معیز نے حرا سے بات کی تھی وہ اسے اسٹاپ پر چھوڑ دیتی تھی جہاں سے پانچ منٹ کی واک پر ان کا گھر تھا—معیز نے ایک آئی ٹی اکیڈمی جوائن کرلی تھی جہاں وہ ڈیجیٹل مارکٹنگ , گرافکس اینڈ انیمیشنز کے کورسز کرواتا تھا—سنڈے کا پورا دن وہاں گزرتا تھا اور باقی ہفتہ سات سے نو تک روز ایک سیشن ہوتا تھا—اسکے اکاؤنٹ میں تیرہ لاکھ تھا جس میں سے گیارہ لاکھ کے قریب شادی پر خرچ ہوگیا تھا جبکہ جنت کہہ رہی تھی اس نے ابھی خرچ ہی کیا کیا ہے؟؟؟ ایک لاکھ اور کچھ ہزار اکاؤنٹ میں تھے جسے ایمرجنسی کے لیے سیو کررکھا تھا اور جیسی گاڑی جنت کو چاہیے تھے وہ دو لاکھ میں نہیں آسکتی تھی—آج اتوار تھا وہ یہ سوچتے گھر میں داخل ہوا کہ جنت نے معمول کی طرح مشین لگائی ہوگی اور امی رات کے کھانے کیلیے سبزی بنارہی ہوں گی مگر افسوس اب اتوار کو وہ انہیں اپنے ہاتھ کی چائے نہیں پلاسکتا تھا—حسنہ بیگم نے اس سے دوسری جاب کا پوچھا تو اس نے یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ شادی کی وجہ سے ساری سیونگز ختم ہوچکی ہیں
“مما جنت نہیں نظر آرہی” فریش ہو کر وہ چھت کی اُس جانب گیا جہاں واشنگ مشین کیلیے جگہ بنی تھی—نہ تاروں پر گیلے کپڑے لٹکے تھے نہ واشنگ مشین کے چلنے کی آواز آرہی تھی—نیچے آکر حسنہ بیگم سے پوچھنے لگا جو اسکے لیے چائے بنارہی تھیں—شام کے چھ بج رہے تھے “اُسکی کوئی ورک شاپ تھی آج بس آنے والی ہوگی” انہوں نے چائے مگ میں نکالی—معیز نے اسے کال ملائی—اسکی رنگ ٹون کی آواز دور سے آنے لگی شاید وہ دروازے پر تھی—دروازہ بجنے لگا
“آگئی ہے شاید” حسنہ بیگم نے ٹرے اٹھاتے کہا
“میں دیکھتا ہوں” وہ لانج سے باہر نکلا— سامنے ہی تھوڑی سی جگہ اسکی گاڑی نے گھیر رکھی تھی ایک طرف دروازہ تھا
“اسلام و علیکم” اسکے دروازہ کھولتے ہی جنت نے سلام کیا معیز نے اندر آنے کا راستہ دیا
“کون سی ورک شاپ تھی تم نے مجھے نہیں بتایا” لانج میں پہنچتے ہی اس نے سرسری سے انداز میں پوچھا
“فری لانسنگ کی ورک شاپ تھی—حرا بھی ساتھ تھی میرے بلکہ وہی لے کر گئی تھی” اس نے اپنا پرس میز پر رکھا اور کچن میں چلی گئی—پانی پی کر واپس آئی “کیسی تھی؟؟؟” اس نے پوچھا
“اے ون” وہ مسکرائی
“شکر ہے تم بھی خوش ہوئی کسی بات پر” معیز نے پابند تو اسے کبھی نہیں کیا تھا بس وہ اسے جاتے ہوئے اطلاع نہیں کرتی تھی شکر تھا حسنہ بیگم کو بتا کرجاتی تھی
“آج باہر ڈنر کرنا ہے میں نے” جنت نے اسکے سامنے سنگل صوفے پر بیٹھتے کہا—معیز نے کچھ سوچنے کے انداز میں ہونٹ بھینچے
“جو آپ کا حکم زوجہ محترمہ” اس نے اپنے کشادہ سینے پر ہاتھ رکھ کر جھکتے ہوئے کہا تو جنت کھکھلا کر ہنس دی—معیز نے حسرت سے اسکی یہ جلترنگ ہنسی سنی تھی—معیز اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے سامنے گھٹنے نیچے ٹکا کر بیٹھ گیا— اسکے دودھیاں ملائم ہاتھ اپنے بالوں سے بھرے دلکش ہاتھوں میں لے لیے
“ہر وقت ایسے ہی ہنستی مسکراتی رہو دنیا کا کوئی غم کوئی درد تمہیں چھو کر نہ گزرے” معیز نے اسکا دایاں ہاتھ لبوں تک لے جانا چاہا تو جنت نے فوراً ہاتھ کھینچ لیا
“امی یہیں گھوم رہی ہیں کتنے بےشرم ہیں آپ” جنت نے اسکے سینے پر چھوٹے سے ہاتھ کا مکا مارا وہ پیچھے گرنے کی ایکٹنگ کرنے لگا—پھر نیچے بیٹھ کر ہی اسکی گود میں سر رکھ دیا جو صوفے پر بیٹھی تھی
“کیا ہوا تھک گئے ہیں؟؟؟” جنت نے اسکے ماتھے سے بال سنوارے کئی بار تو رشک کرتی اسکی قسمت میں اتنا وجیہہ ہمسفر تھا کم از کم ایک خواہش تو پوری ہوئی تھی— اسکی پلکیں چھونے کا دل کرنے لگا اسکی ہلکی بڑھی شیو محسوس کرنی چاہی مگر ایک جھجھک سی تھی جو شادی کے تین مہینوں بعد بھی جنت کو اس سے محسوس ہوتی تھی
“میرے بالوں میں اُنگلیاں چلاؤ— تمہارا لمس میری ہر تھکن اُتار دیتا ہے” اس نے جنت کا بایاں ہاتھ اپنی قید میں لیتے گھمبیر آواز میں التجا کی
“کئی بار آپ بڑی فلمی باتیں کرتے ہیں” جنت نے ہنستے ہوئے دائیں ہاتھ کی انگلیاں اسکے گھنے بالوں میں پھیریں
“میری محبت بھری باتیں تمہیں فلمی لگتی ہیں جذبات سے عاری لڑکی” اس نے جنت کا ہاتھ زور سے دبایا
“آہ” جنت کے منہ سے سسکی نکلی—ساتھ ہی اس نے جنت کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگاتے چوم لیا—عجیب کاروائی تھی جنت کوئی ردِ عمل نہ ظاہر کرسکی
“ویسے آج اپنی اتنی خوشی کی وجہ تو بتاؤ” معیز اسکے ہاتھ میں موجود انگوٹھی سے کھیلنے لگا
“ڈنر کے وقت بتاؤں گی”
“نہیں ابھی” وہ واقع بہت ضدی تھا
“مجھے ایک ملٹی نیشنل ڈیجیٹل میڈیا کمپنی میں ڈیجیٹل مارکٹنگ مینجر کی جاب آفر ہوئی ہے فرائے ڈے کو انٹرویو دے کر آئی تھی آج صبح ہی appointment letter ملا ہے مجھے— پچاس ہزار ہی سٹارٹنگ ہے—کچھ منتھ بعد انکریز ہوجائے گی” وہ اسکے چہرے کے تاثرات دیکھنے کو تھوڑا آگے کو چہرہ جھکائے بتارہی تھی
“تم نے ایک ائیر کا ایگریمنٹ سائن کیا ہے کمپنی کے ساتھ—-ایک سال تک تمہیں یہیں کام کرنا ہوگا” اس نے بڑے اطمینان سے اسکی ساری خوشی پر پانی پھیردیا بلکہ تیزاب پھینک دیا تھا
“آپ نے خود کہا تھا کہ بغیر بوندنگ کے انٹرویو ہوا ہے میرا کیوں کہ سر لغاری لفٹ کرچکے تھے—میں نے کوئی ایگریمنٹ سائن نہیں کیا” جنت نے سختی سے اسکی بات کی تردید کی
“ٹھیک ہے— اگر تم جاب چھوڑتی ہو تو کمپنی تم پر کیس کرنے کا حق محفوظ رکھتی ہے تین لاکھ جرمانہ ادا کرنا ہوگا تمہیں” معیز اسکا ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ہوچکا تھا—اسکی طرف مڑتے کندھے اُچکا کر بولا
“آپ جھوٹ کہہ رہے ہیں نا؟؟؟” جنت بس رونے کو تیار تھی—معیز نے جھک کر اسکے صوفے کے دونوں اطراف ہاتھ رکھتے—نچلا لب دانت میں دبا کر پلکوں کو جنبش دیتے اثبات میں سر ہلایا
“مجھے پتا تھا” جنت فوراً جوش میں آئی
“مگر باس کو تو نہیں پتا نا کہ تم نے اگریمنٹ سائن نہیں کیا” وہ کمال معصومیت سے کہہ رہا تھا—اسکا اشارہ سمجھتے جنت کا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا
“معیز آپ میرے ساتھ دھوکہ کر رہے ہیں” جنت نے احتجاج کیا
“اوں ہوں” نفی میں سر ہلاتے اسکے غصے سے دہکتے عارض پر اپنی اُنگلیوں کا لمس پھیرتے مسکرایا
“پیار کی زبان تمہیں سمجھ نہیں آتی تو اب یہی گیم کھیلنا پڑے گا مجھے” جنت کا لال بھبھوکا چہرہ اسے مزہ دے رہا تھا—وہ تھوڑا سا اور اسکی جانب جھکا جنت نے چہرہ اوپر اٹھا رکھا تھا اسکی بڑی بڑی آنکھوں میں غصہ ہلکورے لے رہا تھا—جنت نے غصے سے اسکے سینے پر ہاتھ رکھے اسے دور دھکا دیا اور اٹھ کر جانے لگی
“مما آپ کی بہو ناراض ہوگئی ہے” اسکے نکلتے ہی حسنہ بیگم کچن سے لانج میں آئیں تھیں انہیں دیکھتے معیز بلند آواز میں شوخی سے بولا
“ضرور تم نے کچھ کہا ہوگا” وہ کلاس لینے کے موڑ میں تھی
“کہتی ہے آپ کا بیٹا بہت پیار کرتا ہے مجھ سے” وہ اُسی صوفے پر دھپ سے بیٹھ گیا جہاں پر جنت بیٹھی تھی “جھوٹ بول رہے ہیں امی” جنت فوراً واپس پلٹی تھی— معیز کا قہقہہ بےساختہ تھا—جنت نے گھور کر اسے دیکھا
*************
جنت نے ایپلیکیشن بھیج دی تھی کہ اگر ممکن ہے تو وہ اگلے ماہ سے شروع کرسکتی ہے—حیرت انگیز طور درخواست کا جواب مثبت تھا—-جنت صبح اسکے ساتھ آفس نہیں گئی تھی نہ ہی اس نے ناشتہ کیا تھا رات کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا—معیز نے اسے ہینڈ بیگ لے کر نکلتے دیکھا تو حسنہ بیگم سے اسکے جلد جانے کی وجہ پوچھی وہ سیڑھیاں اُتر رہا تھا اور وہ نکل گئی تھی ورنہ وہ خود پوچھ لیتا
“پتا نہیں کل سے موڈ خراب ہے” حسنہ بیگم نے لاپرواہی سے جواب دیا
“بریک فاسٹ کر کے گئی ہے؟؟؟” انہوں نے نفی میں سر ہلایا “آپ نے پوچھا نہیں؟؟؟ انہوں نے پھر نفی میں سر ہلایا—دونوں ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھے—حسنہ بیگم ناشتے کے لوازمات اپنی پلیٹ میں ٹرانسفر کرنے میں مصروف تھیں “تمہاری بیوی ہے تم سے ناراض ہے میں کیوں بولوں تم لوگوں کے معاملے میں— تمہاری سائیڈ لوں تو اُسے شکایت اُسکی لوں تو تمہارے شکوے” وہ خود بھی ان کے روز روز کے جھگڑوں سے تنگ نظر آرہی تھیں—
“میں بھی نکلتا ہوں—” اپنا کوٹ ساتھ والی کرسی سے اٹھا کر ان کی کرسی کی طرف آتے ان کے سر پر بوسہ دیا اور جانے لگا
“ناشتہ کرلینا اور جنت کو بھی کروا دینا” انہوں نے پیچھے سے ہانک لگائی
“اُسی کیلیے جلدی جارہا ہوں” وہ باہر نکل چکا تھا جس وقت وہ آفس پہنچا بہت کم امپلائز آئے ہوئے تھے—سب سے ہیلو ہائے کرتے اپنے کیبن میں آیا—جنت کمپیوٹر پر اپنے کام میں مصروف تھی—معیز نے اپنا لیپ ٹاپ اپنے میز پر رکھا اور اسکی جانب دیکھا جو اسکی آمد کو نظرانداز کررہی تھی
“اتنی جلدی آنے کی وجہ پوچھ سکتا ہوں” کھڑے کھڑے ہی اسکی طرف دیکھ کر قدرے غصے سے بولا—دوسری جانب وہ کان لپیٹے مصروف رہی—معیز آگے بڑھا اور اسکی چیئر گھما کر اپنے سامنے کی—جنت نے سر اٹھا کر ناگواری سے اسے دیکھا
“کچھ پوچھا ہے میں نے” اسکے دیکھنے پر وہ چڑچڑا سا ہو کر بولا–جنت نے واپس کرسی گھمانی چاہی تو اس نے جھک کر ایک ہینڈل پر ہاتھ رکھ لیا وہ کرسی تک نہ گھما سکی “اگر یہ سب کل والی بات کا ردِعمل ہے تو فضول اپنی انرجی ویسٹ کررہی ہو—اسٹیمپ پیپرز میں ریڈی کرنے کا آرڈر رات کو ہی دے چکا ہوں اور آج ہی مکمل کرلوں گا—باس سے بات کرنے کی غلطی مت کرنا بری پھنسو گی” وہ سختی سے اسے دھمکا رہا تھا—جنت نے پوری قوت سے کرسی پر رکھے اسکے بازو پر مکا رسید کیا
“آہ” معیز نے بازو ہٹایا—اسے جنت سے اس خونخوار حرکت کی اُمید نہیں تھی—وہ کرسی دوبارہ کمپیوٹر کی جانب موڑ چکی تھی
“اٹھو کہیں باہر ناشتہ کر کے آتے ہیں” اسکی کرسی کی بیک پر کھڑے اسکے اوپر کہنی جمائے بولا—جنت نے تو نا بولنے کی قسم کھا رکھی تھی
“اگر اب تم نہ اُٹھی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا” معیز نے دھمکایا—وہ پھر بھی ڈھیٹ بنی بیٹھی تھی—معیز آگے بڑھا اور پیچھے سے پلگ نکال دیا سسٹم خود ہی آف ہوگیا—غصے و غم کی زیادتی سے جنت کی آنکھیں پھیل گئیں—مڑ کر معیز کو دیکھا وہ اطمینان سے کھڑا اسے ایسے دیکھ ریا تھا جیسے کہہ رہا ہو
“اب کرو کام”
“I hate you—I hate you so much”
جنت کی سمجھ میں جب کچھ نہ آیا تو غصے سے نفرت کا اظہار کرنے لگی—وہ سینے پر بازو باندھے اسے دیکھنے لگا—پھر دو تین قدم اٹھاتا اسکے قریب آکھڑا ہوا—جنت کا غصے سے سرخ ہوتا چہرہ اسکے بےحد قریب تھا وہ غصے میں تھی جبھی چہرہ اٹھائے اسے مسلسل گھور رہی تھی “کاش ابھی ہم آفس میں نہ ہوتے تو میں تمہیں بتاتا کہ میں تم سے کتنی نفرت کرتا ہوں” معیز نے اسکے شانے پر پڑے دوپٹے کو درست کرتے کہا—جنت نے مشتعل ہوتے اسکے ہاتھ جھٹکے اور دوپٹہ کندھے پر اکٹھا کر لیا
“میں باس سے کہہ کر اپنی سیٹنگ چینج کرواتی ہوں—” اس نے غصے سے کہتے اپنے میز سے فائلز اُٹھا کر ڈرار میں منتقل کرنا شروع کیں—معیز کے لبوں پر تبسم سا بکھر گیا— اسکے چہرے کے اطراف بکھرے بالوں پر نظریں جمائے کھڑا تھا
“ریزن کیا بتاؤ گی؟؟؟” وہ اسے مزید چڑا رہا تھا—جنت اسکی جانب مڑی
“آآآ—- آپ کس قماش کے انسان ہیں—مجھے غصہ آرہا ہے اگر آپ نے اب مجھ سے گفتگو کرنے کی کوشش کی تو میں—“وہ سوچنے لگی
“میں باس سے آپ کی کمپلین کروں گی کہ آپ بلاوجہ مجھ سے بےتکلف ہونے کی کوشش کرتے ہیں” وہ تیز تیز بول رہی تھی اور معیز اسکی بات سمجھ کر سر ہلارہا تھا
“بےتکلف تو ہوں گا میں—تم یا باس کوئی مجھے نہیں روک سکتا” پھر اسکے دوپٹے کا پلو کھینچا—جنت کو اسکی یہ حرکت نہایت زہر لگتی تھی جتنا وہ اسکے دوپٹے اور ہاتھ میں پہنی انگوٹھی سے کھیلتا تھا کئی بار اسکا دل چاہتا یہ دونوں چیزیں اُتار کر اسے ہی دے دے—اس سے پہلے کہ معیز مزید پھیلتا یا جنت غصے کا اظہار کرتی معیز کا فون بجنے لگا
“اوں ہوں” وہ جی بھر کر بد مزہ ہوا اسکا دوپٹہ چھوڑ کر اپنی سیٹ کی جانب بڑھ گیا—جنت ایک فائل اٹھا کر کیبن سے نکل گئی—معیز کو ایک میٹنگ کیلیے جانا تھا کسی کمپنی کے کچھ پروڈکٹس تھے ان کی مارکٹنگ کے حوالے سے انہیں میٹنگ کرنی تھی
************
معیز میٹنگ کے دوران ٹی اور رفریشمنٹ لے چکا تھا پھر اسکا اپنے اسٹاف کے ساتھ بھی اسی پروجیکٹ پر ایک میٹ اپ تھا اس میں بھی کافی اور رفریشمنٹ لے لی تھی اب وہ انکار کر کے بلاوجہ سب کو اپنی منتیں کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا تھا—جب تک وہ اپنے کام سے فارغ ہوا جنت آفس سے جاچکی تھی اسے بےتحاشا غصہ آیا جب حرا اور ایمن سے پتا چلا کہ آج اُس نے لنچ نہیں کیا—گھر پہنچا تو اسے روم میں بند پایا—فی الحال وہ اسے یونہی لیٹا چھوڑ کر فریش ہو کر آیا شلوار سوٹ پہن کر مسجد گیا عشاء ادا کرنے کی غرض سے—
“امی آپ کیوں لگی ہیں جنت سے کہہ دیتیں” وہ واپس آیا تو حسنہ بیگم آخری روٹی چولہے سے اُتار رہی تھیں
“پہلے بھی میں ہی کرتی تھی اب کرلوں گی تو کیا فرق پڑجائے گا” انہوں نے چولہا بند کرتے نارمل سے انداز میں کہا “پہلے میں آپ کی ہیلپ کردیتا تھا اب نہیں کرپاتا” اسے احساس ہوا تھا کہ جنت کے آنے سے اس نے گھر کے کاموں سے بالکل ہاتھ کھینچ لیا تھا اپنے کام وہ اب بھی کافی حد تک خود ہی کرتا تھا نہیں تو جنت وہ بھی کردیتی تھی— اصل وجہ جنت کا آنا نہیں بلکہ اسکی اکیڈمی جوائن کرنا تھا جس کے بعد سے مصروفیت اتنی زیادہ ہوگئی تھی کہ سنڈے بھی پورا باہر گزرتا وہ شام کی چائے بھی انہیں بنا کر نہیں پلا سکتا تھا اب—- رات کو بھی کھانا کھاتے ساتھ روم میں چلا جاتا اسے پہلے اکیڈمی کیلیے نیکسٹ لیکچر کی سلائڈز تیار کرنی ہوتی تھیں پھر انہیں میل کرکے وہ بارہ ساڑھے بارہ فری ہوتا تب تک امی اور جنت دونوں سوچکی ہوتیں
“اٹس اوکے” انہوں نے پیار سے کہتے اسکے بال بکھیرے “جنت کو بلا لاؤ کھانے کیلیے” میز لگاتے بولیں
“آپ بلا لائیں” اس نے سوچا شاید ان کی مان جائے
“مجھ سے تو اس نے آفس کے آنے کے بعد سے بات نہیں کی— عجیب موڈ ہے اُسکا—” شادی کے بعد پہلی بار انہوں نے جنت کی شکایت کی تھی اس سے یا صرف بتایا تھا
“کھالے گی خود ہی” معیز نے لاپرواہی سے کہتے اپنی کرسی گھسیٹی اور اپنے لیے کھانا نکالنے لگا— حسنہ بیگم نے بھی کچھ نہیں کہا اسکے ساتھ ہی کھانا شروع کردیا—معیز نے کھانے کے برتن اُٹھائے ان کیلیے اور اپنے لیے دودھ پتی بنائی— ساتھ ساتھ کھانے کے برتن بھی صاف کردیے—ان کے ساتھ چائے پیتے باتیں کرتے ساڑھے گیارہ بج گئے پھر وہ چائے کے مگ دھو کر اپنے پورشن کی سیڑھیاں چڑھ گیا—لائٹ آن کی تو بیڈ پر ایک طرف اوندھی لیٹی جنت پر نظر پڑی—تکیہ دونوں بازوؤں میں دبوچے ان پر سر رکھا ہوا تھا بال چٹیا سے نکل رہے تھے بہت کم چٹیا میں رہے تھے—اپنا لیپ ٹاپ اٹھا کر وہ بیڈ کی دوسری جانب بیٹھ گیا ابھی اس نے کام شروع ہی کیا تھا کہ اسے محسوس ہوا جنت رو رہی ہے اسکی دبی دبی سسکیاں اور ہلتا وجود معیز کے شک کی تصدیق کررہا تھا اس نے نظر انداز کرنا چاہا مگر وہ مزید ایک لفظ بھی نہ ٹائپ کرسکا تو مجبوراً اسے پکار بیٹھا “جنت” معیز نے ہلکے سے آواز دی
“جنت آئی ایم کالنگ یو” اس نے اب کی بار قدرے اونچا کہا—- پھر لیپ ٹاپ بند کر کے ایک طرف رکھا اور اسکی جانب کھسک گیا
“جنت” اس نے جنت کے بال اس کے چہرے سے ہٹائے تو اس نے منہ تکیے میں گھسا لیا وہ اسکا چہرہ نہیں دیکھ پا رہا تھا—اسے بازو سے پکڑ کر زبردستی اٹھا کر بٹھایا— اسکی آنکھیں سوجی ہوئیں تھیں اور ناک لال ٹماٹر ہورہی تھی— چہرے کی سرخی بتارہی تھی کہ وہ بہت دیر سے رورہی ہے—ہونٹ کپکپا رہے تھے—اسکے آنسو اس وقت ہیرا بھی پگھلا سکتے تھے یہ تو پھر معیز تھا اس سے بےپناہ بےحساب محبت کرنے والا
“کیا ہوا ہے؟؟؟” اس نے جنت کی کلائی کو جھٹکا دیتے دوسرے ہاتھ سے اسکے آنسو صاف کیے—جنت نے منہ پھیر لیا وہ مسلسل کلائی آزاد کروانے کی تگ ودو میں تھی
“جنت میرے دل! کیوں جان لے رہی ہو میری” اس نے جنت کو کھینچ کر اپنی بانہوں میں بھینچ لیا وہ مزید رونے لگی—اسکا وجود معیز کی پناہوں میں ہچکولے کھا رہا تھا—معیز کا دل چیر رہا تھا اسکی دھڑکنیں جنت کے گرتے ایک ایک آنسو پر تھم رہی تھیں وہ اس لڑکی کا کیا کرتا؟؟؟
“بس چُپ— مزید ایک آنسو برداشت نہیں کروں گا میں تمہارا” وہ اسے سرزنش کرتا جھک کر اسکا چہرہ دیکھنے کی کوشش کررہا تھا جو اسکے سینے میں ملفوف تھا—بہت وقت ایسے ہی گزر گیا وہ اسکی کمر سہلاتا رہا یہاں تک کے جنت کے آنسو تھم گئے—وہ اب بھاری بھاری سانس لے رہی تھی پھر پرسکون ہوگئی—معیز کا ہاتھ اسکی کمر تو کبھی بال سہلا رہا تھا—کچھ دیر بعد جنت کو اپنی حرکت اور اس قربت کا احساس ہوا—جھجھک کر اس سے الگ ہوئی معیز کی نرم سی گرفت اب بھی قائم تھی
“بن موسم برسات کی وجہ جاننے کی گستاخی کرسکتا ہوں؟؟؟ یا پھر تمہیں شوق ہے مجھے پریشان کرنے کا, ستانے کا, تڑپانے کا؟؟؟” اسکے دونوں ہاتھ کلائیوں سے تھوڑا اوپر سے جکڑے پوچھ رہا تھا وہ اسکی جانب دیکھنے سے گریز کررہی تھی
“صبح ناشتہ کیا تھا تم نے؟؟؟” معیز کو اب اسکے کھانے کی فکر ستانے لگی–جنت نے نفی میں سرہلایا اور کل رات کھانا بھی اس نے نہیں کھایا تھا اور اب اگلی رات تک وہ بھوکی تھی اپنی ضد منوانے کیلیے اسکی بھوک ہڑتال والی چال معیز کو سخت ناپسند تھی مگر وہ پگھلتا بھی یہیں تھا “ٹہرو میں کھانا لاتا ہوں” وہ اسکے ہاتھ چھوڑ کر بیڈ سے اُترنے لگا تھا جب جنت قطیعت سے گویا ہوئی
“میں نہیں کھاؤں گی”
“وجہ؟؟؟” معیز نے سنجیدگی سے پوچھا
“کھانا زندہ رہنے کیلیے کھاتے ہیں اور مجھے اب زندگی کی کوئی خواہش نہیں” وہ اسکے صبر کو اسکی ہمت کو آزما رہی تھی
“پھر تو تمہیں پانی بھی نہیں پینا چاہیے تھا” معیز کو غصہ تو بہت آیا مگر برداشت کرگیا
“نہیں پیا” جنت اسکی جانب کاٹ دار نگاہ سے دیکھتی بولی تو معیز کا میٹر گھوم گیا
“تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا؟؟؟ پاگل ہوگئی ہو تم؟؟؟” پہلی مرتبہ وہ اس سے اتنی بلند آواز میں مخاطب تھا لیکن جنت کے سر پر جوں تک نہیں رینگی وہ پیسوں کے معاملے میں اتنی ہی جذباتی تھی
“میں کھانا لے کر آرہا ہوں اور دیکھتا ہوں تم کیسے نہیں کھاتی” وہ بیڈ سے اُتر چکا تھا انتہائی غصے میں کہتا غڑاپ سے کمرے سے نکل گیا—کچھ دیر بعد وہ کمرے میں داخل ہوا تو جنت سر تک چادر اوڑھے سوتی بن گئی
“اٹھو” معیز نے ایک ہی جھٹکے میں چادر کھینچ کر دور اُچھالی اور اسے بازو سے پکڑ کر بٹھادیا—کھانے کی ٹرے اپنے اور جنت کے درمیان رکھ کر ایک نوالہ بنا کر اسکے منہ کی جانب بڑھایا
“میں نہیں کھاؤں گی” وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتی انتہائی باغیانہ انداز میں بولی
“جنت مجھے پریشان مت کرو پلیز” معیز نے منت کی
“میں آپ کو پریشان کررہی ہوں؟؟؟ میں؟؟؟ آپ میری زندگی پر قابض ہوگئے ہیں—میرے ہر فیصلے پر آپ کو اعتراض ہوتا ہے میری کامیابی میری ترقی آپ کی آنکھوں میں چبھتی ہے آپ سے برداشت نہیں ہورہا کہ مجھے بھی آپ کے لیول کی جاب آفر ہوگئی ہے—اب میں اپنے مستقبل کے سنہرے خوابوں کیلیے اینٹیں جمع کررہی ہوں تو آپ کیوں راستے میں ٹانگ رکھ کر مجھے گرا رہے ہیں؟؟؟” جنت تیز لہجے میں ایک ہی سانس میں بولی معیز کو اسکی غلط فہمی بلکہ سطح سوچ نے بہت ٹھیس پہنچائی تھی اسکی آنکھوں میں نمی جھلکنے لگی
“میں تمہیں اپنے کیبن میں اپنے پاس, اپنے قریب , اپنے سامنے دیکھنا چاہتا ہوں کیا میری اتنی سی خواہش تمہیں مجھ سے اتنا متنفر کر سکتی ہے میں نے سوچا بھی نہیں تھا— جہاں تک رہی میرے لیول کی بات تو میں سینوٹی سیون تھاؤئزنڈ کماتا ہوں اور تم مجھ سے پچاس ہزار کی جاب کیلیے لڑرہی ہو— تمہارے لیے اکیڈمی میں بھی جاب شروع کردی وہاں سے بھی اچھی خاصی آمدنی ہوتی ہے مگر تمہارے دل میں میری یہی اوقات ہے جو تم نے آج مجھے بتادی—بہت شکریہ تمہارا– میری محبت کا بہت اچھا صلہ دیا ہے تم نے” معیز نے نہایت دلگرفتہ لہجے میں اپنی بات مکمل کی اور اسکے لیے بنایا نوالہ یونہی چھوڑ کر کھڑا ہوگیا
“اسی لیے میں اپنے لیے خود کمانا چاہتی ہوں تاکہ مجھے آپ کے یہ طعنے نہ سننے پڑیں آج تک ایک ڈھنگ کی چیز آپ نے مجھے لے کر نہیں دی اور طعنہ پہلے ہی مار دیا کہ میرے لیے ایکسٹرا جاب کررہے ہیں” جنت کی جانب اسکی پُشت تھی سے بیڈ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا
“میں نے تمہیں طعنہ نہیں دیا اور جہاں تک رہی ڈھنگ کی چیز کی بات تو ابھی چار ماہ ہوئے ہیں ہماری شادی کو تمہارے جہیز تمہاری بری کی سب چیزیں نئی پڑی ہیں پھر بھی تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہے تو بتا دو مجھے” وہ دوبارہ اسکے سامنے آکر بیٹھ گیا تھا
“مجھے کچھ نہیں چاہیے آپ سے—یہ دیکھیں مجھے میری زندگی جی لینے دیں” جنت نے اسکے سامنے ہاتھ جوڑ دیے—معیز نے حیرت سے اسکا یہ انداز دیکھا وہ اسے سمجھ نہیں پارہا تھا بلکہ دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے میں ناکام تھے
“تم جو مرضی کرو میں تمہیں اب منع نہیں کروں گا—کھانا کھالینا” معیز نے اسکی جانب دیکھے بغیر کہا پھر بیڈ کے دوسری جانب جاکر لیٹ گیا—جنت نے ایک نظر اسکی پُشت کو دیکھا پھر ٹرے اپنی جانب کھینچ لی— جو نوالہ معیز اسے اپنے ہاتھ سے کھلا رہا تھا وہ اب خود کھارہی تھی معیز نے کوئی اسٹیمپ پیپرز تیار نہیں کروائے تھے اسے پتا تھا جنت اسکے دھمکانے پر کبھی باس سے بات نہیں کرے گی اور اگر کر بھی لیتی تو معیز باس سے کہہ دیتا کہ وہ اسے بول دیں کہ اس نے ایگریمنٹ سائن کیا ہے کیونکہ پچھلے سات آٹھ سال سے وہ یہاں ملازمت کررہا تھا باس سے اسکی بہت اچھی بنی ہوئی تھی اور باس بھی کبھی نہیں چاہتے تھے کہ اتنا قابل اور ہونہار ورکر انہیں چھوڑ کر جائے
*************
جنت نے اپنا ریزائگنیشن لیٹر دے دیا تھا مگر کمپنی کے قوانین کے مطابق اسے یہ مہینہ پورا کرنا تھا معیز کا رویہ اس سے برا نہیں تو اچھا بھی نہیں تھا. اسکی شوخیاں اسکا رومینٹک موڈ اب جنت کو برداشت نہیں کرنا پڑتا تھا گھر میں بھی وہ اب خاصا چپ چپ رہنے لگا تھا. حسنہ بیگم کے ساتھ پھر بھی کبھی کبھار مذاق کرلیتا انہیں روز مرہ کے مزاحیہ قصے سنادیتا کبھی اکیڈمی کے اسٹوڈنٹس کو لے کر فضول بولتا جاتا وہ بہت توجہ سے اسکی باتیں سن لیتیں— جان چکی تھیں اسے بیوی سے وہ توجہ نہیں مل رہی جس کا وہ حق دار ہے—اس نے نئی جاب شروع کردی تھی—جنت اب آٹھ بجے گھر آتی تھی—کچھ گھر کے کام کر کے وہ لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ جاتی معیز نہیں جانتا تھا کہ اس نے فری لانسنگ پر بھی کام شروع کردیا ہے—گرافک ڈیزائینر کا کافی کام وہ آن لائن کررہی تھی—رات کو اس نے کچن سمیٹا پھر اوپر آئی معیز اپنے لیپ ٹاپ پر مصروف تھا اس نے اپنا لیپ ٹاپ اٹھا لیا—کچھ دیر کام کرنے کے بعد سمارٹ فون کی جانب توجہ گئی اٹھا کر دیکھا فیس بُک نوٹیفکیشن میں حرا نے اسے معیز کی وال پر مینشن کیا ہوا تھا—معیز کی سالگرہ تھی آج.
وہ کمنٹ میں معیز سے پوچھ رہی تھی کہ جنت نے کیا تحفہ دیا—اسکی وال بہت سے لوگوں کی گُڈ وشز سے بھر گئی تھی—بارہ بیس ہورہے تھے—جنت کو غصہ آنے لگا اسے تو پتا بھی نہیں تھا کہ آج اُسکی سالگرہ ہے—وہ اسے مخاطب کرنا چھوڑ دیتا تو جنت اسکے سارے کام وقت سے پہلے کردیتی اسکے آس پاس گھومتی اسکے لیے اسکا من پسند کھانا بناتی مگر اس سے بات کرنے کی ہمت خود میں نہیں لا پاتی— ڈر لگتا تھا کہ کہیں غصے میں نہ آجائے ہمیشہ پیار دیکھ تھا اسکا جنت نے. چور نظر سے اسے دیکھا وہ اپنا سمارٹ فون تھامے تیزی سے کچھ ٹائپ کررہا تھا
“وہ بس میرے پاس رہے مجھے اس سے زیادہ اُس سے کچھ نہیں چاہیے” معیز کا کمنٹ پڑھ کر جنت نے بےدردی سے اپنا نچلا لب کاٹا—وہ موبائل رکھ کر اب لیپ ٹاپ شٹ ڈاؤن کررہا تھا اسے سونے کیلیے تیار دیکھ کر جنت کو سمجھ نہ آیا کیسے وش کرے—معیز کا فون بجنے لگا
“آرہا ہوں” پتا نہیں کون تھا اس وقت جس سے وہ مسکرا کر مخاطب تھا
“کہاں جارہے ہیں” اسے کمرے سے نکلتا دیکھ کر جنت بیڈ سے اُترتی جلدی سے بولی—وہ جواب دیے بغیر چلا گیا—جنت اسکے پیچھے نیچے آئی—لانج میں بہت سارے غبارے پھیلے ہوئے تھے—دیوار پر ہیپی برتھ ڈے لٹک رہا تھا—حسنہ بیگم کھڑی تالیاں بجا کر اسے وش کررہی تھیں. جنت کو اپنا آپ بےمعنی سا لگا وہ ماں بیٹا جیسے اپنی دنیا میں مکمل تھے—حسنہ بیگم نے اس سے کچھ بھی ڈسکس نہیں کیا تھا—معیز کے پیچھے جنت بھی سیڑھیاں اُتر آئی جیسے کوئی بن بلائی دعوت میں آتا ہے
“میرا ہیرو— میرا شہزادہ” انہوں نے چھ فٹ کے معیز کو اپنے گلے لگایا مگر لگ رہا تھا جیسے وہ ان کو گلے لگا رہا ہے “اس بار آپ پورے پچس منٹ لیٹ ہیں” وہ شوخی سے بولا “اب میری بہو کا بھی تو کچھ حق بنتا ہے” ان کی بات نے معیز کے لبوں سے مسکراہٹ چھین لی مگر وہ بےفکر سی آگے بڑھ کر کیک پر لگی موم بتی جلانے لگیں—معیز نے کیک کاٹ کر انہیں کھلایا پھر ان کے پاس کھڑی جنت کو— تھوڑی سی تصاویر اُتاریں— حسنہ بیگم نے اسکے گال پر تھوڑا سا کیک لگایا جنت کو کچھ اسکی بچپن کی سالگرہ وغیرہ کے واقعات سنائے—ان کو زبردستی کمرے میں بھیج کر جنت لانج کی صفائی کرنے میں لگ گئی معیز صوفے پر بیٹھا ابھی کھینچی گئیں تصاویر دیکھ رہا تھا—جنت اسکے صوفے کے پاس بکھرے غبارے اٹھا رہی تھی جب ایک غبارہ اچانک پھٹ گیا جنت کے لبوں سے ہلکی سی چیخ نکلی ساتھ ہی وہ اسکے پاس صوفے پر گرگئی—
زور سے میچی آنکھیں آہستگی سے کھول کر دیکھا تو معیز حیرت سے اسے گھور رہا تھا وہ شرمندہ سی ہوگئی—معیز نے جھک کر نیچے گرا ایک غبارہ اٹھایا جنت اسکی کاروائی دیکھ رہی تھی پھر اسکے پاس آرکا—اسکا ہاتھ جنت کے بالوں کی جانب بڑھ رہا تھا—جنت نے تھوک نگلا—اسکے بالوں سے ہیئر پن نکال کر غبارہ بالکل اسکے کان کے پاس لے جاکر اس میں پن مار دی اس سے پہلے جنت کچھ بولتی ٹھاہ کی آواز نے اسکے کان میں سائیں سائیں کرنا شروع کردیا
“آآآ” کان سہلاتے اس نے غصے سے معیز کو دیکھا جسکی آنکھوں میں کوئی تاثر نہیں تھا—جھک کر ایک اور غبارہ یونہی اُٹھا کر پھوڑ دیا—ایک دو تین جنت کان پر ہاتھ رکھے بیٹھی تھی جب وہ ایک اور غبارہ اٹھانے لگا تو اسکے ہاتھ سے غصے سے کھینچا مگر جواباً اسکی غصیلی نگاہوں کی تپش نے اسے گھبرانے پر مجبور کردیا جنت نے فوراً جھک کر وہی غبارہ اٹھا کر دوبارہ اسے پکڑا دیا—معیز اب بھی جنت کو ہی دیکھ رہا تھا پھر غبارہ پھاڑے بغیر چھوڑ دیا پِن میز پر رکھی اور اسکی جانب دیکھے بغیر اوپر چلا گیا—جب تک جنت کام ختم کر کے اوپر پہنچی وہ سو چکا تھا—کمرے کی روشنی گُل تھی—پردے برابر, تو کیا اسے جنت سے اُمید نہیں تھی کہ وہ اسے وش کرے گی؟؟؟ یا اسے انتظار نہیں تھا—جنت کو دکھ ہوا—بیڈ کے دوسرے کنارے خاموشی سے لیٹی تھی مگر اندر کہیں بہت شور تھا—معیز کی اسکی جانب پُشت تھی—ڈھیلی سی سفید ٹی شرٹ پہن رکھی تھی اس نے—جنت کا دل خواہش کررہا تھا اسکے قریب جانے کی—اسکی آواز سننے کی, اسکو محسوس کرنے کی—جنت کھسک کے بالکل اسکے پاس ہوگئی پھر اٹھ کر بیٹھ گئی—ملگجے سے اندھیرے میں اسکے نقوش واضح نہیں تھے—جنت نے اسکے بالوں میں اُنگلیاں پھنسائیں—دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اگر وہ جاگ گیا تو—مگر کافی دیر تک اسکے وجود میں ہلکی سی بھی جنبش نہ ہوئی تو جنت نے جھک کر اسکے کشادہ سینے کے گرد اپنا بازو پھیلایا اور اسکے گال پر بوسہ دیتے—بہت دھیمی سی آواز میں بلکہ سرگوشی میں بولی
“Happy Birthday My Life”
“Love you so much”
جنت کا یہ موڈ, یہ انداز, یہ لہجہ بالکل نیا تھا بالکل انوکھا—احساسات و جذبات کے سمندر میں تہہ در تہہ غوطہ زن وہ معیز کے مسکراتے لب نہ دیکھ سکی—شادی کے اتنے ماہ بعد اسکی جانب سے یہ پہلا اظہار تھا—اگر وہ اٹھ جاتا تو وہ اس سے دور ہوجاتی—اسکے نرم سے بازو کی ہلکی سے گرفت اپنے سینے پر محسوس کرتا وہ جنت کی فضاؤں میں اُڑ رہا تھا اسی طرح اسکے گرد ایک بازو پھیلائے اسکی کمر سے سر ٹکائے وہ نیند کی وادیوں میں اُترتی چلی گئی—
چلو روٹھ جاؤ تم ، میں تم کو مناتا ہوں ،
تم کوئی ضد لگاؤ میں اسے آگے بڑھاتا ہوں ،
بہت دن ہو گئے تاروں کے جھرمٹ کی چمک دیکھے ،
تم لکھو گیت میں تم پہ غزل گنگناتا ہوں ،
ابھی تو وقت ہے مٹھی میں اور جذبات ہیں دل میں ،
چلو اب مان جاؤ تم ، میں تم سے روٹھ جاتا ہوں ،
میرے ہاتھوں کو تھامو اور کوئی پھر ضد نئی کر دو ،
چلو تم دو قسم اپنی میں واپس لوٹ جاتا ہوں ،
اور بھی ہیں بہت سے آزمانے کے ہنر باقی ،
رکھو تم ہاتھ دل پہ ، میں تمہیں دھڑکن سناتا ہوں ،
بہت دن ہو گئے خاموش محبت کو نبھاتے ہوئے ،
مجھے تم سے محبت ہے ، میں کہنا بھول جاتا ہوں . . . !
*************