“بٹ یو نو نا اس طرح ہم دونوں کا سال ضائع ہوگاـ”
“تم سے کس نے کہا۔ پہلی بوت میرا اپنا بزنس ہے کنسٹرکشن کا وہ میں سی اے کرتے ہوۓ سنبھالتا رہا ہو مجھے مسلئہ نہیں ہے رہی بات تمھاری تم بیمار ہو۔ اور شادی کے بعد تم نے کونسا کوئی جاب کرنی ہے بعد میں دے دینا پیپر۔” بہلول نے جیسے سب کچھ پہلے سے ڈیسائیڈ کیا ہوا تھا۔
سرینہ کو اعتراض تھا۔
“مجھے جاب کرنی ہے۔”
بہلول اور وہ دونوں ہی ایسے فرورٹیو نٹی میں گھس گئے اور وہ اسے دیکھتے ہوۓ مسکرایا۔ “جیسے میں تمھیں کرنے دوں گا۔”
وہ اب کوئی ڈریس دیکھ رہی تھی۔
“بہلول تم تو کبھی اتنے conservative نہیں تھے۔” سرینہ شاک کے عالم میں بولی۔
“چلو اب ہوگیا ہوں تو کیا پرابلم ہے۔”
“تم تو یہ چاہتے ہو میں تمھارے اور بچوں کے آگے لگی رہوں۔ ” وہ ناراضگی سے بولی۔
بہلول کو سن کر خوشی ہوئی تھی وہ آگے کا سوچ رہی تھی وہ آگے کا پلین بنا رہی تھی وہ جینا چاہتی تھی مایوسی نام کی چیز سرینہ میں نظر نہیں آرہی تھی۔
“ہاں تو اس میں کیا غلط ہے عورت کا کام ہے شوہر اور بچوں کے پیچھے پیچھے ہونا۔” وہ اس کے لیۓ ڈریس سلیکٹ کر چکا تھا۔
“یہ دیکھو یہ کیسا لگ رہا ہے؟”
سرینہ نے اس کی بات سن کر گھورا اور دوسرا ڈریس نکالا۔
” نہیں مجھے یہ پسند ہے۔”
” چلو وہ بھی لے لو پر میرا والا دیکھو اور کل تم یہ پہنو گی۔”
وہ شاپ سے نکلے تو اب بھی سرینہ کو اس کی بات پر غصہ تھا۔
” تم بہت برے ہو۔”
وہ ساتھ چلتے ہوۓ حیران ہوا۔
” اب میں نے کیا کیا۔؟”
“تم پہلے کتنے اچھے تھے اتنے supporting اور enthusiastic باتیں کیا کرتے تھے اب تو جیسے پرانا بھالو غائب ہوگیا ہے تم تو اب بہلول ہو۔” سرینہ نے شکوہ کیا۔
“اوہ! تو اب ہماری ڈیئر وائف کو کمپلین ہے، مزاق کر رہا تھا سرینہ ضرور کرنا بلکہ میرا اور نانو کا بزنس سنبھالنا۔” وہ مسکراتے ہوۓ اپنے ساتھ لگاتے ہوۓ بولا۔
سرینہ مطمئن ہوگئی لیکن اس کا مطمئن ہونا ابھی کے لیے تھا کیوں کہ سامنے ہی اسے پریسہ اور وسیم نظر آۓ تھے۔
———————
” بھالو وہ دیکھو پری۔”
بہلول نے دیکھا پریسہ ہنستی ہوئی وسیم کے ساتھ اسٹور کے اندر داخل ہوئی۔ ان دونوں نے بھی ان کو دیکھ لیا تھا وسیم کے چہرے پر حیرت تھی اور پریسہ کی آنکھوں میں اس نے عجیب سی نفرت دیکھی۔
“واؤ بہلول اور سرینہ تم لوگ یہاں واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز۔” پریسہ وسیم کا ہاتھ تھامتی ہوئی آئی۔
بہلول نے گہرا سانس لیا اور سرینہ کو دیکھا جو کہیں اور دیکھ رہی تھی اور بہلول جانتا تھا ایک پریسہ ہی نہیں وسیم بھی کھڑا تھا۔
“ہیلو پریسہ! ہاۓ وسیم !” بہلول نے مسکرا کر دونو کو بولا۔
“تمھیں کیسے پتا میں وسیم ہوں؟” وسیم نے حیرت کا اظہار کیا۔
بہلول پہلے ہی وسیم کی پیکچرز دیکھ چکا تھا لیکن اسے جھوٹ بالنا پڑا۔
” ایکچلی پری نے بتایا کہ اس کی وسیم نامی آدمی سے شادی ہوگئی ہے تو پریسہ جس کے ساتھ ہے وہ وسیم ہی ہوگا۔”
وسیم کے ماتھے پر بل پڑ گۓ کیونکہ بہلول نے اسے پری کہا تھا۔
بہلول خود پچھتایا تھا کہ کیوں اس نے پری بولا تھا۔
” ویسے سرینہ نے تمھیں میرے بارے میں نہیں بتایا؟”
وسیم نے آگ لگانا ضروری سمجھا۔
سرینہ جو پرفیوم دیکھ رہی تھی اس کے ہاتھ کانپنے لگے، بہلول نے اس کی کیفیت دیکھ لی اور پھر اس کے ہاتھ سے پرفیوم لیا اور اسے رکھا۔
“آرام سی سویٹی تم آگے بھی دیکھ سکتی ہو آگے شینل کی کلیکشن ہے۔” بہلول اس کے ہاتھ دبا کر بولا۔
پریسہ نے آنکھیں بڑی کیں اور ابرو اچکاۓ۔
“میں بھی آتی ہوں سرینہ مل کر پسند کرتے ہیں۔”
پریسہ اس کے پیچھے آئی۔
“ہاں تو واٹ ور یو سینگ سرینہ نے مجھے بتایا آپ اس کے منگیتر تھے لیکن کیا پری نے آپ کو نہیں بتایا کہ میری اور پری کی دھوم دھام سے منگنی ہوئی تھی۔” بہلول نے بھی اس کی زبان میں جواب دیا اور مسکراتے ہوۓ اسے دیکھا۔
وسیم کا منہ لال ہوگیا۔
“ہاں بتایا تھا پھر اسے میں نے سہارا دیا اپنا نام دیا دیکھ لو میرا دل تم سے کتنا بڑا ہے۔” وسیم چڑانے والے انداز میں مسکرایا۔
“ویل ہم پھو چھوٹے دل والے ہی ٹھیک ہیں۔ کم سے کم ایک بندہ آپ کے دل میں بسا رہتا ہے ہزار نہیں اور ہاں میں نے پریسہ کو ریجیکٹ بھلے کسی لڑکی کے لیۓ کیا ہے لیکن اس طرح نہیں کیا کہ میں نے اس کی کمزوری دیکھیی یا بیماری دیکھ کر پیچھے ہٹ گیا، بڑا دل شاید آپ کا اپنے لیۓ ہوا ہوگا لیکن دوسرے کے لیۓ نہیں۔” بہلول زندگی میں پہلی دفعہ تلخ گفتگو کر رہا تھا وہ بھی اس شخص سے جس سے پہلی بار ملا ہو۔
listen you don’t have any right to insult me.
( سنو تمھیں کوئی حق نہیں ہے میری بے عزتی کرنے کا)
وسیم دانت پستے ہوۓ بولا۔
بہلول مسکراتے ہوۓ پرفیوم چیک کرنے لگا۔
sorry you are mistaken I didn’t insulting you I just telling you a truth and by mean truth is always bitter I’m a right bro.
(معافی چاہتا ہو آپ کو غلط فہمی ہے کہ میں نے آپ کی بےعزتی تو نہیں کی میں تو صرف سچ بتا رہا ہوں وہ کیا ہے نا سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے تو لگتا بھی برا ہے صحیح کہہ رہا ہو نا برو۔)
بہلول اتناکہہ کر آگے چلنے لگا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ پریسہ کچھ الٹا سیدھا نہ بول دے سرینہ کو۔
اسے سرینہ نظر آئی شکر منایا وہاں پریسہ نہیں کھڑی تھی۔
سرینہ سوچ میں گم سیکشن کو دیکھ رہی تھی۔
بہلول نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
“کوئی پسند آیا؟”
سرینہ چونکی۔
” تم اتنی دیر وہاں کیوں کھڑے رہے تھے اور اس سے بات کرنے کی کیا ضرورت تھی؟” سرینہ فکرمندی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
بہلول نے آنکھیں گھمائیں۔
“جواب دینا ضروری تھا کیونکہ وہ بکواس کر رہا تھا پریسہ کا دماغ خراب ہوگیا ہے جو اس سے شادی کی۔”
سرینہ نے اس کی خراب زبان پر اسے گھورا پھر بولی۔
“پچھتا رہے ہو؟”سرینہ پرفیوم پکڑتے ہوۓ بولی۔
“واٹ ؟”بہلول حیرت سے اسے دیکھتے ہوۓ بولا۔
“دیکھا نہیں ہے کتنی خوبصورت لگ رہی ہے، مجھے دیکھتے ہوۓ دل نہیں خراب ہوا ہوگا۔”
بہلول کا دل کسی نے مٹھی میں بھینچا اسے امید نہیں تگی سرینہ ایسی بکواس کرے گی۔
watch your mouth women
بہلول کی آنکھیں سخت ہوگئیں تھیں اور وہ دھیمی آواز میں غرایا۔
سرینہ کچھ بولنے لگی کہ پریسہ سامنے آگئی۔
تمہیں کوئی پسند، آیا میں نے تین لے لیے ہیں اور بہلول تم نیویارک آ کر کچھ زیادہ ہی نہیں ہینڈ سم ہو گئے
پریسہ کی بے باکی دیکھ کر سرینہ کے ساتھ بہلول بھی دنگ رہ گیا اس کا میاں سامنے تو کیسے بے بھاگی سے تعریف کر رہی بہلول کی سرینہ کا منہ غصے سے سرخ ہو گیا
اسے پری کبھی اتنی بری نہیں لگی جتنی اب لگ رہی تھی
بھالو میرا ہو گیا سب میں اب گھر جانا چاہتی ہوں
سرینہ کو ناجانے کیوں اپنی سانس اکھڑی ہوئی محسوس ہوئی
بیلول ان کو اگنور کرتا ہوا اگے چل پڑا اور پریسہ نے اسے جاتے ہوئے بولا
وہ اب بھی مجھ سے پیار کرتا ہے تمارے ساتھ تو اس کی مجبوری ہے کیا کرے وہ بھی بے چارہ ہمدرد آدمی ہے کسی کو Rejected ugly duckling کی طرح مرتے نہیں دیکھ سکتا پریسہ کے لہجے میں زہر تھا جو کینسر سے بھی تیز سرینہ کے اندر پھیلا سرینہ کو اپنی آنکھیں مرچی سے بھری ہوئی محسوس ہوئی
وہ مشکل سے اگے چل پڑی بہلول پیمنٹ کر کے چل پڑا
سرینہ بھی اس کے پیچھے پیچھے آ رہی تھی مگر اسے وہ باتیں یاد آ رہی تھی جو پریسہ نے بولی تھی
وہ کار میں بیٹھ گئی بہلول خاموشی سے کار چلانے لگا اس نے ایک منٹ کے لئے بھی سرینہ کو نہیں دیکھا جس کی حالت بگڑنے کے قریب تھی
_________________________
تو کینسر نے تمہیں کافی خوبصورت بنا دیا واو کینسر لکی چارم ثابت ہوا تمارے لئے
پریسہ کی حقارت بری آواز، سے سرینہ نے اسے مّڑ کے دیکھا
ارے یار اتنا گھبرا کیوں گئی وی آر بسٹ فرینڈ رائٹ
وہ مسکراتے ہوئے اس کے ساتھ کھڑی ہوئی
سرینہ چپ کر کے پریسہ کی حالت دیکھ رہی تھی جس نے شولڑر اپ ٹاپ سے کالر بون اور کندھے نگے ہو رہے تھے پینٹ اور بالوں کو جوڑا بنا کر پیاری کے باوجود بے باگ لگ رہی تھی
کیا دیکھ رہی ہو؟ آئی نو میں بہت حسین لگ رہی ہوں کسی بھی مرد کی آنکھ مجھ سے ہٹ نہیں رہی حتی کے تمارے میاں کی بھی اف ابھی تک اس کی گھورنے کی عادت نہیں گئی سرینہ اس کی خودپسندی دیکھتی رہ گئی
Parisa i think your going off your limits
سرینہ سپاٹ لہجے میں بولی
جب تم نے لیمٹس کراس کر دی میں نے کر، دی تو کیا حرج ہے پریسہ تمسخرانہ ہنسی
میں نے کب کی لیمٹس کراس پریسہ؟
سرینہ سمجھ رہی تھی پریسہ کا رویہ نیچر ہے ظاہر ہے وہ بہلول کو اب بھی چاہتی ہے بے شک اس نے وسیم سے شادی بدلے میں کی ہے
تم نے میرا بہلول چھینا ہے جو تمہیں نہیں مجھے پیار کرتا تھا جو تماری طرف دیکھتا بھی نہیں تھا جس کو میرا چہرہ سب سے حسین لگتا تھا اس نے مجھے پرپوز کیا وہ بھی اس طرح جس طرح تم جیسی لڑکیاں سوچ بھی نہیں سکتی تم ایک سانپ ہو جس سے میری خوشیاں برداشت نہیں ہو سکی اور مجھ سے چھین لی
سرینہ کو پریسہ کی حالت پر ترس آیا
پری دیکھو اگر تم دونوں ایک دوسرے کو اگر پسند کرتے تھے تو تم انتطار کرتی میں نے بالکل بھی بہلول کو فورس نہیں کیا کے شادی کرو آئی سویر میں نے اسے بتایا
بھی نہیں کے مجھے کینسر ہے
چلو اگر شادی ہو گئی یہ نا میرے بس میں تھا نا تمارے میں یہ الله کی مرضی سے ہوا اور میں اس کی طاقت کو چیلنج نہیں کر سکتی اگر اتنی محبت ہوتی تو بہلول مجھ سے کبھی تیار نہ ہوتا شادی کے لئے اگر ہو گئی تو تم نہ کرتی وسیم سے میرے مرنے کا انتظار کرتی اور پھر بہلول کی ہو جاتی دیکھ لو پریسہ بےشک تم اس سے محبت کرتی ہو
بے پناہ چاہتی ہو میں تکبر نہیں بولو گی میرے عشق میں بہت طاقت تھی یا پھر الله کو میری پاک محبت پسند تھی اس نے مجھے بہلول کا کر دیا اور موت کی سند بھی دے دی کیونکہ میں نے دو انسانوں کا دل دکھایا تھا تمارا اور بہلول کا
پریسہ کا منہ کھل گیا وہ اسے برا بھلا کہنے لگی بدعا دینے لگی
______________________________
بہلول گھر پہنچ چکا تھا اور کار میں غصے سے نکل پڑا سرینہ بیٹھی رہی اس کو ہمت نہیں ہو رہی تھی نا جانے کیوں موت اس کو اپنے پاس محسوس ہو رہی تھی
اس نے دیکھا اس کے کپڑے پر کچھ گر رہا ہے
اس نے دیکھا خون پھر اسے خون کی الٹیاں ہونے لگی اور اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا
___________________
بہلول کدھر ہے سرینہ؟
بہلول کو خاموشی سے اندر آتا دیکھ کر مسسز فرقان نے پوچھا
آ رہی ہو گی کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا
مسسز فرقان حیران ہوئی اور باہر جانے لگی کہ ان کا میڈ اندر کی طرف بدحواس بھاگا
میڈم میڈم سرینہ بی بی خون خون وہ اٹک اٹک کر الفاظ ادا کر رہا تھا
کیا ہوا کدھر ہے مسسز فرقان باہر کی طرف بھاگی کار کا دروازہ کھولا سرینہ خون میں لت پت بے ہوش نیلی ہوئی پڑی تھی
مسسز فرقان سینے پر ہاتھ رکھ کر چیخ پڑی
مہرے الله بہلول۔۔۔۔۔ فرقان۔۔۔۔۔
فرحان ٹی وی لانچ میں تھا اس لیے جلدی سے آیا
او خدا بھابھی۔۔۔
جلدی سے بہلول کو بلواؤ
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...