ڈاکٹر آرم اسٹورنگ، راجر کو تسلی دے کر پھر ٹیرس میں آگیا۔ جہاں ایک طرف جج وار گریو کرسی پر آنکھیں موندے بیٹھا تھا اور دوسری طرف لمبورڈ اور بلور کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ ڈاکٹر کچھ سوچ کر لمبورڈ کی طرف بڑھا۔
’’لمبورڈ! تم تھوڑ ی دیر کے لیے میری بات سن سکتے ہو؟‘‘
لمبورڈ چونک گیا۔ ’’ضرور‘‘ اور وہ دونوں ٹیرس سے نکل کر ساحل کی طرف بڑھ گئے۔
’’مجھے تمہارا مشورہ چاہیے۔ مسز راجر کی موت کا جو حل بلور نے پیش کیا ہے تم اس کے بارے میں کیا کہتے ہو؟‘‘ ڈاکٹر نے اپنے برابر چلتے ہوئے لمبورڈ سے پوچھا۔
’’جیسا بلور کہہ رہا ہے ایسا ممکن تو ہے۔‘‘ لمبورڈ نے سر اثبات میں ہلایا۔ ’’ویسے ڈاکٹر تمہاری پیشہ ورانہ رائے میں راجر اور اس کی بیوی نے اپنی مالکن کو کیسے مارا ہوگا؟ زہر دے کر؟‘‘
’’نہیں اگر ان دونوں نے اپنی بوڑھی مالکن کو مارا ہے تو قتل کرنے کا ایک اور آسان طریقہ تھا۔ ان کے پاس مس بریڈی، ایک اس طرح کے دل کے مرض میں مبتلا تھیں جس میں دورہ پڑ تا ہے تو ایک مخصوص دوا دینا لازمی ہوتا ہے اور اگر وہ دوا نہ دی جائے تو مریض کی جان چلی جاتی ہے۔ میں نے راجر سے مس بریڈی کی بیماری کی تفصیل آج صبح ہی معلوم کی ہے۔ اس کو مارنے کے لیے صرف یہ کرنا ہوگا کہ اسے دوا نہ دی جائے اور کسی کو شک بھی نہیں ہوگا۔‘‘
’’اور اگر کسی کو پتہ بھی چل جائے تو وہ یہ جرم ثابت نہیں کر سکتا ہے نا؟‘‘ لمبورڈ نے سوچتے ہوئے کہا۔ اگلے ہی لمحہ وہ چونکا: ’’ارے! نیگر آئی لینڈ، راجر، جج وار گریو، بلور، ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ یہ بات تو صاف ظاہر ہے۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہو۔ کیا بات صاف ظاہر ہے؟‘‘ ڈاکٹر لمبورڈ کے قریب جھکا۔
’’میرا مطلب ہے۔۔۔ دیکھو ڈاکٹر! کچھ ایسے جرم بھی ہوتے ہیں جن کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ جیسے یہ راجر کا کیس یا جج وارگریو کا کیس جس نے قتل سختی سے قانون کی حد میں رہ کر کیا یا بلور جس کے مقتول کو کوئی بھی معصوم نہیں سمجھ سکتا۔ ایسے جرائم جنھیں عدالت صحیح ثابت نہیں کر سکتی ہے۔۔۔ نا ہی ان پر سزا دے سکتی ہے اور نیگر آئی لینڈ میں ایسے ہی مجرم جمع ہیں۔‘‘ لمبورڈ تیز تیز بول رہا تھا۔
’ہسپتال میں قتل۔۔۔ آپریشن ٹیبل پر قتل۔۔۔ اسے بھی کوئی ثابت نہیں کر سکتا۔۔۔‘ ڈاکٹر کے ذہن میں خیال ابھرا۔
’’چلو یہ بات تو پتا چل گئی کہ یہاں کون لوگ جمع ہیں۔ اب ہمیں یہاں جمع کر کے کیا کیا جائے گا؟ تمہار ا کیا خیال ہے ڈاکٹر؟‘‘ لمبورڈ اسی طرح تیز تیز بول رہا تھا۔
’’ابھی اسے چھوڑو۔‘‘ ڈاکٹر نے فوراً موضوع تبدیل کردیا۔ ’’مسز راجر کی موت پر واپس آؤ۔ تمہارا اپناکیا خیال ہے۔ اس نے خودکشی کی ہے یا راجر نے اسے مارا ہے؟‘‘
’’میرا جواب خودکشی کے حق میں ہوتا اگر کچھ ہی گھنٹوں پہلے انوتھی مارسٹن کی موت نا ہوئی ہوتی۔۔۔‘‘ لمبورڈ آہستگی سے بولا: ’’بارہ گھنٹوں میں دو دو خودکشیاں۔۔۔ یہ بات ہضم کرنا تھوڑا مشکل ہے۔‘‘ وہ رکا ۔ ’’اور ویسے بھی انوتھی مارسٹن جس طرح کا خطرناک زہر پی کر مرا ہے، میرا نہیں خیال کہ عام طور پر لوگ اسے اپنے کوٹ کی جیب میں لے کر گھومتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر نے اثبات میں سر ہلا یا: ’’صحیح کہہ رہے ہو۔ کوئی بھی عقل وشعور والا شخص وہ زہر اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ لیکن خودکشی کے علاوہ انوتھی کی موت کا کوئی اور حل کیا ہوسکتا ہے؟‘‘
’’وہی جو تم سوچ رہے ہو۔‘‘ لمبورڈ نے ہلکا سامسکرا کر ڈاکٹر کو دیکھا۔ ’’انوتھی مارسٹن کو قتل کیا گیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر نے سکون کا سانس لیا۔ ’’شکر خدا کا کہ صرف میں ہی یہ نہیں سوچ رہا۔ میں مارسٹن کی خودکشی پر مشکل سے یقین کر ہی لیتا آگر آج صبح مسز راجر کی موت نہ ہوئی ہوتی یا میں اس بات پر یقین کر لیتا کہ مسز راجر نے ڈر کر خودکشی کر لی ہے اگر کل رات مارسٹن نہ مرا ہوتا۔‘‘ یہ کہہ کر ڈاکٹر تھوڑی دیر کے لیے چپ ہوا پھر لمبورڈ کو کھانے کی میز پر رکھی کانچ کی گڑیوں کے غائب ہونے کا بتایا۔ لمبورڈ یہ سن کر چونکا پھر ایک دم سے گنگنایا۔
’’دس نیگرو بچے گھر سے نکلے، کھانے چلے کھانا۔
ایک کے گلے میں کچھ پھنس گیا باقی رہ گئے نو
نو نیگرو بچے رات کو دیر تک جاگے
ایک بچہ سوتا رہ گیا باقی رہ گئے آٹھ۔‘‘
لمبورڈ اورڈاکٹر نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
’’یہ سب اتنا زیادہ فٹ ہوتا ہے کہ یہ کوئی اتفاق نہیں ہوسکتا ہے۔‘‘ لمبورڈ نے ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’مارسٹن پھندا لگنے سے مرگیا۔ مسز راجر آج صبح سوتی رہ گیءں۔ اس سے یہ بات ثا بت ہوگئی ہے کہ یہاں اس جزیرے پر ہم دس لوگوں کے علاوہ کوئی گیارہواں پاگل بھی گھوم رہا ہے۔
’’لیکن راجر نے قسم کھا کر کہا ہے کہ یہاں کوئی اور نہیں۔‘‘
’’راجر کو غلط فہمی ہوئی ہوگی اور پھر یہ بھی تو دیکھو آج کشتی بھی نہیں آئی۔ نیگر آئی لینڈ کے اس پاگل اور خطر ناک مسٹر اوین نے یہ انتظام کرالیا ہے کہ جزیرے کا قصبہ سے بالکل رابطہ ختم ہوجائے تاکہ وہ اطمینان سے ہم سب کو مار سکے۔‘‘ لمبورڈ کی آواز اونچی ہوگئی۔
’’اُف میرے خدا۔‘‘ ڈاکٹر کا چہرہ سفید پڑگیا۔
’’لیکن ہم بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھیں گے۔ چلو آؤ۔ بلور کو لے کر اس جزیرے کی تلاشی لیتے ہیں اور اس مسٹر یو۔ این۔ اوین کو ڈھونڈ کر اس کی ساری چالاکی نکالتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر لمبورڈ تیز تیز قدم اٹھاتا بنگلے کی طرف بڑھ گیا۔
بلور کو جیسے ہی ساری صورت حال بتائی وہ بھی تیار ہوگیا۔ جزیرے کی تلاشی لینے کو۔ انہوں نے تھوڑی دیر بعد ہی جزیرے کا دورہ شروع کردیا۔ جزیرے پر درخت زیادہ نہ تھے اور ہر طرف ہی پتھروں یا ریت کے چھوٹے موٹے ٹیلے موجود تھے۔ وہ تینوں ہر جگہ کی بغور تلاشی لیتے ہوئے اس طرف آپہنچے، جہاں جرنل میکر تھور خاموش بیٹھا سمندر میں دور کہیں دیکھ رہا تھا۔ اس نے ان لوگو ں کے آنے کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ بلور نے گلا کھنکھارا اور جرنل کو متوجہ کرنے کے لیے بولا۔
’’ہیلو جرنل! یہ جگہ تو بڑی خوب صورت ہے۔‘‘
جرنل نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ اس کی تیوریوں پر بل پڑگئے۔
’’بہت کم وقت باقی ہے۔۔۔ بہت کم وقت۔۔۔ برائے مہربانی مجھے اس وقت بالکل پریشان نہ کیا جائے۔‘‘
’’سوری سر!‘‘ بلور ایک لمحے کے لیے گڑ بڑا گیا۔ ’’ہم لوگ بس اس جگہ کی تلاشی لے رہے ہیں۔‘‘
جرنل کی تیوریوں کے بل اور گہرے ہوگئے۔ وہ بولا: ’’تم نہیں سمجھتے۔۔۔ تم نہیں سمجھتے۔۔۔‘‘
پورے جزیرے کا کونا کونا چھان مارنے کے باوجود انہیں کہیں کوئی نہیں ملا۔ ساحل کے بالکل کنارے ابھری ایک اونچی پہاڑی کو بھی لمبورڈ نے چڑھ کر دیکھ لیا تھا۔
’’یہاں کچھ بھی نہیں۔‘‘ پہاڑی سے اتر کر لمبورڈ نے اپنی سانس بحا ل کر تے ہوئے کہا: ’’اب بنگلے کی تلاشی لے لیتے ہیں۔‘‘
نیگر آئی لینڈ پر بنا یہ بنگلہ جدید طرز کا تھا۔ اس میں کوئی خفیہ کمرے یا راہداریاں نہیں تھیں۔ اس لیے اس کی تلاشی لینے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔
’’یہ سیڑھیاں کہا ں جاتی ہیں؟ وہ لوگ نیچے سے اوپر آنے والی سیڑھیوں کے پاس کھڑے تھے جس کی دوسری طرف ایک نسبتاً چھوٹی سیڑھی تھی۔
’’اس سے نوکروں کے کمرے میں جاتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔
’’اچھا! ہم نے پورا جزیرہ چھان مارا۔۔۔ یہ گھر دیکھ۔۔۔‘‘ لمبورڈ بولتے بولتے ایک دم خاموش ہوگیا اور دھیان سے سننے لگا۔
’’کیا ہوا؟‘‘ بلور نے آہستہ آواز میں پوچھا۔ لمبورڈ نے جواباً ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔ اُوپر کی طرف کوئی بہت آرام سے چل رہا تھا۔ ہلکی ہلکی قدموں کی آواز آرہی تھی۔
’’وہ اوپر کے کمرے میں ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے بلور کا بازو زور سے پکڑلیا۔ ’’اس کمرے میں جہاں مسز راجر کی لاش ہے۔ بہترین چھپنے کی جگہ! کوئی بھی اس کمرے میں نہیں جائے گا۔‘‘ بلور نے بھی سر گوشی میں جواب دیا۔
’’چلو آؤ! بالکل خاموشی سے۔‘‘ لمبورڈ دبے پاؤں سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہی کمرے کا دروازہ بالکل سامنے تھا۔ وہاں واقعی کوئی موجود تھا۔ قدموں کی آواز واضح تھی۔
’’ایک۔ دو۔ تین‘‘ بلور نے سر گوشی کی اور دھڑام سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ اس کے پیچھے ہی وہ دونوں بھی کمرے میں گھس گئے لیکن سامنے موجود شخص کو دیکھ کر جس تیزی سے وہ لوگ آئے تھے اسی تیزی سے رک گئے۔
راجر کمرے میں بنی الماری کے سامنے کھڑا کپڑے ہاتھوں میں لیے حیرانی سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
لمبورڈ نے سب سے پہلے اپنے حوا س بحال کیے: ’’سوری۔۔۔ را۔۔۔ راجر ہمیں کسی کے چلنے کی آواز آئی تھی۔۔۔ اوپر‘‘
’’سر! آپ لو گوں کی پریشانی کے لیے معافی چاہتا ہوں لیکن میں اپنی چیزیں لے کر سب سے نیچے والے کمرے میں شفٹ ہورہا ہوں کیوں کہ میں یہاں نہیں رہ سکتا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے بستر پر رکھی ہوئی مسز راجر کی لاش کو دیکھا۔
’’ہاں۔۔۔ ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔!‘‘ ڈاکٹر نے ہمدردانہ انداز میں کہا۔
’’شکریہ سر!‘‘ یہ کہتے ہوئے راجر نے اپنے کپڑے اٹھائے اور نیچے چلاگیا۔
’’حد ہوتی ہے۔‘‘ بلور نے راجر کے نکلتے ہی جھنجھلا کر کہا: ’’کہیں کوئی بھی نہیں ہے۔‘‘
وہ تینوں مسز راجر کے بے جان لاشے کے پاس کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ ایک بات کا ان سب کو پورا یقین ہوگیا تھا۔ نیگر آئی لینڈ پر ۸ زندہ اور ۲ مرے ہوئے لوگوں کے علاوہ کوئی بھی موجود نہ تھا۔۔۔ کوئی بھی نہیں۔۔۔
’’تو ہم غلط نکلے۔۔۔ اگر دو لوگ اتفاق سے یہاں آکر مر بھی گئے تو ہم ان کی موت کے نجانے کیا کیا نتائج نکال لیتے ہیں۔‘‘ لمبورڈ بری طرح جھنجھلا گیا تھا۔
’’دیکھو کیپٹن! میں ایک ڈاکٹر ہوں۔ انوتھی مارسٹن خودکشی نہیں کر سکتا۔ اس بات کا مجھے یقین ہے کہ یہ سب اتفاق نہیں۔‘‘ ڈاکٹر آرم اسٹورنگ نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
’’کیا حادثاتی طور پر ایسا نہیں ہوسکتا؟‘‘
’’انوتھی مارسٹن کا تو معلوم نہیں لیکن مسز راجر کے کیس میں حادثہ کے امکانات ہیں۔‘‘ بلور ڈاکٹر کو دیکھتے ہوئے بولا۔
’’کیسے؟‘‘
’’دیکھو ڈاکٹر!‘‘ بلور کا چہرہ ہلکا سا سرخ ہوگیا۔ ’’تم نے مسز راجر کو نیند کی کوئی دوا دی تھی نا۔‘‘
’’ہاں دی تھی۔ تو؟‘‘ ڈاکٹر نے حیرانی سے جواب دیا۔
’’تو۔۔۔‘‘ بلور تھوڑا ہچکچایا۔ ’’تو ہوسکتا ہے تم نے وہ دوا زیادہ مقدار میں دے دی ہو۔‘‘
’’میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔‘‘ ڈاکٹر غصے کے مارے کانپ گیا۔ ’’یا تمہارے خیال میں، میں نے جان بوجھ کر ایسا کیا۔‘‘
لمبورڈ جلدی سے آگے بڑھا۔ ’’تم دونوں ایسے حالات میں ایک دوسرے کے اوپر الزام لگانے سے گریز کرو۔۔۔‘‘
’’میں نے تو صرف یہ کہا ہے کہ ڈاکٹر سے غلطی ہوسکتی ہے۔‘‘ لمبورڈ کی بات کاٹ کر بلور تیز لہجے میں بولا۔
’’ڈاکٹر ایسی غلطیاں برداشت نہیں کرسکتے مسٹر بلور!‘‘ ڈاکٹر نے چبا چبا کر کہا۔
’’خیر اگر تم سے غلطی ہوئی بھی ہے تو تم نے ایسا پہلی بار نہیں کیا ہوگا۔ اس کیسٹ کے مطابق ایسی ہی حرکت تم پہلے بھی کرچکے ہو۔‘‘ بلور نے بلند آواز میں جواب دیا جسے سن کر آرم اسٹورنگ کا چہرہ سفید پڑگیا۔
’’خدا کے واسطے بلور۔‘‘ لمبورڈ نے غصے سے مداخلت کی۔ ’’فضول باتیں کرنا بند کرو۔ اس وقت ہم سب ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں تو ایسے غصہ دلانے والی باتیں نہ کرو۔‘‘
بلور اس تیزی سے لمبورڈ کی طرف بڑھا کہ وہ دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
’’ہاں! ہاں کیپٹن تم صحیح کہہ رہے ہو لیکن تمہاری اطلاع کے لیے عرض ہے، مجھے تمہارے اوپر بھی بالکل اعتبار نہیں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے جھپٹ کر لمبورڈ کے کوٹ کی اندر ونی جیب سے ایک پسٹل برآمد کرلی۔
’’یہ۔۔۔ یہ کیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر آرم اسٹورنگ بھی چونک کر آگے بڑھا۔
لمبورڈ ایک دم زور سے ہنس پڑا: ’’تمہیں پتہ ہے بلور۔۔۔ جتنے بیوقوف تم لگتے ہو اتنے اصل میں ہو نہیں۔‘‘
’’اس کی وضاحت کرو؟‘‘ بلور نے غرا کر پسٹل لہرائی۔
’’شاید اب اصل بات بتانے کا وقت آگیا ہے۔‘‘ لمبورڈ دوبارہ سنجیدہ ہوگیا۔ ’’تو سنو! کچھ دنوں پہلے ایک ایجنٹ مورس نے مجھ سے رابطہ کیا۔ اس کو کام کے لیے مسٹر اوین نے کہا تھا۔ مسٹر اوین نے مجھے یہ پیغام بھجوانا تھا کہ اس جزیرے پر کوئی گڑبڑ ہونے والی ہے۔ مجھے یہاں آکر اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہیں اور ہر چیز کے لیے ہوشیار رہنا ہوگا۔ مجھے پسٹل لانے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔ بس اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا تھا۔ یہاں آکر مجھے مزید ہدایت ملنی تھیں۔ اس سب کے بدلے میں مجھے کافی معقول رقم دی گئی تھی۔‘‘
’تو تم نے یہ سب ہمیں کل رات ہی کیوں نہیں بتایا تھا۔‘‘ بلور نے ناسمجھنے والے انداز میں کہا۔
’’بلور عقل سے کام لو۔ مجھے یہاں کی گڑبڑ سے نمٹنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ کل رات جو کچھ ہوا۔ اس کے بارے میں مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ وہ معاملہ نہیں ہے۔‘‘
’’تو تم اب یہ سب کیوں بتارہے ہو؟‘‘ ڈاکٹر آرم اسٹورنگ نے اسے غور سے دیکھا۔
’’کیونکہ اب حالات بدل گئے ہیں۔‘‘ لمبورڈ کا چہرہ سیاہ پڑگیا۔ ’’ایک شکاری نے اس جزیرے کی شکل میں اپنا حال بچھایا ہے اور ہم سب اس کے شکار ہیں۔ بے خبری میں اس کے جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ انوتھی مارسٹن اور مسز راجر کی موت۔۔۔ کھانے کی میز پر سے ان مورتیوں کا غائب ہونا۔ ان سب میں اسی شاطر شکاری مسٹر اوین کا ہاتھ ہے لیکن آخر وہ ہے کہاں؟‘‘
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...