“کیاااااا؟؟ یہ کیسی باتیں کر رہے ہو تم ہادی؟ ہوش میں تو ہو؟” ان کے تو مانو قدموں تلے سے زمین ہی سرک گئی تھی۔
“تم نے ہی کہا تھا کہ موتیا کو پسند کرنے لگے ہو، اور پسندیدگی کے بعد شادی نہ کرنے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟”
“میں نے موتیا کو اپنے لیے نہیں، عدی بھائی کے لیے پسند کیا تھا ماما جان!” اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیا تھا۔ صحیح معنوں میں دھچکا تو اب لگا تھا انھیں۔
“عدی کے لیے پسند۔۔!” وہ گڑبڑا کر کرسی پہ بیٹھیں، کھڑے ہونے کی ہمت نہیں رہی تھی۔
“وہاں موبائل نیٹ ورک کا کتنا مسئلہ رہتا تھا آپ کو بخوبی اندازہ تھا، آپ اتنا سب کچھ کرنے سے پہلے دوبارہ مجھ سے پوچھ تو لیتیں ماما جان!” اسے اب ان کی جلد بازی پہ کم اپنے بے صبرے پن پہ زیادہ غصہ آ رہا تھا۔ کہ کیوں فون پہ ہی ان سے بات کی، گھر آنے تک انتظار تو کر سکتا تھا۔ اب سر پکڑے بیٹھا تھا کہ کیا کیا جائے اور کیسے؟ یہ تو طے تھا کہ اسے یہ شادی نہیں کرنی تھی۔
“بہرحال بیٹا۔! جو ہوا سو ہوا، شاید اسی میں اللہ کی کوئی مصلحت تھی، اب تو شادی طے ہو ہی چکی۔”
“میں نے شادی نہیں کرنی، آپ صوفیہ خالہ سے بات کیجیے کہ آپ کو رشتہ ہادی کے لیے نہیں عدی بھائی کے لیے چاہیے تھا۔”
“ارے تمھارا کیا دماغ خراب ہو گیا ہے؟ ایسے کیسے میں صوفیہ سے بات کروں؟ رشتہ طے ہوا ہے کوئی ڈیزائنر شرٹ نہیں ہے کہ سائز درست نہیں آیا تو بدل لوں۔” اس کی بےتکی ہانک پہ سعدیہ کا پارا ہائی ہو گیا۔
“ایسا کیا مسئلہ ہے بات کرنے میں ماما جان؟؟ وہ بہن ہیں آپ کی، سمجھ جائیں گی۔” وہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔
“کیا بات کروں میں اس سے ہادی؟ کہ تمھاری بیٹی کا رشتہ مجھے اب اپنے چھوٹے بیٹے کے لیے نہیں، بلکہ بڑے بیٹے کے لیے چاہیے۔؟؟ ” وہ بھی تو اس کی کوئی بات نہیں سن رہی تھیں۔
“اور کیا صرف صوفیہ سے بات کرنا کافی ہو گا؟ موتیا کے احساسات کوئی معنی نہیں رکھتے؟ حیدر بھائی کو سمجھانا یا تمھارے بابا جان کو قائل کرنا۔۔ ان سب کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟” ایک کے بعد ایک کئی باتیں انھوں نے کھول کر اس کے سامنے رکھی تھیں۔
“اور کیا عدی اتنی آسانی سے مان جائے گا وہ بھی اب؟ جبکہ تمھاری بات اس سے طے ہو چکی ہے۔!؟” تنفس بحال کرنے کے لیے انھوں نے پانی کا گلاس پیا اور پھر بولیں:
“اور اب تو اس کا ماننا بالکل ہی ناممکن ہے۔”
“لیکن ماما جان! پلیز۔۔۔ آپ خالہ سے بات تو کیجیے۔” وہ ابھی بھی اسی بات پہ اڑا تھا۔
“تم پاگل ہو چکے ہو ہادی۔ عجیب بے تکی ضد لگا کر بیٹھ گئے ہو، ٹھیک ہے تمھیں موتیا، عدی کے لیے پسند آئی تھی لیکن اس میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے ہادی! نہ عدی کے اور نہ موتیا ہی کے دل میں ایسا کوئی خیال بھی ہو گا۔ تم اپنا دل برا مت کرو، بلکہ اب اگر موتیا کے ذہن میں کسی کا خیال ہو گا تو تمھارا ہی ہو گا۔” اس نے جھنجھلا کر سر پر پٹخا۔
“ماما جان۔! اپ جو بھی کہیے لیکن میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے اپنے وطن کے۔ لیے کچھ کرنا ہے۔” اب مزید سننے کا سعدیہ میں یارا نہیں رہا تھا۔ وہ گویا پھٹ ہی ہڑی تھیں۔
“تم دونوں ہی بھائیوں کی عجیب منطق ہے، ایک نے کیریئر پہ توجہ دینی ہے، تو دوسرے نے ملک و قوم کی خدمت کرنی ہے، ماں باپ کے تئیں تو نہ کوئی فرض عائد ہوتا ہے اور نہ ذمہ داری۔ بس تم دونوں ہی دنیا سے انوکھے ہو کہ جن کی اگر شادیاں ہو گئیں تو دوسرے سارے کام رک جائیں گے۔” وہ روہانسی ہو گئیں ہادی کے سر پہ اچانک ہی افتاد آن پڑی تھی۔
“ماما جان۔! میرا یقین کیجیے کہ موتیا کا شوخ اور شرارتی مزاج دیکھ کر ہی میں نے سوچا تھا کہ وہ عدی بھائی کے لیے ہی بنی ہے، جیسا ہمارے بھائی کا خشک مزاج ہے، اس لیے ان کے مزاج کی خشکی کم کرنے کے لیے موتیا جیسی لڑکی ہی۔۔۔”
“بس بہت ہو چکا۔ میں مزید ایک لفظ نہیں سنوں گی۔” انھوں نے ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے روکا تھا۔
“وہ تمھاری ہونے والی بیوی ہے، خبردار جو کسی اور کے حوالے سے اس کا ذکر کیا۔”
“لیکن ماما جان۔!”
“بس ہادی۔۔! اگر تو تم کسی اور کو پسند کرتے ہو، تب مجھے بتاؤ، میں صوفیہ سے معذرت کرنے کو تیار ہوں۔ کیا ایسا ہے ہادی؟”
“ایسا کچھ نہیں ہے ماما جان۔!” اس نے سر جھکا کر کہا تھا۔
“تو بس۔۔ ہر بے تکے خیال کو ذہن سے جھٹک کر، پورے اطمینان سے آنے والے اچھے دنوں کا استقبال کرو۔”اس کے سر کو محبت سے سہلاتے انھوں سے سمجھایا تھا۔ وہ مطمئن ہوا تھا یا نہیں، خاموش ضرور ہو گیا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
سعدیہ اور ابراهيم شادی کی تاریخ طے کرنے کے سلسلے میں کشمیر، صوفیہ کے گھر پہنچ گئے تھے، اتنے سالوں بعد ملتے دونوں ہی کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ موتیا پہلے تو شرم سے ان کے سامنے ہی نہیں آئی تھی، لیکن کب تک؟ ملنا تو تھا، خالہ کی نفیس طبیعت سے واقف تو تھی بس اس نئے رشتے کی وجہ سے ایک فطری جھجک آڑے آئی تھی۔
“جب تم اسلام آباد سے آیا کرو گی تو کیا اپنی خالہ کی طرح ہی روتے ہوئے ملا کرو گی؟” فارہہ نے اس سے پوچھا۔ وہ ہمیشہ کی طرح اس کا ہاتھ بٹانے کو موجود تھی میز پہ برتن لگانے میں اس کی مدد کر رہی تھی۔
“ملا تو ضرور کروں گی، لیکن یہ رونے دھونے والا کام مجھ سے نہیں ہوتا۔ اور خالہ جان اور امی جان تو اتنے برسوں بعد ملی ہیں، اس لیے وہ دونوں جذبات پہ قابو نہیں رکھ سکیں۔ اور ویسے بھی۔۔۔” اس نے فارہہ کے قریب ہو کر کان میں سرگوشی کی مبادا صوفیہ نہ سن لیں۔
“خدا خدا کرکے تو تم سے جان چھوٹے گی، پھر کیوں رونا؟” فارہہ نے اس کے کندھے پہ چپت ماری، پھر دونوں ہی کھلکھلا کر ہنس دی تھیں۔ سعدیہ صرف ایک دن کے لیے آئی تھیں، اور ساتھ موتیا کے نکاح کا جوڑا اور باقی کے لوازمات لے آئی تھیں۔ موتیا سے مل کر، ان کی باتیں سن کر ایک لمحے کو تو انھیں ہادی کی بات یاد آئی تھی کہ وہ عدی کے لیے بہترین جوڑ تھی۔ لیکن فوراً سے بیشتر انھوں نے اپنے خیال کو ذہن سے جھٹک دیا تھا۔ وہ ہادی کو سمجھا کر آئی تھیں اور اب خود وہی سوچ رہی تھیں۔ عدی ہو یا ہادی، بہو تو وہ ان کے گھر ہی کی بن رہی تھی۔ یہی کافی تھا۔
ہادی کی چھٹی ایک مہینے کی تھی، جس میں سے دس دن تو یونہی گزر گئے تھے، شادی کی تاریخ آنے میں دس دن تھے۔ یعنی شادی کے بعد ہادی کے پاس محض دس یا گیارہ دن ہی تھے۔ لیکن خیر تھی کہ پوسٹنگ تو کشمیر کی ہی تھی، موتیا بھی اسی کے ساتھ رہ لیتی۔ شادی کے ہنگامے جاگ اٹھے تھے، اسلام آباد میں رہنے والے رشتہ داروں اور ہادی کے دوستوں نے گھر میں رونقیں بڑھا دی تھیں۔ عدی ہسپتال میں مصروف رہتا لیکن جب بھی موقع ملتا، بھلے تھوڑی ہی دیر کے لیے، ان محفلوں کا حصہ ضرور بنتا تھا۔ عام لڑکوں کی طرح کہ جیسے وہ شادی پہ خوش ہوتے تھے ہادی اپنی شادی پہ اتنا خوش نظر نہیں آتا تھا جتنا اسے ہونا چاہیے تھا، ہو سکتا تھا کہ اس کے دماغ میں ابھی بھی وہی بات ڈیرا جمائے ہوئے تھی۔ یا پھر یہ صرف ان کا وہم بھی تو ہو سکتا تھا۔ بہرحال جو بھی تھا، وہ ہادی سے ذکر کرکے چنگاری کو ہوا نہیں دینا چاہتی تھیں۔ فی الحال تو انھیں عدی کی کلاس لینی تھی، جس کا پچھلے چوبیس گھنٹوں سے کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ فون پہ بھی رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ اگلے دس گھنٹوں میں بارات کی روانگی تھی، انھیں اب فکر لاحق ہونے لگی تھی کہ کب وہ گھر آئے گا، کب آرام کرے گا اور کب جانے کی تیاری۔۔۔ اسی فکر میں غلطاں وہ ساتھ لے جانے والے سامان کا جائزہ لے رہی تھیں جب کسی بچے نے عدی کے آنے کی اطلاع دی تھی۔ وہ ان سے ملے بغیر ہی اپنے کمرے میں چلا گیا تھا، وہ اس کے پیچھے ہی آئیں۔
“طبیعت ٹھیک ہے تمھاری؟” وہ اسے سخت سنانا ہی چاہتی تھیں لیکن اس کے چہرے پہ تھکاوٹ کے شدید آثار دیکھ کر چپ ہو رہیں۔
“طبیعت تو ٹھیک ہے ماما جان! بس سونا چاہتا ہوں 30 گھنٹوں سے مسلسل جاگ رہا ہوں۔” وہ اپنی کنپٹی مسلنے لگا۔
“بارات کی روانگی میں کچھ ہی گھنٹے باقی ہیں عدی۔!” انھوں نے یاد دہانی کروائی تھی۔
“کیا میرا جانا ضروری ہے ماما جان؟” وہ بیزاری سے پوچھ رہا تھا۔
“تمھارے سگے بھائی کی شادی ہے اور تم پوچھ رہے ہو کہ جانا ضروری ہے؟ تمھیں معلوم تھا کہ گھر میں شادی ہے، کسی اور کی نہیں اپنے ہی بھائی کی، پھر بھی تم چھٹی نہیں لے سکتے تھے؟” سعدیہ اس کی بات پر اپنا غصہ ضبط نہ کر سکی تھیں۔
“چھٹی لے چکا تھا لیکن اچانک ہی ایمرجنسی۔” اس نے انھیں شانت کرنا چاہا۔
“ہسپتال میں ایک اکیلے تم ہی ڈاکٹر نہیں ہو عدی اور تم سے پہلے بھی ان کے کام چل رہے تھے۔ تو ایک دو دن سے کیا فرق پڑ جاتا؟” ان کا غصہ تو ختم ہو گیا تھا لیکن بولے بنا نہیں رہ سکیں۔
“ماما جان۔۔ ایک کیس صرف میں ہی دیکھ سکتا تھا، پلیز۔۔۔” وہ محبت سے ان سے لپٹ گیا۔
“میں الارم لگا کر سو جاتا ہوں۔ نکلنے سے گھنٹہ پہلے جاگ جاؤں گا۔ میں تو مذاق کر رہا تھا بھلا کیسے ممکن ہے کہ میں نہ جاؤں؟ ” اتنی دیر میں وہ اب مسکرائی تھیں۔
“تم دونوں ہی بھائیوں نے مجھے اچھی طرح تنگ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔”
“کیوں۔؟ ہادی نے کیا کہا ہے اب؟” وہ ان سے الگ ہوا تھا، انھیں احساس ہوا کہ جلد بازی میں وہ غلط بات منھ سے نکال چکی ہیں۔
“کچھ نہیں۔! اچھا اب تم سو جاؤ۔” وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ عدی نے کمرے کے پردے گرا دیے تھے، وہ یہ چند گھنٹے سکون سے سونا چاہتا تھا۔ تاکہ سفر میں طبیعت ٹھیک رہے اور اکلوتے بھائی کی شادی میں بھی ڈھنگ سے شریک ہو سکے۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
سعدیہ بارات کے ساتھ نہیں گئی تھیں۔ بہو کے استقبال کی تیاری بھی تو کرنی تھی۔ دل خوشی سے لبریز تھا۔ سرخ اور سنہرے رنگوں کے امتزاج سے مزین عروسی لباس میں موتیا کا سنگھار دیکھنے والا تھا۔ کچھ فطری شرم و حیا اور کچھ مشاطہ کے مشاق ہاتھوں کا کمال تھا۔ اس کا حسن دو آتشہ ہوا تھا۔ انھوں نے ہادی اور موتیا کو دروازے پہ ہی روک لیا تھا۔ لوگوں نے دونوں کی جوڑی کو چاند سورج کی جوڑی سے تشبیہ دی تھی۔ رسمیں جاری تھیں۔
ہادی کسی کی بات سننے کے لیے دائیں جانب جھکا تھا۔ اور ٹھیک اسی وقت گہرے سرمئی پینٹ کوٹ میں ملبوس عدی اپنی پوری وجاہت کے ساتھ موتیا کے برابر میں آ کھڑا ہوا۔ وہ راستہ لے کر اندر جانا چاہتا تھا۔ اور چند لمحے کے لیے ساتھ کھڑے ہونے کا یہ منظر فوٹوگرافر کے کیمرے نے ہمیشہ کے لیے قید کیا تھا۔ اور کیمرے کے علاوہ یہ منظر سعدیہ کی آنکھ نے بھی دیکھا تھا۔ اور ان کا دل۔۔۔ یکبارگی تیزی سے سکڑ کر سمٹا تھا۔
اس کے بعد انھوں نے جلدی جلدی ساری رسموں کو ختم کیا تھا۔ اور موتیا کو اس کے کمرے میں بھجوا دیا تھا۔
سفر کی تکان کی وجہ سے ہادی کو پھر سے بخار محسوس ہونے لگا تھا۔ عدی نے اسے گرم دودھ کے ساتھ دو پین کلرز دیئے تھے۔ تاکہ صبح ولیمے تک اس کی طبیعت سنبھل جائے۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
ہادی نے کمرے میں قدم رکھا تو پورا کمرہ تازہ گلاب کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ بیڈ کے بیچوں بیچ بیٹھی موتیا کا دل یکبارگی زور سے دھڑکا تھا۔ وہ مزید خود میں سمٹ گئی تھی۔ اسے دیکھ کر ہادی کے دل میں ایک پل کو پھر سے وہی خیال آیا تھا۔ اس کا دل ہر شے سے اچاٹ ہو گیا۔ کچھ طبیعت کی خرابی اور کچھ ان چاہے فیصلے۔۔
“پتا نہیں ہماری مائیں اتنی جلد باز کیوں ہوتی ہیں؟ کیا تھا اگر آج موتیا، میری بجائے عدی بھائی کے نکاح میں ہوتی۔” اس کا دل جی بھر کر برا ہوا اور سر درد سے پھٹنے لگا تھا۔ پین کلر لے لینے کے باوجود، اس نے دراز سے دوا کا ڈبہ نکال کر مزید دو گولیاں پانی سے نگلی تھیں۔ موتیا کن انکھیوں سے اسے دیکھ رہی تھی یہ تو اسے معلوم تھا کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، لیکن اتنی خراب ہو جائے گی، اسے اندازہ نہیں تھا۔ وہ اب کپڑے تبدیل کرنے چلا گیا تھا
“موتیا۔!” کچھ دیر بعد ہادی بیڈ کی دوسری جانب آ بیٹھا۔
“برا مت ماننا، میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، سر درد سے پھٹا جا رہا ہے۔”
“میں خالہ جان کو بلاؤں” اس نے اٹھنا چاہا تھا، چوڑیوں کی کھنک کمرے میں گونج اٹھی تھی۔ لیکن ہادی نے روکا۔
“نہیں، میں نے نیند کی گولی لی ہے، سو کر اٹھوں گا تو ٹھیک ہو جائے گا۔ تم بھی کپڑے بدل کر سو جاؤ۔ تھک گئی ہوگی۔” تھک تو وہ واقعی بہت گئی تھی، اتنا لمبا سفر اور اس پہ دو دن سے جاری رسمیں۔۔۔ بیٹھ بیٹھ کر کمر تختہ ہو گئی تھی۔
“کتنا بد ذوق فوجی ہے!!؟” وہ لہنگا سنبھالتے سنگھار میز کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
“کم از کم یہی کہہ دیتا کہ موتیا خوبصورت لگ رہی ہو۔” کانوں سے بندے اور پھر باری باری سارا زیور اتارتے اس نے سوچا تھا۔
“خیر۔۔۔تعریف اس خدا کی جس نے مجھے بنایا” اس نے کسی مشہور نظم کا مصرعہ توڑ مروڑ کر خود کے نام کیا تھا۔
“میں ہوں ہی خوبصورت۔” غزال آنکھوں میں آئینے میں دکھتے اپنے ہی عکس کے لیے ستائش ابھری تھی۔ “مجھے کسی کی تعریف کی کیا ضرورت ہے؟” وہ بالوں سے پنیں نکال رہی تھی۔
“ستیاناس ہو اس خاتون کا۔۔۔ میرے بال ہی خراب کر دیے۔” بالوں میں کنگھا کرتے اس نے اس مشاطہ کو کوسا تھا۔ جس نے پتا نہیں بالوں کے ساتھ کیا کیا تھا۔
“شادی کی پہلی رات ہے موتیا۔۔۔ اور ہادی، تمھارا شوہر سو رہا ہے۔” دل میں پھر ایک خیال نے سر اٹھایا، بالوں سے نبرد آزما ہوتے اس نے پلٹ کر ایک ہمدردی بھری نگاہ سوئے ہوئے “بیمار” شوہر پہ ڈالی۔
“راتیں بہت۔” اور دوبارہ بالوں کو سلجھانے لگی۔ انوکھی اور سحر طاری کرنے والی وہ حسین رات۔۔۔ جس کا انتظار شاید ہر مرد و زن کو ہوتا ہے۔ موتیا کی یہ رات اپنے الجھے بال سلجھانے میں ہی بیت گئی تھی۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...