اور اک بھاری صبح ان کی منتظر تھی ۔۔۔ زندگی کا اک ایسا دن جہاں انہیں اک نیا سبق ملنے والا تھا ۔۔
اک ایسا سبق جو انہیں کبھی نا بھولنے والا تھا ۔۔۔
قیس بیٹے ۔۔۔ جیسا کہ موت اک حقیقت ہے جو کہ ہر ذی روح کا مقدر ہے اور کوٸی بھی اس بات کو نہیں ٹال سکتا۔۔اور شاید اگر بات صرف اتنی ہوتی کہ مناہل اور حناوے کی جان خطرے میں ہے تو کیا پتہ ہم انہیں نا بھی بچا پاتے تو اسے ﷲ کی رضا سمجھ کر خاموش ہو جاتے لیکن یہاں بات ان کی ایمان کی بھی ہے ۔۔۔ اس لیے ہمیں ہر قیمت پر انہیں بچانا ہے ۔۔ میں ان دونوں بیٹیوں کو ﷲ کے حکم سے ضرور بچاٶں گا۔۔۔سفید عمامے والے بزرگ نے کہا ۔۔۔
مجھے کچھ پل کیلیے تنہا چھوڑ دو.. مجھے میرے ﷲ سے کچھ باتیں کرنی ہے ۔۔۔سفید عمامے والے بزرگ نے کہا تو قیس اور عمر دروازے سے باہر نکل گٸے ۔۔۔
عمر برگد کے درخت کے نیچے بیٹھے فقیر سے ذرا فاصلے پر درگاہ کے صحن میں بیٹھ گیا جبکہ قیس ابھی درگاہ کے اندر ہی سبز رنگ کی بچھی ہوٸی قالین پر دوزانو بیٹھ گیا ۔۔۔
فقیر کالے لمبے اور مضبوط دھاگوں میں ست رنگی چمک کے موتی بھر رہا تھا اور ساتھ ہی عمر کو بھی دھاگے میں موتی بھرنے کا کہہ رہا تھا ۔۔۔۔ رات کے سوا ایک بجے کا وقت تھا ۔۔ عمر کو نیند تو بہت آ رہی تھی لیکن بادل ناخواستہ اسے فقیر کیساتھ کالے دھاگے میں موتی بھرنے پڑھ رہے تھے ۔۔۔
سنو ۔۔۔۔اوۓ بیکار لڑکے ۔۔۔ فقیر نے عمر کو پکارا۔
جی بولے ۔۔۔۔ عمر نے ناگواری سے فقیر کو دیکھا۔
تمہارا دل چرا کے اس صحن کے نیچے گاڑ دیا گیا ہے ۔۔فقیر نے ہنستے ہوۓ کہا ۔۔۔
یار فقیر میاں کچھ بھی!!!! ۔۔۔۔۔۔ عمر نے جھنجھلاتے ہوۓ فقیر کو دیکھتے ہوۓ کہا ۔۔
جواباً فقیر صرف مسکرا دیا۔۔۔
**********************************
ٹھنڈی ہوا بدستور جالیوں سے اندر آرہی تھی۔۔
سفید عمامے والے بزرگ جاۓ نماز پر دو زانو بیٹھے تھے ان کی آنکھیں بند تھی ۔۔اور دو آنسو کی لڑیاں ان کے رخساروں پر رواں دواں تھی ۔۔۔۔
کمرے میں طاق میں سجے قطار در قطار دیے باری باری بُھجنے لگے ۔۔۔۔
سفید روشنی کی لکیر دھوایں کی صورت درگاہ کے پیچھے پہاڑیوں سے بلند ہوٸی اور فضا کو چیرتی ہوٸی درگاہ کی پچھلے طرف بنے کمروں میں سے اک کمرے کی جالی سے اندر داخل ہو گٸی ۔۔۔
سفید عمامے والے بزرگ کو کسی کی موجودگی کا شدت سے احساس ہوا انہوں نے دھک سے آنکھیں کھول لی ۔۔۔
اب وہ سامنے موجود سفید لباس میں ملبوس وجود کو حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔۔
اور پھر وہ مسکرا دٸیے ۔۔۔۔۔۔
************************************
ﷲ اکبر ۔۔۔۔ ﷲ اکبر
فجر کی اذان سے فضا گونج رہی تھی ایسے میں پر مسرت “”آسمان”” بھی شبنم افشانی کیساتھ ساتھ بارش کی تیز بوندا باندی سے ماحول کو پرسکون اور پر امن بنا رہا تھا ۔۔۔
بارش کے سبب ہوا میں خُنکی اور ٹھنڈک کا احساس بڑھ گیا تھا ۔۔۔
عمر اور قیس درگاہ کے صحن میں موجود نلکے سے وضو کر رہے تھے جبکہ فقیر تیز بارش سے بے پرواہ برگد کے درخت کے اردگرد پھیلی نم زدہ مٹی کو ہاتھ سے پیچھے کی طرف لیپ رہا تھا ۔۔۔
نماز کے بعد دونوں کافی دیر تک دعا کرتے رہے ۔۔ فقیر بھی ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا ۔۔۔
دعا سے فارغ ہو کر قیس نے اسفند بھاٸی کو کال کی ۔۔اوف صفیہ بیگم اور نور بانو بیگم کی خیریت معلوم کرنے کی غرض سے ۔۔۔۔
اسفند بھاٸی نے بتایا آنکھ کا انتظام ہو گیا ہے اور نور بانو بیگم کی حالت بھی کافی حد تک سنبھل گٸی ہے ۔۔اور باقی سب بھی خیریت سے ہے ۔۔۔ قیس امی کی طرف سے مطمٸن تھا وہ جانتا تھا اسفند بھاٸی بہت اچھے سے خیال رکھے گے ۔۔۔۔
فقیر نے مسکراتے ہوۓ دونوں کو دیکھا ۔۔۔اوران کی طرف منہ کر کے بولا۔۔
۔۔رب کو منانا بہت آسان ۔۔۔۔بہہہہہہہت آسان ۔۔۔لیکن نکمے لڑکوں! جانتے ہو کبھی کبھی رب دعا کو بھی آزماتا رہتا ہے آزماتا رہتا ہے ۔۔۔
کیا مطلب محترم فقیر ۔۔۔قیس نے پوچھا ۔۔
جانتے ہو سوہنے رب کو کبھی کبھی ہماری دعاٸیں اتنی اچھی لگتی اتنی اچھی لگتی ہے۔۔۔ اسے ہمارے مانگنے کا انداز اتنا اچھا لگتا ہے کہ وہ جو چیز ہم مانگ رہے ہوتے اسے ہم سے مزید دور کر کے ہماری دعاٸیں سنتا رہتا ہے ۔۔۔اور میرا ایمان ہے وہ رب مسکراتا اور خوش بھی ہوتا ہے جب ہم دل سے اس سے دعاٸیں کرتے ہیں ۔۔فقیر نے آنکھیں بند کیے جھومتے ہوۓ مسکرا کر کہا
جب وہ ﷲ ہمارے اندازِ دعا سے خوش ہوتا ہے تو پھر ہمیں ہماری مانگی گٸی چیز فوراً عطا کیوں نہیں کرتا ۔۔۔ عمر نے پوچھا ۔۔۔
یہ بات !!!۔۔۔۔بیکار لڑکے ۔۔کیونکہ انسان بہت جلد باز ہے ۔۔وہ کہتا ہے کہ اِدھر میں نے دعا کی اور اُدھر مجھے مل جاۓ ۔۔۔ جبکہ میرا ﷲ جانتا ہے اورخوب جانتا ہے کہ اسے کب کسے کیا عطا کرنا اور کیا عطا نہیں کرنا۔۔۔ اس لیے دعاٶں سے گھبراٶ نہیں ۔۔۔ان میں سکون تلاش کرو ۔۔ان میں رب کی خوشی تلاش کرو۔۔۔ فقیر نے کہا۔۔۔
جی درست فرمایا آپ نے ۔۔ قیس نے دھیرے سے کہا
اور میری اک بات یاد رکھنا ۔۔اس رب کے پاس سب کچھ ہے سب کچھ ۔۔ اس سوہنے کے پاس آنسو نہیں ۔۔اور جانتے ہو اس کے پسندیدہ آنسو کونسے ہیں ۔۔۔؟ فقیر نے سوالیہ نظروں سے عمر اور قیس کو دیکھا ۔۔
خوشی کے آنسو یا پھر شاید جب کسی کا دل ٹوٹ جاۓ تو اس کے آنکھوں سے بہنے والے آنسو ۔۔۔عمر نے کہا جبکہ قیس سوالیہ نظروں سے فقیر کو دیکھتا رہا ۔۔۔
“””ندامت کے آنسو””” ۔۔۔۔ فقیر نے کہا اور درگاہ کے کچن کی طرف چل دیا ۔۔۔۔
کالے بادل چھٹ چکے تھے ۔۔
جیسے اندھیری رات بیت چکی تھی ۔۔
سورج کی کرنیں چارسو پھیل رہی تھی ۔۔
جیسے ہمیشہ براٸی کی کالی آندھی پر نور کی کرنیں پھیلتی ہیں ۔۔
بلاوا اک بار پھر آ چکا تھا۔۔
عمر اور قیس اندھیرے کمرے میں بچھے سبز قالین پر بیٹھ گٸے ۔۔طاق میں رکھے چراغ بجھ چکے تھے لیکن سورج کی تیز کرنیں جالیوں سے ترچھی کمرے میں داخل ہو رہی تھی ۔۔۔ تھوڑی دیر میں دروازہ کھلا اور نور محمد صاحب بھی آگٸے ۔۔۔قیس اور عمر نے فوراً اٹھ کر انہیں آگے بیٹھنے کی جگہ دی اور خود نور محمد صاحب کے پیچھے بیٹھ گٸے ۔۔
قیس اور عمر بیٹا ۔۔۔ اس گاٶں میں جاٶ اور اس شیطان کو ڈھونڈو اسے ڈھونڈنے کا وقت آگیا ہے ۔۔ وہ آرمپالی کی بری روح ہے۔۔ اس شیطان کی پجارن کے پاس بے حد طاقت آچکی ہے ۔۔وہ تم لوگوں کو چکمہ دینے کی کوشش کرے گی۔۔ اور اہم بات جیسے جیسے تم لوگ اس کے قریب جاٶ گے تمہارے کانوں میں چینخ کی آواز گونجتی جاۓ گی ۔۔۔ جیسے ہی اس کا گھر ملے وہاں یہ کالا تعویذ گاڑ دینا ۔۔۔۔ اس تعویذ کو گاڑھنے کے لیے آپ کے پاس صرف تیس سیکنڈ ہو گے ۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔
قیس اور عمر نے اثبات میں سر ہلایا اور سفید عمامے والے بزرگ کی دعاٸیں لیتے اس گاٶں کی طرف چل دٸیے ۔۔
وہ اس گاٶں میں پہنچ چکے تھے ۔۔
وہ برگد کے نیچےبیٹھے چاۓ پیتے بزرگوں کے حوالے اپنی باٸیک کرکے پیدل ہی گاٶں کی گلیوں میں گھومنے لگے۔۔۔ گاٶں کے بالکل درمیان میں اک دو منزلہ خوبصورت گھر بنا تھا۔۔اور اس مکان کی پچھلی کارنر کی سیدھ میں دور اک ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی بنی تھی ۔۔۔۔
اچانک قیس کی نظر مکان کی چھت پر گٸ۔۔۔اک سیاہ رنگت کی بارہ سالہ بچی دونوں بازوں کو سینے میں باندھے بڑے انہماک اور غور سے جھونپڑی کو دیکھ رہی تھی ۔۔قیس نے بھی اس کی نظر کے تعاقب میں دیکھا اس کی نظریں بھی دور جھونپڑی پر پڑی ۔۔۔وہ کچھ پل انہیں دیکھتا رہا ۔۔
چل قیس اس طرف چلتے ہیں ۔۔۔ عمر نے مکان کے داٸیں طرف اشارہ کیا۔۔۔جبکہ قیس باٸیں طرف موجود اس جھونپڑی اور بچی کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
عمر مان نہ مان۔۔۔ اس بچی میں کچھ عجیب ہے۔۔۔
اتنا کہنے کی دیر تھی کہ اس بچی نے چہرے کا رخ موڑ کر نیچے کھڑے قیس کو دیکھا ۔۔۔ وہ شدید غصے میں لگ رہے تھی ۔۔غصے سے اس کے نتھنے پھولے ہوۓ تھے اور آنکھوں کی سرخی دور سے بھی محسوس کی جا سکتی تھی ۔۔۔
پیچھے سے آتی اک آنٹی نے انہیں دیکھا۔۔۔
بچوں کیوں آسیب زدہ بچی پر نظریں جماۓ کھڑے ہو۔۔ آنٹی یہ کہتی قریبی مکان میں داخل ہو گٸی ۔۔۔
قیس اور عمر اک دوسرے کو حیرت سے دیکھا اب انہوں نے پھر سے چھت پر نظریں جماٸیں..وہ بچی نہیں تھی ۔۔لیکن وہ تھی ۔۔ دو منزلہ مکان کے مین گیٹ سے سر نکالے وہ ہنستی ہوٸی وہ قیس اور عمر کو ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اس بچی کو دیکھتے ہی قیس کی ریڑھ کی ہڈی میں اک سرد لہر دوڑ گٸی۔۔۔۔
عمر چلو میرے بھاٸی ۔۔اس جھونپڑی کی تھوڑی معلومات لیتے ہے ۔۔دونوں واپس پلٹپے اور اور شیشم کے درخت تلے بیٹھے گاٶں کے عمر رسیدہ بزرگوں کے پاس آگٸے۔۔۔
اسلام وعلیکم ۔۔۔ عمر اور قیس نے اونچی آواز میں کہا
سب نے بآواز بلند سلام کا جواب دیا ۔۔
آہمم ۔۔چچا وہ دراصل اس جھونپڑی کے بارے میں پوچھنا ہے کہ وہاں کون رہتا ہے ؟ قیس نےگلا کھنکارتے ہوۓ پوچھا۔۔
بیٹا وہاں اک نیک بخت بڑھیا اپنی دو جوان کنواری لڑکیوں کیساتھ رہتی ہے ۔۔اک بزرگ نے چاۓ کی چسکی بھرتے ہوۓ کہا ۔۔
بہت حیا دار لوگ ہے ماشاءاللہ ،، دوسرے بزرگ نے کہا ۔۔
اور ہاں لونڈوں ۔۔۔ ان لڑکیوں کو تنگ مت کرنا جو بھی ان بابرکت پاک لڑکیوں کو تنگ کرتا ہے اس پر اللهُ کا فوری عزاب نازل ہوتا ہے ۔۔۔ اک اور عمر رسیدہ شخص نے کہا ۔۔
اللهُ کا فوری عذاب ۔۔۔۔۔ عمر نے حیرت سے کہا ۔۔
جی میرے بچوں ۔۔ اسی بزرگ نے جواب دیا ۔۔
کک کیسا عذاب ۔۔۔قیس نے پوچھا ۔۔
وہ بزرگ ان کے کان کے قریب سرگوشی کرتے ہوۓ بولے ۔۔ جو بھی ان لڑکیوں کو تنگ کرتا ہے رات کے وقت اس کے جسم سے ساراخون خود با خود ختم ہو جاتا ہے اور وہ بندہ بھی اچانک غاٸب ہو جاتا ہے ۔۔۔۔ بزرگ نے کہا اور پھر سے تھرماس سے چاۓ انڈیلتے پینے لگے ۔۔
دونوں نے پھر سے بزرگوں کو سلام کیا اور باٸیک لیے اس جھونپڑی کی طرف چل دٸیے ۔۔۔تمام بزرگ اپنی باتوں میں مصروف تھے ۔۔کسی کا دھیان قیس اور عمر کی طرف نہیں گیا ۔۔
جیسے ہی انہوں نے جھونپڑی کے سامنے باٸیک روکی ۔۔۔اک دلخراش چینخ ان کے کانوں سے ٹکراٸی ۔۔
عمر نے باٸیک کا کنٹرول سنبھالا ۔۔جبکہ قیس تیزی سے باٸیک سے اترتا جھونپڑی کے اندر گیا اور فرش پہ مٹی کھودنے لگا جلد ہی اس نے تعویذ مٹی میں گاڑ دیا ۔۔.3 2 1 …
تیس سیکنڈ گزر گٸے اور وہ بھی کامیابی سے تعویذ گاڑ کے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔ اس نے جھونپڑی پر نظر دوڑاٸی ۔۔
قریب ہی ٹاٹ کا کپڑا بچھا تھا اس کے ساتھ ہی ایک طرف مٹی کا چولہا اور پانی کا گھڑا پڑا تھا ۔۔ قیس نے گھڑے کا ڈھکن اٹھایا اندر لال رنگ کا گاڑھا خون تھا قیس نے جھرجھری لیتے واپس ڈھکن رکھ دیا ۔۔۔ٹاٹ کے کپڑے کے دوسری طرف ایک چوڑا میز تھا ۔۔میز صاف ستھرا تھا اور اس کے اوپر تین دیے پڑے تھے ۔۔اس کیساتھ ہی لکڑی کا باکس پڑا تھا ۔۔۔قیس اس باکس کی طرف بڑھا ۔۔۔چینخ پھرسے اس کے کانوں سے ٹکراٸی۔۔
وہ بدستورآگے بڑھتا رہا اس نے باکس کا ڈھکن کھول دیا۔۔
سامنے انسانی کھوپڑی ۔۔۔بکرے کا کٹا سر ۔۔۔مرغی کے تین پنجے ۔۔۔ ستارے نما نشان اور جانے کون کون سی شیطانی چیزیں پڑی تھی ۔۔۔۔۔۔قیس نے بددلی سے ناک پر ہاتھ رکھا اور باکس میں پڑی چیزیں الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔۔۔۔وہ جانتا تھا کہ وہ بڑھیا شیطان کی ہی جھونپڑی ہے اور یہاں شیطانی سامان اس بات کا گواہ تھا لیکن یہ چیزیں اس کے کسی کام کی نہیں تھی اسے ابھی تک ایسی کوٸی چیز نظر نہیں آٸی جو اس کیلیے کارآمد ہوتی اور جس سے وہ بڑھیا تک پہنچ پاتا ۔۔۔ اس نے جھنجھلاتے ہوۓ باکس بند کر دیا ۔۔۔۔اب وہ باکس کا ڈھکن پکڑے نیچے فرش پر ہی بیٹھا پوری جھونپڑی کا جاٸزہ لے رہا تھا جھونپڑی میں ہر چیز پرانی تھی سواۓ اس چوڑے میز کے۔۔۔ وہ حیرت سے اس لکڑی کے پالشڈ polished میز کو دیکھ رہا تھا ۔۔ہر چیز پرانی اور یہ بالکل نٸی میز لگ رہی ۔۔۔ جب ہی اچانک ہی اس کی نظر فرش پر میز کے نیچے رگڑ پر پڑی ۔۔۔چونکہ جھونپڑی کا سارا فرش مٹی سے بنا تھا ۔۔۔اس لیے میز کو کھینچے جانے کے نشان بھی واضح تھے ۔۔۔۔ قیس ساری جھونپڑی پر نظریں دوڑاتا چپکےسے میز کے نشانات کا بھی تجزیہ کر رہاتھا پھر وہ اٹھا اور سیدھا جھونپڑی سے باہر نکلا ۔۔۔
عمر کیساتھ باٸیک میں سوار تیزی سے درگاہ کی طرف چل دٸیے ۔۔۔گاٶں سے نکلتے ہوۓ انہیں گاٶں کی واحد نہر کے درختوں کے جھنڈ میں وہی بارہ سالہ کالے رنگ کی بچی کا سر نظر آیا ۔۔۔سورج کی روشنی اور پھر واضح منظر دیکھ کر دونوں نے خوف سے نظریں دوسری اوڑھ کر لی ۔۔
درگاہ کے اسی اندھیرے کمرے میں موجود سفید عمامے والے بزرگ کو وہ ساری بات بتا رہے تھے ۔۔۔
سفید عمامے والے بزرگ مسکراۓ ۔۔۔مجھے پتہ تھا میرے بچوں کہ ایسا ہی ہوا ہو گا۔۔وہ شیطان آخری کیل ٹھوک چکی جبکہ ہماری آخری کیل ابھی باقی ہے جو ہم آج رات ٹھوک ہی دے گے لیکن اس سے پہلے کچھ باتیں آپ لوگوں کیلیے جان لینا بہت ضروری ہیں ۔۔۔۔۔۔سفید عمامے والے بزرگ نے کہا ۔۔۔
جی حضرت ۔۔۔۔فرماٸیے ۔۔۔۔قیس نے کہا ۔۔
میرے پیارے بچوں میری بات غور سے سنو ۔۔۔سالوں پہلے کے کچھ چھپی حقیقتیں عیاں کرنے لگا ہوں ۔۔۔۔
بیٹا اس رات مارتھا کہیں غاٸب نہیں ہوٸی تھی بلکہ اسے بھی وہ شیطان آرمپالی ہی اغواہ کر کے لے جا رہی تھی ۔۔ جب اس کے شوہر عبید اور گاٶں کے زمیندار کے بیٹے طالب نے اسے دیکھ لیا۔۔آرمپالی انہیں زندہ اولاد بنانے کی بجاۓ ان کی روحوں کو اپنے تابع کرنا چاہتی تھی کیونکہ اسے شیطان کی قربت حاصل کرنے کیلیے اس رات سے دو راتوں کے بعد آنے والی اماٶس کی رات تک ضرور بالضرور دو بالغ لڑکیوں کی قربانی دینی تھی ۔۔۔۔ عبید یہ تو جانتا تھا کہ وہ انہیں اولاد بنانا چاہتی ہے پر وہ اس کے اس قدر گھناٶنے فعل کا سن کر آگ بگولہ گیا ۔۔اس نے مزید اس کی مدد کرنے سے انکار کر دیا تو آرمپالی نے عبید کے آگے ہار مان لی اور مارتھا کو طالب کے حوالے کیا طالب اسے اپنی حویلی میں لے گیا ۔۔طے یہ پایا کہ مارتھا اور آونتیکا کو کل صبح اس گاٶں سے رازداری سے نکال دیا جاۓ گا ۔۔۔اسی رات عبید اور آرمپالی گھر آ گٸے آرمپالی نے عبید کو نیند کی دوا دی اور رات کے آخری پہر طالب کی حویلی میں چلی گٸی ۔۔۔وہ خوبرو تھی اور آخر عورت زات تھی اس نے حیلے بہانوں اور اداٶں سے طالب کو اپنے منصوبے میں شامل کیا اور یوں مارتھا اس کی حویلی سے آرمپالی کے خفیہ شیطانی اڈے میں بھیج دی گٸی اسی طرح اگلے دن ایلی کو طالب کے ہاتھوں مروا کر آونتیکا کو بھی لے جایا گیا ۔۔۔اور یوں اس نے دونوں کو تھوڑی سی شراب نما شربت پلایا اور شیطانی کلمات پڑھنے لگی ۔۔۔۔ عبید جانتا تھا کہ اس کے گھر میں اک خفیہ کمرہ ہے جہاں اسے جانے کی اجازت نہیں لیکن پہلے مارتھا اور پھر آونتیکا کے غاٸب ہونے کے بعد اسے اپنی ہندو شیطان بیوی پر شک ہوا ۔۔۔وہ اس کمرے میں گیا اور اس نے دیکھا کہ دونوں کو شراب نما چیز پلا کر وہ کچھ شیطانی کلمات پڑھوانے والی ہے ۔۔۔آرمپالی جانتی تھی کہ ہوش میں وہ دونوں کبھی بھی وہ شیطانی کلمات نہیں پڑھے گی ۔۔۔۔ عبید کی آنکھیں اور چہرہ غصےسے سرخی ماٸل ہو گیا وہ ان دونوں لڑکیوں کے کان کے قریب اونچی آواز میں کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگا ۔۔۔آرمپالی نے اپنی کالی سیاہ آنکھیں کھولی اور غصے سے عبید کو دیکھا ۔۔ عبید مسلسل ان کے کان میں کلمہ طیبہ کا ورد کر رہا تھا آرمپالی گھوم کر آٸی اس نے عبید کو پیار سے پیچھے کرنا چاہا لیکن وہ ڈٹا رہا وہ دونوں لڑکیاں بھی اب دھیرے دھیرے کلمہ کا ورد جاری رکھے ہوۓ تھی ۔۔۔آرمپالی نے اپنے منصوبے کو سخت ناکام ہوتے دیکھا تو اس نے غصے سے خنجر نکالا اور پیچھے سے عبید کی کمر میں گاڑ دیا ۔۔خنجر کافی اندر تک گیا ۔۔عبید نے اک لمبی سانس لی اور پیچھے کی طرف گھوما اور فل طاقت سے خنجر اپنی کمر سے نکالا ۔۔۔اس کے آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔۔۔آرمپالی اس سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑی ہنس رہی تھی ۔۔۔
او خبیث انسان مار مجھے تاکہ میں امر ہو جاٶں ۔۔۔وہ قہقہے پر قہقہے لگا رہی تھی
۔۔لیکن عبید نے اسے مارنے کی بجاۓ واپس گھوم کر پہلےآونتیکا اور پھر مارتھا کی شہہ رگ اس خنجر سے کاٹ ڈالٕی ۔۔۔۔درد سے بے خبر وہ دونوں لڑکیاں اب بھی دھیرے دھیرے کلمہ طیبہ پڑھ رہی تھی ۔۔۔۔۔عبید کی ہمت جواب دے گٸی ۔۔کلمے کا ورد کرتا وہ وہی زمین پر ڈھے گیا ۔۔۔۔جبکہ وہ منحوس شیطان آرمپالٕی اپنی محنت پر یوں پانی پھرتا دیکھ کر صدمے سے وہی بیٹھ گٸی ۔۔اس کی آنکھوں سے غصے کے سبب خون بہہ رہا تھا ۔۔۔۔ وہ ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل رینگتی ہوٸی عبید کے پاس گٸی اور ہاتھ میں پکڑی دستی چاقو سے چینختی ہوٸی اس کی آنکھوں میں کھبونے لگی ۔۔۔۔
او خبیث ۔۔تو نے میری ساری محنت پر پانی پھیر دیا ۔۔۔دیکھ میں تیرے سارے خاندان کو تباہ و برباد کر دوں گی انہیں خون کے آنسو لراٶں گی ۔۔۔۔
۔وہ بری طرح چینخ رہی تھی اور اس دستی چاقو سے زور زور سے عبید کا چہرہ شہید کر رہی تھی ۔۔۔اس کی آنکھوں سے خون بہتا جا رہا تھا اور وہ چینختی جا رہی تھی ۔۔۔ اس نے عبید کے چہرے پر بالکل گوشت نہیں رہنے دیا ۔۔۔اگلی صبح وہ طالب کو اسی کمرے میں لے آٸی طالب ان سب کا حال دیکھ کر بری طرح گھبرا گیا ۔۔۔اور وہ طالب کو گھبراہٹ زدہ دیکھ کر قہقہے لگاتی رہی ۔۔۔۔اس نے طالب کو گریبان سے پکڑا اور بولی ۔۔۔۔
اگر تو چاہتا ہے کہ میں تیرا ایسا حال نہ کروں تو آج رات تک مجھے دو بالغ لڑکیاں لا دے نہیں تو اس حرامی سے بھی بدتر حلیہ کردوں گی تیرا ۔۔۔۔۔وہ پھر سے قہقہہ لگانے لگی ۔۔۔۔۔طالب ایک چالاک عیاش انسان تھا لیکن اس قدر وہ بھی نہیں گر سکتا تھاخیر اب تو وہ بری طرح پھنس چکا تھا آرمپالی نے اس کے سر کے بال اور ناخن کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیے ۔۔۔۔
طالب یا تو تُو اب میرا کام کرے گا یا پھر میں تیرے ساتھ وہ سلوک کروں گی جو کبھی کسی نے کسی کیساتھ نہ کیا ہو ۔۔۔اور یوں طالب ایلی کی اسسٹنٹ شرویا اور آونتیکا کی چھوٹی بہن اِشِیتا کو ایلی اور آونتیکا کی ڈھونڈنے کی لالچ دے کر اس شیطانی اڈے میں لے آیا ۔۔۔۔اِشیتا اور شرویا کی شراب کے نشے میں دھت تڑپتی روحوں نے قسم کھاٸی کہ وہ ہر حال میں شیطان کی پوجا کرے گی اور یوں اس رات انجانے میں دو معصوم ہندٶ لڑکیوں کو شیطان کی پجارن بنا دیا گیا ۔۔۔آرمپالی نے خود کو بھی ان کیساتھ ہی ختم کر لیا۔۔ وہ مرنے سے پہلے طالب کو بھی مارناچاہتی تھی اور قہقہے لگاتی اس پر ٹوٹ بھی پڑی تھی لیکن طالب کسی طرح جان بچا کر بھاگ گیا ۔۔۔۔بھاگتے بھاگتے اس کا ٹکراٶ کالی کے منحوس مندر کے رکھوالے پنڈت کی جوڑی سے ہوا ۔۔۔۔موٹی توند والا پنڈت لال شرما اور قدرے کالے رنگ کا دوسرا پنڈت سوریا نے جب گاٶں کے زمیندار بیٹے طالب کو اس حالت میں دیکھا تو وہ اسے کالی کے مندر میں لے گٸے ۔۔۔۔۔طالب نے اک اک بات دونوں کو بتاٸی ۔۔ پنڈت لال شرما آرمپالی کے منصوبوں سے آگاہ تھا جبکہ پنڈت سوریا کو سب کچھ ابھی پتہ چلا تھا لیکن اس نے زیادہ توجہ نہیں دی ۔۔۔لیکن پنڈت لال شرما کچھ کچھ پریشان تھا وہ جانتا تھا آرمپالی اک انتہاٸی مکروہ ارادے رکھنے والی گھٹیا سوچ کی شیطان کی پجارن تھی اگر اس کی آتما سچ میں امر ہو گٸی ہے تووہ کسی کو چین نہیں لینے دے گی ۔۔۔۔
سوریا کے کمرے سے جانے کے بعد اس نے مہا پنڈت سے کالی شکتیوں کو روکنے کے کچھ تعویذ بنواۓ اور اسے گلے میں باندھ لیا اور طالب کے گلے میں بھی باندھ دیا ۔۔۔
اب ہر رات آرمپالی کی انتہاٸی خوفناک بھیانک شکل کی جھلک اس پنڈت لال شرما اور طالب کو دکھاٸی دینے لگی ۔۔۔ طالب کے کہنے پر پنڈت لال شرما اور وہ دونوں گاٶں کے امام مسجد کے پاس گٸے اور ان سے قرآنی آیات پر منبی تعویذ لیے اور وہ پہن لیے ان تعویذوں کا خاطر خواہ فاٸدہ ہوا ۔۔ اور یوں اب انہیں آرمپالی دور دور سے اور کبھی کبھی نظر آنے لگی لیکن جب بھی نظر آتی انتہاٸی غصے میں ہوتی۔۔۔۔۔ سفید عمامے والے بزرگ اتنا کہہ کر خاموش ہو گٸے۔۔۔۔
آگے کیا ہوا محترم ۔۔۔کیا وہ انہیں مارنے میں کامیاب رہی
اور پھر ایک دن سنہری دھوپ کی چمکتی کرنوں کے ساتھ ہونے والی صبح کو امام مسجد نے دیکھا ۔۔موٹی توند والا کالے سیاہ رنگت کا وہ نہایت چالاک و عیار پنڈت لال شرما دو زانو بیٹھا ہے ۔۔امام مسجد اس کے پاس بیٹھ گٸے اور اس کی حالت دریافت کرنے لگے ۔۔
بجرگوں (بزرگوں) ام کو بھی اپنے دھرم میں شامل کر لو ۔۔ ہمرا (ہمارا) دھرم سچا نہیں۔۔۔میں نے بھگوان کےگلے میں بندھی پاویتر مالا کا تعویذ بنا کر بیوی بچوں کے گلے میں ڈالا جبکہ وہ شیطان کی پجارن آٸی اور قہقہے لگاتی میری آنکھوں کےسامنےمیری بیوی بچوں کو بری طرح چیر پھاڑ کر بھاگ گٸی ۔۔۔جب میں اس کے پاس جاتا تو وہ مجھ سے گھبرا کر دور بھاگ جاتی ۔۔۔میں اس سچے دھرم کے سچے تعویذ کی برکت سے بچ گیا لیکن میرا پریوار ختم ہو گیا ۔۔۔اب وہ پنڈت لال شرما بلک بلک کے رونے لگا۔۔
امام صاحب نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا اور اس کا نام عبدﷲ رکھا ۔۔۔۔یوں پنڈت عبدﷲ نے باقی ساری زندگی اس مسجد میں ہی گزاری لیکن ۔۔۔۔۔۔
سفید عمامے والے بزرگ پھر سے خاموش ہو گٸے ۔۔
لیکن حضرت ۔۔۔۔۔۔ عمر نے پوچھا ۔۔
لیکن کسی سبب طالب نے کچھ دیر کیلیے تعویذ اتارا تو اس شیطان نے اس کے جسم پر قبضہ کر لیا ۔۔۔آہ ۔۔۔۔کاش وہ طالب کو اسی وقت مار دیتی ۔۔۔
کیا اس نے طالب کو زندہ رکھا ۔۔۔۔قیس نے پوچھا ۔۔
زندہ بھی رکھا اور اس کا ایمان بھی ضاٸع کروا دیا۔۔ وہ بوڑھا ہو کر مرا۔۔آرمپالی نے اسے محمد طالب اسلام سے پنڈت کرشن بنا دیا ۔۔۔۔ سفید عمامے والے بزرگ نے افسوس سے کہا ۔۔۔
اوہ ۔۔۔قیس نے بےاختیار دل پر ہاتھ رکھے غمزدہ لہجے میں کہا ۔۔۔
اور وہ بری روحیں شرویا اور اشیتا کی ہیں ۔۔۔۔
جی حضرت اب سب سمجھ آ گٸی ۔۔۔ قیس نے کہا ۔۔۔
میرے بچوں ۔۔۔ ہمیں آج رات کالی کے منحوس مندر کے اندر بالکل وسط میں اک گڑھا کھودنا ہے ۔۔۔ اس گڑھے میں بیٹھ کر چالیس منٹ کا اک چلہ کاٹنا ہے اور بالکل اسی وقت اس جھونپڑی کے اندر بھی اک چالیس منٹ کا چلہ کاٹنا ہے۔۔۔ اور کچھ کلمات پڑھ کر ﷲ سے گڑگڑا کر دعا مانگنی ہے اور تب تک آنکھیں نہیں کھولنی جب تک کہ کوٸی شفقت بھرا ہاتھ تم لوگوں کے سر پہ نا رکھ دیا جاۓ ۔۔۔ وہ بزرگ آخر میں ہلکہ سا مسکراۓ ۔۔۔
جی بہتر اور سب سے اہم بات باہر فقیر سے کچھ دھاگے لے کر اپنے اہل خانہ اور ان لوگوں کو دے آٶ جنہیں اس کالی کے واقعے اور دونوں بیٹیوں حناوے اور مناہل کا علم ہے ۔۔۔ یاد رہے ہر اس بندے کو جسے ان واقعات کا پتہ ہے ۔۔۔ بزرگ نے کہا اور انہیں رات عشا کے بعد آنے کا کہہ کر جاۓ نماز پر کھڑے ہوگۓ۔۔
*************************************
بینچ سے سر ٹکاۓ وہ شیشے کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی جب دروازہ کھلا اور قیس اندر داخل ہوا ۔۔۔
امی کی جان۔۔۔۔ میرا بیٹا ۔۔۔صفیہ بیگم آنکھوں میں آنسو لیے دوڑتی ہوٸی قیس کے گلے لگ گٸی ۔۔۔
بیٹے کی پیاری امی جان ۔۔۔قیس نے ان کے ماتھے پر ہاتھوں پر بوسہ دیا ۔۔۔
مم میری مم مناہل کہاں ہے ۔۔وہ پیچھے ہے کیا ۔۔۔نظر کیوں نہیں آ رہی ۔۔۔صفیہ بیگم نے تڑپتے ہوۓ پوچھا
امی جان مناہل بالکل ٹھیک ہے ۔۔دراصل وہ کالی کے مندر کا شیطان ابھی زندہ ہے اس لیے ۔۔۔مناہل اور حناوے کو ابھی ہم نے چھپا کر رکھا ہے ۔۔آج آپ کا بیٹا ﷲ کی مدد سےاس شیطان کا خاتمہ کر دے گا پھر ہماری مناہل اور حناوے ہماری ساتھ ہو گی ۔۔۔قیس نے انہیں تسلی دی
اور اس واقعے سے جڑے ہر شخص کے ہاتھ میں کالے دھاگے باندھ دٸیے ۔۔نور بانو بیگم ۔۔۔ضیا صاحب ۔۔جیا پھوپھو اسفند سر اور احسان صاحب کے ہاتھوں میں بھی کالے دھاگے ان تک پہنچ چکے تھے ۔۔۔
********************************
رات کے گیارہ بج رہے تھے اور ٹھیک بارہ بجے انہیں چالیس منٹ کا چلہ شروع کرنا تھا ۔
عمر اور قیس نے وہ کلمات یاد کر لیے تھے جو انہیں چلے کے دوران بولنے تھے ۔۔۔۔
قیس نے کالی کے مندر جب کہ عمر نے جھونپڑے میں چلہ کاٹنا تھا ۔۔وہ دونوں مقررہ وقت میں ضروری سامان لیے وہاں موجود تھے ۔۔۔
قیس نے کالی کے مندر کے وسط میں اک گول سرکل کھینچا اور اس کے اردگرد دیے روشن کر دٸیے ۔۔اس نے موباٸل میں ٹاٸم دیکھا۔۔۔ بارہ بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے ۔۔۔اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی ۔۔اس نے اک لمبا سانس کھینچا اور چوکڑیاں بھرتا ہوا بیٹھ گیا ۔۔۔
اچانک اسے مندر کی دور راہداری سے کوٸی چینخ کر روتا ہوا دھیرے دھیرے آگے بڑھتا دکھاٸی دیا ۔۔۔قیس حیرت سے اس طرف دیکھنے لگا ۔۔بارہ بج چکے تھے ۔۔۔
قیس بیٹے چلہ شروع کرو ۔۔۔سفید عمامے والے بزرگ کی آواز سناٸی دی ۔۔قیس نے بسم ﷲ پڑھ کر آنکھیں موندھ لی اور وہ کلمات پڑھنے لگے ۔۔۔۔
________________
عمر بھی مقررہ وقت پر چلا شروع کر چکا تھا اس نے بھی آنکھیں موندھیں کلمات پڑھنا شروع کر دٸیے ۔۔۔
________________
ابھی کچھ پل ہی گزرے تھے کہ قیس کے کانوں سے آواز ٹکراٸی ۔۔
قیس بیٹے بس چلہ روک دو اور آنکھیں کھول لو ۔۔۔یہ آواز اسی سفید عمامے والے بزرگ کی تھی ۔۔قیس آنکھیں کھولنے ہی والا تھا کہ سفید عمامے والے بزرگ کی آواز پھر سناٸی دی ۔۔۔
قیس یہ میری آواز میں کوٸی اور ہے ۔۔ہرگز آنکھیں مت کھولنا بلکہ چپ چاپ کلمات پڑھتے رہو ۔۔
قیس نے ایسا ہی کیا ۔۔۔
اب کالی کے منحوس مندر میں قہقہے گونجنے لگے ۔۔۔
قیس کلمات پڑھی جا رہا تھا ۔۔۔ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ مندر میں ایک لڑکی بین کر کے رو رہی ہے جبکہ دوسری قہقہے لگا کر ہنس رہی ہے ۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں قیس کو محسوس ہوا کہ گول داٸرے کے اردگرد کوٸی لنگڑاتا ہوا چل رہا ہے۔۔
قق قیس بیٹے میری مدد کرو اس شیطان نے مجھے کرشن بنا دیا ۔۔۔قیس مجھے مسلمان کرو پھر سے میں طالب ہوں ۔۔۔قیس بیٹے مدد کرو ۔۔۔قیس بیٹے ہاتھ داٸرے سے باہر کرو میں تمہارا ہاتھ تھام کر داٸرے میں آ جاتا ہوں تا کہ وہ شیطان مجھ پر قبضہ نہ جما لےط۔۔۔
آواز اس قدر غمزدہ تھی کہ بے اختیار قیس نے آنکھیں بند کیے ہی ہاتھ اٹھایا ۔۔۔
قیس بیٹے یہ کیا کر رہے ہو ۔۔۔ہاتھ ہرگز باہر نا نکالنا ۔۔۔یہ آرمپالی شیطان کا وفادار کتا کرشن ہے نا کہ طالب ۔۔۔۔یہ طالب نہیں رہا اب ۔۔۔یہ کرشن ہے ۔۔۔
قیس نے فضا میں بلند ہاتھ کو دھیرے سے واپس گود میں گرا لیا ۔۔اس کے ساتھ ہی کرشن کی دل دہلا دینے والی قہقہے دار چینخ سناٸی دی ۔۔۔۔۔
قیس لرز کر رہ گیا ۔۔۔۔
____________________
پہلے پندرہ منٹ تو عمر کامیابی سے کلمات پڑھتا رہا اس کے بعد اسے محسوس ہوا جیسے زمین زور زور سے ہلنے لگی ہے جیسے زلزلہ اور تیز آندھی آ رہی ہو ۔۔۔اسے لگا جیسے اس کے بدن پر موجود کپڑے پھڑپھڑا رہے ہے اور اردگرد پڑے دٸیے بجھ کر ادھر ادھر بکھر گٸے ۔۔وہ گھبراہٹ کے مارے زور زور سے سانس لینے لگا ۔۔۔۔جب حالت کشف میں اک نورانی چہرے والا نوجوان سر پہ ٹوپی سجاۓ اس کے داٸرے میں آ کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔
عمر پریشان نہیں ہو ۔۔ماحول بالکل پرسکون ہے ۔۔۔زمین بالکل نہیں ہل رہی اور نا ہی آندھی چل رہی ہے۔۔یہ سب صرف اک وہم ہے ۔۔۔تم سکون سے کلمات پڑھنا جاری رکھو ۔۔ اس نورانی چہرے والے نوجوان نے شاٸستگی سے کہا۔۔
____________________
چالیس منٹ گزر گٸے ۔۔۔بری روحوں نے ان کا چلہ توڑنے کی بے حد کوشش کی لیکن ان کے سروں پر دو روحانی شخصیات کا سایہ تھا سو چلہ بخوبی گزر گیا ۔۔۔
قیس کو محسوس ہوا جیسےکسی نے شفقت بھرا ہاتھ اس کے سر پر رکھا ہے ۔۔۔وہ سمجھ گیا ۔۔۔اس نے مسکراتے ہوۓ دھیرے سے آنکھیں کھولی ۔۔۔
لیکن سامنے موجود اس خوفناک ذی روح کو دیکھ کراس کا رواں رواں کانپ اٹھا
قیس اس ذی روح کو اس قدر قریب دیکھ کر کانپ رہا تھا ۔۔۔۔۔وہ خوف سے تیز تیز سانس لینے لگا ۔۔۔
میں نے چلے میں کہاں غلطی کی ۔۔۔۔وہ بس خوف سےلرزتے بس یہی سوچ رہا تھا۔۔۔
_____________________
چالیس منٹ پورے ہوتے ہی عمر کو بھی سر پر شفقت بھرے ہاتھ کا احساس ہوا اس نے دھیرے سے آنکھیں کھولی ۔۔۔اور مسکراتے ہوۓ اس نورانی شخصیت کو دیکھا جو اس کےسر پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی ۔۔۔۔
عمر بیٹے ۔۔۔ اب تمہارا بس اک آخری کام باقی ہے۔۔۔اس میز کو سرکا کر نیچے جاٶ اور میرا اشارہ ملتے ہی نیچے پڑے دونوں لڑکیوں کو اوپر لے آٶ ۔۔لیکن دھیان رہے وہاں نیچے چار وجود کالے کپڑے میں لپٹے پڑے ہو گے ۔۔تمہیں عقل کا استعمال کرتے ہوۓ ان میں سے دو وجود کو اوپر لانا ہے ۔۔۔ یاد رہے اوپر لاۓ جانے والے وجود شیطان کی پجارنوں کے بھی ہو سکتے ۔۔اس لیے بہت زیادہ خیال سے لانا ۔۔۔ اس غیر معمولی قد کے لمبے نورانی چہرے والے بزرگ نے کہا ۔۔
جی حضرت میں پوری کوشش کروں گا کہ درست کام کروں ۔۔۔
اب نیچے جاٶ۔۔۔۔
________________________
قیس ابھی بھی اس دو سینگوں والی مخلوق کو خوف سے لرزتے ہوۓ دیکھ رہا تھا ۔۔۔
ساری عمر یوں ہی دیکھتے رہو گے مجھے ۔۔۔کیا میں اتنا حسین ہوں ۔۔اس سینگوں والی مخلوق نے قہقہہ لگاتے ہوۓ کہا ۔۔
کک کون ہو تت تم ۔۔۔قیس نے ہکلاتےہوۓ پوچھا ۔۔۔
عظیم شاہِ جنات کا بیٹا “انصر شاہ” ہوں ۔۔۔اس سینگوں والے نے پھر سے قہقہہ لگاتے ہوۓ جواب دیا ۔۔۔
تت تم یی یہاں کک کیا کر رہے ہو ۔۔قیس نے ڈرتےہوۓ پوچھا ۔۔
یہاں سے گزر رہا تھا سوچا کالی کے مندر کی سیر کرتا جاٶں ۔۔۔۔پاگل انسان !!!!! یقیناً مجھے تمہاری مدد کیلیے ابا حضور نے بھیجا ہے ۔۔اس سینگ والی مخلوق نے منہ بسورتے ہوۓ کہا ۔۔۔
جبکہ قیس بس اسے حیرت سے تکتا رہا ۔۔۔۔
چلو اب پیچھے ہٹو ان شیطانوں نے بہت عیش کر لی اب ان کے ختم ہونے کا وقت ہوا چاہتا ہے ۔۔۔بسم ﷲ ۔۔۔شروع اس پاک با برکت عظیم ذات کے نام سے ۔۔۔۔ اب وہ سینگوں والی مخلوق قیس کو پیچھے کرتی داٸرے میں آنکھیں موندھے بیٹھ گٸی ۔۔۔جبکہ قیس اسے چپ چاپ دیکھتا رہا ۔۔۔۔ وہ آنکھیں بند کیے کچھ کلمات پڑھتا رہا ۔۔پھر اس نے آنکھیں کھولی اور قیس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔جس سے کچھ پل میں ہی قیس گہری نیند کی وادیوں میں کھو گیا۔۔۔۔
___________________________
عمر بیٹے ان میں سے اک کالے کپڑے میں لپٹے وجود کو باہر لاٶ ۔۔۔
عمر نے دیکھا کہ چار وجود کالے کپڑے میں لپٹے ہے ۔۔۔
اس نے محسوس کیا اک وجود کی قد کی لمباٸی سے کافی چھوٹا ہے جیسے کہ اس کے پاٶں نہیں ہے ۔۔۔ وہ سمجھ گیا یہ شیطان ہے ۔۔۔پھر اس نے دوسرے وجود میں نظر ڈالی ۔۔وہ کچھ بھی عجیب تلاش نہ کر سکا پھر اس نے تیسرے وجود کو دیکھا وہ تھوڑا بھرا بھرا تھا جیسے کسی نے موٹا اور کام والا لباس زیب تن کٕا ہو ۔۔۔وہ سمجھ گیا یہ بھی شیطان ہے ۔۔پھر اس نے چوتھے وجود پر نظر دوڑاٸی وہ بھی اسے دوسرے نمبر والے وجود کی طرح ہی لگا ۔۔۔اس نے بسم ﷲ پڑھتے دوسرے وجود کو کندھے پر اٹھایا اور اوپر لے آیا ۔۔۔
نورانی صفت بزرگ مسکرایا ۔۔۔اب دوسرے وجود کو بھی لے آٶ ۔۔پیچھے مڑ کر مت دیکھنا ۔۔۔
عمر نے اثبات میں سر ہلایا اور وہ چوتھے نمبر والے وجود کو بھی اوپر لے آیا ۔۔۔
وہ بزرگ مسکراۓ ۔۔۔
بہت بہتر عمر بیٹے ۔۔۔ اب آپ یہ پانی خود بھی پی لو اور ان بیٹیوں کے منہ میں بھی ڈال دو اور ہاں اس پانی کو بچا بھی لینا صبح گاٶں میں کسی کو اس کی ضرورت پڑے گی ۔۔۔۔اور ہاں بیٹا اب آپ اس جھونپڑی سے باہر چلے جاٶ اور ان بیٹیوں کو بھی لے جاٶ ۔۔۔ بزرگ نے مسکراتے ہوۓ کہا اور خود میز کو سرکا کر نیچے شیطان کے اڈے میں داخل ہو گٸۓ ۔۔۔
**********************************
صبح کا اجالا چارسُو پھیلا تھا ۔۔۔
ہر طرف جگمگ جگمگ سورج کی روشنی چمچماتی ہوٸی بکھری پڑی تھی ۔۔۔
قیس نے اک انگڑاٸی لے کر آنکھ کھولی ۔۔۔۔اور اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔۔وہ حیرت سے سر کجاتا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔وہ کالی کے مندر کے وسط میں سویا پڑا تھا اور اس مندر کی ہر چیز جل کر راکھ میں تبدیل پڑی تھی ۔۔
یہاں رات کیا ہوا تھا ۔۔۔اس عجیب سی مخلوق نے میری آنکھوں پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔ہاں اس کے بعد کیا ہوا تھا ۔۔؟
وہ خود سے ہی سوال کرتا اٹھا ۔۔۔۔ کالی کے مندر سے نکلتے ہی اسے سامنے باٸیک نظر آٸی وہ فوراً پیچھے بنے گاٶں کی طرف گیا ۔۔کیا دیکھتا ہے اس جھونپڑی کے پاس اک ہجوم جمع ہے ۔۔وہ ہجوم کو چیرتا آگے بڑھا ۔۔۔عمر بے سدھ سویا پڑا تھا جب کہ کالے کپڑوں میں لپٹے وجود وہی پڑے تھے ۔۔اس نے کپڑا ہٹایا وہ مناہل اور حناوے تھی ۔۔۔وہ خوشی سے وہی سجدہ ریز ہو گیا ۔۔اب وہ ہلا ہلا کر عمر کو اٹھا رہا تھا۔۔
تھوڑی دیر میں عمر بھی انگڑاٸی لیتا اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔تھوڑا اور ہوش میں آنے پر انہوں نے اسفند بھاٸی کو کال کر کے ایمبولینس بلواٸی ۔۔۔
عمر نے ایمبولینس کیساتھ جانے سے پہلے اس دو منزلہ مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔۔۔۔اک بھاٸی صاحب باہر نکلے ۔۔۔۔
انکل یہ مقدس پانی ہے ۔۔اپنی آسیب زدہ بچی کو پلا دٸیجیے گا ۔۔۔ یہ مجھے کسی نے آپ کودینے کو کہا ہے ۔۔۔ﷲ کا نام لے کر پلا دٸجیے گا ۔۔۔بچی پھر بالکل ٹھیک ہو جاۓ گی ۔۔۔۔
ان بھاٸی صاحب نے حیرت سے وہ پانی لیا ۔۔۔عمر سلام کرتا چل دیا۔۔۔
شیطان کا خاتمہ ہو چکا تھا مناہل اورحناوے بالکل ٹھیک تھی ۔۔۔۔۔۔
انہیں جسمانی طور پر کوٸی چوٹ نہیں پہنچی تھی البتہ مناہل کی گردن اور کمر پر کچھ رگڑ کےنشان تھے جس ڈاکٹرز کے مطابق جلد ہی ٹھیک ہو جاۓ گے ۔۔۔۔۔دو دن ہسپتال میں رہ کر دونوں صحت یاب ہو کر گھر پہنچ چکی تھی ۔۔بانو بیگم کی آنکھ کا آپریشن بھی کامیاب ہو گیا تھا لیکن گلی میں داخل ہوتے ہی انہیں خبر ملی کہ چاندنی بوا کا آج سوٸم ہے۔۔۔ کسی اَن دیکھی مخلوق نے ان کی آنکھیں نکال لی تھی اور گالوں کا گوشت چبا ڈالا تھا ۔۔۔
چاندنی بوا بھی کسی حد تک اس واقعے سے جڑ چکی تھی لیکن شاید قیس جانتا نہیں تھا یا پھر وہ بھول چکا تھا ۔۔۔البتہ اسے بہت افسوس ہوا ۔۔۔۔۔
حناوے اور قیس کے نکاح کی تقریب میں سر اسفند بھی مناہل کیلیے اپنی والدہ اور والد اور جان سے پیارے عمر کے ہمراہ وہاں موجود تھے ۔۔۔
ہنسی خوشی تقریب جاری تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر اس سب کیلیے بہت پرجوش تھا ۔۔۔سب کے چہروں پر کھوٸی ہوٸی مسکراہٹیں لوٹ آٸی تھی ۔۔۔
*********************************
عمر میں تمہیں ہی ڈھونڈ رہا تھا ۔۔۔۔چلو درگاہ میں چلتے ہے ۔۔۔میں اس مبارک نکاح والے دن ان نیک بزرگ کی دعاٸیں لینا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔قیس نے کہا
ارے خیال سے دولہے میاں ۔۔کہیں فقیر صاحب ہمارے لیے برتنوں کا ڈھیر نا جمع کر رہے ہو ۔۔عمر نے ہنستے ہوۓ کہا ۔۔قیس بھی مسکرا دیا ۔۔
انہوں نے درگاہ کے سامنے باٸیک روکی اور سیڑھیاں چڑھتے اندر داخل ہو گٸے ۔۔
ارے ارے ۔۔۔۔۔یہ کہاں گھسے چلے جا رہے ہو ۔۔۔فقیر نے غصے سے انہیں دیکھا ۔۔۔
وہ فقیر میاں ہمیں انہیں سفید عمامے والے بزرگ سے ملنا ہے ۔۔۔قیس نے کہا
ارے نکموں ۔۔یہاں تو کوٸی بزرگ ہے اور نہ ہی کبھی تھے ۔۔۔ تم کن کی بات کر رہے ۔۔۔فقیر نے حیرت سے کہا ۔۔
ارے فقیر میاں وہی بزرگ ۔۔۔۔۔جن کے بارے آپ آ کر کہتے تھے کہ اندر چلو بلاوا آیا ہے ۔۔۔۔عمر نے کہا
میں نہیں جانتا کس کی بات کر رہے ۔۔۔فقیر نے کہا
عمر نے اک دم آگے بڑھ کر اس اندھیرے کمرے کا دروازہ کھول دیا ۔۔۔
اندر کوٸی بھی نہیں تھا ۔۔۔۔
ہاں دیکھ لیا ۔۔۔مل گیا سکون ۔۔۔بولا تھا نا یہاں کوٸی بزرگ نہیں ۔۔
فقیر نے کہا اور انہیں دیکھنے لگا ۔۔
اچھا چلے ٹھیک ہے چلتے ہیں ہم ۔۔۔قیس نے کہا اورعمر کو کھینچتا ہوا چل پڑا ۔۔۔
سنو ۔۔۔تم لوگ روحانی نظروں کے حصار میں ہو اس لیے درگاہ میں حاضری لگاتے رہنا۔۔۔۔۔فقیر نے مسکراتے ہوۓ کہا ۔۔
قیس اور عمر دونوں ہی مسکرا دٸیے ۔۔۔شاید وہ کچھ کچھ سمجھ گٸے تھے ۔۔۔۔وہ دونوں سلام کرتے سیڑھیاں اترتے چلے گٸے جبکہ فقیر اس اندھیرے کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔وہاں چار شخصیات براجمان تھی ۔۔۔
محترم عبدﷲ ۔۔۔ محترم عبید ۔۔۔ﷲ پاک آپ کی ابدی زندگی کو اور پرسکون بناۓ اور آپ کے درجات بلند کرے ۔۔۔فقیرنے انہیں دعا دی
دونوں نے مسکرا کر فقیر کو دیکھا ۔۔۔
اور محترم انصر شاہ اود محترم ابو ذر صاحب قومِ جنات کے عظیم شخصیات آپ کی آمد کا بہت بہت شکریہ ۔۔۔۔
وہ بھی مسکرا دٸیے ۔۔۔
فقیر میاں ۔۔۔وہ دراصل اک بات کہنی تھی ۔۔میں قیس کے سامنے اصلی روپ میں گیا تھا جس کے سبب وہ مجھے دیکھ کر ڈر گیا تھا آپ مہربانی کرکے ابا حضور کو میری شکایت مت لگاٸیے گا ۔۔۔انصر شاہ نے جھجھکتے ہوۓ کہا
کمرے میں موجود سب ہی مسکرانے لگے ۔۔۔۔
*******************************
رات کے بارہ بج کر بارہ منٹ ہو چکے تھے ۔۔۔۔
یاﷲ سنا تو یہی ہے کہ بارہ بجے کے بعد اب اس منحوس مندر کے سامنے جانے سے کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔میرے ﷲ میری حفاظت کرنا ۔۔۔۔شوکت علی نے ساٸیکل کا پیڈل تیز تیز چلاتے ہوۓ کہا ۔۔۔۔
اب وہ کالی کے مندر کے بالکل سامنے پہنچ چکا تھا۔۔۔اچانک اس نے اندر کی طرف دیکھا ۔۔۔
سفید گاٶن میں سر پر ہیٹ جماۓ ٹھوڑی پر ہاتھ رکھے اک نہایت خوبصورت لڑکی مسکراتی ہوٸی اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
اس کے ہاتھ سے ساٸیکل پھسلی اس نے اچانک ہی بریک لگا کر ساٸیکل کو سنبھالا۔۔۔ ۔۔پھر دھیرے سے ڈرتے ہوۓ مڑ کر پھر سے مندر کی سمت دیکھا ۔۔۔
ہیٹ پہنے بھورے بالوں والی لڑکی مسکراتی ہوٸی اب مندر کے اندر جا رہی تھی۔۔۔۔۔
شوکت علی بھی بے اختیار مسکرا دیا ۔۔۔
اچانک اسے کچھ خیال آیا ۔۔۔
اس نے خود کے سر پر تھپڑ کے انداز سے ہاتھ مارا۔۔اور بڑبڑانے لگا۔۔۔
ارے ارے پاگل شوکت علی بھوت کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔۔۔ارے او بھاٸی نکل لے ادھر سے ۔۔۔۔اس نے ساٸیکل تیزی سے چلانی شروع کی اور گاٶں میں داخل ہو گیا ۔۔۔۔
….ختم….
***********************
کھل اٹھی بہاریں اور زندگی لوٹ آٸی ۔۔
اے مہرباںِ انجان تیرا شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
***********************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...