ویسے بہت بے حس ہے تو آنسہ ۔۔مانا۔ میری ماں سوتیلی ہے مگر لوگ تو دوشمن کی بھی خیریت معلوم کرلیتے ہیں مگر میں بھی کہاں سر پھوڑ رہی ہوں تجھے کبھی اپنے علاؤہ کوئی دیکھا ہے کبھی بہت دکھ ہوا مجھے تیرے اس طرح کرنے سے۔۔۔
نور کے اتنا بولنے پر بھی اسکے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا اور یہی بات نور کو پریشان کرگئی تھی
کیونکہ وہ مسلسل آنکھوں پر ہاتھ رکھے دیکھ اسے الجھن ہوئی تھی
آنسہ کیا ہوا ہے ؟؟ وہ ایک دم اسکے پاس آئی تھی اور اسکا ہاتھ آنکھوں پر سے ہٹانا چاہا مگر وہ اپنی گرفت سخت کرگئی
آنسہ۔۔۔نور نے بےبسی سے لب کاٹے یقیناً وہ اسکا دل دکھا گئی تھی اسے خود پر غصہ آیا کیا ضرورت تھی اس سے یوں ناراض ہونے کی ڈانٹنے کی۔۔۔
اٹھ نا آنسہ اچھا دیکھ میں سوری۔۔۔
جاؤ یہاں سے نور مجھے کسی سے بات نہیں کرنی۔۔وہ رو رہی تھی یا ایسا نور کو لگا مگر فلحال اسے بات نہیں کرنی تھی تو مطلب تھا نہیں کرنی نور نے بے بسی سے لب کاٹے تھے
دل میں عجیب سے ملال نے ڈیرے ڈالے تھے
اسے خود پر بھی غصہ آیا تھا کہ کیوں وہ غصہ ہوئی
آنسہ نے ہمیشہ خوشیاں شئیر کی تھیں کبھی اپنی تکلیف نہیں افسوس میں گھری وہ کمرے سے باہر آکر وہ صحن میں بیٹھ گئی گرمی اچانک سے بڑھ گئی تھی۔۔
اماں جلدی سے گھر آجاؤ یار۔۔خود سے بولتے اس نے گھٹنے سے تھوڑی ٹکائی تھی۔۔۔
وہ رات کافی دیر سے گھر میں گھسا تھا اور صبح دادی کے اٹھنے سے پہلے ہی آفس کے لئے نکل گیا تھا۔۔۔
حاشر سو کر اٹھا تو انہیں لاونج میں بیٹھے پایا تھا
اسلام وعلیکم دادو۔۔ ان سے پیار لیتا وہ ان کے پاس ہی بیٹھ گیا
خیریت ہے ایک سویرے سے اٹھ کر بھاگ گیا جبکہ دوسرا ابھی تک میرے سامنے ہے اب کونسی کھچڑی پکا رہے ہو؟؟
ان کے بولنے پر اس نے پہلو بدلہ تھا اب وہ کیا بتاتا تھا کہ ابراہیم کے اس عمل نے اسے کتنا دکھ دیا تھا
جی بس رات کافی دیر تک کام کرتا رہا تو نیند نہیں کھلی۔۔۔
کچن کا رخ کرتے اس نے وضاحت دی
کافی بنا رہا ہوں آپ کیا کھائیں گی بتا دیں۔۔کاگی مگ میں ڈالتے اس نے ان سے پوچھنا ضروری سمجھا ۔۔
کب تک یہ عورتوں والے کام خود کرو گے ایک تم شادی نہیں کرتے ایک وہ ہے جو شادی کا بول کر اب مجھ سے چھپتا پھر رہا ہے۔۔
ان کی اس بات پر وہ تلخی سے ہنسا تھا
آپ ہی تو کہتی ہیں دادو کوئی کام کسی کے لئے مخصوص نہیں ہوتے۔۔
بس میری بات سے اپنی مرضی کا مطلب اخذ کر لینا۔۔وہ منہ بنا کر بولی تو وہ ہنس دیا
ہنس مت ادھر آ میرے پاس۔۔۔
ان کے بلانے پر وہ کپ تھامے ان کے پاس آیا تھا
ابراہیم کا رویہ میری سمجھ سے باہر ہے حاشر کل میں نے لڑکی کا نام پوچھا تو ٹال گیا میں نے ملنے کا بولا تو بھی منع کرگیا مجھے کیوں لگ رہا وہ مجھ سے جھوٹ بول رہا ہے؟؟ میں تو اس کی شادی کے اتنے ارماں لئے ہوئے تھے پھر جب اسنے شادی کا بولا تو غصہ آیا مگر اب تو یہ ہوچکا تھا تو قبول کرلیا اب اسکا اس طرح کا رویہ۔۔۔انہوں نے اسے اپنا خدشہ ظاہر کیا تھا
کچھ نہیں دادو وہ بس پریشان ہے ایکچوئیلی آنسہ کی والدہ کو ٹیومر تھا ان کی ابھی ہی سرجری ہوئی ہے اس لئے وہ ملوانے نہیں لے گیا اور بس نکاح بھی اسی سب ٹینشن میں ہوا ہے۔۔
وہ انہیں تسلی دیتا بولا تھا اور چاہ کر بھی وہ انہیں سچ نا بتا سکے خفگی اپنی جگہ مگر وہ ابراہیم کے لئے کوئی نئی مصیبت نہیں تیار کر سکتا تھا
تو مجھے ملواؤں تو میں ملنا چاہتی اس بچی سے اسکی ماں سے۔۔۔
باپ کیا کرتا ہے کچھ تو بتاؤ۔۔
ان کی بات پر وہ گہری سانس بھر کر رہ گیا
اس کے والد حیات نہیں ہیں والدہ سوتیلی ہیں ۔۔
یا اللّٰہ سوتیلی ماں۔۔۔ پتا نہیں کس طرح کا رویہ رکھتی ہو گی وہ پریشان ہوئی جبکہ اسے ہنسی آئی تھی دادی اپنی شیرنی بہو سے اچھی واقف ہی کہاں تھیں
افف دادو آپ بھی اچھا اب میں آفس جاؤ گا آپ اکیلے کیسے رہیں گیں۔۔
جبھی تو بول رہی بہو کو لاؤ تاکہ میری تنہائی کا کچھ ہو اور اب ویسے بھی ہم نے ہمیشہ کے لئے یہاں رہنا ہے
یہ تو بہت اچھی بات مگر ابھی کے لئے تو آپ میری امی کی کمپنی سے گزارہ کریں یقین جانئے بہت مزے کا کھانا بناتی ہیں وہ۔۔اسکے انداز پر وہ ہنس دی
چل یہ بھی اچھا آئیڈیا برا نہیں میں آتی۔
وہ انہیں پھر اپنے گھر چھوڑ کر آفس آیا تھا مگر ابراہیم کو دیکھ ماتھے پر تیوری سجائے اپنے کام میں مصروف ہوا تھا۔۔
اور اسکو دیکھ ابراہیم جو خود پر غصہ آرہا تھا۔۔۔
وہ کیبن میں آیا تو ٹیبل پر اسکے پسندیدہ لوازمات دیکھ اس نے تاسف سے سر ہلایا مطلب اسکی ناراضگی ختم کرنے کے لئے میدے والا فارمولہ اپنایا تھا مگر وہ بھی حاشر تھا اس لئے کھانے کو دوسری نظر دیکھے بغیر لیپ ٹاپ آن کر کے بیٹھ گیا..
ابراہیم روم میں آیا تو کھانے کو ایسے ہی دیکھا تو اسے دکھ ہوا تھا۔۔
کب تک ناراض رہے گا بس کر نا یار۔۔۔کیپ ٹاپ بند کرتا وہ اس کے پاس بیٹھا تھا
مجھے کام ہے پلیز ڈسٹرب نہیں کرو۔۔وہ بے رخی سے کہتا واپس سے لیپ ٹاپ آن کر بیٹھا۔۔
یار معاف کردے نا قسم سے بس اس ٹائم کچھ سمجھ ہی نہیں آیا اب ہوگئی نا غلطی۔۔
ابراہیم تیری اس ایک غلطی نے کسی کا کردار اسکی فیملی کی نظروں میں مشکوک کردیا ہے اوپر سے تیری خود غرضی کہ اسے اپنے مطلب کے لئے استعمال کرتا بعد میں اسے چھوڑ دے گا تجھ سے اس بے حسی کی امید نہیں تھی۔۔
وہ اسے ملامت کر رہا تھا۔۔۔
اچھا میں ٹھیک کردونگا نا سب تو کیوں ناراض ہے آئی پرامس۔۔وہ اسے یقین دلا رہا تھا اس نے اسے ایسے دیکھا جیسے یقین نا آیا ہو
سچ بول رہا ہوں نا اب مان جا۔۔۔وہ ایک اس پر گرا تو وہ مسکرا دیا
دیکھ لے اس معاملے میں تیرا دوست نہیں بنو گا
اچھا نا چل آجا دیکھ تیرے لئے اتنا کچھ منگوایا ہے وہ اسے پچکارتے ٹیبل تک لایا تھا۔۔۔۔
خالہ آپ کیا بول رہی ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے حاشر نے کبھی تذکرہ تک نہیں کیا ایسا کچھ۔۔۔سفینہ بیگم تو سن کر شاکڈ ہوئی تھیں
مجھے بھی ایسے ہی جھٹکا لگا تھا مگر اپنے پوتے سے ناراض نہیں رہ سکتی اور اسکی خوشی ہی سب سے اہم ہے اس لئے حیات کو بتائے بغیر میں نے پہلے خود یہاں آکر سب دیکھنے کا فیصلہ کیا ہے
پھر بھی خاکہ حیات بھائی کو بہت دکھ ہوگا
نہیں سفینہ حیات کے لئے ابراہیم کی خوشی سب سے اہم ہے بس تو دعا کرنا کہ جو بھی ہو ہمارے حق میں بہتر ہو
انشاء اللہ آپ پریشان نا ہو
میں تو ویسے اس حاشر نے بچے کر حیران ہوں مجھے بھنک تک نہیں پڑنے دی۔۔
دوست ہونے کا حق ادا کر رہا ہے۔۔
اب آگے کا کیا ارادہ ہے آپ کا؟؟
بس ایک دو دن میں اس لڑکی کے گھر جاکر دیکھنا ہے حاشر کے مطابق تو متوسط گھرانے سے تعلق ہے چھوٹی فیملی ہے باقی وہاں جاکر ہی اندازہ ہوگا۔۔
بس اب جو ہوگیا اس پر یہی دعا کر سکتے کہ ہمارے ابراہیم کے نصیب میں بہت ساری خوشیاں ہوں۔۔۔
آمین۔۔۔۔
انہوں نے ایک ساتھ آمین کہا تھا۔۔
شبانہ اور نور کے سہارے وہ گھر میں داخل ہوئی تھیں اس نے چھت کی منڈیر سے جھانک کر نیچے دیکھا
وہ دونوں اب انہیں لئے اندر کمرے میں بڑھی تھیں
اس نے خود کو ریلکس کرکے نیچے قدم بڑھائے تھے
تبھی اندر سے آتی آواز پر اسکے قدم رکے تھے
دیکھ لیا شبانہ اس دن کے لئے ڈرتی تھی کیسے معصوم بنتی تھی اور یوں لڑکے کو پھانس کر بیٹھی تھی جبھی تو اتنی آسانی سے اتنے لاکھ انہوں نے میرے علاج کے لئے دے دئیے ارے ایسی آوارہ کو پالا میں نے۔۔
اماں۔۔۔نور نے انہیں ٹوکا تھا
تو چپ کر۔۔
زلیخا طبیعت ٹھیک نہیں ہے بعد میں بات کرتے ہیں ہم ابھی تم آرام کرو۔۔شبانہ خالہ کا لہجہ انہیں سپاٹ لگا تھا
انکے باہر آنے پر وہ ایک دم اوٹ میں ہوئی تھی
چھپ اس سے جو تجھے جانتا نا ہو۔۔انہوں نے اسکا ہاتھ تھامے اسے آگے کیا تو وہ نظر جھکا گئی
بڑے افسوس کی بات ہے ساری زندگی جو نظریں اٹھا کر چلتی آئی آج قربانی دے کر بھی نظریں جھکا رہی ہے۔
ان کی بات پر اسے دھچکا لگا تھا
تجھ سے یہ امید نہیں تھی آنسہ کہ تو اپنی خوشیوں کی قربانی دے گی وہ بھی اس عورت کے لئے۔۔۔
ایسی تو نہیں تھی نا تو۔۔
مجھے اب کوئی فرق نہیں پڑتا کوئی کیا بولتا ہے۔۔۔
جبھی یو چھپ کر بیٹھی ہے
میرا دل نہیں کرتا اب کسی سے بھی بات کرنے کا۔۔۔
اس کا میسج آیا؟؟
کس کا؟؟ اس نے تعجب سے انہیں دیکھا
وہی کو نکاح کرکے بھول گیا ہے کیا ساری زندگی یونہی تجھے اپنے نام پر بیٹھا کر رکھے گا۔۔۔۔
کیا فرق پڑتا ہے خالہ۔۔وہ تلخی سے بولتی مسکرائی
ٹھیک نہیں کیا تو نے یہ آنسہ بہت غلط کیا مگر میری دعا ہے خدا تجھے ساری خوشیاں دے۔اسکا ماتھا نرمی سے چومتی وہ باہر بڑھی تھی جبکہ اس کے رگ و پے میں سکون دوڑ گیا تھا
یہی تو وہ ممتا کا احساس تھا جس کے لئے وہ ترستی تھی اور باہر کے لوگوں سے ملتا تو وہ باؤلی ہوجاتی تھی۔۔
کاش امی آپ پاس ہوتی یوں آپ کی بیٹی محبت کے لئے ترس نا رہی ہوتی۔۔۔ تلخی سے سوچتی وہ کچن کی طرف بڑھی تھی اسکے اپنا کمزور پہلو نہیں دیکھانا تھا کسی کو نا اسے مظلوم بننا تھا وہ آنسہ کامران تھی اسے مضبوط بننا تھا کیونکہ وہ کمزور پڑنا افورڈ نہیں کرسکتی تھی۔۔۔
زندگی اپنی ڈگر پر چل رہی تھی آج زلیخا کے آپریشن کو ہفتہ ہوگیا تھا مگر ان کے اندر کی تلخی وہ زبان کے زریعے باہر نکالتی رہی تھی لوگ تو اتنے بڑے آپریشن کے بعد بدل جاتے ہیں خوف خدا ان کے دل میں ڈیرے ڈالے ہوتا ہے مگر وہ تو اور زیادہ اس نے لئے بڑی بن گئی تھیں اب یہ ان کی طبعیت کی وجہ سے تھا یا کیا مگر وہ اسے تکلیف دے رہی تھیں اور وہ تو جیسے ڈھیٹ ابن ڈھیٹ ایک بار پھر پتھر جیسی بن گئی تھی جیسے نا سنتی تھی نا محسوس کرتی تھی پہلی بار اسے ایک ماں کی گود چاہیے تھی مگر ہائے رے قسمت
کبھی کبھی تو وہ اپنی قسمت کر روتی نہیں ہنستی تھی اتنی بڑی ہوگئی مگر ماں کے پیار کے لئے ترستی رہی اب تو دل نے خواہش بھی چھوڑ دی تھی مگر ایک وقت تھا جب اسکا دل ہمکتا تھا ماں کی ممتا کے لئے۔۔۔
حسب معمول وہ چھت پر بیٹھی آسمان کو تک رہی تھی جبکہ روشنی اس کے پاس بیٹھی میری کھانے میں مصروف تھی
آنسہ تیری ابراہیم بھائی سے بات ہوتی ہے؟؟
کون ابراہیم؟ اس نے اچنبھے سے پوچھا
اور پھر جن نظروں سے روشنی نے اسے دیکھا وہ زندگی میں پہلی بار شرمندہ ہوئی تھی
ارے بھئی میرا دھیان ادھر ادھر تھا
تبھی بنتے دروازے پر انکا دھیان وہاں گیا تھا یہ نور کہاں رہ گئی وہ خود سے بولتی نیچے اتری مگر تب تک نور دروازہ کھول چکی تھی اس لئے بنا دیکھنے کی زحمت کئے وہ واپس اوپر آگئی
کون تھا ؟؟
مجھے نہیں پتا نور نے دیکھ لیا شاید اسکی ماں سے کوئی ملنے آیا ہے۔۔
اچھا چل چھوڑ تو پتا مارکیٹ چلے گی اتنا وقت گزر گیا ہم نے کوئی تفریح نہیں کی۔۔
یہاں اپنی تفریح بنی ہوئی ہے۔۔وہ تلخی سے ہنسی تھی
بس کردے تو۔۔روشنی نے چڑ کر کہا تو وہ ہنس دی
اچھا چل کر دیتی بس۔۔۔وہ ہنس کر بولی تو روشنی نے ایک دھپ اسے رسید کی تھی
چل اب جارہی میں ورنہ امی نے بے عزتی کر دینی ہے۔۔
ہاں تو جا۔۔۔اسے بول وہ واپس اپنے چھوڑے گئے شغل میں مصروف ہوگئی تھی
نیچے سے آتی آوازوں پر اس نے کان دھرنا ضروری نہین سمجھا تھا
تبھی نور ہانپتی ہوئی اوپر آئی تھی
آنسہ۔۔۔آنسہ۔۔۔
کیا ہوا ہے بہن خیریت؟؟ کونسی ریس دوڑ کر آرہی ہو؟؟
ریس تو کوئی نہیں دوڑ رہی تمہارا بلاوہ آیا ہے۔۔
کیوں بھئی اب کیا کردیا میں نے ۔۔۔
کیا کچھ نہیں بس تم سے ملنے کچھ لوگ آئے ہیں جلدی سے آؤ اور حلیہ ٹھیک کرلینا۔۔۔
اپنی بولتی وہ وہاں سے واپس نیچے بھاگی تھی۔۔
حد ہے بھئی۔۔۔ہاتھ میں پکڑی کیری کا پیس پلیٹ میں رکھتی وہ ہاتھ صاف کرتی اٹھی تھی
اب اسکا رخ نیچے کی طرف تھا۔۔
کمرے میں داخل ہوئی تو سامنے ہی صوفے پر ایک بڑھی خاتون اور ایک زلیخا کی عمر کی عورت کو دیکھ وہ ٹھٹھکی تھی وہ کہیں سے بھی اس ماحول کا حصہ نہیں لگ رہی تھیں ان کی ڈریسنگ ہی ان کے اپر کلاس ہونے کی گواہ تھی اسے بے حد عجیب سا لگا تھا
مگر پھر سر جھٹک کر وہ اندر آئی اور سب کو مشترکہ سلام کیا تھا
اسکے سلام پر سفینہ بیگم اور دادو نے اسے دیکھا تھا
بلیک لیلن کی قمیض اور پاجامہ پہنے کالے بالوں کی چوٹی ڈالے بھرا بھرا جسم کھلتی رنگت اس پر متضاد اسکی آنکھیں۔۔
اسکا میک اپ سے پاک چہرہ۔۔
ان دونوں کے چہرے کر ستائش ابھری تھی
آجاؤ بیٹا ہمارے پاس آؤ۔۔۔ دادو کے بولنے پر وہ جھجھکتی ان کے پاس آئی تھی
ابراہیم کی دادی ہیں یہ اور میں خالہ۔۔۔سفینہ بیگم نے اسے پریشانی میں دیکھا تو اپنا تعارف کروایا جبکہ ابراہیم کے نام پر اسکا حلق تک کڑوا کڑوا ہوا تھا وہی تو تھا فساد کی جڑ۔۔۔
ماشاءاللہ بہت پیاری۔۔۔ روبینہ بیگم تو اسکے واری صدقے گئی تھیں
انہیں آنسہ بہت پیاری لگی تھی بناوٹ سے پاک۔۔
ہمم بس یتیم بچی کی پرورش کرنا آسان نہیں ہوتا۔۔زلیخا کی بات پر وہ ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگی
ان کے بیچ کیا کچھ باتیں ہو چکی تھیں اس سے وہ انجان تھی
بس اب آنسہ سے مل لیا تسلی ہوگئی اب بہت جلد اپنی بیٹی کو ہم لینے آئینگے جو بھی ہوا اور جن حالات میں بھی ہوا اسے بھول جائیں۔۔
دادو نے محبت سے اسکا ہاتھ تھپتھپایا۔۔
اسے تو سمجھ ہی نہیں آیا کہ آخر کرے تو کیا کرے۔۔
نور نے اچھی خاصی ٹیبل سجائی تھی مگر مجال ہے جو وہ اٹھی ہو یونہی ٹھس بیٹھی رہی شادی اور اسکی اور اس شادی کا انجام وہ سب بے خبر تھے مگر غصہ اسے ابراہیم کر آرہا تھا جو اسکی زندگی برباد کر اپنی خوشیوں کی آس لگائے بیٹھا تھا
میرا کردار مشکوک بنایا میرے لئے اپنے ہی گھر میں رہنا محال کیا تمہیں بھی سبق ملنا چاہیے محترم ابراہیم تلخی سے سوچتی وہ اٹھ کر کمرے سے باہر آگئی
پتا نہیں کون ہوتے تھے جو یوں اچانک شادی پر تماشے لگاتے تھے لمبی چوڑی پنچائیت لگتی تھیں یہاں تو سب افسانوں جیسا ہوا تھا اس کے ساتھ اور اسے غم تھا کہ اسکے ساتھ ہی کیوں ہوا۔۔
اندر ناجانے کیا کیا باتیں چل رہی تھی اسے غرض نہیں تھی اس لئے منہ بنائے وہ چھت پر آگئی تاحد نگاہ سرمئی شام چھارہی تھی جیسے اسکی زندگی اندھیروں کی زد میں آرہی تھی مگر کیا وہ جانتی تھی کہ اس اندھیرے کے پیچھے کتنی روشنی چھپی ہے جسے تلاشنے کے لئے کئی مراحل اسے طے کرنے تھے۔۔۔
کیا بکواس ہے یہ تو مجھے اب بتا رہا یار حاشر۔۔۔۔
وہ جو ابھی آفس سے آئے تھے گھر کو خالی دیکھ حاشر نے کال کرکے پوچھا تھا اور جو اسے بتایا گیا وہ ان دونوں کو پریشان کرگیا تھا
مجھے بھی تو تیرے سامنے ہی پتا چلا ہے نا ۔۔اسکے یوں بولنے وہ بھی تپا تھا
جبکہ ابراہیم نے اپنا سر پکڑا تھا بات تو طویل ہوتی جارہی تھی وہ بھنا کر رہ گیا تھا
کہا پھنسا دیا یار ارحم۔۔۔
وہ بڑبڑایا۔۔
ہاں اور سن اسکی اب کیا کرے گا اس رشتے کو ختم کرنے کی بات ہوئی تو سوچ دادو تیرے ساتھ کیا کرینگی۔۔۔
مجھے کیا پتا تھا کہ یہ سب ہوجانا یار یہ کہانیوں میں کیسے آرام سے لوگ دیکھا دیتے میری تو جان نکل رہی ہے ایسا لگ رہا کسی نے بیچ آگ کے دریا میں کھڑا کردیا نا تیر کر بھاگ سکتا نا کھڑے رہ سکتا دونوں صورتوں میں جھلسنا ہی مقدر ہے۔۔
اور اس آگ کے دریا کا انتخاب تو نے خود کیا ہے خود کو اب ہر چیز کے لئے تیار رکھ۔۔
اسے بولتا وہ کمرے میں چلا گیا۔۔
تبھی اسکا موبائل رنگ ہوا تھا ردابہ کا نمبر دیکھ دیکھ اس نے گہری سانس خارج کی تھی
اور اٹھ کر بالکونی میں آیا تھا خود کو کمپوز کرتا اس نے فون اٹھایا تھا
ہیلو ابراہیم کب سے کال کر رہی کہاں تھے؟؟ دوسری طرف سے شکوہ کیا گیا تھا
بزی تھا ردابہ۔۔۔
آر یو اوکے۔۔۔اسکے بجھے لہجے کو محسوس کرتے اس نے سوال پوچھا تھا
ہاں بلکل آئی ایم اوکے تم سناؤ واپسی کب ہے؟؟
اسکے پوچھنے پر اس نے خود کو چئیر کیا تھا
واپسی۔۔یار اے بی ایکچوئیلی ڈینی اور میں شارجہ جارہے ایک کانٹریکٹ کے لئے۔۔اس کے لہجے میں ایسا پتا نہیں کیا تھا کہ ابراہیم چونکا تھا
کتنے دن کے لئے۔۔۔
چھ مہینے۔۔۔ اسکے بولتے ہی اسکا دماغ گھوما تھا
دماغ خراب ہے تمہارے یہاں میں پاگل بنا بیٹھا ہوں کہ تم آؤ اور میں اپنی فیملی سے بات کرو مگر تم تو مجھے سیریس ہی نہیں لے رہی ہو شادی کی باتیں ہورہی ہیں میری اور تمہیں کوئی پرواہ نہیں۔۔۔
اب۔۔
شٹ اپ جسٹ شپ اپ ردابہ کیا سمجھا ہوا ہے مجھے ہاں کوئی غلام ہوں میں جو ہوں رکا رہوں تمہارے لئے۔۔ اسکا غصے سے برا حال ہوا تھا تم نے کہا تھا تم واپس آکر شادی کرو گی اور اب یہ چھ مہینے کا تماشہ۔۔۔
ویٹ ۔۔۔یہ تم بات کس لہجے میں کر رہے ہوں ہاں میں نے کہا تھا کہ انتظار کرو تمہیں پتا ہے میرے لئے میرا کرئیر بہت اہم ہے اور غلام واٹ ربش۔۔۔
اگر تم ویٹ نہیں کرسکتے تو الگ ہوجاو کیونکہ فلحال کچھ سال تک میرا ارادہ صرف اپنے کرئیر پر فوکس کرنے کا ہے۔۔۔
اسکے دوٹوک انداز پر اسکا دماغ گھوما تھا
ٹھیک ہے پھر تم کرو جو کرنا مگر پھر سے گلہ مت کرنا۔۔۔
غصے سے بولتے اس نے فون کٹ کردیا لمحے میں وہ ایک نتیجے پر پہنچا تھا ساری پریشانی ہوا ہوئی تھی
بہت پچھتاؤ گی تم ردابہ بہت زیادہ۔۔۔۔
موبائل میں اسکا نمبر دیکھتا وہ خود سے بولا تھا۔۔
گھر آئے مہمان جا چکے تھے مگر جانے سے پہلے موت کا پروانہ اسے تھما کر گئے تھے اس نے ہاتھ میں انگوٹھی ڈال کر شادی کے لئے انہوں نے اگلے مہینے کی تاریخ مانگی تھی زلیخا نے اتنی جلدی تیاری کی وجہ پیش کی تو انہیں کچھ نہیں چاہیے بول انہوں نے زلیخا بیگم کی ساری پریشانی ہوا کی تھی وہ سمجھ رہی تھی ان کی خوشی کی وجہ ایک ان چاہے بوجھ سے جان چھوٹ جانے والی تھی۔۔
نور تو بے حد خوش تھی مگر خوشی تو دور اسکے چہرے پر کسی قسم کے کوئی تاثرات تک نہیں تھے
علی اس سے ملنے آیا تھا مگر زلیخا کی آواز پر وہ باہر آئی تھی
تم لوگوں نے تو بگاڑا ہے اسے اب کیوں آئے ہو کسی کی امانت کے اب دور رہو اس سے۔۔۔
وہ علی کو سنا رہی تھی اس کے ماتھے پر لاتعداد بل پڑے تھے
بس کردیں بس بہت ہوگیا اب تک چپ تھی کیونکہ لحاظ تھا کہ ابھی آپریشن ہوا ہے مگر آپ کو خدا کا خوف نہیں کیا سمجھتی ہیں آپ بچی ہوں جانتی نہیں ہوں کچھ اگر چپ ہوں تو بس اسکی وجہ سے۔۔اس نے نور کا بازو تھام کر ایک دم آگے کیا تھا
اگر بولی نا تو آپ اپنی اولاد کو کیا منہ دیکھائیں گی ہاں ۔۔۔
میں چپ ہوں کیونکہ اب میں کوئی بدمزگی اس گھر میں نہیں چاہتی تو برائے مہربانی مجھے بولنے پر مجبور نہیں کریں اور یہ بھائی ہے میرا دوست ہے اس نے نہیں بگاڑا مجھے تمہارے رویے نے بتایا ہے جس شخص کی جائداد چاہیے نا میں بھی اسی کی بیٹی ہوں۔۔۔وہ تڑخ کر بولی تھی
زلیخا بیگم کو اس سے اتنی صاف گوئی کی امید نہیں تھی ان کی زبان کو ایک دم بریک لگے تھے
چل علی۔۔۔ علی کا ہاتھ تھامتی دوپٹہ سنبھالے وہ باہر نکل گئی۔۔۔
دیکھا اس کو کیسے اپنا خون پسینا ایک کر اس ناگن کو پالا اور مجھے اتنا سنا کر چلی گئی۔۔
امی۔۔ یہ کس بارے میں بات کرکے گئی ہے کہ آنسہ۔۔ نور ان کے پاس آئی تھی
کچھ نہیں دماغ نا کھا میرا جا یہاں سے۔۔۔
اسے جھڑکتی وہ اندر بڑھ گئی دماغ میں ایک دم ٹیسیں اٹھی تھیں مگر انہیں پرواہ نہیں تھی پرواہ تھی تو بس ایک چیز کی جس پر اب وہ جلد از جلد عمل کرنا چاہتی تھی۔۔۔