مہر ماہ جو بیچاری بنا بات کی مار کھا کھا کہ اپنا چشمہ بھی تڑوا بیٹھی تھی اسے وہ آواز جانی پہچانی لگی جو ابھی اس نے سنی تھی پر سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کہاں سنی ہے یہ آواز ۔۔۔بیچاری دیکھ تو پا نہیں رہی تھی اسے چشمہ ٹوٹنے کی وجہ سے پر آواز پر دھیان دینے کی کوشش کر رہی تھی اک تو مونا چڑیل چچی نے اس کو اتنی زور زور کے تھپڑ مارے تھے کے دماغ گھوم کے سائیں سائیں کر رہا تھا اسی حالت میں محلے کی اک عورت اس کا دوپٹہ ٹھیک کرتی اسے اندر لے گئی اور وقاص صاحب کی گرج دار آواز آئی بلاؤ قاضی کو ابھی وقار اور وقار صاحب نکاح خواں کو لینے چل دیے اور باقی بچے محلے والے ان کے لئے تو مونا نے نیا ہاٹ ٹوپک پیدا کر ہی دیا تھا مزے سےچغلیاں کرنے کو ۔
اور محلے والے چے مگوئیاں کرنے لگے تب ہی وقار صاحب قاضی کو لے کر آگئے اور نکاح شروع ہوا ۔
محلے کی اسی عورت نے جو اسے اندر لائی تھی مہر پر گھونگھٹ کی شکل میں دوپٹہ اوڑھایا اور واپس چلی گئی ۔
تھوڑی دیر بعد وقاص صاحب چھوٹے بھائی اور قاضی کو لے کر اندر آئے اور نکاح خواں نے نکاح شروع کروایا ۔
بیٹی کیا تمہیں مِیر شاہ ویز خان ولد مِیر چنگیز خان قبول ہے قاضی نے پوچھا
مِیر ۔۔۔۔کون مِیر اس کا دماغ کچھ کچھ کام کر رہا تھا پر سمجھ نہیں پا رہی تھی وہ مار ہی اتنی پڑی تھی کہ دماغ ٹھیک سے کام ہی نہیں کر رہا تھا اور چنگیز خان نام بھی سنا ہوا ہے پر کہاں وہ یہ بھی نہ یاد کر پائی۔
خیر قاضی کے دوسری بار پوچھنے پر اس نے لرزتے لہجے سے ہاں کی اور قاضی اٹھ کر دوسرے کمرے میں چل دیا وقاص صاحب اور وقار صاحب بھی ساتھ ساتھ تھے اور مونا جو تھوڑی دیر پہلے مزے لے رہیں تھیں مہر ماہ اور اس کے ماں باپ کی عزت کا تماشہ بنا کر اب بت بنی ساری کارؤائی حیران ہو کر دیکھ رہیں تھیں اور عمارہ میڈم تو مطمئین سی دِکھ رہی تھی کیونکہ اس کا بدلہ تو پورا ہو گیا تھا اب اس کی طرف سے مہر ماہ بھاڑ میں جاتی یا کسی کے نکاح میں اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا پر اک بار اس کے منہ سے آہ ہ ہ ہ ضرور نکلا تھا اتنا حسین اور مردانہ وجاہت سے بھرپور شہزادوں جیسا لڑکا دیکھ کر جو اب اس کی کزن اور دشمن چِشمش کا شوہر بننے جا رہا تھا ۔
پھر اگلے ہی پل اس نے یہ سوچ کے خود کو تسلی دے لی کہ اک رات گھر سے باہر رہی اور آدھی اندھی لڑکی کو تھوڑی نہ وہ پھولوں کی سیج پر بٹھائے گا رکھے گا تو جوتے کی نوک پر ہی
شیطانی ذہن کی ماں کی بیٹی بھی شیطانی ذہن کی تھی جو مہر ماہ اور اس کے والدین کو تکلیف میں دیکھ کمینی سی خوشی محسوس کر رہی تھی
وقاص صاحب کے حکم پر جلدی سے مہر ماہ کو سادہ سا پنک کلر کا فراک بدلوایا اس کی امّی حرا نے اور اپنے جہیز کا پرانا زیور پہنا کے دوپٹے کو گھونگھٹ کی شکل میں دے کر اسے باہر تک لائیں تو بیٹی کو آتا دیکھ کے ہمیشہ دلبر کہہ کر بلانے والے اس کے بابا نے منہ موڑ لیا مِیر شاہ ویز کی جِیپ میں بیٹھتے وقت صرف وقار صاحب نے آگے بڑھ کے اس کے سر پر پیار دیا اور اس کی امی حرا نے شوہر سے ڈرتے ڈرتے بیٹی کو اک آخری بار گلے لگایا کیونکہ وقاص صاحب کا حکم تھا کہ آج کے بعد کبھی مہر ماہ ان کے گھر کی دہلیز پار نہ کرے اور یوں معصوم مہر ماہ روتے سسکتے اپنے ہٹلر جیسے پیا دیس سدھار گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مِیر شاہ ویز کی جِیپ اک جھٹکے سے رکی اور وہ ڈرائیونگ سِیٹ سے اترتا ہوا آیا اور پچھلی سائیڈ کا دروازہ کھول دیا مہر ماہ کو اندازہ ہوا کہ شاید وہ جگہ آگئی جہاں پر اترنا ہے
وہ لڑکھڑاتی گرتی پڑتی کار سے باہر نکلی اور اندازے سےمِیر شاہ ویز کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی کہ اچانک گھر میں داخل ہوتے وقت اس کا پاؤں پھسلا اور وہ گول مول گھومتی واپس جِیپ کے پاس آکر گِری مِیر شاہ ویز جو اپنے دھیان چلا جا رہا تھا ٹھک کی آواز پر واپس مڑا تو دیکھا کہ ان نئی نویلی زوجہ محترمہ آڑھی ٹیڑھی جِیپ کے پاس گری پڑی ہائے اوئی کر رہیں ہیں
مِیر شاہ ویز فورًا آگے بڑھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے سہارا دیتا اپنے کندھے کے ساتھ لگاتا کمرے تک لے گیا اسی پل جب وہ اپنے نئے نویلے دلہے کے کندھے سے لگی چل رہی تھی اس کی دھڑکنیں کچھ پل کے لئے تھم سی گئیں تھیں اور وہ مزید گھبرا گئی تھی اور دوسری طرف مِیر صاحب پر مجال ہے کوئی اثر ہوا ہو وہ ایسے سیدھا سیدھا چلتا جارہا تھا جیسے اکیلا ہو
بھئی کوئی فیلنگز ہوتی ہیں کوئی چہرے پر میٹھی مسکان ہوتی ہے ۔۔۔۔
پر نہ جی نہ مِیر شاہ ویز جیسے نک چڑھے نے اسے کمرے میں لا کر ایسے پٹخ دیا جیسے کوئی کبھاڑ کا سامان ہو
اور خود جانے کہاں غائب ہوگیا۔
اور بیچاری مہر ماہ ساری رات جانے کس امید پے گھونگھٹ اوڑھے بیڈ پر بیٹھی اس ظالم شوہر کا انتظار کرتی رہی جو اسے انتظار کی سُولی ہر لٹکا کر جانے کہاں غائب ہو گیاتھا ۔
اک تو بیچاری کا پورا جسم بغیر کسی قصور کے مار مار کھا کھا کہ بری طرح دُکھ رہا تھا اوپر سے مشرقی بیوی کی طرح رات بھر بیٹھ کر مجازی خدا کا انتظار کرتے کرتے اس کی کمر بھی جواب دے گئی تھی رات کے تقریباً تین بجے بیٹھے بیٹھے کب وہ نیند کی وادی میں پہنچی اسے خود خبر نہ ہوئی اور نیند تو کانٹوں پر بھی آ جاتی اس بیچاری نے تو تھوڑی مار ہی کھائی تھی اپنے نازک بدن پر وہ بھی بنا کسی قصور کے اور تھوڑی سی ذلت ہی تو تھی کوئی بڑی بات تھوڑی نہ تھی ۔
پھر بھی وہ مِیر شاہ ویز کی احسان مند تھی کہ اس نے اس کے بابا کی عزت رکھ لی ظالم سماج کے سامنے , پر ڈر اب اس بات کا تھا کہ پتھر جیسا شخص جانے اسے بیوی کیوں بنا لایا تھا ضرور وہ اسے پھر کسی گینگ کا حصہ بول کے اس کا خون پینے والا تھا یہی سوچیں تو مہر ماہ کو خواب میں بھی تڑپا رہیں تھیں جب کسی نے اسے زور سے ہلایا تو وہ خوف سے چِلّا اٹھی۔۔۔ نہیں میں کسی گینگ کا حصہ نہیں میں اک عام شریف خاندان کی لڑکی ہوں رحم کرو رحم ۔۔۔اس نے بند آنکھوں سے ہاتھ جوڑ کر کہا تو مِیر شاہ ویز کو اس پر جانے کیوں ترس آیا اور اپنے رویے پر شرمندگی بھی ہوئی کہ وہ انجانے میں اک معصوم سی لڑکی سے بہت برا سلوک کر گیا تھا مکمل حقیقت اسے اپنے بابا سے پتہ چلی جن سے وہ مہر ماہ کو اپنے فلیٹ پر چھوڑ کہ ان کے کلینک ملنے گیا تھا مہر ماہ کا چشمہ بنوانے کیوں کہ وہ دیکھ چکا تھا کہ مہر ماہ کا چشمہ ٹوٹ چکا ہے اسی لئے پہلا کام اس نے چشمہ بنوانے کا کیا
اور بابا کے پاس پہنچ کر اس نے کچھ بھی چھپائے بغیر ساری حقیقت بتادی کہ کیسے وہ مہر ماہ کسی گینگ کا حصہ سمجھ کے اٹھا لایا تھا اور پر وہ ایسی لڑکی نہیں یہ اس کے اگلے دن جانے کے بعد آپ کے اور میرے ساتھیوں سے پتہ چلا تو مجھے پہلی بار اپنی کی گئی غلطی کا شدت سے احساس ہوا تو میں اس لڑکی کے گھر پہنچا تو اس کی اپنی چچی نے اس کا گلی محلے میں تماشہ بنا رکھا تھا
تب ہی مجھے لگا کہ یہی موقع ہے کہ میں اپنی غلطی سدھار لوں اور میں نے اک پل کی دیر کئے بنا اس کے والدین کی مرضی سے اسے اپنے نکاح میں لے لیا کیا میں نے ٹھیک کیا بابا بتائیں؟؟؟ آپ میرے باپ ہونے کے ساتھ ساتھ میرے بہترین دوست بھی ہیں ۔
تھوڑی دیر کمرے میں خاموشی رہی پھر مِیر چنگیز خان دھیمی آواز میں بولے تم نے ٹھیک کیا کسی غریب کی بیٹی کو اپنی عزت بنا کر خاص طور پر اس معصوم کو جسے بچپن سے لے کر بڑے ہونے تک محرومیاں ہی ملیں ہیں پھر بھی اس نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی پڑھائی جاری رکھی اور ہمیشہ اپنی کمی کے باوجود اوّل نمبر پر رہی پر لوگوں کے مذاق اڑاتے رویّوں نے کبھی اسے اپنے خول سے باہر نکلنے ہی نہیں دیا یہ سب باتیں وہ مجھ سے اکثر کرتی تھی جب بھی چیک اپ کے لئے آتی اپنے بابا کیساتھ ۔۔۔
اب میں تم سے امید کرتا ہوں کہ تم شوہر ہونے کے سارے فرض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے یہ احساس بھی دلاؤ وہ کسی سے کم نہیں۔
میں خوش ہوں کہ اللّہ نے میرے بیٹے کی قسمت میں اتنی اچھی اور معصوم لڑکی لکھی ہمیشہ اسے خوش رکھنا اور جلد سے جلد اسے لے کر گھر آؤ تاکہ ہم تمہارے ولیمے کا سوچیں اور تمہاری امی نے تو سن کے ویسے ہی خوشی سے نہال ہو جانا ہے جب ان کو پتہ چلا کہ ان کی دل سب سے بڑی مراد پوری ہوگئی ان کی بہو لے آیا ان کا لاڈلا
چلو اب جاؤ اور میری بہو کو چشمہ دو اور ہاں اک بات اور ۔۔۔پیار سے پیش آنا خبر دار جو ڈانٹا تو اسے۔۔۔ کہہ کر مِیر چنگیز مسکرا دیے اور ساتھ شاہ ویز بھی مسکرا کر دل کا بوجھ ہلکا کرتا واپس فلیٹ پر آگیا۔
کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا چپ ہو جاؤ مِیر شاہ ویز نے اسے دلاسا دیا پر وہ مہر ماہ ہی کیا جو چپ کر جائے بند آنکھوں کے ساتھ رو رو کہ اس نے زمین آسمان ایک کر دیے شاید وہ ابھی خواب میں تھی اور ڈری جا رہی تھی ۔ تنگ آکر شاہ ویز اسے زور کے جھٹکے سے ہلایا تب جا کے اس کی آنکھ کھلی ۔
چھوڑو مجھے میں جانتی ہوں آپ نے مجھ سے شادی کیوں کی اسی لئے نا کہ آپ پھر سے مجھے کسی گینگ کا حصہ کہو زیادہ ہمدردی مت دکھائیں مہر ماہ نے لرزتی آواز کے ساتھ کہا ۔
افففف میں جو سوچ رہا تھا نرمی سے پیش آ کر اپنی غلطی سدھار لوں گا پر مجھے لگتا نہیں یہ پگلی سی لڑکی سیدھی طرح مجھ پر اعتبار نہیں کرے گی ۔
لگتا ہے مجھے بھی کچھ ٹیڑھا ہو کر اس ٹیڑھی لڑکی کو زندگی کی طرف واپس لانا ہوگا اور احساسِ کمتری سے باہر لانا ہوگا شاید ایسے میں اپنی غلطی سدھار سکوں مِیر شاہ ویز نے سوچا۔۔۔۔
تم کسی گینگ کا حصہ ہو یا نہیں یہ فیصلہ بعد میں ہوگا پہلے یہ چشمہ لگاؤ جو میں لایا ہوں ابھی بنوا کر اور جو تمہیں بیوی بنا کر لایا ہوں نہ پوری دنیا کے سامنے؟؟؟
اس کا حق ادا کرو اور پانچ منٹ میں ناشتہ تیار کرکے ٹیبل پر لگاؤ میں فریش ہو کر آیا ۔۔۔ یہ کہتا وہ واش روم میں گھس گیا۔۔۔۔۔۔ دونوں کے بِیچ ابھی عجیب سا رشتہ تھا مِیر شاہ ویز کا مہر ماہ کے ساتھ ہمدردی کا رشتہ اور مہر ماہ کا مِیر شاہ ویز کے ساتھ ڈر کا رشتہ ابھی دونوں محبت جیسے انمول رشتے سے دور دور تک جُڑتے نظر نہیں آرہے تھے کیونکہ مہر ماہ حد سے زیادہ ڈرپوک لڑکی اور میر شاہ ویز حد سے زیادہ سخت مزاج ہاں پر دل کا نرم تھا۔
پر کہیں نہ کہیں فن فئیر کے دن پیرٹ کلر کا پرنسس فراک پہنی لڑکی اس کے دل کے تار چھیڑ گئی تھی جس کا خود ابھی مِیر شاہ ویز کو بھی علم نہیں تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھٹیاں شروع ہوئیں تو سب سے پہلے موٹی سمیرا کا رشتہ آیا اور سب گھر والوں کی رضامندی سے ہاں بھی ہو گئی لڑکے کی اپنی بیکری تھی اور بہت امیر تو نہیں تھا پر شریف خاندان کے لوگ تھے اس لئے جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ والا حال ہوا اور چھٹیوں ہی میں موٹی شادی کرواکے بیٹھ گئی اور اپنی کسی شیطاننی کو بتایا تک نہیں خوشی سے موٹی کو دوستوں کو بتانے یا بلانے کا بھی دھیان نہیں آیا ۔
دوسری طرف معاویہ اپنی نانی کے گھر لاہور چھٹیاں گزارنے آئی تو اس ساتھ والی ہمسائی اس پر فدا ہوگئیں اور اس کی نانی سے رشتہ مانگ لیا اِدھر معاویہ کی نانی بھی خوش ہوگئیں کیونکہ ان کے ہمسائیوں کے ساتھ رہتے ہوئے ان کو تیس سال ہو گئے تھے اور بہت ہی اچھی فیملی تھی لڑکا بھی پیارا ہونے کے ساتھ ساتھ شریف بھی تھا اور تھوڑا سا شرارتی بھی تھا معاویہ کی نانی کو یاد تھا کہ کیسے بچپن میں وہ چھپ کے ان کے کچن سے کچھ نہ کچھ کھا جاتا تھا اور پکڑے جانے پر دانت نکال کر کہتا تھا آپ کا کھانا اچھا ہی بہت ہوتا میرا کیا قصور میں خوشبو سونگ کے بھاگا آتا ہوں ۔ معاویہ کی نانی یہ سوچ کے بھی خوش تھیں کہ آج کل کی لڑکیاں شوخ جیون ساتھی ہی پسند کرتیں ہیں میری معاویہ بھی خوش رہے گی اس کے ساتھ اور معاویہ سے چھپ کے اس کی نانی نے اس کی امی اور ابو سے بھی بات کرلی تھی کچھ دن بعد معاویہ کی ساری فیملی آئی اور لڑکے والوں سے مل کے اور لڑکے کو دیکھ کر بات پکی کر گئے انہیں دنوں لڑکا بھی چھٹی پر آیا تھا معاویہ کو تب پتہ چلا جب گھر والے نکاح کی باتیں کر رہے تھے ۔
کیا مطلب مجھے بتائے بغیر بات نکاح تک پہنچ گئی حد ہے معاویہ غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔
اسی لئے تمہیں نہیں بتایا کہ تم یوں ہی چڑیل بن جاؤ گی جیسے اب بنی ہو بیٹا شادی تو ہر لڑکی کی ہوتی ہے اور قسمت سے ہی اچھا گھرانہ اور اچھا لڑکا ملا ہے اس لئے ہم نے نکاح کا فیصلہ کیا بیٹا ماں باپ دشمن تھوڑی ہوتے وہ جو بھی سوچتے اپنی اولاد کے لئے ہی سوچتے ہیں مان جاؤ بیٹا پلیز ویسے بھی ابھی کونسا رخصتی ہو رہی ہے صرف نکاح ہی کرنا اس کی نانی نے اسے بڑی محبت سے سمجھایا اور ان کے محبت سے سمجھانے پر معاویہ پر کچھ کچھ اثر ہوا تبھی اس نے منہ بسور کر ہاں کر ہی دی چند دن بعد ہی پھر سادگی سے معاویہ کا نکاح ہو گیا اور اگلے دن کالج کی چھٹیاں بھی ختم ہوگئیں اور سب شیطان کی نانیاں کالج پہنچ گئیں سوائے مہر ماہ کے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتوار کا دن تھا اور چھٹی ہونے کی وجہ سے مِیر چنگیز خان گھر ہی تھے اور بیگم کے ساتھ بیٹھ کر ٹھنڈے موسم میں گرم چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے لان میں بیٹھ کر ۔۔۔
بیگم صاحبہ یقین کریں پورے ہفتے کا تھکا ہارا جب میں اتوار کو شام کی چائے آپ کے ساتھ بیٹھ کر پیتا ہوں تو ساری تھکن تو جیسے رفو چکر ہو جاتی ہے اور جو سکون ملتا وہ الگ مِیر چنگیز خان نے محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اپنی بیگم صاحبہ سے کہا
آپ بھی نہ۔۔۔۔ بس بھی کیا کریں اب یہ کوئی عمر ہے رومینس کی سیدھی طرح بتائیں کیا کہنا چاہ رہے ہیں اپنی جو حلق میں اٹکی ہے وہ کریں رومینس کر کے مکھن نہ لگائیں انکی بیگم کے مسکرا کر کہنے پر مِیر چنگیز خان کا قہقہ بلند ہوا۔
کمال ہے ہماری زوجہ ہمیں ہم سے بھی زیادہ جانتی ہیں۔
میں کہنا یہ چاہ رہ تھا کہ آپ کا بہت ارمان ہیں نہ اپنے لاڈلے کے سر پے سہرا سجا دیکھنے کا ؟؟؟ میر چنگیز نے دبی دبی مسکان کے ساتھ کہا۔
جی ارمان تو بہت ہے پر وہ لڑکا مانے تب نہ
ہزار بار بولا ہے جیسی بھی لڑکی تم پسند کرو گے ہمیں قبول ہے پر شادی کے لئے مانو تو سہی پر کہاں جی میرے لاڈلے کو کوئی پسند ہی نہیں آتی شاہ ویز کی امی نے اپنا رونا رویا۔
فکر نہ کریں بیگم آپ کے اس مسئلے کا حل کرلیا میں بس آپ بہو کو ویلکم کرنے کی تیاری رکھیں بس مِیر چنگیز نے شرارتی لہجے میں کہا ۔
مطلب؟؟؟انہوں نے حیران ہو کر پوچھا۔
پھر مِیر چنگیز خان نے لفظ با لفظ سب کچھ اپنی بیگم کو بتادیا ۔
باقی سب تو اک طرف چاہے جس بھی حالات میں ہوئی تھی ان کے بیٹے کی شادی ان کو تو بس اس خوشی نے دیوانہ کردیا تھا کہ ان کے لاڈلے اکلوتے بیٹے کی بیوی آ گئی۔
کب لا رہے ہیں میری بہو بلکہ اس کو بولیں ابھی لائے اسے گھر مِیر شاہ ویز کی امی نے چہکتے ہوئے کہا ۔
او ہو ہو ہو بریک پر پاؤں رکھیں بیگم آ جائے گا لیکر آپ کی بہو اک دو دن صبر کر لیں اتنی دیر آپ ان کے استقبال اور ولیمے کی تیاری کر لیں مِیر چنگیز خان کے مسکرا کر کہنے پر وہ فورًا مان گئیں
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مِیر شاہ ویز خان نے مدثر کو کال کی اور آگے کا لائحہ عمل طے کرنے لگا ۔
باقی باتیں تو ہوتی رہیں پہلے تو یہ بتا یار تونے شادی کر لی اور یاروں کو بتایا تک نہیں مدثر حیران اور تھوڑا سا ناراض تھا شاہ وہز سے ۔
یقین کر میرے دوست حالات ہی ایسے تھے مجھے خود سمجھ نہیں ہو کیا رہا بس قدرتی طور پر سب جلدی جلدی ہوتا گیا دوسرا میرے لئے یہ احساس بہت تکلیف دہ تھا کہ میری اک غلط فہمی کی وجہ سے اک شریف خاندان کی بدنامی ہورہی تھی اس لئے میں نے وہی کیا جو مجھے بہتر لگا میں نے اک بے گناہ لڑکی کو دنیا کی گندی نظروں اور طعنوں سے بچا کر اپنا ضمیر مطمئین کیا ہے ۔
اچھا اب بند کرو میری کھچائی بتاؤ آگے کا کیا سوچا اس سارے گینگ کا پتہ تو چل گیا اب ریڈ کب کریں ؟؟؟
بس عبید گھر کسی کام سے اچانک ہی گیا ہے اس کی دادی نے بلایا شاید ان کی طبیعت خراب تھی جیسی ہی واپس آتا ریڈ ما دیتے ویسے چوبیس گھنٹے نظر ہے میری ان پر ,
پر یار اک بات تھوڑی پریشانی کی ہے
مجھے شک ہے کہ وہ لوگ بھابھی کہ کزن کو بہلا پھسلا کر اپنے گینگ میں شامل کر رہے ہیں اس کا کیا کریں ؟؟؟ مدثر نے پوچھا
اس کا یہی حل ہے کہ عبید کے آتے ہی ریڈ کر دیں تاکہ انہیں مزید شکار کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔
چل اب رکھتا ہوں بعد میں ہوتی ہے بات مِیر شاہ ویز نے کمرے میں چائے لے کے آتی مہر ماہ کو دیکھ کر کہا ۔
یہ آپ کی چائے مہر ماہ نے جھجھکتے ہوئے مِیر شاہ ویز کے پاس پڑے ٹیبل پر چائے رکھی
وہ جب سے اسے اپنے فلیٹ پر لایا تھا تب سے لگاتار اسے گھر کے کاموں میں لگا رکھا تھا تاکہ وہ اپنے پر گزری تکلیفوں کو سوچ کے رونے نہ بیٹھ جائے اور بیمار نہ پڑ جائے ویسے بھی سِنگل پسلی تو تھی مہر ماہ اسی لئے وہ فکر مند تھا اس کے لئے تبھی تو بہانے بہانے سے اسے کاموں میں لگائے رکھتا تھا۔
خیر مہر ماہ چائے ٹیبل پر رکھ کے خود بیڈ پر سر جھکا کے بیٹھ گئی, سر تو اس کا تب اٹھا جب مِیر شاہ ویز بری طرح کھانسی کرتا الٹی کرنے واش روم کی طرف بھاگا۔
انہیں کیا ہوا مہر ماہ بھی پیچھے لپکی اور واش کے دروازے کے باہر اس کے نکلنے کا انتظار کرنے لگی جیسے ہی وہ باہر آیا تو آگے بڑھ کے بولی کیا ہوا آپ کو آپ ٹھیک تو ہیں؟؟؟
ابھی تو اللّہ نے بچا لیا پرمجھے لگ رہا ہے آپ مجھے ٹھیک نہیں دیکھنا چاہتیں
ک ک کیا مطلب میں سمجھی نہیں
کیا ڈالا تھا چائے میں تم نے شاہ ویز نے دوبارہ کھانسی کرتے پوچھا ۔
ج ج جی چینی پتّی دودھ بس مہر ماہ نے ڈرتے ڈرتے بتایا ۔
اچھا چلو میرے ساتھ کچن میں اور بتاؤ کس کو چینی پتّی اور دودھ کہتیں ہیں آپ
مِیر شاہ ویز اس کا ہاتھ پکڑے اسے کچن میں لے آیا تو سب سے پہلے فریج سے نکال کے مہر ماہ نے دودھ دکھایا ۔۔۔۔۔یہ تو ٹھیک ہے شاہ ویز نے کہا اب باقی چیزیں دکھاؤ۔۔۔
پھر اس نے چینی دکھائی تو وہ بھی ٹھیک تھی۔
اینڈ میں باری تھی پتّی تو مہر ماہ جی نے پتّی کی جگہ پسی ہوئی کالی مرچ ڈالی ہوئی تھی چائے میں اوپر سے مِیر شاہ ویز صاحب نے فرمایا تھا کے سٹرونگ چائے بنانا تو سٹرونگ چائے کے چکر میں مہرماہ بی بی نے دل کھول کے پسی کالی مرچ ڈال دی تھی
جس نے مِیر شاہ ویز کی آنکھیں لال نیلی پیلی کر کے نانی یاد کروادی تھی
اففففف میڈم یہ بتائیں ذرا جب آپ چائے بنانے کچن میں تشریف لائیں تھیں تب چشمہ لگا تھا یا نہیں شاہ ویز نے جلے دل سے پوچھا۔
جی وہ چائے کی بھاپ سے اکثر چشمہ دھندلا جاتا ہے اس لئے میں نے چائے بنانے سے پہلے ہی سائیڈ پر چشمہ اتار کر رکھ دیا تھا مہر ماہ نے معصومیت سے کہا۔
جب آپ کو پتہ ہے کہ چشمے کے بغیر آپ کو ٹھیک سے دِکھتا نہیں تو اتارا کیوں؟؟؟
شاید اسی لئے تمہاری کزن تمہیں بیٹری کہہ کر بلا رہی تھی۔۔۔۔ شاہ ویز نے چِڑ کر کہا
سوری آئندہ سے ایسی غلطی کبھی نہیں ہوگی مہر ماہ کے شرمندگی سے سر جھکا کر کہنے پر مِیر شاہ ویز نرم پڑ گیا اوکے چلیں اب آپ جائیں محترمہ اپنے کمرے میں آئندہ خیال رہے ۔
جی اچھا کہتی مہر ماہ بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
پر وہ یہ نہیں جانتا تھا انجانے میں اس نے مہر ماہ کو اس کی کمی کا احساس دلا کر اس کا دل دُکھا دیا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...