نور العین فراز شاہ بنتِ فراز اکبر شاہ آپ کا نکاح فارس شاہ ولد دلاور شاہ کے ساتھ 10 لاکھ سکہ راٸج وقت طے کیا جا رہا ہے۔ کیا آپکو یہ نکاح قبول۔ہے۔۔۔؟؟
وہ جو گھونگھٹ نکالے بیٹھی تھی۔ اور اپنی قسمت پے آنسو بہا ری تھی۔ نکاح کے وقت لیے گۓ نام پے چونکی۔
سمجھ ہی نہ آیا کہ کیا بولے۔
مولوی صاحب نے پھر سے دہرایا۔
عین اس بار بھی نہ بولی۔
عین بیٹا۔۔!! مولوی صاحب کو جواب دو۔
ماریہ شاہ نے خوشی کہا۔ تو وہ گھونگھٹ کی آڑ سے ماں کے چہرے پے خوشی اور اطمینان دیکھتے ہاں بول گٸ۔ مولولی صاحب قبول و ایجاب کے بعد باہر آگۓ۔ فارس سے بھی نکاح کے مراحل طے کرتے اب وہ دعا کر رہے تھے۔ سب وہیں موجوو تھے سواۓ ابرار کے۔ وہ وہاں سے جا چکا تھا۔
دردانہ بھی واک۔آٶٹ کرنا چاہ رہی تھیں۔ لیکن کبیر شاہ کی گھوری پے خاموشی سے نکاح میں شامل تو ہوگٸیں۔ لیکن دلمیں مزید بغض بھرگیا۔
مبارک ہو سب کو۔ نکاح مکمل ہوا۔
مولوی صاحب نے کہا تو الماس بیگم نے خوشی سے آگے بڑھ کے اہنے بیٹے کو گلے سے لگایا۔عین کو دعا باہر لے آٸی۔وہ بھی بہت خوش تھی۔ فارس عین کے لیے پرفیکٹ تھا۔ ایسا وہ سوچتی تھی۔ لیکن عین کیا سوچتی تھی۔۔کسی کو نہیں پتہ تھا۔
فارس اور عین کو ایک ساتھ بٹھایا گیا۔ صدقہ اتارا گیا۔ دعاٸیں دی گٸیں۔
کسیبھی رشتہ دار یا محلے میں سے کسی کو نہیں بللایا گیا تھا۔بس گھرکے ہی افراد تھے۔
زیان جس نے آتے ہی یہ کایا پلٹ دیکھی تو بے انتہا خوش ہوا۔ عین اسے بھی عزیز تھی۔ اور فارس کا یہ فیصلہ اسے بہت خوش کر گیا۔
اس نے آتے ہی رونق لگا دی۔ اور ان لمحوں کو تصویروں میں قید کرنے لگا۔
غرض سبھی خوش تھے۔ سواٸے کبیر شاہ کی فیملی کے۔
انکے سارے یے کراٸے پے پانی جو پھر گیا تھا۔
دردانہ بھی وہاں سے جا چکی تھیں۔
کبیر شاہ نے جلے دل سے انہیں دعا دی۔ اورر باہر نکل گٸے۔
آج تاریخ نے پھر خود کو دہرایا تھا۔
جیسے انہیں یہ احساس دا کہ خاندان کی بیٹی نہیں دی گٸ تھی۔ آج انکے بیٹے کو بھی نکاح کے وقت ٹھکرا دیا گیا۔
اور کسی کو اس بات سے فرق بھی نہ پڑا۔ کیونکہ وہ اس خاندان کے تھے ہی کہاں۔۔۔ کہ کوٸی انکے یا انک بچوں کے بارے میں سوچتا۔
دل پے پتھر رکھ وہ ڈیرے کی طرف چلے گۓ۔ جہاں ابرار شاہ غصے سے گیا تھا۔انہیں اپنے بیٹے کو سنبھالنا تھا۔
دل تو چاہتا ہے کہ۔۔۔ ابھی اپنی عین کو رخصت کر کے لے جاٶں۔۔۔ لیکن۔۔۔ ایسے نہیں۔۔۔۔ بہت دھودھام سے لے کے جاٸیں گے ہم اپنی عین کو۔۔۔۔
عین کو خود سے لگاتے کہتے الماس بیگم رو دیں ۔
ہر موڑپے ہی تو وہ یاد آۓ جارہا تھا۔
اماں۔۔۔۔!! آنسونہیں۔۔۔۔!!
فارس نے ماں کو سینے سے لگایا۔ اور انکا ماتھا چوما۔
تو وہ فارس کےساتھ لگیں نم آکنکوں سے مسکرا دیں۔
آج فارس ہمیشہ کے لیے واپس لوٹا تھا۔اپنی ماں کے لیے۔
اور بھاٸی کی موت کا بدلہ لینے کے لیے۔۔۔
عین کو واپس روم میں پہنچا دیا گیا۔ وہ ہونقوں کیطرح بیٹھی خود کو دیکھ رہی تھی۔
قسمت نے کیسا پلٹا کھایا تھا۔
عفان کے ساتھ ہونے والی شادی۔۔۔ اسکی موت پے ختم ہوگٸ۔
پھر ابرار شاہ سے اچانک نکاح کا پتہ چلا۔
جی میں آیا زہر کھالے۔
لیکن ماں باپ کا خیال زیادہ تھا۔ اور وہ ڈرپوک تو شروع سے ہی تھی۔ اس یے خامموشی سے قسمت کا لکھا قبول کر رہی تھی۔
پھر عین وقت پےفارس سے نکاح نور العین کی دل کی دھڑکنوں میں ہلچل مچا گیا تھا۔
اور ایسا کیوں تھا۔۔۔؟؟وہ نہیں سمجھ پارہی تھی۔
لیکن جو بھی تھا دل پریشان نہ تھا۔
ایک عجیب سی سر شاری تھی۔
وجہ نہیں جان پارہی تھی۔
لیکن اگلے ہی لمحے ۔۔۔۔۔
دل پھر سے ایک ٹھیس اٹھی۔۔
فان۔۔۔۔!! آنکھیں بھیگ گٸیں۔۔۔
قسمت کے کھیل بھی نرالے ہیں۔۔۔
انسان زمین پے جوڑ بناتا رہتا ہے۔۔۔ لیکن یہ بھول جاتا ہے۔۔ کہ اصل جوڑی تو اللہ بناتا ہے۔۔۔
سب کچھ اس کے ہاتھ میں ہے۔
کسطرح بل پے بل دے کے قسمت نے فارس اور نور العین کو ایک دوسرے سے جوڑا تھا۔
یہ سب اللہ ہی کی کرنی ہے۔۔۔
آج الماس بیگم بھی خوش تھیں۔ کہ ان کے مرحوم بیٹے کی پسند کسی اور کے گھر نہیں انہی کےگھر لوٹ آٸی تھی۔
وہ نور العین کو لے کے بہت حساس تھیں۔
اور جب ابرار کا رشتہ رکھا گیا۔ تو ایک لمحے کو انکا جی چاہا یا تو عفان واپس لوٹ آٸے یا فارس عین کو اپنا لے۔
کچھ گھڑیاں قبولیت کی ہوتی ہیں۔
اور سچے دل سے مانگی دعاٸیں۔۔۔ قبول ہو ہی جاتی ہیں۔
انکی بھی یہ دعا قبول ہو گٸ تھی۔
انہوں ننے شکرانے کے نفل ادا کیے۔
سلام پھیرا تو فارس سامنے ہی نظر آیا۔
جو سر جھکاٸے صوفے پے بیٹھا ماں کا انتظار کر رہا تھا۔
الماس بیگم اٹھتی اس کے پاس آٸیں۔
اس پے دعا مانگتے پھونک ماری تو وہ چونکا۔
الماس بیگم اس کے پاس ہی بیٹھ گٸیں۔
تو فارس نیچے کارپٹ پے انکے قدموں میں بیٹھ گیا۔
اماں۔۔۔!! آپ۔۔۔ خفا تو نہیں۔۔۔ ناں۔۔۔؟؟ ماں کے ہاتھ تھامتے ہوٸے پیار بھری نظروں سے دیکھتے پوچھا۔
نہیں۔۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔۔!! الماس بیگم نے اس کے چہرے پے پیار سے ہاتھ پھیرا۔ جبکہ دوسرے ہاتھ میں تسبیح تھی۔
فارس نے سر ماں کی گود میں رکھ لیا۔
اماں۔۔۔!! فان۔۔۔ کی بہت یاد آرہی ہے۔۔ آج۔۔۔۔!!
آنکھیں بند کیے اسکیآنکھیں نم۔ہوٸیں۔
بیٹا۔۔۔ اب تو وہ یادوں میں ہی رہ گیا ہے۔۔۔
اس کے لیے دعا کردیا کرو۔۔۔ جب بھی یاد۔۔۔ آٸے۔۔۔
فارس کے بالوں میں پیار سے ہاتھ چلاتے انہوں نے بہت دھیمے لہجے میں کہا۔
اماں۔۔۔ فان۔۔ کو کیا۔۔۔ کوٸی۔۔ دکھ تھا۔۔۔؟؟ کوٸی۔۔۔۔ پریشانی تھی۔۔۔؟؟ جو اس نے۔۔۔ ہممیں سے کسی۔۔ کے بارے میں نہ سوچا۔۔۔ اوراتنا بڑا قدم اٹھا لیا۔۔۔؟؟
وہ سوال جو اتنے عرصے سے پرشان کر رہا تھا۔
ماں کے آگے کر ہی دیا۔
بیٹا۔!! دلوں کی باتیں۔۔۔ تو رب ہی جانتا ہے۔۔۔
کبھی۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔ کہا۔۔۔ ایسا۔۔۔ کہ اسے کوٸی پریشانی ہو۔۔۔۔!!
سوچتےہوٸے کہا۔
اور۔۔۔ سب سے زیادہ تو ۔۔۔ وہ عین کے ہی قریب تھا۔۔۔
الماس بیگم کی بات پے فارس نے لب بھینچے۔
اس سے تو حساب بے باک کرنے ہی تھے۔
لیکن وہ فی الحال اس خط کے بارے میں کسی سے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔
اماں۔۔ آپ آرام کریں۔
ماتھے پے بوسہ دیتے وہ اٹھا۔
فارس۔۔۔!! میرے بیٹے۔۔۔۔ عین کو اپنانے کا فیصلہ ۔۔ آپ کا اپنا تھا۔۔۔ اس لیے میں امید کرتی۔۔ ہوں۔۔ کہ آپ اسے آخری سانس تک نبھاٸیں گے۔۔۔ اور کبھی۔۔ ہمیں شرمندہ نہیں کریں گے۔
االماس بیگم کے الفاظ پے فارس کا دل بہت زور سے دھڑکا۔ وہ ماں سے کوٸی ایسا وعدہ نہیں کر سکتا تھا۔
جو بعد میں پورا نہ کر سکے۔
ان شاء اللہ ۔۔۔۔اماں۔۔۔!! نظریں چراتا وہ کہتے باہر نکل گیا۔
الماس بیگم کو اسکا نظریں چرانا کھٹکا تھا۔
بس کر جاٶ۔۔۔ ابرار۔۔۔ اور کتنا پیو گے۔۔۔؟؟
کبیر شاہ نے غصے اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات سے کہا۔
نہیں۔۔۔ بابا۔۔۔ آپ نے۔۔ اپنا وعدہ توڑ دیا۔۔۔!! وہ۔۔ وہ عین کو چھین لے گیا۔۔ مجھ سے۔۔۔ وہ میری۔۔ تھی۔۔۔ صرف ابرار کی۔۔۔ آپ۔۔ نے کچھ نہ کیا۔۔۔
وہ غلیظ محلول اپنے اندر اتارتے ے بسے اور غصے سے بولا،
سنبھالو۔۔۔ خود کو۔۔ ابرار۔۔۔ اگر وقت آج انکے ہاتھ میں ہے تو۔۔ کل ہمارے ہاتھ میں ہوگا۔۔۔
آج۔۔ صرف نکاح ہوا ہے۔۔۔ رخصتی نہیں۔۔۔!! تم چھوڑو اسے۔۔۔ چلو۔۔ گھر۔۔۔!!
کبیر شاہ نے اسے تھاما۔ بوتل دور کی۔
وہی تو انکی کل کنجی تھا۔ انکا وارث۔۔
مجھے۔۔اکیلا۔۔ چھوڑ دیں۔۔ بابا۔۔۔ میں۔۔ اکیلا رہنا چاہتا ہوں۔۔۔
وہ درد سے چور زمین پے بیٹھتے ہوٸے بولا۔
دونوں باپ بیٹا ڈیرے پے تھے۔کبیر شاہ بھی اس کے ساتھ بیٹھ گۓ۔ وہ اپنے بیٹے کو اکیلا کیسے چھوڑ سکتے تھے۔۔۔؟؟
بابا۔۔۔ وہ میری تھی۔۔۔۔۔!!
پھر سے۔۔ کہتے وہ رو دیا۔۔
بس کردو۔۔۔ابرار۔۔ وہ اب بھی آپ کی ہے۔۔۔ میرا وعدہ ہے۔۔۔ اسے آپ کے قدموں میں لا کے بٹھاٶں گا۔۔ پھر جو چاہے کر لینا۔۔۔ نہیں روکوں گا۔۔۔ لیکن خود کو سنبھالومیری جان۔۔۔!! کبر شاہ رنجیدہ ہوٸے۔۔۔
آپ۔۔۔ سچ کہہ رہے ہیں۔۔ ناں۔۔؟
امید سے پوچھا۔
بیٹا۔۔۔ برسوں پہلے۔۔۔جو میرے ساتھ ہوا۔۔۔و ہ میں آپ کے ساتھ نہیں۔۔ ہونے دوں گا۔۔ کبھی نہیں۔۔ ہونے دوں گا۔۔
یہ وعدہ ہے میرا۔
پورے یقین سے کہا۔ تو ابرار باپ کے گلے سے لگ گیا۔
اب کیا خیال۔ہے۔۔۔؟؟ ابھی بھی یہیں۔۔رکنا ہے۔۔ یا چلنا ہے۔۔۔؟؟ زیان نے صبح ناشتے کے بعد دعا سے پوچھا تو وہ مسکرا دی۔
وہ عین کے لیے بہت خوش تھی اور مطمیٸن بھی۔
اب وہ ریلیکس ہو کے شہر جا کے پڑھ سکتی تھی۔
ہممممم۔۔۔ سوچتے ہیں۔۔ زیان۔۔ شاہ۔۔۔۔!!
جھولا لیتے وہ اترا کے بولی۔
کل ہم جا رہے ہیں۔۔ سمجھی۔
زیان نے وارن کیا۔
آپ ابھی سے ہم پے۔۔ حکم چلا رہے ہیں۔۔۔
its not fair…
منہ بناتے جھولا روکتے کہا۔
یہ تم۔۔ بھی۔۔۔ عین بھابھی کی طرح ہم کا صیغہ یوز کرنے لگی۔۔۔؟؟
زیان نے مسکرا کے کہا۔تو وہ پھر سے جھولا لینے لگی۔
آخر بہن ہیں ہم ان کی۔۔۔ اثر تو ہوگا ناں۔۔۔!!
ایک ادا سے کہا۔
دعا۔۔۔!! تمہیں۔۔۔ اندر۔۔ ماریہ آنٹی ڈھونڈ رہی ہیں۔۔
فاریہ سے زیان کا دعا کے ساتھ کلوز ہونا برداشت نہ ہوا تو دور سے دیکھتی ان کے پاس چلی آٸی۔
اچھا۔۔۔ کیا کہہ رہی تھیں وہ۔۔۔؟؟
دعا نے حیرت سے مصنوعی انداز سے پوچھا۔
یار۔۔ جا کے دیکھ لو۔۔۔ مجھے کیا پتہ۔۔۔۔؟؟
فاریہ نے منہ بنایا۔
ہمممم۔۔۔۔ دیکھتی ہوں۔۔!!
اندر چلیں۔۔۔ فاریہ سے کہتی وہ زیان کی طرف مڑکے بولی تو وہ مسکراتا ہوا اسکے ساتھ اندر کیجانب قدم بڑھا چکا تھا۔
اففففففف کتنی گھنی میسنی ہے۔۔۔ ساتھ لے کے گٸ ہے۔۔۔ لیکن ۔۔ کب تک۔۔۔۔؟؟ ایک دن آنا تو۔۔ میرے ہی پاس ہے اس نے۔۔۔
فاریہ شیطانی دماغ سے سوچتی مسکراتی جھولے پے بیٹھی۔ جو جگہ دعا خالی چھوڑ کے گٸ تھی۔
نکاح سے کچھ نہیں ہوتا۔۔۔
نکاح کے بعد طلاق بھی ہوتی ہے۔۔۔ اور وہ بھی بہت جلد ہو جاٸے گی۔۔
آج کا بھی سارا دن گزر گیا۔ لیکن عین کل نکاح کے بعد سے روم میں ہی تھی۔ وہ باہر نہ آٸی۔ رات کا کھانا بھی روم میں کھایا۔ دعا اپنا بیگ پیک کر رہی تھی۔
پھر۔۔۔ تم نے جانے کا ارادہ کر لیا۔۔۔؟؟
عین نے پریشانی سے اپنی سریلی آواز کے سُر بکھیرے۔
yes.. my lady…
دعا نے مسکراتے بیگ کی زیپ بند کرتے کہا۔
کتنے دن تک وہاں رہو گی۔۔؟؟ ایک اور سوال کیا۔
خود عین۔نے بی اے کے بعد سے پڑھاٸی کو خیر آباد کہہ دیا تھا۔
اس کی اتنی ہمت ہی کہاں تھی کہ وہ گھر سے دور کہیں جا سکے۔۔؟؟
ہممممم۔یہ تو نہیں۔۔ پتہ۔۔۔ لیکن۔۔ ویک اینڈ پے آجایا کروں گی۔۔۔ فکر۔نہ کریں۔۔ !!
دعا نے اسکی ڈھارس بڑھاٸی۔
ویک اینڈ۔۔۔۔؟؟ عین نے منہ بنایا۔
دعا کو اپنی وہ معصوم بہن بہت عزیز تھی۔
اسکی معصومیت ہی اسکی سب سے بڑی خوبی تھی۔
جو اسکی خوبصورتی کو اور بڑھاتی تھی۔
اچھا۔۔ اب اداس نہ ہوں۔۔ اور یار۔۔ روم سے باہر نکلاکریں۔۔۔۔۔ نکاح کا مطلب یہ نہیں۔۔ کہ اندر چھپ کے بیٹھ جاٶ۔۔
بستر پے لیٹتے دعا نے عین سے کہا۔
نہ۔۔ بابا نہ۔۔۔ میں یہیں۔۔ ٹھیک۔۔۔ وہ ڈیول۔۔۔۔۔!!
کہتے کہتے عین کی زبان کو بریک لگی۔
کیا۔۔۔؟ کس۔۔۔ کی بات کر رہی ہیں۔۔؟؟
دعا نے ٹھیک سے نہ سنا۔ وہ نیند میں تھی۔
کوٸی نہیں۔۔ تم سو جاٶ۔۔ صبح جلدی اٹھنا ہوگا۔۔۔!!
عین نے بات کو پلٹا۔ تو وہ مسکراتی آنکھیں موند گٸ۔
عین کافی دیر یونہی بیٹھی پریشان سوچتی رہی کہ دعا کے جانے کے بعد وہ کیا کرے گی۔۔۔ ؟ سوچتے سوچتے کب آنکھ لگی پتہ ہی نہ چلا۔
رات کا جانے کونسا پہر تھا ۔۔۔کہ یکدم آنکھ کھلی۔
حلق میں کانٹے سے چبھے۔
ساٸیڈ ٹیبل پے جگ دیکھا تو خالی تھا۔
منہ بنایا۔۔۔
دعا نےپانی نہیں۔۔ رکھا۔۔
ہاٸے اللہ اب ہم کیا کریں۔۔؟؟ کچھ دیر سوچتی رہی۔ دعا کو دیکھا وہ مکمل نیند کی آغوش میں تھی۔پھر ہمت کر کے خود ہی اٹھی۔
دبےننگے پاٶں دھیرے سے باہر قدم رکھا۔ اور ادھر ادھر دیکھتے کچن کا رخ کیا۔ دھیمی روشنی کی لاٸٹس آن تھیں۔
جگ میں پانی بھرا۔ اور واپس مڑتے نظر سامنے کھڑے ڈیول پے جاپڑی۔
ہاتھ میں پکڑا جگ لرز اٹھا۔
سانس لینا دوبھر ہوگیا۔
وہ دھیرے دھیرے چلتا عین کے بالکل مدمقابل آن کھڑا ہوا۔
عین کی آنکھو ں میں بے تحاشا خوف رقم کرنے لگا۔
کیسے۔۔۔؟؟ کیسے۔۔۔؟ تم۔۔ کسی اور کی ہو سکتی ہو۔۔۔؟؟
تمہارا یہ روپ۔۔۔
یہ آنکھیں۔۔۔
یہ گال۔۔۔
یہ رخسار۔۔۔
تمہارے یہ ہاتھ۔۔
کہتے ساتھ ہی ہاتھ تھامے۔
عین کاپورا جسم ٹھنڈا پڑگیا تھا۔
اس سب پے۔۔۔ صرف میرا حق ہے۔۔۔ صرف۔۔ ابرار شاہ کا۔۔۔
وہ جنونی کیفیت میں بول رہا تھا۔
وہ اپنے ہوش و حواس میں نہ تھا۔
جگ عین کے ہاتھ سے چھناکے سے گرا اور ٹوٹ گیا۔
ابرار شاہ کی گرفت ڈھیلی پڑتے دیکھ وہ ہاتھ چھڑاتی ابرار کو دھکا دیتی دروازے کی جانب بھاگی۔
کانچ اسکے پاٶں میں چبھا۔ لیکن۔۔ کوٸی پرواہ نہ کی۔ اور دروازے سے اندر آتے شخص سے بری طرح ٹکراٸی ۔
اور اس کے سینے سے جا لگی۔
ایک پل کو اپنی ہرنی آنکھیں جن میں خوف و ڈر کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔
سامنے والی کی گرین آنکھوں میں ٹکا دیں۔
اور وہ جو رات کے اس پہر ابرار کو گھر میں آتا دیکھ پوچھ تاچھ کرنے آیا تھا۔
کچن میں کچھ ٹوٹنے کی آواز پے ادھر آنکلا۔
اور سامنے کامنظر دیکھ حیران رہ گیا۔
ابرار شاہ ابھی بھی نشے میں ہی جھول رہا تھا۔
جبکہ عین فارس کی شرٹ کو مضبوطی سے تھامے اس کے سینے سے لگی لرز رہی تھی۔