“تم۔۔۔تمہارا ہاتھ!”صائم کی آواز میں خوف کے سائے تھے۔
“اوہ!میں تو بھول گئی تھی۔یہ نہیں کرنا تھا،سوری انکل!”بچی نے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ سرعت سےاسکے کاندھے سے ہٹایا تھا۔
صائم اسکے لفظوں میں ہی الجھ گیا تھا۔
کون تھی یہ بچی اور کہاں سے آئی تھی؟
“یہ تم نے کیسے کیا؟”صائم نے اصلی حالت میں اسکا ہاتھ جاتے دیکھ کے پوچھا۔
“آنٹی!کا ہاتھ کتنا ٹھنڈا ہورہا ہے؟انکل!جان چھڑانا چاہتے ہیں کیا۔”بچی ہنستے ہوئے بات بدل گئی تھی۔
صائم بوکھلا کے دوبارہ سے ثانیہ کی طرف متوجہ ہوا تھا جو ہنوز بیہوش تھی۔
وہ ثانیہ کو بیڈ روم تک لے کے آیا جہاں ٹیبل پہ ناشتہ ویسے ہی سجا ہوا تھا۔صائم نے ثانیہ کو بیڈ پہ لٹایا اور پانی کا گلاس اُٹھا لیا۔
“امید تو نہیں ہے’ایسے ہوش میں آنے کی۔”بچی صائم کے پیچھے ہی کمرے میں چلی آئی تھی اور اب صوفے پہ اطمینان سے ٹانگیں لٹکائے بیٹھی’دودھ پی رہی تھی۔
“تم آئی کہاں سے ہو؟”صائم’ثانیہ کے چہرے پہ پانی کے چھینٹیں مارتے ہوئے جھنجھلا کے بولا تھا۔
“آپ چلیں گے میرے ساتھ وہاں؟”بچی نے اشتیاق سے پوچھا۔
“کہاں؟”صائم نے بےخیالی میں کہا۔
“جہاں میں رہتی ہوں۔”
“تم کہاں رہتی ہو؟”وہ ثانیہ کی پلکوں میں ہوتی لرزش کو دیکھ رہا تھا۔
“اسی دنیا میں۔”
“تمہارا گھر کہاں ہے؟”وہ اب ثانیہ کو سہارا دیتے ہوئے بٹھا رہا تھا۔
“آنٹی کو ہوش آگیا ہے۔ایسا نہ ہو دوبارہ ڈر جائیں،پھر ملیں گے انکل۔بائے!”بچی اچھلتی کودتی باہر نکل گئی تھی۔
صائم سر جھٹکتے ہوئے ثانیہ کی جانب دوبارہ متوجہ ہوا تھا۔
٭٭٭٭٭
“وہ۔۔۔وہ بچی!”ثانیہ نے حواسوں میں آتے ہی پہلی بات یہ کی تھی۔
“کون ہے وہ بچی اور کس کی ہے؟”صائم نے پوچھا تھا۔
“وہ بچی انسان لگتی ہی نہیں صائم،وہ کسی جن کی ہی بچی ہے۔”ثانیہ بڑبڑائی تھی۔
“جن کی بچی!”صائم سوچ میں پڑگیا۔روشنی کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا،اس کے بعد نور اللہ صاحب کا کہنا کہ پورا گھرانہ پیچھے ہے تو کچھ بھی ہوسکتا تھا۔
“تو میں اتنی دیر اس جن زادی کے ساتھ رہا۔”صائم کو سوچ کے ہی خوف آگیا تھا۔
“ثانیہ!میں گھر جارہا ہوں۔تم آرام کرو۔”صائم نے اٹھتے ہوئے کہا۔وہ کمال صاحب سے اس بارے میں بات کرنا چاہتا تھا ۔
“نہیں!تم کہیں مت جانا۔اگر وہ پھر سے آگئی تو؟”ثانیہ حواس باختگی سے بولی۔
“ٹھیک ہے!پھر تم بھی چلو۔”صائم نے حتمی انداز میں کہا۔
“میں نہیں جاؤں گی وہاں۔”ثانیہ نے جھٹ انکار کیا۔
“فار گاڈ سیک ثانیہ!میرا وہاں جانا ضروری ہے تاکہ اس مسئلے کا کوئی حل نکلے۔یہاں ڈر’ڈر کے اگر تمہیں مرنے کا شوق ہے تو بتاؤ۔”صائم کو غصہ آگیا تھا۔
“اچھا!چلو۔”ثانیہ کو مانتے ہی بنی تھی۔
صائم اور وہ گھر سے باہر نکلے۔جتنی دیر میں صائم نے گیٹ کو لاک لگایا ثانیہ کی نظریں دیوار پہ جمی رہیں جہاں بلی بیٹھی اپنی چمکتی آنکھوں سےا سے گھورتے ہوئے اپنی دم مسلسل ہلا رہی تھی۔
“چلو!”صائم اسکی جانب پلٹتے ہوئے بولا۔
جیسے ہی ان دونوں نے گلی پار کی،بلی کی آنکھوں کی چمک مزید بڑھی اور وہ چھلانگ مار کے نیچے اتر آئی۔
خالی گلی میں بلی اطمینان سے دم ہلاتے ہوئے اب اسی راستے پہ تھی جہاں سے کچھ دیر پہلے وہ دونوں میاں بیوی گزرے تھے۔
٭٭٭٭٭
صبح کی خوشگوار ہوا سر سبز درختوں سے ہوتی ہوئی ان سے ٹکرا رہی تھی۔مرکزی سڑک پہ اکا دکا گاڑیاں آتی جاتی دکھائی دے رہی تھیں۔
صائم نے پارکنگ ایریا میں گاڑی پارک کی اور نوراللہ صاحب کو ساتھ لے کے اس سمت آگیا جہاں برگدکا بوڑھا پیڑ ‘اپنی شاخیں پھیلائے سایہ اور خوف دونوں ہی پھیلا رہا تھا۔
“السلام علیکم!”نور اللہ صاحب نے صاف آواز میں کہا تھا۔
صائم چونک کے انکی شکل دیکھنے لگا۔وہ کس کو سلام کررہے تھے؟
“دخل انداز ی کی معاف چاہتے ہیں لیکن وجہ ایسی ہے کہ ہمیں آنا ہی پڑا۔”نوراللہ صاحب اسے نظر انداز کئے برگد کے پیڑ پہ نظریں جمائے ہوئے تھے۔
جواب میں اوپری طرف بوڑھی برگد کی شاخیں زور سے ہلی تھیں اور کچھ بوسیدہ ٹہنیاں نیچے گری تھیں۔
نور اللہ صاحب نے ایک جگہ منتخب کرتے ہوئے سفید کپڑا بچھایا اور صائم کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا۔صائم انکی تقلید کرتے ہوئے بیٹھ گیا۔
نوراللہ صاحب نے حصار باندھتے ہوئے آنکھیں بند کیں۔صائم انکی ہدایت کے عین مطابق تسبیح تھام کے انکا بتایا ہوا وظیفہ شروع کرچکا تھا۔
اکا دکا گاڑیوں کا شور اور انسانوں کی آوازیں آتی رہیں لیکن نور اللہ صاحب کی استقامت میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔
اچانک ہی برگد کے پیڑ کی تمام شاخیں زور وشور سے ہلنے لگی تھیں۔
پیلے ہوتے پتے نیچے گرنے لگے اور شاخیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگیں۔نور اللہ صاحب نے آنکھیں کھولیں جو بےتحاشہ سرخ ہورہی تھیں۔
“چلو!بیٹا اس سے زیادہ کسی کو نہیں آزماتے۔”نور اللہ صاحب کہتے ہوئے اٹھے تھے۔
صائم ہڑبڑا کے چادر سمیٹتا ہوا اٹھا تھا۔
انکے واپس پلٹنے کی دیر تھی کہ ایک تازہ’مہکتا ہوا سرخ گلاب برگد کے پیڑ سے نیچے گرا تھا۔
نوراللہ صاحب چونک کے پلٹے ۔دیکھتے ہی دیکھتے سرخ گلاب میں آگ لگ چکی تھی۔
نور اللہ صاحب افسوس سے سر ہلاتے ہوئے صائم کے ہم قدم ہوئے تھے۔
٭٭٭٭٭
“جتنی جلدی ہوسکے گاڑی یہاں کی حدود سے باہر لے چلیں۔”گاڑی میں بیٹھتے ہی نور اللہ صاحب نے کمال صاحب کو ہدایت دی تھی۔
“سب ٹھیک تو ہے نا؟”انہوں نے تشویش سے پوچھا۔
“اس بارے میں گھر چل کے بات کریں گے۔کیا آپ گاڑی کی اسپیڈ کچھ بڑھا نہیں سکتے؟”انہوں نے پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے پوچھ لیا۔
“جی!”کمال صاحب گاڑی کی اسپیڈ بڑھا چکے تھے جبکہ صارم خاموشی سے بیٹھا صورت ِحال سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔
٭٭٭٭٭
“صائم!خیر تو ہے صبح ہی صبح۔”سلطانہ بیگم نے حیرت سے پوچھا۔
“ہماری زندگی میں اب خیریت کہاں اماں۔”صائم سر جھٹکتے ہوئے بولا۔
“کیا مطلب؟”سلطانہ چونکیں۔
صائم نے انہیں سارا ماجرا سنا دیا۔
“تم فکر نہ کرو۔کچھ نہ کچھ ہوجائے گا۔آج نوراللہ صاحب بھی آگئے ہیں۔”سلطانہ نے اسے تسلی دی۔
“پتا نہیں امی!میرے دل کی دھڑکن تو اب تک تیز ہے۔”صائم سینے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
“اللہ خیر کرے گا بیٹا!”سلطانہ صرف اسے تسلی ہی دے سکتی تھیں۔
٭٭٭٭٭
“روشنی!کیا کررہی ہو؟”فرحانہ بیگم نے پوچھا۔
وہ جو اپنے کمرے کی ساری لائٹس جلائے بیٹھی تھی،چونک اٹھی۔
“کچھ نہیں دادو۔”وہ سر جھٹک کے بولی۔
“لائٹس کیوں جلا رکھی ہیں؟”انہوں نے پوچھا۔
“ڈر لگتا ہے اندھیرے سے۔”روشنی عجیب سے انداز میں بولی۔
“اچھا چلو باہر آؤ۔اپنے بابا کے کپڑے پریس کردو۔”فرحانہ بیگم نے اسے مصروف کرنا چاہا۔
روشنی کا دل تو نہیں چاہ رہا تھا لیکن وہ انکو نہ بھی نہیں کرسکتی تھی سو اٹھ کھڑی ہوئی۔
٭٭٭٭٭
روشنی نے ایک سوٹ پریس کر کے ہینگ کیا اور پھر دوسرا پریس کیا ہوا سوٹ تھام کے پلٹی ہی تھی کہ ٹھٹھک کے رک گئی۔
پہلا والا پریس کیا ہوا سوٹ ہوا میں تیرتا ہوا باہر کی طرف جارہا تھا۔یوں معلوم ہورہا تھا جیسے وہ سوٹ ہینگر میں نہیں لگا ہوا بلکہ کسی آدمی نے اسے پہن رکھا ہے اور اب اسے پہنتے ہوئے وہ کہیں دوڑا جارہا ہے۔
روشنی کی پیشانی پہ پسینہ پھوٹ آیا تھا۔
سوٹ اسکے کاندھے کو چھوتا ہوا آگے بڑھا ہی تھا کہ روشنی نے جھپٹ کے سوٹ پکڑلیا اور لرزتی ٹانگوں کے ساتھ نیچے بیٹھ گئی تھی۔
اسی پل حواس باختہ سی سلطانہ بیگم چلی آئی تھیں۔
“روشنی چادر پہن کے ڈرائنگ روم میں آجاؤ۔نوراللہ صاحب جو بھی پوچھیں انہیں سچ’سچ بتانا۔”
روشنی چونک کے انہیں دیکھنے لگی۔وہ صاحب اس سے کیا پوچھنا چاہتے تھے؟
“چلو جلدی!”سلطانہ بیگم نے اسکے تاثرات ہی نہیں دیکھے تھے۔
٭٭٭٭٭
روشنی بڑی سی سیاہ چادر میں خود کو لپیٹ کے ڈرائنگ روم تک چلی آئی تھی جہاں گھر کے تمام لوگ موجود تھے۔
“بیٹھ جاؤ بیٹی۔”نور اللہ صاحب نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
روشنی چپ چاپ انکے سامنے بیٹھ گئی۔
“یہ بتاؤ کیا تم نے یونیورسٹی میں کسی کو نقصان پہنچایا ہے؟”انہوں نے پوچھا۔
روشنی نے پراعتماد انداز میں سر نفی میں ہلایا۔
“سوچ لو اچھی طرح!”وہ جیسے اسے تنبیہ کر رہے تھے۔
روشنی نے الجھ کے دیکھا۔وہ اس سے بار بار ایک ہی بات کیوں پوچھ رہے تھے۔
“میں نے کیا کیا ہے مولوی صاحب؟”روشنی کو غصہ آگیا تھا۔
“بیٹی!ہم انسانوں کے منہ سے کوئی نوالہ چھین لے تو ہم ساری زندگی اسے معاف نہیں کرتے،یہاں تو معاملہ پھر جنات کا ہے۔”نور اللہ صاحب نے سرد مہری سے کہا تھا۔
روشنی انکی شکل ہی دیکھتی رہ گئی۔
“لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کیا؟”روشنی نے جھٹ سے انکی بات کی نفی کی تھی۔
“اکثر جسے ہم خاطر میں نہیں لاتے وہی ایک وجہ کافی ہوتی ہے ہمیں برباد کرنے کیلئے۔”
“آپ کہنا کیا چاہتے ہیں نور اللہ صاحب؟کھل کے کہیں۔”صائم بول اٹھا تھا۔
“ٹھیک ہے!تو پھر سنئے کہ جس دن روشنی کو سرخ گلاب پہلی بار ملا،اس دن آخر ہوا کیا تھا۔”نور اللہ صاحب نے بولنا شروع کیا۔
سب دم سادھے انہیں سننے لگے۔
٭٭٭٭٭
نادیہ’روشنی کو چھوڑ کے لابی کی جانب بڑھی تھی۔روشنی اسکے انتظار میں برگد کے پیڑ کے سائے میں تھی۔یونیورسٹی میں اکثر لوگ کھانے پینے کی چیزیں خریدنے کے بعد کھاتے نہیں ہیں یا بچا کچھا ایسے ہی چھوڑ دیتے ہیں،وجہ چاہے جو بھی رہی ہو اور ادھر’ادھر ڈال دیتے ہیں۔
اس دن بھی کسی نے بریانی کا ڈبا برگد کے پیڑ کے نیچے بنی باؤنڈری پہ لاپرواہی سے چھوڑ دیا تھا۔ڈبے میں ہڈیاں ،بوٹیاں اور ذرا سے چاول موجود تھے۔اسی پیڑ میں آج سے نہیں زمانے سے جنات کا خاندان آباد تھا اور اسی وقت جنات میں سے ہی انکا ایک بچہ وہ ڈبہ اٹھانے کیلئے آیا تھا جسے روشنی نے اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے زخمی کر ڈالا تھا اور یہی نہیں اس نے وہاں کھڑے ہو کے خوشبو کا بھی بےدریغ استعمال کیا۔چلو!اس پہ تو وہ اسے کچھ نہ کہتے کہ سالوں سے لوگ خوشبو میں نہائے ہوئے اس پیڑ کے نیچے سے گزرتے ہیں لیکن دوسری حرکت انکے نزدیک ناقابل معافی تھی اور ایک بچے کا زخم پورے خاندان پہ چوٹ ہوتا ہے۔اس لئے آپ کے پورے خاندان پہ بھی انکا اثر ہورہا ہے۔
اب بچت کی تدبیر مشکل ہی نظر آتی ہے کیونکہ اتنی آسانی سے معاف کرنا انکی عادت نہیں ہے۔
نور اللہ صاحب نے پوری کہانی سنا دی تھی۔
٭٭٭٭٭
روشنی کے حلق میں کانٹے اگ آئے تھے اور دماغ الگ ماؤف ہورہا تھا۔اسکی اتنی سی لاپروائی کی سزا پورے گھر کو مل رہی تھی،روشنی کو سمجھ ہی نہیں آرہا تھا ۔وہ اب کیا کرے؟
اس نے تو ڈبے کو خالی سمجھ کے ٹھوکر ماری تھی اور یہ اسکی عادت تھی کہ راستے میں آئیں اس طرح کی چیزوں کو وہ ٹھوکر مار کے سائیڈ پہ کردیتی تھی۔
اب اسے کیا معلوم تھا کہ کوئی ننھی سی جان ‘اس ڈبے میں اپنے رزق کاسامان ڈھونڈ رہی تھی جسے لاپرواہی سے وہ نقصان پہنچا چکی تھی۔
روشنی کا سر گھمنے لگا تھا۔
٭٭٭٭٭
“کوئی تو طریقہ ہوگا؟ان سے نمٹنے کا!”کمال صاحب کو ابھی بھی امید تھی۔
“بہت مشکل ہے!میں صرف کوشش کرسکتا ہوں۔”نور اللہ صاحب نے امید دلائی تھی۔
“وہ ہی سہی!”
“پلیز !کچھ کیجئے ورنہ ہمارا پورا گھر۔۔۔وہ جو کہیں گے ،ہم کریں گے۔میں ان سے معافی مانگنے کو بھی تیار ہوں۔”روشنی بھیگے لہجے میں بولتی چلی گئی۔
“میں کوشش کررہا ہوں۔آپ سب بھی کیجئے۔اللہ بہتر کرنے والا ہے۔”نور اللہ صاحب نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
پورے کمرے میں موت کا سناٹا طاری ہوچکا تھا۔
٭٭٭٭٭