زہرہ بیگم سے زلیخا کی اچھی بات چیت ہوگئی تھی وہ ہفتے میں دو دفعہ ان سے ملنے جاتی تھی اکثر ان کو لے کر گھر بھی آجاتی تھی علیخان کو فرصت ہو تو ماں کی خیریت پوچھے۔اس لیے زہرہ بیگم اپنا زیادہ وقت زلیخا یا پھر عبادات میں گزارتیں۔
زلیخا کے ذریعے سے ہی زہرہ بیگم حلیمہ سے ملیں جو کہ اتفاقًا ان کی خالہ زاد تھیں ۔
آج ایک ہفتہ گزرجانے کے بعد بھی زلیخا ان سے ملنے نہیں آئ تھی تو ان کو تشویش ہوئ انھوں نے اس سے ملنے کا ارادہ کیا ۔آج علیخان گھر پر تھا تو انھوں نے ان سے کہا اور حیرت انگیز طور پر عہ مان بھی گیا۔کیونکہ اس کے پاس آج کچھ کرنے کونہیں تھا۔اس لیے وہ ماں کو لے کر انکی دوست کے گھر آگیا
مگر یہاں آکر وہ حیران ہوگیا کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ اسکی ماں کی دوست اتنی امیر ہے۔وہ اس وقت ایک خوبصورت بنگلے کے سامنے کھڑا تھا جو اس کے لیے کسی محل سے کم۔نہ تھا۔
وہ اندر داخل ہوئیں تو ملازمہ نے ان کو پہچان لیا کیونکہ وہ آتی رہتی ہیں۔
اس نے عزت سے انکو بیٹھایا اور زلیخا کو بلایا۔
علیخان ابھی بھی حیران تھا۔
زلیخا آئ تو زہرہ بیگم سے ملی ۔علیخان اس کو دیکھتا رہ گیا کیونکہ وہ ایک خوبصورت دوشیزہ تھی اسے لگا اس کی ماں کی سہیلی اسی کی طرح عمر رسیدہ ہوگی۔
علیخان تو ایسا کر چلا جا میں آجاؤ گی۔انھوں نے علیخان کو کہا جو ابھی تک اس کو دیکھ رہا تھا۔
ہہ اچھا۔ اس نے جواب دیا مگر ہنوز نظریں زلیخا پر تھیں۔
چل جا نہ ۔ماں نے پھر کہا۔
اس بار وہ چلا گیا۔
زلیخا نے سکوں کا سانس لیا۔اور وہ باتیں کرنے لگ گئیں۔
علیخان وہاں سے آتو گیا مگر ذہن ابھی تک عہی پر تھا۔اس نے بدر سے کہا تو اس نے کہا لڑکی حسین ہے اور دولت مند بھی ہے پھنسالے۔
علیخان نے کوئ بھی جواب نہ دیا۔
دن گزرتے گئے مگر علیخان میں تبدیلی آگئی اب وہ ماں سے نہ اونچی آواز میں طات کرتا اور جب زلیخا نے آنا ہوتا وہ بازار سے سامان لے آتا ۔
زہرہ بیگم اسکی ساری حرکتیں دیکھ رہی تھی انھوں نے موقع دیکھ کر حلیمہ بیگم سے بات کی حلیمہ بیگم نے اس کی مرضی پوچھی تو اس نے یہ سب کچھ ان پر چھوڑدیا۔حلیمہ بیگم نے اس جے بھائ سے رابطہ کیا تو انھوں نے بھی مثبت میں جواب دیا حلیمہ بیگم نے ہاں کردی۔
زلیخا علیخان کی بیوی بن گئی۔زلیخا زہرہ بیگم اور علیخان کو لے کر اپنے گھر آگئی۔زہرہ بیگم خوش تھیں انھیں ایک فرمانبردار بہو ملی اور علیخان میں بھی وہ تبدیلیاں دیکھ چکی تھیں۔ اب اپنا زیادہ تر وقت عبادت گزاری میں گزارتیں۔
علیخان ہی زلیخا کے بزنس کو دیکھ رہا تھا سب کچھ بہترین چل رہا تھا۔
وہ لان میں بیٹھے اپنے تین ماہ کے بیٹے کے ساتھ موسم سے لطف اندوز ہورہی تھی۔
یوسف آ پ کو مزہ آررہا ہے موسم کا۔اس نے اپنے بیٹے سے کہا۔
جو اپنا کھیل کھیل رہا تھا۔
ان کی شادی کو دو سال ہوگۓ۔زہرہ بیگم کا ایک مہینہ پہلے ہی انتقال ہوگیا تھا اسے داخلی راستے سے حلیمہ بیگم داخل ہوتے ہوۓ نظر آئیں اس نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں بلایا۔ یوسف کو ملازمہ کے حوالے کر کے وہ ان کے ساتھ باتیں کرنے لگی ۔
کیسی جا رہی ہے زندگی۔انھوں نے پوچھا۔
اچھی گزر رہی ہے۔اس نے جواب دیا۔
بیٹا ہمیشہ ایک بات یاد رکھنا یہ دنیا فانی ہے یہاں پر کچھ بھی مستقل طور پر نہیں ہے سمجھ لو یہ کمرہ امتحان ہے یہاں سب کا امتحان ہونا ہے کسی کا بہت آسان تو کسی کا بہت مشکل اور لیکن تم کبھی ناشکری اور اپنے منہ سے نازیبا الفاظ مت نکالنا مشکل میں صرف اپنے رب کو یاد کرنا اور اسی سے مدد مانگنا ہممم سمجھ آئ۔انھوں نے اسے سمجھایا۔
زلیخا حیران تھی کہ وہ ایسی باتیں کیوں کررہی ہیں ۔
اچھا میں چلتی ہوں محسن آنے والا ہوگا ﷲ حافظ
جو بتایا ہے اس پرعمل کرنا۔ وہ اس کے ماتھے پر بوسہ دے کر چلی گئیں۔
وہ ان کی باتوں کو سوچنے لگی ۔
رات کو وہ علیخان کا انتظار کرنے لگی۔وہ پچھلے کئی مہینوں سے دیف سے آررہا تھا اس نے کبھی پوچھا نہیں کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ وہ بزنس میں مصروف ہوگا اس لیے وہ اب تک نہیں آیا۔
وہ گھڑی کی طرف دیکھ رہی تھی جو رات کے بارہ بجارہا تھا۔
اچانک اسے آواز آئ۔اس نے دیکھا علیخان ہے۔
آپ کہاں تھے کب سے انتظار کررہی تھی میں آپکا ۔اس نے پوچھا
کاروباری آدمی ہوں سو کام ہوتے اب تمہاری طرح گھر میں تھوڑی بیٹھا ہوں کبھی کبھار دیر سویر ہوجاتی ہے ۔ اس نے روکھے روکھے لہجے میں کہا ۔
اچھا۔زلیخا بس اتنا ہی بول سکی۔
جب وہ کمرے میں آئ تو علیخان الماری میں سے کچھ تلاش کررہا تھا۔زلیخا کو دیکھ کر گھبراگیا۔زلیخا نے اس کا گھبرانا بخوبی دیکھا۔مگر کچھ نہ بولی۔علیخان نے بھی بات نہ کی۔
یوسف رونے لگا۔یوسف کو دیکھ کر علیخان کے چہرے پر اکتاہٹ آگئی وہ کمرے سےکل آیا۔
رات کو جب سونے کے لیے لیٹے تو علیخان تو سوگیا مگر زلیخا کو بار بار حلیمہ بیگم کی باتیں یاد آررہی تھیں ۔کافی وقت گزر جانے کے بعد بھی جب نیند نہ آئی تو وہ اٹھی اور دو رکعت نماز حاجت ادا کی اور ﷲ کے حضور دعا کی۔
اے ﷲ بے شک تو بے زبانوں کے بھی حال دل دے واقف ہے یااللہ تو آزماتا ہے بندے کو اس کی جان سے اس کے مال سے اس کی اولاد سے ﷲ مجھے اتنی طاقت اور ہمت دینا کہ میں تیری آزمائش پر پوری اترسکوں۔
اپنے رب کے حضور دعا مانگنے سے وہ پرسکون ہوگئی۔
******************************
ہاشم شاہ کی شادی ہے اس لیے سید ولا میں گہما گہمی تھی آج یہ لوگ سیالکوٹ کے لیے نکل رہے تھے رابعہ بیگم وہاں کی رہنے والی تھیں۔نکاح کی رسم مشترکہ تھی اس وجہ سے وہ لوگ آج جارہے تھے مومنہ نے زلیخا اور ایمن کو بھی بلایا زلیخا نے معزرت کرلی کہ یوسف کو لے کر اتنالمبا سفر نہیں کرسکتی۔ایمن نے دادی کی وجہ سے منع کردیا کیونکہ ان کو گھٹنوں میں درد تھا ڈاکٹر نے سفر سے منع کیا ہوا تھا۔
آج ہاشم شاہ کی بارات تھی انھوں نے دودن بعد واپس آنا تھا مگر ایک ایسی خبر ملی جسکی وجہ سے انھیں آج ہی واپس آنا پڑا ایمن کی دادی کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے سب کو لوٹنا پڑا۔مومنہ تو ایمن کے ساتھ تھی وہ ایمن کو خاموش کروارہی تھی مگر وہ چپ ہی نہیں ہورہی تھی۔ابشام شاہ بھی ماجد کو تسلیاں دے رہے تھے۔
آج دادی کے انتقال کو ایک ہفتہ ہوگیا تھا مگر ایمن کی حالت سنھبل نہیں رہی تھی۔ اس نے دوپہر کے کھانے کے بعد اسے نیند کی دوا دے کر سلادیا تھا۔ ۔
اتنے دن کے بعد بھی زلیخا ایک بار بھی نہیں آئ حیران کن بات تھی ۔
شاید اسے معلوم نہ ہو۔ اس نے سوچا۔
اس نے چادر اوڑھی اور ایمن کس دیکھا جو گہری نیند سو رہی تھی ۔
زلیخا کے گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔
مگر ویاں جا کر جو اسے خبر ملی وہ کسی قیامت سے کم نہیں تھی۔
پولیس کی بھاری نفری اس بنگلے کے باہر موجود تھی۔اس بنگلے کے چاروں طرف سے راستے بند کیے ہوۓ تھے۔اس سے تھوڑے فاصلے پرایک رکشہ رکا۔اس سے نکلنے والی شخصیت کااس منظر کو دیکھ کر دل رک سا گیا۔ چہرہ کو اچھی طرح ڈھانپ کر آگے بڑھی اسے ایک لیڈی کانسٹیبل نظر آئ۔
یہاں کوئی حادثہ ہوا ہے۔اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔
آپ کون؟؟ اس نے اس پر بھرپور نظر ڈالتے ہوۓ سخت لہجے میں پوچھا۔
یہاں جوخاتون رہتی ہیں مین انکی دوست۔اس نے بمشکل جواب دیا اس کی آواز نہیں نکل نہی رہی تھی۔
اس کا کل رات قتل ہوگیا ہے اس گھر سے دو لاشیں ملی ہیں ایک عورت کی اور بچے کی۔کانسٹیبل نے جواب دیا۔
ان کی بات سن کر اس کے سر پر آسمان آ گرا۔
اس سے پہلے کانسٹیبل کچھ اور پوچھتی ایک اہلکار اس کے پاس آیا
ہاں بولو کوئ ثبوت ملا۔
جی یہ ملا ہے مجھے لگتا ہے جب حملہ ور حملہ کررہا تھا تب یہ چین اس کے ہاتھ سے گری ہوگی۔
اہلکار نے اپنا اندازہ لگایا۔
ہممم اور اس بچے کی موت کا کچھ معلوم ہوا وہ کیسے مرا۔کانسٹیبل نے پوچھا
نہیں اسکے جسم پر کوئ نشان نہیں تھے۔ اس نے جواب دیا
شاید قدرتی موت مرا۔کانسٹیبل بولی
مگر اس کی نظر صرف اس چین پر ٹک گئی تھی جو اس اہلکار کے ہاتھ میں تھی۔اس کا دیہان باتوں کی طرف نہ تھا۔
واپسی کا راستہ اس کے لیے پل صراط سے کم کا نہ تھا۔
یہ چین میری ماں کی ہے میرے دل کے بہت قریب۔
اس کے ذہن میں باربار ماجد کے الفاظ آرہے تھے۔
یہ چین جب حملہ ور نے حملہ کیا ہوگا تب گری ہوگی۔اور ساتھ ہی اس اہلکار کی آواز بھی آرہی تھی۔
وہ جیسے ہی اندر داخل ہوئ اس کی نظر سامنے صوفے پر بیٹھے شخص پر پڑی۔
وہ آنکھیں موندے کسی اور ہی جہان میں پہنچا ہوا تھا۔
اس کو ایسے دیکھ کر وہ اور بھی طیش میں آگئی۔
سنا تھا گناہگار لوگوں کو سکون نہیں ملتا مگر یہاں تو کچھ ایسا نہیں۔مومنہ نے طنزیہ لہجے میں کہا
ہاں کیونکہ یہاں کوئ گناہگار بھی نہیں ۔وہ اس کی بات پر حیران ہوا تو مگر پھر اس نے آرام سے جواب دیا۔
کیوں کیا تم نے ایسا کیا بگاڑا تھا اس معصوم نے تمہارا اور اس بچے کا کیا قصور تھا ہاں بتاؤ مجھے۔اس کی برداشت جب جواب دے گئی تو اس نے اس کا کالر پکڑ کر اس کو جھنجورا۔
وہ اس کے اس عمل پر بوکھلا گیا۔اسے اس کے اس قسم کےشدید ردعمل کی امید نہ تھی۔
چھوڑو یہ کیا بدتمیزی ہے۔
جب بات مرد کی سیلف ریسپکٹ پر آتی ہے تو وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ اس کے سامنے کون کھڑا ہے۔ یہ تو پھر ماجد خان تھا جسے اگر کوئ غصیلی نگاہ سے بھی دیکھ لیتا تو تاعمر پچھتاتا۔
مومنہ چھوڑو اس سے پہلے میرا ضبط جواب دےدے۔
واہ ماجد خان کسی بےگناہ کی جان لیتے ہوۓ یہ اٹیٹیوڈ کہاں گیا تھا۔ ایک بےقصور عورت کی جان لیتے ہوۓ کہاں گیا تھا۔وہ چلا رہی تھی۔
شور کی آواز سن کر ایمن بھی نیچے آئ۔مگر اگلے الفاظ سن کر اسکے قدم وہیں ساکت ہوگۓ۔
چٹاخ!!!!!۔۔۔۔۔۔تھپڑ کی گونج سے فضاء بھی دہل گئ۔
مومنہ جو تھپڑ کو سہہ نہ پائ صوفے پر گرگئ۔
مجھے ایسی عورت کے ساتھ زندگی نہیں گزارنی جو بغیر کسی تصدیق کے مجھ پر اول فول الزام لگاۓ۔
مومنہ شاہ میں ماجد خان اپنے ہورے ہوش وحواس میں تمھیں طلاق دیتا ہوں۔طلاق دیتا ہوں طلاق دیتا ہوں۔
اس کی آواز سن کر جہاں ایمن کے قدم رکے وہی ابشام شاہ کے بھی رکے۔
بھائ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔ بھائ رکیں بات سنیں کہاں جارہے ہیں میرا تو خیال کرلیں۔
وہ آوازیں دیتی رہی مگر وہ سب کی ان سنی کرکے نکل گیا۔
مومی تم ہی بولو کیا ہوا ہے ۔ایمن نے مومنہ کو ہلایا جو ابھی بھی اسی سمت بیٹھی تھی۔
بیٹا بولو کیا ہوا ہے۔ابشام شاہ بھی بولے
وہ کسی روبوٹ کی طرح سیدھی ہوئی اور بولتی چلی گئی۔
اس کی بات سن کر ایم بولی
نہیں میرے بھائ ایسا نہیں کرسکتے وہ تو کوڑا اٹھانے والی کی بھی عزت کرتے ہیں ہ ایسا نہی کرسکتے نہیں کرسکتے۔ایمن چلاتے چلاتے نیچے گرگئ۔
اس وقت وہ سب ہسپتال کے کاریڈور میں تھے۔
مومنہ بینچ پر بیٹھی اس کی صحت کی دعائیں کررہی تھی۔ابشام شاہ کاریڈور میں ٹہل رہے تھے اور سوچ رہے تھے ڈاکٹر آیا
مریض کے ساتھ کون ہیں ۔انھوں نے پوچھا
جی میں ہو ۔ابشام شاہ بولے
مومنہ بھی اٹھ کرآگئ۔
دیکھیں ان کو شدید قسم کا دھچکا لگا ہے۔
جسکی وجہ دے انکا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا ہے۔
ابھی ہم کچھ کہہ نہیں سکتے۔۔آپ بس دعا کریں ۔وہ پروفیشنل انداز میں کہتے ہوۓ چلے گئے۔
یہ سب میری غلطی ہے مجھے نہیں بتانا چاہیے تھا۔
مومنی سر کو ہاتھوں میں گراگر بیٹھ گئی۔
نہیں بیٹا کچھ بھی تمہارء وجہ سے نہیں ہوا ایسا
ہونا تھا اور ہوگیا۔انھوں نے سمجھایا۔
بیٹا جو کچھ ہوا اس میں نہ تو تمارا کوئ قصور تھا نہ ایمن کا یہ سب ﷲ کی طرف سے آزمائش ہے اور وہی ہمیں اس آزمائش سے نکالےگا۔
تم بس دعا کرو سب ٹھیک ہوجاۓ۔
یہ رات کانٹوں پر گزارنے کے بعد ناجانے صبح کا سورج کیا نوید لے کر آیا۔
پانچ بجے ایمن کو ہوش آیا۔مومنہ نے سکھ کا سانس لیا۔وہ ایمن کا بہت خیال رکھ رہی تھی۔۔
ابشام شاہ پہلے ہی گھر خبر کرچکے تھے اور مومنی کی طلاق کا بھی بتاچکے تھے ۔سب کے دلوں میں سوال تھا۔وہ سب بے صبری سے انتظار کررہے تھے
جیسے ہی وہ لوگ گھر میں داخل ہوۓ۔سب کو اپنا منتظر پایا۔مومنہ ایمن کو لے کر روم میں چلی گئی
ابشام شاہ اسٹدی کی طرف چلے گئے اور اپنے بیٹوں کو بھی اشارہ کیا۔
اس وقت وہ تینوں اسٹدی میں تھے ابشام شاہ نے پوری بات بتائ۔
مگر بابا ماجد کو میں جانتا ہوں میرا بہترین دوست ہے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ہاشم بولا
یہ ہی تو میں سوچ رہا ہوں جس نے آج تک کسی عورت سے اونچی آواز میں بات تک نہ کی اس نے ایک عورت کا وےل کیسے کردیا۔ابشام شاہ بولے۔
جی بابا شاید ہم حقیقت سےواقف نہیں۔ہاشم بولا۔
ہممم
حیدر تم بھی بولو۔
حیدر جو ساری کارروائ میں خاموش تھا انکی بات سن کر بولا۔
بابا اب مومنہ کا کیا ہوگا۔حیدر نے پوچھا۔
جو رب نے اس کے نصیب میں۔لکھا ہوا ہے اسے وہ مل کر ہی رہے گا۔انھوں نے مسکراکر کہا۔
اب جاؤ اور اس بات کا ذکر میں۔کبھی نہ سنو انھوں نے حکم دیا
جی بابا۔وہ دونوں جانے لگے جب ابشام شاہ کی آواز نے قدم روک لیے۔
ایمن کو بھی بہنوں کی طرح سمجھنا اسے کبھی سمجھنا کبھی اسے ماجد کا طعنہ مت دینا ان کی آواز میں التجا تھی ۔
بابا جان ہم اتنے کم ظرف نہی کہ کسی کی غلطی کی سزا کسی اور کو دیں۔حیدر بولا
ابشام شاہ مسکرا اٹھے ۔
آج انھیں اپنی اولاد پر فخر ہورہا تھا۔
وقت سب سے بڑا مرہم ہے ۔سب کچھ واپس معمول زندگی پر آنے لھا ایمن کواس گھر میں بیٹی کا مقام ملا جس کی وجہ سھ بار بار اس کی آنکھیں تشکر کے آنسوؤں سے بھیگ جاتیں۔
حلیمہ بیگم نے مومنہ اور محسن کا رشتہ کرنا چاہا جو سب کی باہمی رضامندی سے قبول کرلیا گیا۔
*********”””””””،**********************
ان کے کانوں میں آذان کی گونجی وہ اٹھ کر سیدھی بیٹھ گئی ماضی کر دریچوں سے باہر آگئیں۔
ماجد کیوں کیا تم نے کسی کا بھی خیال نہ آیا تمھیں۔ایمن کا ہی احساس کرلیتے۔اگر بے گناہ تھے تو اپنی گواہی دیتے موقف بیان کرتے۔مگر یوں چلے جانا تمہارا گناہگار ہونا ثابت کرتا ہے۔وہ خود سے ہم کلام ہوئی اور آنکھیں موندلی۔
***************************
ایک بار بس مومنہ ایک بار مجھ سے پوچھتی کہ کیا میں گناہگار ہوں۔کیا تمہارے دل نے میری بےگناہی کی گواہی نہیں دی۔ہاں میں نے ایک گناہ کیا ہے ایک گناہگار کے گناہ پر پردہ ڈال کر جس کی سزا مجھے تم سے جدائی کی صورت میں ملی۔
ماجد خان آنکھوں کوبند کیے سوچ رہا تھا۔
*************************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...