اس وقت محمد شفیع اور عبد الکریم تو کسی قدر کشیدہ خاطر رہا کرتے تھے، لیکن مولانا یحیی علی صاحب کی صحبت غنیمت سے کم نہ تھی، اسی طرح ہم باقی نو آدمی بھی اس حوالات میں نہایت شاداں و فرحاں تھے اور یہ خاکسار تو جب اپنی ذلیل النسبی اور کم علمی کے مقابلے میں ان انعامات الٰہی اور اس سرفرازی کو دیکھتا تو سمجھتا تھا کہ میری مثال تو ٹھیک اسی طرح ہے جیسے سفارش، استحقاق اور ذاتی لیاقت کے بغیر ہی کسی چمار کے سر پر تاج شاہی رکھ دیا جائے، اللہ اللہ! میرا حسب نسب اور لیاقت کہاں اور راہ خدا کے امتحان میں ثابت قدم رہنے کی یہ سرفرازی کیسی ! اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ایسے امتحانوں میں پیغمبر اور صحابہ کرام بھی گھبرا جاتے تھے، اس صبر اور استقلال کو انعام خداوندی سمجھنے کی وجہ سے میری زبان تو اول سے آخر تک شکر کے ترانوں سے لبریز رہی۔
مولانا یحیی علی صاحب کی کیفیت تو اس سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر تھی، آپ اکثر ان اشعار کو پڑھا کرتے تھے:
فلست أبالی حين أقتل مسلما
على أی شقّ کان فی اللہ مصرعی
و ذاک فی ذات الإله و إن یشاء
یبارك على أوصال شلو ممزّع
ترجمہ: مسلمان ہونے کی حالت میں مجھے جس کروٹ بھی مارا جائے، اس کی قطعاً پروا نہیں، کیونکہ مجھے خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور یہ تو اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے کہ اگر وہ چاہے تو ان پراگندہ ٹکڑوں کے ملا دینے پر ان میں برکت فرمادے۔
مشہور صحابی حضرت خبیبؓ کو جب کفار مکہ پھانسی دینے لگے تو آپ نے ان اشعار کو نہایت جواں مردی سے پڑھتے ہوئے راہ خدا میں جان دے کر خلعت شہادت کی سرفرازی کو حاصل کر لیا تھا اور آپ کی خبر شہادت اور سلام شوق کو خود حضرت جبریل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک مدینہ منورہ میں پہنچایا تھا۔
مولانا یحیی علی صاحب حضرت سیّد احمد شہیدؒ کے فراق میں یہ شعر بھی بڑے درد اور عشق سے اکثر پڑھا کرتے تھے:
اتنا پیغام درد کا کہنا، جب صبا کوئے یار سے گذرے
کون سی رات آپ آئیں گے، دن بہت انتظار میں گذرے