موراوا کے عوامی گیت انتہائی قدیم ہیں۔ بت پرستوں کے عہد سے ان کا رشتہ جڑا ہے۔ موراویائی عوامی موسیقی اور کلچر جستہ جستہ سمجھ میں آتا ہے۔ بالکل ایسا ہے جیسے الف لیلوی رقاصہ جو نقاب پوش ہے اور رقص کے دوران ایک ایک کرکے اپنے نقاب اتارتی جارہی ہے۔
۱۔ دیکھیے، پہلا نقاب اُترا۔ یہ گیت پچھلے پچاس، ساٹھ، ستر سال سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ مغرب سے ہم تک پہنچے ہیں۔ ’بوہیمیا کے بریس بینڈ‘ (Bohemias Brass Bands)۔ یہ موسیقی ہمارے بچوں نے اپنے اساتذہ سے سیکھی ہے۔ اگرچہ قدرے دیسی رنگ کا امتزاج ضرور ہے، لیکن یہ موسیقی مغربی یورپ کی عوامی موسیقی ہے۔
۲۔ لیجیے، دوسرا نقاب اترتا ہے۔ یہ زیادہ رنگین ہے۔ یہ موسیقی ہنگری اساس عوامی موسیقی ہے۔ میگیار زبان (Magyar Language) ان گیتوں میں نفوذ کرچکی ہے۔ اس کو خانہ بدوشوں نے چاروں اُور پھیلایا۔ انیس ویں صدی سے اس عوامی موسیقی کا تعلق ہے۔
۳۔ تیسرا نقاب اترا تو معلوم ہوا کہ یہ نقاب در نقاب ہے۔ تہ در تہ۔ اس عوامی موسیقی کا تعلق سلاف (Slav) آبادی سے ہے اور سترھویں اور اٹھارھویں صدیوں کے عہد سے وابستہ ہے۔
۴۔ چوتھا نقاب مزید خوب صورت ہے اور زیادہ قدیم بھی۔ چودھویں صدی عیسوی کے سلواکیا سے اس عوامی موسیقی کا تعلق ہے۔
۵۔ اس نقاب کے بعد کوئی نقاب نہیں۔ رقاصہ بالکل برہنہ اپنا رقص جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ قدیم موسیقی اور گیت ہیں۔ بت پرستوں کے عہد کے۔ اس موسیقی کی اساس بہت پرانی ہے۔ اس کو موسیقی کے ’فور ٹون ٹٹرا کورڈل سسٹم (Four-Tone Tetra Chordal System) کا نام دیا گیا۔ قدیمی تہذیب اور کلچر کے رسوم و رواج سے مربوط۔ فصل کے بونے اور کاٹنے سے جڑے گیت۔
جب قدیم کلاسیکی عوامی موسیقی کی بات کی جاتی ہے تو یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ رسوم، رواج اور روایتوں سے ہم رشتہ موسیقی کی اساس ایک سی ہے۔ وہی ٹٹرا کورڈل۔ یونانی (Greek)، لئی ڈین (Lydian) فری جین (Phrygian) اور ڈورین (Dorian) ٹیٹرا کورڈس۔
اس رات جارو سلاف، لڈوک کے ساتھ رات کا کھاتے ہوئے اپنے بیٹے لادیمیر کے بارے میں سوچنے لگا کہ وہ اس کے لیے کس قدر اہمیت رکھتا ہے، لیکن اس نے توجہ نہیں دی۔ اس کی طرف سے غافل ہوا۔ اس کو اپنی دنیا میں لانے میں ناکام ہوگیا۔
کھانے کے بعد لاسٹا کچن میں رکی رہی۔ جارو سلاف لادیمیر کے ساتھ لونگ روم میں گیا۔ اس سے عوامی گیتوں (Folk Gongs) پر بات کرنے کی کوشش کی۔ اس نے توجہ نہیں دی۔ جارو سلاف نے کسی اسکول ماسٹر کا رویہ اپنایا ہوا تھا اور اسے بور کررہا تھا۔ وہ بیٹھا رہا اور ایسا بن گیا جیسے وہ واقعی سن رہا ہو۔ وہ ہمیشہ سے ایک اچھا لڑکا رہا تھا، لیکن یہ جاننا مشکل تھا کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔ جارو سلاف اس کو دیر تک اپنے کلچر سے اذیت دیتا رہا پھر لاسٹا نے کمرے کے اندر جھانک کر کہا کہ سونے کا وقت ہوگیا ہے۔ وہ کیا کرسکتا تھا؟ وہ گھر کا دل اور روح، کیلنڈر اور کلاک تھی۔
ان میں کوئی بحث نہ ِچھڑی، ’’بستر پر چلتے ہیں۔ میرے بچے شب بخیر۔‘‘ جارو سلاف نے لادیمیر کو ہارمونیم کے ساتھ کمرے میں چھوڑا اور خود اپنے کمرے میں جانے کے بجائے باغ میں پڑی بنچ پر بیٹھا اس گرم رات میں دیہات کی خوش بوؤں کی آغوش میں چلا گیا۔
’’ڈیم دیٹ لڈوک۔ وہ آج ہی کیوں آگیا؟‘‘ مجھے ڈر ہے کہ اس کا آنا بدشگونی نہ ہو۔ میرا سب سے پرانا یار۔ یہی وہ جگہ ہے، اسی پیڑ کے نیچے ہم بیٹھا کرتے تھے، جب لڑکے تھے۔ میں ابتدا ہی سے اسے پسند کرنے لگا تھا۔ جب ہم ایک اسکول میں داخل ہوئے۔ وہ اپنی چھوٹی انگلی میں اتنا دماغ رکھتا تھا جتنا ہم دونوں کا ملا کر ہوگا، لیکن وہ کبھی اس پر اتراتا نہ تھا۔ وہ نہ تو اسکول کو اہمیت دیتا اور نہ ہی اساتذہ کو۔ اس کو اسکول کے قوانین کے خلاف کچھ کرنے میں مزہ آتا تھا۔
’’ہم (لڈوک اور جاروسلاف) دونوں اتنے قریبی دوست کیسے بن گئے؟ قسمت— یہی لگتا ہے۔‘‘ دونوں نصف یتیم تھے۔ جار سلاف کی ماں ولادت کے دوران فوت ہوگئی تھی۔ لڈوک جب تیرہ برس کا تھا اس کے مزدور باپ کو کنسن ٹریشن کیمپ (concentration camp) لے گئے۔ وہ پھر کبھی دکھائی نہیں دیا۔
لڈوک کا ایک بھائی تھا، وہ بھی فوت ہوگیا تھا۔ لڈوک اور ماں کے لیے تنگی کے حالات تھے۔ لڈوک کی ایک بہن کسی امیر بلڈر سے بیاہی تھی۔ مزدور باپ سے وہ الگ ہوگئی تھی۔ وہ ان کی مدد کرنے لگی اور لڈوک اسکول چھوڑنے سے بچ گیا۔
لڈوک کی بہن میڈم کوٹکی کی ساری فیاضی صرف اور صرف لڈوک کے لیے تھی۔ لڈوک کی ماں سے وہ خفا رہی۔ وہ لڈوک کو اپنا خون مانتی تھی اور بیٹا بنانا چاہتی تھی۔
لڈوک، جارو سلاف سے گھل مل گیا تھا۔ وہ والد کی لائبریری کی کتابیں پڑھتا۔ اس نے ایک سستا کلاری نٹ خرید لیا تھا۔ دونوں جاز بینڈ میں ایک ساتھ ہوتے۔
جنگ ختم ہونے جارہی تھی، کوٹکی کی بیٹی بیاہی گئی۔ دلھن کے لیے پانچ برائڈ میڈ کے جوڑے رکھے جو دولھا اور دلھن کے پیچھے ہوں۔ لڈوک کو ایک بچی کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ لڈوک نے اس میں اپنی تذلیل سمجھی۔ وہ اس دوران گرجا کا باغی ہوگیا۔ اسکول اور سارا ماحول کیتھولک تھا۔ ۱۹۴۷ء میں اسکول پاس کرلیا۔ اسی خزاں میں یونی ورسٹی میں داخل ہوئے۔ لڈوک پراگ میں جاروسلاف برنو میں۔ دونوں ایک برس تک نہیں ملے۔
۱۹۴۸ء کی گرما کی چھٹیوں میں وہ گھر آیا۔ دونوں میں رات بھر بحث رہی۔ کمیونسٹ پارٹی نے موسیقی کے لیے کافی رقم مختص کی تھی۔ بہرحال جاروسلاف نے پارٹی میں شمولیت کرلی، ۴۹ء کے آغاز میں ہم سب ساتھیوں نے۔ سب موسیقی کے دل دادوں نے۔
سال ۴۹/۱۹۴۸ء تھا۔ ہر چیز الٹ پلٹ تھی۔ لڈوک گرمیوں میں گھر آیا تھا۔ ہمارے لیے فروری کا کمیونسٹ حکومت کا قیام اور حکمرانی ظلم و جبر کا دور تھا۔ لڈوک کلاری نٹ بدست تھا، لیکن اس نے اس کو چھیڑا نہیں۔ ہم ساری رات بحث مباحثہ کرتے رہے۔ اس نے سیاست کے موضوع سے گریز کیا اور ہمارے گروپ کا ہم خیال بن گیا۔ اس نے کہا، ہمیں گم شدہ کی بازیافت میں نہیں لگے رہنا چاہیے ورنہ ہمارا انجام لاٹس کی وائف٭ کی مانند ہوسکتا ہے۔ لاٹس کی وائف کا ذکر بائبل میں جینیسس-۱۹ (Genesis-19) میں ملتا ہے۔ وہ نمک کے ستون میں بدل گئی تھی اس سبب سے کہ اس نے سوڈوم (Sodom) کے عقب کی بات کی تھی۔
جب ہم سب چلائے، ’’پھر ہمیں کیا کرنا ہوگا؟‘‘ لڈوک بولا، ’’فوک آرٹ (عوامی آرٹ) کے ورثے کی حفاظت کرنا۔‘‘ اس نے آگے بڑھ کر یہ مؤقف اختیار کیا کہ موجودہ عوامی آرٹ بورژوائی اثرات کے تحت بے جان کلشے میں بدل گیا ہے۔ ساتھ میں موسیقی کا پورا کلچر ہمیں جدید خطوط پر استوار کرنا پڑے گا۔ حیرانی کی بات تھی کہ لڈوک موراوی وطن پرست، قدامت پرستوں کے نظریات دہرانے لگا تھا۔
البتہ اس کا دوسرا خیال کچھ وزن رکھتا تھا۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ جاز، افریقی فوک (عوامی) موسیقی سے نکلا اور پوری مغربی موسیقی پر چھا گیا۔ یہ اور بات کہ دھیرے دھیرے وہ کمرشل کموڈٹی میں بدل گیا۔ بہرحال یہ تو ثابت ہوگیا کہ عوامی موسیقی میں کتنا دم خم ہے، بشرطے کہ اس پر کام کیا جائے۔ جاز کے عہد میں یا جاز سے ایک دو دہائی پہلے یورپ کی کلاسیکی موسیقی میں ہماری فوک موسیقی رچنا شروع ہوگئی تھی۔ بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جاز نے اسٹراونسکی (Stravinsky)، ہونیگر (Honegger)، ملحاؤ (Milhaud) کو متأثر کیا۔ مرکزی یورپ میں جناسک (Janacek) اور بارٹووکی (Bartoki) کی مثال دی جاسکتی ہے۔ بیس ویں صدی تک جاز اور فوک موسیقی متوازی چلتی رہی۔ جاز کی موسیقی دس صدیوں کی عوامی/ فوک موسیقی کی ایسی صورت ہے جو مسلسل تبدیلیوں سے گزری۔ اسی طرح ہماری عوامی/ فوک موسیقی بھی تبدیلیوں سے گزرتی چلی آرہی ہے۔ یہ کام دیہات کے فوک موسیقار مسلسل انجام دے رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جاز میں ترقی اور تبدیلی کا عمل تیز ہوا۔ ہماری فوک موسیقی یوں سمجھنا چاہیے حسنِ خوابیدہ ہے۔ اس کو بیدار کرنا ہوگا۔ لڈوک نے پھر یہ اصرار سے کہا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت فوک آرٹ اور موسیقی زوال پذیر ہوئی۔ سوشلزم کے تحت اس میں نئی روح پھونکی گئی۔ کمیونسٹ حکومت نے فوک موسیقی کے لیے فنڈ مختص کیے۔ یہ اقدام فوک موسیقی کی ترقی کا امین ہے۔ بہرحال اس نقطۂ نظر سے ہمارا سارا گروپ متأثر ہوا اور نتیجے کے طور پر ۱۹۴۹ء کے آغاز کے ساتھ ہی ہم سب پارٹی کے رکن ہوگئے۔
لڈوک اور میرے درمیان فاصلے، میری شادی کے بعد پیدا ہوئے۔ میں برنو میں یونی ورسٹی کے تیسرے سال میں موسیقی کا طالبِ علم تھا۔ والد کی صحت گرنے لگی۔ ان کو اسٹروک ہوا، بچ گئے، لیکن اب ان کو دیکھ بھال کی ضرورت تھی۔ گھر میں ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا۔ ہر سنیچر کو میں گھر بھاگ آتا اور ہر پیر برنو جاتا۔ اس تمام دوران میں پریشان رہتا۔ بالآخر میں نے برنو یونی ورسٹی چھوڑ دی۔ وہاں کی رہائش بھی ختم کردی۔ میرے والد بے حد دل برداشتہ ہوئے۔ میں نے ان کا دل رکھنے کے لیے ان سے جھوٹ بولا کہ میں نے ان کی خاطر یونی ورسٹی نہیں چھوڑی، بلکہ میرے مارکس کم آئے اور مجھے یونی ورسٹی سے نکال دیا گیا۔ اس پر وہ مزید اُداس ہوگئے۔ میں خالی نہیں بیٹھا۔ موسیقی کے گروپ (Ensemble) میں فڈل بجاتاتھا اور مقامی موسیقی کے اسکول میں وائلن ٹیچر کی ملازمت حاصل کرلی تھی۔ زندگی خوشیوں میں بسر ہورہی تھی۔ ان خوشیوں میں ایک عزیز ترین دوست ولاسٹا کا ساتھ تھا جو پڑوس کے گاؤں میں رہتی تھی۔ وہ ہمارے گروپ میں رقص کرتی تھی۔ اس کی اور میری پہچان برنو میں دورانِ تعلیم ہوئی تھی۔ ایک دن رقص میں اس نے ایسے قدم لیے کہ اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ میں اسے گود میں لے کر ایمبولینس تک گیا اور اسی دوران اس سے محبت کرنے لگا۔ میں نے اُس کے دبلے پتلے نازک وجود کو محسوس کیا، کیوںکہ میں چھہ فٹ دو انچ لمبا اور دو سو پاؤنڈ سے زیادہ بھاری بدن کا تھا۔ یہ بھی اسی دن مجھے دریافت ہوا۔ لاسٹا، عوامی گیتوں کی ’’غریب آدمی کی بیٹی‘‘ میرے ذہن میں بس گئی۔ اگرچہ اس کے والد ایسے غریب نہ تھے۔ یہ میری عادت تھی کہ سچائی میں تھوڑا بہت خواب ملا جلا دیتا۔ عین اسی طرح میں نے گانے کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ مجھے یوں لگتا کہ میں گیت نہیں گارہا، بلکہ گیت مجھے گا رہے ہیں۔ اپنی شادی کو بھی میں نے وقت کی ایک خواب ناک موج پر ڈال دیا۔
شادی سے دو دن پہلے غیر متوقع طور پر لڈوک آگیا۔ میں نے شادی میں اس کو ’’بیسٹ فرینڈ‘‘ کا پارٹ انجام دینے کے لیے کہا۔ اس نے وعدہ کرلیا اور اسے پورا کیا۔
میرے موسیقی کے گروپ کے دوستوں نے میری شادی کو خالص موراوی (Moravian) شادی میں بدل دیا۔ روایتی رسوم، لباس، عوامی موسیقی اور رقص کے ساتھ۔
لاسٹا لڈوک کو پسند نہیں کرتی تھی۔ میں نے شادی میں اس کو اپنا ’’بیسٹ فرینڈ‘‘ اور گواہ بنایا۔ یہ بھی اس کو نہیں بھایا۔ لڈوک ایک دن جس طرح سب سے بچتا پھرا، لاسٹا نے محسوس کیا اور مجھ سے اس کا شکوہ کیا۔ اس کے دوسرے ہی دن وہ لاسٹا کے لیے ایک تحفہ لایا۔ میں نے جب اس سے بات کی تو معلوم ہوا کہ اسے پارٹی اور یونی ورسٹی سے نکال دیا گیا۔ موسیقی کا ہمارا گروپ دو ہفتے بعد باہر ٹور پر جارہا تھا۔ لڈوک نے اس موضوع پر بات کی وہ ساتھ جانا چاہتا تھا، لیکن اس کو جانے نہ دیا جاتا، کیوںکہ جن پر کوئی الزام لگ جاتا ان کے باہر جانے پر پابندی عائد کردی جاتی تھی۔
ہمارے درمیان حائل ہونے والی خلیج گہری ہوتی جارہی تھی۔ لڈوک نے اپنی خدمات کسی لیبر بریگیڈ کے لیے پیش کردی تھیں۔ وہ جلد ہی چلا گیا۔ میں اپنے گروپ کے ساتھ دنیا دیکھنے نکل پڑا۔ میں نے اسے برسوں کے بعد دوبارہ دیکھا۔ ہم میں کبھی کبھار خطوط کا تبادلہ ہوا۔ وہ زوال آمادہ تھا اور میں اونچا جارہا تھا۔ میں لوگوں سے دوری ہونے پر جس طرح لاتعلق ہونے لگتا ہوں اس پر اندر ہی اندر مجرم محسوس کرنے لگتا ہوں۔ لڈوک کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہورہا تھا۔ ایک دن والد صاحب نے لڈوک کی والدہ کی وفات کی اطلاع مجھے بھجوائی۔ اطلاع لڈوک کی جانب سے نہیں، بلکہ کوٹکی کی طرف سے تھی۔ کوٹکی خاندان کی املاک حکومت نے ضبط کرلی تھی۔ وہ امیر نہیں رہے۔ انھیں لڈوک کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کہیں قید میں تھا۔ برسوں بعد جب وہ اس علاقے میں آیا (وہ فوج میں ملازمت ’جیل‘ اور کئی برس کانوں میں مشقت کے بعد پولیس کے کچھ معاملات طے کرنے آیا تھا)۔ ایک بار پھر وہ پراگ میں اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ جب میں نے لاسٹا سے لڈوک کے آنے کی بات کی تو اس نے لاتعلقی اور عدم توجہ کا برتاؤ کیا۔
میری اور لڈوک کی بات چیت عوامی گیتوں پر ہوتی رہی۔ ان گیتوں پر بھی ہوئی جو ہم نے جدید موضوعات پر بنائے تھے۔ اس نے پہلے گفتگو ٹالی، لیکن میں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تو پھر وہ کچھ کھلا اور اس نے ہمارے گیتوں کو آورد اور نقلی بتایا۔ بات اور آگے بڑھی تو اس نے فیوکک (جس کو ہم ایک عظیم ہیرو اور بڑا شہید مانتے ہیں) کو تنقید کا نشانہ بنایا اور میں نے اس کو اپنے اصولوں سے یکسر انحراف کرتے ہوئے محسوس کیا۔ اور تو اور اس نے فیوکک کی کتاب ’’نوٹس فرام دی گیلوز‘‘ (Notes From the Gallows) کو بھی سخت لفظوں میں یاد کیا (فیوکک نے کاغذ کے چھوٹے چھوٹے پرزوں پر لکھ کر وہ نوٹس نازیوں کی جیل سے باہر اسمگل کیے تھے)۔ لڈوک نے اس پر شہرت پسند ہونے کا الزام لگایا۔
دوسرے دن اس نے مجھ سے معافی مانگی کہ وہ گفتگو میں کچھ زیادہ آگے بڑھ گیا تھا۔ جانے سے پہلے اس نے مزید شرمندگی کا اظہار کیا۔ میں اس کے رویے کی تہ تک پہنچ گیا۔ وہ مجھ سے ڈرنے لگا تھا۔ اسے یہ خوف تھا کہ اس کے خیالات، اوپر، مقتدر لوگوں تک نہ پہنچا دوں۔ اُس کے اِس خوف کو جان کر میں اس سے دور ہوگیا۔ ہمارے درمیان کی خلیج اور گہری ہوگئی۔
اس بات چیت کے بعد کوئی نو سال بیت گئے۔ لڈوک نے پڑھائی مکمل کرلی اور اپنی پسند کے مطابق ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس دوران وہ دو تین بار یہاں آیا، لیکن مجھ سے نہیں ملا۔ آج جب وہ نظر آیا تو اس نے اپنا چہرہ گھمایا۔ ’’ڈیم دیٹ لڈوک‘‘ (Damn that Ludvic)۔
ہمارے گروپ کو باہر سے دعوتیں جو ملتی تھیں، بند ہوگئیں۔ مجھے احساس سا ہے کہ یہ لڈوک ہے جس کے حکم کے تحت میں اکیلا پڑگیا ہوں، کیوںکہ ہمارے دشمن ہمیں تنہائی میں نہیں جھونکتے، بلکہ یہ ہمارے دوستوں کا کام ہوتا ہے۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...