۱۲جولائی ۲۰۱۳ءکے ایک قومی اخبارمیں تازہ ترین کے سیکشن میں ایک خبر پڑھنے کو ملی۔اس کے مطابق امریکہ میںپاکستانی ڈاکٹروں کی تنظیم” اپنا“ کی سالانہ تقریب میں مشاعرہ کے دوسرے سیشن میں پاکستانی فلم سٹارریما کو نظامت کے لیے بلایا گیا تو ندا فاضلی اس بنا پر احتجاج کرتے ہوئے تقریب سے باہر چلے گئے کہ فلم سٹار سے مشاعرے کی نظامت کرانا شاعری کی بے قدری اور توہین ہے۔یہ خبر پڑھ کر دلی افسوس ہوا۔میں نے اس واقعہ کو کئی پہلوؤں سے دیکھااور ہر بار افسوس ہوا کہ ندا فاضلی جیسے اچھے بھلے شاعر نے بے جا احتجاج کیا۔
پہلی بات یہ ہے کہ ندا فاضلی ادبی شاعر کے ساتھ فلمی شاعر بھی ہیں۔فلمی دنیا میں بطور شاعر قدم جمانے کے لیے شروع میںانہیں کن مراحل سے گزرنا پڑا،ان سے بہتر کون جانتاہے ۔فلمی دنیا میں کسی بھی اچھے ہیرو اور ہیروئن کے مقابلہ میں ایک گیت کار کی کیا وقعت ہے؟ساحر لدھیانوی کے استثنا کے ساتھ ہمارے سارے فلمی شاعر اچھی طرح جانتے ہیں۔ندا فاضلی بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔سو کسی فلم سٹارکی میزبانی کا بہانہ کرکے اعتراض کرنا مناسب نہیں لگتا۔اب ادب کی دنیا کے حوالے سے اور خالص ادبی شاعر کے طور پر ندا فاضلی کے احتجاج کو دیکھا جائے تو اس میں بھی کوئی جان نہیں ہے۔متعدد ادبی و شعری تقریبات میں فنون لطیفہ کے کسی بھی دوسرے شعبے کے نامور اسٹارزکا آنا اور اس تقریب کی صدارت یا نظامت کرناکوئی غیر ادبی معاملہ نہیں ہے۔ایسی متعدد تقریبات کے حوالے دئیے جا سکتے ہیں جن میں شاعر نہ ہوتے ہوئے فن کے کسی دوسرے شعبہ کی شخصیت شاعروں کے سامنے زیادہ نمایاں ہوئی۔اس سلسلہ میں مجھے ضیا محی الدین کا نام تو بہت ہی نمایاں دکھائی دے رہا ہے۔اور مجھے یہ لکھتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو رہی کہ ضیا محی الدین کی شعر فہمی مشاعروں کے کئی شاعروں کی شعر فہمی سے کہیں بہتر دکھائی دیتی ہے۔پاکستان کے نامور فنکاروںمصطفی قریشی اورنعیم بخاری کا ادبی ذوق بھی بہت نکھرا ہوا ہے۔
اب ایک اور پہلو سے دیکھیے۔صرف نظامت کسی شاعر کے حوالے کرکے مشاعرہ میں یا تو بے وزن شعراءکو کلام پڑھنے دیا جائے یا ایسے شاعروں اور شاعرات سے کلام پڑھوایا جائے جو دوسروں سے پورے مجموعے لکھوا کر شاعر بنے بیٹھے ہوںتوکیا یہ مستحسن بات ہو گی؟۔افسوس ندا فاضلی نے بیرون ملک جو مشاعرے پڑھے ہیں ان میں سے کئی مشاعروں میں یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے۔ایسی ریڈی میڈ شاعرات کا پورا طائفہ ہندوستان سے دنیا بھر میں مشاعرے پڑھنے جاتا رہا ہے۔اور مشاعرے میں ایسی حرکات و سکنات کا مظاہرہ کرتا رہا ہے کہ بعض سنجیدہ ادیبوں کو ایسے مشاعروں کو مشاعرہ کی بجائے مجرا کے انداز میں مجرائیہ لکھنا پڑا۔یہ سب کچھ آن ریکارڈ ہے۔ندا فاضلی ایسے مشاعروں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔کسی معقول شاعر کی نظامت ہونے کے باوجود مشاعرے میں لوگ بے وزن شعر سنا رہے ہوں تو اس کا کیا کیا جائے؟۔کوئی اور نہیں خود ندا فاضلی ایک ملک میں مشاعرہ کی نظامت کررہے تھے اور وہاں کے تین شاعروں کو مشاعرہ میں شرکت کا موقعہ دیا گیاتھا۔ان تین میں سے دو بے وزن کلام سنا رہے تھے اور ندا فاضلی نے ان کے کلام سنانے کے بعد بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔بلکہ میزبان ہونے کی وجہ سے ان کی تعریف کرتے رہے۔(ثبوت مطلوب ہوا توسند کے ساتھ پیش کردوں گا)۔
انڈیا سے اگر دلیپ کمارسے لے کر شبانہ اعظمی تک کوئی فلم سٹار کسی مشاعرے یا ادبی تقریب کی صدارت یا نظامت کرے تو مجھے نہ صرف کوئی اعتراض نہیں ہو گا بلکہ خوشی ہو گی۔فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نامور افرادکے درمیان روابط خودفن و ادب کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ مشاعرہ کی نظامت کے لیے ریما کاکئی جہات سے حق بنتا ہے۔ریما پاکستان کی معروف و ممتاز فلم سٹار ہونے کے ساتھ میزبان تنظیم ” اپنا“ سے تعلق رکھنے والے ایک معزز ڈاکٹر کی اہلیہ بھی ہیں۔یوں وہ خود میزبان ہیں۔ایک عرصہ سے ریما ایک پاکستانی اخبار میں کالم نگاری کرتی رہی ہیں۔اس لحاظ سے صحافت سے ان کا تعلق بنتا ہے ۔اور ادب و صحافت کا تعلق تو شروع سے ساتھ ساتھ چلتا آرہا ہے۔ایسی صورت میں ہمارے ادبی و فلمی شاعر ندا فاضلی کا احتجاج نہ صرف بے جا ہے بلکہ اپنے میزبانوں کی توہین اور ایک لحاظ سے ہند پاک تعلق میں خرابی کی صورت پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ہند پاک تعلقات آج جس موڑ پر کھڑے ہیںایسے مرحلہ پر دونوں طرف کے فن کاروں کو زیادہ بڑے دل کااور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کی راہ میں حائل مشکلات کم ہو سکیں۔ ندا فاضلی اس معاملہ میں کوتاہی اور زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ادب کی دنیا سے تعلق رکھنے کے باعث مجھے ان کے طرزِ عمل سے دلی افسوس ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ ادب نامہ روزنامہ صبح ایبٹ آباد۔۸۱جولائی ۲۰۱۳ء
ادب سرائے روزنامہ آج پشاور۔۸۱جولائی ۲۰۱۳ء
روزنامہ دنیا لاہور۔۹۱جولائی ۲۰۱۳ء