سنہری مچھلیاںپانی کے جال میں پھنسی ہوئی
تیرتی پھر رہی ہیں
روپہلی تتلیاں ہوا کے جال میں پھنسی ہوئی
اُڑ رہی ہیں
تیز ہوا پانی کی سرکش لہروں سے کھیل رہی ہے
سرکش لہریں کھیلتے کھیلتے ساحل سے جا ٹکراتی ہیں
اور پھر کسی شریر بچے کی طرح
دوڑ کے واپس آجاتی ہیں
لہروں کے ساحل سے ٹکرا کر واپس آنے کا منظر
کبھی کبھی ایسے لگتا ہے
جیسے لہریں اپنے آپ کو ڈھونڈ رہی ہیں
قطرہ قطرہ اپنی ذات کی کھوج میں ہے
تیز ہوا کی ساری تیزی
اس دھرتی کی آخری حد کو
چھو کر واپس آجاتی ہے
کششِ ثقل سے باہر جانا،اس کے بس سے باہر ہے
سر نیوٹن دور کھڑا مسکرا رہا ہے
اور اس کی تصویر اوندھی پڑی کچھ سوچ رہی ہے
لہریں خود کو ڈھونڈ رہی ہیں
دھرتی خود کو ڈھونڈ رہی ہے
لیکن دیکھو!تیز ہوا کیوں جھوم رہی ہے؟
شاید اس نے اپنے آپ کو ڈھونڈ لیا ہے
میں بھی خود کو ڈھونڈ چکا ہوں
سانسوں کے اس جال کو خود ہی کاٹ چکا ہوں
جال کی قید سے آزادی پر جھوم رہا ہوں!
٭٭٭
جدیدادب خانپور۔شمارہ نمبر ۲سال ۱۹۷۹ء