محترم ڈاکٹر کے ایچ شاہین رانا صاحب
محترم امین خیال صاحب اور
محترم غلام مصطفی بسمل صاحب
سلام مسنون
پنجابی اخبار ”بھنگڑا“ کا اردو ماہیا نمبر ملا۔ دیکھ کر جی خوش ہوا۔ آپ صاحبان نے تاریخی نوعیت کا کام کیا ہے جس کے لئے میری طرف سے پرجوش مبارکباد قبول فرمائیں۔ اردو میں ماہیا نگاری نے درست سمت میں مزید پیش قدمی کی ہے۔ اختلافی ماہیوں کے نمونے ساتھ شامل کر کے جہاں غیر جانبداری کا ثبوت دیا گیا ہے۔ وہیں آنے والے وقت میں محققین کے لئے بہت سا دلچسپ مواد بھی جمع کر دیا گیا ہے۔
غلام مصطفی بسمل صاحب کے اختلافی ادارتی نوٹ کا میں خیرمقدم کرتا ہوں کیونکہ سنجیدہ اختلاف رائے سے جو بحث ہوتی ہے اس سے حقیقت زیادہ نکھر کر سامنے آ جاتی ہے۔
غلام مصطفی بسمل میرے بارے میں لکھتے ہیں۔
”پنجابی زبان میں مطالعہ کی کمی کے باعث ان کا نکتہ نظر محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجابی زبان میں کوئی ضابطہ یا اصول نہیں، ضرورت شعری کے مطابق اس کے حروف کو کھینچ کر لمبا بھی کرلیا جاتا ہے۔“
اگرچہ میں نے کسی زمانے میں ایم اے پنجابی کرنے کے لئے سال بھر جم کر تو اس کی کتابیں پڑھی تھیں تاہم مجھے پنجابی زبان ہی میں نہیں اردو زبان میں بھی اپنے مطالعہ کی کمی کا اعتراف ہے۔ البتہ ماہیے کے موضوع پر میں جتنا کچھ سمجھ سکا ہوں اسے قارئین ادب کے سامنے ضرور پیش کر رہا ہوں۔ میں نے یہ نہیں لکھا کہ پنجابی زبان میں کوئی ضابطہ یا اصول نہیں ہے۔ میرا خیال ہے یہاں تفہیم میں یا ابلاغ میں کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے۔ اصلاً بات ہو رہی تھی اردو زبان میں زحافات کے تعین کی اور زحافات کے حوالے سے میں نے لکھا ہے کہ پنجابی زبان میں (زحافات) ایسا کوئی ضابطہ یا اصول نہیں ہے۔ زحافات کا تعین نہ ہونے کے باعث شعری ضرورت کے مطابق بعض حروف کو کھینچ کر لمبا بھی کرلیا جاتا ہے اور گرا کر مختصر بھی کرلیا جاتا ہے۔ پھر اس بیان کے ساتھ میں نے بطور مثال چھ ماہیے بھی پیش کئے ہیں۔ اردو قواعد کے مطابق ان میں سے پہلے دو ماہیوں کے دوسرے مصرعوں کا وزن فعلن فعلن فع بنتا ہے دوسرے دو ماہیوں کے دوسرے مصرعوں کا وزن فعلن فعلن فعلن بنتا ہے اور تیسرے دو ماہیوں کے دوسرے مصرعوں کا وزن فعلن فعلن فعلن فع بنتا ہے۔ اب یا تو یہ کہہ دیا جائے کہ ماہیے کا سرے سے کوئی قاعدہ کلیہ ہی نہیں ہے یا یہ مان لیا جائے کہ ماہیے کا وزن تو مخصوص ہے لیکن زحافات کا تعین نہ ہونے کے باعث پنجابی شاعری میں خاصی لچک کی گنجائش ہے اور اسی وجہ سے یہ تین مختلف وزن دکھائی دیتے ہیں جبکہ ماہیے کی دھن پر پنجابی الفاظ کو گاتے ہوئے کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی۔ میں نے جہاں کہیں قواعد و ضوابط کی عدم موجودگی کی بات کی ہے اس سے مراد زحافات کی شعری رعایتیں ہیں۔
غلام مصطفی بسمل صاحب نے آخر میں ماہیے کے دونوں وزن اختیار کرلینے کو مناسب سمجھا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پھر تینوں ہی وزن کیوں نہ اختیار کرلئے جائیں؟ دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کم اور تینوں مصرعے ہم وزن کے ساتھ دوسرے مصرعہ میں ایک سبب زائد بھی روا رکھا جائے۔ لیکن کیا اردو میں ایسا کرنا ماہیے کے ساتھ مذاق نہیں بن جائے گا؟ اصل میں لسانی اور عروضی بحث پر میں اب تک کافی وضاحت سے اپنا موقف پیش کر چکا ہوں اور منتظر ہوں کہ کوئی دوست پوائنٹ در پوائنٹ میرے پیش کردہ موقف کے جواب میں مدلل بات کریں۔ اسی عرصہ میں اپنی تحقیق و تنقید کی کتاب ”اردو میں ماہیا نگاری“ مکمل کر چکا ہوں۔ امید ہے یہ کتاب اسی برس منظر عام پر آ جائے گی۔ مجھے خوشی ہوگی کہ غلام مصطفی بسمل صاحب میرے موقف کو پوری طرح پڑھ کر اپنی مدلل رائے دیں کہ میرے موقف کی بنیاد بہرحال پنجابی ماہیا ہے اور اس کے لئے مجھے بہرحال پنجابی ادب کے اسکالرز کی رائے زیادہ فائدہ پہنچائے گی۔ یہاں یہ بات پھر دہرا دوں کہ پنجابی ماہیا گائے جانے والی چیز ہے اور اس کی اپنی مخصوص دھن ہے۔ بسمل صاحب نے اپنے جو ثلاثی ”ماہیے“ کے نام سے پیش کئے ہیں، ان میں سے ایک ”ماہیا“ پیش کرتا ہوں۔
یہ آج تمہارا ہے
کل ہوگا ہمارا بھی
موسم کا اشارا ہے
اگر بسمل صاحب اپنے اس ”ماہیے“ کو پنجابی ماہیے کی کسی معروف دھن میں گنگنانے میں کامیاب ہو جائیں تو میں ان کے موقف کو بخوشی قبول کرلوں گا۔ کیا وہ اپنے اس ”ماہیے“ کو پنجابی ماہیے کی دھن میں روانی سے گنگنا سکتے ہیں؟ اس کا فیصلہ بھی انہیں پر چھوڑتا ہوں۔ جو مزاجِ یار میںآئے….”بھنگڑا“ کے اس ماہیا نمبر میں محترم ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری صاحب کا لگ بھگ دس سال پرانا مضمون دوبارہ پڑھ کر جی خوش ہوا۔ مضمون کا آخری حصہ تو مجھے ان کی پیشین گوئی سا محسوس ہوا۔ تنویر بخاری مفعول مفاعیلن کے وزن پر اصرار کر رہے تھے اور جمال ہوشیار پوری کا خیال تھا کہ فعلن فعلن فعلن زیادہ موزوں ہے…. ہم نے ماہیے کی دھن پر جب ان اوزان کو آزمایا تو (دوسرے مصرعہ کے فرق کے ساتھ) دونوں اوزان کو درست پایا۔ بھنگڑا کے ماہیا نمبر کے صفحہ ۵کالم ۴میں میرے مضمون میں دونوں اوزان کی ہم آہنگی کی نشاندہی کی گئی ہے۔
”غور کیا جائے تو ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری کا موقف زیادہ جاندار ہے کیونکہ مفعول مفاعیلن بھی عملی طور پر حقیقتاً فعلن فعلن فعلن کا روپ دھار لیتا ہے….مفعولمفاعیلن“
میں یہاں اپنی خوشی میں آپ سب کو شریک کرنے کے لئے جمال ہوشیار پوری صاحب کے مضمون کا آخری حصہ درج کر رہا ہوں۔
”تنویر بخاری ہوراں نے اٹھویں کلی نوں غلط قرار دے دتا اے پر اوہدا پہلا تے تیجا مصرعہ میرے دسے وزن تے پورا اتریا اے۔ خورے کل نوں کوئی ہور بندا کوئی ہور وزن لبھ لوے جیڑا میرے متھے ہوئے وزن تے پوریاں اترن والیاں ساریاں کلیاں تے مصرعیاں تے وی فٹ آ جاوے تے نال ای ایس کلی دے دوجے مصرعے تے وی فٹ آ جاوے تے انج ایس مضمون دا دوجا حصہ وی لکھیا جاوے جس دے لکھے جان نال پورا ماہیا عروض دے گھیرے وچ آ جاوے تے اسیں کہہ سکیئے کہ ماہیے دا جیڑا مصرعہ ایس وزن تے پورا نئیں اتردا اوہ غلط اے۔ پر پتہ نہیں کہ اوہ دوجا حصہ کدے لکھیاوی جاوے گا کہ نہیں تے جے لکھیا جاوے تاں لکھن والا بندہ کون ہووے گا۔ تنویر بخاری یاں میں یاں کوئی ہور؟“
میں نہیں کہہ سکتا کہ جمال ہوشیار پوری کا ”کوئی ہور“ میں ہی ہوں لیکن اتنا ضرور ہے کہ میں نے ماہیے کی عوامی دھن سے ماہیے کے وزن کی دریافت کا جو بنیادی اصول بتایا ہے اس سے نہ صرف اردو ماہیے کا قبلہ درست ہوا ہے بلکہ پنجابی میں بھی ماہیے کے وزن کی تفہیم کا اصل اصول ضرور مل گیا ہے….یہ ایک علمی بات ہے…. میں نے اپنا موقف دلائل کے ساتھ پیش کیا ہے اسے ان سے بہتر دلائل کے ساتھ توڑا جا سکتا ہے۔ میں نے کسی سچائی کا بلند بانگ دعویٰ نہیں کیا لیکن اردو والے بعض ”کرم فرماﺅں“ نے مجھے جس طرح دھتکارا اور پھٹکارا ہے اس سے مجھے لگتا ہے کہ میرے موقف میں کوئی سچائی ضرور ہوگی۔ مجھے غلام مصطفی بسمل صاحب اور پنجابی کے دیگر اسکالرز سے امید ہے کہ وہ اردو میں پنجابی ماہیے کی بقا اور احیا کے لئے مجھ ایسے کم علم کا ساتھ دیں گے بلکہ میری رہنمائی بھی کریں گے اور مجھے یہ نہیں کہنا پڑے گا
کیا کیا خضر نے سکندر سے اب کسے رہنما کرے کوئی
”بھنگڑا“ کے اس ماہیا نمبر میں پنجابی ماہیے کے وزن کے مطابق ماہیے لکھنے والوں کی تعداد ۵۳ہے جبکہ تین ہم وزن مصرعوں کے ثلاثی لکھنے والے صرف آٹھ ہیں۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کا مضمون اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ ایک بہاری بابو نے پنجابی ماہیے کو اتنی گہری اور علمی نظر سے دیکھا ہے۔ پنجابی زبان سے ان کی اس محبت کو محبت کی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ بہرحال اس تاریخی نمبر کی اشاعت پر ایک بار پھر آپ تینوں صاحبان کی خدمت میں مبارکباد اور اظہار تشکر۔والسلام نیک تمناﺅں کے ساتھ حیدر قریشی (جرمنی)
(مطبوعہ ۔ اخبار ”بھنگڑا“ گوجرانوالہ۔شمارہ ۔ جولائی ۱۹۹۷ئ)