ہوں، تم نے کبھی کوئی بات نہیں کی زری سے۔۔۔۔ اور نہ ہی زری کی باتوں میں تمہارا ذکر ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ وہ سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔
اتنے میں زری اور ماہی کافی کے دو دو مگ لیے کچن سے باہر آتی ہوئی نظر آئیں۔
ماہی نے آگے بڑھ کر اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا مگ عاشی کو تھمایا۔
اور زری اس کشمکش میں تھی کہ ابان کو مگ کیسے دے؟؟
زری نے آگے بڑھ مگ ابان کے سامنے رکھ دیا۔۔۔۔
ابان زری کے اس رویے پر آگ بھگولا ہوا تھا، اپنے غصے کو کنٹرول کرتا ہوا، اٹھا تھا۔
بھائی کافی۔۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔ اب کافی کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ یہ کہہ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
تم کافی چھوڑو یا زرفشاں لغاری کو اس سے اب مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا زری ابان کو دیکھتے ہوئے دل میں بولی جو سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔۔۔
کہو
تمہیں کوئی فرق پڑتا ہے
میرے ہونے نہ ہونے سے
میرے ہنسنے سے، رونے سے
میرے لفظوں سے یا پھر
میرے بہت خاموش ہونے سے
تمہارے پاس ہونے سے
یا تم سے دور ہونے سے
تمہارے دل پر کیا میرا کوئی اشک گرتا ہے
میرا خیال تمہیں لئے کبھی آوارہ پھرتا ہے؟
تصور کے پردوں میں میرا کوئی عکس ابھرتا ہے؟
__________________
موم!!!
آپ آئیں۔۔۔۔۔ کوئی کام تھا؟
میں نیچے ہی آنے والا تھا فریش ہو کر۔۔۔۔۔ وہ آفس کے لیے تیار کھڑا تھا، جب آمنہ بیگم اس کے کمرے میں داخل ہوئیں۔
بیٹا کام کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے کہ مجھے خود آنا پڑا۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی ماں کی بات پر مسکرا دیا۔
اچھا پھر بتائیں اپنے بیٹے کو ایسا کیا کام ہے؟ وہ انہیں اپنے بیڈ پر بٹھاتا ہوا بولا۔۔۔
دراصل میں چاہتی ہوں کہ تم اب اپنی زندگی کے بارے میں بھی سوچو۔۔۔۔
اتنا بڑا بزنس مین بن چکا ہوں اب_____
میں چاہتی ہوں کہ تم اپنے اور سمعیہ کے بارے میں سوچو، میں تم دونوں کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔۔
موم یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ میں اور سمیعہ۔۔۔۔
بیٹا اس میں کیا برائی ہے ہر انسان کو حق ہے کہ وہ اپنی زندگی کے بارے میں سوچے۔۔۔۔
موم آپ جانتی ہیں کہ میرا نکاح ہو چکا ہے پھر ان سب باتوں کا مطلب۔۔۔۔۔ وہ حیرانی سے بولا تھا۔
ہاں میں جانتی ہوں، لیکن وہ لڑکی___ وہ بھی اپنی ماں کی _____
موم۔۔۔۔۔ وہ بولا نہیں تھا، دھاڑا تھا۔
اس لڑکی سے چاہے میری شناسائی نہ رہی ہو، لیکن اس کے کردار کی گواہی دینے کے لئے میں کافی ہوں۔
پلیز میں اس ٹاپک پر مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔۔۔ وہ مڑتے ہوئے بولا تھا۔
میری زندگی کا نصیب ہے
نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے
وہ اگر نہیں تو نہیں سہی
__________________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...