” آپ یہاں کیوں آگئیں؟ میں ہوں نا یہاں۔”
عدیل بینچ پر بیٹھا تھا کہ تبھی رخسار بیگم کو ہسپتال میں دیکھ فوراً ان کے سر جا پہنچا۔
” میری بچی یہاں ہسپتال میں ہے اور تم چاہتے ہو میں گھر بیٹھ جاؤں۔ کل رات کو گھر چلی گئی تھی۔ اب مسلسل گھر نہیں بیٹھ سکتی۔”
رخسار بیگم اُسے جھڑک کر بینچ پر آ بیٹھیں۔ ان کا دل گھر رکنے کو تیار ہی نہیں تھا۔
” خالہ عادی ٹھیک کہہ رہا ہے۔ آپ کو آرام کرنا چاہیے۔ ہم ہیں نہ ادھر۔”
آئینور کے کمرے کے باہر کھڑے غفار نے بھی انہیں سمجھانا چاہا مگر وہ کچھ سنے کیلئے تیار ہی نہیں تھیں۔
” نہیں میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔ میں یہیں رہوں گی اپنی نور کے پاس۔”
” لیکن خالہ آئمہ بھی گھر گئی ہوئی ہے۔ آپ کو بھی جانا چاہیے۔”
” نہیں بیٹا آئمہ کی مجبوری ہے۔ تم لوگوں کا بچہ گھر پر اکیلے ہے۔ پر میری بچی تو یہاں ہے۔ میں نہیں جاؤں گی۔”
رخسار بیگم کی ضد کے آگے غفار خاموش ہو گیا۔
” ٹھیک ہے رک جائیں ابھی پر رات کو واپس جائیں گی۔” عدیل ان کے پاس بیٹھتا ہوا بولا۔
رخسار بیگم نے کوئی جواب نہ دیا۔ بس خاموش بیٹھی اپنی تسبیح پڑھتی رہیں۔
۔***************************۔
جمعے کی نماز کے باعث مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ بچے، بوڑھے، جوان، سب نماز کی ادائیگی کے لیے یہاں موجود تھے۔ وہ وضو کرنے کے بعد اپنی آستینوں کو نیچے کرتا ساتھ ہی نمازیوں کو دیکھ رہا تھا۔ جن کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھری ہوئی تھیں۔ یہاں نہ کوئی امیر تھا نہ غریب یہاں سب ایک تھے، ایک مسلمان۔ وہ نماز کے لیے صف میں جا کھڑا ہوا۔ آئینور کی محبت اسے آج یہاں تک لے آئی تھی۔ وہ انسان جو کسی کے سامنے نہیں جھکتا تھا۔ آج اپنے رب کے سامنے جھک رہا تھا۔ کیونکہ انسان کتنی ہی دولت کیوں نا کمالے، لاکھوں روپیہ پیسہ ہونے کے باوجود وہ اپنے پیاروں کی سانسیں نہیں خرید سکتا۔
وہ آج جھک رہا تھا جو کسی کے سامنے نہیں جھکتا، وہ آج مانگ رہا تھا جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا تھا، آج وہ رو رہا تھا جو دوسروں کو رلاتا تھا۔
سلام پھیر کر اس نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا لیے۔ جو کبھی نہیں مانگتا تھا۔ آج اپنے رب سے مانگ رہا تھا۔
” اے میرے رب !! میں جانتا ہوں میری ساری زندگی خسارے میں گزری ہے۔ میں نے اپنے لیے جہنم کے راستے کو چنا اور اسی پر چلتا رہا پر آج میں تیرے در پر ہاتھ پھیلائے آیا ہوں اللّٰه مجھے معاف کر دے میرے گناہوں کو معاف کر دے۔ اس بشر کو مانگنا نہیں آتا مگر تو تو دلوں کے حال جانتا ہے۔
میں نہ سمجھ سکا۔ میری زندگی میں نور کو کیوں بھیجا گیا پر آج سمجھ آ رہا ہے۔ تو دے کر آزماتا ہے۔ تو لے کر بھی آزماتا ہے۔ میرے اللّٰه !! ہمیں زندگی کا نہ سہی موت کا ہی ساتھی بنا دے۔ میں معافی کے قابل نہیں پر میں جانتا ہوں تیری ایک صفات رحیم بھی ہے۔ اپنے حبیب کے صدقے مجھے معاف کر دے میرے اللّٰه، میرے گناہوں کو معاف کر دے۔”
وہ آنسو بہاتا بولتا جا رہا تھا۔ وہ کیا کہہ رہا تھا کیسے کہہ رہا تھا سب سمجھنے سے قاصر تھا۔ بس یاد تھا تو یہ۔۔ وہ معافی چاہتا تھا۔ آئینور کا ساتھ چاہتا تھا۔
اور پھر ندامت کا تو ایک آنسو ہی کافی ہے۔ سچے دل سے مانگی گئی معافی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
“وہ محبت بہت معتبر ہے۔۔۔
جو بندے کو اُس کے رب سے ملا دے۔”
نماز کے بعد وہ گھر آکر سیدھا پورچ میں موجود اپنی گاڑی کی جانب بڑھا۔ اسے گاڑی میں بیٹھتے دیکھ چوکیدار نے فوراً دروازہ کھولا تھا۔
ادھر چھت پر کھڑے رحیم نے اسے باہر جاتے دیکھ الٹے قدموں دوڑ لگائی مگر اس کے پہنچنے سے پہلے کردم گاڑی سٹارٹ کرتا تیزی بھگا لے گیا۔
” افففف !! کردم دادا بھی نا۔ نہ جانے اب کہاں چلے گئے۔”
رحیم سر جھٹک کر واپس اندر کی جانب بڑھنے لگا کہ اچانک کسی خیال کے تحت رکا اور پھر خود بھی پورچ میں موجود دوسری گاڑی کی جانب تیزی سے بڑھ گیا۔
۔***************************۔
گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کرکے اس نے گاڑی کو اس زیرِ تعمیر عمارت کے سامنے روکا۔ گاڑی سے نکلتا وہ سیدھا اندر کی جانب بڑھا تھا۔ جمعے کی دوپہر اور زیرِ تعمیر عمارت کے باعث ہر جگہ خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ وہ قدم قدم چلتا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس خاموشی کے عالم میں بس اس کے قدموں کی آواز آتی سنائی دے رہی تھی۔ وہ سیڑھیاں چڑھتا اوپری منزل میں چلا آیا۔
” کہاں ہو پاشا۔۔۔؟ لو میں آگیا۔”
پاشا کو پکارتا وہ چاروں طرف نظر دوڑا رہا تھا مگر مانو یوں لگتا تھا نہ کوئی بندہ ہے، نہ بندے کی زات۔
” کہاں ہو پاشا؟ ”
” اتنی جلدی بھی کیا ہے کردم دادا۔”
پیچھے سے آتی پاشا کی آواز پر کردم ایکدم پلٹا۔ سامنے ہی جیبوں میں ہاتھ ڈالے پاشا کھڑا مسکرا رہا تھا۔
” تو اس سب کے پیچھے تمہارا ہاتھ تھا اور خود پر سے شک ہٹانے کیلئے تم نے جمشید کو میری نظروں میں مشکوک بنا دیا تھا۔ صحیح کہا نا؟ ”
” بالکل !! سب کے پیچھے میرا ہی ہاتھ تھا۔ ویسے فاروق کا سن کر افسوس ہوا۔ اب ساری زندگی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکے گا۔”
پاشا کی بات پر کردم نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
” اُس کی حالت کے زمہ دار تم ہو۔ اگر تم اُس کو میرے خلاف نہ ورغلاتے تو وہ آج اس حال میں نہ ہوتا۔”
” بالکل ٹھیک کہا۔ اب وہ کہاوت تو تم نے سنی ہی ہوگی۔
(جب دوست بھی شامل ہو۔۔۔ دشمن کی چال میں۔
تو شیر بھی پھنس جاتا ہے۔۔۔ مکڑی کے جال میں۔)
بس اسی پر عمل کرتے فاروق کو ملا لیا اپنے ساتھ اور دیکھو آج تم خالی ہاتھ کھڑے ہو۔”
کردم جبڑے بھینچے اسے سن رہا تھا۔ اس کے خاموش ہوتے ہی بول اُٹھا۔
” بات اتنی بھی بڑی نہیں تھی۔ جتنا تم نے اسے بنا دیا پاشا۔”
” بالکل ٹھیک !! بات اتنی بڑی نہیں تھی جتنا تم نے سونیا کو بیچ میں لاکر بنا دیا۔” پاشا بھی دوبدو بولا۔
” اُس کے زمہ دار بھی تم ہو۔ نا تم میرے جہاز پر قبضہ کرتے نہ میں سونیا کو بیچ میں لاتا۔۔۔”
” اور نہ تم میری رکھیل کو اپنا مال سمجھ کر استعمال کرتے اور نہ اس دشمنی کا آغاز ہوتا۔”
وہ کردم کی بات بیچ میں کاٹتا تیش بھرے لہجے میں بولا۔
” میں تم سے یہاں یہ فضول باتیں کرنے نہیں آیا۔” کردم اُکتا گیا۔
” ہاں !! کردم دادا تو یہاں اپنی رکھیل کی موت کا بدلہ لینے آیا ہے۔ ویسے بڑا مست مال چھپا۔۔۔”
اور کردم دادا کی یہاں بس ہوئی تھی۔ اس سے پہلے پاشا اپنی بات مکمل کرتا کردم نے اپنا فولادی مکا اسکے منہ پر جڑ دیا۔ پاشا لڑکھڑا کر پیچھے ہٹا۔ ہونٹ کے کنارے سے نکلتے خون کو اس نے اپنے انگوٹھے سے صاف کیا۔
” اب جب تم شروعات کر ہی چکے ہو تو مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ کردم دادا۔”
وہ کہتا ہوا تیزی سے آگے بڑھا اور ایک گھونسا اس کے منہ پر مارنا چاہا جسے بڑی آسانی سے کردم نے قابو کر ایک اور مکا اس کے منہ پر مار دیا۔
” سب سے چھپا کر رکھا تھا میں نے اُسے۔ میری بیوی تھی وہ۔ میرے بچے کی ماں بننے والی تھی۔ لیکن تم نے انہیں مار ڈالا۔”
کردم بےقابو ہوتا اس پر گھونسے اور مکے برسا رہا تھا۔ پاشا نے ایکدم سنبھل کر اسے دھکا دیا۔ کردم دو قدم پیچھے ہوا۔ تبھی پاشا نے دھاڑتے ہوئے ایک لات کردم کے پیٹ میں ماری۔
” میں نے بھی سونیا کو سب سے چھپا کر رکھا تھا کردم دادا۔ مگر تو نے اسے ڈھونڈ کر اغوا کیا اس پر گولی چلائی۔”
کردم کو گریبان سے پکڑ کر اس نے مکا کا اس کے چہرے پر مارنا چاہا مگر کردم نے تیزی سے اپنا گریبان چھڑوا کر اس کا ہاتھ پیچھے کمر پر لے جاکر موڑ دیا۔ پاشا بلبلا اٹھا۔
” گولی ہی چلائی تھی۔ اُس کی عزت پر ہاتھ نہیں ڈالا تھا۔ پر تو نے میری عزت پر وار کیا ہے۔ اب میں تیری جان پر وار کروں گا۔”
کردم نے اس کا ہاتھ موڑے پاشا کے گلے میں ہاتھ ڈالا اور زور لگا کر اسے اُلٹ دیا۔ پاشا منہ کے بل زمین پر جاگرا۔
” اب دیکھ تیری سونیا کا کیا انجام کرتا ہوں روح تک نہ کانپ جائے تو کہنا۔”
کردم کی بات نے پاشا کے غصّے کو ہوا دی تھی۔ وہ تیزی سے اُٹھا اور اس کے منہ پر گھونسا جڑ دیا۔ کردم پیچھے ہوا۔ تبھی ایک لات پاشا نے کمر پر ماری جس کے باعث کردم زمین پر جاگرا۔
” اگر اُسے ایک کھروچ بھی آئی تو تیرے جسم کو اتنے ٹکڑوں میں تقسیم کروں گا کہ تیرے آدمی بھی ساری زندگی تجھے اکھٹا نہیں کر پائیں گے۔”
گریبان سے کردم کو پکڑ کر اسے اپنے مقابل کرتا غرایا۔ پاشا کے چھ فٹ قد کے آگے کردم کا پانچ فٹ دس انچ قد چھوٹا ہی لگ رہا تھا۔
” تم ہمیشہ مجھ سے دو قدم پیچھے رہو گے کردم دادا۔” طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ اسے دیکھتا ہوا بولا۔ اس وقت وہ دونوں مٹی میں اٹے ہوئے تھے۔
” غلط فہمی ہے تمہاری پاشا میں ہمیشہ دو قدم تم سے آگے رہا ہوں۔ تبھی تو آج میں ” کردم دادا ” اور تم “پاشا بھائی” ہو۔ تم کبھی میرے مقابل نہ آسکے۔ میں آج بھی سر اُٹھا کر دیکھتا ہوں اور تم سر جھکا۔”
پاشا نے بھڑک کر ایک بار پھر مکا کردم کے منہ پر مارا۔ جس کے باعث کر دو قدم پیچھے ہوا کہ تبھی پاشا نے اپنی جیب میں چھپا گن نکال کر اس پر تان دیا۔
” بہت بکواس سن لی تمہاری۔ چلو اب تمہیں بھی تمہارے بیوی بچے کے پاس پہنچا دیا جائے۔”
اس سے پہلے پاشا گولی چلاتا۔ کردم نے اُچھل کر ایک لات اس کے ہاتھ پر ماری۔ گن ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گری۔ پاشا نے گن کی طرف دیکھا کہ تبھی ایک اور لات پاشا کے پیٹ پر پڑی۔ وہ کمر کے بل نیچے گرا۔ کردم نے جلدی سے آگے بڑھ کر پستول اُٹھایا اور پاشا کے سامنے آ گیا۔ پاشا زمین پر گرا اسے پستول خود پر تانے دیکھ رہا تھا۔
” دل تو کر رہا ہے تیرے وجود سے ایک ایک بوٹی نوچ نکالوں پر نہیں اب میں وہ کردم دادا نہیں رہا جو اگلے بندے پر زرا رحم نہیں کرتا تھا۔”
کردم نے کہتے ہی اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ فضا میں فائرنگ کی آوازیں بلند ہوئی اور پھر دم توڑ گئیں۔ پاشا کا تڑپتا وجود منٹوں میں بےجان ہوا تھا۔ کردم نے حقارت آمیز نظر اس پر ڈال کر پستول دور اُچھال دی۔ وہ مڑ کر جانے لگا کہ ایک اور فائر کی آواز فضا میں گونجی اور اس بار کردم کا وجود زمین بوس ہوا تھا۔ کردم نے بامشکل چہرہ اُٹھا کر سامنے دیکھا جہاں سے وہ شخص قدم قدم اُٹھاتا اس کے سامنے آ بیٹھا۔
۔*****************************۔
ہپستال کے کمرے میں موجود آئینور کا بیہوش وجود بیڈ پر پڑا تھا۔ سامنے صوفے پر عدیل بیٹھا ایک ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھے بےبسی سے کبھی آئینور پر نظر ڈالتا تو کبھی چلتی مشینوں پر جس میں دل کی حرکت کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ یوں ہی نظریں جمائے بیٹھا تھا کہ اچانک مشین میں نظر آتی دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگیں۔ عدیل گھبرا کر اُٹھتا فوراً ڈاکٹر کو پکارتے ہوئے باہر کی جانب بھاگا جہاں غفار بیٹھا رخسار بیگم سے بات کر رہا تھا۔
” کیا ہوا؟ ” عدیل کا گھبرایا ہوا چہرہ دیکھ کر وہ دونوں فوراً اُٹھے۔
” کیا ہوا میری بچی ٹھیک ہے نا۔” رخسار بیگم یکدم پریشان ہو اُٹھیں۔
” نہیں آپی۔۔۔ آپی۔” عدیل سے الفاظ ادا نہ ہوسکے۔ غفار ان کو وہیں چھوڑ کر ڈاکٹر کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ غفار کے بلانے پر ڈاکٹر بھی فوراً آئینور کے کمرے کی جانب بڑھے تھے۔
عدیل پریشانی سے باہر چکر کاٹ رہا تھا۔ رخسار بیگم بینچ پر بیٹھیں تسبیح پڑھنے کے ساتھ ساتھ آنسو بہا رہی تھیں۔
” آپ فکر نہیں کریں وہ ٹھیک ہو جائیں گی۔”
غفار نے انہیں تسلی دینی چاہی کہ تبھی ڈاکٹر کمرے سے باہر آئے۔ انہیں دیکھتے ہی عدیل اور غفار ڈاکٹر کی جانب بڑھے۔
” کیا ہوا ڈاکٹر؟ ” عدیل نے بےتابی سے پوچھا۔
“سوری !! ہم اُنہیں نہیں بچا سکے۔” ڈاکٹر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر آگے بڑھ گئے۔ اور وہاں موجود تمام لوگوں پر گویا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ہسپتال کے اس کمرے کے آگے عدیل اور رخسار بیگم کو سنبھالنا غفار کے لیے مشکل ہو گیا۔ ان کی سسکیاں اور آہیں اندر کمرے میں موجود آئینور کا بے جان وجود سنے سے قاصر تھا۔ وہ جا چکی تھی۔ ہمیشہ کیلئے۔
“جانے والے کو کیا پتا وہ پیچھے کیا چھوڑ چلا ہے۔
اپنوں کو روتا چھوڑ کر وہ ایک نئے سفر پر چلا ہے۔”
۔******************************۔
” کیسے ہو کردم؟ ” وہ مسکرایا۔
” آوہ !! میں بھی کیسی باتیں کر رہا ہوں۔ تمہیں تو گولی لگی ہے۔ تمہیں تو تکلیف ہو رہی ہوگی نا۔”
” آغا !! ” کردم بے یقینی سے بولا۔
” اووو !! حیران ہو رہے ہو نا۔ میں کیسے۔ چلو تمہاری پریشانی دور کر دیتا ہوں۔”
کردم بے بس سا اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کے جسم سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا۔ تکلیف ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی تھی۔
” تمہیں پتا ہے۔ میں ہمیشہ سے جانتا تھا۔ پاشا انڈیا میں نہیں بلکہ پاکستان میں ہی ہے۔ لیکن میں انجان بنا رہا۔ جانتے ہو کیوں؟”
وہ رکا مسکراہٹ گہری ہوئی۔
” کیونکہ میں چاہتا تھا۔ تم مر جاؤ تاکہ تمہارے بعد میں اس جگہ آجاؤں جہاں تم ہو۔ میں تم سے پہلے اس گینگ کا حصّہ تھا۔ مگر خاور دادا کے خاص آدمی تم بن گئے، کردم دادا۔”
آغا حسن کے مسکراتے چہرے کے تاثرات بدل کر یکدم سخت ہوئے تھے۔
“میں جانتا تھا۔ تمہیں مارنا اس پاشا کے بس کی بات نہیں اس لیے میں نے سوچا کیوں نا اس کے کندھے پر رکھ کر گولی چلائی جائے۔ ماروں گا میں مگر سب یہ ہی سمجھیں گے کہ تم دونوں نے ایک دوسرے کو مار ڈالا۔”
آغا حسن اور نہ جانے کیا کیا بولتے جا رہا تھا۔ مگر کردم کا دھیان اس کے پیچھے نظر آتے آئینور کے عکس پر تھا جو سفید فراک میں کھڑی مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی۔ ناک میں چمکتی لونگ اس کی مسکراہٹ میں چار چاند لگا رہی تھی۔ ہاتھ میں موجود نیلا نگینہ دمک رہا تھا۔ وہ اس سے کہہ رہی تھی۔
” یہ ایک ایسا دلدل ہے جہاں یہ پتا لگانا مشکل ہے کہ کون ہمارا دوست ہے اور کون دشمن۔ ہم کبھی نہیں جان سکتے، دوست کی شکل میں کتنے آستین کے سانپ پال رکھے ہیں۔”
” نور !! ”
ایک مدہم سی آواز کردم کے لبوں سے نکلی اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔
آغا حسن اُٹھ کھڑا ہوا کہ تبھی ہوا میں ایک بار پھر فائر کی آواز گونجی اور گولی سیدھا آغا حسن کے دل کو چیرتے ہوئے نکل گئی۔ وہ زمین بوس ہوا۔ کردم نے بامشکل آنکھیں کھول کر اس گولی چلانے والے کو دیکھا۔ سامنے کھڑا شخص رحیم تھا۔
” کردم دادا !! ”
وہ تیزی سے کردم کی جانب بڑھا اور نیچے بیٹھ کر اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ کردم کی مدہم سانس اسے خوف میں مبتلا کر رہی تھی۔
” دادا ہمت۔۔۔ ”
وہ آگے کچھ بولتا اس سے پہلے اس کا موبائل بج اُٹھا۔ رحیم نے موبائل نکالا۔ غفار کی کال تھی۔ اس نے ایک نظر فون کو دیکھا پھر کردم کو جو آنکھوں سے اسے فون اُٹھانے کا کہہ رہا تھا۔ رحیم نے نہ چاہتے ہوئے بھی کال اُٹھالی مگر دوسری جانب سے آتی آواز پر وہ کتنے ہی لمحے ساکت رہ گیا۔ اس نے کردم کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
” نور؟ ”
کردم بامشکل بولا۔ رحیم نے اس کا سوال سمجھ کر نفی میں سر ہلا دیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ مگر کردم مسکرا دیا۔
” دادا !! ”
رحیم نے اسے پکارا۔ لیکن وہاں سن کون رہا تھا۔ وہ تو بند ہوتی آنکھوں سے اپنی نور کا عکس دیکھ رہا تھا۔ جو کھڑی مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی۔ بلا رہی تھی۔ ہاں !! وہ بلا رہی تھی۔ اسے اپنے پاس بلا رہی تھی۔
” کیا ہوا جو تیرے سنگ نہ جی سکے۔
یہ خوشی تو ہے کہ تیرے سنگ ہی مر چلے۔”
کردم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اس کے ساتھ ہی رحیم کی آواز اس زیرِ تعمیر عمارت میں گونج اُٹھی۔
” کردم دادا !! ”
۔****************************۔
ایک سال بعد۔۔۔
وہ قبر پر پھول رکھ کر سیدھا کھڑا ہوتا فاتحہ پڑھنے لگا۔ پیچھے کھڑی رخسار بیگم آنسو بہاتی اسے دیکھ رہی تھیں۔ فاتحہ پڑھ کر اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور سامنے بنی قبروں کو دیکھنے لگا۔ جہاں وہ دونوں ابدی نیند سو رہے تھے۔ کردم کی لاش کو بھی رحیم کراچی لے آیا تھا اور یہیں کے قبرستان میں ان دونوں کو ایک ساتھ دفنا دیا تھا۔ یہ کردم کی ہی خواہش تھی۔ جو پاشا سے ملاقات سے پہلے ہی اس نے رحیم سے کی تھی کہ اگر انہیں کچھ ہو جائے تو انہیں وہاں دفنایا جائے جہاں ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ (مطلب کراچی)
” چلیں۔”
عدیل آنسو صاف کرتا پیچھے مڑا اور رخسار بیگم کو دیکھتے ہوئے بولا۔
وہ بھی آنسوں صاف کرتی اثبات میں سر ہلا کر اس کے ساتھ ہی قبرستان سے باہر آگئیں۔ جہاں رحیم گاڑی میں بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا۔
انہیں باہر آتا دیکھ وہ نم آنکھوں سے مسکرا دیا۔
” چلیں رحیم بھائی۔”
عدیل گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بولا۔ رخسار بیگم پہلے ہی پچھلی نشست پر بیٹھ چکی تھیں۔ جہاں انہوں نے بیٹی داماد کو کھویا تھا۔ وہیں انہوں نے رحیم کی صورت ایک بیٹا پالیا تھا۔
” اوکے باس۔”
رحیم مسکرا کر کہتا گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔ وہ چل پڑے تھے۔ ماضی کو پیچھے چھوڑتے ایک نئے سفر پہ۔
۔*****************************۔
چھت پر کھڑی وہ اپنے ہاتھ میں موجود اس تصویر کو تپش بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ ہوا کے جھونکے اس کے بالوں کو اُڑاتے چہرے پر لارہے تھے۔ جنہیں اس نے ہٹانے کی بالکل کوشش نہیں کی تھی۔
” اچھا ہوا تم مر گئے کردم دادا !! ورنہ میں اپنے ہاتھوں سے تمہاری جان لیتی۔ تمہاری وجہ میرا سب کچھ مجھ سے چھین گیا سب کچھ۔”
اس نے کہتے ہوئے ہاتھ میں موجود تصویر کو کئی ٹکڑوں میں بانٹ کر ہوا میں اچھال دیا۔ وہ نفرت سے ان ٹکڑوں کو نیچے گرتے ہوئے دیکھ رہی تھی کہ تبھی پیچھے سے کسی نے پکارا۔
” سونیا !! ”
۔******************************۔
ختم شد۔