شاہزیب کی ڈانٹ کا اس پر خاطر خواہ اثر ہوا تھا۔چند دنوں سے اسکی طبیعت خراب تھی اور جب سے زوبیہ بیگم کے گھر سے لوٹی تھی ٹھنڈ لگنے کیوجہ سے بخار بھی رہنے لگا تھا اس لیے بھی وہ کمرے میں بند ہو کر رہ گئی تھی زیان اور کریم یزدانی کا بھی پہلے جیسا خیال نہیں رکھ پا رہی تھی جس کا قصوروار انہوں نے شاہزیب کو ٹھہرایا تھا اور اسکی اچھی خاصی کلاس بھی لے ڈالی۔
آپ مجھ سے ناراض ہیں؟ وہ صوفے پر بیٹھی موبائل کیساتھ بزی تھی جب شاہ زیب نے اس سے پوچھا
اس نے بغیر اسکی طرف توجہ دیے نفی میں سر ہلایا
شاہزیب اسکے پاس آکر بیٹھا اور موبائل اس کے ہاتھ سے لے کر اپنی گود میں رکھا
پھر بیزار سی کیوں رہتی ہو کیا میرا ساتھ پسند نہیں ہے؟ اس نے رابی کو اپنی طرف متوجہ کیا
میں نے ایسا کب کہا۔ رابی نے اسکی بات پر سر اٹھایا
میں بہت شرمندہ ہوں۔مجھے تمہیں ڈانٹنا نہیں چاہیے تھا پلیز معاف کر دو۔ شاہ زیب نے اس سے معافی مانگی یہ سب کریم یزدانی کی ڈانٹ کا اثر تھا
میں آپ سے ناراض ہو ہی نہیں سکتی۔اس نے دل سے کہا تھا
پھر یہ سب کیا ہے ہر وقت کمرے میں کیوں پڑی رہتی ہو؟
طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اس نے سر جھکا کر کہا تھا
تو پہلے بتاتی نا ابھی ڈاکٹر کے پاس چلو۔ شاہزیب کو اپنی لاپرواہی پر غصہ آیا تھا
اسکے مسلسل انکار کے باوجود شاہزیب اسے لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا تھا اور جو خبر ڈاکٹر نے سنائی شاہزیب کا دل خوشی سے بھرنے کے لیے کافی تھی باپ بننے کا احساس اسے سرشار کر رہا تھا اسکے چہرے سے روشنیاں پھوٹ رہی تھی۔اور جب گھر آکر اس نے یہ خبر کریم یزدانی کو سنائی وہ سجدہ ریز ہو گئے اپنے بچوں کی صحت سلامتی کےلیے اور اس گھر کی خوشیوں کے لیے۔
۞۞
آنے والے دنوں میں شاہزیب نے اسکا حد سے زیادہ خیال رکھا تھا۔اس کے کھانے پینے، سونے جاگنے اور اسکی صحت کا۔
اور پھر وہ وقت آگیا جب ان کے گھر گول مٹول سی لڑکی نے جنم لیا وہ ڈسچارج ہو کر گھر آ گئی تھی۔بہن کے آنے جانے کی وجہ سے زیان کی خوشی دیدنی تھی وہ اچھل اچھل کر خوشی کا اظہار کر رہا تھا۔
شاہزیب نے پہلی بار اپنی بیٹی کو دیکھا اور اسکو بانہوں میں اٹھا کر کہا “اسکا نام ایمل بتول رکھوں گا”
وہ جو آنکھیں موندھے خاموشی سے لیٹی تھی شاہزیب کی بات پر اسکی آنکھیں پٹ سے کھل گئی تھی۔”یہ نام تو وہ اسکی ڈائری پر شعر سمیت دیکھ چکی تھی”
“نہیں” رابی نے نفی میں سر ہلایا تھا
کیوں۔وہ اسکے گال چومتے ہوۓ بولا
اسکے علاوہ آپ جو نام رکھیں مگر یہ نام نہیں رکھنے دونگی”اس نے اٹل لہجے میں کہا تھا
اس نام میں کیا خرابی ہے؟ شاہزیب نے اسکے پہلو میں اسے واپس رکھتے ہوۓ کہا اسے حیرت تھی کہ آخر ایمل کے نام پر رابی کا رویہ ایسا کیوں ہو گیا۔رابی نے آنکھوں پر بازو رکھ لی تھی جسکا مطلب وہ اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد سہیل احمد اور ناصرہ بھی تحائف کیساتھ آپہنچی تھی۔ناصرہ بیگم رابی سے برے دل سے ہی ملی تھی انکے دل میں یہی خیال تھا کہ ” آج اگر یہ رابی نہ ہوتی تو میری حِرا اس گھر کی بہو ہوتی” مگر یہ تو نصیب کا کھیل ہے جب سے ان پر یہ حقیقت کھلی تھی کہ شاہزیب پہلے سے شادی شدہ نہیں تھا انکا رویہ رابی سے کافی سخت ہوگیا تھا۔
سہیل احمد اور ناصرہ کے جانے کے بعد وہ اسکے لیے سوپ لے کر کمرے میں آیا
یہ جلدی سے پی لو۔ شاہزیب نے سائیڈ ٹیبل پر باؤل رکھا۔
“ایمل نام اچھا ہے نا” رابی نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا
“یہی نام ٹھیک رہے گا”اس نے شاہزیب کیطرف دیکھتے ہوۓ کہا
یہ سوپ پی لو۔ اس نے رابی کی بات کو نظر انداز کر دیا تبھی ننھے وجود نے تیز آواز میں راگ الاپنے شروع کر دیے تھے۔اس نے بے بسی سے شاہزیب کو دیکھا اور وہ اسکی صورت دیکھ کر مسکراہٹ چھپاتا باہر نکل گیا
۞۞
بچوں کو پالنا اسکے لیے نیا تجربہ تھا اور کافی مشکل بھی۔اور اوپر سے زیان کے ایگزام بھی سر پر آگئے تھے وہ خدا کا شکر تھا کہ ایک بوڑھا وجود گھر پر تھا یعنی کریم یزدانی جو زیان کی پڑھائی کے معاملے میں کافی اسکی مدد کردیتے تھے۔شاہزیب کو بزنس سے فرصت نہیں تھی گھر آتا تو تھوڑی دیر زیان اور ایمل کیساتھ وقت گزار کر سو جاتا یا فائلوں میں سر کھپاتا رہتا۔
ایمل کی صبح سے طبیعت خراب تھی وہ مسلسل رو رہی تھی۔ وہ اسے کبھی شانوں پر ڈال کر کمرے میں ٹہلتی کبھی بازوؤں میں جھلاتی۔ شام کو شاہزیب آیا تو وہ ایمل کو اسکی گود میں ڈال کر رونے لگی دن بھر اسکو اٹھا اٹھا کر اسکے بازو شل ہو گئے تھے کمر میں بھی ناقابلِ برداشت درد تھا۔
ارے کیا ہوا ؟ وہ ایمل کو گود میں اٹھا کر تھپکنے لگا اب وہ چپ ہو چکی تھی اور غنودگی میں تھی مگر رابی رونے میں ہی مصروف تھی اس وقت اسے بالکل نہیں پتہ تھا کہ کچھ بچوں کیساتھ یہ مسٔلہ ہوتا ہے کہ وہ مخصوص وقت پر روتے ہیں۔
وہ ایمل کو آہستگی سے بیڈ پر رکھ اسکے پاس آکر بیٹھا
کیوں رو رہی ہو؟
آپکو میری ذرا فکر نہیں ہے سارا دن اس نے مجھے آرام نہیں کرنے دیا۔ سر درد سے پھٹا جا رہا ہے بازو شل ہو گئی ہوں جسم کا پور پور درد کر رہا ہے۔ وہ دوپٹے سے ناک رگڑتے ہوۓ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔ اتنا نہیں ایک دن آفس سے چھٹی کر لیں کام کی پڑی رہتی ہے آپکو۔ شاہزیب نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی
گھر بیٹھوں گا تب بھی تم کو اعتراض ہوگا کہ کام نہیں کرتے ان کو ذمہ داری کا احساس نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔
شاہزیب کی بات نے پر وہ ایک ناراض نظر اس پر ڈال کر اٹھ گئی اور ایمل کے پاس جا کر لیٹ گئی۔
۞۞
اگلے چند دن آرام سے گزرے پھر حِرا کی شادی سر پر آگئی اسکا رشتہ دور پار کے کسی کزن سے ہوا تھا جنکا تعلق کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔وہ تو اس سارے معاملے میں بوکھلا کے رہ گئی۔زیان تو چھے سال کا تھا مگر ایمل چھوٹی تھی اسکو سنبھالنا خاصا مشکل تھا اسکی اپنی صحت بھی بہت گِر گئی تھی۔
شاہزیب نے اس کو حرا کی مہندی والے دن سہیل احمد کے گھر چھوڑا تھا۔زیان کو وہ اپنے ساتھ گھر لے آیا تھا۔
اس نے ہر رسم میں حصہ لیا تھا اور جب ایمل کو سلانے کمرے میں آئی تبھی ناصرہ بیگم سر پر آکھڑی ہوئی
سب مہمان ابھی ہال میں ہیں اور تمہیں سونے کی پڑی ہے۔
میں تو ایمل کو سلانے آئی تھی۔ اس نے پاس لیٹی ایمل کی طرف دیکھ کر کہا
مہمانوں کا انتظام بھی کرنا ہے مگر یہاں میزبان ہی اپنے بستر سنبھال چکے ہیں۔ وہ بڑبڑاتے ہوۓ باہر نکل گئی۔
رابی نے اسی وقت شاہزیب کو کال کر کے بلایا اور اسکے ساتھ واپس گھر آگئی پورا راستہ خاموشی سے کٹا تھا شاہزیب نے بھی اس سے پوچھ گچھ کرنے کی کوشش نہیں کی۔
بارات اور ولیمے کا فنکشن بھی اس نے شاہزیب کیساتھ اٹینڈ کیا اور اسی کے ساتھ واپس آگئی۔شاہزیب ناصرہ بیگم کا اسکے ساتھ رویہ دیکھ چکا تھا مگر وہ تنقید کم ہی کسی پر کرتا تھا مطلب کی بات ہو تو کر لیتا تھا ورنہ اسے اپنی خیالوں کی دنیا ہی بہت عزیز تھی۔
دن ہفتوں سے مہینوں اور سالوں میں بدلنے لگے ایمل بڑی ہوتی جا رہی تھی جب اس نے چلنا شروع کیا تو سب سے زیادہ خوشی زیان کو ہوئی وہ اسکی انگلی پکڑ کر سارے گھر میں گھماتا اور کبھی اسے کھلونوں سے بہلا رہا ہوتا۔ اسکی اور ایمل کی عمر میں چھے سال کا فرق تھا اور وہ کافی سمجھ دار بھی ہو گیا تھا۔
ایمل جب اسکول جانا شروع ہوئی تو زیان کے پاؤں ہی زمین پر ٹک نہیں رہے تھے ۔وہ فخر سے گردن تان کر اپنی بہن کی انگلی پکڑ کر اسکول لے جاتا۔اب رابی ایمل اور زیان لے گھر آنے تک پورے گھر میں چکراتی پھرتی گھر میں صرف وہ اور کریم یزدانی ہوتے تھے جو کبھی کبھی آفس چلے جاتے یا کسی دوست رشتے دار کے گھر۔ان کی غیر موجودگی میں گھر کی خاموشی اور ویرانی اسے کاٹ کھانے کو دوڑتی۔
ماما آج زیان بھائی کی لڑائی ہوئی ہے۔رابی اسکا یونیفارم چینج کر رہی تھی جب ایمل نے کہا
کیوں؟ رابی کو حیرت ہوئی زیان خاصا شریف بچہ تھا اسطرح کی حرکت کی اس سے امید نہیں کی جاسکتی تھی۔
وہ معاذ نے مجھے چٹکی کاٹی تو زیان بھائی نے اسے تھپڑ مارا۔ ایمل معصومیت سے بتا رہی تھی
زیان بیٹا۔ رابی نے زیان کو آواز دی تھوڑی دیر وہ بھاگتا ہوا آیا “جی ماما”
کس سے لڑائی ہوئی ہے آپکی؟ رابی نے نرمی سے پوچھا وہ ایمل سے زیادہ زیان کا خیال رکھتی تھی
معاذ سے اس نے میری بہن کو مارا تھا اور یہ میں برداشت نہیں کرسکتا کوئی میری ایمی کو انگلی بھی لگاۓ۔ زیان نے جذباتی ہو کر کہا
یہ اچھی بات نہیں ہے بیٹا بابا کو پتہ چلا تو وہ ناراض ہونگے آئندہ آپ نے ایسی حرکت نہیں کرنی۔ رابی نے اسے پیار سے سمجھایا “اور تم بھائی کی لڑائی مت کروایا کرو” رابی نے ایمل کو ڈانٹا جس پر ایمل نے زیان کی طرف مدد طلب نگاہوں سے دیکھا رابی کو اسکی اس حرکت پر ہنسی آگئی۔ ایمل بہت شرارتی تھی اور کبھی کبھی ایسی بات یا حرکت کر جاتی کہ رابی سے ہنسی روکنا مشکل ہو جاتا۔
۞۞
شام کو وہ کپڑے پریس کر کے الماری میں ٹانک رہی تھی شاہزیب کے آنے میں ابھی کافی وقت تھا اور دونوں بچے کریم یزدانی کے پاس تھے وہ بور ہونے کی بجاۓ کپڑے ٹانکنے کا کام سر انجام دینے لگی۔
کپڑوں کو الماری سیٹ کر کے اس نے دراز کھولنے کی کوشش کی جو شاہزیب ہمیشہ لاک کر کے رکھتا تھا اسے تجسس تھا آخر شاہزیب نے یہ لاک کیوں کر رکھا ہے۔ مگر آج خلافِ توقع لاک کھل گیا تھا۔اسے خوشی ہوئی اس نے گھڑی پر ٹائم دیکھا ابھی شاہزیب کے آنے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا پھر بھی اس نے حفاظتی اقدام کے طور پر ڈور لاک کر دیا۔
دراز کھول کر پہلی نظر اسکی ریڈ کور والی ڈائری پر پڑی۔اس نے لپک کر ڈائری اٹھائی اور باقی دراز چیک کرنے لگی مگر وہاں شاہزیب کی ضروری فائلز کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔
وہ ڈائری لے کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
__________
وہ ڈائری کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی پھر ڈائری کھولی پہلے صفحہ پر شاہزیب کا نام جگمگا رہا تھا اس نے صفحہ پلٹا۔ ماں کے بارے میں خوبصورت بات لکھی گئی تھی جسے پڑھ کر بے اختیار اس کی آنکھیں بھیگ گئی۔وہ صفحے پلٹتی گئی تبھی شاہزیب کی گاڑی کا سائرن سنائی دیا وہ پھرتی سے اٹھی اور ڈائری دراز میں رکھ کر دراز بند کیا اور نیچے آئی۔
شاہزیب مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا
اسلام علیکم۔ لاؤنج میں کریم یزدانی کے پاس بیٹھے زیان اور ایمل بھاگتے ہوۓ اسکے پاس آۓ
وعلیکم سلام۔ رابی نے دھیمے لہجے میں سوال کا جواب دیا مگر دل ڈائری میں اٹکا ہوا تھا۔شاہزیب نے دونوں کو کینڈی چاکلیٹس نکال کر دی زیان واپس کریم یزدانی کے پاس چلا گیا تھا مگر ایمل ابھی بھی شاہزیب سے کچھ اور ملنے کی امید پر کھڑی تھی۔
بابا صرف چاکلیٹ ہی۔ ایمل نے منہ بسورا
ہاں بیٹا۔زیادہ میٹھا نہیں کھاتے دانت خراب ہو جاتے ہیں۔ شاہزیب نے نرمی سے اسے کہا
بابا میرے لیے گڑیا نہیں لائی؟ ایمل نے پھر شاہزیب سے پوچھا
جاؤ ایمل بابا کو سکون کا سانس تو لینے دو۔ رابی نے اسے ٹوکا وہ منہ بسور کر زیان کے پاس چلی گئی شاہزیب کریم یزدانی کے پاس آکر بیٹھا
تھوڑی دیر انکے ساتھ بزنس کی باتیں کرنے کے بعد وہ فریش ہونے چلا گیا جب تک نازو کیساتھ مل کر رابی نے کھانے کا ٹیبل سیٹ کرنے لگی۔
۞۞
ایمل کون ہے؟ وہ اسکے پہلو میں لیٹی چھت کو گھور رہی تھی وہ اسکی بات پر چونکا
میری بیٹی ہے۔شاہزیب نے نرمی سے جواب دیا
میں اس ایمل کی بات نہیں کر رہی ہوں اور جس کی بات کر رہی ہوں آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ اس وقت روایتی بیویوں کی طرح لگ رہی تھی جو شوہر کے ماضی کی ٹوہ میں لگی رہتی ہیں۔
بھابی تھی میری زیان کی ماما۔ شاہزیب نے آہستگی سے کہا تھا اب چونکنے کی باری اسکی تھی
“زیان کی ممی مگر انکی ڈائری پر کس ایمل کا نام تھا پھر۔۔ شاید یہ ذیشان کی ڈائری پڑھ رہے ہوۓ ہونگے ” اس نے خود کو غلط فہمی سے باہر نکالنے کی کوشش کی مگر اب ڈائری پڑھنے کا تجسس بڑھ گیا تھا۔
اگلے دن شاہزیب اور بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد وہ کمرے میں آئی اور وہی دراز کھولنے کی کوشش کی۔
“ہیں ، لاک کر دیا” وہ زور زور سے جھٹکے دینے لگی تبھی الماری کے اوپر رکھی زیان کی چھوٹی سی اسپورٹ کار رابی کے پاؤں پر آکر لگی تھی۔
آہ۔۔۔ وہ درد سے بلبلا اٹھی تھی۔
بھاڑ میں جاۓ ڈائری۔ وہ پاؤں سہلاتے ہوۓ بڑبڑائی۔
۞۞
گزرتے وقت کیساتھ ربیکا ڈائری کی بات بھول ہی گئی بچے اب بڑے ہو رہے تھے۔ ایمل ہائی سیکشن تک پہنچ گئی تھی اور زیان کالج لیول تک۔
کریم یزدانی ، شاہزیب ، ربیکا اور زیان کی محبتوں نے مل کر ایمل کو پر اعتماد بنا دیا تھا اور کچھ منہ پھٹ بھی۔ وہ اسکول میں کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی اور اگر کسی سے اَن بَن ہو جاتی تو فخر سے گردن اکڑا کر کہتی”میرے بھائی کو جانتے نہیں ہو اس لیے آئندہ سوچ سمجھ کر مجھ سے منہ لگانا”
زیان کی اس سے محبت تھی ہی ایسی وہ جتنا فخر کرتی کم تھا البتہ ربیکا کو اس سے زیان سے لپٹنا ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔
وہ کب سے لاؤنج میں بیٹھی میتھ کے سوال حل کر رہی تھی اسکے ایگزام سر پر تھے اور دنیا جہاں سے بے خبر صرف پیپرز کی تیاری کر رہی تھی۔
پاس بیٹھے کریم یزدانی اسکے چہرے کا بغور جائزہ لے رہے تھے جو الجھن سے کبھی نوٹ بک کر لکھتی کبھی پن منہ میں ڈال کر حل سوچتی
بیٹا کوئی پریشانی ہے؟ کریم یزدانی نے نرمی سے پوچھا
دادا جان یہ سوال حل نہیں ہو رہا۔اسکے لہجے میں مایوسی در آئی تھی پھر وہ کتابیں سمیٹتی اٹھ کھڑی ہوئی
زیان بھائی آئیں گے تو ان سے پوچھ لونگی۔وہ ماتھے سے بالوں کو ہٹاتے ہوۓ بولی۔
کتابیں کمرے میں چھوڑ آؤ پھر دادا جان کے پاس آ جاؤ۔ وہ ان کی بات پر سر ہلاتی کمرے کیطرف بڑھی دو منٹ بعد وہ بھاگتے ہوۓ کریم یزدانی کے پاس آکر بیٹھ گئی اور انکے ساتھ اپنی باتوں کی پٹاری کھول لی تھی۔ وہ اپنی عمر کی بچیوں سے کافی بڑھی نظر آتی تھی ایک تو قد بھی کافی لمبا ہو گیا تھا اور وزن بھی بڑھ گیا تھا رابی کو اسکے بڑھتے ہوۓ وزن کی فکر بھی لاحق ہو گئی تھی۔
۞۞
شاہزیب اور زیان ایک ساتھ ہی گھر آۓ تھے۔
اسلام علیکم دادا جانی۔ وہ کریم یزدانی کے پاس آکر بیٹھا کریم یزدانی کو اس میں ذیشان کی جھلک نظر آتی تھی۔اسکی شکل و صورت ذیشان پر تھی البتہ آنکھیں اور بال ایمل کی طرح تھے۔
وعلیکم سلام۔دادا جان کو بھول ہی جاتے ہو تم۔ انہوں نے اسکی کمر پر دھپ رسید کی شاہزیب بھی پاس پڑے صوفے پر براجمان ہو گیا
آپ کوئی بھولنے کی چیز ہیں دادا جان۔ایمی کدھر ہے؟ ایمل کی غیر موجودگی محسوس کر کے زیان نے پوچھا
اپنے کمرے میں ہے۔ کریم یزدانی بجاۓ رابی نے جواب دیا جو ان دونوں کے لیے پانی لا رہی تھی
“آپ دونوں باپ بیٹے نے اسکی عادتیں خراب کردی ہیں”
اب کیا کہہ دیا میری بیٹی نے۔ شاہزیب نے اسکے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیتے ہوۓ کہا
گاڑی لینے کی ضد کر رہی ہے کہ ایگزام کے بعد زیان سے ڈرائیونگ سیکھ لوں گی۔ رابی نے اسی کیطرح منہ بنا کر کہا جس پر سب کا قہقہہ بلند ہوا۔
او ہو کیوں میری بیٹی کی پیچھے پڑی رہتی ہو۔میں اپنی بچی کو گاڑی لے کر دونگا۔ شاہزیب کے لہجے میں بیٹی کے لیے پیار ہی پیار تھا۔”زیان تم ایمل کو ایگزام کے بعد گاڑی ڈرائیو کرنا سکھا دینا” شاہ زیب نے زیان سے مخاطب ہو کر کہا
اوکے بابا۔ میں ذرا فریش ہو آؤں اور ایمی کو بھی لے آؤں۔ وہ اٹھ کر اپنے کمرے کیطرف بڑھا اور شاہزیب بھی فریش ہونے کی غرض سے اپنے روم کیطرف چلا گیا۔
شاہ زیب یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ رابی اسکے پیچھے اندر آئی تھی۔
کیا غلط کر دیا مسز۔ وہ مسکرایا تھا
وہ لڑکی ہے اور جس طرح آپ اسکی ہر ضد پوری کر رہے ہیں نا وہ ۔۔۔۔
شاہزیب نے اسے ہاتھ کے اشارے سے آگے کچھ بھی بولنے سے منع کیا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اسکے پاس آیا
“وہ میری ایک ہی بیٹی ہے ربیکا اور میں نہیں چاہتا وہ کسی چیز کے لیے ترسے میں دنیا کی ہر خوشی اسکے قدموں میں لا کر بچھاؤں گا۔ ان وسوسوں کو دل میں جگہ مت دیا کرو۔ وہ اسکے پاس کھڑا نرمی سے کہہ رہا تھا مگر وہ تھوڑی ہی خود وہم پالتی تھی خود ہی کہیں سے اس کے دل و دماغ میں آجاتے۔ وہ بات ختم کر کے واشروم چلا گیا تھا وہ بھی ہر خیال جھٹک کر کچن کیطرف بڑھی۔
۞۞
ایمی۔ وہ اسکے کمرے میں آیا تھا مگر وہ بستر پر آڑھی ترچھی پڑی سو رہی تھی۔
موم کی گڑیا۔اس نے گلاس سے تھوڑا سا ٹھنڈا پانی لے کر اسکے منہ پر چھڑکا۔اس نے جلدی سے آنکھیں کھولی تھی زیان آنکھوں میں شرارت لیے اسی کو دیکھ رہے تھا
“بھائی”وہ زیان کے پیچھے بھاگی تھی جو اسکے خطرناک تیور دیکھ کر ایک ہی جست میں دروازے تک پہنچ گیا۔
میں یہ بدلہ نہیں چھوڑوں گی۔وہ آنکھیں مسلتے ہوۓ بولی جو نیند کی وجہ سے سرخ ہو گئی تھی۔
فریش ہو کر نیچے آجاؤ۔ وہ قہقہہ لگاتے ہوۓ اس کے کمرے سے باہر نکلا جبکہ وہ پاؤں پٹختی واش روم کیطرف بڑھ گئی…♤
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...