کیا ہوا ہے حمزہ تم نے مجهے اتنی ایمرجنسی میں کیوں بلایا ہے۔
آصم نے حمزہ کے سامنے بیٹهتے ہوئے پوچها۔
مومنہ کو کسی نے کڈنیپ کرلیا ہے۔
حمزہ نے اپنا غصہ اور آنسو بہت مشکلوں سے ضبط کیئے تهے۔
واٹ بهابهی کو کڈنیپ۔۔۔۔۔۔مگر کیسے۔
پھر حمزہ نے اس دن ہوا سارا واقعہ آصم کو بتایا۔
تمہیں کسی پر شک ہے۔
آصم نے پوچها۔
تم میرا ماضی جانتے ہو۔۔۔ایسے لوگوں کے کتنے دشمن ہوتے ہیں تم یہ بات اچهی طرح سمجھ سکتے ہو۔
حمزہ کی آواز میں بے بسی تهی۔
همم۔۔۔۔پھر بھی کوئ ایسا شخص جو بدلے کی آگ میں اتنا بڑا قدم اٹها سکتا ہو۔
میں بهی وہی سوچ رہا ہوں کہ کس میں اتنی جرت آگئی۔۔۔۔۔خیر میں نے تمہیں اس لیئے یہاں بلایا ہیکہ تم اپنے طریقے سے پتہ کروائو اور میں اپنے طریقے سے پتہ کرتا ہوں۔
حمزہ نے کہا۔
لیکن حمزہ میری ایک بات سن لو کچھ بھی ہو جائے تم قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لو گے۔
آصم نے حمزہ کو سمجھانا چاہا۔
تمهارا کیا مطلب ہے میری بیوی کڈنیپ ہو گئ ہے اور میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہوں۔
حمزہ نے غصہ سے کہا۔
میرا وہ مطلب نہیں تھا۔ میں تو بس۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں کیا کرنا ہے وہ تمہیں پتہ ہے۔ مجهے کیا کرنا ہے اسکی فکر تم مت کرو وہ میں کر لو گا۔
حمزہ نے آصم کی بات بیچ میں کاٹتے ہوئے کہا۔
چلو ٹھیک ہے پھر میں چلتا ہوں اور جاتے ہی ایک ٹیم تیار کرواتا ہوں۔
آصم نے حمزہ سے گلے ملتے ہوئے کہا۔
اور میری بات دیہان میں رکهنا۔
آصم کہ کر چلا گایا۔
اب مومنہ کو میں اپنے طریقے سے دهونڈوں گا۔
حمزہ نے پرسوچ انداز میں کہا۔
********************¬*************
باس کیا کرنا ہے اس لڑکی کا اگر آپ کہیں تو مار دیں اسے۔
لیاقت نے خباثت سے کہا۔
نہیں اتنی آسان سزا میں حمزہ کو نہیں دینے والا۔
پھر باس کیا سوچا ہے آپ نے۔
میں نے بہت خاص سوچا ہے اسکے لیۓ۔ حمزہ کو ایسی سزا دونگا کہ ساری زندگی روۓ گا اور پچتاۓ گا کہ کیوں اس نے رؤف شیخ سے پنگا لیا تھا۔
یہ کہ کر اسنے زور دار کھکا لگایا تھا۔
چلو زرا بلبل سے تو مل لیں۔
شیخ نے اس کمرے کا رخ کیا جہاں مومنہ قید تھی۔
***********************
یا اللہ پلیز میری مدد کر میرے مالک۔مجھے اس جہنم سے نکال لیں۔پلیز یااللہ حمزہ کو بھیج دیں۔
مومنہ جا نماز پر بیٹھی رو رو کر دعا کر رہی تھی جب دروازے کھلنے کی آواز پر وہ جھٹکے سے اٹھی۔
میری بلبل دعا مانگ رہی تھی لیکن کوئی فائدہ نہیں کیونکہ تم اب بچ کر کھی نھیں جا سکتی ہو۔
شیخ نے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ کہا۔
یہ تمھاری غلط فہمی ہے۔تم دیکھنا حمزہ آۓ گا اور مجھے یہاں سے لے جاۓ گا۔
مومنہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
کیا کہا تم نے پھر سے بولنا زرا۔
شیخ نے مومنہ کی طرف بڑھتے ہوۓ کہا۔
تم دیکھنا حمزہ آۓ گا اور مجھے لے جاۓ گا۔
مومنہ نے بھی اسی کے انداز میں کہا۔
وہ بچاۓ گا تمھیں وہ۔۔۔۔۔
شیخ نے مومنہ کے بال پکڑ کے اسکا سر دیوار میں مار دیا۔
خون کا فوارا مومنہ کے سر سے بھنے لگ گیا۔
اب بول کیا کہ رہی تھی تو۔
شیخ نے مومنہ کا جبڑا دبوچتے ہوئے کہا۔
دیکھنا تم حمزہ مجھے بچاۓ گا۔
مومنہ نے اپنی آنکھیں بہت مشکل سے کھولتے ہوۓ کہا کیونکہ سر میں اٹھتے درد کی وجہ سے اسکی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔
یہ جو تیری زبان چل رہی ہے نا اسکو بند کرنے کا علاج کرتا ہوں میں۔
شیخ نے مومنہ کو زمین پر پھینکا اور لمبے لمبے دگ بھرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
حمزہ پلیز آجاؤ ورنہ تمھاری ۔مومنہ مر جائے گی۔
مومنہ یہ کہ کر بے ہوش ہو گئ۔
***********************
کون ہو تم لوگ اور کیوں لاۓ ہو مجھے یہاں۔
اسنے چیختے ہوۓ کہا۔
ہم۔کون ہیں یہ تو تجھے پتہ ہے اور کیوں لاۓ ہیں وہ تجھے ابھی پتہ چل جاۓ گا۔
حمزہ نے سامنے آتے ہوۓ کہا۔
تم۔۔۔۔۔ کیوں لاۓ ہو تم مجھے یہاں میں نے تمھارا کیا بگاڑا ہے۔
اسنے اپنے بندھے ہوۓ ھاتھ کھولنے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا۔
صحیح کہ رہے ہو تم ۔تم نےمیرا کچھ نھیں بگاڑا ۔لیکن اگر تم نے مجھے صحیح صحیح نھیں بتایا کہ شیخ نے مومنہ کو کہا رکھا ہوا ہے تو میں تمھارا بہت کچھ بگاڑ سکتا ھوں۔
حمزہ نے اسکے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا۔
ہاہاہا۔۔۔۔۔تمہیں کیا لگتا ہے تم مجھ سے پوچھو گے اور میں تمھیں بتا دونگا۔
لیاقت نے ہنستے ہوئے کہا۔
بتانا تو تمھیں ہو گا ۔آرام سے نا سہی تو زبردستی سے سہی۔
حمزہ نے آرام سے کہا۔
تمہیں کیا لگتا ہے تم مجھے مارو گے اور میں تمھیں بتا دونگا۔
لیاقت نے کہا۔
تمھیں کس نے کہا کہ میں تمھیں مارو نگا۔بس تم یہ آواز سن لو پھر فیصلہ کرنا۔
حمزہ نے لیاقت کی طرف موبائل بڑھاتے ہوۓ کہا۔
لیاقت نے ناسمجھی سے حمزہ کی طرف دیکھا لیکن آگلےہی لمحے موبائل پر ابھرنے والی آواز نے اسے سہی معنوں میں ہلا کر رکھ دیا۔
بابا۔پلیز مجھے بچالو بابا۔یہ انکل مجھے مار دیں گے۔
پلیز میرے بیٹے کو چھوڑ دو حمزہ۔وہ معصوم ہے۔
لیاقت نے روتے ہوئے کہا۔
میری بیوی بھی معصوم ہے اس پر ترس کھایا تم لوگوں نے۔
حمزہ نے چیختے ہوۓ کہا۔
تم میرے بیٹے کو جانے دو ۔میں تمھیں بتاتا ہوں کہ مومنہ کہا ہے۔
ٹھیک ہے۔لیکن اگر تمھارا ایک بھی لفظ جھوٹ ہوا تو تم اپنے بیٹے کی موت کے خود ذمہ دار ہوگے۔
نھیں میں تمھیں سب سچ سچ بتاتا ہوں۔
لیاقت نے حمزہ کو اس جگہ کا ایڈریس دیا جہاں شیخ نے مومنہ کو رکھا ہوا تھا۔
ہاں بچے کو چھوڑ دو۔
حمزہ نے کسی کو فون کیا پھر فون بند کرنے کے بعد دوسرا نمبر ملایا۔
ہیلو آصم۔ہاں پولیس بھیجو اسے گرفتار کرنے کے لیے اور میں آرہا ہوں ٹیم تیار رکھنا۔
حمزہ نے ایک نظر لیاقت پر ڈالی اور پھر وہاں سے چلا گیا۔
***********************
لیکن حمزہ تمھیں کیسے پتا چلا کہ بھابھی کو شیخ نے اغواء کیا ہے۔
آصم نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوۓ پوچھا۔
ہر گیںنگ پر نظر رکھی ہوئی تھی میں نے۔اس شیخ پر شک ہوا تو آج اٹھالیا اسکے بندے کو۔اپنے بچے کی جان بچانے کے لیے سب طوطے کی طرح بتادیا۔
حمزہ نے مومنہ کی تصویر کو دیکھتے ہوئے بتایا۔
ویسے یہ بات ماننی پڑے گی کہ تم ہو بڑے ذہین۔
آصم نے ہنستے ہوۓ کہا۔
بس مومنہ تھوڑی دیر بعد تم میرے پاس ہوگی۔
حمزہ نے مومنہ کی تصویر سینے سے لگاتے ھوۓ کہا۔
گاڑی رکنے پر حمزہ نے سامنے گھر کی طرف دیکھا جہاں اسکی مومنہ تھی۔
وہ دونوں گاڑی سے باہر نکلے اور گھر کا جائزہ لینے لگے۔
آصم نے اپنی ٹیم کو مختلف راستوں سے اندر کی طرف بھیجا۔
حمزہ بھاگتے ہوئے اندر کی جانب بڑھا سب لوگوں نے پورا گھر دیکھ لیا لیکن انھیں کوئی نہ ملا ۔حمزہ سامنے کے بند کمرے کی جانب بڑھا اور اندر کمرے کو دیکھ کر چیختا ہوا وہی بیٹھ گیا۔
حمزہ کی آواز سن کر آصم اور دوسرے ٹیم میمبر کمرے کی جانب بڑھے۔
***********************
کیا ہوا حمزہ ۔
آصم جو حمزہ کی چیخ سن کر آیا تها اس سے پوچھنے لگا۔
لے گیا وہ میری مومنہ کو۔ ۔۔۔۔میں اس کے اتنا پاس ہوتے ہوئے بهی اس سے دور ہوگیا۔
حمزہ زمیں پر بیٹها بے بسی سے کہ رہا تھا۔
سر ہم نے پورا گهر دیکھ لیا لیکن ہمیں کوئی نہ ملا۔
پولیس افسر نے آکر آصم کو بتایا۔
ایک آنسو ٹوٹ کر حمزہ کی آنکھ سے گرا جسے وہ بے دردی سے رگڑ کر کھڑا ہو گیا۔
حمزہ کمرے کے کونے پر پڑے خون کی طرف گیا جو سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے مومنہ کا نکلا تها۔
خدا کی قسم میں ان سب کو اتنا تڑپا تڑپا کر مارو گا جن نے میری مومنہ کو تکلیف دی ہے۔
حمزہ کی آنکھیں زمین پر گرے خون سے بهی زیادہ سرخ ہو رہی تھیں۔
آصم ہر جگہ اپنے افسر نافذ کردو۔مجهے ہر حال میں مومنہ کا پتہ چاہیے اور یاد رکهنا شیخ مجهے زندہ چاہیے۔
حمزہ نے آصم کی طرف بڑهتے ہوئے کہا۔
لیکن حمزہ چاہے کچھ بھی ہو جائے میں تمہیں قانون اپنے ہاتھ میں لینے نہیں دونگا۔
شیخ اگر زندہ بهی پکڑا گیا تو عدالت اسے سزا دے گی نا کہ تم۔
آصم نے آرام سے کہا۔
تم مجهے مت بتائو کے میں نے کیا کرنا ہے۔ اس نے میری مومنہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اسکا فیصلہ تو میں خود ہی کرونگا۔
حمزہ کی بات سن کر آصم کچھ نہیں بولا کیونکہ اسے حمزہ اس وقت پورا جنونی انسان لگ رہا تها جسے ۔
سمجهانا بے کار تھا۔
********************¬********
واہ شیخ اس دفع تو مال بڑے کمال کا لایا ہے۔
شبنم بائ نے پان منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔
بالکل صحیح کہ رہی ہو بائ ۔
رؤف شیخ نے ہنستے ہوئے کہا۔
چل بتا کتنا مال لے گا اس چھوکری کے بدلے۔
بائ نے پوچھا۔
مائ میں نے اسے پیسوں کے لیے نہیں بیچا ہے۔تجھے پتا ہے شیخ کو پیسوں کی کمی نہیں ہے۔
شیخ نے تفاخر سے کہا۔
تو پھر کس لیئے اسے یہاں لایا ہے۔
بائ نے پوچھا۔
میں چاہتا ہوں کہ تو اسکا ایسا حشر کر کہ یہ موت کی بھیک مانگنے۔لیکن اسے موت نا ملے۔بھت تنگ کیا ہے اس کے شوہر نے مجھے۔اب اسکے کیئے کی سزا اسے ملے گی۔
شیخ نے کہ کر ایک نظر مومنہ کے بے حوش وجود پر ڈالی۔جو اپنے کل سے بے خبر تھی۔
********************¬********
اس کا سر درد سے بھاری ہو رہا تھا۔بہت مشکلوں سے اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔
مومنہ کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کے وہ اس وقت کہاں ہے۔
چکراتے سر کو تھامتی وہ بیٹھی اور ارد گرد دیکھنے لگی۔
یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جو تقریباً اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔
اسے سمجھ نہیں آیا کے وہ کہا ہے۔
ہمت کرکے وہ اٹھی اور دروازے کے پاس جا کر اسے بجانے لگی۔
کوئ ہے ۔۔۔۔پلیز مجھے جانے دو۔خدا کے لیۓ یہ دروازہ کھول دو۔
جب وہ دروازے بجا بجا کر تھک گئ تو آکر بید پر بیٹھ گئ۔
آنسوں مسلسل اسکی آنکھوں سے بھ رہے تھے۔
ایک جھٹکے سے کمرے کا دروازہ کھولا ۔
مومنہ نے جب سر اٹھا کر دیکھا تو وہ کوئ 40 سے 45 سال کی عورت تھی ۔جس نے ساڑھی زیب تن کی ہوئ تھی۔وہ منہ میں پان چباتی بہت عجیب نظروں سے مومنہ کو دیکھ رہی تھی۔
آ آپ کون ہیں۔پلیز مجھے یہاں سے جانے دیں۔
مومنہ نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
ارے ایسے کیسے جانے دیں تمھیں چھمک چھلو۔
اتنے ٹائم بعد تو اتنا زبردست مال ملا ہے۔
بائ نے ہنستے ہوئے بولی۔
پلیز مجھے جانے دیں۔میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں۔
مومنہ نے روتے ہوئے کہا۔
دیکھ اب تو تو یہ بھول جا کے تو کبھی یہاں سے باہر جا سکتی ہے۔
اسی لیئے شرافت سے یہاں چپ کرکے رہے ورنہ میں تیرا وہ حشر کروں گی کہ تو سوچ نہیں سکتی۔
بائ کی بات سن کر مومنہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اسکے پیچھے کھلے دروازہ کو۔
اگلے ہی لمحے مومنہ نے بائ کو دھکا دیا اور دروازے کی جانب برھی۔اس سے پہلے مومنہ دروازے کے باہر قدم رکھتی اس کے بال بائ کی گرفت میں آگئے تھے۔
تجھے کیا لگا کے کچی گوٹیاں کھیلی ہیں میں نے کہ تو اتنی آسانی سے یہاں سے نکل جائے گی۔بولا تھا نا میں نے کہ شرافت سے میری بات مان لو لیکن لگتا ہے شرافت کی بات تجھے سمجھ نہیں آتی۔
بالوں پر بڑھتی ہوئی گرفت کی وجہ سے مومنہ کی درد سے بری حالت ہو رہی تھی۔
اب دیکھ میں تیرے ساتھ کرتی کیا ہو۔بہت جلد تیرا انتظام کرتی ہو میں۔
بائ نے مومنہ کو زمین پر پھینکا اور لمبے لمبے دگ بھرتی ہوئ وہاں سے چلی گئی۔
***********************
حمزہ کہاں ہے مومنہ۔تم تو اسے لینے گئے تھے نہ۔
حمزہ جب اندر آیا تو آرزو بیگم بھاگتی ہوئی آکر اس سے پوچھنے لگیں۔
سب لوگ اسے امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ شاید حمزہ کی اگلی بات انھیں زندگی کی نوید سنا دیں۔
مجھے
معاف کردیں میں مومنہ کو نہیں ڈھونڈ سکا۔
حمزہ کا سر جھک گیا۔
حمزہ کی بات سن کر حماد صاحب ایک دم صوفے پر بیٹھ گئے۔
کیا مطلب ہے تمھارا ۔تمنے نے تو کہا تھا کہ میری بچی کو ساتھ لاؤ گے۔ بتاؤ کہا ہے میری مومنہ ۔
آرزو بیگم نے روتے ہوۓ پوچھا۔
آنٹی میں نے وعدہ کیا تھا آپ سے کہ میں مومنہ کو واپس زرور لاؤ گا اور حمزہ اپنا کیا ہوا وعدہ کبھی بھولتا نہیں ہے۔
حمزہ نے اپنی آنکھوں میں آئ نمی پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا۔
اللّٰہ کے بعد مجھے سب سے زیادہ تم پر ہی بھروسہ ہے۔مجھے یقین ہے تم میری بچی کو واپس لے آؤ گے۔
آرزو بیگم آنسوں صاف کرتے ہوۓ بولی۔
مجھ پر بھروسہ رکھیں میں آپ کا اعتبار بالکل نہیں توڑوں گا۔
یہ کہ کر حمزہ وہاں سے چلا گیا۔
***********************
بے بسی سی بے بسی ہے
بن تیرے یہ زندگی اجنبی سی ہے
Plz come back momina ,I can’t live without you۔
حمزہ مومنہ کی تصویر سینے سے لگائے رونے لگ گیا۔
موبائل بجنے کی آواز پر حمزہ نے اپنے آنسوں صاف کیئے۔
ہاں بولو آصم۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں آرہا ہوں۔
***********************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...