(Last Updated On: )
ہونٹ کھل اُٹھتے ہیں
آنکھوں میں چمکتی ہے گزشتہ خواہش
اور ماتھے پہ تڑپتی ہے ہوس
موت ساحل ہے اگر کوئی سفینہ ٹھہرے
منتظر بیٹھے ہیں
منتظر بیٹھے ہیں سب مطلعِ انفاس سے
آئے کوئی سیل
اک سمندر ہو جو آغوش میں لے لے ہم کو
جب درندے نئے دروازے سے گھس آتے ہیں
ہونٹ کھل اُٹھتے ہیں
٭٭٭