یہ میری پہلی نوکری تھی۔ اور دفتر میں حاضری کا پہلا دن تھا۔ دفتر میں داخل ہوتے ہی چھوٹے سے صحن کے ساتھ ایک لمبا برآمدہ شروع ہوتا تھا۔ میں سہمے سہمے انداز میں جب دفتر میں داخل ہوا تو برآمدے کے آخری کونے تک پہنچتے ہی ایک نادر الوجود شخصیت پر نظر پڑی۔ درمیانہ قد، جسم پتلا، سر اور مونچھیں سرخ مہندی سے رنگی ہوئی، رنگ تھوڑا سفید لیکن سرخ مہندی کے شیڈ نے اسے تانبا بنا رکھا تھا۔ وہ چھوٹے صاحب کے کمرے کے باہر ایک میز پر ڈھیر سارے خط اور لفافے رکھے، انہیں گوند سے بند کر کے ان پرسرکاری ٹکٹیں زبان پر رگڑ کر تھوک سے چسپاں کر رہا تھا۔ اس فلسفے کی وضاحت چند دن بعد خود اس نے کی۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’ٹکٹوں کی پشت پر پہلے ہی گوند لگی ہوتی ہے پھر مزید گوند ضائع کرنے کا فائدہ؟ بچت کرنا چاہئے۔ پاکستان پہلے ہی غریب ملک ہے۔‘‘ اگلے دو چار روز میں ہی پتہ چل گیا کہ یہ فقرہ اس کا تکیہ کلام تھا۔ جو وہ اکثر گفتگو میں استعمال کرتا تھا۔
تو یہ میرا دفتر میں پہلا دن تھا۔ برآمدے کے آخر میں ہیڈ کلرک صاحب کا کمرہ تھا۔ ان کے ذریعے بڑے صاحب کے سامنے پیشی ہوئی۔ وہ اس وقت سگریٹ کے کش ایسے لگا رہے تھے جیسے چاندنی رات میں نہر کنارے بیٹھا کوئی فلسفی کائنات کے اسرارورموز پر غور کر رہا ہو۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میری غیر متوقع آمد اور مداخلت سے ان کے خودساختہ تخیلات میں ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔ فوراً بولے ’’یہ تمہاری پہلی نوکری ہے۔ دھیان سے کام کرنا، شکایت کا موقع نہ ملے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی میری ’’آمد رپورٹ‘‘ پر تیزی سے چند لکیریں کھینچیں اور ہاتھ سے کمرے سے نکل جانے کا اشارہ کیا۔ اس موقع پر مجھے وہ دلہن یاد آ گئی۔ جسے رخصتی کے وقت اس کا باپ بآواز بلند یہ کہہ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتا ہے ’’سب کو خوش رکھنا۔ شکایت کا موقع نہ ملے‘‘۔ اور دلہن روتے پیٹے یا ہنستے کھیلتے اپنے سسرال روانہ ہو جاتی ہے۔ ہیڈ کلرک صاحب مجھے بازو سے پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گئے۔ اور اپنے ساتھ والی میز میرے نام کر دی۔ اس پر ایک پرانا ٹائپ رائٹر رکھا ہوا تھا۔ میز کے دائیں طرف دو دراز بھی تھے۔ کمرے میں ایک ہی چھت والا پنکھا تھا۔ جس کا زیادہ تر حصہ ہیڈ کلرک صاحب کی طرف تھا۔ وہ بھی نیم دلی سے ایسے جھول رہا تھا گویا اسے ہوا کے لئے نہیں بلکہ کسی اہلکار کی خودکشی کے لئے لٹکنے پر مجبور کیا گیا ہو۔ میں نے اپنے ذاتی کاغذات، جو گھر سے لے کر آیا تھا، رکھنے کے لئے دراز کھول کر دیکھے۔ نیچے والا دراز بالکل خالی تھا۔ جبکہ اوپر والے دراز میں ایک پڑیا رکھی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا کسی کلرک بادشاہ نے امرود کھانے کے لئے نمک رکھا ہو گا۔ پڑیا کو کھولا تو جو نظر آیا میرے لئے بالکل ہی غیر متوقع تھا۔
پڑیا میں پورے چار لمبے اور توانا لال بیگ تھے۔ تین کا غالباً دم گھٹنے سے دیہانت ہو چکا تھا۔ جبکہ چوتھا نیم مردہ حالت میں اپنی اگلی دونوں ٹانگیں ہلا ہلا کر اعلان کر رہا تھا ’’اک ستم اور میری جاں، ابھی جاں باقی ہے‘‘۔ ابھی میں حیرت اور غصے کے سمندر میں چھلانگ لگانے ہی والا تھا کہ کانوں میں ہیڈ کلرک صاحب کے دبے دبے قہقہے کی آواز سنائی دی۔ میں نے ان کی طرف دیکھا۔ وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھے اپنی ہنسی کا گلا گھونٹنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ میں یہی سمجھا شاید یہ دفتر میں پہلے دن کے استقبال کے مذاق کا ہی حصہ ہو۔ میں نے بھی اپنی خفت اور غصہ دباتے ہوئے یوں مسکرانے کی کوشش کی جیسے چارلی چپلن اپنی اکثر فلموں میں اپنے بے عزتی کو دانت نکال کر ہضم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
میں نے پڑیا سمیت چاروں لال بیگ کمرے سے باہر برآمدے میں پھینک دئے۔ مگر وہ برآمدے میں پڑے پیڈسٹل فین کی زد میں آ کر مہندی والی تانبا شخصیت کے میز کے عین اوپر جا گرے۔ جوان کی نظروں کے راڈار پر فوراً آ گئے۔ غصے سے ان کا چہرا مزید تانبا ہو گیا۔ ایک ہاتھ میں قینچی اور دوسرے میں بڑا خاکی لفافہ، جسے وہ مختلف حصوں میں کاٹنے والے تھے، اٹھائے میری میز کے سامنے آ کر رک گئے۔ ہیڈ کلر صاحب کو اس خطرے کا پہلے ہی علم ہو چکا تھا۔ کہ میں نے دشمن کے علاقے میں جو بم پھینکے ہیں۔ اس کے رد عمل میں دشمن کی توپ کا منہ بھی کھلے گا۔ انہوں نے یکدم کرسی سمیت منہ دوسری طرف کر کے لیجر بک کی یوں ورق گردانی شروع کر دی جیسے انہیں کچھ علم ہی نہ ہو۔ اب دشمن کے سامنے صرف ایک ٹارگٹ یعنی میں بقلم خود رہ گیا تھا۔ ساتھ والے کمرے سے دو تین بابو بھی آ کر ہمارے کمرے کے باہر کھڑے ہو گئے۔ ان کے چہروں پر بھی معنی خیز مسکراہٹ تھی۔
’’یہ تم نے پھینکے ہیں‘‘ ، تانبا شخصیت بولی۔
’’جی کسی نے اس دراز میں پہلے ہی رکھے ہوئے تھے‘‘۔ میں حالات کی نزاکت سے بے خبر تھا۔
’’جی چاہتا ہے تمہاری گردن مروڑ دوں‘‘۔ وہ بولے۔ ہیڈ کلرک صاحب جو منہ دوسری طرف کئے ہنسی دبائے بیٹھے تھے، انہوں نے کرسی اور اپنا رخ ہماری طرف کیا۔ اور تانبا شخصیت کو دیکھ کر بے اختیار قہقہہ نکل گیا۔
’’میں بعد میں دیکھ لوں گا۔ آج اس کا پہلا دن ہے۔ آج معافی‘‘ یہ تنبیہ کرتے ہوئے وہ اپنے میز پر جا بیٹھے۔ کمرے کے باہر بابو لوگ تماشہ دیکھنے آئے تھے۔ پر تماشہ نہ ہوا۔ کھل کھلا کر ہنستے ہوئے اپنی اپنی سیٹوں پر جا کر بیٹھ گئے۔ اس وقت تک میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ بابوؤں کے کمرے سے ایک اور بزرگ ٹائپ نادر شخصیت برآمد ہوئی۔ اس نے برآمدے میں پڑے بنچ سے اخبار اٹھایا۔ اور ان چاروں لاشوں کو اس پرانی اخبار پر لاد کر برآمدے سے باہر پھینکا اور آ کر میری میز کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ ہنستے ہوئے سلام کیا۔ پیار سے ہاتھ ملایا اور ہنستے ہوئے بولا ’’یہ بم آپ نے پھینکے تھے؟‘‘ اور جواب کا انتظار کئے بغیر کمرے سے باہر نکل گیا۔ میرے لئے یہ مسئلہ بہت گھمبیر ہوتا جا رہا تھا۔
جب دیکھا کہ مطلع صاف ہو چکا ہے اور سب اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ تو میں نے ہیڈ کلرک صاحب سے پوچھا یہ سارا معاملہ کیا ہے۔ ہیڈ کلرک صاحب شاید ابھی تک اسی بات کے منتظر تھے کہ میں ان سے کچھ پوچھوں۔ میرے سوال پر انہوں نے اپنے سامنے کھلی فائل سے سر اٹھایا اور عینک کے اوپر سے جھانکتے ہوئے۔ قہقہہ لگانے کی کوشش کی مگر قہقہہ پوری طرح نکلا نہیں۔ جس طرح کسی بوڑھے کے گلے میں بلغم اٹک جاتی ہے۔ تھوڑی دیر مجھے تکتے رہے، پھر باہر نظر دوڑائی۔ اور دھیمی آواز میں بولے ’’برخوردار۔ ابھی چپکے بیٹھے رہو۔ تمہیں خود پتہ چل جائے گا‘‘۔ اگلے دو چار دن میں محتاط ہو گیا۔ اور دفتر کے ماحول کو سمجھنے کے لئے خود کھوج کاری کرتا رہا۔ اس دوران اگر مجھے کہیں لال بیگ پڑا ہوا یا رینگتا نظر آتا تو دل ہی دل میں اسے سلام پیش کر کے اپنی سیٹ پر آ بیٹھتا۔
میری چند روزہ تحقیق کے مطابق تانبا مارکہ شخصیت کا نام اس کی والدہ محترمہ نے بعد از مشورہ اس کے ابا جان ’’محمد لال‘‘ رکھا تھا۔ جو خاندانی سابقوں اور لاحقوں کے اضافے کے ساتھ ’’مرزا محمد لال بیگ‘‘ ہو گیا۔ پھر جوں جوں مرزا محمد لال بیگ جوان ہوتا گیا، پتھر کی طرح لڑھکتے لڑھکتے گول ہو کر صرف ’’لال بیگ‘‘ رہ گیا۔ نام رکھائی کے وقت تو اماں جان کو بھی پتہ نہیں تھا کہ اس نام کی وجہ سے اس کے چکنے چکنے پات کو آئندہ زندگی میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے اس دور میں گھروں میں لال بیگ نہ پائے جاتے ہوں۔ یا گاؤں میں اس جیسے حشرات کی پہچان کے لئے کوئی اور نام دیا گیا ہو۔ یہ تو شہر کی کرامات تھی کہ یہاں باورچی خانوں، غسلخانوں اور سٹور روم میں چیونٹیوں اور مکوڑوں کے ساتھ لال بیگ نام کی مخلوق بھی وافر تعداد میں پائی جاتی ہے۔
مرزا لال بیگ دفتر میں بطور قاصد بھرتی ہوئے۔ ان کا کام دفتر میں آنے والی ڈاک کو احتیاط سے کھولنا اور متعلقہ فائلوں میں رکھ کر ہیڈ کلرک صاحب کی خدمت میں پیش کرنا جبکہ دفتر سے جانے والی ڈاک کو دھیان سے لفافوں میں بند کر کے قریب ہی واقع ڈاک خانے میں دے آنا تھا۔ پہلے پہل تو ان کے مہندی رنگے سرخ بالوں اور تانبے جیسی رنگت پر کسی نے دھیان نہ دیا۔ مشہوری تو اس وقت ہوئی جب دفتر کے ایک سینئیر کلرک سرور کا بیٹا کالج سے گھر جانے کی بجائے دفتر آ گیا۔ اس کی نظر جب مرزا محمد لال بیگ پر پڑی تو اس نے اپنے باپ کے کان میں کچھ کھُسر پھُسر کی۔ جس کے فوراًبعدسرور پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ دوسروں کے زبردست استفسار کے باوجود اس نے صرف اتنا کہا ’’کل بتاؤں گا‘‘۔ اور بیٹے کے ساتھ چلا گیا۔ یہاں یہ بتانا از حد ضروری ہے کہ بابو سرور اور مرزا لال بیگ میں کچھ عرصہ سے کھٹ پٹ چلی آ رہی تھی۔ بابو سرور کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھا کہ مرزا لال بیگ کی جی بھر کر بے عزتی بھی کرے اور اس پر جوابی وار بھی نہ ہو۔
دوسرے دن دفتر کے کچھ لوگ بابو سرور کا انتظار کر رہے تھے۔ اس دن وہ لیٹ آیا تو اس کا چہرہ فتح مندی کے احساس سے یوں چمک رہا تھا جیسے اسے امریکہ میں سفیر تعینات کر دیا گیا ہو۔ اس کے ہاتھ میں ایک خاکی لفافہ تھا۔ بس سارا راز اس لفافے میں تھا۔ حالات اور بابو سرور کی سازش سے بے خبر مرزا لال بیگ اس وقت اپنی میز پر بیٹھا ڈاک کو بنانے سنوارنے میں مصروف تھا۔ بابو سرور نے بابوؤں کے کمرے میں داخل ہونے سے قبل دروازے کی دہلیز پر ہاتھ میں پکڑے خاکی لفافے کو الٹا۔ اس میں سے دو تین لال بیگ تیزی سے نکلے۔ ان میں سے ایک تیزی سے دروازے کی درز میں پناہ لینے میں کامیاب ہو گیا۔ جبکہ دو مرزا لال بیگ کی میز کی طرف دوڑے۔ سرور نے جلدی سے جوتی اٹھائی اور ’’تیرے لال بیگ دی ماںنوں ۔۔۔۔۔‘‘ وہ بھاگتے ہوئے لال بیگ پر جوتے بھی برسا رہا تھا اور گالیاں بھی دے رہا تھا۔ مرزا لال بیگ ہکا بکا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ باقی اہل کار بابو سرور کی اس ذہانت پر عش عش کرنے کے ساتھ قہقہے لگا نے لگے۔ مرزا لال بیگ کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ سرور کا اصل ہدف کون ہے۔ اور وہ کس لال بیگ کی ماں بہن ایک کر رہا ہے۔ لیکن اس وقت وہ جوابی حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھا۔
اس واقعے کے بعد دفتر میں لال بیگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ہر دوسرے تیسرے دن کبھی کسی ایک دراز سے لال بیگ برآمد ہوتے تو کبھی فرش پر رینگتے نظر آتے۔ سرور ہاتھ میں جوتی پکڑے ان کی خبر گیری کرتا نظر آتا۔ مرزا لال بیگ بھی کچھ دن اس بے حرمتی کا بدلہ لینے کا سوچتا رہا۔ ایک دن وہ کہیں سے شاپر میں مرا ہوا چوہا دفتر لے آیا اور عین بابوؤں کے کمرے کے سامنے رکھ کر دل کی بھڑاس نکالنے لگا۔ ’’ہت تیرے چوہے کی ماں کو۔۔۔۔‘‘۔ مگرکسی نے دھیان ہی نہ دیا۔ یوں وہ بات نہ بنی۔ جو مرزا لال بیگ اور سرور کے لال بیگ میں تھی۔ چوہا مریل سا تھا جبکہ بابو سرور فربہ جسم کا مالک تھا۔ مرزا لال بیگ کو اپنی توپ کے ’’مس فائر‘‘ ہونے کا قلق ہوا مگر وہ کیا کر سکتا تھا۔ مرزا صاحب کی رنگت لال بیگ سے ملتی جلتی تھی مگر چوہا کسی بھی طور سرور یا کسی بابو سے میل نہیں کھاتا تھا۔
ان تمام رنجشوں، دلی کدورتوں، چھوٹی موٹی جھڑپوں کے باوجود مرزا لال بیگ سادہ دل اور شریف آدمی تھا۔ اپنے کام سے کام رکھتا۔ دفتر میں سروری لال بیگوں کے آمد کے بعد تو اس نے کسی سے مذاق کرنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ جب اسے پکا یقین ہو گیا کہ دفتر میں حاضری کے پہلے دن جو میری دراز سے لال بیگ نکلے تھے ان میں میری کوئی سازش، غلطی یا کوتاہی شامل نہ تھی تووہ مجھے اپنا ہمدرد اور دوست سمجھنے لگا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ نہ میں کسی سے مذاق کرتا تھا اور نہ کسی دوسرے کے مذاق کا حصہ بنتا تھا۔ دفتر میں سب اسے لال بیگ ہی کہہ کر پکارتے، مگر میں اسے ’’مرزا جی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا۔ وہ جب بھی اپنے دفتری کام سے فارغ ہوتا تو میرے پاس آ بیٹھتا۔ اور مذہب، ملکی سیاست، گاؤں کی چودہراہٹوں، پنچائتی فیصلوں پر ایسے تبصرہ کرتا جیسے سب لوگ اس کے مشورے کے محتاج ہوں۔ اس میں ایک سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ وہ منہ پھٹ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اسے جھوٹ سے نفرت ہے۔ اسی لئے وہ منہ پرسچ بات کہنا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اس کی سچ گوئی سے کئی دفعہ دفتری ماحول میں بدمزگی بھی پیدا ہوئی۔ بابو سرور کے ساتھ اس کی ان بن اسی سچ گوئی کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔
بابو سرور کی عادت تھی کہ جب بھی دفتر میں کوئی خاتون تشریف لاتیں، اس کی خواہش ہوتی کہ وہ اسی کے پاس آ کر بیٹھے، اس سے باتیں کریں۔ وہ خاتون کو زیادہ دیر تک اپنے پاس بٹھائے رکھنے کے لئے ایک تو اسے اپنے ساتھ والی کرسی پر بٹھاتا دوسری اس کے لئے چائے یا مشروب بھی منگواتا۔ سرور ایک ماہر نفسیات کی طرح گفتگو کے دوران بات کر گھما پھرا کر اپنے مطلب کے موضوع پر لے آتا۔ جہاں سمجھتا کہ خاتون بیزاری کا اظہار کر رہی ہے فوراً پینترا بدل کر دوسرے، تیسرے، چوتھے موضوع پر آ جاتا۔
ایک دن دفتر میں ایک خاتون کسی کام کے سلسلے میں تشریف لائیں۔ اور سیدھا بابوؤں کے کمرے میں چلی گئیں۔ حسب عادت اور حسب منشا سرور نے اسے ساتھ والی کرسی پر بٹھایا، اس کے لئے بوتل منگوائی اور باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو شروع کر دی۔ مرزا لال بیگ گزشتہ چند دن سے تہیہ کئے ہوئے تھا کہ اب کی بار وہ اسی بہانے سرورکو ذلیل کرے گا۔ مرزا لال بیگ نے جب دیکھا کہ سرور اور خاتون کے درمیان مذاکرات میں گرمجوشی پیدا ہو گئی ہے تو وہ اپنی کرسی سے اٹھا اور غیر محرم عورتوں کے ساتھ بے تکلفانہ گفتگو کے خلاف اسلامی لیکچر دینا شروع کر دیا۔ ’’ایسی عورتوں اور مردوں کی وجہ سے ملک سے برکت ختم ہوتی جار رہی ہے۔ پاکستان تو پہلے ہی غریب ملک ہے‘‘۔ سرور نے اس اسلامی تبلیغی حملے کے بارے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ دوسری طرف خاتون نے سمجھا شاید یہ حملہ براہ راست اسی پر ہو رہا ہے۔ اس بے چاری نے بوتل سے ابھی ایک چسکی ہی لی تھی۔ دل پر جبر اور صبر کرتے ہوئے اس نے بوتل کو وہیں میز پر رکھا اور لال بیگ کو کھا جانے والی نظروں سے گھورتی ہوئی اٹھ کر چلی گئی۔ سرور کا بس چلتا تو وہ بوتل اٹھا کر لال بیگ کے سر پر دے مارتا۔ اس وقت تو وہ خاموش رہا لیکن دل ہی دل میں اپنی بھڑاس نکالنے کے منصوبے پر غور کرنے لگا۔ اس دن سے دونوں کے درمیان کشیدگی مزید بڑھتی گئی۔ جودوسرے تیسرے دن ہلکی پھلکی گالیوں کی صورت میں اپنی سنگینی کا احساس دلاتی رہتی۔
مرزا لال بیگ کی زندگی مختلف انکشافات سے بھری پڑی تھی۔ اس کے دماغ کے خلیوں میں ایسے ایسے انکشافات جنم لیتے رہتے کہ عام سننے والا اسے وقت کا ولی نہیں تو ارسطو کے پائے کا فلسفی ضرورسمجھنے لگتا۔ ہر ہفتے عشرے کے بعد ایک نیا انکشاف کرتا۔ اسے اپنی بات پر اتنا یقین کامل ہوتا کہ اگر کوئی اس کے کسی انکشاف پر تمسخر اڑاتا تووہ ذرا بھی برا محسوس نہ کرتا۔ بلکہ کہتا ’’ابھی تمہارا دماغ اس قابل نہیں ہوا کہ میری بات سمجھ سکے‘‘۔
ایک دن روزمرہ ڈاک سے فارغ ہو کر مرزا لال بیگ میرے پاس آ بیٹھا۔ مجھے محسوس ہو گیا کہ کوئی بڑا انکشاف ہونے والا ہے۔ وہ کافی دیر سے منتظر تھا کہ میں دفتر کے کام سے جلد فارغ ہو کر تسلی سے اس کی بات سنوں۔ کہنے لگا:
’’مجھے پتہ چل گیا ہے پانی سے بجلی کیسے نکالتے ہیں‘‘۔ اس نے ’’بجلی نکالنے‘‘ پر اتنا زور دیا کہ حیرت سے میرا منہ کھل گیا۔ میں نے پوچھا ’’تم نے کہاں اور کس کو پانی سے بجلی نکالتے دیکھا ہے‘‘۔
’’میں کل ایک شادی پر ایک گاؤں گیا تھا۔ اس کے قریب نہر پر بجلی گھر بھی تھا۔ میں وہاں گیا۔ کیا دیکھا کہ نہر پر ایک پل سا بنایا گیا ہے جس کے نیچے مشینیں لگی ہوئی ہیں۔ پل کے اس طرف جہاں سے نہر کا پانی آ رہا ہے وہاں پانی کی سطح اونچی ہے، جب پانی سے مشینیں بجلی نکال لیتی ہیں تو دوسری طرف پانی کی سطح نیچی ہو جاتی ہے۔‘‘ میں نے مرزا لال بیگ کی اس منطق پر اسے داد دی۔ اس نے پانی سے بجلی نکالنے کا مشاہدہ بڑے غور اور دانشمندی سے کیا تھا۔ میں نے اس کی معلومات کی بھرپور تائید کرتے ہوئے ان میں اضافہ کرنا چاہا:
’’مرزا جی آپ کو پتہ ہے کہ جس پانی سے بجلی نکال لی جاتی ہے وہ پینے کے قابل نہیں رہتا‘‘۔
’’اچھا جی؟۔ ، پاکستان تو پہلے ہی غریب ہے۔‘‘
’’مرزا جی۔ پانی میں بجلی ہی تو انسان کے جسم میں طاقت پیدا کرتی ہے۔ اب جس پانی سے بجلی ہی نکال لی جائے۔ اس میں طاقت کہاں رہتی ہے۔ بلکہ الٹا نقصان کرتا ہے‘‘۔
’’اچھا جی؟‘‘۔ مرزا لال بیگ حیرانی سے میرا منہ دیکھنے لگا۔
’’مرزا جی۔ پھر یہ بجلی نکلا ہوا پانی جن کھیتوں میں جاتا ہے وہاں کی سبزی اور اجناس میں ٹڈیوں اور سنڈیوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت ہی نہیں ہوتی۔ اسی لئے تو ایسی سبزیاں کھا کھا کر لوگ صحت مند ہونے کی بجائے بیمار ہو رہے ہیں‘‘۔
مرزا لال بیگ کی آنکھوں میں پیدا ہونے والی چمک زیرو کے بلب سے سو واٹ کے بلب کی روشنی تک جا پہنچی تھی۔
’’اور سنو مرزا جی۔ جو گوالے اور دودھ فروش ان بجلی نکلی نہروں کا پانی ملاتے ہیں وہ دودھ پی کر بچے کمزور ہوتے جا رہے ہیں، ان کی ہڈیاں دس کلو کا بستہ بھی نہیں اٹھا سکتیں‘‘۔
اس سے پہلے کہ مرزا لال بیگ کے دماغ کا بلب بھک سے پھٹ جاتا، بڑے صاحب کے کمرے کی گھنٹی بجی اور ہماری جوابی انکشافی گفتگو درمیان میں ہی ختم کرنا پڑی۔ لیکن اس کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ اس دن کے بعد سے مرزا لال بیگ کی نظروں میں میری عقلمندی اور دانش پر مہر لگ گئی۔
( سہ ماہی ارمغان ابتسام۔ اکتوبر۔ دسمبر 2017)
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...