پیدل چل چل کر اب پاؤں شل ہوچکے تھے اور جیسے جیسے رات کی تاریخی اپنے قبضہ زمین پر جما رہی تھی ویسے ہی خوف میں بلتردید اضافہ ہورہا تھا
بڑی سی چادر جس سے اپنا آپ چھپا رکھا تھا لیکن جنوری کی خون جما دینے والی سردی ہاتھ منجمد ہورہے تھے ۔۔۔۔۔ہر سو ہوُ کا عالم اگر کوئی درخت کا پتہ بھی ہوا سے ہلتا تو آواز جان نکال دیتی پاؤں میں بیڈ روم چپل جو اب کافی حد تک خراب ہوچکی تھی اور کانٹے اُس کچے راستے پر اُسکے پاؤں میں لگ رہے تھے اُس گاؤں سے کافی دور اچُکی تھی اور اب کوئی اور گاؤں شروع ہوچکا یہاں سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں اُسکے ہاتھ پاؤں لرزانے میں اپنا بھر پور حصہ لے رہے تھے
گاؤں تھا اور ویسے بھی جھنگ کی طرف گاؤں میں لوگ جلدی سو جاتے اور رات کے وقت کچی سڑکوں پر جن بھوتوں کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا
نہ ہی کوئی گاڑی اور نہ ہی زی روح کا جلد وہاں سے گزر ہوتا
"اللہ یہ کیا ہو رہا ہے”
اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی اُس کے پیچھے ہو لیکن پیچھے دیکھا تو کوئی بھی نہیں تھا
جنوں اور بھوتوں کی کہانیں بہت سنی تھیں لیکن اصل آج پتہ چل رہا تھا
پھر اچانک لگا جیسے کسی نے اُسکا بالوں کو ہاتھ لگایا ہو جب اُسنے جلدی سے اپنا ہاتھ پیچھے اپنی ٹیل پونی کی طرف کیا تو ایک مرتبہ جان نکل گئی اُسکی پونی ماجود نہیں تھی اور بال کھولے تھے لیکن ارد گرد کوئی نہیں تھا البتہ اتنی خاموشی تھی کے اگر پتہ بھی گرتا تو آواز ضرور آتی لیکن اُسے قدموں کی چانپ سنائی نہیں دی تھی
یکدم بھاگنا شروع کردیا اور منہ میں آیت اکرسی پڑھ رہی تھی
"طالش بچائیں”
پھر ضرور سے چیخی کیوں کہ ہوا زور پکڑ چُکی تھی ایدھر اُدھر بس کھیت اور بڑے بڑے درخت جو اُسکی وحشت میں کمی کی بجائے اضافہ کر رہے تھے
کانوں میں عجیب قسم کی آوازیں جیسے کوئی چلا رہا ہو ۔۔۔۔۔۔۔لیکن سمجھ سے باہر تھا پھر یکدم سب کچھ جیسے مجمند ہوگا
یہاں کچھ دیر پہلے درخت جھول رہے تھے وہاں اب پتہ بھی نہیں ہل رہا تھا
لیکن اُسے اپنی جان بچانی تھی بھاگنا تھا موت بلکل قریب آتی محسوس ہو رہی تھی
یہاں موت کی تمنا کر رہی تھی اور لگ تھا رہا موت کے خوف سے مر جائے گی
اُسے لگا جیسے بہت سارے لوگ اُس کے پیچھے بھاگ رہیں ہیں دوپٹہ جھاڑی میں پھنس کر اُس سے الگ ہو گیا تھا رات کا دوسرا پہر جس میں سردی خون جما رہی تھی
ابھی بھاگ ہی رہی تھی جب کسی سے ٹکرا گئی
"چٹاخ”
"چٹاخ”
ٹکرانے والا اور کوئی بھی طالش تھا تھپڑوں سے ہوش کی دُنیا میں آئی تو بس اتنا سمجھ آیا تھا کے طالش ہے ایک سیکنڈ میں اُسکے سینے سے کا لگی آنکھیں اتنی زور سے بیچ رکھی تھیں جیسے کھولیں تو وہ غائب ہوجائے گا
"طالش ”
چھوٹی سی سیسکی نکلی اور اُسکی باہوں میں جھول گئی
ایک تھپڑ اس وجہ سے مارا تھا کے اُسے چھوڑ کر آئی تھی جب کے دوسرا دوپٹہ نہ ہونے کی وجہ سے
لیکن اگلی طرف تھپڑوں کا کوئی اثر ہی نہیں ہوا تھا وہ آگیا تھا اتنا ہی بہت تھا
°°°°°°°°°°°°°°°°°′°°°°°°°°°°°°°
گاڑی گھر کے اندر پارک ہوئی تو دامل بھاگتا ہوا آیا
"بھائی بھابھی ؟؟؟؟”
اُسے بھی کافی دیر ہوگی تھی سڑکوں پر گاڑی گھومتے ہوئے لیکن اُسے تو عندلیب کہیں نظر نہیں آئی البتہ یہ یقین تھا کہ طالش ضرور لائے گا
"مل گی ہے یار ڈاکٹر کو بلاؤ بہت چوٹ لگی ہوئی ہے ”
طالش نے بھوجے ہوئے لہجے میں کہا اور پیچھے سے آکر اُسے دوبارہ اپنی باہوں میں اُٹھا لیا جو ابھی بھی بیہوش پڑی تھی
دو گھنٹے اُسنے کس اذیت سے گزرے تھے وہ بس طالش ہی جانتا تھا
لا کر بیڈ پر لٹیایا ۔۔۔۔جوتا جو ایک پاؤں میں تھا جبکہ دوسرا نہیں تھا اُسے اُتارا تو پاؤں سے خون بہہ بہہ کر سارا بھیگا ہوا تھا جسے دیکھ کر دل میں دُکھ کی لہر اُٹھی
ٹاول لاکر پاؤں کو اچھی طرح صاف کیا اب مسلہ کپڑوں کا تھا
پہلے تو بیٹھا دیکھتا رہا پھر اُٹھ کر آرام دہ کپڑے لے کر آیا کیوں کے دمل اور ڈاکٹر نے کمرے میں آنا تھا اور وہ ان کپڑوں میں کیسا برداشت کر سکتا تھا کہ کسی کی نظر اُس پر پڑے
لائٹ بند کی اور کپڑوں کو تبدیل کرکے اُسکے ایک کمبل دیا لیکن اُسے محسوس ہوا جیسے اُسکے ہونٹ ہولے ہولے سے سردی کی وجہ سے کانپ ۔۔۔اُسنے غور کیا تو اُسکے ہونٹ سردی سے نیلے پڑے ہوئے تھے ہاتھ بڑھا کر اُسکے ماتھا پر رکھا ایسے لگا جیسے جلتے توے پر ہاتھ رکھ دیا ہو
"دیب”
ٹرپ کر بولا جلدی سے دیوار میں لگے ہیٹر کی سپیڈ تیز کی اور کواڈ سے ایک اور کمبل نکال کر اُس پر اُوڑا
"بھائی ڈاکٹر آگا ہے”
دامل نے آکر اطلاع دی
تو اُسنے آنے کا اشارہ کیا
تھوڑی دیر میں ڈاکٹر نے اُسکا مکمل چیک اپ کیا
"طالش بیٹا آپکی کی بیوی کو سردی لگ گی ہے اور تیز بخار بھی ہے میں انجیشن لگا دیا ہے لیکن احتیاط کی ضرورت ہے اور کافی ویک بھی ہی ہی سکے تو ان کی ڈائیٹ پر توجہ دیں ”
ڈاکٹر اپنے محسوس انداز میں اُسکے پاؤں پر بنڈیجز کرتا ہوا بولا
تھوڑی دیر میں ڈاکٹر چلا گیا تو دروازہ لگا کر بیڈ پر آیا اُسے مکمل طور پر اپنے حصار میں لیا
"دیب کیوں نہیں سمجھتی تم ۔۔۔۔۔۔کیوں چھوڑ کر جارہی تھی مجھے ۔۔اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو طالش تو مر جاتا نہ”
اُسکے حصار میں شدت آئی وہ اُسے خود میں چھپا لینا چاہتا تھا یہاں سے کوئی اُسے دور نہ کر سکے
"طالش ”
وہ ہلکی سی ممنائی تو طالش نے عقیدت سے اُسکا نقش نقش چوم لیا
وہ پھر نیند میں چلی گئی لیکن آج اُسے نیند نہیں آنی تھی اسکے دور ہونے کا خوف ابھی بھی ماجود تھا
پاگلوں کی طرح کیسے اُسے دو گھنٹے ڈھونڈا تھا یہ وہی جانتا تھا ہر پل یہی لگتا تھا کے اب نہیں ملی تو ہمشہ کے لئے کھو جائے گی اور اُسکی زندگی ایک بار پھر محرومیوں کی نظر ہو جائے گی ۔۔۔۔اتنی مشکل سے تو اُسکے چہرے پر مسکان آئی تھی اور وہ پاگل لڑکی ایک بار پھر اُسے خود سے محروم کرکے اُسکی خوشیاں چھین کر جا رہی تھی
"دیب آئندہ کبھی نہیں ڈانٹوں گا میں اور پرومس کرو کبھی چھوڑ کر نہیں جاؤ گی ۔۔۔۔دیکھو تمہارا طالش اب اور قربانی نہیں دے سکتا ۔۔۔۔۔۔تم دور ہوتی ہو تو سانسیں بند ہوتی ہیں پلیز ۔۔۔۔کبھی یہ غلطی دوبارہ نہیں کرنا ”
بے بے خودی میں اُسے خود میں بھینچے باتیں کر رہا تھا جو ابھی ہوش کی دُنیا سے بہت دور تھی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"کس شہر سے ہو؟ کس کمپنی میں کام کرتے تھے؟ اور امریکہ جانے کے لیے کس نے آفر کی تھی؟
ایک ہاتھ میں پسٹل تھی جبکہ دوسرے سے چیئر کو گھوما تھی تھی ۔۔جبکہ محد سامنے بیٹھا ملزموں کی طرح کچہری میں پیش ہُوا تھا
"لاہور ۔شیمپو کی ایک چھوٹی سی کمپنی اور سر تھے وہاں کے ملک مجھے نام نہیں معلوم”
تینوں سوالوں کے بلترتیب جواب سنائے
"کیا تمہیں پتہ ہے اس وقت تم کہاں ماجود ہو”
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا لیکن زیادہ دیر اُسکی گہری آنکھوں میں نہیں دیکھ سکی تھی
"جی امریکہ میں”
خوشی سے بولا
"تمھیں اور تمہارے ساتھ جیتنے بھی لوگ تھے سب کو سمگل کیا گیا ہی ملک سے ۔۔۔حکومت کی لسٹ میں آج سے تم گم شدہ ہو کیوں کہ کسی بھی کاغذ میں تمہارا ڈی پوٹ ہونا تحریر نہیں ہوا ”
اپنے سر اور کیپ سیدھی کی تھی
"جی ۔۔۔۔۔آپ مذاق کر رہی ہیں نہ”
بچارے نے ایک آس کے تحت پوچھا
"نہیں میرا اور تمہارا کوئی مذاق نہیں ۔۔۔۔دوسری بات اب یہاں تو پہلے ہی لوگ بھوک اور غربت سے مر رہے ہیں اور تمھیں بھی ہمشہ ادھر ہی رہنا پڑے گا پاکستان جانے کے لیے بہت سارا پیسہ لگے گا کیوں کہ یہاں تم ابھی ماجود ہو یہ جگہ پاکستان سے بہت دور ہے البتہ ان دونوں ممالک کا فضائی راستہ بھی ماجود نہیں اور آخری بات اپنا منہ اٹھاؤ اور چلے جاؤ ۔۔۔۔”
اُسکے بالوں کو نقاہت سے دیکھتے ہوئے بولی
"آپ مجھے اپنے ساتھ رکھ لیں ۔۔۔میں کہاں جاؤں گا”
منت بھرے انداز میں کہا
"اچھا پھر ہم دو لڑکیاں اس جھونپڑے میں رہتی ہیں تمھیں اپنا انتظام وہ باہر کرنا پڑے گا رہنے کا اور ہمارا کھانا پکانا۔۔۔کپڑے دھونے ۔۔یہاں کی صفائی اور ہماری ڈرائیوری کرنی پڑے گی ۔۔۔۔اور تنخواہ تمہیں پوری ملے گی”
نوین نے مایا کے بولنے سے پہلے ہی کہہ دیا مایا نے غُصہ سے دیکھا
"منظور ہے”
مایا کی توقع کے عین مخالف اُسکا جواب آیا
"ٹھیک ہے اپنا جھونپڑا تیار کرو”
پھر مایا بولنے لگی اور نوین نے پھر موقع نہیں دیا
"کیا تکلیف ہے اُس ان پڑھ جہل اور جنگلی شکل والے کو اب ہم نوکری پر رکھیں گی”
واقعی اُسے اُسکا حلیہ بولنا کا انداز جو بلکل پنڈوں جیسا تھا بلکل بھی اچھا نہیں لگا تھا
"مجھے اچھا لگتا ہے دیکھا نہیں اُسکی باڈی سلمان خان سے زیادہ مضبوط اور اترایکٹو ہے مجھے بہت پسند آیا ہے”
"ہاں تمھیں تو ہر دوسرا پسند آجاتا کیا سب کو گھر میں نوکر رکھ لیں”
آختا کر جواب دیا اور پیر پٹختی اندر کو۔ چلی گئی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب سے عندلیب کو ہوش آیا تھا طالش کو اپنے پاس سے ہلنے نہیں دیا تھا اور اب بھی اُسکے سینے میں منہ دے کر دبک کر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔رات کو بھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد ڈر کی وجہ سے نیند میں ہی رونے لگ جاتی تو کبھی طالش کو آوازیں دینے لگتی
"دیب میری جان میں یونی جانا ہے۔۔۔کچھ نہیں ہوگا ۔۔برایو بنو”
ٹائم کی طرف دیکھتے ہوئے بولا دونوں ہاتھوں سے مضبوط حصار اُسکے گرد قائم کر رکھا تھا
"آپ کو میری جان سے زیادہ عزیز ہے یونی۔۔۔ٹھیک ہی پھر جائیں چاہے میں مر جاؤں ”
آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لاتی ہیں بولی
"دیب میں تھپڑ لگانا ہے اگر فضول بولی ہو تو ۔۔۔۔”
طالش نے شدت سے خود میں بھینچا
"آپکو پتہ ہے میں کتنی آوازیں دیں تھی آپکو وہ مجھے مار دیتے ”
وہ اُسکے بٹن سے چھیڑ چھاڑ کرتی ہوئی بولی ڈر ایک مرتبہ پھر اُسکی آواز لرزہ گیا تھا
"کوئی نہیں تھا دیب ۔۔۔۔تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔۔۔ڈرونہیں میں ہوں نہ پاس”
کمر سہلاتے ہوئے بولا اب تو اُسے یاد بھی نہیں تھا کے کتنی مرتبہ وہ اُسے یہ بات جب سے ہوش میں آئی ہی بتا چکی ہے
"نہیں طالش اُسنے میرے بال کھول دیے تھے اور کوئی رو رہا تھا۔۔۔۔۔۔”
اُسکی انکھوں کے سامنے پھر وہی منظر آیا تو جسم ہولے سے کانپا
"ایسا ہوتا ہے جب ہم ذہن پر کچھ سوار کر لیتے ہیں تو وہی حقیقت میں نظر آتا”
اُسکے بالوں اور اپنے لب رکھتا ہوا بولا
"ٹھیک ہے نہ مانے جائیں وہاں پر پتہ نہیں کون انتظار کر رہا ہے جو میری بات نہیں مان رہے”
غُصہ سے منہ پھولا کر پیچھے ہونے کی کوشش کی لیکن طالش نے ناکام کردیا
"ہاں ہے تو سہی کوئی جو مجھ سے عشق کرتا ہے لیکن اظہار بھی نہیں کرتا اور انتظار بھی نہیں کرتا”
طالش نے آنکھ ونگ کرتے ہوئے کہا
"ٹھیک ہے جائیں پھر ”
آواز روندی گی اور آنکھوں سے آنسو کی برسات شروع ہوگئی
"ہاں ہماری شادی ہوگئی نہ جب تو تمہیں اس کمرے سے جانا ہوگا لیکن تب تک میں تمہارے ساتھ کمپرومائز کر لو گا”
طالش کو اُسکے رونے کی خبر نہیں ہوئی تھی اپنی ہی دھن میں اُس سے منہ سے اظہار سننے کے لیے ایسی کوششیں کر رہا تھا
لیکن جب دوسری طرف سے جواب نہیں آیا تو اپنے سینے سے اُسکا سر اُٹھا کر دیکھا جو اُسے ایسا کرنے پر اونچی اونچی رونے لگ گی
"دیب کہیں پین ہو رہی ہے بتاؤ مجھے”
دل میں درد کی لہر اُٹھی تھی دونوں ہاتھوں سے اسکا چہرہ تھام کر پوچھ رہا تھا پر دیب ایک جھٹکے سے اُس سے الگ ہوئی اور واش روم میں جا کر بند ہوگی
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
"جانم بھابھی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے بہت جلد لے کر اؤں گا پلیز کچھ بولو تو سہی”
اتنی دیر سے ہر طرح سے تسلی دے رہا تھا لیکن اگلی طرف سے سانسوں کی آواز کے علاوہ کوئی آواز نہیں آئی تھی
"تم چاچو بنانے والے ہو”
یکدم ایک پرجوش آواز اُسکی سماعتوں سے ٹکرائی
"چلو جی ابھی شادی ہوئی کو پانچ دن ہوئے ہیں اب میرا بھائی اتنا بھی فاسٹ نہیں ہے ۔۔۔۔۔ہاں البتہ ہمارے بچے بہت جلد آئیں گے ۔۔۔شادی کے نو ماہ بعد ٹرپل نہیں چلو ٹوینز کر لیتے ہیں ۔۔۔۔اُنکے ماں باپ بننے کا شرف حاصل کر لیں گے”
اپنا پلیئنگ کرتے ہوئے جب موبائل کو دیکھا تو کال ڈسکانٹ ہو چکی تھی
اور دوسری طرف مہر کا رنگ سرخ گلاب کی طرح دھک رہا تھا ہاتھ کپکا رہے تھے
"دامل کتنے ہے شرم ہیں آپ”
مہر نے دل پر ہاتھ رکھ کر جیسے سپیڈ sy بھگتے ہوئے دل کو روکنے کے کوشش کی تھی جس کی آواز اُسے کانوں میں سنائی دے رہی تھی
"اتنا بھی نہیں ہوں”
موبائل پر نوٹیفکیشن شو ہوا تو اُسکا مسیج سامنے چمک رہا تھا اور مہر نے موبائل اُٹھا کر کافی دور پھینک دیا جیسا وہ موبائل سے نکل کر سامنے آجائے گا
دوسری طرف اُسکی حالت سے محفوظ ہوتے ہوئے ایک زور دار قہقہہ فضا میں بلند ہوا
جس کی مسکراہٹ دیکھ کر جگنو بھی اُسکے سر اور مڈلانے لگے
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
کچن ٹائپ کا ایک چھوٹا سا خانہ تھا جس میں کھڑے ہوکر محد کو کھانا پکانا تھا ۔۔۔۔وہ جگہ لڑکیوں کے لیے ٹھیک تھی جبکہ اُس جیسے باکسر ٹائپ مرد کا کھڑا ہونا ایک مشکل امر تھا
تھوڑا سا ہلتا تو ساری چیزیں اُس جگہ سے زمین پر کوچ کر جاتیں
"جنگلی ہمیں کام بھی کرنا ہے کتنی دیر ہے”
پہلے ہی بچارا تعادب کا شکار تھا پیچھے سے سخت آواز پر بری طرح چونکا اور ہاتھ پکڑا ہوا گھی چھوڑ دیا
"میں جا رہی ہو اگر کچھ بن جائے تو رکھ لینا میں آکر کھا لوں گی”
اُسے اگنور کرتی نوین کو حکم صادر کرتی چلی گی
پتہ نہیں کیوں لیکن اُسے بُرا لگا تھا اُسکا خالی پیٹ جانا اور سب سے۔ بڑی بات وہ دو دن سے مسلسل اُسے نظر انداز کر رہی تھی ایسا ہی ظاہر کرتی جیسے نوین کے علاوہ کوئی گھر پر رہتا ہی نہ ہو ۔۔۔۔۔کسی بات کا جواب دینا گناہ سمجھتی تھی
"ہنڈسم تم جاؤ میں بنا دیتی ہوں”
نوین کی بات سنتے ہی باہر چلا گیا
"پتہ نہیں سمجھتی کیا ہے چمکادڑ اپنے آپکو ”
اب گھر بلکل خالی لگ رہا تھا جبکہ اُسکے ہوتے ہوئے ایسا لگتا تھا جیسے ساری دنیا کی رونق ایک جگہ پر سیمٹ گئی ہو
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...