ہم بچپن سے ہی سنتے آ رہے تھے۔
ہنوز دلی دور است
ہنوز دلی دور است
مگر ہماری ’’نیند‘‘ نے اس فارسی محاورے کی حقیقت بھی فاش کر دی امرتسر سے روانہ ہوئے تو ابھی ہماری آنکھ پوری طرح لگنے بھی نہ پائی تھی کہ ہم دلی پہنچ گئے۔
دلی تو دل سے بھی زیادہ نزدیک نکلی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمیں ہندو بلوائیوں کے خوف سے رات بھر نیند نہ آتی اور ہم سارا راستہ کلمہ پڑھتے دلّی پہنچتے مگر صرف دلی ہی نہیں دلی کی طرف جانے والا راستہ بھی سپنوں بھرا تھا۔
یہ سفر تو بالکل ننندیا پور کے سفر جیسا تھا۔
ہم دلی کے لئے نا محرم تھے اس لئے اس نے ہمیں دیکھتے ہی اپنا آپ دھند میں چھپا لیا۔ ہم نے بھی لاکھ جتن کیے اس باپردہ شرمیلی دو شیزہ کا کوئی حصہ ہمیں کسی طرح نظر آئے تاکہ ہماری صبح خوشگوار ہو سکے اور منزل پہ پہنچنے کا احساس ہو مگر کامیابی نصیب نہ ہوئی۔
بڑی کمال کی دھند تھی۔
پتہ بھی نہ چلا اور لاجپت بھون پہنچ گئے۔
دھند ایسی کہ سامنے والا
جیسے دیوار سے نکل آیا
یہاں رجسٹر میں نام درج ہوئے اور کمروں کے دروازے کھل گئے ہر کوارٹر کے آگے ایک خوبصورت لان تھا۔ اسکول کی بہت بڑی عمارت، ڈسپنسری اور گراؤنڈ کے باوجود لاجپت بھون کا ماحول گھر جیسا تھا۔ ہم بڑے مزے سے رہنے لگے۔
ہمارے لئے دو ہندو خدمتگار مقرر تھے ایک کھانا پکانے اور دوسرا باہر سے سودا لانے کے لئے دونوں ہی بہت ہنس مکھ فرمانبردار اور نیک نیت تھے۔ ایک کا نام تورا موتھا دوسرے کا اب یاد نہیں آ رہا۔ ستیہ جی بھی ایک کمرے میں رہائش پذیر تھے۔ ہم پہلی بار اُن سے ملنے گئے تو ہماری ذہن میں یہ تھا کہ ان کی رہائش کا کمرہ بہت اعلیٰ، جدید ترین سہولیات سے آراستہ اور مرعوب کرنے والا ہو گا۔
کمرے کا دروازہ اُنھوں نے کھولا تو خندہ پیشانی سے ملے جیسا کہ اُن کی عادت تھی اور اندر آنے کو کہا، ہمیں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ ضروریات زندگی کے علاوہ کوئی سامان فالتو نہ تھا وہی عام بستر جیسا کہ سب مہمانوں کے کمروں میں میسر تھا وہی سہولیات جو مہمانوں کے لئے تھیں البتہ کتابیں کافی زیادہ تھیں ہمیں جون ایلیا کا شعر یاد آ گیا
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے اُسے
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ان ڈھیروں کتابوں میں ہمیں اپنا مجموعہ کلام ’’ہم نے بھی محبت کی ہے‘‘ بھی نظر آیا جو ہم نے ڈھوڈیکے میں ان کو پیش کیا تھا۔ ہمارا خیال تھا وہاں اتنی مصروفیت اور پھر انتظامی ذمہ داریوں کے سبب وہ ہماری کتاب ڈھوڈیکے ہی چھوڑ آئیں گے اور کسی لڑکی کے ہاتھ لگ جائے گی یعنی صحیح ہاتھوں میں پہنچ جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا اور ستیہ جی اُسے باقی کتابوں کی طرح ساتھ لے کر آئے شاید اُنھیں کتابیں اُٹھانا ہی یاد رہا جب ہمیں پتہ چلا کہ ستیہ جی تو اُردو بھی پڑھ لیتے ہیں تو ہمیں ویسی ہی مایوسی ہوئی جیسی اُن کو ہمارا مجموعہ کلام پڑھ کر ہوئی ہو گی کیونکہ وہ تو ٹھہرے انقلابی لیڈر اور ہم بقول سید امتیاز احمد:
’’محبت کی نہیں بلکہ محبت میں شاعری کرنے والے شاعر‘‘ پھر ہمیں یہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ محبت سے بڑا انقلاب کوئی اور کیا ہو گا۔
دلّی پہنچ کر ہم آگرہ جانے کے لئے بیتاب تھے مگر ابھی کچھ مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی تھے ایک تو آگرہ کا ویزہ ہمارے پاس نہیں تھا دوسرا ہمارے ساتھ جانے کے لئے کوئی تیار بھی نہیں تھا۔
ایل کے ایڈوانی کا ڈنر، امرتا پریتم سے ملاقات اور مشرف عالم ذوقی کے ہاں مشاعرہ باقی لوگوں کو آگرہ جانے سے روک رہا تھا تاج محل کے لئے ان کے دل میں وہ تڑپ نہیں تھی جو ہمارے دل میں تھی ان کی آنکھوں میں اس بے قراری کا شائبہ تک نہیں تھا جو ہماری آنکھوں میں دہک رہی تھی ہم نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا اگر ہمیں بغیر ویزہ کے بھی جانا پڑا تو ضرور جائیں گے چاہے اس کے کچھ بھی نتائج نکلیں۔ ہم سے نثار اے سنی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ دلی سے ہمیں آگرہ جانے کی اجازت لے دے گا کیونکہ وہ پہلے کئی بار آ چکا تھا اور ’’اُستاد‘‘ آدمی تھا۔ جب ہم نے اس کو وعدہ یاد دلایا تو اس نے فوراً ایک اور وعدہ کر لیا اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں مشورہ دیا کہ اس عمل میں دو دن لگیں گے بادشاہ سلامت آپ اس دوران دلی فتح کر لیں بعد میں آگرہ کر لیجئے گا اس کا مشورہ ہمیں پسند آیا اس لئے ہم نے اس کی جان بخشی کا حکم صادر فرمایا۔
ہم میر صاحب کی باتوں میں آ کر دلی تو پہنچ گئے مگر یہاں آ کر پتہ چلا کہ نہ تو دلّی کے گلی کوچے اوراق مصور ہیں اور نہ ہی ہر شکل تصویر جیسی اس لئے ہم جتنے دن دلی میں رہے لَا حَولَ ولاَ قوة پڑھے بغیر بھی شیطان کو بھگانے میں کامیاب رہے بظاہر دلی کی طرح دل کے اُجڑنے کا خطرہ نہ ہونے کے برابر تھا لہٰذا ہاتھ دل پر رکھنے کی نوبت کم کم آئی البتہ علی ارمان کا یہ شعر بار بار یاد آیا۔
دلی میں اور دل میں بڑا فرق ہے میاں
اک بار اُجڑ گیا تو بسایا نہ جائے گا
ہم چونکہ پبلشر تھے اس لئے دلّی میں ہم نے سب سے پہلے اُردو بازار کا رخ کیا تاکہ اپنی آمد کی اطلاع یہاں کے پبلشرز کو دے سکیں اور وہ ہماری آمد کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے بھر پور فائدہ اُٹھا سکیں اور ہمارے مشوروں سے مستفید بھی ہوں۔ ہماری اونٹنی جس مکتبہ پر رکی وہ اسلامی کتابوں کا مرکز دکھائی دیتا تھا۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ اس لئے رحمت برس رہی تھی کاروباری لوگ گاہک کو رحمت خداوندی سمجھتے ہیں اس مکتبہ کے پبلشر اور سیلزمین حضرات ماشاء اللہ سب کے سب باریش تھے ہم نے جس شخصیت کو اپنے تعارف کے لئے منتخب کیا اُن کا چہرہ پر نور تھا۔
سلام کرنے کے بعد ہم نے اپنا تعارف بطور پبلشر بھرپور طریقے سے کرایا اور ساتھ ساتھ فخریہ انداز میں یہ بھی باور کرا دیا کہ ہم لاہور سے آئے ہیں اور آپ کے مہمان ہیں۔ ابھی ہم نے بات مکمل بھی نہیں کی تھی کہ وہ مولوی صاحب ایک خسرے کی طرف متوجہ ہو گئے اور اس گستاخی پر ہم سے معذرت بھی نہیں کی لہٰذا ہم بھی شرمندگی مٹانے کے لئے خسرے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ پہلے ہمارا خیال تھا یہ خسرہ بھی پاکستانی خُسروں کی طرح ہو گا۔ پہلے کچھ دیر ناز و انداز دکھائے گا پھر ایک ٹھمکا لگا کر دعا دے گا، دو تین سیکسی باتیں کرے گا اور دس کا نوٹ لے کر چلتا بنے گا مگر یہاں تو گنگا الٹی بہہ رہی تھی اس خُسرے نے اپنے پرس سے بہت سے نوٹ نکالے اور مولوی صاحب کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہا کہ ان کے قرآن پاک مسجدوں میں رکھوا دینا اور گاڑی میں بیٹھ کر مکمل شان و شوکت سے روانہ ہو گیا۔ دلی کے خسروں کے متعلق سنا تو بہت تھا مگر دیکھا پہلی بار اور ساتھ ہی ساتھ خدا کا شکر بھی ادا کیا کہ ہمیں ’’مومن خُسرے‘‘ کی زیارت نصیب ہوئی تھی۔
ہم جب بھی اپنے تعارف کو مکمل کرنے کی کوشش کرتے کوئی نہ کوئی مومن خُسرہ جلوہ افروز ہو جاتا اور ہمارے مخاطب مولوی صاحب ہمیں نظر انداز کر کے خُسرے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہم بھی اس کارِ خیر میں رُکاوٹ بننا نہیں چاہتے تھے اس لئے صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا بالآخر ہم اپنا تعارف کرانے میں کامیاب تو ہو گئے مگر یہ ہمارے لئے کوئی نیک شگون ثابت نہ ہوا۔
مولوی صاحب فرمانے لگے۔
’’ہمارے لئے کیا لائے‘‘؟
ان کے اس ذو معنی جملے اور خُسروں کی مسلسل آمد نے ہمیں ڈرا دیا۔ یہ تو شکر ہے اُنھوں نے خود وضاحت کر دی ’’پاکستان سے کتابیں لائے کہ نہیں؟‘‘ ان کا انداز اب غصے والا تھا۔
ہم نے نفی میں سر ہلایا تو وہ ایک اور خُسرے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اب ہماری مردانگی پر حرف آ رہا تھا اس لئے ہم نے وہاں ایک منٹ بھی رکنا گوارا نہیں کیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ جب بھی انڈیا آئیں گے کسی بک سیلر اور پبلشر جیسی مخلوق کو شرف ملاقات نہیں بخشیں گے مگر اگلے ہی لمحے اس خیال کے آتے ہی کہ ہمیں کچھ کتابیں از حد ضروری خرید کرنی ہیں یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ہر شعبہ میں اچھے اور برے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایک اور پبلشر کے پاس موجود تھے وہاں خُسروں کی عدم موجودگی کے باوجود ہم سے بادشاہوں جیسا سلوک ہوا جیسا کہ بادشاہ، بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ لہٰذا ہم نے بھی انتقاماً ان سے کوئی کتاب نہ خریدی جو کتابیں درکار تھیں کسی اور وسیلے سے منگوا لیں۔ اس کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔
اذان ہوئی تو سب لوگوں نے جامع مسجد دلی کا رخ کیا۔ ہم بھی اذان کی آواز پر آبدیدہ ہو گئے۔ جامع مسجد دلی ایک مہربان میزبان کی طرح سامنے آ گئی جو ہمیں بڑی محبت سے بلا رہی تھی۔ ہمارے ساتھ جو بے رخی پبلشرز نے برتی تھی اللہ اکبر اللہ اکبر کی آواز نے اس کا ازالہ کر دیا۔ ہم نے اپنا آپ اس کی کھلی بانہوں میں دے دیا۔ ہمارے دل کو سکون اور آنکھوں کو قرار مل گیا۔ وضو کے دوران ہماری ملاقات ایک نوبیاہتا مسلمان جوڑے سے بھی ہوئی جو ہنی مون منانے دلی آیا ہوا تھا۔
اس بار ہم نے اپنا تعارف ڈرتے ڈرتے پبلشر کی بجائے بطور شاعر کروایا خلاف توقع تیر نشانے پر لگا اور اُنھوں نے نماز کے بعد دوبارہ ہم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ جامع مسجد دلی اور بادشاہی مسجد لاہور میں وہی فرق ہے جو ان دو شہروں اور ان شہروں میں رہنے والوں لوگوں کے دلوں میں ہے پھر بھی دونوں مسجدیں مجھے اُن بہنوں کی طرح لگتی ہیں جو تقسیم کے وقت ایک دوسرے سے بچھڑ گئی ہوں۔ جامع مسجد دہلی کے صحن میں جو تالاب ہے اس کے پاس بیٹھ جائیں تو پھر اٹھنے کو جی نہیں چاہتا۔ مسجد اور محبوب کی بانہوں میں ایک جیسا سکون ہوتا ہے دل کو عجب سا قرار آ جاتا ہے۔
اس شخص کے پہلو میں سکوں کتنا ہے جبکہ
مسجد نہیں، مندر نہیں گرجا بھی نہیں وہ
نوبیاہتا مسلمان جوڑے نے مسجد کے صحن میں اُڑتے کبوتروں کے درمیان ہمارے ساتھ تصویریں بھی بنوائیں۔ دلہن نے اپنے مہندی والے ہاتھوں سے ہم سے آٹو گراف بھی لئے اور دولہا میاں نے ایک غزل سنانے کی فرمائش بھی کی اور دوسری غزل سننے سے معذرت بھی۔ ہم نے بھی اس تھوڑے کو بہت سمجھا اور اُنھیں پاکستان آنے کی دعوت دے کر رخصت کر دیا۔ انہوں نے بھی رندھی ہوئی آواز میں ہمیں الوداع کہا اور اس طرح ممنون نگاہوں سے ہمیں دیکھا جیسے ہم نے اُنھیں سرکاری دورہ پر بلایا ہو۔ جامع مسجد کی سیڑھیاں اُتر کر ہم چاندنی چوک کی طرف چل پڑے ملحقہ بازار میں اگرچہ گھریلو استعمال کی اشیاء سستے داموں فروخت ہوتی ہیں مگر صفائی کا فقدان ہے یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ ہم پہلی بار دلی آئے تھے تو ہمیں اس کا احساس ہو رہا تھا۔ یہاں کے رہنے والے ہوتے تو شاید ان لوگوں کی طرح اس بد بودار فضا کے عادی ہو چکے ہوتے۔
لال قلعہ کے ہم بالکل قریب پہنچ گئے مگر اسے فتح نہ کر سکے حالانکہ ہم اتنے پر امید تھے کہ اپنی جیب میں ایک چھوٹا سا پاکستانی پرچم بھی ساتھ لائے تھے کہ اسے لال قلعہ پر چڑھ کر لہرائیں گے مگر ہمارا یہ خواب اس لئے شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا کہ لال قلعہ دیکھنے کے طے شدہ اوقات میں ہم وہاں نہ پہنچ سکے حقیقت تو یہ ہے کہ دشمن کو ہمارے عزائم کا پہلے ہی پتہ چل چکا تھا اور اس نے بہانہ بنا لیا ہم غلط وقت پر آئے ہیں۔ اب ہم اسے کیسے سمجھاتے کہ حملہ آور تو ہمیشہ غلط وقت پر ہی آتے ہیں خیر اتنی آسانی سے ہار ماننے والے تو ہم بھی نہیں تھے۔ ہم اگر لال قلعہ پر چڑھ کر پاکستانی پرچم نہ لہرا سکے تو دیوار کے ساتھ لگ کر لہرانے میں کامیاب ہو گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ فتح ہم نے بغیر کسی خون خرابے کے حاصل کی اور خود با سلامت ہنسی خوشی واپس لوٹ آئے۔
قلعہ سے باہر سڑک پر آٹو رکشہ والے آوازیں لگا رہے تھے مگر کوئی کوئی مرد مجاہد ان کی آواز پر لبیک کہہ رہا تھا۔ ہم سے ان میں سے ایک رکشہ ڈرائیور کی یہ کسمپرسی کی حالت دیکھی نہ گئی۔ اس کی درد بھری آواز نے ہمیں 50 روپے خرچ کرنے پر مجبور کر دیا اور ہم دلی کے مشہور اور تاریخی مقامات کی سیر کے لئے اس کے آٹو رکشہ میں براجمان ہو گئے بمبئ کی ایک ہندو فیملی یہاں پہلے سے ہمارے استقبال کے لئے موجود تھی اکثر ایسے مواقع پر بچے ہمیں دیکھ کے رونا شروع کر دیتے ہیں مگر اس بار ایسا نہیں ہوا۔ بچے تو کیا بڑے بھی ہمیں دیکھ کر سہمے سہمے سے بیٹھے تھے اور آخر کیوں نہ بیٹھتے ہم لال قلعہ کے فاتح جو تھے۔
گائیڈ نما ڈرائیور خود بول رہا تھا یا کیسٹ لگا رکھی تھی یہ ایک مُعمّا تھا۔ دونوں صورتوں میں ہمیں بغیر کسی توقف کے معلومات بہم پہنچائی جا رہی تھیں مثلاً یہ روڈ فلاں مسلم بادشاہ کے نام پر ہے یہ فلاں مسجد، یہ فلاں مندر اور گردوارہ ہے۔ اُنھیں کس نے بنوایا کیوں بنوایا یہ تمام سوال جنھیں ہم زبان پر لا نہ سکے اس کے جوابات اس نے ہمیں خود ہی دے دئے۔ اداکاروں کی کوٹھیوں سے لے کر راستہ میں آنے والی پان شاپس تک کے بارے میں اس نے ہمیں اپنا فرض منصبی سمجھ کر بریف کیا۔ ہم بھی اپنی قسمت پر نازاں تھے کہ پچاس روپے میں نہ صرف دلی کے مختلف مقامات کی سیر بھی ہو رہی تھی اور مفت میں رہنمائی بھی مل رہی تھی۔ جہاں وہ ضروری سمجھتا آٹو روک کر ہمیں حکم نامہ جاری کر دیتا کہ یہ فلاں تاریخی جگہ ہے یہاں کیا کیا دیکھنا ہے اور کتنی دیر میں واپس آنا ہے۔ ہمیں چار ونا چار ایسا کرنا پڑتا، اس کا ہونا جو ہمارے لئے غنیمت تھا۔ باتوں باتوں میں ہم نے برلا مندر، انڈیا گیٹ، سیکریٹیریٹ کی بلڈنگ، راشٹر پتی بھون، نہرو میوزیم اور اندرا گاندھی میموریل میوزیم دیکھ لیے اتنے مختصر وقت میں اتنی خوبصورت جگہوں کی سیر اور وہ بھی صرف پچاس روپے میں اتنی سستی سیاحت کا تو ہم نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔
ایک انگریز دانشور نے اپنے بیٹے کو ایک طویل خط لکھ کر آخر میں لکھا کہ میں یہ طویل خط تمھیں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ مختصر خط لکھنے کا میرے پاس وقت نہیں تھا چونکہ ہمارے پاس وقت کی کمی کا کوئی مسئلہ نہیں اس لئے ہم ان جگہوں کا مختصر تذکرہ کئے دیتے ہیں۔ برلا مندر دلی کے چند خوبصورت مندروں میں شمار کیا جاتا ہے راجستھانی سرخ پتھر سے بنایا گیا یہ مندر فنِ تعمیر کا نادر نمونہ ہے۔ یہ کناٹ پلیس کے بالکل مغرب میں واقع ہے۔ اس شوخ رنگ کے خوبصورت مندر کو ہندوستان کے ممتاز صنعت کار بی ڈی برلا نے 1938ء میں تعمیر کرایا۔ یہ لکشمی دیوی کے نام منسوب ہے جو خوشحالی اور اچھے مستقبل کی دیوی ہے۔
عام طور پر اسے برلا مندر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دور سے اس کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کسی دلہن نے عروسی لباس پہن رکھا ہو۔ ہم جب اس کے اندر داخل ہوئے تو مدھر آواز میں بھجن گائے جا رہے تھے اور یہ آواز جدید میوزک سسٹم کے تحت دیواروں میں نصب اسپیکروں سے آ رہی تھی۔ ہماری نظر قسمت کا حال بتانے والی آٹومیٹک مشین پر پڑی تو فوراً ہم نے اس میں پانچ روپے کا سکہ ڈال دیا۔ مشین نے ایک پرنٹنڈ پیپر باہر نکال دیا جس پر ہماری قسمت کا حال درج تھا۔ قسمت کا حال چاہے وہ ہاتھ دکھا کر معلوم ہو یا زائچہ نکال کر یا اسٹار کے ذریعے اگر ہمارے فائدے کی بات ہو تو ہم اس پر یقین کر لیتے ہیں بصورت دیگر نہیں۔ پیپر پڑھ کر ہم فوراً قسمت کے لکھے پر ایمان لے آئے۔ ہمارا مستقبل ہم پر اتنا مہربان ہے یہ تو ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ اب تک ہم بے جا شکوۂ تقدیر کرتے رہے تھے، لہٰذا ہم آنکھیں بند کر کے اچھے مستقبل کے سپنے دیکھنے لگے مگر داسیوں کی مدھر ہنسی نے جلد ہی ہماری آنکھیں کھول دیں۔ فضا میں ان گنت گھنگرو بجنے لگے۔
رنگ برنگی ساڑھیوں میں ملبوس ہندو لڑکیاں طشتریوں میں پھول اور جلتے دیئے اُٹھائے گزر رہی تھیں۔ سیندور لگائے جا رہے تھے دیوی کے درشن ہو رہے تھے ہم جتنی دیر اس مندر میں رہے اللہ کی شان دیکھتے رہے، اس کی مخلوق پر حیران بھی ہوتے رہے اور اپنے مسلمان ہونے پر شکر بھی ادا کرتے رہے جس کی وجہ سے ہم ہزار سجدوں سے بچ گئے تھے۔ ہمارے گائیڈ نما ڈرائیور نے ہمیں جو الٹی میٹم دیا تھا اس وقت پر ہمیں ہر حال میں آٹو تک پہنچنا تھا ورنہ وہ ہمیں بے یار و مدد گار چھوڑ کر چلا جاتا، یہ خیال آتے ہی ہم نے اتنے رومینٹک مندر میں مزید ایک لمحہ بھی رکنا گوارا نہ کیا اور برلا مندر سے باہر آ گئے۔
انڈیا گیٹ بہت اہم اور خوبصورت جگہ پر واقع ہے۔ یہ دہلی کی مصروف ترین شاہراہوں کے درمیان موجود ہے پھر بھی یہاں آلودگی اور شور کا احساس تک نہیں ہوتا اور نہ ہی مٹی اور دھول ہے۔ اس کا منظر ایک پینٹنگ جیسا ہے اور یہاں آنے والے لوگ اس پینٹنگ کا حصہ بن جاتے ہیں اس سے جدا نہیں لگتے کاش ہماری آزادی کی یاد گار مینار پاکستان کے اردگرد بھی ایسی فضا ایسی دلکشی قائم ہو جائے مٹی، دھول اور شور نے شاہی مسجد، شاہی قلعہ اور مینار پاکستان کے حُسن کو گہنا دیا ہے۔ شام کے وقت انڈیا گیٹ دیکھنے کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ آئے ہوتے ہیں جن میں غیر ملکی سیاح بھی کثیر تعداد میں ہوتے ہیں۔
نتھری نتھری فضا، وسیع و عریض پارک میں خوش رنگ پھول اور عین وسط میں سرخ پتھر کا انتہائی خوبصورت گیٹ اور اسے دیکھنے والی آنکھیں، بہت پیارا منظر ہوتا ہے کچھ فاصلے پر بالکل چھوٹا سا ایک اور گیٹ ہے وہ شاید اس لیے تعمیر کیا گیا ہے کہ انڈیا گیٹ کو تنہائی کا احساس نہ ہو۔ یہاں مختلف اسکولوں اور کالجوں کے طلباء و طالبات بھی نظر آئے اور بچے بھی سچ تو یہ ہے گھر ہو یا پارک اس کا حُسن بچوں سے ہی مکمل ہوتا ہے وہ باغ جہاں تتلیاں پکڑنے اور پھول توڑنے والے بچے نہ ہوں اُداسی کی تصویر نظر آتے ہیں۔ یہاں بھی تتلیاں پکڑتے بچوں نے ہماری سہانی شام کچھ اور سہانی کر دی کچھ خوبصورت چہروں نے اس شام میں اپنے رنگ بھر دئے مگر ہم دلّی کی کوئی شام چرانہ سکے۔ حوصلہ ہی نہیں ہوا ایک انجانا خوف اور ڈر تھا ہم ہر وقت اس ڈر کے حصار میں ہوتے کہ ایک دشمن ملک میں ہیں یہ احساس ایک لمحہ کے لئے بھی ختم نہ ہوا۔
دلّی میں ہمیں ہر مقام پر پلاوی، ایزون اور پرساد کی یاد آتی رہی مگر اب ان کو بھول جانا ہی بہتر تھا لیکن ہم میں ایک خرابی ہے وہ یہ کہ جو لوگ اچھے لگیں ان کو بھول جانا ہمارے بس میں نہیں بلکہ یہ تو خود اپنا آپ وہاں بھول آتا ہے۔
بھول آیا میں اپنا آپ وہاں
چار دن جس جگہ قیام کیا
جب شام کی رنگینی، اُداسی اور فسردگی میں بدلنے لگی تو ہم وہاں سے لوٹ آئے اسی میں ہمارا فائدہ تھا وکرم ہوٹل کے پاس اُترتے ساتھ لاجپت بھون ہے۔ وہاں پہنچ کر دل کو تسلی ہو جاتی سارا ڈر ختم ہو جاتا پتہ نہیں اس کی کیا وجہ تھی۔
دلّی کی عبادت گاہوں میں ہمیں بہائیوں کا لوٹس ٹیمپل (کنول مندر) سب سے زیادہ پسند آیا سنگ مرمر سے بنی یہ عمارت اپنی مثال آپ ہے شاید کہ دلی میں اس سے خوبصورت عمارت کوئی اور ہو اس کا ڈیزائن کنول کے پھول کے مشابہہ ہے۔ ایک بات جس نے لوٹس ٹیمپل کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیئے ہیں وہ ہے اس کے اردگرد تا حد نظر پھیلے ہوئے سبزے کے میدان اور ان میں کھلے ہوئے رنگا رنگ پھول۔
دلّی شہر جہاں کوئے یار میں دو گز جگہ نصیب نہیں ہوتی اتنے وسیع رقبہ پر لوٹس ٹیمپل کی تعمیر نے ششدر کر دیا۔ تاج محل کی طرح یہ خوبصورت ٹیمپل بھی اپنی مقناطیسی کشش سے دور سے اپنی طرف کھینچتا ہے۔ قدم خود بخود اُس کی طرف اُٹھتے چلے جاتے ہیں۔ کیاریوں کے درمیان کنول مندر تک اینٹوں کی سڑک ہے اس سڑک پر چل کر ٹیمپل تک جانا بہت خوبصورت نظارہ ہے اور کیسے نہ ہو۔ وہاں کنول مندر جیسی خوبصورت لڑکیاں استقبال کے لئے موجودہ ہوتی ہیں اور وہ بھی خموشی اور دھڑکنوں کی زبان میں محو کلام، ہاتھوں میں بہائی مذہب کا لٹریچر تھامے، زندگی پر پیار آنے لگتا ہے۔ سفید کنول مندر کی خوبصورت عمارت، اُس کے چاروں طرف نیلے پانی کے تالاب اور سفید کپڑوں میں ملبوس سندر بہائی لڑکیاں۔ پرستان اور پریوں کا ذکر کہانیوں میں پڑھا تھا۔ آج تو ہم سچ مچ وہاں موجود تھے۔ ایک لمحے کے لئے یوں لگا جیسے ہم رستہ بھولے شہزادے ہیں۔
کنول مندر کے اندر کی خوبصورتی اور دلکشی سوا تھی۔
مکمل خاموشی۔
انسان اور خدا کی ٹوٹے ہوئے رشتے کو جوڑنے کا وسیلہ۔
یہاں زندگی ٹھہر گئی تھی۔ وقت جیسے رک رک کر قدم اٹھا رہا ہو۔
آج پہلی بار احساس ہوا خاموشی سے پیاری بھاشا اور کوئی نہیں۔ یہاں ہمارا قیام نہایت خوشگوار تجربہ تھا۔ بہائی لڑکیوں کی مسکراہٹ نے تو خاموشی کو گیتوں بھرا بنا دیا۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...