زینب چونکہ سیمل کے پاس تھی سارا دن تو وه میت میں نہیں جا پائی___ ادھر سیمل کا بی پی نارمل نہیں ہوا تھا اسلئیے اسے کوئی ہوش میں واپس لانے کی دوائی نہیں دی گئی___ اس نے کچھ کھایا بھی نہیں تھا__ جو کچھ جسم میں جارہا تھا وه ڈرپ کے ذریعے اسے تقویت پہنچا رہا تھا___ تقریباً رات گیاره بجے کے قریب عارش کی آمد غفور انکل (زینب کے والد)کے ساتھ ہوئی جب تک سیمل ہوش میں نہیں آئی تھی___ڈرپ اور انجیکشن اپنی جگہ چل رہے تھے___زینب بھی بہت تھک چکی تھی__وه یونی کے وقت کی نکلی ہوئی تھی___صبح کا ناشتہ کیا ہوا تھا__سیمل کے لیۓ بھی پریشان تھی___اور اکرام صاحب کی موت پہ بھی افسوس کررہی تھی___ عارش جب آیا تو اسنے زینب کو غفور انکل کے ساتھ گھر بھیج دیا__انہیں واپسی پہ زینب کی امی کو لیتے ہوئے اپنے گھر جانا تھا جو کہ سیمل کی امی کے پاس تھیں___ سلمان صاحب اور انکی زوجہ بھی بیگم اکرام کے ساتھ تھے___چونکہ اکرام کے کوئی بھائی بہن نہیں تھے تو سارے کام سلمان صاحب کر رہے تھے جو بہت اپنے ہونے کا سچے دل سے ثبوت دے رہے تھے__
(#از_سنبل_کلیم)
شہر یاراں, شہر یاراں, شہر یاراں…
دل نہ مانے پھر چلا ہے…
شہر یاراں…
دور رہے کر روبرو ہے …
شہر یاراں…
ٹوٹے دل کی آرزو ہے..
شہر یاراں…
محبت کے واسطے, سنا ہے دو جہاں بنے ہیں تو…
پھر کیوں سزا…!
نماز محبت تو!!!
ایسی نماز ہے
جسکی ملے نہ جزاء…
کر رہی قسمت یہی گلہ…
اجنبی ہوکر پھر ہے چلا…
شہر یاراں…
دل نہ مانے پھر چلا ہے..
شہر یاراں…
دور رہے کر روبرو ہے…
شہر یاراں…
ٹوٹے دل کی آرزو ہے…
شہر یاراں…
عارش کے کانوں میں کہیں دور ہرے سے اس گانے کے الفاظ سنائی دے رہے تھے اور وہ یہ گانا سنتے ہوئے مدہوش ہو رہا تھا____
اسوقت رات کے تین بج رہے تھے جب سیمل کی آنکھ پیاس لگنے کے باعث کھلی___ آنکھیں کھلنے کے ساتھ ہی اسکے ذہن میں گزرے دن کی گزری ساری روداد کسی فلم کی طرح چلنے لگی___
سب یاد آتے ہی وه اپنے پانی کی پیاس تو بھول گئی مگر اپنے بابا جانی کے پیار کی پیاس اسے لگ گئ___
وه زور زور سے چیخ رہی تھی__عارش دیوار کے ساتھ پڑے کاؤچ پہ نیم دراز تھا___اپنی متاع حیات کی آواز کان میں پڑتے ہی سیدھا بیٹھ گیا اور فوراً سیمل کی طرف بھاگا___
“کیا ھوا سیمل___ آر یو آل رائٹ___” انداز سوالیہ تھا___ اسکے برعکس سیمل اپنے ہوش میں نہیں تھی___وه مسلسل اپبے بابا کو یاد کر رہی تھی اور اپنی غمزدہ آواز سے ہاسپٹل والوں کو چیخ چیخ کر جگا رہی تھی__
عارش نے اسے چپ کرانے کیلۓ جیسے ہی اسکے منہ پہ ہاتھ رکھا اس نے جھٹکے سے اسکا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹایا___اسکے بعد اسنے کچھ بولا تو نہیں مگر وه اپنی نازک کلائی پہ لگی ڈرپ کو نوچ کر نکالنے لگی___کچھ سمجھ آتے ہی عارش نے اسکا اپنے کلائی کی طرف بڑھتا ہاتھ روک لیا__
“دماغ ٹھیک ہے آپ کا___کیا کرنے جارہی تھیں___ آپکو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ میری بیوی کے ساتھ ایسا سلوک اُسکے شوہر کے سامنے کریں__” کرخت لہجے میں جب وه پہلی دفعہ سیمل سے مخاطب ہوا تو وه حیرت کی سمندر میں غوطہ زن ہوگئی__ اسکے غصے میں بھی نرالا پیار اپنی بیوی جو کہ سیمل عارش ہی تھی، کے لیۓ چھپا تھا___
“میں ابھی ڈاکٹر کو بلا کر لاتا ہوں پھر چلتے ہیں اگر انھوں نے اجازت دی تو___” وه اسکو اسی حال میں چھوڑ کر ڈاکٹر کو بلانے چلا گیا___
ڈاکٹر نمیره نے آکر سب کچھ چیک کیا تب انہوں نے عارش کو بولا کہ اب آپ انہیں لے کر جاسکتے ہیں___
سیمل کی ڈرپ وغیره تو اتر چکی تھی__البتہ ہاتھ کسی باعث کافی بری طرح سوج چکا تھا___ عارش نے ڈاکٹر نمیره سے اسکی وجہ بھی پوچھی تو انہوں نے کہا شاید انہوں نے الٹا ہاتھ رکھ لیا ہوگا کسی وقت تبھی اسے ہوگیا___ورنہ اور وجہ تو کچھ بھی نہیں ہوسکتی__ عارش نے تمام چارجز ادا کیۓ___ پھر سیمل کو لے کر کمرے سے نکلنے لگا___
ابھی وه تھوڑا آگے ہی چلے تھے کہ سیمل چکر آنے کے باعث لڑکھڑا گئ___ عارش جو اسکے ساتھ ہی چل رہا تھا___فوراً گرنے سے تھام لیا___ ساتھ پڑی کرسی لے بیٹھایا___ دوزانو ہوکر اسکے سامنے بیٹھ گیا__سیمل کمرے سے نکلتے ہوئے بھی رو رہی تھی اور اب بھی وه بہت رو رہی تھی___
“آپ نے دوپہر میں کچھ کھایا تھا___؟؟؟ سچ بولیے گا۔۔۔!!!” سیدھا سوال کیا گیا تھا___
“نہیں__کل شام کا کھایا تھا___” سیدھے ہی جواب بھی دیا گیا___
” یعنی پرسوں شام کا___اوه مائی گاڈ___ مجھے کہیں سے نہیں لگتا آپ خود ڈاکٹر ہیں___ ڈائیٹ پروپر نہیں خود کی___ انجکشن سے ڈرتیں ہیں___ڈرپ نوچنے کی کوشش کرتیں ہیں___ اور اب اتنی اِر ارپونسیبلیٹی___ صبح بھی کچھ نہیں کھایا___؟” اتنا کچھ سنانے کے بعد قدرے دھیمے أنداز میں پوچھا___
“نہیں__ بتایا تو کچھ نہیں کھایا شاید تبھی چکر آرہے ہیں___” سیمل کی طرف سے روتے ہوۓ ہلکی آواز میں جواب آیا___
“ویٹ آپ رکیے میں ابھی کینٹین سے کچھ لے کے آتا ھوں___ پھر کچھ کھا کر چلتے ہیں__” عارش یہ بولتے ہی ہاسپٹل کی موجوده کینٹین کی طرف جانے لگا___
“چھوڑ دیں میں گھر جاکر کچھ کھا لوں گی__”
“میں اپنی بیوی کے لیۓ لا رہا ہوں ___ اور انہیں کھانا اور پینا دونوں پڑے گا___آپ یہیں رکیے___میں آتا ہوں پانچ منٹ ___”یہ کہہ کر عارش اپنی منزل کی طرف گامزن ہوگیا___
فضا میں عجیب سوگواری سی تھی___سیمل کی آنکھوں سے مسلسل گرم پانی رواں تھا__ موسم سرما کی آمد تھی راتیں سرد ہونے کے باعث اسکے دانت بھی بج رہے تھے___
(#از_سنبل_کلیم )
بیگم اکرام کو اس وقت بھی نیند نہیں آرہی تھی__زینب نے انکے گھر جاکر انہیں ریلکس کرنے کے لیۓ صرف اتنا کہا تھا کہ اب سیمل ٹھیک ہے لیکن دراصل سیمل اس وقت بھی اپنے ہوش و حواس سے بیگانہ چت ہاسپٹل کے بیڈ پہ پڑی تھی___مگر کہتے ہیں ماں کی دعا سب دعاؤں کی ماں ہوتی ہے تو بس یہی کچھ حقیقت سیمل کی زندگی میں بھی تھی___
عارش کی پُرزور اصرار پہ زینب نے یہ جھوٹ بولا تھا__تاکہ وه اس رات تو سوسکیں__ مگر اسکی یہ کوشش بھی بیکار گئ تھی__ وه لیٹی ہوئی مختلف دعائیں، سورتیں پڑھ کر تصور میں ہی پھونک رہی تھیں شاید یہی کچھ سیمل کو ہوش میں بناء کسی دوا کے لے آیا تھا___
جب کافی دیر وه پڑھتے پڑھتے تھک گئیں تو انہیں تھوڑا سکون ملا آخر کو ماں تھیں الہام تو ہو جاتا ہے کہ آیا انکی اولاد سکون میں ہے یا مصیبت میں__
تھوڑے سکون کے لمحے ہی ملے تھے کہ نیند کی دیوی انہیں اپنی وادی میں لے اُتری___
زینب اپنی والده اور والد کے ہمراه جس وقت گھر پہنچے تھے اس وقت رات کے باره بج رہے تھے__کھانا کھانے کا کسی کا دل نہیں تھا تو سب ایسے ہی اپنے کمروں میں چلے گئے___ کمرے میں آکے وه سیدھی اپنی بیڈ پہ گری اور اوندھے منہ لیٹ گئی__
زینب کافی اُداس تھی اپنی بہن جیسی دوست کی ایسی حالت کا سوچ کر___ سوچتے سوچتے وه بھی جلد ہی کپڑے تبدیل کیۓ بغیر نیند میں کھو گئی___
(#از_سنبل_کلیم)
جب وه کینٹین کی طرف گیا تو وہاں ایک بڑا سا تالا دروازے پہ لگا عارش کو منہ چڑا رہا تھا__
اب تو صحیح معنوں میں اسے وقت کا اندازه ہوا جو ساڑھے چار بتا رہا تھا___ وه ویسے ہی اپنا لٹکا ہوا منہ لے کر سیمل کے پاس آیا__ جو سردی میں سکڑ کر بیٹھی کانپ رہی تھی__ساتھ ساتھ چہرے کی بارش بھی ابھی تک جاری تھی__ سرخ ہوتی ناک ، آنکھوں سے بہتے قیمتی موتی اور کپکپاتے ہوئے وه سیدھا عارش کے دل میں اتر رہی تھی__ وه اسکے پاس آکر دوزانو بیٹھا پھر اس نے اس نے اپنے ہاتھوں کی پوروں سے وہ تمام قیمتی موتی چن لیۓ___
سیمل اسکی اس جسارت پہ ششدر ره گئی__
یکایک ہوش میں آکے عارش کھڑا ہوگیا__ اور فوراً ہچکچاتے ہوئے مخاطب ہوا___
“ابھی یہاں کی کینٹین تو بند ہے ہم باہر سے کچھ لے لیتے ہیں__ “یہ کہنے کے ساتھ ہی سیمل کھڑی ہوگئی___عارش نے اسکے کھڑے ہوتے ہی اسکا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا اور اسے اپنے ساتھ چلانے لگا__ آج سیمل عارش کے رویے سے بہت حیران تھی مگر وه کچھ نہیں بول سکتی تھی کیونکہ اسکے رشتے نے اسے یه حق دیا تھا__ تو وه کون ہوتی تھی اسے روکنے والی___ آگے پیچھے چلتے وه گاڑی تک پہنچے__ پھر گاڑی میں بیٹھ کر اسے ٹھنڈ میں تھوڑی کمی محسوس ہوئی___ راستے سے عارش نے سیمل کو بہت ساری چیزیں لے کر دیں تھی اور زبردستی اپنے سامنے کھلائی بھی تھیں__ گھر کے باہر ہارن دینے کے بعد گیٹ کیپر چھوٹے گیٹ سے برآمد ہوا اور آنے والے کے متعلق پوچھا__سامنے اس گھر کے بیٹی اور داماد تھے تو فوراً گیٹ کھول دیا گیا__عارش اپنی وٹز زن سے اندر لے آیا__ سیمل جب گاڑی سے اتری تو عارش اسے گہری نظروں دیکھ رہا تھا__گویا اپنے دل میں اتارنا چاه رہا تھا___ سیمل خجل سی ہوتی گاڑی سے اتری__ گاڑی سے اتر کر وه سیدھی اندر بھاگی اور اپنے ماں باپ کی کمرے کی سمت جاکے غائب ہوگئی__ عارش اسی شش و پنج میں تھا کہ وه اندر جاۓ یا نہیں مگر عین اسی وقت اسکا آئی فون بجنے لگا___فون جیسے ہی جیب سے نکالا تو سامنے ارصم کالنگ لکھا آرہا تھا__ اسے تھوڑا عجیب لگا کیونکہ ارصم نے کبھی اسے اس وقت کال نہیں کی تھی__
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...