ان کی جگہ ایک تحصیل دار صاحب مولوی حسام الدین منتظم ریاست مقرر ہوئے۔ ان کے وقت میں نواب محمد مختار حسین خاں رئیس کے چال و چلن میں جو حد بلوغ کو نہ پہنچنے کے سبب بے اختیار محض تھا، بہت فتور آ گیا۔ پس مولوی صاحب ریاست کے انتظام کی طرف ملتفت رہے۔ وہاں رئیس اندر ہی اندر صحبت بد میں مبتلا ہو کر ناؤ نوش و عیاشی کرنے لگا۔ مولوی صاحب شاید یہ سمجھے:
محتسب را درون خانہ چہ کار
روپیہ نقد تو اس کے پاس تھا نہیں، کیونکہ منتظم اپنی تحویل میں رکھتا تھا، رئیس نے قرض لینے پر کمر باندھی۔ دینے والوں نے جان لیا کہ ایک دن اختیار ملے ہی گا۔ دوسرے، ریاست کا رئیس ہے، دستخطی نوشت لو اور بے کھٹکے روپیہ دو۔ جو مانگا سو دیا اور جو دیا اس سے چوگنا لکھوا لیا۔ چند ہی روز میں قریب تیس چالیس ہزار روپیہ کے قرض کر لیا۔ رفتہ رفتہ منتظم صاحب کو بھی خبر پہنچی۔ سنتے ہی ہوش اڑ گئے اور اپنی بد انتظامی کا خیال آیا۔ انھوں نے جھٹ صاحب کمشنر بہادر کو اطلاع دی۔ کری کرافٹ صاحب کا زمانہ تھا۔ صاحب بہادر نہایت درجہ کے آسانی پسند اور نیک خو حاکم تھے۔ سن کر بہت ہی برافروختہ ہوئے اور فوراً کار ریاست کو اپنے محکمہ سے علاحدہ کر کے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر گوڑ گانوں کے ماتحت کر دیا۔
آلیور صاحب کا اجنٹ ہونا اور حسن محل کا نکاح ہونا
اب آلیور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر گوڑ گانوں ریاست کے اجنٹ مقرر ہوئے اور مولوی حسام الدین صاحب کی تبدیلی ہو کر ان کی جگہ خدا بخش تحصیل دار صاحب منتظم ریاست ہوئے۔ اس پر چند ہی روز گزرے تھے کہ ایک تازہ گل اور کھلا۔ وہ یہ کہ نواب محمد مختار حسین خاں صاحب نے ایک طوائف کے ساتھ عقد نکاح باندھ اس کو “حسن محل” خطاب بھی عنایت کر دیا۔ یہ سن کر منتظم صاحب کی تو بہت سٹی بھولی۔ گھبرائے اور فوراً صاحب بہادر اجنٹ بہادر کو اطلاع دی۔ سنتے ہی صاحب بہادر پاٹودی میں تشریف لائے اور بہت چیخے چلائے۔ مگر پھر کیا ہو سکتا تھا۔ وہاں تو نکاح بندھ چکا تھا اور پختگی ہو چکی تھی۔ خیر جو لوگ شریک نکاح ہوئے تھے کسی پر ملامت کی، کسی کو تعلق ریاست سے خارج کیا۔ پر جو ہونا تھا وہ ہو لیا۔ صاحب بہادر تنبیہ و تادیب کر کے چلے گئے۔
دادی اماں کا انتقال کرنا
اس قصے کے تھوڑے دن بعد ١٤ شوال ١٢٩٣ھ کو ہماری جدّہ جناب لاڈو بیگم صاحبہ کو قضائے الٰہی سے سفر آخرت درپیش آیا۔ گو ان کی عمر نوے سال کی تھی لیکن پھر بھی ان کا دم ہم سب کے لیے اور خاص کر رئیس نو عمر کے واسطے بہت غنیمت تھا۔ محمد مختار حسین خاں رئیس کو انھوں نے پالا تھا اور ان کا ان کو کسی قدر دباؤ بھی تھا۔ بس دادی صاحبہ مکرمہ کے انتقال کے بعد تو وہ بالکل ہی بے باک ہو گئے۔
ممو خاں کا اتالیق مقرر ہو کر موقوف ہونا
جب صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے ان کی بے اعتدالیاں حد سے زیادہ سنیں تو اپنے ایک رفیق ممو خاں نامی کو نوجوان نواب صاحب کا اتالیق مقرر کر کے بھیج دیا۔ چند ہی روز کے بعد رئیس کی اتالیق سے بگڑی۔ انھی دنوں میں جناب کرنل ڈیوس صاحب بہادر کمشنر دہلی مقرر ہو کر آئے اور نواب محمد مختار حسین خاں بہادر بھی جناب صدر کمشنر بہادر کی ملاقات کو گئے۔ صاحب بہادر نے ان سے حال دریافت فرمایا۔ انھوں نے اتالیق وغیرہ کی خوب شکایت کی۔ اس پر صاحب کمشنر بہادر نے اتالیق کو موقوف کر دیا اور ریاست کا کام گوڑ گانوں سے علاحدہ کر کے پھر کمشنری سے متعلق کر لیا۔
پنڈت کشن لعل صاحب کا ملازم ہونا
انھی دنوں میں پنڈت کشن لعل صاحب بھی کسی کی سفارشی چٹھی لے کر جناب صاحب کمشنر بہادر کی خدمت میں پہنچے۔ صاحب کمشنر بہادر نے ایک چٹھی یا مراسلہ نواب محمد مختار حسین خاں کے نام لکھا کہ یہ پنڈت جی آپ کے نمک خوار قدیمی ہیں۔ ان کو آپ پچاس روپیہ ماہوار تنخواہ دیا کریں اور یہ اتالیق کے طور پر آپ کے پاس رہیں گے۔ ان کی تقرری سے رئیس کچھ خوش تو نہ ہوا تھا بلکہ کشیده خاطر تھا، لیکن میری والدہ صاحبہ نے رئیس سے ان کی بہت سفارش کی اور کہا کہ یہ آپ کے بڑے قدیمی ہیں اور ایسے ایسے ایسے ہیں۔ آپ کو ان پر بڑی نظر عنایت رکھنی چاہیے۔ غرض پنڈت جی نے ایسی مبارک گھڑی اور شبھ لگن سے ریاست میں قدم رکھا تھا کہ آج تک موجود ہیں اور اب وہی منتظم ریاست ہیں۔ خیر پنڈت صاحب کو آئے ہوئے چند ہی روز گزرے تھے۔
نواب محمد مختار حسین خاں کو اختیارات ہونا اور ان کا فوت ہونا
اور نواب محمد مختار حسین خاں صاحب کو ریاست کے اختیارات ملے ہوئے کوئی تین مہینے ہوئے تھے کہ رئیس موصوف بیمار ہو کر دہلی آئے۔ مرض روز بروز شدت پکڑتا گیا۔ دہلی آئے ہوئے آٹھ دس روز گزرے تھے کہ ١٣ مارچ ١٨٧٨ء کو شب کے وقت نواب محمد مختار حسین خاں نے دنیا سے کوچ کیا۔ کیا کہوں اس واقعہ جاں کاہ سے کس قدر قلق ہوا۔ ہائے میرے شفیق اور پیارے بھائی کا بیٹا تھا۔ اس کے باپ نے بھی چوبیس برس کی عمر میں عالم شباب ہی میں قضا کی تھی۔ اس کو بھی جوانی میں موت آئی ؏
ایں ماتم سخت است کہ گویند جواں مرد
ان کو بھی روشن چراغ دہلی میں دفن کیا۔ خدا بہشت بریں نصیب کرے۔
نواب محمد مختار حسین خاں کی اولاد کا حال
اس کے ایک دختر اور ایک فرزند نواب محمد ممتاز حسین خاں بہادر ہے جو اب سلامتی سے رئیس ہے اور اس کی عمر اس وقت اللہ رکھے ١٣ سال کی ہے۔ خدا کے فضل سے لاہور چیف کالج میں تعلیم پاتا ہے۔ خدا اس کو پروان چڑھائے اور عمر طبعی کو پہنچائے اور ریاست برتنی نصیب کرے اور سعادت مند ہو اور ہماری آنکھوں کو اس کے دیدار سے روشن رکھے۔ میرے بھتیجے کا فرزند، میرا پوتا موئی مٹی کی نشانی ہے۔ خدا کی شان ہے۔ بوا! ہمارے خاندان میں اب تو کوئی ایسا بزرگ سب کا سرپرست رہا ہی نہیں۔ بھائی اصغر علی خاں تھے، ١٨٧٠ء میں ان کا انتقال ہوا۔ بھائی جعفر علی خاں تھے وہ ١٨٧٩ء میں رحلت کر گئے۔ اسی سال میں ہماری والده شادی بیگم صاحبہ یعنی ہمارے والد کی بیاہتا بیوی تھیں، وہ بھی فوت ہو گئیں۔ ہر ایک کا جدا جدا قلق ہے۔ اس غم کی تحریر سے دیکھو تو سینہ ہی شق ہے۔ بیت:
کس کا افسانہ کہیں، کس کو بھلا یاد کریں
غم مجنوں کریں یا ماتم فرہاد کریں
پنڈت کشن لعل صاحب کا منتظم ریاست ہونا
نواب محمد مختار حسین خاں کے انتقال کے بعد پنڈت کشن لعل صاحب نے شاید اپنی قدامت کی اسناد وغیرہ صاحب کمشنر بہادر کو ملاحظہ کرائیں۔ اس پر صاحب بہادر نے پنڈت جی کو منتظم مقرر کر دیا۔ سو حقیقت میں پنڈت جی کی قدامت میں تو شک نہیں، کیونکہ ان کے والد اور یہ خود بھی میرے ابا جان کی نوابی کے عہد میں ریاست کی طرف سے وکالت کی خدمت پر مقرر تھے اور یہ خیر خواہ اور نیک نام بھی رہے اور اپنی ذات سے لائق فائق بھی بہت کچھ ہیں۔ مگر اب تو چند روز سے پنڈت صاحب نے ہم لوگوں سے ایسا برتاؤ شروع کیا ہے کہ قدیمی قدامت اور اگلی خیر خواہی کے برعکس نظر آتا ہے۔
اوہو، میں کیا کہتی تھی اور کیا کہنے لگی۔ کہاں سے کہاں چلی گئی۔ مجھے اپنی کہانی کہنی تھی یا اوروں کے قصے جھونے تھے۔ مقصد سے دور جا پڑی۔ نہیں نہیں، اگر غور سے دیکھا جائے تو مقصد کے قریب ہی قریب ہوں۔
بیگمات کا اصغر علی خاں سے بگڑ کر دہلی آنا
بوا! جب میرے بھائی نواب محمد تقی خاں صاحب کا انتقال ہوا اور محمد مختار حسین خاں مسند نشین ریاست ہوئے اور منجھلے بھائی محمد اصغر علی خاں صاحب منتظم ریاست ہوئے تو آپس میں جھگڑے فساد پڑے تھے اور محلوں کی تمام بیگمات اصغر علی خاں صاحب منتظم ریاست سے بگڑ کر دہلی چلی آئی تھیں اور یہاں صاحب کمشنر بہادر کی پیش گاہ میں اپنے اپنے وثیقوں کے ملنے کے لیے استغاثہ کیا تھا، چنانچہ میں بھی اپنی والدہ صاحبہ کے ساتھ دہلی آئی تھی۔ مجھے آئے ہوئے آٹھ دس روز گزرے تھے۔