البیرونی اور ابنِ سینا تاریخ کے بڑے اذہان تھے۔ ان دونوں عظیم انسانوں کا سائنسی ترکہ کیا ہے؟
ابنِ سینا کی بڑی شہرت ان کی طب پر لکھی کتاب القانون فی الطب سے ہے۔ یہ طب کے نصاب کی سٹینڈرڈ کتاب بن گئی اور الرازی کی کتاب سے زیادہ قبولیت پائی۔ اسلامی اور یورپی دنیا میں یہ چھ سو سال استعمال ہوتی رہی۔ کسی بھی اکیڈمک متن کے لئے یہ بہت ہی طویل عرصہ ہے۔ یونانی طب کے عظیم نام جالینوس اور بقراط تھے۔ اس کتاب نے نہ صرف ان کے کام کو، بلکہ انڈیا اور فارس میں کئے گئے کام کو یکجا کیا اور اس میں ابنِ سینا کا اپنا کام بھی تھا، جس میں متعدی بیماریوں اور انسانی آنکھ کی اناٹومی پر کام شامل تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب کی ایک جلد ہڈی کے فریکچر پر ہے۔ وجہ، اقسام اور مختلف طرح سے ہڈی کے ٹوٹنے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اور ساتھ اس کے علاج لکھے گئے ہیں۔ ابنِ سینا پہلے معالج تھے جنہوں نے تاخیر سے splintage کی تھیوری پیش کی۔ اس میں metacarpal ہڈی کے فریکچر کا علاج بھی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے ہ آج کی نصابی کتابوں میں اسے Bennets fracture کہا جاتا ہے۔ ان کتابوں کے مطابق بینیٹ نے اسے 1882 میں “دریافت” کیا تھا، جبکہ ابنِ سینا نو صدیاں پہلے اس کی وضاحت کر چکے تھے۔
ابنِ سینا کی سائنس کے لئے سب سے بڑی خدمت ان کی “کتاب الشفا” ہے۔ اگرچہ شفا کے معنی بیماری سے علاج کے لئے جاتے ہیں لیکن یہ میڈیکل کی کتاب نہیں۔ یہ کتاب اس امید پر لکھی گئی تھی کہ یہ دنیا کی جہالت کی بیماری کا علاج کرے گی۔
اس کی نو جلدیں منطق پر ہیں اور آٹھ جلدیں نیچرل سائنس پر۔ باقی جلدوں میں ریاضی، جیومیٹری، آسٹرونومی، موسیقی اور میٹافزکس ہے۔ اور اس کے نفسیات کے سیکشن میں ہم ان کا مشہور سوچ کا تجربہ دیکھتے ہیں، یہ “معلق آدمی” کا تجربہ ہے۔
اس تجربے کے ساتھ ابنِ سینا پہلے ہونے والے اسلامی تھیولوجی کے کام کی نفی کرتے ہیں جس کے مطابق فزیکل جسم ہی سب کچھ تھا۔ وہ ایک منظر پیش کرتے ہیں۔
“فرض کریں کہ ایک شخص اچانک ہی پیدا کر دیا جاتا ہے۔ وہ مکمل ہے لیکن اس کی بصارت سے بیرونی دنیا کو چھپا لیا گیا ہے۔ وہ فضا میں معلق ہے۔ اسے ہوا کا کوئی جھونکا محسوس نہیں ہوتا۔ وہ اپنے جسم کو ہلا نہیں سکتا۔ خود کو بھی چھو نہیں سکتا۔ نہ ہی اس نے بیرونی دنیا کو دیکھا ہے، نہ ہی خود کو، نہ ہی کسی بھی شے کو محسوس کیا ہے۔ نہ ہی اس کے پاس کوئی یادداشت ہے۔ اسے کچھ بھی علم نہیں لیکن ایک چیز جس میں اسے کچھ بھی شک نہیں، یہ اس کا اپنا وجود ہے۔ اسے اپنے ہونے سے آگاہی ہے۔ نہ ہی وہ اپنے اعضا، اپنے ہاتھ پاؤں کی موجودگی کی تصدیق کر سکتا ہے، نہ کسی واقعے کی، نہ دنیا کی۔ لیکن اپنے ہونے کے بارے میں کسی شبے کی گنجائش بھی نہیں۔
تو پھر جس چیز کے ہونے کی وہ تصدیق کر رہا ہے، وہ اس کا جسم نہیں۔ وجود اور آگہی اس سے جدا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔
سترہویں صدی میں رینے ڈیکارٹ کے لازوال الفاظ Cogoti, ergo sum تھے۔ (میں سوچتا ہوں، اس لئے میں ہوں)۔ یہ ذہن اور جسم کے dualism کا آئیڈیا ہے۔ اور حیران کن حد تک ابنِ سینا کے دلائل سے بہت قریب مماثلت رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور مشہور یورپی فلسفی ڈیوڈ ہیوم کی فلسفانہ پوزیشن یہ تھی کہ ہم اپنا تمام علم صرف experience سے سیکھتے ہیں۔ اگرچہ دونوں میں 750 سال کا فرق تھا لیکن ان کی بحث ابنِ سینا سے ہوتی تو “معلق آدمی” کے تجربے کے سامنے ہیوم کو دفاع کرنا مشکل ہوتا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...