’’وہ رامس کے ساتھ ایف نائن سیکٹر میں واقع فاطمہ جناح پارک میں موجود تھی۔موسم بہت سہانا تھا۔ فضا میں موتیے کے پھولوں کی بھینی بھینی سی مہک تھی۔ اپنی خود کشی کے واقعے کے بعد وہ پہلی دفعہ ماہم کے ساتھ گھر سے باہر نکلا تھا۔اس لیے اضطراب اور بے چینی اُس کے ساتھ چلتے ہوئے ماہم کو اچھی طرح محسوس ہو رہی تھی۔اُس تلخ واقعے کے بعد فوری ٹریٹمنٹ ملنے سے اُ س کی حالت تو سنبھل گئی تھی لیکن اُس کی اس حرکت نے اُس کے پورے گھر کو خوفزدہ کر دیا تھا۔ ۔۔۔‘‘
پچھلے ایک ہفتے سے ماہم کسی سایے کی طرح اُس کے ساتھ تھی۔اوپر سے جواد انکل اُسے امریکہ سے کال کرکے بار بار رامس کا کیس اچھی طرح ہینڈل کرنے کی تلقین کر رہے تھے۔۔ اب تو خیراُس کی رامس کے ساتھ اچھی خاصی دوستی اور بے تکلفی ہو گئی تھی۔اس لیے وہ اُس کی آمد پر بیزاری اور کوفت کا اظہار نہیں کرتا تھا۔وہ واحد لڑکی تھی جس نے اُس سے خود کشی کرنے کی وجہ نہیں پوچھی تھی ۔وہ اس قدر سادہ انداز سے اُس سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتی تھی کہ رامس کو کبھی کبھار لگتا کہ وہ سائیکلوجسٹ ہونے کا بس ڈرامہ ہی کر رہی ہے۔
اُس دن موسم غضب کا تھا۔ ٹھنڈی ہوا بادلوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی ہوئی بڑے مست انداز کے ساتھ چل رہی تھی ۔موسم اچھا ہونے کی وجہ سے وہ زبردستی اُسے اپنے ساتھ ایف نائن پارک میں لے آئی ۔۔۔
پنک کلر کے سوٹ میں وہ سر تا پا قیامت ڈھا رہی تھی،ایک تو لباس کی کار گزاری اوپر سے اس کے دل کو چھو لینے والے نقوش، وہ سادگی میں بھی غضب ڈھاتی تھی۔اس وقت اپنے شانوں پرآتے گھنے سلکی بال کھولے ہلکی سی لپ اسٹک میں بھی وہ دمک رہی تھی۔ وہ اپنی راج ہنس جیسی گردن اٹھائے دلچسپی سے دائیں بائیں لوگوں کو دیکھ رہی تھی ۔
اس کے ساتھ سنگ مرمر کے بینچ پر بلیک جینز پر اسکائی بلیو شرٹ میں ملبوس رامس کی مردانہ وجاہت عام سے حلیے میں بھی صاف جھلک رہی تھی۔ اس کی شیو بڑھی ہوئی اور بادامی آنکھوں میں رتجگے کی کیفیت نمایاں تھی، وہ کئی راتوں سے ٹرینکو لا ئزرلینے کے باوجود بھی نہیں سو پا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں طغیانی اور چہرے پر عجیب سا خوف تھا۔۔۔
’’بھئی کیا ہو گیا ہے،ریلکس ہو کر بیٹھو ناں اور بے فکر رہو،میں کرنٹ نہیں مارتی۔۔۔‘‘ ماہم نے دلکش مسکراہٹ سے اُسے قدرے فاصلے پر لاتعلقی سے بیٹھے دیکھ کر شرارتاً کہا ۔
’’ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔‘‘ اُداسی اُس کے سارے وجود پر خیمہ تانے ہوئے تھی۔وہ تھوڑا سا قریب ہوا تو اس کے لباس سے اٹھنے والی بھینی بھینی پرفیوم کی خوشبو ماہم پر خوشگوار تاثر چھوڑ گئی۔
’’پرفیوم تو بہت زبردست لگا رکھا ہے۔۔۔‘‘ وہ ایسے ہی بے معنی باتوں سے گفتگو کا آغاز کرتی۔
’’بھائی کا ہے۔۔۔‘‘ اُس کے سادہ سے جواب پر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اُس کے موتیوں کی لڑی جیسے سفید دانتوں سے نظر چراتے ہوئے اُس نے قدرے ناراضگی سے کہا۔
’’اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔۔۔‘‘؟؟؟اس کی بادامی روشن آنکھوں میں ہلکی سی جھنجھلاہٹ ابھری جسے ماہم نے صاف نظر انداز کیا ۔
’’ایک تو تم فوراً لڑکیوں کی طرح ناراض ہو جاتے ہو چھوٹی چھوٹی باتوں پر۔۔۔‘‘ ماہم ایک دفعہ پھر ہنسی۔
’’اورتم لڑکوں کی طرح جو بات دل میں آئے وہ فوراًکہہ دیتی ہو۔۔۔‘‘ اُس کا جوابی حملہ ماہم کو اچھا لگا ۔
’’کیوں نہیں کہنی چاہیے کیا۔۔۔؟؟؟‘‘ اُس کی آنکھوں میں سے ایک دفعہ پھر شرارت چھلکی وہ خاموش رہا تھا۔ ’’رامس تم ماڈلنگ کیوں نہیں کرتے،قسم سے ماڈلنگ کے لیے بالکل فٹ ہو۔۔۔‘‘ وہ ماہم کے اس بے تکے مشورے پر سخت حیران ہوا۔ ’’مجھے ایسے فضول کام پسند نہیں۔۔۔‘‘اُس نے فوراً ناگواری کا اظہار کیا۔
’’پھر کیا کام پسند ہے،وہ بتا دو۔۔۔‘‘ اس نے قطعاً بُرا نہیں منایا بلکہ پہلے سے زیادہ دلچسپی سے پوچھا۔
’’میں کچھ بھی نہیں کر سکتا،میں بس اتنا جانتا ہوں۔۔۔‘‘ وہ بالکل ایک روٹھے ہوئے بچے کی طرح بولا تھا۔ماہم مسکرائی۔
’’دیکھو رامس، تم ایک با لکل نا رمل انسا ن ہو ،بس ڈیپر یشن کے بعد والے فیز سے گذر رہے ہو ، میں ما نتی ہو کہ یہ بھی ایک ذہنی بیما ری ہے اور ہما رے معا شر ے کا المیہ ہے کہ ہم جسما نی بیما ریو ں کے لیے تو بہت دھڑلے سے ڈاکٹر ز کے پا س جا تے ہیں لیکن کسی سا ئیکلو جسٹ یا سا ئیکا ٹر سٹ کے پا س جا تے ہو ئے ہم اپنے دا ئیں با ئیں دیکھنے لگتے ہیں کہ کو ئی ہمیں دیکھ تو نہیں رہا۔اصل میں تو اس رو ئیے کا علا ج کر نے کی ضرو رت ہے،جیسے کہ تمہا را کہنا تھا کہ تم میر ے کلینک نہیں آؤ گے۔‘‘ بڑ ی سنجیدہ بات بڑے ہلکے پھلکے لہجے میں کہتے ہوئے اُس نے اپنے اوپر جھکے ہوئے درخت سے ایک چھوٹی سی شاخ بھی توڑ لی ۔
رامس نے الجھ کر اُس کے چہرے کے دلکش نقوش کو دیکھاجبکہ وہ لاپرواہی سے ہاتھ میں پکڑی شاخ سے زمیں پر اُگی گھاس پر لکیریں کھینچ رہی تھی۔وہ بظاہر لاپرواہ لیکن اس کا تما م تر دھیان اپنے ساتھ بیٹھے رامس کی طرف تھا۔
’’میں لو گو ں سے ڈرتا نہیں ہوں‘‘رامس کی خفگی بھرے انداز پر دی جانے والی اطلاع پر ماہم نے مسکرا کر اُسے دیکھا جو کیاری میں لگے گل داؤدی کے پھولوں پر نظریں جمائے قدرے رخ موڑے لاتعلقی سے بیٹھا ہوا تھا۔
’’اگر لوگوں سے نہیں ڈرتے تو پھرمیرے کلینک کیوں نہیں آئے ؟‘‘ما ہم نے اس کے لہجے سے ذرا بھی متا ثر ہو ئے بغیر ہنس کرکہا،اس کے چہرے پر بڑا نر م سا تا ثر تھا جو اس کی دلکشی کو مز ید بڑھا رہا تھا۔رامس نے بڑی مشکل سے اپنی نگا ہیں اس کے چہر ے سے ہٹا ئیں تھیں۔
’’ بس میرا دل کر رہا تھا کہ آج تم سے کہیں با ہر ملوں‘‘ اس کے معصو ما نہ انداز پر وہ بے سا ختہ کھلکھلا کرہنس پڑ ی ۔ رامس کو یو ں لگا جیسے کسی ویر ان مند رمیں بہت سی گھنٹیا ں بج اْٹھی ہوں۔وہ اُس کے ساتھ بیٹھی اب اپنے سامنے بچّوں کو کرکٹ کھیلتا ہوا بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ اُس کی نظروں کے تعاقب میں رامس نے وہ منظر دیکھا تو سادہ سے انداز میں اُسے کہا۔
’’ڈیڈی کی ڈیتھ سے پہلے میں بھی بہت اچھا فاسٹ باؤلر تھا۔اپنے کالج کو اکثر میچ میں نے ہی جتوائے تھے۔۔۔‘‘وہ اس کی اطلاع پر چونکی۔
’’ہوں ۔۔۔گڈ۔۔۔!!!!تم اب کیوں نہیں کھیلتے ۔۔۔‘‘ ماہم نے سخت حیرانگی سے اُس کے تھوڑی کے پاس تل کو دیکھا۔لڑکوں کے ایسے تل اُس نے کم کم ہی دیکھے تھے۔
’’پتا نہیں۔۔۔‘‘اُس نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔
’’مجھے لگتا ہے کہ ہر وہ کام جو میں پہلے کرتا تھا۔وہ اب نہیں کر سکتا۔۔۔‘‘اُس کے لہجے میں عجیب سی بے چارگی تھی۔وہ اب بے بسی سے اپنے دونوں ہاتھ مسل رہا تھا۔ماہم نے بڑی توجّہ سے اس کی اس حرکت کو دیکھا تھا جو وہ غیر ارادی طور پر کر رہا تھا۔
’’ دیکھو رامس،تم جس ذہنی کیفیت میں مبتلا ہو اسکو نفسیا ت کی زبا ن میں پو سٹ ٹرا میٹک سٹر یس ڈس آرڈر کہتے ہیں اس میں انسان کو تکلیف دہ وا قعا ت ہر وقت بے چین رکھتے ہیں اور اسکی نہ صرف نیند ڈسٹرب ہو تی ہے بلکہ بھو ک بھی ختم ہو جا تی ہے اور وہ ہر وقت مضطر ب رہتا ہے۔اُس کا کچھ بھی کرنے کو دل نہیں کرتا لیکن تمہیں اس فیز سے خو د نکلنا ہے۔ورنہ اپنی زندگی تباہ کر لو گے‘‘اُس نے خلوص دل سے اُسے دوبارہ سمجھانے کی کوشش کی ۔
’’میں اس فیزمیں سے کیسے نکل سکتا ہو ں؟مجھے ہر طر ف خو ن نظر آتا ہے مجھے ڈیڈی کی کر اہیں رات کو سونے نہیں دیتی،میں ان کی تکلیف کا مداوا نہیں کر سکا،یہ احسا س مجھے ہر وقت بے چین رکھتا ہے۔‘‘ وہ دونوں ہا تھوں سے اپنا سر تھا م کر بے بسی سے بو لا ۔
’’ہاں یہ ایک مشکل کام ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔۔۔‘‘ماہم نے اُس کے بازو پر ہاتھ رکھ کر اپنائیت بھرے انداز سے کہا تھا۔اُس نے چونک کر ماہم کو دیکھا۔
’’ میرا مشورہ تو یہ ہے کہ تم اس واقعے کو ایک ڈراونا خو اب سمجھ کر بھو ل جاؤ‘‘ وہ بہت نر می سے کہہ رہی تھی ’’دیکھو رامس! انسان کی زند گی میں بہت سے نشیب وفراز آ تے ہیں اور انسان کو اس کا مقا بلہ ہمت سے کر نا چا ہیے،لیکن افسوس کہ یہ انسا ن کی کم ہمتی ہے کہ وہ آسو دگی میں تو بہت اطمینا ن سے رہتا ہے لیکن تھو ڑی سی تکلیف آئے تو اس کے اوسا ن خطا ہو جاتے ہیں اور وہ ذہنی دبا ؤ کا شکا ر ہو کر ہا تھ پیر چھو ڑ دیتا ہے‘‘۔اْس کے کندھے پر ہا تھ رکھے وہ ایک دوست کی طر ح اْسے سمجھا رہی تھی۔
’’لیکن ما ہم یہ ایک چھو ٹا سا وا قعہ نہیں ہے جس کو میں آسا نی سے بھو ل جاؤں‘‘وہ جیسے الفا ظ تلا ش کرتے ہو ئے بو لا تھا۔اس کی آنکھو ں میں بے بسی بھی تھی اور نمی بھی۔وہ اب ایک چھو ٹے سے بچے کو آئس کر یم کھا تا دیکھ رہا تھا کبھی اس کے چہر ے پر بھی ایسے ہی بے فکری ہو تی تھی۔
’’ تم یہ فر ض کر لو کہ ڈیڈ ی کی مو ت ایسے ہی لکھی تھی اور ایسے ہی آنی تھی،یقین کرو بہت سکو ن میں آجا ؤ گے،ورنہ خود بھی تنگ ہو ں گے اور جو لو گ تم سے محبت کرتے ہیں ان کو بھی اذیت کے صحر ا میں بھٹکنے کے لیے چھو ڑ دو گے۔۔۔‘‘ماہم نے اپنائیت سے اُس کے کندھے پر ہا تھ رکھا تھا۔ وہ چونک کر اُسے دیکھنے لگا جس کا انداز انتہائی دوستانہ تھا۔
’’تم نے کبھی اپنی ما ما کا چہر ہ دیکھا ہے ۔۔۔؟؟؟‘‘ وہ اس کی بات پر زبردست انداز سے چونکا۔
’’سب سے زیا دہ نقصا ن تو اُن کا ہو ا ہے تم اور تمہارے بڑے بھائی تو اپنی شا دی کے بعد نئے رشتوں میں بزی ہو جا ؤ گے،ڈیڈی یا د آئیں گے لیکن اتنی شدت سے نہیں۔آنٹی کو دیکھو وہ تو زند گی کے سفر میں بالکل تنہا ہو گئی ہیں اور تمہیں معلوم ہے نا ں کہ ماما اور ڈیڈی میں کتنی محبت تھی،جب ماما نے تم لو گو ں کی خا طر خو د کو سنبھا ل لیا تو کیا تم ان کے لیے ایک نا رمل لا ئف میں نہیں آ سکتے۔‘‘ وہ بہت توجہ سے سرجھکائے اُس کی باتیں سن رہا تھا۔
’’میں ماما کو دکھی کرنا نہیں چاہتا،لیکن یقین کرو کہ میں ایسا جان بوجھ کر نہیں کرتا۔۔۔‘‘وہ بالکل بچوں کے انداز کے ساتھ اپنی صفائی دے رہا تھا۔
’’مجھے معلوم ہے رامس۔۔۔‘‘وہ ہلکا سا مسکرائی۔
’’مجھے اچھی طرح پتا ہے کہ تم ایک بہت اچھے اور بہت خوبصورت دل کے حامل انسان ہو،تم کسی کو بھی دکھ نہیں دے سکتے۔۔۔‘‘وہ اس کے لہجے کے یقین پر گڑبڑا سا گیا تھا۔
’’پھر بتاؤ،کہ میں کیا کروں۔۔۔؟؟؟؟‘‘اُس نے بالاخر ہتھیار ڈال ہی دیے ۔
’’یارخود کو مصروف کرواور نئے سرے سے زند گی کا آغا ز کرو،اپنے لیے نہیں ،ماما کے لیے،بھا ئی کے لیے۔‘‘ماہم کی باتوں سے اُس کے چہر ے کا اضطراب خا صا کم ہو گیا ۔وہ اب کھل کر مسکرا رہا تھا۔
’’ دیکھو رامس، ماما اور بھا ئی صر ف تمہا رے لیے یہا ں اسلام آباد میں شفٹ ہو ئے ہیں اور ان کی محبت کا مز ید امتحا ن نہ لو،اور تم تو بہت ہمت والے بندے ہو،ہمیشہ ٹا پ کرتے رہے ہواپنے آپ کو ضا ئع مت کرو پلیز‘‘ ماہم کی باتوں نے اس پر خاطر خواہ اثر کیا تھا ۔وہ اب آسمان پر روئی کے گالوں کی طرح اڑتے بادلوں کو دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
’’بادل اچھے ہوتے ہیں ناں۔زمین کو سیراب کر دیتے ہیں۔انسانوں کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔انہیں بھی اپنا دامن کشادہ کر کے دوسروں کے کام آنا چاہیے۔۔۔‘‘ ماہم نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھتے ہوئے ہلکے پھلکے لہجے میں کہا۔
وہ اب اپنے سامنے پاپ کارن کھاتے ہوئے گذرنے والی دونو عمر لڑکیوں کو دیکھ رہی تھی۔اس عمر میں تو ویسے ہی لڑکیوں کو بات بے بات ہنسی آتی تھی۔وہ دونوں بھی لا ابالی انداز سے سامنے بنے فٹ پاتھ پر قہقہے لگاتی ہوئی پاپ کارن فضا میں اچھال رہی تھیں۔ ماہم کے اس قدر غور سے دیکھنے پر وہ ٹھٹھکیں اور مسکرائیں۔
’’واٹ اے بیوٹی فل کپل‘‘اُن کی آنکھوں اور لہجے میں شرارت ہی شرارت تھی۔ ماہم نے ان کے اس کمنٹس پر دوستانہ انداز سے ہاتھ ہلایا تو وہ ہنس پڑیں ۔ماہم نے انہیں رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے شوخ لہجے میں پوچھا۔
’’ہم دونوں میں سے زیادہ خوبصورت کون ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ماہم کی شوخی پر رامس نے بوکھلا کر اُن تینوں بولڈ لڑکیوں کو دیکھا۔ جو کہ رامس کے چہرے پر اڑتی ہوئی ہوائیاں دیکھ کر لطف اندز ہو رہی تھیں۔اُن کے لیے یہ بالکل انوکھا نظارہ تھا۔
’’دو نوں۔۔۔‘‘وہ کھلکھلا کر ہنسیں۔ انہوں نے گرم گرم پاپ کارن کا لفافہ ماہم کی جانب بھی بڑھایا جس نے بے تکلفی سے مٹھی بھر لی۔جب کہ ان دونوں لڑکیوں میں سے ریڈ شرٹ میں ملبوس لڑکی نے انگلی کے اشارے سے کہا۔
’’یہ زیا دہ ہینڈ سم ہیں‘‘ اپنی طرف اس کی انگلی کا اشارہ دیکھ کر رامس کا چہرہ خفّت کے احساس سے سرخ ہوا تھا۔وہ سرجھکائے بالکل خاموش کسی بچے کی طرح بیٹھا ہوا تھا۔
’’ لوّلی((lovely‘‘۔ وہ اب رامس کے خفت زد ہ چہرے اور گڑبڑانے پر محظوظ ہو رہی تھیں۔
’’ایسٹرن گائے۔۔۔‘‘ ان دونوں کی ہنسنی تھمنے میں ہی نہیں آرہی تھی۔
’’ یہ تو یا ر زیا دتی ہے میر ے ساتھ‘‘ ماہم اب مصنو عی خفگی سے بولی لیکن حقیقت یہ تھی کہ اسے بھی رامس کا بلش ہونابہت لطف دے رہا تھا۔ جبکہ وہ لڑکیاں اب ما ہم کو یقین دلا نے میں مصرو ف تھیں کہ وہ بھی کسی طور کم نہیں ۔لیکن وہ جان بوجھ کر افسردہ ہونے کی بڑی کامیاب اداکاری کر رہی تھی۔وہ لڑکیاں اب ہنستے ہوئے آگے بڑھ گئیں تھیں۔جب کہ ماہم اٹھ کر اب والز آئس کریم کے اسٹال کی طرف بڑھ گئی تھی۔
’’ یہ لو میری طرف سے زیادہ ہینڈ سم ہونے کی خوشی میں کا رنیٹو کھاؤ اور موجیں اڑاؤ۔۔۔‘‘ وہ اُ س کے پا س بینچ پر بیٹھ کرشوخ انداز سے گویا ہوئی ۔جب کہ وہ بغور اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔اُس کے اس طرح دیکھنے سے وہ تھوڑا سا گڑبڑائی۔
’’تم بہت خو بصورت ہو ما ہم‘‘وہ اس کے صبیح چہرے کے دلکش نقو ش کو دیکھتے ہو ئے بڑے جذب سے بو لا تھا۔وہ اُس کی بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’اچھا میر ی دلجو ئی کر رہے ہو‘‘ وہ اب مزے سے آئس کریم کھا رہی تھی۔ اُس کی بات پر وہ صرف مسکرا دیا۔
’’نہیں،میں تمہیں بالکل ایک سچ بات بتا رہا ہوں۔۔۔‘‘اُس نے آئس کریم پکڑتے ہوئے سادگی سے کہا ۔
’’کیا سوچ رہے ہو رامس۔۔۔؟؟؟‘‘ ماہم نے اُسے بالکل خاموش بیٹھے دیکھ کر یونہی بات کو بڑھانے کے لیے پوچھا ۔
’’یار میں سوچ رہا ہوں کہ مجھے کوئی جاب وغیرہ کر لینی چاہیے۔۔۔‘‘اُس نے سنجیدگی سے کہاتو ماہم کو خوشی کا بڑا فطری سا احساس ہوا ۔
’’ویری نائس۔۔۔‘‘ ماہم نے خوشگوار احساس کے ساتھ اُس کا پر عزم چہرہ دیکھا اور وہ شاید آج اُسے جی بھر کر حیران کرنے پر تلا ہوا تھا تبھی اُس کی حیرت سے بے نیاز کہہ رہا تھا۔’’میں نے یہ بھی سوچا ہے کہ مجھے نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کرنا چا ہیے۔۔۔‘‘
’’ دیٹس گر یٹ یا ر‘‘ ما ہم کو حقیقتاً خو شی ہو ئی ۔رامس نے بے پایا ں خو شی کے احسا س کو اس کے خو بصو رت چہر ے پر بڑی سرعت کے ساتھ پھیلتے دیکھا اور یہ اس کے لیے ایک خو شگوار تجر بہ تھا۔وہ مستقل اسے دیکھ رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں مچلتے جذ بے دیکھ کر وہ ایک لمحے کو ٹھٹکی ۔
’’ایسے کیوں دیکھ رہے ہو۔۔۔؟؟؟؟‘‘اُس نے پرس سے ٹشو نکال کر بڑی نزاکت سے اپنے ہونٹوں کے کناروں کو صاف کیا۔
’’ایک بات کہوں ماہم۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کچھ تذبذب کا شکار ہوا جب کہ ماہم کے اندر کوئی گھنٹی سی بجی تھی اور اس کے سارے ہی حواس چوکنے ہوئے۔
’’ہاں ہاں کہو یار میں ،ہمہ تن گوش ہوں۔۔۔‘‘اُس نے ٹشو درخت کے ساتھ لگے ڈسٹ بن میں ڈالا ۔
’’ ما ہم ، مجھ سے شادی کر و گی؟‘‘اُ س نے اپنی طرف سے دھماکہ ہی تو کیاتھا لیکن اس کی بات سن کر ما ہم کا د ماغ بھک کر کے اڑا ۔وہ ششدر سی اُسے دیکھتی رہ گئی ۔۔اس کے ہا تھ میں پکڑی آ ئس کر یم بہت تیز ی سے پگھل رہی تھی جبکہ وہ انتہا ئی پر اعتما د انداز سے برا ہ راست اس کی آنکھوں میں جھا نک رہا تھا۔
ماہم کو پہلی دفعہ اپنے اس مریض سے خوف محسوس ہوا ۔۔۔
’’تم مذاق کر رہے ہو ناں۔۔۔؟؟؟‘‘اُس نے خود کو سنبھالتے ہوئے بات کو ہنسی میں اڑانے کی کوشش کی ۔
’’میں کیوں تم سے مذاق کروں گا بھلا۔۔۔؟؟؟‘‘ وہ جواباً انتہائی سنجیدگی سے اُسکا ہراساں چہرہ دیکھتے ہوئے بولا۔
’’میں بہت زیادہ سنجیدہ ہوں،اور میں واقعی تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ماہم منصور ۔۔۔‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بڑے پر اعتماد انداز سے اب اُس کے چھکےّ اڑا رہا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...