بہتر تو یہ ہے کہ پہلے حالات بدلے جائیں
مفلسی کا عشق بھی کیا خاک مزہ دے گا۔۔۔۔۔!!!
کون جیتا ہے زندگی اپنی!۔۔۔۔۔
ہر کسی پر کوئی مسلط ہے ۔۔۔۔۔
تنہائی سے تھی میری ملاقات آخری
رویا اور اس کے بعد میں گھر سے نکل گیا۔
حال نہ پوچھا جیتے جی
عرس کریں گے مرنے پر ۔۔۔!
اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں۔
تجھ کو احساس ہی کب ہے کہ کسی درد کا داغ
آنکھ سے دل میں اتر جائے ۔تو کیا ہوتا ہے۔۔
آج پری کے اسکول میں سنگنگ کامپیٹیشن ہے ادینہ جانا چاہ رہی تھی۔۔ ازلان نے ناشتہ ختم کرتے کہا دعا کے چہرے پر غصہ جھلکنے لگا۔۔ تو پری کی ماں جا رہی ہے وہاں ادینہ کا کیا کام ؟ کیا وہاں کی صفائی ستھرائی کی ذمے داری اس نے لی ہے۔ دعا نے تمسخر اڑاتے ادینہ کو دیکھا۔۔ جو گرم بھاپ اڑاتی چائے دعا کے سامنے رکھ رہی تھی۔۔
اور یہ تم سے بات کیوں کرتی ہے ہم سے کہے کیا ہم سے بات کرتے اس کی زبان کو فالج آ جاتا ہے۔۔
خان زادی علی رو رہا ہے انہیں دودھ چاہئیے ۔۔ ملازمہ نے کمبل میں دبکے بچے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
ادینہ نے جلدی سے ہاتھ آگے کئے مگر دعا نے راستے سے ہی علی کو لے لیا۔۔ ازلان نے بغور ادینہ کے چہرے پر ماں کا درد دیکھا جو اپنے بیٹے کو روتے دیکھ اسے ہو رہا تھا۔۔
تم دودھ کی بوتل لے آؤ ہم اسے پلا دیں گے ۔۔ دعا نے ملازمہ کو آرڈر دیا۔۔
خان زادی پری کے وقت بھی انکو ماں کا دودھ نہیں ملا اب علی کو بھی نہ ملا تو ان کا معدہ بھی پری کی طرح کمزور ہو جائے گا ملازمہ نے دکھ سے کہا۔۔۔
دعا کے چہرے کے تاثرات تن گئے “تمہیں یہاں ہم اپنی رہنمائی کے لئے نہیں رکھا تنخوادار ملازمہ ہو وہی رہو۔۔ اور تمہاری یہ باجی جس کی حمایت میں تم بول رہی ہو اگر اپنے قاتل بھگوڑے بھائی کا اڈریس دے دیتی تو آج یہاں لاوارثوں کی طرح نہ پڑی ہوتی۔۔۔
جس دن اس نے ہمیں دلاور خان کا پتہ دیا اس دن ہم اسے معاف کر کے اسکی ہر شرط پوری کریں گے ماسوائے دلاور خان کو زندہ چھوڑنے کے۔۔۔ دعا نے تڑخ کر کہا۔۔ اور روتے بلکتے ہلکان ہوتے علی کو جھلانے لگی۔۔ ادینہ کا دل کٹنے لگا۔۔۔
اگر اس عورت کو بچوں کی پروا ہوتی تو پہلے دن ہی انہیں بھوک سے روتا دیکھ ہمیں دلاور کا پتہ دے کر سکون سے رہتی مگر اسے اپنے بھائی سے محبت ہے تو نبھائے یہ محبت۔۔
دعا نے وہ بات کہی جو ادینہ کے دل کا راز تھا اس نے سارا سچ تو بتا دیا تھا مگر دلاور کا پتہ نہ دیا وہ جانتی تھی وہ کہاں ہے مگر دعا کو اگر بھنک بھی پڑ جاتی تو پورا فرانس چھان کر بھی دلاور کا نکال لاتی اور دلاور تو پہلے ہی احساس جرم میں جی رہا تھا چند منٹ بھی نہ لگاتا اپنی گردن پیش کرنے میں۔۔
” یہ سب میرا گناہ ہے دعا اسے مجھے ہی بھگتنا ہے بھائی کب تک میرے کئے کی سزا کاٹیں گے۔۔۔
*********
“دعا” ازلان نے آفس ورکر سے الجھتی دعا کو آواز دی۔
جسٹ اے منٹ ۔۔ دعا ازلان سے بول کر دوبارہ الجھنے لگی۔۔
دعا فورا آؤ ازلان نے جھنجلا کر کہا۔
ہم تم سے بعد میں بات کرتے ہیں کسی کام نہیں کوئی یہاں وہ بڑبڑاتے ازلان کے پاس گئی۔۔ کیا ہوا تمہیں ؟؟ دعا نے خفگی سے کہا۔۔ ازلان اسے لیتے اپنے آفس گیا۔۔
دعا یہ دیکھو یہ میل پڑھو ازلان نے کمپیوٹر اسکے سامنے کیا۔۔۔
ہاں تو کیا ہے اس میل میں؟؟ دعا سمجھ نہ سکی۔۔
بیوقوف یہاں پر دنیا کے تمام ڈاکٹرز جمع ہوں گے فارن بھی اور یہ ہی اہم موقعہ دلاور کو ڈھونڈنے کا ۔۔ یہ کیمپ ایک مہینہ فرانس میں ہوگا اور مجھے ایک مہینے کے لئے جانا ہوگا۔۔۔
“ہماری قسمت اتنی اچھی نہیں ہے وہ شخص ہمیں مل جائے اور کیا ضروری ہے وہ بھی وہاں ہوگا۔۔”
“دعا مچھلی کو پکڑنے کے لئے جال بچھایا جاتا ہے۔۔ اور میں نے ان فارن ڈیلیگیشنز سے پارٹنر شپ کی بات کی ہے یہاں سب سے زیادہ پروٹوکال پاکستانی ڈاکٹرز کو دیا جائے گا۔۔ اس طرح دلاور کے سامنے آنے کے مواقع زیادہ ہیں۔۔ اور تمہیں یاد ہے ادینہ نے کہا تھا دلاور نے کہا ہے اب کہ خان زادی سر مانگے گی تو تن سے خود الگ کروں گا۔۔ تو اگر میں سامنے جاؤں تو کیا ممکن ہے وہ مجھے دیکھ کر ادینہ کی خاطر ہی سامنے آجائے اور جہاں تک دلاور کی بات ہے تو زبان سے منکر ہونے والا اسکا خون نہیں۔۔ ”
تو پھر ٹھیک ہے فرانس تم نہیں ہم جا رہے ہیں۔۔ دعا نے اٹل اور فیصلہ کن لہجے میں کہا۔۔
میں تمہیں اکیلے اتنی دور نہیں جانے دے سکتا ازلان نے غصے سے کہا اور تمہارے بنا گھر نہیں چل سکتا نہ آفس اور بچے اگر ان کو ادینہ نے اپنی عادت ڈال لی تو ۔۔ ازلان اسے روکنے کی خاطر اپنے پاس سے باتیں لگانے لگا۔۔۔
دعا نے لحظہ بھر کو سوچا۔۔ ہم اپنے بچے ساتھ لے کر جائیں گے آفس اور گھر تم خود سنبھال لینا۔۔۔
مجھے پروا نہیں لیکن میں تمہارے ساتھ جاؤں گا دعا مجھے ڈر لگتا ہے تم اپنے غصے پر قابو پانا نہیں جانتی۔۔ ازلان کی بات پر وہ اثبات میں سر ہلاتی باہر نکل گئی۔۔
“ازلان نے اپنی خوبصورت حوروں سی بہن کو دیکھا جس کے چہرے پر مسکراہٹ کا کوئی رشتہ نہ تھا وہ صرف پری اور علی کے ساتھ مسکراتی تھی۔۔ اور اس مسکراہٹ کے پیچھے کا درد بھی کوئی محسوس نہ کر سکتا تھا۔۔ ازلان نے بہت کوشش کی کہ دعا کی شادی ہو جائے مگر جو بھی شادی کے کچھ دیر بعد شاہ کمال کے قتل ہو جانے کا سنتا وہ دعا کی خوبصورتی دیکھ کر بھی منکر ہو جاتا وہ ساری دنیا کے لئے سبز قدم تھی لوگ اس سے رشتہ جوڑنے کو ڈرتے تھے وہ منحوس تھی اور یہ نہوست کا سایہ اس کی قسمت میں ادینہ نے لکھا تھا۔۔۔ ”
**********
“جتنے بھی پاکستانی ڈاکٹرز ہوں وہ اسی طرح بیٹھیں گے۔۔” دعا نے انتظامیہ کو آرڈر دیا یہ کیمرے کے بلکل سامنے والی جگہ تھی۔۔۔ ہر ملک کے باشندوں کے لئے الگ الگ جگہ کا انتظام اسی لئے کیا گیا تاکہ ان ہزاروں لوگوں میں ایک “دلاور” سر کلنک کرنے کے لئے دعا کو مل جائے۔۔۔ آہستہ آہستہ شو شروع ہو رہا تھا ہر ملک کا باشندہ پہلے اپنی زبان اور پھر انگریزی میں تقریر کر رہا تھا لوگوں کے حقوق کے بارے میں بات چل رہی ڈاکٹرز کے فرض اور بے حسی کو لے کر ٹاپک زیر بحث تھا۔۔ ماحول گرم ہوتا جا رہا تھا ہر ملک کے ڈاکٹرز خود کو بہتر ثابت کرنے پر تلے تھے۔۔ دعا نے کیمرہ روم میں گھڑی دیکھی چار گھنٹے مسلسل گزر جانے کے بعد بھی اسے دلاور نظر نہیں آیا تھا رات ہو رہی تھی بقیہ کی بحث اگلے دن کے لئے اٹھا رکھی تھی۔۔۔
دن گزرتے گئے مگر دلاور کسی بھی دن اسٹیج پر نہ آیا نہ ہی دعا کو وہ ایک بھی اس ٹاک شو کا حصہ لگا یہاں آنا بے کار گیا تھا دعا کو غصہ تو اس بات پر تھا کہ فضول میں ادینہ کو ازلان ساتھ لایا تھا جس کا خیال تھا دلاور کے سامنے اگر ادینہ آ جائے تو کبھی رخ نہیں موڑ سکتا۔۔۔
دعا نے سارا سامان پیک کر دیا آج شو کا آخری دن تھا اور رات کو انہیں دعا کی ضد پر فلائٹ سے واپس جانا تھا ادینہ کی سانس سوکھ چکی تھی وہ جانتی تھی دلاور اسی ملک کے کسی شہر میں ہے وہ دن رات یہی دعا کرتی کہ دلاور ایک بھی دن سامنے نہ آئے۔۔ آخری شو تھا آخری ڈاکٹر۔۔ دعا ساکت سی رہ گئی جب دلاور قدم اٹھاتا اسٹیج تک آیا۔۔۔
“میں اتنے دن اون لائن اس ٹاک شو کو سنتا رہا اور یہاں نہیں آیا کیونکہ اصل ڈاکٹر وہی ہے جو اپنے مریضوں سے محبت کرنا جانتا ہو جسے انسانی جان کی پروا ہو میں ہوسپٹل نرس اور کم عمر عملے کے سہارے چھوڑ کر یہاں کی گفتگو سے لطف نہ لے سکا کیونکہ میرا دھیان ان زندگیوں کی طرف تھا جنہیں ڈاکٹرز کی ضرورت تھی مگر کیا کہا جائے ساری دنیا کے ڈاکٹرز کلینک، ہوسپٹل، ڈسپنسری بند کر کے یہاں پچاس ہزار ڈالرز کے لئے بحث میں لگے ہیں یہاں بیٹھ کر بحث کر کے وہ خود کو منوا تو لیں گے اور ہسٹری کی کتاب میں اپنا نام بھی درج کروا لیں گے مگر انکے انتظار میں بہت سے لوگوں کی جان چلی جائے گی۔۔۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں دلاور نے رسٹ واچ دیکھتے کہا۔۔ میں صرف اتنا کہوں گا اچھا کھانا تھا یہاں کا آج پہلے دن کھایا اب چلتا ہوں میرے پیشنٹس میرا انتظار کر رہے ہوں گے دلاور آنکھ دباتا نیچے اتر گیا۔۔” پورے حال میں تالیاں گونج رہیں تھیں لوگ اپنی سیٹس سے کھڑے ہو چکے تھے۔۔۔۔ بلیک سوٹ بوٹ میں وہ چلتا دعا کو زہر لگا۔۔۔
لے کر جاؤ اسے باہر دعا نے زہر خندہ انداز میں ادینہ کی طرف اشارہ کیا۔۔ ادینہ نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔
“،یاد رکھنا اگر تم نے اپنے بھائی کو رتی بھر بھی اشارہ کیا تو گولیوں سے اسے چھلنی کر دیں گے ” دعا نے پسٹل سامنے کرتے کہا۔۔۔
ادینہ نے آنسو گراتے نفی میں سر ہلایا اور رحم کی بھیک مانگتے ہاتھ جوڑے۔۔ جاؤ ورنہ تمہارا بھیانک سچ ہم سرے عام کر دیں گے دعا نے غصے سے کہا ۔۔۔ ادینہ لڑکھڑاتی باہر گئی زبان پر اسکی ایک ہی دعا تھی دلاور اسے نہ دیکھے اگر دیکھ بھی لے تو نفرت سے منہ موڑ کر کہیں بھاگ جائے۔۔
دلاور اپنی کار کی طرف جا رہا تھا جب قریب آتی ادینہ کی آواز حلق میں گھٹ گئی کتنے ماہ و سال بعد اس کا ماں جایا اسکے سامنے آیا تھا اور اسکی زندگی تمام ہونے والی تھی۔۔ “بھ بھئی بھائی۔۔” ادینہ کے دل سے آواز نکلی۔۔ مگر زبان خاموش ہی رہی۔۔ گاڑی کی چابی دلاور سے گری ، چابی اٹھاتے جیسے ہی وہ اٹھنے لگا اس کی نظر ادینہ پر گئی وہ کس قدر بدل چکی تھی مگر دلاور ایک لمحے میں اسے پہچان چکا تھا ۔۔۔
“ادی” دلاور نے کہا۔۔۔ دعا نے پسٹل سے نشانہ دلاور کے دل پر بنایا لیزر کی روشنی پڑتے ہی دلاور چونک گیا اور ہوٹل کی چھت کی طرف دیکھا ۔۔۔ “دعا؟؟” دلاور اسے دسویں منزل سے پہچان چکا تھا۔۔۔
بھاگ جائیں بھائی چلے جائیں وہ سب جانتی ہے مار دے گی آپکو۔۔۔ ادینہ کے کپڑوں پر مائک تھا پھر بھی جان بوجھ کر بولتی چلی گئی
“،اسٹوپ اٹ ادینہ” ازلان نے خفگی سے کہا ادینہ نے کان سے آلہ اتارا مائک ابھی بھی اسکے گریبان میں تھا۔۔ چلے جائیں بھائی پلیز ادینہ نے اسے پرے دھکیلا۔۔
“نہیں ادی مجھے اسی دن کا انتظار تھا آج مجھے سزا مل جانے دو دعا کی گرفت پسٹل پر سخت ہوتی گئی۔۔۔ وہ دلاور کو سن سکتی تھی۔۔ میں نے اپنی ہی محبت کی محبت کو مار ڈالا یہ کرب مجھے جینے نہیں دیتا میرے دن رات اسی کرب میں گزرتے ہیں آج مجھے آزاد ہو لینے دو۔۔ ”
بھائی آپ نے کہا آپ ڈاکٹر ہیں اور بہت سے مریض مر جائیں اگر آپ ہوسپٹل میں نہ ہوں ۔۔۔ کیا وہ شاہ کمال کی طرح بے قصور نہیں دعا کو کیا حق ہے وہ ان سے ان کا فرشتہ نجات چھین لے ؟؟؟ غلط میں نے کیا گنہگار میں تھی اس ساری دنیا کے سامنے مجھے سنگسار ہونا ہے۔۔ شاہ کمال کی پاکیزہ محبت کی توہین میں نے کی میری بدکردار محبت دعا کے نصیب کو نگل گئی۔۔۔ آپ کہتے ہیں نا دعا آپکی محبت ہے بھائی وہ صرف آپ سے نفرت کرتی ہے اتنی نفرت تو مجھ حقیر سے بھی نہیں کرتی۔۔ جائیں بھائی دعا کی ضد میں بہت سے بے قصور مریضوں کا نقصان ہوجائے گا۔۔۔
دعا کی گرفت ڈھیلی پڑھنے لگی۔ ادینہ مسلسل دلاور کے سامنے ڈھال بنی کھڑی تھی۔۔۔
“نہیں ادی تم نے تو غلط کیا تھا میں نے تو گناہ کیا ہے مجھے تو خان زادی کی محبت بطور سزا اللہ نے دی ہے۔۔ اس محبت کی گہرائی کیا ہے یہ تو سمندر چھان کر بھی کوئی نہیں بتا سکتا، ہاں میری ہر سانس اسکی دعا میں ہر وقت مشغول رہتی ہے۔۔۔ ”
پسٹل زمین پر گر چکی تھی۔۔ ازلان نے دعا کو سہارا دے کر بٹھایا جس کے چہرے پر دکھ کے سائے تھے یعنی خوش وہ بھی نہ تھا وہ شخص دعا سے زیادہ اذیت بھری زندگی گزار رہا تھا۔۔ اسکی محبت زندہ ہوتے میں بھی اس سے نفرت کرتی تھی اور وہ ہر وقت اپنے زندہ ہونے کی اذیت میں تھا۔۔
میں آپکو دعا کی محبت میں رلتے نہیں دیکھ سکتی بھائی۔ ادینہ نے کہا۔۔۔
چلی جاو پلیز میں اسکا قرض دار ہوں ادی اور مجھے خوشی ہے تم اس کے پاس ہو اسکی تحویل میں۔۔
*********
آپ چاہیں تو مجھے کوئی بھی سزا دے سکتی ہیں چاہے تو گولی مار دیں چاہے زخم دے دے کر چھلنی کر دیں دلاور نے سر جھکائے کہا۔۔۔ دعا سپاٹ چہرے سے کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی ازلان ادینہ وہ بھی وہیں موجود تھے۔۔
کیا ہو گا دلاور خان تمہیں مارنے سے ہمارے شاہ جی لوٹ آئیں گے ؟ دلاور کے دل کو کچھ ہوا۔۔
مگر میں معافی کے لائق نہیں دلاور نے کہا۔۔
ہم سات سال تمہیں پاگلوں کی طرح ڈھونڈتے رہے۔۔۔ سوچا تھا تم ملو گے تو جتنی گولیاں شاہ جی کے سینے میں گئیں اس سے زیادہ تمہارے سینے میں اتاریں گے مگر اب سوچتی ہوں یہ نفرت لاحاصل تھی۔۔ ہم نے سات سال تمہاری بہن پر ظلم کیا اس کے بچوں کو چھین لیا اسے ملازمہ سے بد تر درجہ دیا۔۔۔ گنہگار تو ہم بھی ٹھہرے بولو بھائی ہو اس کے کیا سزا دو گے ہمیں شاہ جی کو بھی اسی بہن کی محبت میں مارا تھا کیا اب ہمیں مار سکتے ہوں دعا نے پسٹل سامنے پھینکی چلاؤ گولی اور ختم کردو سب۔۔۔
“دعا” ازلان چلایا۔۔۔
نہیں بھائی ادینہ نے منع کیا ۔۔۔ دعا یہ سب اس لئے کہہ رہی ہے تاکہ وہ مزید شاہ کمال کی محبت میں تڑپ نہ سکے اسے آزادی چاہئیے، مجھے تو ازلان سے محبت ہو گئی مگر دعا نے ان ماہ و سال میں صرف شاہ کمال کے نام پر اذیتیں جھیلیں ہیں۔۔ اسے محبت چاہئیے اور یہ محبت صرف آپ دے سکتے ہیں جن ہاتھوں سے زخم ملے ہوں ان سے مداوا ہو جائے تو زخم کے نشان بھی باقی نہیں رہتے۔۔۔
دلاور نے پسٹل پکڑی اور چلتا دعا کے سامنے گیا اور پسٹل اسکے ہاتھ میں دیتے اپنے سر پر رکھی۔۔ دعا نے دکھ سے دیکھا۔۔
میں اس قابل نہیں خان زادی آپ کسی بہت بہتر کو ڈیزرو کرتی ہیں۔۔ دعا نے پسٹل کھینچ کر دور اچھال دی۔۔۔
چلے جاؤ سب لوگ ہمیں اکیلا چھوڑ دو ہمیں کسی سے کوئی بدلہ نہیں لینا دعا نے کرب سے کہا۔۔۔
سب چلے گئے مگر ازلان کا دماغ ادینہ کی بات میں اٹک گیا اور کوئی بھی دعا کا شریک سفر بننے کو تیار نہ تھا دلاور تو دعا سے محبت بھی کرتا تھا اس سے بہتر کون ہو سکتا تھا جو اسکے زخم چن لے۔۔ ازلان نے دلاور کے سامنے یہی بات رکھی۔۔
” مگر وہ مجھ سے نفرت کرتی ہیں” دلاور نے کہا۔۔
“مگر مجھ سے تو محبت کرتی ہے ازلان نے کہا۔۔۔ میری بات وہ نہیں ٹال سکتی۔۔۔” تم ان سے بات کرلو دلاور نے گیند ازلان کے کوٹ میں ڈال دی۔
***********
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ہے
اب اس کی مرضی
کہ وہ خزاں کو بہار لکھ دے
بہار کو انتظار لکھ دے
سفر کی خواہش کو واہموں کے عذاب سے ہمکنار لکھ دے
وفا کے رستوں پہ چلنے والوں
کی قسمتوں میں غبار لکھ دے
ہوا کو لکھنا جو آ گیا ہے
ہوا کی مرضی کہ وصل موسم میں
ہجر کو حصہ دار لکھ دے
محبتوں میں گزرنے والی رُتوں کو ناپائیدار لکھ دے
شجر کو کم سایہ دار لکھ دے
ہوا کو لکھنا سکھانے والوں
ہوا کو لکھنا جو آگیا ہے ۔۔۔!!!
سب لوگ اس وقت ٹکسٹس کینسل کروا کر دلاور کے گھر میں موجود تھے۔۔۔
“ہم شاہ جی کی جگہ ان کے قاتل کو دے دیں کیا یہ انکی پاکیزہ محبت کی توہین نہیں؟ دعا نے خفگی سے ازلان کو کہا۔۔۔ انکی جگہ کوئی بھی نہیں لے سکتا کوئی بھی نہیں۔۔۔ ہم نے کہا ہمیں کسی سے بدلہ نہیں لینا اس کا مطلب یہ نہیں ہمیں دلاور کی محبت نے روکا ہمیں اس جیت نے روکا جو چند منٹ کے الفاظ بول کر پچاس ہزار ڈالرز کی ٹرافی وہ لے گیا تھا۔۔۔ مجھے روکا ہے ان بے قصور لوگوں نے جن کو ایک اچھے ڈاکٹر کی ضرورت ہے جو نیند سے زیادہ مریض سے محبت کر سکیں۔۔۔۔ ہم نہیں چاہتے کوئی ہماری طرح لاوارثوں کی زندگی گزارے۔۔۔”
تم لاوارثوں کی زندگی گزار رہی ہو؟ازلان کو ان الفاظ نے دکھ دیا۔۔۔۔
کیا بات ہے جو تمہاری نہیں مانی جاتی یہ کیوں نہیں دیکھتیں کہ پوری زندگی تمہارے سامنے ہے کون ہے جو تم سے محبت کرے تمہیں ہمسفر بنائے۔۔ اگر کوئی ہمسفر بنا بھی لے تو کون ہوگا جس کی محبت میں کھوٹ نہ ہو۔۔۔ صرف دلاور صرف دلاور ہے دعا۔۔۔۔
مگر ہمیں نفرت ہے اس سے دعا بے بسی سے رو دی۔۔۔
سب ٹھیک ہو جائے گا ازلان نے اسے اپنے ساتھ لگاتے اسکا سر سہلایا۔۔۔
ازوو شاہ جی کی روہ ہم سے خفا ہو جائے گی وہ تو سات سال سے خواب میں بھی نہیں آئے۔۔۔ میں نے بہت وظیفے کئے بہت منتیں مانگی مگر وہ سات سال سے خفا ہیں۔۔ ہماری کیا غلطی ہے۔۔۔ وہ کیوں خفا ہیں ہم تو آج بھی ان سے اتنی ہی محبت کرتے ہیں ان کے نام سے جیتے ہیں یہ دیکھو ہم نے کبھی چوڑی نہیں پہنی ہماری کلائی خالی ہے اور یہ بے رنگ کپڑے دعا نے اپنا آنچل دکھایا۔۔۔
دعا شاہ جی اپنی دعا سے اس لئے خفا ہیں کیونکہ تم ہیر بن کر آس کی زندگی گزار رہی ہو چندا۔۔ کیوں خود کو اس لاحاصل میں محبت میں ہلکان کرتی ہو جس کا وجود ہی دنیا میں باقی نہ ہو۔۔۔ شاہ جی بھی یہی چاہتے ہوں گے انکی دعا اپنی زندگی رنگوں سے بھر لے خوش رہے محبت کرے اور محبت وصول کرے تم کیوں ایسی خشک زندگی گزار رہی ہو۔۔۔؟؟
ہمیں لگتا ہے وہ ہماری پڑھائی کرنے سے خفا ہیں۔۔ ہم نے فضول میں پڑھا کسی کام نہ آیا ہمارے۔۔۔
ازلان مسکرایا اور اسکا سر سہلاتے کہنے لگا میری گڑیا کا پڑھا میرے کام آیا نہ، میرے بزنس کو میری گڑیا کی دن رات کی محنت نے وہاں تک پہنچا دیا جہاں لے جاتے مجھے کم سے کم تیس سال لگ جاتے۔۔۔
پر ہم دلاور سے شادی نہیں کر سکتے اور جس سے بھی کروا دو۔۔۔ دعا نے ضد سے کہا۔۔۔
دعا سات سال تم نے اپنی کر کے دیکھ لی اب سات دن میری کرلو میں آج ہی تمہارا دلاور سے نکاح کر رہا ہوں تم سات دن اسکے ساتھ گزار کر دیکھ لو پھر تمہاری ہر بات مانوں گا۔۔
نفرت ہے ہمیں اس سے۔۔۔۔ دعا کہتے ازلان کی طرف دیکھنے لگی وہ خفگی سے دیکھ رہا تھا۔۔
صرف سات دن اپنے بھائی کی خاطر ازلان نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرتے کہا۔۔۔
کبھی کچھ نہیں مانگا تم سے گڑیا ہمیشہ صرف دیا۔۔۔ تم نے مجھ سے میری اولاد مانگی میں نے اس پر بھی ایک سیکنڈ بھی سوچے بنا تمہاری جھولی میں ڈال دی۔۔۔ کیونکہ تم میری گڑیا ہو اور میرے لئے تم سے بڑھ کر کچھ نہیں تم نے مجھے ادینہ کو اپنانے کو کہا مجھے اس عورت کو اپنانا پڑا جس نے تمہاری زندگی تباہ کی۔۔۔ مجھے اس سے محبت نہیں ہے وہ میری مجبوری ہے کیونکہ تم اسے رکھنا چاہتی ہو۔۔۔ میں تمہاری ہر بات مانتا ہوں۔۔۔ بابا بھی تمہارے غم میں چلے گئے کیا سات سال میں ایک بھی ایسا رشتہ آیا تھا جو تمہیں سبز قدم نہ کہہ کر گیا ہو؟؟
صرف سات دن دعا اپنے بھائی کی خاطر پھر جو تم فیصلہ کرو۔۔۔
جو مرضی آئے کردو دعا نے آنسو گراتے کہا۔۔۔
تھینک یو میری پیاری گڑیا۔۔۔ ازلان باہر نکل گیا۔۔۔
***********
بے یقینی سی بے یقینی تھی دلاور کو دعا مل گئی تھی۔۔۔
“صرف سات دن اس کے بعد ہم تمہاری شکل بھی نہیں دیکھیں گے دعا نے وارن کرتے کہا۔۔” دلاور کی مسکراہٹ رکنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی اس نے سر کو خم دیا۔۔ ادینہ نے عشاء کی نماز پڑھی اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔۔۔۔
“یااللہ دعا نے اپنی زندگی میں بہت دکھ اٹھائے ہیں اس کے دل میں بھائی کے لئے محبت اور رحم ڈال دے اس نے سات سال جس کرب میں گزارے ہیں میرے بھائی کو اتنی ہمت دینا وہ انکا مداوا کر سکے۔۔۔ یاللہ ہم سب کی سزا ختم کردے اللہ تو معاف کرنے والا ہے ہمیں معاف کردے۔۔۔”
“ادینہ”ازلان نے بے چینی سے کروٹ بدلتے اسے دیکھتے پکارا۔۔ ادینہ ازلان کی آواز پر تیزی سے دعا پڑھتی اٹھی اور آنسو صاف کرتی اس تک گئی۔۔۔
آپ نے بلایا؟؟ ادینہ نے جھجک کر پوچھا۔۔۔
مجھے تم سے کچھ پوچھنا تھا۔۔۔۔ جی ادینہ نے اسکے پاس بیٹھتے کہا ۔۔۔۔ تم نے کہا تھا تمہیں مجھ سے محبت ہے؟ کیا یہ سچ ہے؟؟ ازلان نے براہ راست پوچھا۔۔ ادینہ گڑبڑاتی کھڑی ہوئی۔۔
وہ پری اور علی تو دعا کے پاس ہی ہیں میں انکو لے آؤں۔۔۔
جو پوچھا ہے وہ بتاؤ ازلان نے اس کو کلائی سے پکڑتے کہا۔۔۔ ادینہ چپ ہو گئی۔۔۔ ازلان نے اسکا چہرہ اپنی طرف موڑا اور اس کے کپکپاتے لب دیکھے جو خوف سے کانپ رہے تھے شائد اب وہ اسے محبت کی سزا سنائے گا۔۔۔۔۔
اس کے مومی چہرے پر خوف و حراس کے تاثرات تھے۔ ازلان نے اگر محبت نہ دی تھی تو کبھی تکلیف بھی نہ دی تھی ہاں وہ دعا کا رویہ خاموشی سے دیکھتا تھا وجہ ادینہ کی وہ بیوقوفی تھی جو اس سے ہوئی تھی۔۔۔
ازلان نے آہستگی سے اسکے ہاتھ کو چومتے اسے خود میں سیمٹا۔۔۔ “سب کے سامنے کہہ سکتی ہو مگر مجھ سے نہیں ازلان نے خفگی سے کہا۔۔۔” ادینہ کے رونے میں شدت آ گئی۔۔۔
*************
علی کوٹ میں جاگ رہا تھا مگر پری کہانی سن رہی تھی۔۔۔ دعا کے بازو پر وہ سونے کا نام ہی نہ لے رہی تھی دلاور جانے کہاں تھا۔۔ دعا اسے اس وقت دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی وہ اس نکاح سے ذہنی طور ہر ڈسٹرب تھی اور بچوں میں لگ کر اپنی ذہنی روح کو بھٹکنے سے روک رہی تھی مگر بار بار شاہ کمال کا چہرہ سامنے آتا آنکھیں بھر بھر جاتیں، چشم نم کو روک نہیں سکتی تھی۔۔۔اسی طرح پری کو سلاتے وہ خود بھی سو گئی۔۔ علی سب آوازیں بند ہو جانے پر ہلکا ہلکا ری ری کرنے لگا۔۔۔۔ وہ منہ میں ہاتھ ڈال کر خفا ہوتا چھت کو دیکھ کر بند پنکھے سے لڑ رہا تھا۔۔۔
دلاور نے چابی سے کمرے کا بند دروازہ کھولا اور اسے اپنے بیڈ پر استحقاق سے سوتے دیکھ مسکرایا۔۔۔
بہت ہی نرمی سے دعا کے قریب ہوتے دلاور نے اسکی شفاف دودھیا پیشانی پر مہر محبت ثبت کی۔۔۔۔ دعا کی پیشانی پر نیند میں بل ڈلنے لگے اسکی آنکھوں کو چھوتے دلاور بے اختیار ہونے لگا۔۔۔ دعا کی آنکھ کھلی تو خود پر جھکے دلاور کو دیکھ کر جیسے ہی چلانے لگی دلاور نے اسکے منہ پہ ہاتھ رکھے اسے چلانے سے روکا۔۔۔ اور اسکے کان کے قریب ہو کر بولا پری سوئی ہے۔۔۔۔
دلاور کا ہاتھ ہٹاتی وہ دبا دبا چلائی۔۔ تمہارے نکاح میں ہم صرف ایک ہفتے کے لئے ہیں۔۔ اپنی حد میں رہو۔۔۔ اور نکل جاؤ اس کمرے سے۔۔ یہ میرا کمرہ ہے ۔۔۔۔
اور اس گھر میں صرف دو ہی کمرے ہیں۔۔ دلاور نے اسکے بکھرے بال سمیٹتے محبت سے تصیح کرتے کہا۔۔
ہماری طرف سے جہنم میں جاؤ مگر ہمیں ہاتھ بھی مت لگانا۔۔۔
” ایسی تو کوئی شرط نہیں تھی مسز دلاور بات ایک ہفتے تک ٹرائل شوہر بننے کی تھی اگر آپ اس طرح خفا خفا رہ کر مجھے گھر سے نکال دیں گی تو کیا خاک میں ایک ہفتے میں محبت چکا پاؤں گا؟۔۔۔”
” ہم تمہیں نہیں نکالیں گے مگر اپنے دہکتے جذبات کا سہارا مت لو یہ ہمیں گھائل نہیں کر سکتے۔۔۔ اگر ہم خود کو تمہاری تحویل میں ایک ہفتے کے لئے دے رہے ہیں تو ہمیں یقین ہے اس نفرت پر جو ہمیں تم سے ہے۔۔۔۔”
” مجھے بھی یقین ہے اپنی محبت میں آپکے دل میں اپنی محبت جگا دوں گا گڈ نائٹ ۔۔۔ دلاور نے جھک کر اس مصر کے دانے کو چوما جسے چومنے تو کیا آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرات آج کسی میں نہ تھی۔۔۔
مگر دلاور نے جب سے دعا کے ان مصر کے دانوں کو دیکھا تھا وہ اپنا سب ہار چکا تھا اور وہ کیسے خود کو بے مراد رکھتا جب وہ اسکی تحویل میں تھے۔۔ان پر اپنی محبت کی مہریں لگاتے وہ جا کر سامنے کاؤچ پر سوگیا۔۔ مگر دعا پوری رات نہ سو سکی بار بار دلاور کے لمس کو وہ چہرے سے ہٹاتی کبھی علی کو لے کر ٹہلتے اسے گھورتی۔۔۔
صبح دلاور شاور لے کر نکلا تو شرٹ پہننے کے بعد اپنے نم بال دعا کے چہرے پر چھڑکے رات جاگ کر گزارنے کے بعد وہ اب سو رہی تھی۔۔۔
پانی کے قطروں سے دعا ڈسٹرب ہوئی اور اسکی آنکھ کھل گئی دلاور کا مسکراتا چہرہ دکھ کر وہ خفا ہوئی۔۔ کیا بے ہودگی ہے یہ اور بچے کہاں ہیں ہمارے؟؟۔۔۔
ہمارا تو کل نکاح ہوا ہے ابھی سے بچے کیسے آ گئے؟ دلاور نے آئینے میں سے دیکھتے معصومیت سے کہا۔۔۔
منہ بند کرو اپنا ہم اپنے بچوں کا پوچھ رہے ہیں پری اور علی کا۔۔۔ دعا نے اٹھتے چپل پہنی اور تن فن کرتی باہر چلی گئی۔۔۔ ادینہ علی کو گدگداتے پیار کر رہی تھی بار بار اسے چومتی۔۔
ماما صدقے میرا بیٹا ہے یہ میرا کاکا ہے یہ۔۔ سارا دن پھوپھو کے پاس رہتا ہے مما کی یاد نہیں آتی میرے گولو کو وہ دیوانہ وار بار بار علی کو چومتی۔۔
دعا کو یاد آیا ان سات مہینوں میں پہلی بار ادینہ نے اسے پکڑا تھا وہ کس قدر ظالم تھی ایک ماں سے اسکے بچے چھین کر کیسے خوش تھی۔۔۔
“بس کردو دوسروں کے بچے پالنا ۔۔ اپنے بچے اپنے ہی ہوتے ہیں۔۔۔ یہ جب بڑے ہوں گے تو آپ سے محبت کی بجائے نفرت کریں گے دعا کیونکہ ان کو پتہ چل جائے انکی پھوپھو نے انکی مما سے انکو چھینا۔ ماں جیسی بھی ہو اسکا دکھ سنتے اولاد پگھل جاتی ہے خود کو تباہ مت کرو۔۔ دلاور نے آہستہ سی آواز میں کہا۔۔۔
یہ ہمارے بچے ہیں۔۔ دعا نے بنا دلاور کی طرف دیکھے کہا۔۔ ہاں بلکل یہ بھی ہمارے بچے ہیں۔۔ مگر پیدا کرنی والی ماں تو وہ ہے نہ جس نے پہلی بار اس بچے کو پکڑا ہے مگر وہ دیکھو کیسے خوش ہے وہ اس لمس کو پہچانتا ہے۔۔۔
دعا سست روئی سے چلتی واپس کمرے میں فریش ہونے چلی گئی کمرے میں آئی تو ناشتہ لگا تھا دعا ناشتے کے سامنے بیٹھ گئی۔۔۔
ایم سوری وائف یہ ہمارا پہلا بریک فاسٹ تھا مگر مجھے ایمرجنسی جانا پڑا۔۔ شام کو ملتے ہیں۔۔ ہونہہ دعا نے چٹ پھاڑتے پھینکی۔۔ اور ناشتہ کرنے لگی مگر دل میں بے چینی اور بے سکون سہ تھا وہ کیا کر بیٹھی تھی اور کیوں کر وہ ازلان کی ضد میں ہار گئی تھی۔۔ وہ کونسا اس سے خفا ہو جاتا۔۔۔ بے دلی سے چند لقمے کھائے ہی تھے کہ اسے وومٹنگ ہوگئی۔۔۔ دعا کی اس آواز پر ادینہ آئی اور اسے سنبھالنے لگی۔۔۔
آپ کو تو بخار ہے ادینہ نے اسے چھوتے کہا۔۔ ہم ٹھیک ہیں دعا نے ادینہ کا ہاتھ جھٹکا اور بستر پر سر رکھ لیا۔۔۔ میں بھائی کو بلاتی ہوں۔۔اچانک کیسے بخار ہو گیا۔۔۔
اسے نہیں بلانا دعا نے لب بھینچے کہا مگر ادینہ ان سنی کرتی باہر نکل گئی۔۔۔
میری جدائی میں بخار ہو گیا بول کر تو گیا تھا شام تک لوٹ آؤں گا ازلان اور ادینہ کی وجہ سے دلاور نے اتنی آہستہ کہا بمشکل دعا سن سکی۔۔۔ اس کا مکمل چیک اپ کرتے وہ میڈیکل باکس چیک کرنے لگا اور اپنے ہاتھ سے اسے میڈیسن کھلانے لگا۔۔
آپ رات بھر جاگتی رہی ہیں؟ اسکی آنکھیں دیکھتے دلاور نے کہا۔۔۔ دعا نے کوئی جواب نہ دیا دلاور نے اسے سکون آور انجیکشن دیا اور کمرہ مقفل کرتا باہر آ گیا۔۔
************
دلاور دعا کو اچانک کیا ہوا ہے؟ ازلان نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔ وہ کسی چیز کا سٹریس لے رہی ہیں۔ کس چیز کا یہ ہم سب جانتے ہیں۔۔ ان کو وقت چاہئیے مجھے معلوم ہے وہ بہت با ہمت ہیں۔ سنبھل جائے گی۔۔
دلاور کی تسلی پر ازلان اور ادینہ کو بھی کچھ سکون ہوا۔
**********
لگتا ہے سات دن صرف خان زادی صاحبہ کی خدمت ہی کرنی ہو گی۔۔ دلاور نے مصنوعی فکر سے کہتے دودھ کے گلاس کے ساتھ دوا دی۔۔ دعا نے دلاور کا ہاتھ جھٹک دیا۔ “دور رہو “ہم” سے نفرت ہے ہمیں “تم” سے”
لگتا ہے بخار دماغ پر چڑھ چکا ہے۔
مس خان زادی آپ نے اس بندہ نا چیز حقیر سے آدم کو سات دن کے لئے اپنا ساتھ بخشا ہے۔ وہ بھی خود کو میرے نکاح میں دے کر اور شوہر کے حقوق سے تو آپ با خوبی واقف ہونگی مگر پھر بھی بتا دیتا ہوں شوہر کو کسی بھی بات پر نہ کرنے یا خفا کرنے سے حوریں لعنت بھیجتی ہیں۔۔ وہ اور بھی کچھ کہہ رہا تھا مگر دعا خاموشی سے واپس تکیے پر گر گئی۔۔۔ شاہ جی کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا آپکی جگہ لی بھی تو کس نے؟ آپ کے ہی قاتل نے گرم سیال بے اختیار دعا کی آنکھوں سے نکل کر تکیے میں جذب ہونے لگے۔۔ دلاور نے بہت ہی نرمی سے ٹشو سے انکو صاف کیا اور اسکے سر کے نیچے ہاتھ رکھتے کچھ اونچا کیا اور دوا کھلاتے دودھ منہ کو لگا دیا جسے بنا کسی احتجاج کے دعا نے پیا۔۔۔ ٹشو پاکٹ میں رکھتے دلاور نے دعا سے کہا آپ اس طرح خود کو گھر میں بند رکھیں گی تو کبھی ٹھیک نہیں ہو پائیں گی آج شام کو ہم باہر جائیں گے ویسے بھی سات دن میں سے ایک دن تو خراب کر ہی دیا۔ دعا نے ناگواری سے اسے دیکھا تو وہ خود کے سر پر چپت لگاتا باہر نکل گیا۔۔۔
**********
ہمیں نہیں جانا بس ۔۔ ازلان تم، تمہاری بیوی اور تمہارے بچے سب جا سکتے ہیں تم اپنی بیوی کے بھائی کو بھی لے جاؤ ہمارا اس ہیپی فیملی میں کیا کام؟؟؟ دعا نے چھت کو دیکھتے کہا جیسے کوئی اور اسکے علاوہ موجود نہ ہو۔۔
وہ میری فیملی ہے دعا یا تم؟ تم سے میری فیملی ہے تم بن کیا اچھا لگے گا جانا۔۔
ہم نے کہا نا چلے جاؤ سب لوگ ہماری زندگی سے دعا نے تیز لہجے میں کہا۔۔۔
دعا تم اب تھپڑ کھا لوگی ازلان نے غصے سے کہا اور بازو سے کھینچتے اسے بستر سے نکالا پانچ منٹ ہیں منہ دھو کر باہر آؤ۔۔ تمہیں کچھ کہتا نہیں اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم میری محبت کا ناجائز فائدہ اٹھاؤ۔۔ چلو جلدی کچھ بھی سنے بنا ازلان نے اسے واش روم دھکیل دیا مگر اگلے پانچ منٹ تو کیا آدھے گھنٹے بعد بھی وہ باہر نہ آئی تو ازلان نے زور زور سے دروازہ بجایا مگر جواب نہ ملا دلاور ادینہ سب ازلان کے چلانے کی آواز سن کر آگئے مگر دعا کو شائد کچھ ہوگیا تھا۔۔
اس نے کچھ کر تو نہیں لیا ازلان کے دماغ میں خیال آیا۔۔
دلاور تمہارے پاس یہاں کی چابی ہوگی؟ نہیں چابی تو نہیں ہے دلاور نے کہتے اثبات میں سر ہلایا اور منہ پر انگلی رکھ کر چپ رہنے کا کہا۔۔ اور دروازے کے باہر بنا چاپ کئے وہ باہر سے چابی لایا ازلان دروازہ بجاتا ہی جا رہا تھا بہت نا محسوس طریقے سے چابی سے لاک کھولتے دلاور نے دروازہ کھولا اور سامنے کا منظر دیکھ کر کمر پر ہاتھ رکھے۔۔
کیا ہوا وہ ٹھیک ہے؟ ازلان نے دلاور سے پوچھا دلاور نے ہٹ کر ہاتھ سے اندر دیکھنے کو کہا۔ دعا کمپوڈ پر بیٹھی اپنے فون کے ساتھ لگی تھی وہ اس طرح تھی جیسے کوئی آواز اسے سنائی ہی نہ دے رہی ہو۔ ازلان نے لب بھینچے ۔۔ ادینہ خاموشی سے باہر چلی گئی وہ جانتی تھی اسے دیکھتے دعا کا غصہ اور تیز ہوجائے گا۔۔ دعا تم کیا کر رہی ہو؟ ازلان نے دانت کچکچاتے کہا ہم سب پاگل ہیں ایک گھنٹے سے باہر سے دروازہ بجا رہے ہیں اور تم اندر فون پر لگی ہو۔۔۔ دعا کی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی دعا تم سن رہی ہو ؟ ازلان نے خفگی سے کہا
نہیں یہ نہیں سن سکتیں میری وائف کچھ مین ہیں دلاور نے اندر جاتے کہا اور دعا کو اٹھا لیا۔۔۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمیں چھونے کی دعا نے تڑخ کر کہا۔۔ اتارو ہمیں مگر دلاور دعا ہی کی طرح کان بند کئے اسے اٹھائے باہر لے گیا اور بیک سیٹ پر بٹھاتے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا دعا نے اترنا چاہا تو ایک طرف ازلان تھا جبکہ دوسری طرف ادینہ آ گئی گاڑی چلنے لگی۔۔ ازلان سے لڑنا بے کار تھا وہ ادینہ کو گھورنے لگی۔۔ جو دعا کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی مگر ہتھیلیاں خوف سے بھیگ رہی تھیں دعا کا کیا بھروسہ غصے میں اسے ہی گاڑی سے پھینک دے۔۔ ماموں آئسکریم بھی کھانی ہے نا آگے بیٹھی پری نے کہا۔۔۔
دعا اور کسی طریقے سے تو ٹارچر کر نہیں سکتی تھی مگر ادینہ سے علی کو بے دری سے کھینچ لیا۔۔ آئندہ ہمارے بچوں کو بنا اجازت ہمارے سوتے بھی پکڑنے کی ضرورت نہیں۔۔ دعا کے کھینچنے سے علی رونے لگ گیا۔۔۔ دلاور نے بیک ویو مرر سے دیکھا اور ادینہ کا سعادت مندی سے اثبات میں سر ہلانا ازلان بھی دعا کو منانے میں لگا تھا معافی کبھی محبت۔۔ مگر کسی نے ادینہ کے گرتے آنسو نہیں دیکھے جو چور نظر سے بار بار علی کو بلکتے دیکھتی اور مٹھیاں بند کر کے ضبط کرلیتی۔۔۔
وہ لب بھنچے گاڑی چلانے لگا۔۔۔ یہ وہ مومی گڑیا تو نہ تھی جو اسکی بہن تھی یہ تو کوئی اجڑے درخت کی بوسیدہ شاخ تھی۔۔ جو اپنی نو عمری میں ہوئی غلطی کا ازالہ دیتی آرہی تھی پھر یہ کیسی سزا تھی جو ختم ہونے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔۔۔
دلاور نے کار پاکستانی شاپنگ مال کے سامنے روکی سب نکل گئے مگر دعا ڈھیٹ پنے سے بیٹھی رہی۔ دلاور نیچے اترا اور دعا کو ایک دم کھینچتے گود میں اٹھا لیا۔۔
بدتمیز دیکھ نہیں رہے ہم نے اپنے بیٹے کو اٹھایا ہے علی گر جاتا تو؟ دعا نے خفگی سے کہا۔ مجھے معلوم ہے آپ اپنے بھتیجے کو گرنے نہ دیتیں آپ کو بہت محبت ہے اپنے بھائی کے بچوں سے۔ دلاور نے تحمل سے اسکی تصیح کی۔ اور نہایت نرمی سے زمین پر اتارا سب لوگ اندر جانے لگے۔ مختلف رنگوں کے کپڑوں کو دیکھتے ادینہ نے چھوا تو دعا کی چبتی نظروں کو خود پر محسوس کرتے ہٹ گئی۔۔ وہ دونوں ہی سفید لباس میں تھیں۔۔۔ دعا اسے گھورنے میں مصروف تھی جب یک دم لال کامدار چنری دلاور نے اس پر ڈال دی اور اسے اپنی طرف موڑتے دیکھنے لگا۔ دعا ششد رہ گئی وہ دلہن کا دوپٹہ تھا “بیوٹی فل” دعا کو دیکھتے دلاور نے اپنے ساتھ اسکی سیلفی اور مزید کپڑے دیکھنے لگ گیا سرخ دوپٹہ سرک کر زمین بوس ہو گیا تھا۔ مگر وہ بت بنی وہیں کھڑی رہی وہ نہیں جانتی کب سب نے شاپنگ کی؟ کب کیا ہوا؟ کس نے علی کو اس کے ہاتھ سے لیا؟ اسکا سرد پڑتا وجود تھا مگر سپاٹ چہرہ ۔۔ دلاور اسکا ہاتھ پکڑے جانے کیا کیا لیتا رہا۔ سات سال چھ ماہ بعد رنگ اس کے تن پر اڑایا گیا تھا اور یہ وہی رنگ تھا جسے پہننے کے بعد اسکی دنیا اجڑ چکی تھی اور آج یہ رنگ اڑانے والا بھی وہی تھا جس نے اسکی دنیا اجاڑی تھی۔۔۔
*************
“خاموشی سے گزرتے ہیں لمحات میرے۔
مجھے اب تنہائی اچھی نہیں لگتی۔”
یوں بھی بے وقت ہی تھا تیرا ہر واویلا۔
تیری سوچوں کو محظوظ میری خاطر کیا گیا۔
سمندر کی لہریں بے تحاشہ امڈ رہیں تھی دعا ان چیختی چلاتی لہروں کو خاموشی سے دیکھ رہی تھی افق کے غروب ہونے کا دل لبھا لینے والا منظر تھا جن میں چلتے ازلان اور ادینہ تھے ایک دم اسکا پیر پھسلا جب ازلان نے اسے سنبھال لیا۔ لہروں کا شور اور تیز ہوچکا ۔۔ طوفان کے جکڑ اندر باہر چل رہے تھے۔ ازلان نے جس طرح اسے اپنے حصار میں لیا دعا کے دل میں عجیب سی حسرت جاگی۔ وہ اگر پھسل جاتی تو کوئی نہ تھا جو اسے سنبھالتا اسے اس طرح چاہتا وہ جانتی تھی اسکی لاکھ مخالفت میں بھی ازلان اور ادینہ کو محبت ہو چکی تھی۔ وہ اب صرف تنہا تھی اپنے بدلے کے ساتھ اور شاہ کمال کی بچھڑی یادوں کے ساتھ جو کرب کے سوا کچھ نہ تھا وہ حاصل ہو کر بھی لاحاصل رہا تھا۔
طبعیت ٹھیک ہے اب آپکی؟ دلاور نے اسکی پیشانی چھوتے پوچھا۔۔ دعا نے کوئی احتجاج نہیں کیا صرف ہوا سے بے قابو ہوتی آوارہ لٹیں سمیٹں۔۔ کیا ہوا لڑیں کیوں نہیں میری خان زادی دلاور نے تھوڑی چھوتے اتنی محبت سے پوچھا کے دعا کی آنکھیں بھرا گئیں۔۔ وہ ٹوٹی ڈور کی طرح اشک بہاتی چلی گئی۔۔
دعا کیا ہوا ہے آپکو؟؟ دلاور نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔ مجھے سب چھوڑ جاتے ہیں میں منحوس ہوں سبز قدم ہوں۔ اماں، بابا، خالہ، شاہ جی پھر بابا سائیں اب ازلان بھی۔۔ میں بہت بری ہوں میں کیوں زندہ ہوں مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا کیونکہ میں سبز قدم ہوں ایک دم وہ اٹھی اور نفسیاتی انداز میں پانی میں اترنے لگی۔ دعا مجھے محبت ہے آپ سے دلاور مر سکتا ہے اپنی دعا کے لئے بیچ سمندر میں اسے روکتے دلاور نے خود میں بھینچ لیا۔۔۔ آفتاب اب جانے کو تھا تیز ہوتی لہریں بھی ان کا سکوت نہ توڑ سکیں وہ لاکھ چیختی چلاتی سر پٹختی رہی مگر دلاور کی گرفت مضبوط سے مظبوط تر ہوتی رہی۔۔ ادینہ نے ازلان کا بازو ہلا کر دعا کی طرف اشارہ کیا جیسے کہہ رہی ہو میری اور دعا کی سزا ختم ہو چکی ہے۔۔۔ سمندر کی لہروں نے اس ملن پر بے حد شور مچایا مگر وہ بھی دلاور تھا اس نے کسی ایک لہر کی آواز بھی نہ سنی۔۔
پہلے وعدہ کرو ہمیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤگے نہ ہی ہم سے پہلے مروگے دعا نے اسکے سینے میں منہ چھپائے کہا۔۔ “ڈاکٹر دلاور کا پرامس ہے دعا اپنی آخری سانس تک وہ دعا کا ساتھ دے گا مگر جہاں تک موت کی بات ہے تو یہ سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ میرے بس میں صرف آپ سے محبت کرنا ہے۔ آپ کے ساتھ جینا۔۔ لیکن آپ کو میرے لئے ہر رنگ پہننا ہو گا ہر رنگ سے دوستی کرنی ہو گی بلکل وہی دعا بننا ہوگا جو شاہ کمال کے لئے کلائی تک چوڑیاں پہن کر سجا کرتی تھی۔۔۔ دلاور کی اس فرمائش پر دعا خفگی سے دیکھتی اسے گھورنے لگی۔ ”
ویسے ابھی تو دو دن نہیں ہوئے تھے پانچ دن باقی ہیں دو دن میں خان زادی کو منا لیا تو سوچو پانچ دن میں کیا کر سکتا ہے یہ دلاور۔
زیادہ مت اتراؤ ہم نے صرف اپنے بھائی کی خوشی کی لئے سمجھوتا کیا ہے دعا نے آنسو پونچھتے کہا۔۔
جانتا ہوں میں آپکو دلاور نے پاکٹس میں ہاتھ ڈالے کہا ۔۔
وہ لوگ سمندر کے درمیان میں تھے ایک بڑی لہر سے دلاور کا پیر پھسلنے ہی والا تھا دعا نے فورا سنبھالا۔اسی خوف سے کہ اب کے اسی کوئی چاہ دلاور کو بھی ختم نہ کر ڈالے۔
بس ثابت ہوگیا دعا خان زادی نے ڈاکٹر دلاور کو اپنے بھائی کے لئے ونی کیا ہے قہقہہ لگاتے دلاور نے کہا۔۔
“دعا کی زندگی میں خوشیاں آنے میں دیر لگی تھی مگر اتنی بھی نہیں کہ زندگی ختم ہو جاتی اور حسرتیں باقی رہ جاتیں ہم سب کو اپنی زندگی میں خوش ہونے کا حق ہے۔ پا لینے کی چاہ ہے تو پھر دعا کا کیا قصور تھا وہ حسرتوں کی نشانی بنی اس دنیا سے چلی جاتی سبز قدم منحوس جیسے الفاظ کا تعلق نہ ہمارے مذہب میں ہے نا ہی انکی کوئی حقیقت ہے اگر کسی کی زندگی میں شامل ہوتے اسے کچھ ہو جائے تو اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ سامنے والا سبز قدم ہے بلکہ وہ تو قابلے محبت اور رحم ہوتا ہے۔۔ اسے ہم سب سے زیادہ محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ”
“رحم کر میرے مولا میرے حال پر یہ دنیا ظلم کرتی ہے کہ میں سبز قدم ہوں مگر میں نہیں ہوں۔۔ میں تیری بنائی بندی ہوں عشق سے مبرا خاکی ہوں۔۔”
*****تمت الخیر******
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...