مبشر سعید(فرانس)
آخری مُلاقات
ہاتھوں سے ہاتھ بھی چھوٹ رہے تھے
وصل کے رشتے ٹوٹ رہے تھے
میرے شہر کی ایک سڑک پر
عشق کے راہی ، پیار کے جوگی
سہمے سہمے ، بکھرے بکھرے
اِک دُوجے کے پاس کھڑے تھے …………
اُس کی حالت ایسے
جیسے کوئی بیوہ
ایک جواں مرگ پہ سکتے کی حالت مِیں آ جائے
میری آنکھیں غم مِیں ڈوبی روتی جائیں روتی جائیں
درد کا دامن کھول نہ پایا
مَیں تو کُچھ بھی بول نہ پایا
………………
پھر وہ لمحہ آ پہنچا
جس نے ہجر مِیں تول دیا تھا
جس نے مُجھ کو رول دیا تھا
وہ اپنے گھر کو چل دی تھی
میں اُس کو دیکھ رہا تھا ……پر آنکھوں سے بول رہا تھا
بس تب سے یہ عادت ہےدُکھ درد سمو لیتا ہوں
اُسکی یاد مِیں اکژ چھُپ چھُپ کر
رُو لیتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق زدہ
ہنستا بستا اِک شخص تھا مُجھ مِیں
جو حُسن کے سُندر لفظوں سے
عشق کے سُونے کاغذ پر
پیار کی نظمیں لکھتا تھا
آنکھوں کے گہرے ساغر مِیں
عشقُ وِلا کے دھاگے سے
تیرے رُوپ کو بُنتا تھا
تیرا نام تلاوت کر کے روز
محبت مِیں سر دُھنتا تھا
ہجر کے بنجر گلشن سے
وصل کے پُھول وہ چُنتا تھا
ایک محبت کے در پر
وہ ادراک کا سجدہ کرتا تھا
جذبوں کے مشکیزے مِیں
خوشیوں کو وہ بھرتا تھا !!!!
پر اِک موڑ جُدائی والا
اُس کے در پر آ پہنچا ہے
کل رات کو اُاس نے سوچا تھا
اِک مُشکل کا مجبوری کا
ایک محبت سے
یعنی لاکھوں مِیل کی دوری کا
اس کی ہنستی آنکھوں سے
درد کا چشمہ پھوٹ چُکا ہے
عشق کی نظمیں لکھنے والا
اب اندر سے ٹوٹ چُکا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جُدائی
خوشیوں دار سفر تھا اپنا
ہم عشق سے
خوشیاں چُنتے تھے
ہنستے ہنستے رو دیتے تھے
روتے رورتے ہنس دیتے تھے
دل کی باتیں کہہ لیتے تھے
ہجر بھی ہنس کے سہہ لیتے تھے
پر
یہ موڑ جُدائی والا
اپنا رنگ دکھائے گا
ہم کو خوب ستائے گا
خوں کے آنسو رُلوائے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتظار
دیدار کی پیاسی آنکھیں !!!
اکثر مُجھ سے یہ کہتی ہیں
تم آؤ گے تو یہ ہو گاتم آؤ گے تو وہ ہو گا
تم آؤ گے تو مَیں اِس رنگ کے کپڑے پہنو ں گی
تم آؤ گے تو مَیں اُس رنگ کے کپڑے پہنوں گی
تم آؤ گے تو پھول کھلیں گے
تم آؤ گے تو رنگ ملیں گے
دیدار کی پیاسی آنکھوں کو !!!
اکژ مَیں یہ کہتا ہوں
مَیں لمحوں سا اِک لمحہ ہوں
مَیں لمحہ بن کر آؤں گا
تیری آنکھوں مِیں مر جاؤں گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دُعا
تُم کو اتنا چاہا مَیں نے
تُم سے اتنا پیار کیاکہ
اب تو میری عادت ہے!!!
ہر روز نمازوں کے بعد
تُمہیں پانے کی بھر پُور دُعا کرنا!
مبشر سعید
یاد کا دُکھ
یادوں کے انبار پہ بیٹھا
اِک تنہا آوارہ شاعر !!!!
لمحوں کو کھنگا ل رہا ہے
اشکوں سے تر پلکوں پر
تیرا سُندر روپ سجا کر
دُکھ درد کا مارا شاعر تیری خوشبو ڈھونڈ رہا ہے
جب سے اُس سے دُور ہُوا ہے
ُٓٓاُس کا پیا را مِیت
عجب سا رُوپ بنائے پھرتے ہیں
اُس کے سارے گیت
اِسی طور ہی سج پائے گی خوشیوں کی ہر سیج
ہواؤں کے ہاتھ پہ رکھ کے تُو اپنی خوشبو بھیج
دعاؤں کے در پہ بیٹھا ہے
وہ روتا ہے
کھو کے سارے سُکھ
تُم کیا جانو پگلی لڑکی !!!
اِس شاعر کا دُکھ