(Last Updated On: )
سوانح نگاری کا فن شخصیات کی جملہ خوبیوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔سوانح نگاری کے لیے ضروری ہے کہ ممدوح شخصیت بھی ہو۔ انبیاء، اولیاء،بزرگان دین،صحابہ کرام سیاسی و ادبی شخصیات سے لے کر عام شخصیات تک سوانحی حالات لکھ کر سوانح نگاروں نے اپنی عقیدت اور محبت کا وسیلہ اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیا۔حتی کہ ذاتی اور خون کے رشتوں میں سے ہر رشتے کے بارے میں لکھا گیا اور سراہا بھی گیا۔مگر معلوم نہیں کہ اس بات کو کیوں شجر ِممنوعہ سمجھا جاتا ہے کہ بیوی کے اوصاف،حیات، خوبیاں اور قربانیاں بیان کی جائیں۔عورت کوجورُو کہہ کر اس پر طرح طرح کے لطیفے تو بن سکتے ہیں تاکہ سننے والے لوٹ پوٹ ہو جائیں۔مگر بیوی کی تعریف کر دینا آپ کو اس خطرناک فہرست میں لاکر کھڑاکردے گا جسے جو روؤں کے غلاموں کے لیے مخصوص سمجھا جاتا ہے۔ ایسے حالات اور ایسے معاشرے میں اگر کوئی ادیب اپنی محبت کے اظہار کے لئے کسی مضمون، خاکے یا سوانحی کتاب کا سہارا لے تو اس کی بے باکی اور نڈری پر تمغہ جرات تو بنتا ہے اور ایسی ہی بے خوفی اور دلیری کا مظاہرہ حیدر قریشی نے کیا ہے۔ حیدر قریشی نے اپنی زوجہ مرحومہ کی حیات پر کتاب لکھی۔بیوی پر لکھناحقیقت میں ایک ایسے منافقانہ ماحول میں ناممکن ہوتا ہے،جہاں آپ غزل میں اپنے محبوب کی توکھلم کھلا تعریف بیان کر سکتے ہیں مگر اپنی بیوی کے ساتھ بات کرنے کے لیے تنہائی کا ہونا ضروری ہے۔
”حیات مبارکہ حیدر ”کے پیش لفظ میں حیدر قریشی نے اپنی اس جسارت کی ضرورت اور اہمیت بھی بیان کر دی ہے۔وہ تحریر کرتے ہیں:
‘ ‘ہمارے معاشرے میں زندگی کے معتبر اور اہم رشتوں کو بہت کم اہمیت دی جانے لگی ہے۔پنجابی اسٹیج ڈراموں اور ٹی۔وی کے بیشتر کامیڈی شوز میں بھی معتبر رشتوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔خود ہماری ادبی دنیا سے لے کر سوشل میڈیا تک مزاح اور لطیفوں کے نام پر معتبر رشتوں کی تضحیک کرنا شعار بنا لیا گیا ہے۔یہ سب آٹے میں نمک جتنا ہوتا تو گوارا تھا۔ہنسی مذاق کے نام پر اس سارے طرزِ عمل سے معتبر اور اہم رشتے بے توقیر ہو رہے ہیں۔اس سے کمزور ہوتا ہوا خاندانی نظام مزید شکستہ ہو جائے گا۔اگر ہمارے ادب سے تعلق رکھنے والے قلم کار اپنے اردگرد کے لوگوں کو موضوع بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کے اہم اور معتبر افراد کو بھی موضوع بنانے لگ جائیں تو امید ہے اس سے ایک اچھی روایت مستحکم ہوگی”(1)
مبارکہ حیدر کیاعظیم خاتون تھیں۔ وفا کا پیکر، اخلاص سے بھرپور، ہمدرد اور ملنسار، دوست وغم خوار،زندگی کی طوفانی ہوا میں محفوظ گھر،تیز دھوپ میں پناہ گاہ، محبت میں سردی کی دھوپ کا لطف،ساتھ چلنے والی، ساتھ نبھانے والی، شوہر اور بچوں کے لیے جنت جیسی عافیت کا سامان رکھنے والی مبارکہ حیدر کی اپنی ان خوبیوں سے ان کے شناسا،ملنے والے تعلق دار،عزیز،رشتے دار، دوست، احباب سب واقف ہی ہیں۔مگر ہم جیسے پڑھنے والے جب ان کے اوصاف اور حیات کو اس کتاب کے ذریعے جانتے ہیں تو کبھی تو حسرت و ارماں میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ کاش ایک بار مل لیے ہوتے او ر کبھی خواہش مند ہوتے ہیں کہ ایسے اوصاف اللہ ہر بندے میں رکھے اورکبھی رشک میں مبتلا کہ ہم ایسے کیوں نہ ہوئے۔ مبارکہ حیدر مرحومہ کی ذات میں اوصاف ہی اوصاف ہیں۔ ہر پرت خوبیوں سے بھر پور،ہر رنگ خوبصورت،ہر پہلو دلنشین، ہر انداز دلفریب، ہر خوبی دوسری خوبی سے بڑھ کر۔ حیدر قریشی نے آئینہ بن کر ان کی ایک ایک خوبی یوں بیان کر دی ہے کہ پڑھتے جاؤ پھر پڑھو۔۔۔از سر نو پڑھو،جی سر اب نہ ہوگا۔ 48 سالہ ازدواجی زندگی کے بھرپور ثمرات کا نچوڑ ”حیات مبارکہ حیدر” ہے۔حیدر قریشی کی محبت اور مبارکہ حیدر کے اوصاف کا احاطہ کرنے کا عقیدت مندانہ انداز دیکھیں کہ محبت کی شیرینی لفظ لفظ سے ٹپک رہی ہے۔تحریر کرتے ہیں:
”مبارکہ بالکل عام سی گھریلو بچی تھیں۔جو خاندان میں گھل مل کے رہنے کے ساتھ سگھڑ ہوتی گئیں، میری زندگی کے تنگ دستی اور مشکلات کے طویل دور کو انہوں نے خوش دلی کے ساتھ نہ صرف برداشت کیا بلکہ ہر قدم پر میرا ساتھ دیا۔کبھی میں حالات کے سامنے تھک جاتا تو وہ ہمت بندھاتیں بلکہ میری طاقت بھی بنتیں۔میرے گھر کو انہوں نے اپنے حسنِ انتظام سے سنبھالے رکھا۔کم عمری میں شادی،کم عمری میں ہی پانچ بچوں کی ماں بن جانا،غربت اور سماجی مشکلات میں گزر بسر کرنا،بعض طاقت وروں کی طرف سے ہمارے گھر کو توڑنے کی مسلسل سازش،ان سب معاملات کو مبارکہ نے نہایت سمجھداری کے ساتھ ہینڈل کیا،میرے حصے کے بہت سارے دکھ خود سہتی رہیں اور کبھی کسی سے ان معاملات کے حوالے سے میرا کوئی شکوہ نہیں کیا،مجھ سے کوئی شکایت نہیں کی”(2)
”حیات مبارکہ” حیدر قریشی کی تصنیف بھی ہے اور تالیف بھی۔یہ ادبی کارنامہ مختلف الانواع ہے۔ اس لئے کہ اس میں حیدر قریشی کے تحریر کردہ مضامین بھی ہیں، ادیبوں دوستوں اور چاہنے والوں کے تحریر کردہ خاکے اور تاثرات بھی موجود ہیں۔ جبکہ مبارکہ حیدر کے بچوں کی کاوشیں بھی ہیں اس عبارت سے کتاب کے مصنف و مؤلف نے خود ہی فہرست بندی کر دی ہے۔
پہلا حصہ۔۔۔۔شعیب حیدر کی مکمل کتاب،ہماری امی مبارکہ حیدر
دوسرا حصہ۔۔۔۔ہماری امی مبارکہ حیدر پر لکھے گئے تبصرے تاثرات اور مضامین
تیسرا حصہ۔۔۔۔مبارکہ حیدر کی وفات کی خبر اور تعزیتی پیغامات
چوتھا حصہ۔۔۔۔جذبات و احساسات
پانچواں حصہ۔۔۔یادیں ہی یادیں
حیدر قریشی نے انتساب مبارکہ حیدر کے نام کیا ہے۔”حیات مبارکہ حیدر ” کس کے نام ہوتی؟اس کا انتساب کس کوشایان تھا اس کا فیصلہ اور درست فیصلہ حیدر قریشی ہی کر سکتے تھے اور انہوں نے میرٹ پر یہ انتساب مرحومہ کے نام کر کے ساتھ یہ شعر بھی درج کر دیا:
اک زخم کہ سب زخم بھلا ڈالے ہیں جس نے
اک غم کہ جو تا عمر بلونے کے لیے ہے (3)
پھر ایک اور شعر دیرینہ رفاقت کے خاتمے پر لگنے والے درد کا اس طرح احاطہ کرتا ہے:
ہم نے تیرے غم میں کوئی مالا نہیں پہنی
سینہ ہی دمکتے ہوئے زخموں کی لڑی ہے(4)
96 صفحات پر مشتمل کتاب ”ہماری امی مبارکہ حیدر” صاحبزادہ شعیب حیدر کی کاوش ہے۔شعیب حیدر نے جوکہ مبارکہ حیدر اور حیدر قریشی کی محبت کی اولین نشانی ہے ۔اپنی والدہ سے اپنی محبت اور عقیدت کو کمال افسانوی انداز میں تحریر کیا۔اسلوب کی خوبی و عمدگی دال ہے کہ ادیب اور شاعر کا بیٹا بھی ادبی تحریر لکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ماں سے محبت کے اظہار کا کیا وسیلہ تلاش کیا۔ شعیب حیدر تحریر کرتے ہیں:
”یہ کتاب جو ہماری امی کے ذکر پر مشتمل ہے۔ہم پانچ بھائی بہنوں کی جانب سے امی کے ساتھ محبت کے اظہار کی ایک صورت ہے”(5)
حیدر قریشی کے بچوں کا والدین کی شادی کی 44 ویں سالگرہ 4(اپریل 2015)کے موقع پر اس کتاب سے بڑھ کر بھلا کیا تحفہ ہو سکتا تھا۔ حیدر قریشی نے آغاز، مبارکہ کے نام لکھے گئے خاکے ”پسلی کی ٹیڑھ” سے کیا ہے۔حیدر قریشی نے جہاں جہاں اور جس جس مضمون میں مبارکہ کے لئے لکھا۔ان سب کو ایک مجموعہ کی شکل دے کر حیدر قریشی نے دوسرے خاکوں،یادوں اور انشائیوں میں ذکر ”کتاب کا حصہ بنا ڈالا۔”میں انتظار کرتا ہوں ”،روشنی کی بشارت”افسانوں ”سوئے حجاز میں ذکر” انٹرویو ز میں ذکر” کتاب کی زینت اس لئے بنے۔کہ اس میں شعیب حیدر کو والدہ کی خوشبو آتی ہے۔ شاعری بعنوان ”پھاگن کی سفاک ہوا”،”ماہیا”،”نصف سلور جوبلی” یہ وہ حصہ ہے جہاں شعیب کے والد نے شعیب کی والدہ سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔نیز کالم،ادبی مقالات،انٹرویوز،خطوط،مضامین،کتابوں کے انتساب، انٹر نیٹ غرض جہاں جہاں مبارکہ کا ذکر ہے۔اسے شعیب حیدرنے اپنی کتاب کی زینت بنا ڈالا ہے۔ڈاکٹر انور سدید ”ہماری امی مبارکہ حیدر ”کے بارے میں رقم طراز ہیں:
” اب یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب حیدر قریشی کی تحریروں سے مرصع کی گئی ہے اوروہی اس کے بنیادی اور اولین مصنف ہیں۔میں کہہ سکتا ہوں کہ” ہماری امی” اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے جس کی ترتیب و تدوین پر حیدر قریشی کے بچے مبارک باد کے مستحق ہیں”(6)
حیدر قریشی نے کتاب کے اگلے صفحات میں ”ہماری امی مبارک حیدر” پر لکھے گئے تبصرے، تاثرات اور مضامین شامل کیے ہیں۔ اس حصہ میں احبا ب کے تبصرے و تاثرات بھی ہیں۔ ای میل اور میسج بھی درج کئے گئے ہیں۔ ان تاثرات میں جہاں اس ادبی کاوش کو سراہا گیاہے وہیں مرحومہ کے ساتھ لگا ؤاور عقیدت کا پیغام بھی دیا ہے۔
”حیات مبارکہ حیدر” کا ایک اہم حصہ وفات کی خبر اور تعزیتی پیغامات ہیں۔ مبارکہ حیدر کا انتقال خاندان کے لئے تو قیامت سے کم نہیں تھا مگر عزیز، احباب، جان پہچان والے،طویل رفاقت والے بھی اور جن سے ایک بار ملاقات ہوئی تھی سب کے لئے یہ خبر انتہائی تکلیف دہ تھی۔اس کا اندازہ ان لاتعداد میسیجز، ای میلز، خطوط، کالم اور مضامین سے ہوتا ہے جن میں مرنے والی کے اوصاف،پس ماندگان کے لئے صبر کے پیغامات اور دعائیں ہی دعائیں ہیں۔شاہد ماہلی،مدیراعلی ٰماہنامہ ”صبح اردو” دہلی،وقاص سعید (آسٹریلیا،)طاہرعدیم صاحب (جرمنی) کی نظم” پیاری باجی مبارکہ صاحبہ کے وصال پر ”اور ان کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھیجے گئے پیغامات کی ایک طویل فہرست ہے جسے حیات مبارکہ حیدر کی زینت بنایا گیا ہے۔طاہر عدیم کی نظم کا آغاز ہی دل کو چھو لینے والا ہے:
صحن ویران ہے،خاموش ہے در تیرے بعد
گھر کسی طور بھی لگتا نہیں گھر تیرے بعد
روز دفناتا ہوں دے کر انہیں یادوں کا کفن
دل دریدہ تو بریدہ ہے جگر تیرے بعد
تکتا رہتا ہے کتابوں میں رکھے پھولوں کو
دل کے جزدان سے اک مور کا پر تیرے بعد(7)
’’جذبات و احساسات ‘‘میں حیدر قریشی نے عزیز و اقارب کے جذبات و احساسات کو ترتیب دیا ہے۔امریکہ سے خاندان کے بزرگ صادق باجوہ نے مبارکہ حیدر کی یادوں کو ”چند یادداشتیں”میں پرویا ہے۔صادق باجوہ کی دعاؤں کا تاج مبارکہ کے سر پر جنت میں گلدستہ بن کر آویزاں رہے گا۔تحریر کرتے ہیں:
”ہم نے بھی صبر و رضا کا دامن تھامتے ہوئے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر اس کی مغفرت کی دعا کی۔اللہ تعالیٰ اس سے رحمت و شفقت کا سلوک کرتے ہوئے اسے جنت الفردوس میں داخل کرے ”(8)
نازیہ خلیل عباسی (ایبٹ آباد) نے مضمون بعنوان” مبارکہ آنٹی” امریکہ سے راحت نوید نے” باجی سے بھابھی تک” عظمی احمد نے جرمنی سے ”میری پیاری آنٹی” ” کنول تبسم کا مضمون ”ایک سوال کا جواب” مبارکہ حیدر کی شخصیت کے خوب صورت گوشوں کو سامنے لا رہے ہیں۔نذیر بزمی” نے اپنے مضمون” مبارکہ حیدر۔۔۔ وفاکی دیوی” مبارکہ حیدر کے اوصاف، خصوصیات،حیاتِ مبارکہ اور پھر ان کے ساتھ دلی لگاؤ اور ساتھ گزرے ہوئے لمحات کی یادیں اور دعاؤں کے زیور گہنے سجائے ہیں۔حیدر قریشی نے بجا تحریر کیا ہے:
”حیات ِ مبارکہ حیدر ”کے آخر تک پہنچتے پہنچتے ”یادیں ہی یادیں ” کے تحت ہمارے پانچوں بچوں کے یادوں بھرے مضامین شامل کیے گئے ہیں۔پانچوں بچوں نے اپنی امی کی یادوں کو اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے۔یہاں یہ وضاحت کر دوں کہ یہ بچے مصنف بالکل نہیں ہیں۔شعیب اور عثمان نے تو اپنے مضامین لکھ کر دیئے جب کہ باقی بچوں نے یادوں کے نوٹس بنا لیے۔باری باری ہر بچہ اپنے نوٹس میں درج یادیں میرے ساتھ شئیر کرتا اور میں انہیں ان پیج میں لکھتا جاتا۔لکھنے کے بعد ہر بچہ اسے پڑھتا اور ہر بار پہلے لکھے میں کچھ ردوبدل کراتا کہ یہ بات یوں نہیں بلکہ یوں ہے۔سو سارے بچوں کی یادیں ان کی اپنی ہیں۔میں صرف ان کا کمپوزر ہوں۔ایسا کمپوزر جو جملوں کی نشست،بر خاست اور ساخت کو تھوڑا بہتر کرتا جاتا ہے”(9)
اس حصے کی ابتدا مبارکہ حیدر کی صاحب زادی در ثمین انور کے مضمون ”امی کی چند یادیں” سے کی گئی ہے۔جذبات سے بھرے تاثرات میں در ثمین انور نے ماں سے اپنی انسیت کا بھرپور اظہار کیا ہے اس مضمون کو از حد سراہا گیا ہے اور حیدر قریشی نے ان میں سے چند تاثرات درج کر دیئے ہیں۔یقین کریں مضمون اور تاثرات دونوں ہی دل کو چھو لینے والے ہیں۔”کیا حکم ہے میری ماں”واقعی اولاد تو ماں کے حکم کی منتظر اور تعمیل کے لیے بے قرار ہوتی ہے۔طارق محمود حیدر کی یہ حسرت کہ ماں بلائے اور وہ کہیں ”کیا حکم ہے میری ماں”دل کو مغموم کرنے والا تاثر ہے۔اس مضمون کو بھی تاثرات کے ذریعے سراہا گیا ہے۔بڑی صاحب زادی رضوانہ کوثر نے اپنی یادوں،محبت اور تڑپ کو ”جدید دا ستان محبت ”میں خوبصورت انداز اور دلکش آہنگ سے تحریر کیا ہے۔ تحسین کے قابل اس مضمون پر تاثرات بھی داد کے قابل ہیں۔شفیق ماں کی یادوں اور باتوں کو عثمان حیدر نے ”امی کی کچھ باتیں کچھ یادیں” میں لفظی محاکات میں بیان کر دیا۔ ماں کی ایسی ہی ان مٹ یادوں کو آپ شعیب حیدر کی یادداشت ”امی کی یادیں ”میں پڑھ کر انداذہ کر سکتے ہیں کہ ماں کی یادوں کی تڑپ اولاد کے دل میں امڈ رہی ہے۔۔ حیدر قریشی نے تین عشرے قبل ”پسلی کی ٹیڑھ” (خاکہ)تحریر کیا تھا۔جس کے آخر میں تحریر ہے:
”اس خاکے کا دوسرا حصہ مبارکہ کی وفات کے بعد لکھوں گا یا میری وفات کے بعد وہ لکھے گی”(10)
گویا خاکے کو اس حصے کے ذریعے تکمیل مل گئی۔لفظ لفظ محبت سے بھرا،محبت بھی وہ جو دل میں اتر جانے والی،سطرسطر غم میں ڈوبی ہوئی اور غم بھی وہ جو دل کو گداز کردے۔ مضمون کا یہ حصہ مبارکہ کی خوشبو سے لبریز،خوشبو بھی وہ جو دل اور دماغ کو معطر کردے۔ جدائی میں بدلتی رفاقت،اور جدائی بھی وہ جو دل کو تڑپا جائے ”غرض مضمون پڑھ کر آپ جہاںداستان عشق کو صادق پاتے ہیں۔ وہیں آنکھوں کو نم ہونے سے روک نہیں پاتے۔
قارئین ِ مکرم!”حیاتِ مبارکہ حیدر”کا اجمال،تکمیل،خلاصہ اور سفر ”پسلی کی ٹیڑھ ہے۔اس محبت کو آفرین اور اندازِ محبت کو صد آفرین قبول ہو۔
حوالہ جات:
1۔حیدر قریشی،حیاتِ مبارکہ حیدر،ایم۔ایم پبلی کیشنز،دہلی،2019،ص 8
2۔حیدر قریشی،حیاتِ مبارکہ حیدر،ایم۔ایم پبلی کیشنز،دہلی،2019،،ص 9
3۔حیدر قریشی،حیاتِ مبارکہ حیدر،ایم۔ایم پبلی کیشنز،دہلی،2019،ص2
4۔حیدر قریشی،حیاتِ مبارکہ حیدر،ایم۔ایم پبلی کیشنز،دہلی،2019،،ص3
5۔حیدر قریشی،حیاتِ مبارکہ حیدر،ایم۔ایم پبلی کیشنز،دہلی،2019،،ص9
6۔مطبوعہ روزنامہ نوائے وقت لاہور۔سنڈے میگزین۔14 جون 2015
8۔صادق باجوہ” چند یادداشتیں” مشمولہ حیات مبارکہ حیدر
9۔حیدر قریشی،حیاتِ مبارکہ حیدر،ایم۔ایم پبلی کیشنز،دہلی،2019،،ص 16
حیدر قریشی،خاکہ ”پسلی کی ٹیڑھ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔