آج بیا کی برات تھی سفینہ بیگم وقفے وقفے سے بیا کی رخصتی کے خیال سے آنسو بہا چکی تھی
بیا پالر تھی اور گھر میں افراتفری لگی ہوئی تھی کیونکہ برات پہچنے والی تھی اور یہ لوگ ابھی گھر سے نہیں نکلے تھے
زاور کے ڈانٹنے پر خواتین باہر نکل گئی پر زاور کی دھمکی پر کے وہ اُنہیں یہی چھوڑ جائیں گے تولڑکیاں آدھی چیزیں ہاتھ میں پکڑے باہر کی طرف بھاگیں کسی کے ہاتھ میں چوڑیاں اورکوئی اپنے جوتے ہاتھ میں لیے ننگے پاؤں بھاگی کیونکہ زاور جتنے نرم خو بیا کے لیے تھے فیملی میں اُتنے ہی غُصیلے مشہور تھے
دس منٹ میں سب ہال میں تھے لڑکیوں نے اپنی پوری تیاری گاڑی میں کر لی تھی اور اب برات کے استقبال کے لیے راہ داری میں کھڑی ہو گئی
شکر ہے کوئی تو آیاعائشہ بھابھی کے برائیڈل روم میں آنے پر بیا جو اکیلی بیٹھی تھی بولی
بیا ڈیپ ریڈ کامدانی لہنگے کُرتی میں نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی
ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہوں اشعر سے نظر اتروا لینا
بیا جھینپ کر سر جھکا گئی اور اشعر کے بارے میں سوچنے لگی جوچار دن سے ناراض تھا بیا کے میسج کال کا بھی جواب نہیں دے رہا تھا
باہر شور اُٹھا تو بھابھی باہر کو بھاگی لگتا برات آ گئی
وجیہہ قد اور چوڑے شانوں ساتھ کالی ویلوٹ کی شروانی اور کالے ہی کولہ پہنے پوری برات پر چھایا ہوا تھا
نکاح کے لئے زاور بھائی زمان بھائی اور عظیم صاحب مولوی صاحب کے ہمراہ برائیڈل روم میں آئے تو بیا کا گھونگھٹ نکال دیا گیا
زاور بھائی نے بیا کے سر پر ہاتھ رکھ کر نکاح نامہ پر سائن کر نے کو کہا
بیا نے سائن کیے اور زاور بھائی کے سینے سے لگا کر رو دی تو زاور اور زمان بھی اپنے آنسوں کو ضبط کرنے لگے
عظیم صاحب نے آگے بڑھ کر بیا کا سر تھپکا اور مبارک دیتے ہوئے باہر نکل گئے
بیا امی کے گلے لگ کے سسک رہی تھی جب عائشہ بھابھی نے آگے بڑھ کر بیا کو سنبھالا
باہر نکاح کی خوشی میں چھوارے بٹ رہے تھے اور اطہر نے اشعر کو گلے لگا کر مبارکباد دیتے ہوئے کہا لو بھائی آج سے تم بھی بیوی والے ہو گئے ہو وہ بھی بیا جیسی بیوی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا تو اشعر نے ہنستے ہوئے اطہر نے کندھےاچکائے
بیا کو اسٹیج تک لایا گیا تو اشعر نے آگے بڑھ کرہاتھ بڑھایا تو بیا نے ہچکچاتے ہوئے اشعر کا ہاتھ تھاما تو ساری ینگ جنریشن نے ہوٹنگ سٹارٹ کر دی
اشعر نے کسی کی بھی پرواہ کیے بغیر بیا کے کانپتے ہاتھ کو دبایا اور اسٹیج کے سٹیپ چڑھنے میں بیا کی مدد کی اور بیا کو صوفے پر بیٹھا کر خود بھی بڑی شان کے ساتھ اسکے پہلو میں بیٹھ گیا
واہ بھائی نکاح ہوتے ہی شیر ہو گئے اظہر نے کہا تو اطہر بولا کوئی نہیں بھائی بن جاؤ شیر گھر جاتے ہی بیگھی بلی بن جاؤ گے اور سب بچوں ساتھ بڑے بھی ہنس پڑے
رخصتی کے وقت بیا کے رونےنے سب کو رولا دیا ارم نےبڑی مشکلوں سے بیا کو چپ کراتے ہوئے گاڑی میں بیٹھایا تو بیا اور اشعرکی گاڑی اپنے نئے راستے پر گامزن ہو گئی
_+_+_+_+_
اشعر کمرے میں آیا تو بیا کو چپ چاپ بیڈ کے وسط میں سر جھکائے ہوئے بیٹھے دیکھ کر ایک طمانیت خیز خوشی نے اس کے پورے وجود کو اپنے حصار میں لیا
ورنہ جیسے وہ سارے راستے روتے آئی تھی اشعر کو کوفت ہونے لگ گئی تھی
بیا کے مقابل بیڈ پر بیٹھا اور سلامتی بھیج کر بیا کا ہاتھ پکڑا
ہاں تو مسز اشعر اب بولے یہ اتنا رونہ دونہ کیوں مچایا تھا
کچھ بولو گی نہیں بیا کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا اور دوسرے ہاتھ سے ٹھوڑی سے چہرہ اُنچا کیا
بیا تھوک نگلتے ہوئے بولی آپ اب بھی مجھ سے ناراض ہیں
یار ناراض اپنی منگیتر سے تھا نکاح میں آئی اور ساری ناراضگی ختم
سچ آپ اب مجھ سے ناراض نہیں اور میں سوچ سوچ کر ایوے پریشان ہوتی رہی کہ پتا نہیں آپ کتنا غصہ کریں گے بیا نے اُچھل کر پر جوش ہوتے ہوئے کہا تو اشعر اس کے بچپنے پر ہنس دیا اور کھینچ کر اُسے اپنے قریب کر لیا اور بیا کے ماتھے پر بوسہ دیا تو بیا نے شرماتے ہوئے اشعر کے سینے میں منہ چھپا گئی
_+_+_+_+_
آج مسز ہمدانی اور اسفی سکندر کا رشتہ لے کر آفریدی ہاؤس آئیں
مسز مصطفی آفریدی سے اپنا تعارف سکندر کی والدہ کے تو پر کروا کے انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا تو چائے لے کر آتی ہما ٹھٹھک کر رک گئی
اسفی نے سادہ سے شلوار قمیض میں کرینے سے ڈوپٹہ لیے اس مصوم سے حسن کو رکتے دیکھ کر فوراً پہچان لیا کہ ہو نا ہو یہی ہما ہے اور بھائی کو ان کا یہی مصوم حُسن پسند آیا ہوگا
ارے آپ روک کیوں گئ اندر آئے نہ آپ ہی کا گھر ہے اسفی کے کہنے پر وہ گھبراہٹ میں اندر آئی اور چائے سرو کرنے لگی
پہلے اسفی کو پھر مسز ہمدانی کو چائے دے کر جانے لگی تو انہوں نے اسے روک کر اپنے پاس بیٹھا لیا
ماشاءاللہ بہت پیاری بچی ہے آپ کی مسز آفریدی کو کہا
وہ محض سر ہلا کر رہ گئی اور ہما باقاعدہ کانپنے لگی
جاؤ بیٹا کچن میں کھانے کا انتظام کرو
مسز آفریدی کےگھور کر کہنے پر ایسے بھاگی جیسے قید سے آزادی ملی ہو
اور اسفی اتنی نفرت سے اِن کا گھورنا دیکھ کر رہ گیا
_+_+_+_+_+_
وہ ایک روشن صبح تھی
اشعر باتھ روم میں تھا تو بیا اپنے گیلے بالوں کو جوڑے کی شکل میں لپیٹتے ہوئے کھڑکی میں آ کر کھڑی ہو گئی
وہ باہر دیکھنے میں اتنی محو تھی کہ اشعر نے آہستگی سے آ کر بیا کو بانہوں میں بھر لیا
بیا ہڑبڑا گئی
تو اشعر نے مسکراتے ہوئے بیا کے کندھے پر منہ رکھا اور کہاکیا دیکھا جا رہا ہے
کچھ نہیں اپنی نئی زندگی کی روشن صبح دیکھ رہی
تو ان آنکھوں میں دیکھو اشعر نے بیا کو اپنی طرف گھماتے ہوئے شرارت سےکہا تو بیا کا جوڑا کھل گیا
اور وہ جھینپ گئی
اشعر نے بیا کے گالوں کی سرخی دیکھی اور بے ساختہ گستاخی کر بیٹھا اور بیا شرما کر پیچھے ہوئی تو اشعر نے کھینچ کر خود میں سمو لیا اور بولا
ہماری روشن زندگی کی پہلی صبح مبارک ہو
دستک کی آواز پر بیا اشعر سے ہٹ کر کھڑی ہو گئی تو اشعر نے مسکراتے ہوئے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا
شب بخیر دولھے میاں تو اشعر نے ارم کو بازو کے حصار میں لے کر اندر کیا اور خود باہر نکل گیا
ارم بیا کی طرف آئی اور سرگوشیوں میں چھیڑنے لگی
تبی ہنستے ہوئے ساری لڑکیاں اندر آئی اور بیا کے سر ہو گئی بیا اُن کی لیے نئی نہیں تھی اسی لیے سب بیا کو اشعر کے نام پر چھیڑ رہی تھی
اچھا بیا منہ دکھائی میں کیا ملا تو بیا اُنہیں اشعر کا دیا ہوا بریسٹ دکھانے لگی اور خود اشعر کی رات بریسلیٹ پہناتے ہوئے شرارت یاد کر کے مسکرا اُٹھی
_+_+_+_
بھائی آپ کو ایسی لڑکی پسند آئی کانٹ بلیو اتنی سادہ ناپہننے کاسلیقہ نا اُڑنے کا
تو اور کیا خالی خُولی حُسن کو چاٹنا ہم نے مسز ہمدانی نے بھی کہا
تو سکندر دونوں کی اتنی سنجیدگی سے کی گئی گفتگو سُنا کر پریشان ہو گیا اور جب بولا تو ایسے جیسے کتنا کچھ ضبط کر رہا ہو
جیسے آپ دونوں مناسب سمجھیں اور آگے بڑھ گیا ابھی دو قدم ہی بڑھائے تھےکہ اسفی اور امی کے قہقہے پر روکا اور جب موڑا تو اسفی کو باقاعدہ قالین پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا
بیٹے ہم مذاق کر رہے تھے آپکی پسند جیسی بھی ہوتی ہمیں قبول تھی اور ہما تو ہے بھی بہت پیاری بچی بالکل موم کی گڑیا جیسی تو سکندر خوش ہو کر اسفی کی طرف آیا جو کہ ابھی بھی سکندر کو چڑا رہا تھا شرم تو نہیں آتی بڑے بھائی کو چھیڑ تے ہوئے
بھائی ابھی تو چھیڑ نے دیے بعد میں پتا نہیں بھابھی سانس بھی لینے دیتی ہمیں یا مجھے اور مما کو نوکر بنا کر رکھتی آخرکار سارا کچھ اُن کے شوہر کا ہے اور آپ تو ہونے ہی اُنکے حکم کے غلام اسفی نے آنکھوں میں شرارت لیے میسنی شکل بنا کر کہا تو
سکندر اُس کی شرارت سمجھتے ہوئے بھی سنجیدہ ہوا اسفی اگر تیرے دل میں ایک فیصد بھی ایسا ڈر ہے نہ تو خدا کی قسم مجھے شادی نہیں کرنی
ارے بھائی کیا ہو گیا مذاق کر رہی ہوں
بیٹا آپ تو مذاق بھی نہیں سمجھتے پتہ تو ہے اسفی کی عادت کا مسز ہمدانی نے دونوں کے پاس آ کر کہا
امی اسفی کے مزار نے واقعی مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اگر ہما ویسی نہ نکلی تو میں کیا کروں گا میں تو آپ دونوں سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہوں گا
سکی بھائی میری بات لکھ لے بھابھی بہت اچھی بہو بھابھی اور بیوی ثابت ہونے والی ہیں
اور ندا کے بارے میں کیا کہوں گے
تو اسفی نے سر کجھاتے ہوئے کہا بھائی وہ زرا تیز مزاج ہے پر دل کی اچھی ہیں
اسفی کے ایسے کہنے پر سکندر ہنس پڑا تو امی اور اسفی نے ہنسنے میں ساتھ دیا
_+_+_+_+
آج زمان اپنی فیملی کے ہمراہ پاکستان چھوڑ گیا تھا اور پیچھے سب ایک دوسرے سے اپنے آنسو چھپاتے پھر رہے تھے
اشعر نے بھی بیا کو لاہور نہیں رہنے دیا کیونکہ وہ جانتا تھا وہ وہاں رہے گی تو جالہ کے ساتھ مل کر روتی رہے گی
بیا آج تمہیں ایک جگہ سے دال کھلاتا ہوں انگلیاں چاٹتی رہ جاؤ گی جب بھی اس سائیڈ پر آتا ہوں ضرور کھاتا ہوں اور ہاں وہاں پاس ہی گول گپے بھی بڑے زبردست ملتے ہیں پتا جب میں پہلی بار کھائے تو سوچا تمہیں ضرور لاؤ گا یہاں پر
پر کیا
کچھ نہیں یار دفع کرو اشعر بیا کا دھیان بٹانا تھا اور کامیاب بھی رہا
اشعر بتائیں نہ
کچھ نہیں بھئ دوکان دار سے لڑ بیٹھا تھا
کیوں
بیا ہر بات بتا نے والی نہیں ہوتی اشعر سے جب کوئی بات نہ بنی تو ٹوک دیا
اشعر
جی جانِ اشعر
اشعر کے اس طرض مخاطب پر ہمیشہ کی طرح جھینپ گئی اور اشعر نے اسی طرح اسے الجھائے رکھا
_+_+_+_
بیا مجھے تم سے بات کرنی ہے بیا برتن دھو رہی تھی جب اطہر نے آ کر کہا
اطہر کے بیا کہنے پر سب اُسے ٹوک چکے تھے پر اُسکا کہنا تھا بیا میری بہن پہلے ہے بھابھی بعد میں اس لئے میں تو بیا ہی کہوں گا
بولوسُن رہی ہوں
ایسے نہیں تم میرے ساتھ آؤ
اچھا تم چلو میں برتن دھو کر آتی ہوں
بیا میں کہہ رہا ہوں نہ چلو اس نے نل بند کر کے کیھنچا
اطہر اب تو مجھے تشویش ہونے لگ گئی ہے ایسی کیا بات ہے
لان میں لا کر کرسی پر بیٹھایا اور خود دوسری کرسی پر سر گرا کر بیٹھ گیا
اطہر بیا نے اُس کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر متوجہ کرنا چاہا
بیا انعم کا رشتہ ہورہا ہے
بیا نے گہری سانس لی اور کہا
تو
بیا میں اُسے پسند کرتا ہوں
لیکن اب تو اُسکا رشتہ ہو رہا ہے
لیکن ابھی ہوا تو نہیں نہ
تو تم کیا چاہتے ہو اب
میں – – – میں شادی کرنا چاہتا ہوں اطہر نے جھنجھلا کر کہا
جبکہ تم ابھی ہاوس جاب کر رہے ہو اور تمہیں اسٹیبلش ہونے میں مزید دو سال لگ سکتے
میں جانتا ہوں پر- – –
اچھا نہ پریشان نا ہو میں اشعر اور خالہ سے بات کرتی ہوں
پکا
ہاں پکا پر پہلے کھانا کھاؤ
تم لگاؤ میں آتا ہوں
اور بیا کو جاتے دیکھ کر سوچنے لگا کہ شادی کے چھ ماہ بعد بھی ویسی ہی ہے انہیں تو کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ بیا کوئی نیا اضافہ ہے گھر میں اُس نے شادی کے ہفتے بعد ہی سارے گھر کی ذمہ داریاں ایسے سنبھالی جیسے صدا سے اسی گھر میں رہتی ہو کہیں سے لگتا ہی نہیں تھا یہ وہی بیا ہے جو گھر کے کام خالہ کی ڈانٹ پر کرتی تھیں
_+_+_+_+_
بیا کو صبح سے سر بھاری بھاری لگ رہا تھا لیکن اُس نے کسی کو بتایا نہیں بس اطہر سے سرسری ذکر کر کے دوائی لے کر کھا گئی پر جب اگلے دن بھی طبعیت بوجھل رہی تو اشعر کو پریشان کرنے کی بجائے اُسے آفس بیجھ کر خالہ پاس آگئی خالہ وہ میری طبیعت کچھ دنوں سے بوجھل سی ہے اور عجیب سُستی سی چھائی ہے خالہ تو نہال ہوتے ہوئے بیا کو گائینی پاس لائی اور ڈاکٹر کے کنفرم کرنے پر تو مانو خالہ کے پاؤں زمین پر نہیں لگ رہے تھے اور بیا اُسکے لیے تو یہ احساس ہی انوکھا تھا کہ وہ ماں بننے والی ہے اُسکے پیروں میں جنت آنے والی ہے
گھر آتے ہی اشعر کو شام میں جلدی آنے کا میسج کیا اور شام ہونے کا انتظار کرنے لگی
شام کو اشعر کے آنے سے پہلے بیا اچھے سے ڈریس آپ ہوئی کالی شفون کی فراک جس کے گلے پر سفید دھاگے کا کام تھا کانوں میں سفید جھمکیاں بالوں کی فرنچ چوٹیا بنائی اپنے آپ کو آئینے میں دیکھا اور شرما کر چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا اور انتظار کرنے لگی کہ کب اشعر آئے اور وہ اتنی بڑی خبر اُس سے شئیر کریں
نو سے دس اور پھر گیارہ بج گئے پر اشعر نہیں آیا اور بیاکو انتظار کرتے کرتے آنے والے وقت سے انجان بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے سو گئی
_+_+_+_+_
مسز ہمدانی کے فون کر کے پوچھنے پر مسز آفریدی نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آفریدی صاحب ہما رشتہ کہیں اور کرنا چاہتے
حالانکہ حقیقت میں انہوں نے آفریدی صاحب کو بتایا بھی نہیں کیوں کہ وہ ہاتھ آئی مفت کی ملازمہ تھوڑی گوانہ چاہتی تھی وہ سمجھ رہی تھی کہ باقی سب اس رشتے سے انجان ہیں جبکہ وہ یہ نہیں جانتی تھی کے سکندر باتوں باتوں میں نبیل سے شکوہ کرچکا ہے اور نبیل کی حیرانی پر سکندر کو اسفی کی بات یاد آئی
بھائی میں آپ کو پہلے کہاتھاآپ نبیل بھائی کو انوالو کرے مجھے آپکی متوقع ساس کے تیور زرا پسند نہیں آئے تھے اور وہ بھابھی کوایسے گھور رہی تھی جیسے ہم اُنکی ایما پر گئے ہوں ہو نہ ہو انہوں نے کسی کو بتائے بنا خود ہی امی کو انکار کیا ہے
تم فکر نہ کرو میں پاپا سے بات کر کے آج ہی بتاتا ہوں تمہیں نبیل کے بولنے پر سکندر چونک کر متوجہ ہوا
ہما مسز آفریدی کی دور کی رشتہ دار کی بیٹی تھیں جو والدین کی وفات بعد کچھ عرصہ سے یہاں ہی قیام پزیر تھی نبیل اسے بہن اور آفریدی صاحب بیٹی کی طرح ہی ٹریٹ کرتے پر مسز آفریدی اُسے ملازمہ سے زیادہ درجہ دینے کو تیار نہ تھی سکندر کے گھر آنے پر ہما نے اُسے سرو کیا تو نبیل نے اُسے اپنی بہن کہہ کر ہی متعارف کرایا
نبیل نے پاپا سے بات کی تو انہوں نے سکندر کو مثبت جواب دینے کو کہا
پر مما
تمہاری مما کو میں سنبھال لوں گا ویسے بھی تم تو لندن جا ہی رہے ہو اور میں بھی یہاں سب کچھ وائنڈاپ کر تمہارے پاس وہاں ہی سیٹلڈ ہونے کا سوچ رہا ہوں
سچی پاپا آئی ایم سو ہیپی نبیل خوش ہو کر باپ کے سینے سے جا لگا
نبیل اور آفریدی صاحب کے سمجھانے پر مسز آفریدی سادگی سے نکاح و رخصتی کرنے پر راضی ہوئی گو کہ وہ اُسے بِیاہنا بھی ملازمہ کی طرح ہی چاہتی تھی
مسز ہمدانی اور سکندر تو ان کے ماننے پر خوش ہو گئے پر اسفی نے کافی ولولا مچایا لیکن ماں کے سمجھانے پر بھائی کی خوشی کے لیے چپ ہو گیا پر کچھ سوچ کر مسکرا بھی اٹھا
_+_+_+_
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...