مبشر سعید
قسمت ہی کھوٹی ہے
دیس مرے مِیں اب
آٹا ہے نہ روٹی ہے
خاموش سا رستہ ہے
میرے رونے پر
ہر روز جو ہنستا ہے
سانسوں مِیں جڑی لڑکی
جان سے پیاری ہے
وہ مُجھ سے بڑی لڑکی
مُجھ جان کا بھی سوچو
آ جو نہیں سکتے
اِی میل ہی لکھ بھیجو
نَے گیت نہ شہنائی
یاد تُجھے کر کے
یہ آنکھ ہے بھر آئی
سورج کچھ مدھم ہے
چھتری رکھ لینا
بارش کا موسم ہے
دل میر ا دھڑکا تھا
رات ترا آنچل
سینے سے جو ڈھلکا تھا
ہم جینا جیتے تھے
پاس ترے بیٹھے
سپنوں کو سیتے تھے
بارش جو برستی ہے
یار سے ملنے کو
یہ جان ترستی ہے
آسودہ جنگل ہے
پیار مِیں یارترے
یہ شہر بھی پاگل ہے
یہ بات تو ماڑی ہے
گاؤں کی مَیں نے
اِک لڑکی جو تاڑی ہے
وہ دُور پہاڑی ہے
چڑھ جو نہیں سکتا
وہ شخص اناڑی ہے
سانسوں مِیں ہے ویرانہ
آنکھ یہ روتی ہے
اے دوست ! تُو آ جا ناں
امین بابر(رحیم یار خاں)
سب شکوے بھلا دینا
اپنی تو عادت ہے
سب کو ہی دعا دینا
چاہت کو خفا کرکے
عشق نے پائی بقا
عاشق کو فنا کر کے
رُسوا ہوا میلوں میں
جو بھی پڑا یارو
ان پیار جھمیلوں میں
زنجیر ہے پاؤں کی
راہ میں حائل ہے
دیوار اناؤں کی
چاہت کے گھروندے ہیں
نفرت سے اس نے
جو پاؤں میں روندے ہیں
جتنا بھی جیالا ہے
آخر کو انساں
دھرتی کا نوالہ ہے