دن یونہی بےکیف سے گزر رہے تھے۔۔ آج موسم کے تیور کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔۔ شام سے پہلے ہی اندھیرا چھا رہا تھا۔۔ وہ جلابیب کے ساتھ بیٹھا غالباً چائے کا انتظار کر رہا تھا۔۔
“آنٹی ٹھیک ہی کہ رہی ہیں اشعر اب تو شادی کر ہی لے۔۔ منگنی کو بھی دو سال ہو گئے اب تو۔۔ کبھی کبھی بےوجہ کا انتظار عمر بھر کا روگ سونپ دیتا ہے”۔۔
اس نے اسٹینڈ پر ایک ادھوری تصویر سیٹ کرتے ہوئے کہا۔۔ اسکا چہرہ سپاٹ تھا۔۔
“یار میری کوئی عمر ہے برباد ہونے کی”۔۔
اشعر نے بات کو مذاق کا رنگ دیا۔۔
“پینتیس سال کی عمر میں بھی تو برباد ہونے کو تیار نہیں تو میرے بھائی اب کیا بڑھاپے میں گھوڑی چڑھے گا”۔۔
اس نے اسی کے انداز میں کہا تھا۔۔
“ہاہاہاہا کوئی بوڑھا نہیں ہو رہا میں تو اپنی سوچ”۔۔
اشعر نے اسکے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا ۔۔
اسکی بات پر اسکے مسکراتے لب سکڑے تھے۔۔
“تو اب بھی رابیل کو بھولا نہیں ہے جلابیب۔۔ وہ کسی اور کی ہے جلابیب یہ بات تسلیم کیوں نہیں کر لیتا۔۔ ساری عمر یوں تنہا نہیں رہ سکتا تو۔۔ زندگی بہت طویل ہے جلابیب۔۔ اسے گزارنے کے لئے کسی ساتھی کی بہت ضرورت ہوتی ہے میرے یار”۔۔
اسنے اسے شانوں سے تھام کر اپنے پاس بیٹھایا ۔۔
وہ بغیر کچھ کہے خاموشی سے اسکے سامنے بیٹھ گیا تھا۔۔
اسکی بات پر چائے لے کر اندر آتی وشہ کے ہاتھ کانپے۔۔
“رر رابیل” ۔۔
اسکے قدم وہیں تھم گئے تھے۔۔ اس نے حیرت سے جلابیب کو دیکھا۔۔ مگر وہ اسکی جانب متوجہ ہی کب تھا۔۔ وہ تو سر جھکائے اشعر کے سامنے بیٹھا تھا۔۔ ایسے جیسے کوئی جرم کیا ہو۔۔ ہاں جرم تو کیا تھا “جلابیب زوار” نے اور ایسا جرم جسکی سزا ختم ہونے کو ہی نہیں آ رہی تھی۔۔
“میں جانتا ہوں وہ میری نہیں ہیں اشعر۔ ۔ مگر وہ کسی اور کی ہیں یہ بات جانتے ہوئے بھی دل ماننے کو تیار نہیں ہے۔۔ تو کہتا ہے میں انھیں بھول جاؤں۔۔
اس نے نظریں اٹھا کر اشعر کی جانب دیکھا۔۔ سامنے گیٹ پر کھڑی وشہ اسے اب بھی نظر نہیں آئی تھی۔۔ آنسوں اسکی آنکھوں سے نکلنے کو بیتاب تھے۔۔ کسی مرد کے آنکھوں میں آنسوں وہ پہلی بار دیکھ رہی تھی۔۔ مگر وہ مرد جلابیب تھا۔۔ اسے اسکی جسم سے روح نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔
“محبت مختصر بھی ہو تو بھولنے میں عمر لگتی ہے اشعر۔۔
وہ وہ چہرہ وہ آنکھیں میرے ذہن سے نکالے نہیں نکلتے۔۔
رابیل سے جڑی دل کی سبھی یادیں۔۔ کسی بیل کی مانند
میری روح سے لپٹی ہوئی ہیں۔۔ انہیں خود سے جدا کرنے
میں میری ساری عمر لگ جائیگی اشعر”۔۔
اسنے اشعر کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔۔
“خدا آپ کو اس چوٹ سے محفوظ رکھے وشہ”۔۔
اسکے کانوں میں جلابیب کی چند دنوں پہلے کہی بات گونجی تھی۔۔
جو بات وہ اس دن نہیں سمجھ پائی تھی آج بہت اچھی طرح سمجھ گئی تھی۔۔ جلابیب نے جس چوٹ سے محفوظ رہنے کی اسے دعا دی تھی۔۔ وہ چوٹ اسے جلابیب کی ہی کہی باتوں سے لگی تھی۔۔ اور بہت زور سے لگی تھی۔۔ آنسوں پلکوں کی باڑھ توڑ کر اسکے گال پر پسلے تھے۔۔ نظریں جلابیب کے پیچھے اسٹینڈ پر لگی ادھوری پینٹنگ پر گئی تھیں۔۔
جس میں آنکھیں بنی ہوئی تھیں۔۔ لانبی پلکوں تلے چھپی بلاشبہ وہ آنکھیں بہت حسین تھیں۔۔ مگر ان آنکھوں میں کوئی رنگ نہیں تھا۔۔ ابھی اس میں رنگ کرنا باقی تھا۔۔
“سخن کا ساتواں در کھولتی ہیں۔۔
وہ آنکھیں بےتحاشا بولتی ہیں۔۔
اسکی نظریں پینٹنگ کی نیچے لکھے شعر پر ٹکی تھیں۔۔
آج اگر اس نے جلابیب کی باتیں نا سنی ہوتی تو شاید اسکا مطلب کبھی نہیں سمجھ پاتی۔۔
“وہ مجھے نہیں بھولتی اشعر۔۔انکی آنکھیں مجھے نہیں بھولتی اشعر”۔۔
اسنے بچوں کی طرح روتے ہوئے کہا۔۔ اشعر نے تڑپ کر اسے سینے سے لگایا۔۔
پیچھے کھڑی وشہ کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا تھا۔۔ وہ بےیقینی سے جلابیب کو رابیل کے لئے روتا دیکھ رہی تھی۔۔ اپنی نظروں کے سامنے اپنی محبوب ہستی کو کسی اور کے لئے تڑپتا دیکھنے کا درد کیا ہوتا ہے یہ آج اسے سمجھ آیا تھا۔۔
“محبت کی ایک ننھی کونپل نے لمحوں میں تناور درخت کا روپ دھاڑ لیا تھا۔۔ آگاہی کا وہ لمحہ اس چھوٹی سی لڑکی کو بڑی گہری چوٹ لگا گیا۔۔ وہ جلابیب سے محبت کرتی ہے۔۔
اسکے دل نے اقرار کیا ۔۔
مگر جلابیب۔۔
“تو کیوں پریشان ہو رہا ہے یار۔۔ میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں وہ میری نہیں ہیں۔۔ دل بھی مان جائیگا۔۔ مگر انھیں بھولنا میرے بس میں کہاں ہے اشعر۔ ۔
وہ برستی آنکھوں سے مسکرایا تھا۔۔
“خود رلاتا ہے اور پھر پوچھتا ہے پریشان کیوں ہو رہا ہے”۔۔
اشعر نے اسکے آنسوں صاف کئے۔۔ اسکی نظریں پیچھے کھڑی وشہ پر پڑی۔۔ اسکی طرف پشت ہونے کی وجہ سے وہ دیکھ نہیں سکا تھا۔۔
“وشہ گڑیا آؤ اندر۔۔ یوں باہر کیوں کھڑی ہو”۔۔
اسے چائے کی ٹرالی کے ساتھ گیٹ پر استداہ دیکھ کر اسنے کہا تھا۔۔
جلابیب نے بھی سر اٹھا کر اسکی جانب دیکھا۔۔ وہ یک ٹک اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ جلابیب نے نظریں پھیر لی۔۔
“وشہ”۔۔
اسے ٹس سے مس نا ہوتا دیکھ اشعر نے ایک بار پھر اسے پکارا۔۔
“جج جی اشعر بھائی۔۔ میں وہ چائے لائی تھی”۔۔
سرعت سے آنسوں صاف کرتی وہ آگے بڑھی۔۔
“بیٹھو۔۔ ہمارے ساتھ ہی چائے پی لو”۔۔
اسکی بات پر وہ خاموشی سے سامنے صوفے پر بیٹھ گئی۔۔
اشعر نے باغور اسکی جانب دیکھا۔۔ سفید کرتی اور بلیو ٹراؤز میں بلیو اسکارف شانوں پر پھیلائے ۔۔بالوں کی ٹیل پونی بنائے ۔۔ وہ اپنا چشمہ صاف کر رہی تھی۔۔
“تم کب سے کھڑی تھی وشہ”۔۔
اس نے چائے کا کپ جلابیب کی جانب بڑھاتے ہوئے سرسری انداز میں پوچھا۔۔
“مم میں ابھی ہی آئی تھی اشعر بھائی”۔۔
اس نے اٹک اٹک کر کہا۔۔
“ہممم۔۔
اسنے ہنکارا بھرا۔۔
“چائے تو ٹھنڈی ہو گئی ہے وشہ”۔۔
اشعر نے گہری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔ اسکی بےتحاشا سرخ ہوتی آنکھیں چشمے کے پیچھے سے بھی واضح تھیں۔۔
وہ جانتا تھا وہ انکی باتیں سن چکی ہے۔۔
“ٹھنڈی ہے۔۔ کک کیسے ٹھنڈی ہو گئی۔۔ میں دوسری بنا کر لے آتی ہوں”۔۔
اس نے گھبرا کر اشعر کی جانب دیکھا۔۔
“تم بیٹھو میں ویسے بھی خالہ بی کے پاس جا رہا ہوں”۔۔
اسے بیٹھے رہنے کا اشارہ کرتا وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔
اب کمرے میں صرف وہ دونوں تھے۔۔ اسنے نظریں اٹھا کر جلابیب کو دیکھا جو بغیر کچھ کہے سر جھکائے بیٹھا تھا جیسے وہاں موجود ہی نا ہو۔۔
“کیا بات ہے وشہ بہت خاموش ہیں آج آپ”۔۔
کافی دیر تک وہ کچھ نہیں بولی تو جلابیب نے سر اٹھایا۔۔ وہ ایسے شو کر رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔۔ اسکے ہونٹوں پر وہی نرم سی مسکراہٹ تھی۔۔
وشہ نے بھیگتی آنکھوں سے اس شخص کو دیکھا۔۔ کتنا درد اپنے اندر چھپا کر وہ مسکراتا تھا۔۔
“کبھی کبھی سارے الفاظ کہیں کھو جاتے ہیں جلابیب سر۔۔ دل چاہتا ہے کوئی ہو جو ان خاموشیوں میں چھپے لفظوں کو سن لے۔۔ کوئی ہو جسے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نا پڑے۔۔ بناء کچھ کہے بناء کچھ سنے ہی دل کے سارے درد سمیٹ لے”۔۔
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ نظریں پیچھے اسٹینڈ پر لگی پینٹنگ پر ٹکی تھیں۔۔ وہ بہت بکھری بکھری لگ رہی تھی۔۔جلابیب نے تاسف سے اسے دیکھا۔۔
“اس مسکراہٹ کو میں بہت اچھی طرح پہچانتا ہوں وشہ۔۔ اپنے دل کی تمام اذیتوں کو اللہ کے سامنے آنسوں کے ساتھ بہا دیں۔۔ آپ چاہتی ہیں نا کے کوئی ہو جو بغیر کہے آپ کی تکلیف جان جائے تو اللہ سے بڑھ کر کوئی ایسا نہیں جو یہ کر سکے۔۔ وہ ناصرف جان جاتا ہے بلکہ اس تکلیف کا مداوا بھی بہت اچھے انداز میں کرتا ہے وشہ۔۔
“خاموشیوں میں چھپا درد اللہ سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا”۔۔
وہ اپنے مخصوص انداز میں کہ رہا تھا۔۔ درد کا سمندر اندر چھپا کر مسکرانا کیسا ہوتا ہے یہ اس سے بہتر کون جان سکتا تھا۔۔اور وہ آنسوں بہاتے اسے سن رہی تھی۔۔ آنسوں تواتر سے اسکا چہرہ بھگوتے کارپیٹ پر گر رہے تھے۔۔
“جس راستے پر آپ جا رہی ہیں وہ کانٹوں سے بھرا ہے وشہ۔۔ اس میں تکلیف کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔۔ وقت رہتے اس سے کنارہ کر لیں وشہ”۔۔
اسکی بات پر اسنے جھٹکے سے سر اٹھایا۔۔ تو کیا وہ جان گیا تھا۔۔
“وقت ہی تو ہے جلابیب سر۔۔ جس راستے سے واپسی کی آپ بات کر رہے ہیں اس میں میں اتنے آگے آگئی ہوں کے واپسی ممکن ہی نہیں۔۔ مجھے تو صرف آپ کی مسکراہٹ اچھی لگتی تھی۔۔ مم مگر آپ کے آنسوں کیوں میرے دل پر گرنے لگے”۔۔
وہ اپنے ہاتھوں پر سر رکھے بری طرح روئی تھی۔۔
“میں نے نہیں چاہا تھا یہ۔۔ مم میں نہیں چاہتی تھی یہ مگر ہو گیا خود ہی ہو گیا جلابیب سر۔۔ میں میرے بس میں ہوتا تو میں روک لیتی خود کو مم مگر جب پتہ چلا تو ایسا لگتا ہے یہ یہ محبت رک گئی تو سانسیں بھی رک جائینگی”۔۔
وہ اسکے سامنے آ بیٹھی تھی۔۔
“یہ ممکن نہیں ہے وشہ”۔۔
وہ کہتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔
“میں مر جاؤنگی جلابیب۔۔ مم میری سانسیں رک جائینگی”۔۔
اسنے تڑپ کر کہا ۔۔
“محبت سب سے پہلے عزتِ نفس ختم کرتی ہے”۔۔
یہ بات آج اس پر پوری اتر رہی تھی۔۔
“کوئی نہیں مرتا وشہ۔۔ کسی کی سانس نہیں رکتی کسی کے بغیر”۔
وہ دھاڑا تھا۔۔ شاید اپنی زندگی میں پہلی بار۔۔
“یقین نہیں آتا نا تو مجھے دیکھ لیں۔۔ زندہ کھڑا ہوں نا آپ کے سامنے میں۔۔ ناچاہتے ہوئے بھی سانسسیں چل رہی ہیں میری۔۔ دل دھڑک رہا ہے ۔۔ کوئی نہیں مرتا کسی کے لئے”۔۔
عادت کے برخلاف اسکی آواز خاصی بلند تھی۔۔ آنکھوں سے گویا شرارے نکل رہے تھے۔۔ اس پر غصے بھری ایک نظر ڈالتا وہ دروازے کی جانب بڑھا۔۔
“مم میں سچ میں مر جاؤنگی جلابیب”۔۔
اسنے دونوں ہاتھوں سے اسکا ہاتھ تھاما تھا۔۔ جلابیب کو جیسے جھٹکا لگا تھا۔۔ غصے کی ایک لہر اسکے اندر دوڑ اٹھی ۔۔
اگلے ہی لمحے اسکا بھاری ہاتھ وشہ کے گال پر پڑا تھا۔۔
اسکا چشمہ دور جا گرا ۔۔
اسنے بےیقینی سے جلابیب کو دیکھا۔۔ جو خود بھی اپنے عمل پر حیران تھا۔۔ کیا کچھ نہیں تھا اسکی آنکھوں میں۔۔ وہ کرب سے مسکرائی۔۔
“وشہ میں۔۔
اسکے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ کمرے سے نکل گئی۔۔
وہ سر پکڑ کر بیٹھتا چلا گیا۔۔۔
یہ کیا کر گیا تھا وہ۔۔ اسنے بےیقینی سے اپنے ہاتھ کو دیکھا۔۔
“وہ تو بچی ہے میں ہی طریقے سے سمجھا دیتا اسے”۔۔
انگوٹھے پر خون کی بوند دیکھ کر اسکی شرمندگی میں مزید اضافہ ہوا۔۔
_________________
“بس آنی کی جان۔۔ آیئز کلوز کرو ورنہ سوپ چلا جائیگا اندر”۔۔
اسے باتھ ٹپ پر کھڑا کرتے اسنے شاور کھولتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
“مم ما بشش۔ ۔ مم ما نو”۔۔
دونوں ہاتھوں سے اسے روکتی وہ اس سے لپٹ کر اسے بھی بھیگا رہی تھی۔۔
“ہاہاہا فرشتے بس ہو گیا میری جان۔۔ فشے گڈ گرل ہے نا”
اسکی بات پر فرشتے نے زور زور سے سر ہلایا۔۔
اسکے اس طرح کرنے پر پانی کی بوندیں رابیل کے چہرے پر پڑی۔۔
وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی۔
“مم ما نو۔۔ نو”۔۔
“چلو آجاؤ۔۔ بس ہو گیا”۔۔
وہ ٹاول میں اسے لپیٹتی ڈوپٹہ شانوں پر برابر کرتی باہر نکلی۔۔
“آج کیا پہنے گی فشے”۔۔
اسے بیڈ پر لٹا کر وہ الماری کی جانب بڑھی۔۔
“مم ما۔۔ فشے۔۔
اسنے گود میں آنے کے لئے دونوں ہاتھ اٹھائے۔۔
“بس ایک منٹ میری جان۔۔
اسنے الماری میں منہ گھسائے کہا۔۔
“بابا کے پاس آجائیں۔۔ بابا کی جان۔۔ آنی بزی ہیں نا”۔۔
اس نے کن انکھیوں سے رابیل کو دیکھتے ہوئے “آنی” پر خاصہ زور دیتے کہا۔۔ ساتھ ہی اسکے پھولے پھولے گالوں پر پیار کیا۔۔
“اسے کپڑے پہنا دوں”۔۔
رابیل نے جھجھکتے ہوئے کہا۔۔
“ہممم یہ لو”
اسنے اسکے وجود سے نظریں چرائی۔۔
مہرون اور سفید رنگ کے امتیزاج سادے سے کپڑوں میں بھی وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔ وہ پہلی بار اسے اس طرح دیکھ رہا تھا۔۔ شادی کے بعد بھی وہ سر سے ڈوپٹہ بہت کم ہی اتارتی تھی۔۔ انصر نے اسے جب بھی دیکھا تھا اسکا ڈوپٹہ نماز کے سٹائل میں چہرے کے گرد لپٹا ہی دیکھا تھا۔۔ وہ مگن سی فرشتے کو تیار کر رہی تھی۔۔
“تمہارے بال بہت خوبصورت ہیں”۔۔
بےاختیار اسکے لب ہلے۔۔
رابیل نے حیران نظروں سے اسکی جانب دیکھا۔۔
“ایک تو منہ کیوں کھول لیتی ہو تم ہر بات پر”۔۔
وہ اسکے اس طرح حیران ہونے پر چڑ ہی تو گیا تھا۔۔
“جج جی”۔۔
وہ اب بھی ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھ رہی تھی۔۔
“شکریہ۔۔ تھینک یو۔۔ جیسے الفاظ ہوتے ہیں۔۔ ایسے ہی موقعوں پر استعمال کرتے ہیں نا غالباً”۔۔
اسکی گھبراہٹ انجوئے کرتا وہ بہت صفائی سے اپنی مسکراہٹ دبا گیا۔۔
“جی”۔۔
اسنے صرف جی کہنے پر ہی اکتفاء کیا۔۔
“اب کیا جی شکریہ کہو مجھے۔۔ تعریف کی ہے تمہاری میں نے تو سنا تھا بیویاں تو ایسے موقعوں پر شرماتی ہیں”۔
فرشتے کو اپنے سینے پر بیٹھاتے اسنے مسکراہٹ دبائی۔ ۔
“جی”۔۔
حیرت سے اسکی آنکھیں مزید پھٹی تھیں۔۔ وہ آج اسے جھٹکے پر جھٹکا دئے جا رہا تھا۔۔
“تم نہیں کہوگی شکریہ۔۔ چلو پھر کبھی صحیح۔۔
اسے مزید پریشان کرنے کا ارادہ ملتوی کرتے وہ کھل کر مسکرایا ۔۔
“رابیل”۔۔
اس نے ایک بار پھر اسے پکارا۔۔
“جی۔۔
اب کی بار وہ اپنا قہقہا نہیں روک سکا۔۔
وہ خود بھی ہنس پڑی تھی۔۔ اسے ہنستا دیکھ فرشتے بھی زور سے ہنسی ۔۔ انصر نے حیرت سے اسے دیکھا جو اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو اٹھائے ہنس رہی تھی۔۔
“آپ کچھ کہ رہے تھے”۔۔
فرشتے کو اسکی گود سے لے کر اس نے کہا۔۔
“ہاں میں پوچھنا چاہ رہا تھا تم ڈنر تیار کر لوگی آج۔۔ ایکچولی میرا فرینڈ کافی دنوں بعد پاکستان آیا ہے۔۔ کال آئی تھی۔۔ اپنی سسٹر کے ساتھ آنا چاہ رہا ہے۔۔ اگر تم رات میں تھوڑا احتمام کر لیتی تو”۔
“پلیز جی نہیں کہنا”۔۔
اسے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولتے دیکھ اس نے شرارت سے کہا۔۔
“بلکل آپ ٹائمنگ بتا دیں مجھے۔۔ میں اس حساب سے سب ارینج کر لونگی”۔۔
وہ مسکرائی تھی۔۔
“دس تو بج جائینگے انھیں۔۔ تم تیاری سٹارٹ کر دو۔۔۔ اور جب تک فرشتے بابا کے ساتھ کھیلی گی۔۔ کیوں فشے”۔۔
اسے نرم لہجے میں جواب دے کر اس نے رابیل کے انداز میں فرشتے کو پکارا۔۔
حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے اسے دیکھتی اس نے فرشتے کو اسکے حوالے کیا تھا۔۔
“آجاؤ بابا کی جان ہم بہت ساری باتیں کرینگے”۔۔
اسکی گود سے فرشتے کو لیتا وہ کمرے سے نکلا۔۔ پیچھے وہ کتنے ہی دیر تک بیڈ پر بیٹھی۔۔ اسکی کہی باتوں پر غور کرتی رہی تھی۔۔
“تمہارے بال بہت خوبصورت ہیں”۔۔
اسکے ہاتھ بےاختیار اپنے بالوں پر گئے۔۔
“بیویاں ایسے موقعوں پر شرماتی ہیں”۔۔
تو انصر حدید نے تسلیم کر ہی لیا تھا کے وہ اسکی بیوی ہے۔۔
اسنے اپنے سرخ ہوتے گال ہاتھوں میں چھپائے۔ ۔
_________________
“تیری شانِ تغافل پر
میری بربادیاں صدقے۔۔!!
“کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرتی وہ اسکے ساتھ ہی بیٹھتی چلی گئی تھی۔۔ اسکے لب اب بھی مسکرا رہے تھے۔۔ آنسوں تواتر سے اسکے گال بھگو رہے تھے۔۔
“جس راستے پر آپ چل پڑی ہیں وہ کانٹوں سے بھرا ہے۔۔ وقت رہتے ہی اس سے کنارہ کر لیں وشہ”۔۔
اسکی آواز اسکے کانوں میں گونجی تھی۔۔
آنسوں میں مزید روانی آئی تھی۔۔
“یہ ممکن نہیں ہے وشہ”۔۔
چشمہ نہیں ہونے کی وجہ سے اسکی آنکھیں دھندلا رہی تھی۔۔
“کوئی نہیں مرتا کسی کے بغیر وشہ میں زندہ کھڑا ہوں نا آپ کے سامنے”۔۔
“مم میں زندہ نہیں رہ سکتی میں مر جاؤنگی آ آپ کے بغیر جلابیب”۔۔
اس پر ایک جنونی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔۔
وہ ادھر ادھر کمرے میں میں کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔۔ چشمہ نہیں ہونے کی وجہ سے نظریں دھندلا رہی تھیں۔۔ ہاتھ کی پشت سے اپنے گالوں کو بیدردی سے رگڑتی۔۔ وہ سائیڈ ٹیبل کی جانب بڑھی۔۔
چُھری ہاتھ میں اٹھاتی وہ کرب سے مسکرائ۔۔۔
“کوئی کسی کے بغیر نہیں مرتا وشہ کسی کی سانسیں نہیں رکتی”
اسکے کانوں میں مسلسل جلابیب کے کہے الفاظ گونج رہے تھے۔۔
“مم میں مر سکتی ہوں آپ کے بغیر۔۔ وشہ کی سانسیں آپ کے بغیر نہیں چل سکتی جلابیب”۔۔
اسنے بیدردی سے چُھری اپنی کلائی پر پھیری۔۔ خون کا فوارہ نکلا تھا۔۔
“میں مر سکتی ہوں”۔۔
خون تیزی سے اسکے ہاتھ سے بہ رہا تھا۔۔ وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔۔ ہونٹوں پر اب بھی مسکراہٹ تھی۔۔
_____________
!!”یہ بارشیں بھی تم سی ہیں۔۔
کبھی برس گئیں تو بہار ہیں۔۔
جو ٹھہر گئیں تو قرار ہیں۔۔
کبھی آگئیں یونہی بےسبب۔۔
کبھی چھا گئیں یونہی روز و شب۔۔
کبھی شور ہے۔۔ کبھی چپ سی ہیں۔۔
کسی رات میں کسی یاد کو۔۔
ایک دبی ہوئی سی راکھ کو۔۔
کبھی یوں ہوا کے جلا دیا۔۔
کبھی خود سے خود کو بجھا دیا۔۔
کبھی بوند بوند میں گم سی ہیں۔۔
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں”!!
وہ گلاس دوڑ سے باہر دیکھ رہا تھا۔۔ باہر بارش بہت تیز ہو رہی تھی۔۔
ایسی ہی ایک بارش تو اسکے اندر بھی ہو رہی تھی۔۔ دو آنسوں اسکی آنکھوں سے نکل کر کارپیٹ میں جذب ہوئے تھے۔۔
“جلابیب کیا ہوا یار”۔۔
اشعر نے اسے یوں کھڑے دیکھ کر کہا تھا۔۔ وہ اسے خدا حافظ کہنے آیا تھا۔۔ اسے اس طرح دیکھتے اس نے فکر مندی سے کہا۔۔
“جانتا ہے جب میں نے انھیں پہلی دفع دیکھا تھا نا مجھے وہ اچھی لگی تھیں۔۔ بہت اچھی۔۔ مگر پھر جب میں ان سے ملنے لگا انسے باتیں کرنے لگا مجھے ان سے محبت ہو گئی۔۔ مجھے انکی آنکھوں سے عشق ہو گیا تھا۔۔ مگر جب جب وہ مجھ سے جدا ہوئیں نا مجھے ان سے عقیدت ہو گئی ہے اشعر۔۔ رابیل کی محبت نے ہی تو مجھے اللہ کی محبت سے متعارف کرویا ہے۔۔ مجھے ان سے محبت نہیں ہے۔۔ “میں رابیل حدید کو عقیدت کی حد تک چاہتا ہوں اشعر”۔۔
وہ گلاس دوڑ سے باہر بارش کی گرتی بوندوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔ اسکی آنکھیں بھی ساتھ برس رہی تھیں۔ مگر لب مسکرا رہے تھے۔
“اور لاحاصل کو سوچ کر مسکرا دینا بھی تو عشق ہے”۔۔
اشعر نے نم آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا۔۔
“جانتا ہے اشعر
“عشق وہ واحد گناہ ہے جو عبادت میں ڈال دیتا ہے”
اشعر نے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا۔۔
اسکے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔۔
“تو وشہ سے شادی کر لے نا جلابیب”۔۔
جلابیب جھٹکے سے اس سے دور ہوا تھا۔۔
“تو جانتا بھی ہے کیا کہ رہا ہے۔۔
“تو اچھی طرح جانتا ہے میں کیا کہ رہا ہوں۔۔ اچھی ہے۔۔ خوبصورت ہے۔۔ سب سے بڑھ کر تجھ سے محبت کرتی ہے جلابیب”۔۔
“محبت نہیں پاگل پن ہے۔۔ دیوانگی ہے اس لڑکی میں۔۔ اور جب محبت کا خمار اترے گا تو پچھتائے گی۔۔ وہ تو بچی ہے اشعر لیکن تجھ سے مجھے اس احمقانہ بات کی امید ہرگز نہیں تھی۔۔ تو اچھی طرح جانتا ہے وہ جس عمر میں ہے اس عمر میں بچے اسی طرح کے ہوتے ہیں ہر چھوٹی بڑی فیلنگ کو محبت سے ریلیٹ کرتے ہیں۔۔ تھوڑے دن میں محبت کا بھوت سر سے اترے گا تو خود بھی شکر ادا کریگی”۔۔
اس نے جھنجھلا کر کہا تھا۔۔ دل میں کہیں انجانہ سا خوف بھی تھا۔۔
“اسکی آنکھوں میں دیکھا ہوتا تو یہ نہیں کہتا۔۔ اپنی کہانی ایک بار پھر نہیں دوہرا جلابیب”۔۔
“جلابیب بیٹا۔۔ جلابیب دروازہ کھولو بیٹا”۔۔
خالہ بی کی آواز پر بات ادھوری ہی چھوڑ کر وہ دونوں دروازے کی جانب بڑھے۔۔
“کیا بات ہے خالہ بی خیر تو ہے”۔۔
سرعت سے دروازہ کھولتے اسنے فکر مندی سے کہا تھا۔۔
“وشہ میری بچی جلابیب۔۔ دروازہ نہیں کھول رہی۔۔ کھانے پر بھی نہیں آئی۔۔ میں کھانا لیکر گئی مگر دروازہ اندر سے بینڈ ہے بیٹا”۔۔
انکی بات مکمّل ہونے سے پہلے ہی وہ اسکے کمرے کی جانب بڑھا تھا۔۔
“خالہ بی دوسری چابی تو ہوگی نا کمرے کی وہ کہاں ہے”۔۔
اشعر نے حاضر دماغی سے کام لیتے ڈوبلیکیٹ کی کی بابت دریافت کیا۔۔
“وشہ بچپنا چھوڑیں پلیز دروازہ کھولیں۔۔ دیکھیں خالہ بی کتنی پریشان ہو رہی ہیں”۔۔
اسنے دروازہ پیٹا۔۔
اشعر نے چابی اسکی جانب بڑھایا۔۔
کسی انجانے خوف کے تحت اسکے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔
اشعر نے اسکے ہاتھ سے چابی لیکر دروازہ کھولا۔۔
وہ نیچے کارپیٹ پر بےہوش پڑی تھی۔۔
جلابیب سرعت سے اسکی جانب بڑھا۔۔
اسکا سر اپنے گود میں رکھتے وہ چونک اٹھا تھا۔۔ اسکے چہرے پڑ خون کی بوندیں دیکھ کر وہ سب کچھ سمجھ گیا تھا۔۔
“اس نے سوسائیڈ اٹیمپ کیا ہے مگر کیوں”۔۔
اشعر نے اسکے ہاتھ کی جانب دیکھا اسکی کلائی سے خون اب بھی بہت تیزی سے بہ رہا تھا۔۔
“وشہ۔۔
کسی مانوس سی پکار پڑ اس نے آنکھیں کھولی۔۔
جلابیب کا چہرہ دیکھ کر وہ مسکرائی تھی۔۔
“میں نے کہا تھا نا میں مر جاؤنگی۔۔ وشہ آپ کے بغیر مر جائیگی” ۔۔
اسکے لبوں پڑ فاتحانہ مسکراہٹ تھی جیسے کہ رہی ہو آپ سب کچھ نہیں جانتے جلابیب۔۔
اسکی سرگوشی اشعر نے بھی سنی تھی۔۔ اس کیوں کا جواب اسے مل گیا تھا۔۔
“تو نے اسکی آنکھوں میں دیوانگی تو دیکھ لی جلابیب ۔ پھر یہ کیوں نہیں سوچا کے دیوانگی کی انتہاء کیا ہوتی ہے”
میں ہسپتال لے کر جا رہا ہوں اسے”۔۔
وشہ نے سختی سے اسکی انگلی تھام رکھی تھی۔۔ ایک جھٹکے سے اسکا ہاتھ اس سے جدا ہوا۔۔
اشعر وشہ کو اٹھاتا سیڑھیوں کی جانب بڑھا تھا۔۔
اس نے بےیقینی سے اپنا خالی ہاتھ دیکھا۔۔
“وہ وہ ٹھیک ہو جائیگی خالہ بی”۔۔
اسنے خالہ بی کی جانب دیکھا جو ساکت سی دروازے پڑ ہی کھڑی تھیں۔۔
“یہ کیا کر دیا وشہ نے جلابیب”۔۔
انہوں نے بامشکل کہا۔۔
“کچھ نہیں ہوگا اسے “۔۔
اس نے انسے زیادہ خود کو تسلی دی۔۔
__________
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...