ڈاکٹر انور سدید(لاہور)
بعنوان’’ جدید ادب اور حیدر قریشی‘‘
برادرم حیدر قریشی صاحب سلام مسنون
جدید ادب ۱۲جو جنوری ۲۰۰۹ء تا جون ۲۰۰۹ء کی اشاعت ہے،مل گیا ہے۔اس دفعہ آپ نے وقت سے پہلے پرچہ چھاپنے کی مثال قائم کر دی۔میں منتظر تھا کہ عمران شاہد بھنڈر سے ایک بار پھر ملاقات ہو گی اور بہت سارے دروں پردہ اسرار منکشف ہوں گے لیکن اس دفعہ انہیں غیر حاضر پا کر میوسی ہوئی۔شاید وہ اپنے تحقیقی کام میں زیادہ مصروف ہو گئے ہیں اور آپ کے اپنے مضمون کی اگلی قسط ارسال نہیں کر سکے۔
شمارہ ۱۲میں ’’ادبی کائنات میں رنگ۔۔۔‘‘ اور ’’چند پرانی و نئی یادیں ‘‘نے بڑا مزہ دیا۔حیرت ہوئی کہ آپ نے اپنی ادبی زندگی میں خواتین کی اتنی بڑی تعدادسے پاک اور مصفّیٰ روابط قائم کیے۔اور عزت و احترام کی فضا میں تعلقات کو آگے بڑھایا۔یہ بات میں نے اس لیے کہی ہے کہ ہمارے ہاں ہوس پرست مدیران بھی موجود ہیں جو خاتون کے چہرے کی بجائے پہلے آزار بند پر نظر ڈالتے ہیں،پھر کئی کہانیاں گردش میں آجاتی ہیں۔بالخصوص ان خواتین کی کہانیاں جو خود نہیں لکھتیں،مردوں سے لکھواتی اور ان سے زیادہ شہرت سمیٹتی ہیں۔آپ کے مضمون میں چند اشارے بڑے معنی خیز ہیں لیکن اس وبا کو کیسے روکا جائے جب ادبائے کرام اخلاقیات کا اچھا معیار خود بھی پیش نہیں کرتے۔آپ نے سُنا کہ ایم اے،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات معقول معاوضے پر لکھے جا رہے ہیں۔جب سے پی ایچ ڈی اسکالر کو پانچ ہزار روپے ماہانہ وظیفہ منظور ہوا ہے،اس ادبی کام میں سرمایہ کاری کا رجحان در آیا ہے۔
نصرت ظہیر صاحب نے’’اردو کا تہذیبی پُل اور ماس میڈیا‘‘کے عنوان سے خیال انگیز مقالہ لکھا ہے۔ان کے مندرجات اور موقف سے اختلاف ممکن نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندو پاک دونوں ملکوں میں اردو غریب الدیار ہے اور سرفرازی انگریزی کو حاصل ہے۔پاکستان اور ہندوستان میں جو رابطے کی زبان مستعمل ہے وہ اردو ہی ہے جس کا بھارتی نام ہندی ہے۔اب ہندوستانی فلمیں پاکستان میں بھی چلنے لگی ہیں۔ایک فلم مجھے بھی دیکھنے کا
اتفاق ہوا۔حیرت ہوئی مکالموں میں بولی جانے والی ہندی،سنسکرت آمیز محسوس نہ ہوئی اور ہندی اور اردو میں کوئی فرق نظر نہ آیا۔لیکن اردو اور ہندی کے معاملے میں سیاستدانوں نے جس نفرت کو ابھارا ہوا ہے وہ روزبروز بڑھتی جا رہی ہے۔تاہم میرا خیال ہے کہ ادبی رسائل جو اردو رسم الخط میں چھپتے ہیں ایک پُل کا کام ضرور دے رہے ہیں۔نصرت ظہیر نے کھل کر بحث کی ہے تاہم مفاد پرستی کے کم ہونے کے آثار نظر نہیں آتے۔اور ممبئی دھماکوں کے بعد تو دونوں ملک پھر جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔خلقِ خدا سہمی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر شہناز نبی کے دونوں مقالے’’میر تقی میر۔۔شاعرِ آہ‘‘ اور’’ اکبر الٰہ آبادی اور تعلیمِ نسواں‘‘میں نے دلچسپی سے پڑھے۔دونوں شاعروں نے اپنا اظہار ایک خاص ماحول میں کیا۔ان کا مطالعہ اسی ماحول کی مطابقت سے ہونا چاہیے۔اور یہ بات شاید محلِ نظر ٹھہرے کہ اکبر الٰہ آبادی نے ’’اودھ پنچ‘‘کو اپنی شہرت کا وسیلہ بنایا تھا اور مغربی تہذیب اور سر سید کی مخالفت کی تھی۔ایک جیسے سماجی حالات سے دو مختلف المزاج دانشوروں کا مختلف نتائج اخذ کرنا بعید از قیاس نہیں۔محمد خالد انجم عثمانی کا مقالہ’’انیسویں صدی کے نثری اسالیب‘‘کچھ اور وسعت کا تقاضا کرتا ہے۔میرا خیال ہے کہ اس مقالے میں نثری اسالیب کی دھوپ چھاؤں کا پورا منظر مرتب نہیں ہوتا۔دلچسپ بات یہ ہے سر سید احمد خان نے نثر کے جس سائنسی اسلوب کو پروان چڑھایا تھا اس کے خلاف ردِ عمل بھی علی گڑھ سے ہی رونما ہوا اور ایک خاص نوعیت کی رومانوی نثر کو قبولِ عام حاصل ہوا۔جس کی صورت پاکستان میں علی گڑھ کے تعلیم یافتہ ادیبوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔مثال:’’سفر نصیب‘‘۔۔’’درِ دلکشا‘‘۔۔’’آبِ گم‘‘۔
مظفر حنفی صاحب کا مصاحبہ بے حد دلچسپ ہے۔انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی کی فضا کی خرابی کا تذکرہ کیا ہے۔انہیں شاید یہ علم نہیں کہ اب یہ خرابی پورے برِ صغیر میں پھیل گئی ہے۔پروفیسرظفر احمد نطامی نے ان کا’’ قلمی چہرہ‘‘ پھول کے قلم سے لکھا ہے۔ان کی کتاب’’طلسمِ حروف‘‘پر انور سدید کا تبصرہ پڑھ کر مجھے خوشی ہوئی۔خدا جانے میں نے یہ تبصرہ کب لکھا تھا؟مطبوعہ تبصروں کے ساتھ حوالہ درج ہونا چاہیے تھا۔مجھے اب یاد پڑتا ہے کہ یہ تبصرہ ’’اوراق‘‘ میں چھپا تھا۔مظفر حنفی صاحب نے اسے خوب سنبھال کر رکھا۔
نظم کے حصے میں نیّر جہاں کی نظم’’پیپل سے میپل تک‘‘۔۔۔خاور اعجاز کی ’’خدشہ‘‘۔۔حمیدہ معین رضوی کی ’’وفائے رائیگاں‘‘۔۔احمد منظور کی’’گلاب خواہش‘‘ ۔۔ستی پال آنند کی چاروں نظموں میں تخلیق کاروں کے باطن کی سچی آواز میری جانب سفر کرتی ہوئی محسوس ہوئی۔میں ان دنوں دائیں ران میں’’ شیائیکا درد‘‘میں مبتلا ہوں۔جدید ادب کے مطالعے میں ایسا کھویا کہ درد کا احساس ختم ہو گیا۔جدید ادب کا یہ پازیٹو پوائنٹ ہے۔اس پرچے پر تبصرہ’’نوائے وقت کو بھیج رہا ہوں۔چھپنے پر تراشہ آپ کو ارسال خدمت کروں گا۔
والسلام
مخلص انور سدید ۱۵دسمبر ۲۰۰۸ء
انور سدید صاحب کا موعودہ تراشہ
جدید ادب اور حیدر قریشی
حیدر قریشی کو اردو ادب کی ترویج کا شوق اس وقت پیدا ہوا تھا جب وہ خانپور کی ایک فیکٹری میں محنت مزدوری کرتے تھے۔غزل کہتے تھے ، افسانہ لکھتے تھے۔ڈاکٹر وزیر آغا سے شنا سائی ہوئی تو ان کے باطن سے انشائیے کے شگوفے بھی پھوٹنے لگے۔ لیکن ادب کا یہ عمل ان کی ذات تک محدود تھا۔ اردو ادب کی خدمت کے لئے وہ اپنے عمل کے دائرے کووسیع کرنا چاہتے تھے۔چنانچہ انھوں نے خانپور جیسے دور افتادہ مقام سے رسالہ جدید ادب جاری کیا۔ فیکٹری سے محنت مشقت سے حاصل کیا ہوا رزقِ حلال اس پرچے کی طباعت اور اشاعت پر خرچ کر ڈالتے۔تھوڑے عرصہ میں جدید ادب اتنا معیاری پرچہ بن گیا کہ اس دور کے پاک و ہند کے بیشتر اہم ادیب اپنی اعلیٰ تخلیقات جدید ادب کو اشاعت کے لئے بھیجنے لگے۔ متعدد نئے لکھنے والوں کو حیدر قریشی نے اعتماد اشاعت عطا کیا۔ اور آج وہ اردو ادب کی کہکشاں کے روشن ستارے بن گئے ہیں۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ اردو کے ممتاز افسانہ نگار جوگندر پال دہلی سے کراچی آئے۔ تو وہ حیدر قریشی کو دیکھنے کے لئے سرگودھا جاتے ہوئے خان پور کے اسٹیشن پر رُکے۔ حیدر قریشی کو اپنے ساتھ ریل گاڑی میں بٹھایا اور ادب کے جملہ امور پر ان سے سیر حاصل بحث کی۔دہلی واپس جا کر رپورتاژ لکھا تو خان پور سے بہاول پور تک کے سفر اور حیدر قریشی کی ملا قات کو جوگندر پال نے یادگار قرار دیا۔ اور ملال کیا کہ ان کے پاس خانپور کا ویزہ نہیں تھا۔ اس لئے وہ خانپور میں دفتر جدید ادب میں قیام نہ کر سکے۔حیدر قریشی نے ریل کے ڈبے میں جوگندر پال سے اپنی باتوں کو انٹرویو کی صورت دی اور جدید ادب میں شائع کیں۔۱۔یہ چند باتیں مجھے اس لئے یاد آ گئیں کہ چند روز پہلے میرے دوست سرفراز بھٹی جو دنیا داری کے بے شمار جھمیلے برداشت کرنے کے بعد اب سالک راہِ حق بن چکے ہیں ’ جدید ادب‘ کا ایک پرانا شمارہ لے آئے جس میں ڈاکٹر وزیر آغا،اصغر مہدی، اظہر جاوید،عذرا اصغر، غلام جیلانی اصغر، اور متعدد ادیبوں کے خاکے تھے۔کہنے لگے جدید ادب کا یہ خاکہ نمبر آپ کی لائبریری میں محفوظ ہونا چاہئے۔ میری لائن اب بدل گئی ہے۔ اسی روز مجھے دہلی سے ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس کے مدارالمہام مصطفی کمال پاشا نے جدید ادب کا بارھواں شمارہ بھیجا تھا۔ ایک ہی روز حیدر قریشی اور جدید ادب سے دو مرتبہ ملاقات ہوئی۔ تو گویا دبستان کھل گیا اور میں نے اس دن کا باقی ماندہ حصہ ان دو شخصیات ( حیدر قریشی اور جدید ادب) کے ساتھ گذارا۔
اب یہ بتانا بھی ضروری ہے۔ کہ حیدر قریشی نے اردو ادب کے فروغ کا جو نصب العین خانپور میں اختیار کیا
تھا وہ جرمنی میں منتقلی کے بعد بھی قائم رکھااور جدید ادب جاری کیا جس کے بارہ ششماہی ضخیم شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ جرمنی میں اردو طباعت کے لئے سہولت دستیاب نہیں ہے، اس لئے یہ پہلے لاہور سے چھپتا تھا۔ لیکن جب ہماری ’’ عوام بیزار‘‘ حکومت نے کتابوں اور رسائل کی ترسیل ڈاک میں ہزار گنا اضافہ کر دیا تو حیدر قریشی نے جدید ادب کی طباعت کا انتظام دہلی سے کیا۔ لیکن اس کی اشاعت جرمنی سے ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ رسالہ جدید ادب کو جرمنی سے اردو ادب کی ایک مضبوط ترین آوار قرار دیا جاتا ہے تو یہ بالکل درست ہے۔ یہ پرچہ بالعموم تین چار سوصفحات پر مشتمل ہوتا ہے مشینی کتابت کا قلم باریک ہے اس لئے ا س میں پانچ چھ سو صفحات کا مواد سما جاتا ہے۔مضامین نظم و نثر اتنے پر مغز ہوتے ہیں۔ کہ چھ ماہ کے بعد اگلے پرچے کے آنے تک زیر مطالعہ رہتے ہیں ردِ عمل کو ہی نہیں نئی تخلیق کاری کو بھی مہمیز کرتے ہیں۔
حیدر قریشی نے شمارہ: ۱۲کے اداریے میں ادب کی اس افسوسناک صورت حال کی طرف توجہ دلائی ہے جو اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ ’’ خود ادب سے وابستہ افراد کو مجموعی ادبی صورتحال سے دلچسپی نہیں رہی۔۔ لکھنے والے اپنی اور اپنے دوستوں کی تخلیقات کے مطالعہ کے بعد عام طور پر رسالہ بند کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ادبی مسائل پر مکالمہ کم ہوتا ہے۔ بہت کم ادیبوں نے ذاتی مفادات سے بالا تر اور بے خوف ہو کر ادبی مسئلے پر اظہار خیال کیا ہے۔ حیدر قریشی کو تشویش ہے کہ اب فرقہ پرستی کا زہر بھی ادبی رویوں میں سرایت کرنے لگا ہے۔ ان کا تقاضا ہے کہ’’ مختلف تشویشناک مسائل کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اختلاف رائے کو رسمی طور پر نہیں بلکہ کھلے دل سے برداشت کرنے کا ظرف پیدا کرنا ہو گا۔ ادب میں فرقہ پرستی، بڑی سطح کے علمی سرقوں اور دوسرے منفی رویوں کا سنجیدگی سے نوٹس لینے کے ساتھ عمدہ تخلیقی ادب کی تحسین کے رویے کو کسی نظریاتی اختلاف کے بغیر خالص ادبی بنیادوں پر استوار کرنا ہو گا۔ ایسا نہ ہوا تو اردو ادب عالمی سطح پرتو کیا مقامی سطح پر بھی اپنی بچی کھچی اہمیت کھو بیٹھے گا۔‘‘
جدید ادب کے اداریے سے اختلاف کی گنجائش نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے اردو ادیبوں کا بیشتر طبقہ اپنی ذات کے سحر میں مبتلا اور نرگسیت کا شدید ترین شکار ہے۔ حیدر قریشی نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے تو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ پاکستان میں ادب کی ایک قبائلی جنگ تقریباً چالیس سال سے لڑی جا رہی ہے۔
دونوں کے رسائل بند ہو چکے ہیں لیکن مطلع اب بھی ابر آلود ہے۔ بھارت میں ڈاکٹر گیان چند کی ایک متنازعہ کتاب چھپنے کے بعد دو متحارب کیمپ معرضِ وجود میں آ گئے ہیں۔ ادبی رسائل اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے منقسم ہو گئے۔۔۔ اور صلح کے آثار نظر نہیں آتے۔ ایک بڑے ادیب پر غیر ملکی کتابوں سے سرقے کا الزام لگا ’’ ملزم ‘‘ کے ہاتھ لمبے تھے، اس نے اپنے ملک میں اس رسالے کی اشاعت مشروط کر دی، جس نے سرقے کے ثبوت شائع کئے۔ اس نوع کی کشیدہ فضا کو تحلیل کرنے اور کشادہ ماحول استوار کرنے کے لئے سینئر ادیبوں کو حقیقی اور سچی رہنمائی کا فریضہ ادا کرنا چاہئے۔ اختلافِ رائے ادب کا ضروری جزو ہے۔ اسے قبول کرنے کے لئے اعلیٰ ظرفی کی مثالیں سامنے لائی جانا چاہئیں ۔اس کی ایک صورت یہ ہے کہ اچھی تخلیقات کے تجزیاتی مطالعوں کو فروغ دیا جائے اور آدھے بھرے ہوئے گلاس کو آدھا خالی کہنے سے گریز کیا جائے۔ اگر نسبتا جونیئر ادیبوں کی تخلیقات پر سینئر ادبائے کرام شفقت آمیز رائے کا اظہار( جو سچ سے بعید نہ ہو) تو نتائج کی شرح فیصد بہتر ہو گی۔ میرا خیال ہے کہ جدید ادب میں خصوصی گوشوں کی اشاعت کا اہتمام اسی مقصد کے حصول کا ہی اقدام ہے۔ شمارہ دو از دہم میںـ’’ کوشہ مظفر حنفی‘‘ اور گوشہ ’’ احمد حسین مجاہد‘‘ تحسین سخن شناس کی اچھی مثالیں ہیں۔ شعرا کے وسیع ترتعارف کے لئے جناب اکبر حمیدی، شہناز نبی ، خاور اعجاز، ظفر اللہ محمود، طاہر عدیم، اور معید رشیدی کی چھ چھ ،سات سات غزلیں پیش کی گئی ہیں۔ منشا یاد، شمیم حنفی، جمیل الرحمن ، ستیہ پال آنند، اور جاوید ندیم کی کتابوں پر تبصرے اور تفصیلی مطالعات میں جاوید انور،ڈاکٹر حامد اشرف، منشا یاد ، ڈاکٹر عبدالرشید، اور عبد الرب استاد کے تجزیاتی مضامین بھی اس مثبت سلسلے کی کڑیاں ہی قرار دئیے جائیں گے۔’’ ادبی کائنات میں رنگ‘‘ اگرچہ حیدر قریشی کی ذاتی یاد نگاری کا عمدہ عکس ہے۔ لیکن جس خلوص سے انھوں نے خواتین ادیباؤں کا ذکر کیا ہے وہ قابل صد تعریف ہے۔ مضامین میں نصرت ظہیر(اردو کا تہذیبی پل)،محمد خالد انجم عثمانی (انیسویں صدی کے نثری اسالیب)،ڈاکٹر حامد اشرف ( عمر خیام، شرابِ حقیقت کا طلب گار)،ڈالٹر شہناز نبی ( میر تقی میر۔ شاعر آہ) اور افسانوں میں ’’ روایت بے روایت‘‘( احمد ہمیش)، ’’تمغۂ جرات‘‘ (بلند اقبال)، ’’ نارسائی‘‘( علی محسن)۔ ’’ اللہ میاں‘‘ ( عبداللہ جاوید)، بے حدقابلِ تعریف ہیں۔ خطوط کے حصے میں پوری دنیا کے گوشے گوشے سے آ ئے ہوئے مکتوب شامل ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ
’’ جدید ادب ‘‘ کثرت سے پڑھا جانے والا اور تاثر پیدا کرنے والا رسالہ ہے۔ اردو ادب کی اس خدمت کے لئے مدیر حیدر قریشی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ پاکستان کے قارئینwww.jadeedadab.comپر یہ رسالہ پڑھ سکتے ہیں۔
(تبصرہ مطبوعہ ادبی صفحہ روزنامہ نوائے وقت لاہور ۔۱۹دسمبر۲۰۰۸ء)
٭٭٭٭
۱ : وضاحتی نوٹ:ڈاکٹر انور سدید صاحب کی محبت ہے کہ وہ میرے تئیں بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی زیادہ اہمیت دے دیتے ہیں۔جوگندرپال جی نے ایسا پروگرام بنایا تھا جیسا انور سدید صاحب نے لکھا ہے لیکن عملاََ ایسا نہیں ہو پایا تھا اور مجھے ان سے ملاقات کے لیے پھر لاہور جانا پڑا تھا۔مظہر امام صاحب ایک بار خانپور سے گزرے تھے تو ان سے ملاقات ہوئی تھی۔وزیر آغا صاحب کے ساتھ ایک بار بھاولپور تک ملاقات رہی تھی۔ممتاز مفتی صاحب آدھی رات کو خانپور سے گزرے تو خیالوں میں ہی مجھ سے گپ شپ کر گئے،ان کے ایک خط میں اس کا ذکر موجود ہے۔سو مجھے لگا کہ جوگندر پال سے ملاقات،انٹرویو وغیرہ کی باتیں خانپور کے حوالے سے بعض دوسرے ادیبوں کے واقعات کے ساتھ گڈ مڈ ہو گئی ہیں۔میں نے جوگندر پال جی کے فکشن پر متعدد مضامین لکھے ہیں۔انٹرویو کوئی نہیں لیا۔ایک بار آل انڈیا ریڈیو سے میرا ایک انٹرویو ہوا تھا،میری خوش قسمتی کہ اسے لینے کے لئے
جوگندر پال جی تشریف لائے۔یہ انٹرویو چھپا تو میں نے اسے دو ادیبوں کے درمیان مکالمہ کا عنوان دلایا۔ح۔ق