“یہ ناقابلِ تصور ہے کہ آپ کبھی بھی دو چمپینزیوں کو دیکھیں جنہوں نے ملکر درخت کا تنا اٹھایا ہو”۔
مائیکل ٹوماسیلو جو چمپینزی کے ذہن پر تحقیق کے ماہر ہیں، ان کا یہ فقرہ سمجھنا انتہائی اہم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چمپنیزیوں کو زمین پر دوسری سب سے ذہین نوع سمجھا جاتا ہے۔ یہ اوزار بنا سکتے ہیں، اشاروں کی زبان سیکھ لیتے ہیں، دوسرے افراد کے ارادے کی پیشگوئی کر لیتے ہیں، دھوکا دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فرد کے طور پر یہ بہت ذہین ہیں۔ تو پھر یہ اکٹھا کام کیوں نہیں کر سکتے؟ وہ کیا ہے، جو کہ ان میں نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹوماسیلو کی بڑی جدت ایسے آسان کام بنانا تھا جو انسان اور چمپینزی کے بچے کو ایک ہی طریقے سے دئے جا سکیں۔ اس کو حل کرنے پر چمپینزی یا بچے کو انعام ملتا تھا۔ کچھ کے لئے صرف فزیکل جگہ پر فزیکل آبجیکٹ کا استعمال تھا۔ مثلا، پہنچ سے باہر رکھے گئے انعام کو ایک ڈنڈے کی مدد سے کھینچ لینا۔ یا بہت سی پلیٹوں میں سے ایسی پلیٹ کا انتخاب جس میں زیادہ ٹافیاں رکھی ہوں۔ ایسے دس ٹاسک میں دو سالہ بچے اور چمپینزی کی کامیابی کا تناسب یکساں رہا جو 68 فیصد کے قریب تھا۔
لیکن کچھ کاموں میں تجربہ کرنے والے کے ساتھ ملکر کام کرنا تھا یا کم از کم یہ پہچاننا تھا کہ اس کی طرف سے کیا انفارمیشن شئیر کی جا رہی ہے۔ مثلاً، ایک کام میں تجربہ کرنے والے نے پہلے یہ دکھایا کہ ٹیوب میں سے انعام کیسے نکالتے ہیں جو کہ ایک کاغذ سے ڈھکا گیا ہے۔ اور پھر اس کو چمپینزی اور بچے کو ویسے ہی ٹیوب دی گئی۔ کیا وہ اس بات کو پہچان لیں گے کہ انہیں کیا بتایا گیا ہے؟
یہ سوشل چیلنج تھے اور اس میں بچوں کا کامیابی کا تناسب 74 فیصد تھا جبکہ چمینزی کا 35 فیصد۔
ٹوماسیلو کے مطابق انسانوں کا دوسرے پرائمیٹ سے بڑا فرق “ارادے کے اشتراک” کا ہے۔ یہ دو یا زیادہ افراد کی ذہنی تصور کو شئیر کر سکنے کی اہلیت ہے۔
مثال کے طور پر، اگر ایک شخص شاخ کو نیچے جھکاتا ہے، دوسرا اس جھکی ہوئی شاخ سے پھل توڑ لیتا ہے۔ اب دونوں ملکر کھا سکتے ہیں جبکہ انفرادی طور پر دونوں اس سے محروم رہ جاتے۔ چمپنیزی ایسا کبھی نہیں کرتے۔
یا شکار کرتے وقت شکاری الگ ہو جاتے ہیں اور جانور کو دونوں طرف سے گھر لیتے ہیں۔ کئی بار ایسا لگتا ہے کہ چمپینزی بندر کا شکار کرتے وقت ایسا کرتے ہیں لیکن ٹوماسیلو کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں۔ یہ ملکر کام نہیں کر رہے۔ دونوں اپنی طرف سے فیصلے لے رہے ہیں جن سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ مشترک شکار ہے۔ اور اس دوران ایسا کچھ بھی نہیں نظر آتا کہ یہ ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ اور شکار کر لینے کے بعد اس کو آپس میں شئیر کر لینے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ فیصلہ طاقت سے ہوتا ہے۔
اس کے برعکس، انسان مشترک ارادے اور مقاصد رکھتے ہیں۔ خواہ شکار کیا جائے، بچوں کی پرورش یا پڑوسیوں پر حملہ۔ ٹیم کے پاس مشترک ذہنی تصور ہوتا ہے۔ اور وہ جانتے ہیں کہ ان کے ساتھیوں کے ذہن میں بھی ایسا ہی ہے۔ اور یہ بھی جانتے ہیں کہ کونسے ساتھی کا عمل گروہ کے مشترک مقاصد سے ہم آہنگ نہیں اور اس پر منفی ردِ عمل آتا ہے۔ جب ایک گروپ میں ہر کوئی مشترک سمجھ رکھنے لگے کہ کیا کئے جانا ہے تو کسی فرد کی طرف سے اس پر پڑنے والی رکاوٹ پر منفیت کا ایک شرارہ آنا اخلاقی میٹرکس کی پیدائش ہے۔ (یاد رہے کہ میٹرکس ایک رضاکارانہ سراب ہے)۔ اور یہ نوعِ انسان کی کامیابی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹوماسیلو کا ماننا ہے کہ انسان کا الٹرسوشل ہونا دو مراحل میں ہوا۔ پہلا ارادے کا اشتراک تھا۔ اور پھر اس ابتدائی اشتراک سے طویل مدت بعد بہتر اشتراک کے بڑے گروہ بننے لگے۔ اور ان کے بننے کی وجہ شاید ایک دوسرے سے مقابلہ بازی تھی۔ ان میں جیت ان گروہوں کی ہوئی جو آپس میں زیادہ متحد تھے۔ اس مقابلے میں فطری چناوٗ گروہی ذہن کے ڈیزائن کے حق میں رہا۔ سیکھنے کی صلاحیت اور سماجی رسوم کی پاسداری، گروپ کے جذبات محسوس اور شئیر کرنا۔ اور آخر میں سماجی اداروں کی تخلیق اور ان کے احکام کی پابندی۔ گروہ کے اندر ایک اور طرح کا سلیکشن پریشر آ گیا۔ (گروہی رویوں کے باغیوں کو سزا یا تنہائی کا مطلب ان کے جین باہر ہو جانے کی صورت میں نکلتا ہے)۔ گروہوں کے “درمیان” ایک اور طرح کا۔ (متحد گروپ علاقے اور دوسرے وسائل حاصل کر سکتے ہیں اور دستیاب کا دفاع کر سکتے ہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بار آپ ٹوماسیلو کی بیان کردہ بصیرت کو سمجھ لیں تو پھر آپ کو مشترک مقاصد کے وسیع جال نظر آنے لگیں گے۔ یہ وہ دھاگہ ہے جن سے انسانی معاشرت بُنی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی لوگ ایسا خیال رکھتے ہیں کہ زبان ہماری نوع کا بڑا سنگِ میل تھا لیکن زبان بھی اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک مشترک ارادہ نہ آ جائے۔
ٹوماسیلو یہاں پر یاد کرواتے ہیں کہ ایک “لفظ” ایک آواز اور ایک شے کا تعلق نہیں۔ یہ ایسے لوگوں کے درمیان کا اتفاق ہے جو دنیا کا مشترک تصور رکھتے ہیں اور یہ تصور شئیر کرنے کا طریقہ “لفظ” ہے۔ لفظ ذہنوں کا رابطہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہد کی مکھیاں موم اور لکڑی کے ریشوں سے چھتے بناتی ہیں۔ اور پھر لڑتی ہیں، قتل کرتی ہیں اور ماری جاتی ہیں تا کہ ان کا دفاع کیا جا سکے۔
انسانی اخلاقی کمیونیٹی بناتے ہیں۔ ان کا مادہ مشترک اقدار، رسوم، ادارے اور نظریات ہیں۔ اور پھر لڑتے ہیں، قتل کرتے ہیں اور مارے جاتے تا کہ ان کا دفاع کیا جا سکے۔
یہ مشترک اقدار، رسوم، ادارے اور نظریات ہماری معاشرت کو بننے والے جال ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...