وقت کا کام گزرنا ہے یہ اپنی مخصوص رفتار سے چلتا ہی رہتا ہے، ابراھیم ولا کے مکینوں نے بھی اس غم سے ابھر کر جینے کا ہنر سیکھ ہی لیا تھا۔ عدی کا بھی ہر دوسرے دن فون آ جاتا تھا۔ اس دن کے بعد اس نے کبھی سعدیہ سے کوئی شکوہ نہیں کیا تھا یہ الگ بات تھی کہ ان کے کان یہ سننے کو ترستے ہی رہتے کہ وہ ان سے کہے: “ماما جان! مجھے آپ کی ضرورت ہے” مگر وہ ہر بات کرتا تھا بس یہی نہیں کہتا تھا۔
رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہونے والا تھا۔ موتیا کی عدت بھی بس رمضان کے آخری عشرے میں پوری ہو جانی تھی۔ سعدیہ گھر بھر کی تفصیلی صفائی کروا رہی تھیں۔ جب سٹور سے ہادی کا ڈبوں میں بند پڑا سامان نظر آیا۔ آج ہمت کرکے انھوں نے وہ ڈبے کھول ہی لیے اس کے روزمرہ استعمال کی چیزیں جیسے کپڑے، جوتے، ٹوتھ و ہیئر برشز ایسی ہی کتنی چیزیں جو اس کے استعمال میں رہی تھیں آج مہینوں سے ان چھوئی پڑی تھیں۔ ایک چھوٹا ڈبہ بھی تھا، اسے کھولا تو ایک کاغذ کے لفافے میں بند کتاب جو ہاتھ لگانے سے ڈائری محسوس ہوئی۔ لفافے پہ جلی حروف میں “عدی بھائی کے لیے” لکھا تھا۔ موتیا بھی وہیں موجود تھی۔ دونوں کے ہی دل میں بیک وقت یہ خیال آیا تھا کہ کیا لکھا ہو گا اس میں؟ وہ بند ڈائری اپنے اندر کوئی راز سموئے ہوئے تھی اور یہ راز عدی کی امانت تھا۔
“یہ گھڑی میں رکھ لوں ماما جان!” موتیا نے ہادی کی کلائی کی گھڑی ہاتھ میں لیتے کہا تھا۔ حلق میں جیسے آنسوؤں کا گولہ پھنس گیا تھا۔
“سب کچھ تمھارا ہے بیٹا!” ان کی آنکھیں بھی ڈبڈبا گئی تھیں۔
“نہیں، بس یہ ایک گھڑی ماما جان!” اس گھڑی پہ ہاتھ پھیرتے وہ جیسے ہادی کا لمس محسوس کر رہی تھی۔ آنسو چہرے پہ بہتے چلے گئے تھے۔ کہاں کی صفائی؟ کیسی صفائی۔۔۔ سب کچھ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ غم نئے سرے سے تازہ ہوا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
ہادی کے بعد اس کے بغیر یہ پہلی عید تھی جو ابراھیم ولا کے لوگوں نے منائی تھی اور یہ پہلی عید تھی جو خوشیوں کے شادیانے بجاتی نہیں سسکیاں اور آہیں لے کر آئی تھی۔ مہمانوں کا تانتا بندھا تھا۔ موتیا کی عدت بھی پوری ہو چکی تھی۔ وہ بھی اپنا سامان باندھے رخصت ہونے کو تیار تھی۔ صوفیہ اور حیدر اسے لینے پہنچ چکے تھے۔
“اللہ تمھارے نصیب اچھے کرے بیٹا۔ ہمیشہ خوش رہو۔” ابراھیم نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر نم ہوتی آنکھوں سے دعا دی تھی۔ وہ بے آواز روئے چلی جا رہی تھی۔
“صوفیہ! مجھے لگ رہا ہے تم اپنی بیٹی کو نہیں، میرے جگر کے ٹکڑے کو لے جا رہی ہو۔” سعدیہ نے اسے زور سے بھینچ کر گلے لگایا تھا۔
“کبھی کبھی ملنے چلی آنا موتیا۔!” سبھی رو رہے تھے کسی نے اپنے آنسوؤں پہ بند باندھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
موتیا چلی گئی تھی۔ سعدیہ کے پاس کرنے کو جیسے کوئی کام نہیں رہا تھا اب۔ زندگی جیسے ایک مقام پر آ کر ٹھہر گئی تھی۔ ایسے ہی دنوں میں ہادی کی شادی کا البم آ گیا، جس کی طرف کسی کا خیال ہی نہیں گیا تھا۔
البم کھولتے، ہادی کے چہرے پہ ہاتھ پھیرتے، بھیگی آنکھوں سے انھوں نے وہ تصویر بھی دیکھی جو ان کے علاوہ کیمرے کی آنکھ نے بھی محفوظ کی تھی۔ ان کے ذہن میں ہادی کا جملہ ہتھوڑے برسانے لگا تھا۔
“میں نے موتیا کو اپنے لیے نہیں، عدی بھائی کے لیے پسند کیا تھا ماما جان!” وہ تمھاری تقدیر میں تھی ہی نہیں اور بھلا تقدیر کے فیصلوں سے ہم کیسے نظریں چرا سکتے ہیں۔
“ہائے ہادی!” البم پہ سر ٹکا کر وہ بے تحاشا رو دی تھیں۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
عدی جیسے اچانک گیا تھا ویسے ہی اچانک واپس آ گیا تھا۔ ستمبر کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ گرمی کی شدت تھی کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ شام کے وقت کسی دن موسم قدرے بہتر ہو جاتا تو وہ لان میں بیٹھ جاتی تھیں۔ ورنہ گرمی کی وجہ سے زیادہ تر اپنے کمرے ہی میں گزار دیتی تھیں۔ کرنے کو کوئی کام بھی نہیں تھا بس بیٹھی پرانے البم نکال کر عدی اور ہادی کی تصویریں دیکھتی رہتیں۔ عصر کی نماز پڑھ کر ابراھیم گھر آئے اور چائے کی فرمائش کی۔
“السلام علیکم ماما جان!” وہ ان کے لیے چائے بنا رہی تھیں جب انھوں نے اپنی پشت پہ عدی کی آواز سنی تھی اور جیسے کرنٹ کھا کر پلٹی تھیں۔
“عدی۔!” فرط مسرت سے ان کی آواز ہی نہ نکل سکی۔ وہ آگے بڑھ کر ان سے لپٹ گیا۔۔
“تمھیں ذرا شرم نہیں آئی تھی اس وقت مجھے چھوڑ کر جاتے ہوئے؟” وہ رو ہی تو پڑی تھیں۔
“نہیں آئی تھی۔” اس نے انھیں گھما ہی تو دیا تھا۔
“آپ کے اس رونے دھونے سے تنگ آ کر ہی راہ فرار اختیار کی تھی۔” انداز میں شرارت نمایاں تھی۔
“اب بس کیجیے نا یہ رونا دھونا!” وہ ان سے الگ ہوا۔
“بہت اچھا استقبال کر رہی ہیں میرا۔” ان کے آنسو خشک کیے
“اب پکا والا وعدہ کہ کہیں نہیں جاؤں گا۔ آپ کو بتائے بغیر تو کہیں بھی نہیں، کبھی بھی نہیں۔” ان کے ہاتھ چومتے، انھیں یقین دہانی کروائی تھی۔
“لیکن یہ رونا میرے سامنے دوبارہ مت ہو۔” اس نے تنبیہ کی تھی۔ اور ساتھ ہی انھیں بھوک لگنے کا بتایا۔
“سعدیہ! چائے بنا رہی ہیں یا پائے؟” ابراهيم چایے کا انتظار کرتے تنگ آکر خود ہی پوچھنے چلے آئے تھے۔
“السلام علیکم بابا جان!” عدی ان سے بغلگیر ہوا۔ انھیں تو وہ رات ہی بتا چکا تھا کہ آج گھر آ رہا ہے۔
“تم دونوں باپ بیٹا۔۔۔!” سعدیہ نے خفگی سے انھیں گھورا تھا۔ “بتا تو دینا تھا میں کھانے میں کچھ بنا ہی لیتی۔۔” انھیں دوپہر میں بنائی کریلے گوشت کی سبزی اپنے بیٹے کے شایان شان نہیں لگ رہی تھی۔
“اسی تردد سے بچنے کے لیے میں بنا اطلاع کے آیا ہوں ماما جان۔! اپنے گھر میں کیسا تکلف؟ اور یقین جانیے یہ سبزی مجھے بالکل نہیں کاٹتی۔” اس نے خود ہی سالن کی پلیٹ اوون میں رکھ دی۔ اور ہاتھ دھو کر کرسی سنبھالی۔
“اب روزانہ ہی کھانا آپ کے ساتھ کھانا ہے تو جو کچھ دل کیا بنا لیا کیجیے گا۔” سعدیہ نے مسکرا کر سر ہلایا تھا۔ وہ ایک دم سے ہشاش بشاش ہو گئی تھیں۔
“خود کیوں بناؤں گی؟ جلدی ہی بیوی لاؤں گی تمھاری؟” چائے کا کپ ابراھیم کے سامنے رکھتے اطلاع دی تھی۔
“میرے لیے میرے شوہر کی خدمت ہی کافی ہے۔”
“ھائے۔۔۔ میری ماما جان کا پسندیدہ موضوع۔!” عدی ھنس دیا۔ “ایک طرف کہتی ہیں کہ میں نے تنگ کرنے یا لاڈ اٹھانے کا موقع نہیں دیا اور دوسری طرف اتنی جلدی کنی کترا رہی ہیں۔ دیکھیے بابا جان! یہ کیسا دوہرا معیار ہے۔” اس نے باپ کو بھی گفتگو میں گھسیٹا۔ وہ کھانا کھا چکا تھا۔
“مجھے تو معاف رکھو تم دونوں اپنے معاملات سے۔”انھوں نے بھی صاف ہاتھ کھڑے کر دیے۔
“جو بھی کہو عدی! اب تمھاری شادی کر ہی دینی ہے” سعدیہ نے کافی کا بھاپ اڑاتا مگ اس کے سامنے رکھا۔
“بصد شوق کیجیے گا شادی ماما جان! لیکن فی الحال تو مجھے تھوڑا آرام کرنے دیں۔” کافی کا مگ اٹھاتے وہ کمرے میں جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔
“شادی کے بعد پھر کہاں مجھے یہ آرام یہ سکون نصیب ہو گا؟”دروازے کے قریب پہنچ کر اس نے پھر ٹکڑا لگایا تھا۔
“میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا بابا جان۔!؟” دونوں ہی ھنس دیے تھے۔
“کوئی لڑکی تلاش کر چکی ہیں کیا؟” اس کے جانے کے بعد ابراهيم نے ان سے دریافت کیا تھا۔
“جی ہاں!” انھوں نے کہا اور ان کے پوچھنے پر ایک لفظ میں بات مکمل کی تھی۔
“موتیا۔!” وہ صرف انھیں دیکھ کر رہ گئے تھے۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
سعدیہ کو بس عدی کی روٹین کے سیٹ ہونے کا انتظار تھا۔ اب وہ پہلے کی طرح جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہتی تھیں۔ عدی اگر مشکل سے مانے گا تو شاید موتیا بھی جلدی راضی نہ ہو پاتی۔ لیکن انھیں صوفیہ پہ یقین تھا کہ وہ مان جائیں گی اور موتیا کو بھی منا لیں گی۔ انھیں تو ابھی عدی سے بات کرنا تھی۔ جس کے لیے انھوں نے اتوار کی صبح کو منتخب کیا تھا۔ جب وہ فجر کی نماز کے بعد، ناشتہ کرنے باورچی خانے میں آتا تھا۔ ہادی کی طرف سے عدی کے لیے دیا وہ بند لفافہ انھوں نے رات میں ہی وہاں رکھ دیا تھا۔
اوائل اکتوبر کے دن تھے گرمی کی حدت کافی حد تک کم ہو چکی تھی۔ انھوں نے باہر سے اندر جھانکا، سفید شلوار سوٹ میں ملبوس، آستین کہنیوں تک موڑے وہ کٹنگ بورڈ پہ مہارت سے پیاز اور ٹماٹر کاٹنے میں مصروف تھا۔ شاید ناشتے کے لیے آملیٹ بنا رہا تھا۔
“السلام علیکم ماما جان!” عدی نے آہٹ پہ پلٹ کر دیکھا اور سلام کیا۔ ہلکی بڑھی شیو، ماتھے بکھرے بے ترتیب بال، روز و شب کی مصروفیت نے اسے قدرے کمزور کر دیا تھا۔ انھوں نے اسے ایک ماں کی نظر سے دیکھا۔
“ناشتہ کریں گی ماما جان!؟” وہ ان سے پوچھ رہا تھا۔
“اپنے کھانے پہ دھیان دیا کرو عدی، یہ آملیٹ چند سلائس اور ڈھیروں کافی۔۔۔ یہ سب اچھا نہیں ہے۔”انہوں نے فریج سے انڈے نکال کر کاؤنٹر پہ رکھے۔
“آاں۔۔ ہاں۔۔ آپ کی مامتا بھری نگاہیں مجھے یقیناً کمزور دکھا رہی ہوں گی۔؟” وہ بلا کا قیافہ شناس تھا انھوں نے اعتراف کیا۔
“یہ آملیٹ، مکھن لگے سلائس اور کافی یہ سب اپنے اندر بہت کیلوریز لیے ہوتی ہیں۔ انھیں اتنا ہلکا مت لیجیے۔” کٹی ہوئی سبزیاں ایک پیالے میں ڈال کر انڈے توڑ کر ڈالے اور آملیٹ کا آمیزہ تیار کیا۔
“اور جب اس آمیزے میں پنیر شامل ہوتا ہے تو کیلوریز کی مقدار تو پوچھیے ہی نہیں۔ دو گھنٹے جم میں لگا کر جلانی پڑتی ہیں۔” آمیزے میں کش کیا پنیر ملاتے اس نے وضاحت کی۔
“باتیں بنانا کوئی تم سے سیکھے” انھوں نے ہنس کر کہا اور کافی میکر میں پانہ بھرنے لگیں۔
“باتیں بنانا بھی میرے پیشے کا ہی حصہ ہے، مریض کی آدھی بیماری ڈاکٹر کی باتوں سے یا تو ختم ہو جاتی ہے یا بڑھ جاتی ہے۔” آملیٹ کا آمیزہ اب پین پہ منتقل ہو چکا تھا، دلفریب سی خوشبو سارے میں پھیل گئی تھی۔ اب وہ سلائس پہ مکھن لگا رہا تھا۔
“ناشتہ بن چکا تھا۔ اس نے ساری چیزیں میز پہ رکھیں، کافی بھی بن چکی تھی۔ سعدیہ اتنی صبح ناشتے کی عادی نہیں تھیں، البتہ کبھی پھل لے لیتی تھیں اس وقت بھی سیب کاٹ کر اس کے ساتھ شامل ہو گئی تھیں۔
“میں باتوں کے ساتھ ساتھ آملیٹ بھی بہت اچھا بنا لیتا ہوں ماما جان!”
“اب شادی کر لو عدی!”
“تاکہ یہ آملیٹ اسے بھی بنا کر کھلا سکوں؟” اس نے شرارت سے کہتے ان کا جملہ مکمل کیا تھا۔
“اور اس کے ہاتھ کا بنا بھی کھا سکو۔”
“آپ کے ہاتھ کا بنا کھا لیتا ہوں، یہ کافی نہیں ہے کیا؟”
“نہیں۔! میں چاہتی ہوں کہ اب تم کسی اور کو بھی یہ شرف بخشو۔”
“یعنی میری ذمہ داری سے بہت جلد تنگ آ گئی ہیں آپ۔” اس نے انھیں جذبات سے اشتعال دلانا چاہا۔
“ہاں۔! میری عمر نہیں ہے اب جوان اولاد کی ذمہ داری سنبھالنے کی۔” وہ بھی اس کی ماں تھیں اس کے ہر انداز سے بخوبی واقف۔۔
“آخر آپ نے طے کر ہی لیا ہے کہ میری آزادی کے یہ حسین دن ختم کرنے ہیں۔” آملیٹ کا آخری ٹکڑا منھ میں رکھتے اس نے طویل سانس لی، گویا ماما جان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے تھے۔
“کوئی لڑکی پسند ہے؟” دھڑکتے دل سے پوچھا تھا۔ کیا ہوتا اگر وہ کسی کا نام لے دیتا؟ پھر وہ کیسے اپنی پسند کا ذکر کرتیں؟
“ماما جان! اپنے پیشے سے محبت اور ایک اچھا ڈاکٹر بننے کے جنون نے مجھے کسی اور طرف دھیان ہی نہیں دینے دیا۔” اس نے کرسی سے اٹھ کر کافی کا مگ دوبارہ بھرا تھا۔
“اور میں کسی سے یہ نہیں سننا چاہتا تھا کہ ڈاکٹر عدی ابراهيم پڑھائی کے علاوہ لڑکی پسند کرتے پھر رہے ہیں۔” سعدیہ نے سکون کی سانس لی تھی۔
“یہ تو آپ ہی کی ضد ہے شادی کر لوں، ورنہ میں تو ابھی بھی خود کو شادی کے لیے تیار نہیں کر پا رہا۔ مجھے ایک اچھا سرجن بننا ہے ماما جان!”
“تم ایک اچھے بیٹے ہو عدی! اور اب اچھے شوہر اور اچھے باپ بننے کے لیے بھی تیار رہو۔” وہ بہت دور تک سوچے بیٹھی تھیں۔ وہ ھنس دیا تھا۔
“یا میں اچھا سرجن بن سکتا ہوں یا اچھا شوہر۔”
“جیسے تم انوکھے سرجن ہو گے دنیا کے، جس کی شادی ہو رہی ہے۔ یا شادی کے بعد اپنی ڈاکٹری بھول جاؤ گے؟” سعدیہ نے اس کا ہر اعتراض رد کیا تھا۔
“اچھا۔! جیسے آپ کی مرضی۔” اس نے سر تسلیم خم کیا۔
“کوئی پسند یا مطالبہ ہو تو بتاؤ! یا میں جس لڑکی سے کہوں گی، اس سے شادی کر لو گے؟”
“پسند یا مطالبے جیسا کوئی معاملہ ہوتا تو پہلے ہی بتا دیتا ماما جان! اب آپ مجھے اس کا نام بتا دیں جس کے لیے پچھلے ایک گھنٹے سے مجھے راہ پر لانا چاہ رہی تھیں۔”
“اففف۔! اس کی قیافہ شناسی۔!” انھوں نے سر پیٹ لیا۔ وہ کچھ بتانے لگا تھا۔
“آپ کو میں نے بتایا ہی نہیں تھا ماما جان کہ برلن (جرمنی) جہاں میں تھا، وہاں انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز نے مجھے 10 میں سے 9 مریضوں کے انتہائی پیچیدہ امراض کی درست تشخیص کرنے پر بہترین ڈاکٹر کے سرٹیفکیٹ سے نوازا تھا۔” وہ اپنے استعمال کیے برتن دھونے لگا تھا۔
“ان پیچیدہ امراض کے سامنے یہ گھریلو معاملات کی تشخیص کیا معنی رکھتی ہے۔”
“میں تم سے باتوں میں نہیں جیت سکتی۔” وہ ہار مان کر بولیں۔
“لہٰذا اب بتا دیں کہ کس سہیلی کی بیٹی کو نظر میں بٹھا رکھا ہے؟”
“موتیا۔!” اس کی سماعتوں پہ بم پھوڑ کر وہ اس کے ٹوٹنے پھوٹنے کا نظارہ کرنے لگی تھیں۔ اسے اپنے جذبات کو چھپانے میں کمال نہ ہوتا تو یقیناً یہ جھٹکا اس کے لیے بہت بڑا تھا۔
“موتیا۔۔؟ آپ کے کہنے کا مطلب ہے معتداء؟” انھوں نے محض سر ہلانے پر اکتفا کیا تھا۔
“آپ ایسا سوچ۔۔۔ میں کیسے اس سے شادی۔۔۔ آپ کو معلوم ہے کہ وہ میرے بھائی کی بیوی ہے۔” وہ ایک بھی جملہ مکمل نہیں کر پا رہا تھا۔
“وہ تمہارے بھائی کی بیوی تھی ہے نہیں۔! ہاں اب وہ اس کی بیوہ ضرور کہلائی جا سکتی ہے۔ اور عدت پوری ہونے کے بعد اس سے شادی۔۔۔” عدی نے ان کی بات کاٹی تھی۔
“ماما جان! خدا کے واسطے۔ اس بات کو یہیں ختم کیجیے۔ مجھے دوبارہ اس پہ بات نہیں کرنی۔” وہ اٹھ کر وہاں سے چلے جانا چاہتا تھا لیکن انھوں نے ہاتھ پکڑ کر روکا۔
“پھر کب اس پہ بات کرو گے؟ مجھے بتاؤ! میں اس وقت آ جاؤں گی۔”
“کبھی بھی نہیں۔” دو ٹوک انداز میں جواب دیا۔
“کوئی ایک وجہ بتاؤ عدی! تمھارا مزاج ایسا نہیں ہے کہ تم بغیر کسی دلیل کے کسی بات کو ماننے سے انکار کر دو۔”
“ماما جان! کیا یہ وجہ کافی نہیں کہ وہ میری بھابھی ہے؟”
“بھابھی تھی عدی ہے نہیں۔!” سعدیہ اس کا یہ اعتراض ماننے کو تیار ہی نہیں تھیں۔
“وہ میرے بھائی کی پسند تھی۔”
“تم جیسا حقیقت پسند انسان ایسی باتیں کیسے کر سکتا ہے عدی؟”انھوں نے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا۔
“وہ ایسی اچھی عادات کی مالک ہے کہ کسی کی بھی پسند ہو سکتی ہے۔ اور تم ایسے ہو کہ کسی بھی لڑکی کے آئیڈیل شوہر بن سکتے ہو۔”
“وہ لڑکی معتداء ہی کیوں ہو ماما جان!؟” وہ شاید لاجواب ہونے لگا تھا۔
“وہ لڑکی موتیا کیوں نہیں ہو سکتی؟” انھوں نے سوال پہ سوال کیا تھا۔
“کیا میں ایسا ہوں کہ کسی کا دوسرا انتخاب ٹھہروں؟ پہلا کیوں نہیں ماما جان؟” اپنی طرف انگلی سے اشارہ کرکے وہ ان سے پوچھ رہا تھا۔
“کیا گارنٹی ہو گی اس بات کی عدی! کہ جو کوئی دوسری لڑکی آئے گی تم اس کا پہلا انتخاب ہی ہو گے؟ دلوں کے حال تو بےشک اللہ جانتا ہے۔” اب کی بار وہ واقعی لاجواب ہو گیا تھا۔
“آپ نے ٹھیک کہا ماما جان! بےشک دلوں کا حال تو صرف اللہ جانتا ہے۔” وہ دونوں ہاتھوں پہ سر گرائے بیٹھ رہا یوں جیسے سمجھ نہ آ رہی ہو کہ کیا کرے؟
“یہ ہادی کے سامان سے نکلا تھا، تمھارے نام!” سعدیہ نے وہ بند لفافہ اس کے سامنے رکھا۔
“یہ۔۔؟” اس نے چونک کر وہ لفافہ اٹھایا۔ الٹ پلٹ کر دیکھا۔ اور وہیں بیٹھے ہوئے لفافہ چاک کیا۔ اندر سے وہی ڈائری اور فاؤنٹین پین نکلا جو اس نے ہادی کو تحفہ دیا تھا۔
“ہو سکتا ہے اس میں ایسا کچھ لکھا ہو جسے پڑھنے کے بعد تمھیں فیصلہ کرنے میں آسانی ہو۔” سعدیہ بہت کچھ سمجھ گئی تھیں۔ عدی جو انجان تھا اس نے نا سمجھی سے انھیں دیکھا۔ اور اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...