(Last Updated On: )
مبشر سعید
موسمِ وصل کا امکان ہُوا کرتے تھے
ہم تری آنکھ مِیں مہمان ہُوا کرتے تھے
زندگی غار کی وحشت مِیں بتانے والے
روشنی دیکھ کے حیران ہُوا کرتے تھے
موسمِ عشق دھمالوں مِیں بدل جاتا تھا
ہم ترے دھیان مِیں بے دھیان ہُوا کرتے تھے
آج جس دوست نے دُھتکار دیا ہے ہم کو
ہم اُسی دوست پہ قربان ہُوا کرتے تھے
ہم نے اُس وقت تجھے زندگی مانا تھاکہ جب
ہر طرف موت کے امکان ہُوا کرتے تھے
اب جہاں لوگ خُداؤں سے بنے بیٹھے ہیں
ہم وہاں صورتِ انسان ہُوا کرتے تھے
آج جن کو مری قربت کی ضرورت ہے سعیدؔ
وہ مرے عشق سے انجان ہُوا کرتے تھی