اکبر: زندہ گھوڑے کا اس طرح ہاتھوں پر اٹھا لینا جیسے چیمپئن ہیوی ویٹ کو۔
کلثوم: اے رہنے بھی دو
اکبر: اور کئی کئی کوس تک اس طرح چلا جاتا تھا رمضو استاد
کلثوم: آدمی نہ ہوا بن مانس ہوا
اکبر: تم کیا جانو وہ زندگی ہی اور ہے
کلثوم : ہو گی اور زندگی۔۔ مگر اب جو زندگی ہے اس کا کیا حال ہو گا
اکبر: کیا مطلب
کلثوم : تنخواہ کیوں نہیں لائے
اکبر: اسی لئے تو کہتا ہوں وہ زندگی ہی اور ہے وہاں تنخواہ ونخواہ کا جھگڑا نہیں ہوتا۔ فصل کٹی اپنی ضرورت کا اناج گھر میں بھر لیا باقی بیچ دیا۔ سبزیاں مفت کی، فروٹ فری کا، مرغیاں اپنی، انڈے اپنے، اپنی بھینس، اپنی گائے، اپنی بکری۔ چاہے خالص دودھ ہو چاہے مکھن نکالو، چاہے گھی بناؤ، اصلی گھی دانے دار اور خوشبو ایسی کہ طبیعت خوش ہو جائے۔
کلثوم : میں کہتی ہوں یہ خواب دیکھنا چھوڑ دو تم
اکبر: خواب۔۔۔ ہاں وہ سب کچھ اب تو خواب ہی معلوم ہوتا ہے۔ ایک طرف ہری بھری لہلہاتی کھیتیاں دوسری طرف بھوری پہاڑیاں۔۔ پہاڑیوں کے درمیان ککروندوں کی جھاڑیاں لال گلابی اودے نیلے پیلے ہر رنگ کے ککروندے۔ ککروندوں کی بھینی بھینی خوشبو۔ اونچی نیچی زمین، تیتر چھوٹی چھوٹی اڑانیں۔۔۔ ہم غلیلیں ہاتھوں میں لئے ان کے پیچھے دوسرے گاؤں تک نکل جاتے
تھے۔
کلثوم: یا الٰہی میں کیا کروں کس سے کہوں۔۔ سیانی بیٹی گھر میں بیٹھی ہے اس کے ہاتھ پیلے کرنے کیلئے پھوٹی کوڑی پاس نہیں اور آپ اپنے خیالی گاؤں کے سیر سپاٹے میں لگے ہوئے ہیں۔
اکبر: خیالی نہ کہو بیگم۔۔۔ ہمارا بچپن وہاں گزرا ہے۔۔ کیا دن ہوتے ہیں بچپن کے بھی
کلثوم : بس بس رہنے دیجئے۔ اب آپ بچپن کی کہانیاں سنانے لگیں گے کہ گاؤں کے بیچ جہاں چودھری کا گھر تھا اور گھر کی برابر اکھاڑا تھا۔
اکبر: اور تو کیا نہیں تھا۔۔۔ ہم صبح کو وہاں زور کیا کرتے تھے۔ سورج نکلنے سے پہلے ہی لنگوٹ کس کر پورے بدن پر تیل کی مالش کی پھر کچھ ڈنڈ نکالے، کچھ بیٹھکیں نکالیں۔۔ جب جوڑ جوڑ کھل گیا اور نس نس تازہ ہو گئی تو اکھاڑے میں اترے۔ اکھاڑے کی مٹی میں بھی کیا تاثیر ہے کہ مٹی کے جسم کو لوہا اور خاک کے بدن کو آگ بنا دیتی ہے۔
کلثوم : اب یہ کیمیا گری کرتے رہو گے یا پیٹ کی آگ کا بھی کچھ خیال آئے گا۔
اکبر: پیٹ کی آگ! اوہ نہیں ابھی تو ہمیں بھوک نہیں
کلثوم: میں تنخواہ کو پوچھ رہی ہوں
اکبر: ہاں ہاں وہ بھی کل مل جائے گی۔ آج بینک ہالی ڈے ہے نا!
کلثوم : بینک کی چھٹی کل بھی تھی اور آج بھی ہے
اکبر: کل بھی تھی تو آج نہیں ہو سکتی۔۔۔ ہم سمجھے آج ہے کل نہیں تھی۔
کلثوم : اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی
اکبر: ابھی کہاوتیں رہنے دیجئے۔ آج سے کل نزدیک ہے کل بینک سے چیک کیش کرا کے پائی پائی آپ کو لادیں گے پھر آپ جانیں اور آپ کا کام، ہم سے کوئی مطلب نہیں
کلثوم : یہ کہہ کے آپ خوب الگ ہو جاتے ہیں۔ آخر ان کی فیس کتابیں پھر کپڑے لتے کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے ادھر سے مہمان داری، کبھی کوئی آگیا کبھی کوئی۔۔۔ پھر رشتہ داروں سے بھی ملنا ملانا ہوتا ہے۔ اب کسی کے بچے کی سالگرہ ہے تو تحفہ چاہئیے کہیں شادی ہے تو منہ دکھائی دو۔ کبھی کبھار کوئی قرض ادھار مانگ بیٹھے تو اس کا دل بھی رکھنا پڑتا ہے۔ ہزار بکھیڑے اور میرا اکیلا دم۔ آپ تو کسی بات سے کچھ مطلب ہی نہیں رکھتے۔ دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی اور ہم آج بھی وہیں ہیں جہاں بیس سال پہلے تھے۔
اکبر: بیس سال نہیں اکیس سال۔ اس لئے کہ آفتاب بیس سال کا ہو چکا ہے اور وہ ہماری شادی کے ایک سال بعد پیدا ہوا تھا۔ اکیس سال چٹکی بجاتے گزر گئے۔ بالکل کل کی بات معلوم ہوتی ہے۔
کلثوم: اس دن سے جو اپنے گاؤں کی باتیں شروع کی ہیں تو وہ دن اور آج کا دن۔۔۔ یہ کتھا ختم ہونے میں نہیں آتی۔
اکبر: ہم اپنے قول پر قائم ہیں۔ اور آپ اپنی بات سے پھر گئی ہیں یاد کرو۔ ہم نے کہا تھا ہماری زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ اپنی بانجھ زمینوں کی گود پھر سے ہری کریں گے۔ انہیں نئی زندگی دیں گے۔ زمینوں کی نئی زندگی ہماری نئی زندگی ہو گی۔ اور تم نے کہا تھا جو تمھاری خوشی وہ ہماری خوشی۔ اب تم آنکھیں اسی طرح آنکھیں جھپکا کر یہ بات کیوں نہیں کہتیں۔ کیوں نہیں کہتیں۔ بولو۔ کہو جو تمھاری خوشی ہے وہ ہماری خوشی۔
کلثوم: ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے۔ جب مجھے دنیا کا تجربہ نہیں تھا۔ ذمہ داریاں نہیں تھیں اس وقت میں بھی یہ سمجھی تھی کہ ہم جیسا چاہیں گے زندگی کو بنا سکتے ہیں۔ مگر اب معلوم ہوا کہ زندگی جب چاہتی ہے ہمیں بنا دیتی ہے۔
اکبر: یہ عورتوں کے خیالات ہیں۔ میں مرد ہوں۔ میں حالات کے پنجے میں پنجہ ڈال سکتا ہوں۔ ہمارا استاد لوہے کی سلاخ کو دہرا کر دیتا تھا۔
کلثوم: یہ قصہ بھی میں بہت دفعہ سن چکی ہوں۔ سنتے سنتے دل بھر گیا۔ اب آپ یادوں کو بھول جائیے اور ہاں سنتے ہو۔
اکبر: کوئی نئی بات
کلثوم: حجن بھی ایک بہت اچھا پیغام لائی ہیں اپنی نوشابہ کے لئے۔ لڑکا انجینئر ہے، گھر میں ایک بوڑھی ماں کے سوا کوئی نہیں ہے
اکبر: تو پھر
کلثوم: انہیں جلدی بہت ہے بس چاہتے ہیں کہ چٹ منگنی اور پٹ بیاہ
اکبر: مگر وہ ظالم تہہ، وہ جو ہماری زمینوں پر چڑھی ہوئی ہے۔ جب تک وہ نہ اتر جائے، ہم کیا کر سکتے ہیں، ان سے کہہ دو تھوڑا انتظار کریں پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اب وہ دن دور نہیں جب ہماری زمینوں پر بھی گنے کی بالیاں لہکیں گی۔ پھر گاؤں کے جوان ہمارا ہاتھ بٹانے کو آئیں گے۔ چاندنی رات چمکتی درانتیاں فصل کی کٹائی ہو گی۔ لڑکیاں گائیں گی، ڈھول بجائیں گی، جشن ہو گا اور پھر ایک دن ہم ہوا کے رخ پر کھڑے ہوں گے۔ دانے قدموں میں گر رہے ہوں گے۔ بھوسا اڑ اڑ کر دور اکھٹا ہورہا ہو گا۔ پھر خریدار آئیں گے ہم اس بھاؤ لیں گے نہیں، میں اس بھاؤ نہیں دوں گا سودا ہو گا۔ سودے پر تکرار ہو گی۔
کلثوم: اے سوت نہ کپاس آپس میں کولہو سے لٹھم لٹھا
اکبر: لٹھ چلانا بھی ایک ہنر ہے۔ آفتاب کی ماں، نبیرا بدلنا آئے تو ایک آدمی سینکڑوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ ہمارا استاد بنوٹ کا بھی استاد تھا۔ اور کوئی ایسا ویسا استاد نہیں تھا، دور دور سے لوگ اس کی بنوٹ دیکھنے آتے تھے، زمین پر کبوتر چھوڑ دو تو کیا مجال کہ اس کی بنوٹ توڑ کر اڑ جائیں۔
آفتاب: (داخل ہوتا ہے) امی جان۔۔ امی جان
کلثوم: اے لڑکے اسے کیا کہتے ہیں، یہ کیوں لائے ہو
(کبوتروں کی غٹر غوں)
آفتاب: یہ دیکھئے کیسی اچھی جوڑی ہے۔ ایک دم سفید بالکل سفید کوئی داغ نہ دھبہ۔ بڑی مشکل سے ملے ہیں۔
کلثوم: مگر بیٹے تجھے یہ شوق کب سے ہوا؟
آفتاب: بڑی خوشامد کی حامد کی اس نے دئیے ہیں۔ کہتا تھا اس نسل کے کبوتر صرف ہمارے ہاں ہیں۔ اور یہ ہم کسی کو نہیں دیتے ہیں، دیکھئے نہ کیسی معصوم سی صورتیں ہیں۔
شوکیس میں رکھ دو تو ڈیکوریشن پیس معلوم ہو، ہے کہ نہیں امی جان۔
کلثوم : مگر میں کہتی ہوں تجھے یہ سوجھی کیا۔ ادھر سے آئیں گے غٹر غوں غٹر غوں اُدھر سے آئیں گے غٹر غوں غٹر غوں۔۔۔ کس نے یہ لت تیرے پیچھے لگا دی۔
اکبر: اسے لت نہیں کہتے بیگم۔ یہ شوق ہے۔ نفیس مزاج لوگوں کا شوق
آفتاب: امی جان ہم بھی دنیا میں ہیں۔ اور کبوتر بھی۔ آگے اپنی اپنی پسند کوئی بچوں کو اپنائے، اور کوئی کبوتروں کو۔
اکبر: بھئی آفتاب کی ماں تم برا مانو یا بھلا۔۔ یہ آفتاب کا پہلا کام ہے، جس سے ہمیں دلی خوشی ہوئی ہے۔ دراصل یہ شوق بیٹے کو ورثہ میں ملا ہے۔ لڑکپن میں ہماری چھتری کے کبوتر گاؤں گاؤں مشہور تھے۔ جب ہمارے کبوتروں کی کوئی ٹکڑی سائیں سائیں کرتی گزرتی تو سب کی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھ جاتی تھیں۔ راہ چلتے لوگ انھیں دیکھنے لگتے تھے۔ کیسے کیسے کبوتر۔ آنگن میں آئیں تو معلوم ہو کہ تازہ تازہ برف کے گالے بکھرے پڑے ہیں۔ ششکاری دے کر اڑا دو۔۔۔ تو بادلوں کے پار جائیں۔ جاندار ایسے کہ تین تین دن تک اوپر ہی چکر کاٹتے رہیں۔ زمین پر پاؤں رکھنے کا نام نہ لیں کل سرے کل دمے لقا شیرازی
کلثوم: بس بس رہنے دیجئے۔ اپنے کل سرے اور کل دموں کی قسمیں، میں کہتی ہوں یہ کبوتر جو تولے آیا ہے کیا انھیں تکیے کے نیچے رکھ کر سوئے گا۔ اے ہے یہ رہیں گے کہاں۔
آفتاب: ان کے لئے کابک بھی لایا ہوں۔ ادھر آنگن میں رکھی ہے
(بلی کی میاؤں میاؤں)
اکبر: بل بل بلی
کلثوم: ہش ہش ارے کبوتر
نوشابہ: (تیزی سے آتے ہوئے) کدھر گئی میری مانو
کلثوم : تمھاری مانو
نوشابہ : ابھی تو لائی ہوں ذکیہ کے گھر سے۔ میرے پیروں میں لوٹنے لگی تھی۔ جتنی دیر میں وہاں رہی اس نے میرے پاس سے ہٹنے کا نام نہیں لیا۔ پھر میں نے کہا اے دو میں اپنے ساتھ لے جاؤں گی۔ کیسی پیاری ہے۔
آفتاب : نکالو اسے یہاں سے۔ بلی نہیں رہ سکتی اس گھر میں
نوشابہ : کیوں نہیں رہ سکتی
آفتاب : انہیں دیکھو
نوشابہ : کبوتر۔۔۔ ہائے اللہ کیسے اچھے۔۔ کہاں سے لائے، کب لائے، کتنے میں لائے
آفتاب : پسند ہیں تمھیں
نوشابہ : ہاں ہاں کیوں نہیں
آفتاب: تو اس بلی کو گیٹ آؤٹ کرو
نوشابہ : واہ یہ کیا کوئی بات ہوئی
اکبر : یعنی ایک ہی چھت کے نیچے بلی بھی رہے اور کبوتر بھی وہیں یہ کس طرح ممکن ہے
آفتاب : اس لئے بلی کو نکال دو گھر سے
نوشابہ : آپ اپنے کبوتروں کو اڑا دیجئے۔ مانو تو یہیں رہے گی
کلثوم : یہ لو بیٹھے بٹھائے ایک نیا جھگڑا
نوشابہ: میں رہوں گی تو مانو بلی بھی گھر میں رہے گی
آفتاب: یہ میرے کبوتروں کو کھا جائے گی
نوشابہ : وہ بھوکی نہیں ہے تمھارے کبوتروں کی
آفتاب: گھر میں کبوتر رہیں گے
نوشابہ : نہیں بلی
آفتاب : نہیں کبوتر
نوشابہ : بلی، بلی
آفتاب : کبوتر کبوتر
کلثوم: (ہنستے ہوئے) آپ کہہ رہے تھے جس گھر میں کبوتر ہوں وہاں لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا۔ اور یہاں کبوتروں ہی پر جھگڑا ہو گیا
اکبر: یہ جھگڑا کبوتروں کی وجہ سے نہیں بلی کی وجہ سے ہوا ہے
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...