اگلے دن سیمل اور زینب ایک ساتھ کالج کے گراؤنڈ میں قیام پزیر تھیں___
جب زینب نے اسے اپنے نئے آنے والے رشتے کی خبر دی__زینب تو راضی نہیں تھی__البتہ اسکے گھر والے (جن میں اسکے امی ابو شامل تھے) صرف منگنی کرنے کا کہہ رہے تھے__شادی ڈاکٹری کی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد کرنے کا اراده تھا__سیمل نے دل ہی دل میں اپنے لئے شکر ادا کیا کہ اچھا ہے اسکا کوئی پروپوزل نہیں آیا__ورنہ اسکو مجبوراً گھر والوں کی بات ماننی پڑتی___ پر یہ شکر تھوڑی ہی دیر کاتھا__قسمت نے اسکا کوئی بڑا امتحان لینا تھا__قسمت کے آگے آخر سب ہی یارتے ہیں __کسی کی جیت ممکن نہیں ہوتی__ چاہے کوئی کتنا ہی بڑا شہنشاه ہو یا اس معاشرے کا فقیر___قسمت کے آگے سب گھٹنے ٹیکتے ہیں___
جب سیمل نے مین گیٹ کھولا تو مد مقابل کو دیکھ کر حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا__ دوسری طرف بھی یہی کچھ حال تھا__لیکن وه الله کی عظمت پر تہہ دل سے رشک کر رہا تھا__حیرت کے سمندر میں موجود تیرتی کشتی کے اندر سیمل کو اپنی جان کہیں قید ہوتی ہوئی معلوم ہورہی تھی__حالت ماسیوں سے کم نہ تھی__ڈھیلی چوٹی میں گندھے بال جو مشکل سے قید تھے__آدھے بال فریب دیتے ہوئے چہرے پہ جھول رہے تھے__دوپہر کی ہلکی ہلکی دھوپ کے باعث پیشانی پی پسینہ کے چند ننھے ننھے قطرے اٹھکھلیاں کرریے تھے__حالات کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے بغیر مقابل سے ڈرے وه سلمان انکل سے مخاطب یوئی تھی__
“السلام علیکم! سلمان انکل آئیے اندر_ _ _”
“وعلیکم السلام! ہمیشی جیتی رہیے بیٹا __الله آپکے نصیب اچھے کرے___”انہوں نے سچے دل سے دعا دی___
راہداری عبور کرتے ہوئے وه دونوں مرد آگے اور سیمل انکے قدموں کی پیروی کررہی تھی__جب وه دونوں مرد تھوڑا آگے چل کر رکے تو اس نے جلدی سے آگے بڑھ کر گیٹ کھولا تھا جو راہداری کو لاؤنج سے ملاتا تھا__ لاونج میں آکر صوفوں کی طرف اشاره کرکے انکل اور اس سے مخاطب ہوئی آپ دونوں یہاں بیٹھیے میں ابو کو بلا کر لاتی ہوں __سیمل انہیں بیٹھتے ہوئے دیکھ کر جلدی سے اس غرض سے آگے بڑھی کی ابو کو بلا لوں مبادا کہیں وه اپنی خراب حالت کو سوچتے ہوئے نہ ڈوب کے مرجائے__ عجلت میں چلتے ہوئے ، میز کے کونے سے جسکا شیشہ ابھی صفائی کے دوران اٹھاتے ہوئے سیمل سے ٹوٹا تھا، سے ہی جا ٹکرائی_ درد کی ایک لہر اسکی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئ__ درد اتنا شدید تھا کہ وه وہی ڈھے گئ__ خون تیزی سے کٹنے کے باعث پاؤں کی چھوٹی انگلی سے بہہ رہا تھا __”عارش” بروقت اٹھ کر سیمل کے پاس آیا_ اور اجازت طلب کی وه اسکا پاؤں دیکھ لے__کہیں ایسا نی ہو کہ بغیر اجازت کے ہاتھ لگانے پر وه اسکے باپ کے سامنے ہی اسکو تھپڑ نہ مار دے_ اجازت ملنے پر وه پاؤں کا جائزه لینے لگ گیا__
کیا ایسا نہیں ہوسکتا کی ہم تم سے تمکو مانگیں
اور تم مسکراکے کہو کہ اپنی چیز مانگا نہیں کرتے
“امی میں آپ سے کہہ رہی ہوں کہ ابھی میری شادی نہ کریں ابھی پڑھائی مکمل کرنے دیں پھر آپ جس سے بولیں گیں میں کرلوں گی شادی __” زینب نے آخری کوشش کی__
“بیٹا ہم تمہارا بھلا ہی چاھتے ہیں_آخر کو کل ہم مرگئے تو کون سہارا بنے گا تمہارا___تمہارا تو کوئی بھائی بھی نھیں ہے کہ میں تھوڑی بے فکر ہوجاؤں__جوان لڑکی جسکے ماں باپ نہ ہوں نا تو اسکو یہ معاشره انہیں جینے نہیں دیتا__طرح طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اور وه طرح طرح کے کھیل کھیلتے ہیں___میری مانو تو صرف منگنی کرلو میری جان__” امی نے آخری کوشش کرتے ہوئے اپنی لاڈلی بیٹی کو لاجواب کردیا__
“ٹھیک ہے امی میں راضی ہوں_ جیسا آپ اور بابا جانی بولیں گے ویسا ہی ہوگا__” زینب نے بلآخر میدان میں ہتھیار ڈال دیے__
“جیتی ره میری بیٹی__ میں ابھی شکیلہ (رشتے والی بائی) سے بات کرتی ہوں_”
اتنا کہہ کر امی فون پہ بات کرنے چل دیں___
“بہت گہرا کٹ لگا ہے__ ویٹ آپ اوپر بیٹھیے میں ابھی آیا__اتنا کہہ کر عارش سیمل کو کندھوں سے سہارا دیتے ہوئے اٹھانے لگا__اوپر صوفے پہ بیٹھا کر وه فوراً وه لان کی طرف بھاگا جہاں اس نے ابھی اندر آتے وقت گھیاگوار(Aleo-vera) کا پودا لگا دیکھا تھا__سیکرٹ ایجینٹ اور نیوی کی ٹریننگ کے دوران اسے یہ بات اچھی طرح سمجھائی گئی تھی کہ گھیاگوار لگانے سے فوراً خون رک جاتا ہے __
جلدی سے ایک ڈالی ہاتھ میں لۓ وه لاؤنج کی جانب آکر سیمل کے سامنے دوزانوں بیٹھ گیا اور اسکا پاؤں اٹھا کر اپنے گھٹنے پہ رکھا__
سلمان صاحب جو سیمل کے برابر میں آکے بیٹھے ہوئے اسے چپ کرانے کی کوشش کر رہے تھے مگر انکی یہ کوشش بے صدھ تھی__
جیسے ہی گھیاگوار لگایا_تھوڑی سی کھولن اسکے پاؤں میں ہوئی کیوں کہ اسکا پاؤں شیشے سے زخمی کے ہونےکے باعث جلن پیدا کررہا تھا__.عارش نے اپنا ایک ہاتھ اپنا آگے بڑھایااور اس سے مخاطب ہوکر بولا__
“آپکو زیاده درد ہورہا ہے تو آپ میرے یاتھ کو دبا لیں__” یکایک سیمل نے نفی میں سر ہلایا__
اتنی دیر میں امی لاؤنج کے کمرے سے نمودار ہوئیں__ تقریباً بھاگتے ہوئے وه سیمل کے پاس آئیں خون دیکھ کر اور وه بھی انکی بیٹی کے پاؤں سے، انکے ہاتھ پیر پھول گئے__عارش نے ان سے فرسٹ ایڈ باکس مانگا جسے وه فوراً لے کر حاضر ہوئیں__
سیمل روتے ہوئے یہ سوچ رہی تھی کہ آخر کیوں یہ شخص میری ہر تکلیف کا مرہم بن رہا ہے__ اور ہرمشکل میں میرا ساتھ دیتے ہیں__پہلے جیکٹ دے کر ، پھر رکشے والے کو ڈانٹ کر میرے دل میں اپنے لیۓ عزت کا مقام بنایا__اب یہ_ _ _ کیا میں کبھی انکے کام آسکونگیں__
خیال رکھا کرو اپنا جان تم_
میرے پاس تم جیسا اور کوئی نہیں ہے
سیمل اپنی تقدیر سے بے خبر یہ سوچ رہی تھی جبکہ سیمل کو ہی عارش کو بھرپور طریقے سے کام آنا رہا__
کبھی کبھی بن مانگے بھی خداتعالٰی اپنے بندوں کی سنتا ہے__بلاشبہ وه تو ہو ایک کے دل میں دفن خیالات سے بھی واقف ہے__وہی سبکی سنتا اور عطا کرتا ہے__
کچھ یہی حال سیمل اور عارش کے ساتھ تھا__قسمت انہیں سامنے تو لے آئی تھی__بس انہیں ایک دوسرے کا احساس دلانا تھا__افسوس صد افسوس یہ احساس بہت بری طرح دونوں کے اندر آنا تھا__
“میں نے شکیلہ سے بات کرلی ہے__وه لوگ کل آئیں گیں __شاید کل ہی چھوٹی سی رسم بھی کردیں__تم کل جلدی کالج سے آجانا__” امی نے جیسے شاہی فرمان جاری کیا__
زینب نے اپنے دھڑکتے دل کو سنبھال کر بس اتنا پوچھا__” کیا میں کل سیمل کو بلا لوں میری کوئی بہن نہیں ہے تو وه ساتھ ہوگی تو میں بے فکر ہوجاؤں گی__”
“ارے میری بیٹی__بلا لو سیمل بیٹی کو وه تو خود بیچاری سیدھی سادی سی ہے__” امی نے اسے اجازت دی__
جسے سن کر اسے تھوڑی ڈھارس ملی ___
تھوڑی دیر میں سیمل کے والد متحرم بھی اتنی بے چینی کے باعث باہر لاؤج میں آگئے__سیمل کا پاؤں دیکھ کر انکے دل کو کچھ ہوا تھا آخر کو وه انکا گوشہ جگر تھی__
“سیمل بیٹا لگتا ہے stitches لگوانے پڑیں گیں__انگلی سے خون نہیں رک رہا اس لیۓ__آئی تھنک کٹ بھی گھرا ہے۔۔۔ ھوا کیسے یے سب آخر؟؟؟”اکرام صاحب سے آخر رہا نہ گیا تبھی وه تفصیل جاننے کے لیۓ بول پڑے__
عارش نے انہیں مختصر الفاظ سارا واقعہ من و تن سنا دیا__
“سیمل چلو ہم آپکو ہاسپٹل لے کر چلیں__” اکرام صاحب نے فوراً بولا__
سلمان صاحب جو اتنی دیر سے چپ تھے آخر انہوں نے بھی گفتگو میں شرکت کرتے ہوئے شہیدوں میں نام لکھوایا__”اکرام تم یہیں رکو__سیمل کو عارش لے جائے گا__”
“نہیں انکل میں خود ڈرائیو کر کے لے جاؤں گی__آپ لوگ فکر نہ کریں میں ٹھیک ہوں__اسکے برعکس اسکے اندر stitches کا سن کر شدید خوف و ڈر بیدار ہوگیا تھا__جس کو وه کسی پہ آشکار نہیں ہونے دینا چاه رہی تھی__اسے پتا تھا stitches لگتے ہی اسنے ڈاکٹر ہونے کے باوجود رونے لگنا ہے__” سیمل کی حالت stitches کا سنتے ہی غیر ہونے لگی تھی__
“امی ابو انکل آپ فکر نہ کریں میں چلی جاؤنگی__میں زرا نمیره سے پوچھ لوں وه ہوگی اس وقت__اتوار کو اسکی ڈیوٹی ہوتی ہے__”عارش کو بظاھر نظر انداز کرتے ہوئے وه گویا ہوئی تھی__
“عارش بیٹا آپ سیمل کے ساتھ چلے جاؤ__” اکرام صاحب نے جیسے جنگ کا آخری فیصلہ سنایا__
حالتِ ناچار کے تحت ابو کی بات ماننی پڑی__یاسمن (سیمل کی والده) مطمئن ہوگئیں__عارش کے بارے میں وه پہلے ہی اکرام سے سن چکی تھیں__بلاشبہ وه قابلِ اعتبار بچہ تھا_____حجاب اور چادر اپنے گرد لپیٹ کر کر وه گیراج کے طرف چل دی جہاں عارش اسکا انتظار کررہاتھا__عارش اسٹئیرنگ سنبھال چکا تھا البتہ سیمل کے لیۓ فرنٹ ڈور کھلا چھوڑا تھا یعنی اس کا مطلب اسے آگے بیٹھنا تھا__قدرے ہچکچاتے ھوئے وه فرنٹ سیٹ پہ عارش کے پہلو میں براجمان ہوگئی__وه حد سے زیاده پریشان تھی__ مگر وه اس بات سے بھی پرسکون تھی کے ابو نے اپنی اجازت سے خود عارش کے ساتھ بھیجا ہے__ایک نا محرم کے ساتھ تنہائی میں ہونا اسکی روح کو گھائل کر رہا تھا__وه تمام تو خیالات کو جھٹکنے کی کوشش تو کررہی تھی مگر افسوس شیطان نے الله سے اپنے خاص بندوں کو بہکانے کا عہد کیا تھا__وه پورے راستے “استغفرالله”کا ورد کرتے ہوئے شیطان کو اپنے مقصد میں کامیاب ہونے سے مات دے رہی تھی__
عارش نے ابھی تک سیمل کو مخاطب نہیں کیا تھا__البتہ ہاسپٹل پہنچتے ہی عارش نے آکر سیمل کے لیۓ دروازه کھولا تھا__جس سے سیمل کو عجیب سے احساس نے اپنے گھیرے لے لیا تھا__وه ماضی یا مستقبل میں رہنے یا جینے والی لڑکی نہیں تھی__وه تو حال ہی میں اپنے واحد معبود لا شریک سے خوش اور راضی رہتی تھی__ نہایت آہستہ آہستہ اور لنگڑا کر چلنے سے وه عارش سے کافی پیچھے چلنے کی سعی کر رہی تھی__وه اپنی وجہیہ شان سے چلتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا__اچانک اسے سیمل کا خیال آیا تھا__ وہ وہیں رک گیا اور اسے دیکھنے لگا جو لنگڑا کر چلنے کی کوشش کررہی تھی__ ہاسپٹل پہنچ کر وه نمیره کے کیبن کی طرف چل پڑی اور دروازه ناک کر کے عارش کے ہمراه داخل ہوئی__ “نمیره سامنے بیٹھی کسی مریض سے ہم کلام تھی سیمل کو کسی لڑکے کے ساتھ دیکھ کر اسے کا فی حیرت ہوئی__
“نمیره میرے پاؤں میں stitches آئینگے دیکھو تم اگر ضرورت ہے تو لگا دو ورنہ رہنے دو__”سیمل اپنا ڈر چھپاتے ہوئے اپنی دوست سے گویا ہوئی__
جب تک اسے ٹانکے لگے وه مسلسل روتی رہی__چار ٹانکے آئے تھے وه بھی پاؤں میں تو نیند آور دوا دینے سے اجتناب کیا گیا تھا__ تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر نمیره نے آکر عارش کو بلایا اور بتا دیا کہ وه ابھی انکے کیبن میں لیٹی ہے تھوڑی دیر بعد آپ انہیں گھر لے جائیے گا__
عارش کافی دیر سوچنے کے بعد اندر چلا ہی گیا لیکن اندر جاکر اسے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا__
“سیمل آپ ڈاکٹر ہوکر صرف چار stitches پہ اتنا ھ
ہچکیوں سے رو رہیں ہیں __its unbelievable __”وه اتنی دیر میں پہلی بار سیمل سے مخاطب ہوا تھا__
“مجھے injection سے شدید خوف آتا ہے اور نمیره نے بتایا کہ ابھی وه آکر پین کلر لگائے گی__”معصومیت کے سارے حدود توڑتے ہوئے اس نے بلا جھجک عارش کے سوال کا جواب دیا__
عارش کو اسکی بات سن کر بے اختیار ہنسی آگئی__
“سیمل شاید آپ ایک ڈاکٹر ہیں اور ڈاکٹر کو خود اتنا ڈر لگ رہا ہے تو پھر مریضوں کی خیر ہے__” عارش نے سیمل کی ٹانگ کھینچنے کا موقع ہاتھ سے نا جانے دیا__
“کیا ہم دوست بن سکتے ہیں__؟؟”عارش نے سوالیہ نظروں سے سیمل کو دیکھا__
“اچھی لڑکیوں کا کوئی لڑکا دوست نہیں ہوتا__اور میں تو نامحرم سے بھی بات کرنے سے گریز کرتی ہوں وه تو ابو نے آپکے ساتھ بھیجا تو آنا پڑا ورنہ میں ایسی قطعی نہیں ہوں__” سیمل نے خوف اور ڈر کے مارے بھی اپنے حواسوں کو مقابل پہ ظاہر نہیں ہونے دیا تھا__
“گڈ اّن جزباتی لڑکی__میں آپکو قطعی غلط نہیں سمجھتا__ آپ. میرے لیۓ قابلِ احترام شخصیت ہیں__وه تو میں اس لیۓ بول رہا تھا آپ ڈاکٹر ہیں اور میں نیوی میں ہوں تو کبھی خراب حالت میں آپکے پاس پہنچوں تو آپ اس مریض کی خدمت کرسکیں__عارش نے بات کو باخوبی گھما کے طول دے دیا__
“الله نہ کرے__” بے اختیار سیمل کے منہ سے یہ الفاظ خارج ہوئے__
اپنے لیۓ سیمل کے لہجے میں فکر محسوس کر کے اسے خوشگوار احساس نے آلیا__
تقریبن ایک ہفتے سیمل گھر رہی تھی لیکن جیسے ہی وه کالج جانے کے قابل ہوئی سردیوں کی چھٹیاں ہوگئیں__ شاید قدرت اس پر مہربان تھی__مگر اکرام صاحب کی حالت دن با دن بگڑتی جارہی تھی__وه دِکھنے میں بھی لاغر ہوگئے تھے__سیمل اور بیگم اکرام بھی بہت پریشان تھیں___
عارش اپنی جاب پہ تھا __ ادھر اسےاسکے سر نے ایک کافی کمپلیکیٹڈڈ کیس کی ذمےداری دی تھی__وه آغا باران کو رنگے ہاتوں پکڑنا چاہتا تھا __جسکے لیۓ اسکے سر نے اسکے انڈر میں دس ماہر سیکرٹ ایجنٹ دیے تھے__وه اپنا کام بھر پور طریقے سے سوچ سمجھ کر کرتا تھا__اسی لیۓ اسکے سر اسے آنکھوں پہ لئے رکھتے تھے__
وه اسوقت سر کے پاس آیا تھا کیونکہ اسے اس محاذ پہ جانے سے پہلے اپنے ماں باپ کو اپنی شکل دیکھانی تھی__کہ انکا واحد بازو ، انکا سپوت انکا پیار اور اپنی کامیابی کے لیۓ دعائیں کروانی تھیں بلا شبہ وه ماں باپ تھے__ماں باپ ایک قیمتی متاع کی مانند ہوتے ہیں __دنیا کی کوئی دولت ، کوئی ہیرا ، کوئی رشتہ، اسکی جگہ نہیں لے سکتا__ اس لیۓ جسکے ماں باپ زنده ہیں انکی خوب خدمت کریں __ہمیں نہیں پتہ کب کس وقت ہمیں آنسوؤں سے رونا گڑگڑانا پڑے __وه آپ سے بے لوث محبت کرتے ہیں___کوئی محبت ، ماں باپ کی محبت کی ردو بدل نہیں ہوسکتی ___اور کمی تو کبھی پوری ہو ہی نہیں سکتی__میری آپ سب قارئین سے گزارش ہے خدارا آپ ماں باپ کی محبت کی قدر کریں کہیں ایسا نہ ہو آپکو کبھی پچھتانا پڑے_____
“سر مے آئی کم ان__؟؟”عارش نے مؤدبانہ انداز میں سر سے اجازت مانگی__
“یو مے کم ان کیپٹن عارش___ ہیو آ سیٹ__”انھوں نے سامنے رکھی کرسی کی طرف اشاره کیا__
“سر میں ایک ہفتے کے لیۓ گھر امی ابو کے پاس جانا چاہتا ہوں__مجھے پتہ ہے یہ غلط ہے __بٹ آئی وانٹ ٹو انفارم دیم دیٹ، دس مشن از کووائیٹ ڈیفیکلٹ__ سر پلیز ٹرائی ٹو اندر اسٹنیڈ میں جانا چاہتا ہوں__اِف یو پرمٹ سو________” باقی کا جملہ وه پورا نہیں کرسکا__
“دس اس لاس ٹائم دیٹ آئی پرمٹ یو___بیکاز اوف یور ایمپراسوو ٹریک__ تمہیں پتہ ہے نا آغا باران کیسا ہے اور کسطرح معصوم لڑکیوں کو اغواء کر کے ان پہ تشدد کرتا ہے ___تمھیں الله نے بہن نہیں دی مگر تمھیں ان سب بہنوں کو اس آغا باران کے چنگل سے نکالنا ہے___” سر اسے احساس دلا رہے تھے__
یس سر __ آئی ٹرائی مائی بیسٹ سر___سر اب اجازت چاہوں گا __ جلدی ہی واپسی ہوگی میری انشاء الله___” کیپٹن عارش کھڑا ہوا اور پھر سلیوٹ کر کے باہر چلا گیا___
اسے نہیں پتا تھا کہ وه گھر تو جارہا ہے مگر کونسی بڑی ذمے داری لئے واپس آئے گا__اس بات کا علم صرف الله کو تھا بلاشبہ وه سب جانتا ہے اور کائنات کی ہر چیز سے واقف ہے___
“سیمی تمہیں ایک بات بتانی ہے__” زینب جو فون پہ سیمل سے ہم کلام تھی__
سیمل اوندھے منہ بیڈ پہ لیٹی تھی__ اور زینب کی بات کو غور سے سننے کے لیۓ اس نے اپنے کان مزید کھڑے کر لیۓ تھے__
“سیمی پہلے بتاؤ ماروں گی تو نہیں__؟” زینب نے ڈرتے ہوئے سیمل سے دریافت کیا مبادا کہیں وه خبر سننے کے بعد ہی مارنے نا آجاۓ اور ناراض نا ہوجائے__
“نہیں میری جان تم بتاؤ تو سہی___؟؟ سیمل نے اتالوے پن سے پوچھا__
“اصل میں نا 5 دن بعد میری انگیجمنٹ ہے__”زینب نے جیسے کوئی بم پھوڑا ہو__کیا۔۔۔؟؟؟
“زینی کی بچی! تم اب بتا رہی ہو__بہت غلط بات ہے تم نے بتایا بھی نہیں __ “سیمل اپنی بات سے تقریباً مکر گئ__
“دیکھو یار بہت جلدی میں ہورہی ہے نا تبھی بتایا__”انکو” نا جانا ہے ڈیوٹی پہ__”زینب نے شرماتے ہوئے بولا__
“اوھوووو! ابھی تو منگنی بھی نہیں ہوئی اور انکو______” سیمل نے ماحول کی کشیدگی کو ختم کرنے کیلیۓ مزاق کیا__
“مجھ سے پہلے کر رہی ہو خیر اچھا کرتے کیا ہیں تمھارے وه__”سیمل نے اب زینی کے ہونے والے شوہر کے متعلق پوچھا__
“یار نیوی میں ہیں __” زینب نے راز کی بات بتائی__
“چلو الله تمہارے، نصیب اچھے کرے__دونوں جہانوں میں تم دونوں کا ساتھ ایک ساتھ برقرار رکھے__”سیمل نے بات کو ختم کرتے ہوئے اپنی بہن جیسی دوست کو دل سے دعا دی__
“ہیلو کیپٹن ارصم سپیکینگ__”فون کو کان سے لگاتے ہی ارصم نے اپنے مخصوم انداز میں بولا__
“ابے اووو ! میں ہوں عارش __ہر وقت تجھے کیا اپنی نیوی میں ہونے کا رعب جھاڑنا ضروری ہے__”عارش نے مقابل کی پہلی بات سنتے ہی اسے لتاڑا___
“یار تو رات میں اس وقت کال کروگے جب میں سو رہا ہوں بلکہ نیند کے خمار میں ہوں تو اپنا ازلی انداز اپنانا پڑتا ہے__”ارصم نے جواز پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی__
“ہاں ٹھیک ہے__مجھے نہ ایک سرپرائز دینا ہے تمھیں__”عارش نے سادے لہجے میں بولا__
“لیکن قسم سےیارا سرپرائز سن کر تمہیں زیاده شاکڈ لگے گا__”ارصم نے نیند کو سائیڈ میں رکھتے ہوئے آج ساری بات بتانے کا اراده کیا__
“پہلے کون دے گا__میں یا تم___”عارش نے بس اتنا پوچھا__کیونکہ وه جانتا تھا اسکا بچپن کا ساتھی اس سے زیاده دیر کچھ نہیں چھپا سکتا__ابھی اس نے صرف اس لیۓ نہیں بتایا تھا کہ وه ڈیوٹی پہ ہوتا ہے اور کسی کو ڈسٹرب کرنا اسکے اصولوں کے خلاف تھا__
“میری انگیجمنٹ ہورہی ہے 5 دن بعد__”ارصم نے پہل تو کی مگر دوسری طرف عارش یہ سن کر حیران ره گیا__”کمینے ذلیل انسان تو مجھے اب بتا رہا ہے___”عارش کو جیسے غصہ آگیا__
اور مجھ سے
کر رہا ہے یہ بھول رہا ہے میں تجھ سے ایک مہینے بڑا ہوں تو پہلے میری ہونی چاہیے__
“ابے چل ابھی صرف منگنی ہورہی ہے اور کچھ نہیں__یار امی زور دے رہیں ہیں کہ کرلو__لڑکی بہت اچھی ہے ڈاکٹر بن رہی ہے__”ارصم نے عاتش کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلۓ تفصیل بتائی__
“چل جا جی لے اپنی زندگی__باۓ دا وے __میں تیری منگنی اٹینڈ کرنے ایک ہفتے کے لیۓ آرہا ہوں__”عارش نے بھی ایک شاکڈ دیا__
“تو سچ کہہ رہا ہے نا__؟؟؟ مطلب سر نے ایک ہفتے کا آف دے دیا یو آر ویری لکی بڈی__”ارصم نے اسے تعزیماً سراہا__
“چل باقی بات بعد میں ہوگی تو سو جا اب__”عارش نے اپنی جمائی روکتے ہوئے بولنے کی کوشش کی__
“چل ٹھیک ہے بڈی __سی یو سون__ٹیک کیر __الله حافظ__”ارصم نے بولا__
“رب راکھاں__فی امان الله_,”عارش نے بھی نیک دعائیں دی__
دونوں طرف سے بات ہوکر لائن ڈراپ ہوگئی__
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...