جب وہ مَرا تو ہم سب ساتھیوں نے مِل کر قبرستان میں اس کے لئے جگہ تلاش کی۔ کیونکہ اس کی خواہش تھی کہ قبرستان کے اُس حصّہ میں اُسے دفنایا جائے جہاں اُس کی محبُوبہ زرینہ دفن تھی۔
اپنی محبُوبہ کی خودکشی کے بعد وہ بڑا مغموم سا رہنے لگا تھا۔ اُداس کھویا کھویا لیکن اس کی محبوبہ کی خود کشی آج تک ایک راز بنی ہوئی ہے۔ لیکن ظفر خود اس بات پر حیران تھا کہ زرینہ نے کیوں خود کشی کی جبکہ وہ اس کے لئے اُن کئی خوبصورت لڑکیوں کو ٹھُکرا چکا تھا جو اُسے پانے کے لئے ہمہ وقت بے چین رہتی تھیں۔
محمود نے کہا: ’ ظفر کو پہچاننا بہت مشکل ہے وہ بڑا پیچیدہ انسان ہے اپنے چہرے پر نقاب ڈالے پھرتا ہے ، ضرور اُس نے اُس کے ساتھ بے وفائی کی ہو گی۔‘
خاور نے کہا : ’ مگر اس کے پہلو میں دفن ہونے کی شدید خواہش اس بات کی دلیل ہے کہ زرینہ ہی اُس کے لئے سب کچھ تھی۔
مُجیب چُپ تھا۔ اُس کے چہرے پر اُداسی منڈلا رہی تھی۔
’ یار ، یہ تو کچھ بھی نہیں کہتا۔ کیا سارا غم اسی کمبخت نے پی لیا ہے اور تَلچھٹ ہمارے لئے چھوڑ دی ہے۔ اس نے ظفر سے ایسی محبت بھی تو نہ کی۔ وہ تو سَدا اُس کے لئے دردِ سَر بنا رہا۔ وہ محض پوز کر رہا ہے۔‘
’ ظفر گھر میں پڑا میٹھی نیند سورہا ہے ، کیا اُسے کندھا نہیں دو گے؟‘
وہ اب بھی چُپ تھا ، جیسے اس نے کوئی بات سُنی ہی نہ ہو۔
’ تم نے اس طرح چُپ کیوں سادھ لی۔ اُٹھو دیر ہو رہی ہے، کیا تم ظفر کو کندھا نہیں دو گے‘؟
وہ اب بھی چُپ تھا۔
’ مُجیب ہوش میں آؤ ، دیر ہو رہی ہے۔دیکھو مزدوروں نے قبر تیار کر دی ہے مجھے تو اب اس قبرستان میں وحشت ہونے لگی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے زمین توسیع ہو کر پھیل رہی ہے اور قبرستان کے سِینے میں سَڑنے والی نعشیں جنگلوں اور بیابانوں میں بھاگ کھڑی ہوں گی۔ یہ لوگ مر کر بھی بے قرار ہیں۔ اور ہم زندہ رہ کر خانہ بدوش وہ بوڑھے درخت پر بیٹھی ہوئی چمگاڈر جو تلوار کی طرح میرے سر پر لٹک رہی ہے وہ مجھ پر کب گِرے گی ، میں کہہ نہیں سکتا۔
صبح کے بعد جب میں شام گھر لَوٹا ہوں تو یقین ہی نہیں آتا کہ میں نے واقعی زندگی کے ایک دن کو محفوظ کر لیا ہے۔
’ تمہیں زندگی اتنی عزیز ہے‘؟ خاور نے کہا
’ ہاں مجھے زندگی سے پیار ہے‘۔ محمود نے آہستہ سے کہا۔
’ تو تمہاری محبوبہ بھی مَنوں مَٹی کے ڈھیر کے نیچے چلی جائے گی۔‘
مُجیب ابھی تک بُت بنا چُپ چاپ بیٹھا تھا۔
اچانک وہ ہانپتا ہوا آیا ؛ ’ میرے دوستو ظفر کی قبر کے قریب‘۔۔۔۔۔ وہ یہ کہہ کر کانپ اُٹھا۔
’ کیا ہے اُس کی قبر کے قریب۔‘ سب نے بیک آواز استعجاب سے پوچھا۔
اُس کے چہرے کا رنگ فَق ہوتا جا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اُسے سانپ سُونگھ گیا ہو۔
’ تمہیں ہو کیا گیا ہے کچھ تو بولو ، تم نے وہاں کیا دیکھا؟‘ محمود نے بے چینی سے پُوچھا۔
’ میں نے وہاں ‘۔۔۔۔ الفاظ جیسے اُس کے حلق میں اَٹک رہے تھے۔
’ ہاں ہاں تم نے وہاں کیا دیکھا ، بولو ۔‘
’ وہاں میں نے ۔۔۔ میں نے وہاں‘ ۔۔۔ پھر ایک بار اُس کی زبان گُنگ ہو گئی۔
’ عجیب مشکل میں جان پھنس گئی ہے۔ گھر میں ظفر کی نعش پڑی ہے اور اِس مردُود نے الگ تماشہ بنارکھا ہے‘۔
’ بکواس بند کرو ، اِسے دواخانہ لے چلو ، کہیں اس پر فالج نہ گِرا ہو‘۔
’ وہ صرف موت سے ڈر گیا ہے۔ ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔‘
’ مگر یہ تمہاری آنکھیں سُرخ کیوں ہوتی جا رہی ہیں‘؟
’ میری آنکھیں پہلے ہی سے سُرخ تھیں۔ میں نے قبرستان آنے سے پہلے تھوڑی سی پی لی تھی۔ شراب ہی کی ہمّت پر میں قبرستان میں داخل ہو سکا۔ آدمی کو کچھ تو سہارا چاہیئے۔ شیلٹر کے لئے ہم سب بھاگ رہے ہیں۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ دوسری جگہ سے تیسری جگہ اُس سائبان کی تلاش میں جہاں کوئی ایسا آدمی نہ ہو جو ہمارے قہقہوں کا گلا نہ گھونٹ دے‘۔
’ یہ تو پھر اسی نقطہ پر آگیا ہے ، جہاں سے سوچ کی سرحدیں شروع ہو جاتی ہیں‘
’ میں نے یہ سرحد کبھی کے پار کر لی ہے۔ اب میں نہ سوچتا ہوں او رنہ غور کرتا ہوں کہ اب زندگی کو کس کنویں میں پھینک آنا ہے‘۔
’ دیکھو خاور کی طبیعت بِگڑ رہی ہے‘۔
’ گھبراؤ نہیں وہ نہیں مرے گا ، وہ زندہ رہے گا اور ہمیں بور کرتا رہے گا‘۔
قبرستان پر ویرانی برس رہی تھی۔ مٹِیالی رنگ کی پُرانی خستہ اور اَدھ کچّی قبریں مُنہ پھاڑے ٹُکرٹُکر نِیلگوں آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں درختوں پر رنگ برنگی چڑیاں بیٹھی چہک رہی تھیں اور کالے کلوٹے کووں کا قافلہ قبروں کے اطراف منڈلا رہا تھا۔
’ وہ دیکھو کالا ناگ اُس جھُنڈ کی طرف ، زرینہ کی قبر کے قریب آ رہا ہے اسے ماردو ماردو اسے‘ خاور نے گھبراہٹ کے لہجے میں کہا۔
’ وہ ہمیں ڈس لے گا ، کالا ناگ بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ اب وہ زرینہ کی قبر سے ہوتا ہوا ظفر کی قبر کے قریب پہنچ چکا ہے۔ وہ اگر قبر میں گھُس جائے تو ہم اسے کیسے دفنائیں گے۔ وہ نعش کو بھی ڈس لے گا۔ کچھ تو کہو یار ، دیکھو وہ قبر میں گِر چکا ہے۔ اب اگر سانپ قبر سے نہ نِکلے تو ظفر یوں ہی پڑا گھر میں سوتا رہے گا۔ اس کی لاش سڑتی رہے گی ، ہمارے انتظار میں انتظار جہنم کی آگ کا دوسرا رُوپ ہے‘۔
’ یہ مزدور کمبخت کہاں بھاگ گئے اب کیا ہو گا۔ انھیں زیادہ پیسے نہیں دینا چاہیئے تھا۔ وہ تاڑی پی کر نشہ میں جھُومتے آئیں گے اور اس وقت تک شائد وہ کالا ناگ ہمیں ڈس لے گا۔‘
’ ظفر کے گھر میں ابھی تک کہرام مچا ہو گا۔ اس کی ماں دھاڑیں مار مار کر رو رہی ہو گی اور اس کا بڑا بھائی دیوار سے سَر ٹکرا رہا ہو گا۔‘
وہ سوچ رہا ہو گا۔ خاور ، مجیب ، محمود آج کہاں مر گئے جن کی دوستی اور رفاقت پر وہ ہمیشہ نازاں رہا۔
’ چلو بھاگ چلیں موت ناگ بن کر ہمارا پیچھا کر رہی ہے‘۔
’ مگر تم زندگی کا زہر پچا سکو گے‘؟
’ بھاگو گے تو یونہی مرجاؤ گے‘
’ مرجانا ہی اصل زندگی ہے‘۔ محمود نے گھمبیر لہجے میں کہا۔
’ تو پھر تم ہی آگے بڑھو اور موت سے ہاتھ مِلالو‘۔
’ اس نے اپنے ساتھیوں کے چہرے کو عجیب نگاہوں سے دیکھا۔ اور بڑبڑانے کے انداز میں کہا:
’ کیا تم لوگ یونہی کھڑے رہو گے میرے ساتھ نہیں آؤ گے‘؟ کسی نے اس کے سوال کا جواب نہیں دیا۔
مجیب جو گھنٹوں چُپ تھا اچانک اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی آنکھیں انگارے کی مانند دَہک رہی تھیں۔ پھر سب نے دیکھا ، وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا ظفر کی قبر کے قریب آیا۔ اُس نے دُزدیدہ نگاہوں سے قبر کی گہرائیوں میں جھانکا اور آپ ہی آپ مُسکرایا۔ سامنے گِیلی مِٹّی کا ڈھیر تھا اور دو پُرانے پھاوڑے بے ترتیب پڑے تھے۔
اس نے نہایت پھُرتی اور تیزی سے پھاوڑے کے ذریعہ قبر میں مِٹی پھینکنی شروع کر دی۔ وہ بے تحاشہ پھاو ڑا چلا رہا تھا۔ مِٹی گِر رہی تھی گِرتی جا رہی تھی۔ پھر اُس نے بڑے بڑے پتھر پھینکنے شروع کئے۔ وہ مسلسل مِٹی اور پتھر پھینکے جا رہا تھا۔ اس کی پیشانی سے پسینے کی بُوندیں بارش کے بوجھل قطروں کی طرح ٹپک ہی تھیں اور سینہ کے زیر و بم سے اندازہ ہو رہا تھا جیسے وہ کافی تھک چکا ہو۔
اب ٹیڑھی میڑھی قبر تیار تھی۔
’ یہ تم نے کیا کیا۔ یہ قبر تو ظفر کے لئے کھودی گئی تھی۔ اور اس کی زرینہ کے پہلو میں دفن ہونے کی آخری خواہش ‘
اس نے بات کاٹ کر بڑے اعتماد سے کہا۔
’ ظفر کو میں نے مَنوں مِٹی کے ڈھیر کے نیچے پھینک دیا ہے۔ اب تم لوگ جا سکتے ہو ‘