(Last Updated On: )
موسمِ گل کے دور میں نالے یہ تھے ہزار کے
ہم ہیں اسیرِ باغباں، کیسے مزے بہار کے
ان کی اذیتوں کو میں سب سے چھپا تو لوں مگر
ان آنسوؤں کو کیا کروں، کب ہیں یہ اختیار کے
لطف و کرم کی آس رکھ، ظلم و ستم اگر سہے
صحنِ چمن میں گل بھی ہیں، پہلو بہ پہلو خار کے
رندوں کی بادہ نوشیاں، پیتے ہیں اس طرح سے کچھ
جیسے کہ اب نہ لوٹ کر آئیں گے دن بہار کے
حد سے گزر چلے ہیں وہ، جاں سے گزر چلا ہوں میں
پہلو نکل ہی آئے ہیں جبر سے اختیار کے
رعبِ جمال ان کا ہو مانعِ دید جب نظرؔ
کس طرح مستفیض ہوں جلووں سے روئے یار کے
٭٭٭