ساتویں صدی ہجری اسلام کے لیے نہایت پُر آشوب اور ہولناک دور تھا۔ جو شمشیر و سناں آول کے فاتحانہ دور سے گزر کرطاؤس درباب آخر کے عیش پرستی، فسق و فجور اور زوال کے گرداب میں گھر چکا تھا۔جان و مال و عزت کوئی چیز محفوظ نہیں تھی۔ معاشرہ بے یقینی ، بیچارگی ، ماویسی و خوف و ہراس کا شکار تھا۔ طوائف الملوکی تھی۔ قتل و غارت گری عام تھی۔ اخلاقی دیوالیہ پن کا تسلط تھا۔ خوازی، غوری، غزنوی و سلجوقیوں کی باہم جنگ و جدل نے دنیائے اسلام کو تباہ و برباد کر دیا تھا۔ علماء فضلا بھی اس کا شکار ہو گئے۔ شیعہ، سنی و دگیر فرقے فساد کے باعث برباد ہو رہے تھے۔ اس پر تاتاری یلغار نے دنیائے اسلام کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا۔ علوم و فنون کے مراکز ملیامیٹ ہو گئے۔ ثمر قند ، بخارا، بلخ، رے ہمدان، نیشاپور، عروس البلاد، بغداد ہلاکو خاں کی وحشی فوجوں کے ہاتھوں تباہ و برباد و خاکستر ہو گئے۔ آخری عباسی خلیفہ معتصم باللہ جو مسلم دنیا کے اتحاد کی روحانی ملامت تھا۔ پاؤں تلے روند کر ہلاک کر دیا گیا۔ تاہم اس ہولناک بربادی و آشفتگی کے دور میں اسلام کے علمی وقار کو خدا نے دین کے کچھ برگزیدہ مشاہیر جن میں مولانا روم بھی شامل تھے کے ذریعہ قائم رکھا۔ مگر مجموعی صورتِ حال نہایت ابتر تھی۔ کیونکہ شوق تحصیل علم، علمی تحقیق سے بے رخی ، ذوق قوت اختراع و جدت ، قوت مدافعت کی کمزوری، ماضی کے کارناموں پر بے جا افتخار نے اسلامی شان و شوکت و جاہ و جلال کا پول کھول دیا۔ ایسی مایوس کن صورتحال میں نوشتۂ تقدیر کو قضاء مبرم اور دنیاءے فانی سے بے رغبتی اور خانقاہی تصوف میں پناہ و روحانی طمانیت تلاش کی جانے لگی۔ چنانچہ ذات کی نفی اور الوہیت سے وصال زندگی کے معاشی و معاشرتی تقاضوں سے فرار کے نتیجہ میں حصولِ علم اور خود اختیاری کی سعی اور ارادہ و عمل کو مذموم اور قربِ الٰہی سے دوری کا سبب سمجھاجانے لگا۔
مولانا روم نے وقت کے تقاضوں کو سمجھا۔انھوں نے دیکھا کہ سقُوطِ بغداد کے بعد قوم نے زندگی کا منفی پہلو اپنا لیا ہے اور اپنی شکست، ذلت اور پستی کو تقدیر کا اٹل فیصلہ سمجھ کر بہتری کی امید چھوڑ چکے ہیں۔ مولانا روم نے اُن میں قرآن حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے وسیع علم اور مثبت عمل سے زندگی کے روشن پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی۔ خود کو فنا فی اللہ کرنے کی بجائے بقاءِ ذات کے لیے خدمتِ ظن، حسنِ عمل و جدوجہد کو شعار بنانے کی ترغیب دی۔عقیدہ جبر بے اختیاری کے بجائے قدر کا پہلو اجاگر کیاکہ انسان کو حدود کے اندر بااختیار اور نائب حق بنایاگیا ہے جہالت کے اندھیروں کو علم کے حصول، تحقیق و تخلیق سے دور کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ ترکِ دنیا ، حکومت گزینی، جزب و مستی و بے عملی کی بجائے عبادات کے ساتھ دنیاوی فرائض کی ادائیگی اپنی فطری صلاحیتوں کوبروئے کار لانے کی تلقین کے ساتھ تعمیری و تخلیقی کارہائے نمایاں کرنے کا شوق دلایا۔ اقبال نے دیکھا کہ رومی نے اپنے بے کراں علم و عرفان ذات و وجدانی بصریت سے اپنے دور کے مسائل و فتنوں کا علاج کیا۔ اقبال کو اپنے زمانہ کے مسلمانوں میں ایسے ہی منفی پہلو نظر آئے جن کا علاج رومی کی تعلیمات کی روشنی ہی میں ممکن تھا۔ چنانچہ انھوں نے برملا کہا کہ رومی کی طرح میں بھی اپنے دور کے مسائل و فتنوں کا علاج کروں گا۔ پھر اقبال نے دیکھا کہ رومی اور کچھ دیگر صاحب عزیمت کردار علما و صوفیاکی تعلیمات کے اثر سے فاتح تاتاری مفتوح ہو کر خود ہی آغوش اسلام میں گر گئے اور اسلامی عظمت کے محافظ بن گئے جس پر اقبال نے متاثر ہو کر کہا:
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
چنانچہ اقبال نے مولانا روم کو اپنا مرشد معنوی تسلیم کرلیا اور انھی کے زیر اثر فلسفۂ خودی کو تشکیل دے کر اپنے در کے مسلمانوں کو تکمیل خودی کی دعوت دے کر بیدار کیا۔اور انھیں غلامی سے نجات کے لیے آزاد وطن کے حصول اور روشں مستقبل کے عزائم پر گامزن کردیا ۔غرضیکہ جس رومی کی علمی، فکری، عملی عظمت کو تسلیم کرکے اقبال نے اسے اپنا پیرومرشد رہنما تسلیم کیا مناسب لگتاہے کہ اس عظیم بے مثال ہستی کے بارے میں کچھ مزید ذکر اذکار کیا جائے۔
مولانا روم نے ساتویں صدی کے تصوف کے ماحول میں آنکھ کھولی ۔ سلوک کی منازل طے کیں۔ مشہور مشائخ کی صحبتوں میں شریک ہوئے۔ اُن میں سے ظاہری و باطنی فیوض حاصل کیے اور آخر میں مسندِ ارشاد و تقین کو مجتہد انہ زینت عطا کی۔ امامِ فن اور مرشد کلام کی صورت میں مریدوں کی تربیت کی اور مولویہ ، جلالیہ صوفیانہ سلسلہ کی بنیاد ڈالی۔
آپ کا نام محمد لقب جلال الدین اور مولانا روم خطاب تھا۔ والد کی طرف سے سلسلۂ نصب حضرت ابو بکر صدیق تک جاتا تھا۔ والدہ کا سلسلہ مشہور صوفی ابراہیم بن ادھم سے ملتا تھا۔ والد کا نام محمد بہاء الدین تھا اور لقب سلطان العلماتھا۔ رومی کے والد بلخ کے بہت موثر عالم دین اور باکرامت شیخ طرقیت اور عوام و امراء میں بے حد مقبول تھے۔ رومی کی پیدائش ۶۰۴ء ہجری بلخ میں ہوئی۔ سید برہان الدین محقق نے جو اُن کے والد کے خاص ارادتمندوں میں تھے، رومی کی تعلیم و تربیت کی۔
مولانا کے والد سلطان العلماکی عوام و امراء میں مقبولیت شاہ خوارزم کو بہت کھٹکتی تھی۔ اُس نے قلعہ اور خزانے کی کنجیاں سلطان العلما کے پاس بھیجیں کہ اہالیان پر تو پہلے ہی آپ کی حکومت ہے اب میرے پاس صرف قلعہ اور خزانے کی کنجیاں رہ گئی ہیں یہ بھی قبول فرماویں۔ سلطان العلماء بادشاہ کا اشارہ سمجھ گئے اور مع اہل خانہ بلخ سے نیشا پور ہجرت کر گئے۔ ہجرت کی دوسری وجہ تاتاریوں کی بے رحمانہ خونریزی بھی تھی۔ نیشاپور میں رومی کی ملاقات شیخ فرید الدین عطار سے ہوئی۔ انھوں نے رومی کو اپنی کتاب اسرار نامہ عطا کی اور ضروری تربیت کی۔ والد کے ساتھ بغداد اور پھر حجاز حچ کے لیے گئے۔ بالآخر سمر قند آئے اب اُن کی عمر ۱۸ برس تھی ۔ وہاں ایک باوقار گھرانے کی دوشیزہ گوہر خاتون سے عقد ہو گیا۔ جن سے رومی کے دو بیٹے سلطان اور علاوالدین پیدا ہوئے۔ ۶۲۴ء میں رومی کے والد قونیہ (ترکی) پہنچے جو انقرہ کے قریبہے اور اس کو وطن بنا لیا۔ دو سال بعد وفات پا گئے۔ رومی ۱۵ برس والد کے سفر وحضر میں ساتھ رہے اور ظاہری و باطنی علوم کی تکمیل کرتے رہے۔ ہاں بادشاہ کے اتالیق امیر بدرالدین نے مولانا روم کے درس دینے کے لیے مدرسہ مکتبۂ خداوند گار کے نام سے تعمیرکرایا اور ساتھ دارالاقامہ بھی تعمیر کروایا۔
والد کی وفات کے بعد مولانا کو بادشاہ اور دیگر مخلصین کے اسرار و اتفاق سے ۲۴ برس کی عمر میں جانشین بنا دیا گیا۔ جہاں مولانا درس دیتے۔ دیگر مشاغل کے لیے قونیہ سے باہر بھی آتے جاتے رہتے۔ مولانا اپنے اتالیق خلیفہ سید برہان الدین محقق ترمذی کے بلانے پر ملاقات کے لیے گئے جنھوں نے کہا ، کہ قال میں تم اپنے والد سے بڑھ گئے ہو۔ لیکن اُن کا ایک حال بھی تھا جب تک وہ حاصل نہ کرو گے والد کے مکمل وارث نہیں بن سکتے۔ رومی نے حضرت ترمذی محقق کے مرید ہو کر ان کی وفات تک ۹ سال تک فیوض باطنی حاصل کیے اور اس کے بعد قونیہ میں درس کا سلسلہ جاری رہا۔
رومی طلبِ علم کے لیے حلب و دمشق بھی گئے۔ شیخ اکبر ابن عربی اور دیگر بلند پایہ اصحابِ علم و فضل سے ملاقاتیں رہیں۔ مولانا اپنے عہد کے المشہورحنفی علماء میں شمار ہوتے تھے۔ انھیں مروجہ علوم میں کامل دستگاہ حاصل تھی۔ علم کلام میں اس کی مہارت کی شہادت ان کی شہرہ آفاق مثنوی ہے۔ علوم و حق کے لحاظ سے آپ کی حیثیت امام اور مجتہد کی تھی۔ وہ کئی جگہوں پر وعظ و تذکیر کا کام انجام دیتے۔ فتویٰ نویسی آپ سے باضابطہ متعلق تھی۔ جس کا معاوضہ ایک دینار روزینہ مقرر تھا۔ اس کو حلال رزق بنانے کے لیے آپ فتاویٰ کے جواب میں بڑا اہتمام کرتے۔ آپ کی ہدایت کے مطابق فتویٰ آنے پر فوراًپیش کیا جاتا۔ اور خدّام قلم و قرطاس ہر وقت تیار رکھتے ۔ ۶۲۴ہجری تک یہ مشاغل جاری رہے۔ آپ خالص عالمانہ طریقے سے سرپر کلاہ رکھ کر عمامہ باندھتے اور کشادہ آستینوں کی عبا زیب تن کرتے۔ ہر عمل میں زہد و تقویٰ وعظ و تقلین میں پروقار عالمانہ شان سے اظہار کرتے۔
مرشد محقق ترمذی کی وفات کی بعد ۴،۵ سال آپ پر بڑے گراں گذرے۔ ذہنی انتشار رہا۔ انھی دنوں شمس تبریزی قونیہ میں وارد ہوئے اورمولانا روم سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ شمس تبریزی جن کے والد کا نام علاؤ الدین تھا۔ مختلف شہروں کی سیاحت کرتے رہتے تھے۔ جہاں جاتے دروازہ بند کرکے مراقبہ میں مشغول رہتے۔ ایک بار دعا مانگی کے اے خدا کوئی بندۂ خاص ہونا جو میری محبت کا متحمل ہو سکتا ۔ اشار ہوا کہ روم چلے جاؤ ۔ چنانچہ یہ قونیہ پہنچے وہاں رومی جو خود کسی صاحب ِ علم ، ظاہر و باطن کی قربیت کی خواہش رکھتے تھے ۔ ایک تالاب کے کنارے کتب رکھ کر مطالعہ میں مشغول تھے۔ شمس تبریز پاس گئے اور کتب کی طرف اشارہ کے پوچھا کہ ایں چیست؟ رومی نے شمس کی معمولی وضع قطع دیکھ کر کہا کہ ایں چیزے ہست کہ تونمی دانی۔ شمس نے ہاتھ بڑھا کر وہ کتب پانی میں پھینک دیں۔ اس پر رومی نے ناراضگی کا اظہار کیا تو شمس نے کتابیں پانی سے نکال کر رومی کو دیں جو بالکل خشک تھیں۔رومی نے حیرت سے پوچھا کہ ایں چیست؟ تو جواب ملا کر ایں چیزے ہست کہ تونمی دانی۔ رومی کو محسوس ہوا اس کا گوہر مقصود خود ہی اُس کے پاس آ گیا ہے۔ اس موقع پر شمس نے رومی سے دریافت کیا کہ علم و ریاضت کیا ہے؟ رومی نے جواب دیا کہ اتباع شریعت، شمس نے کہا کہ یہ تو سب جانتے ہیں۔ مولانا رومی نے پوچھا کہ اس سے بڑھ کر اورکیا ہو سکتا ہے؟ شمس نے وضاحت کی کہ علم کی معنی تمھیں منزل تک پہنچائے اور پھر حکیم سنائی کا شعر پڑھا۔ جس کا مفہوم ہے کہ جو علم منزل تک نہ پہنچائے اُس سے جہالت بہتر ہے۔ یہ ایسا لمحہ تھا کہ گویا ولی راولیمی شناسد، دونوں گرم جوشی سی بغل گیر ہوئے۔ مولانا روم کی زندگی میں انقلاب آ گیا۔ عالمانہ نقات و جلال رخصت ہو گئے۔ شیخیت کا وقار بھی غائب اور ایک الگ ہی جوش و شوق کا غلبہ ہونے پر ایک نیا دَور شروع ہو گیا۔ یہ جذب و مستی کا دور تھا۔ مولانا رومی شمس کو ساتھ لے آئے تو دونوں شیخ صلاح الدین زرکوب کے حُجرے میں میں معتکف ہو گئے اور مہینوں عزلت نشیں رہے۔
شمس تبریز کی صحبت نے رومی کی کایا پلٹ دی۔ علمی قال و قول سے تعلق منقطع ہوگیا۔ کتابیں گویا دریا بُرد ہو گئیں۔ درس و تدریس و عناد و تلقین و تذکیر ترک ہوئے۔ عالمانہ لباس تیاگ دیا۔ مولویانہ نقاہت و تفاخر کے ساتھ سجادہ نشینی کا بوجھ بھی رخصت ہوا۔اور مریدوں کو تقلین و تربیت بھی بے التفائی کی نذر ہوئی۔ اس کے برعکس احوال و وجد کی منزل شروع ہوئی۔ سماع اور قوالی سے رغبت پیدا ہو گئی اور اس قدر انہماک ہوا کہ لوگ انگشت نمائی کرنے لگے۔ ہاتھوں کو فضا میں لہرانا، چرخ دینا، چکر کھانا، پائے کوبی اور رقص معمول ہو گئے۔ سماع نے مولانا کے خاص سلوک کی حیثیت اختار کرلی۔ شاعری مولانا کی فطرت تھی۔ لیکن یہ جو ہر عالمانہ شکوہ و سجادہ نشینی کے جاہ و جلال کے نیچے دبا ہوا تھا۔ شوق و مستی نے اس دباؤ کو اکھاڑ پھینکا تو یہ فطری جوہر غزلوں، رباعیوں اور عالمی شہرت کی مثنوی میں درخشاں و تاباں نمایاں ہو گیا۔ گویا شمس تبریز کی صحبت کے زیر اثر مولانا کی زندگی میں صوفیانہ وضع کا موڑ آ گیا۔ زندگی کا ڈھانچہ ہی بدل گیا۔ تصوف کے نئے افق ابھر کر سامنے آ گئے۔ تصورات عقاید وخیالات میں تغیر آگیااورنئی منزل دِکھنے لگیں اور مولانا پکار اٹھے:
مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم
تا ملامِ شمس تبریزی نہ شد
مولانا اتنی عقیدت کے باوجود شمس تبریزکے باقاعدہ مرید نہیں ہوئے۔ نہ ہی شمس تبریز نے انھیں ہدایت رہنمائی کا محتاج سمجھا۔ بلکہ اُن کے روحانی مرتبے کی عظمت و جلالت کا بار بار اعتراف کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں بزرگوں کی صحبتیں بلند عروج کے لیے مشترک اقدام تھیں۔ دونوں ایک دوسرے سے فیض حاصل کر رہے تھے اور ایک دوسرے کو اپنی تکمیل کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے۔ تاہم شمس تبریز کی غیر موجودگی میں رومی کی بے چینی اورجستجو سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ رومی ، شمس کی صحبت کو زیادہ ضروری جانتے تھے۔ شمس تبریز کوئی معروف روحانی عظمت کی شہرت نہ رکھتے تھے۔ نہ کسی معروف خاندان اور سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔ مولانا کے پیروکار اُن کے مولانا کے اس قدر قریب ہونے کے باعث شمس کے دشمن بن گئے اور اُن سے گستاخانہ رویہ سے پیش آنے لگے اس لیے ایک دن وہ خفیہ طورپر قونیہ سے نکل کھڑے ہوئے ۔ اس کا مولانا کو اتنا صدمہ ہوا کہ انھوں نے خواص و عوام سے بے تعلقی اختیار کرلی۔ مولانا کی گوشہ گیری اور بے تعلقی برابرقائم رہی کہ دمشق سے شمس تبریز کا خط آگیا۔ جس کے بعد مولانا کی حالت سدھرنے لگی اور اپنے پیروکاروں پر پھر سے شفقت کرنے لگے۔ مولانا اپنے فرزند سلطان کو شمس کے واپس لانے کے لیے بھیجا جن کے قونیہ دوبارہ آنے پر مولانا بے حد خوش ہو ئے اورپھر سماع کی مجالس زور و شور سے شروع ہو گئیں۔ مولانا نے اپنی بیٹی کیمیا خاتون سے شمس تبریز کا عقد کردیا اور وہ وہیں رہائش پذیر ہو گئے۔ مگر یہ قیام بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ حلقہ بگوشانِ رومی کی رنجشیں دوبارہ اُبھر آئیں مفسدوں نے حالات مزید بگاڑ دیے۔ بیوی کیمیا خاتون بھی اس دوران چل بسی۔ شمس کی پاؤں کی بیڑے کٹ جانے سے اس کا قونیہ کا ہمیشہ کے لیے چھوڑنا آسان ہو گیا۔ چنانچہ ایک دن وہ بغیر کسی کو بتائے قونیہ سے رخصت ہو گئے۔ مولانا کو خبر ہوئی توحالت عیر ہو گئی ۔ شمس کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر لا حاصل۔ اس بار مولانا نے گوشہ نشینی اختیار نہیں کی۔ تاہم عزادار کا لباس مستقل زیب تن رکھا۔ بے چینی و بے تابی کم نہ ہوتی تھی۔ جذبات فراقی غزلوں اور رباعیوں کی صورت میں اُمڈ آتے تھے اور کئی کئی دن سماع و مستی میں گزر جاتے۔
شمس تبریزکے گئے ہوئے تھوڑے عرصے بعد سُنا کہ وہ دمشق میں ہیں۔ مولانا نے فوراً خود دمشق جا کر تلاش شروع کی۔ مگرناکام رہے۔ مگر یہ تاثر بیدار ہو گیا کہ خود میری ذات کے ذرات میں اُسی آفتاب کی ایک چمک ہے۔ میرے ساغر میں اُسی مینا کا مشروب ہے۔ میری جوئے آب میں اُسی دریا کا پانی ہے۔ ابلِ قونیہ جو مولانا کی ذات سے بے حد محبت رکھتے تھے ۔ اُن کی اجتماعی درخواست پر مولانا واپس قونیہ آ گئے۔ مگر اس تصور کے ساتھ ہی خود میں شمس ہوں اور یہ ساری جستجو اور تلاش شمس کی نہیں خود اپنی تھی۔ اس کیفیت کا جب انھیں یقین ہو گیا کہ شمس دنیا سے رشتہ توڑ چکے ہیں توایک نہایت دلدوز مرثیہ لکھ ڈالا۔
اب مولانا ہمہ وقت شیخ صلاح الدین زرکوب کی طرف متوجہ ہو گئے اور باقی سب سے التفات ترک کردیا۔ لوگوں کے لیے مولانا کا یہ انداز بھی ناقابل برداشت تھا کہ مولانا سب سے منہ موڑ کر ایک مقامی کم علمی آدمی سے ناطہ جوڑ لیں۔ چنانچہ ا س بناء پر صلاح الدین زرکوب کے خلاف برہمی اور شورش بڑھ گئی۔ لوگ محسوس کر رہے تھے کہ نورِ باطن نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اتفاق سے لوگوں کے کھیت و باغ خشک ہونے لگے تو قحط کی سی حالت پیدا ہو گئی۔ لوگوں کو یقین ہو گیا کہ یہ وبال مولانا کی ناراضی کی وجہ سے ہے اورمولانا صدق دل سے نادم ہو کر عذر خواہی کی۔ جس کی پذےرائی کے بعد یہ شورش ہمیشہ کے لیے دب گئی اور مولانا نے رشد و ہدایت کا فرض سنبھال لیا اور آخری دم تک مشغول رہے۔
۶۵۷ہجری میں زرکوب کے انتقال کے بعد مولانا نے شیخ حسام الدین جن کی فرمائش پر انھوں نے مثنوی لکھی تھی ۔ اپنا رفیق چن کر نا ئب اورخلیفہ کا اعزاز دیا۔ جسے لوگوں نے بے چون و چراں قبول کرلیا۔ مولانا کا زیادہ وقت عبادت و ریاضت اورسماع میں صرف ہونے لگا۔ انھوں نے باقاعدہ منبر پر وعظ و تذکیر کرنا تو ختم کردیا لیکن مجلسی صحبتوں میں معتقدین سے نصائح و مواعظ کو جاری رکھا۔ آخر کار روانگی کا وقت قریب آ گیا۔ خلافِ معمول ضعف اور اضمحال طاری رہنے لگا مشہور اطبا کے علاج کے با وجود مرض بڑھتا گیا ۔ امراء علماء، شیوخ معتقدیں مسلسل عبادت کو آ رہے تھے اور حالت دیکھ کر بے حد مغموم ہو کر جاتے۔ ایک دوست مزاج پرسی کے لیے آئے اور شفا کی دعا کی۔ مولانا نے کہا کہ شفا تمھیں مبارک ہو اب تو محبت اور محبوب میں بال برابر فرق رہ گیا ہے۔ تم نہیں چاہتے کہ وہ بھی ہٹ جائے۔ آخر ۶۷۲ہجری ۵؍جمادی الاول مولانا کی صورت میں ارضی آفتاب اپنے سوگواروں کو روتا چیختا چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے جہانِ فانی سے غرب ہو گیا۔ صبح کو جنازہ باہر لاگیا گیاتو ہر مذہب و ملت کے لوگوں کا سیلاب روتا ، آہ و زاری کرتا جنارے کے ساتھ رواں تھا۔ جنازہ نقاروں ، نفیریوں کے ساتھ قبرستان جارہاتھ۔ا خوش الحان قاری قرآن مجیدکی تلاوت کر رہے تھے۔ خوش گلو موذن تکبیر کا ورد کر رہے تھے۔ کئی جوڑیاں سماع کرنے والوں کی گاتی ہوئی جارہی تھیں۔ لوگوں کی کثرت اور دھکم پیل سے چھ مرتبہ تابوت ٹوٹا اورمزار تک پہنچتے رات ہو گئی۔ شعراء نے درد ناک مرثیے لکھے اور خوب سوگ منایاگیا۔ مولانا اپنے والد سلطان العلما کے مقبرے میں مدفون ہوئے ۔ اس تناظر میں مولانا سے لوگوں کے دل میں بے پناہ محبت و عقیدت بخوبی عیاں ہوتی ہے۔
مولانا مذہب و ملل کے اختلاف کو محض رستوں کا اختلاف مانتے تھے۔ مگر اہلِ ظاہر کی نظر اس قدر کہاں وسیع نہ تھی۔ جو مولانا کے نظیرئیے سے اتفاق کرتے۔
مولانا دَف ، رباب وغیرہ کو رقص و وجود کے ساتھ سماع اور قوالی کا حصہ سمجھتے تھے اورانکار کو ناشکری جانتے تھے۔ مگر علماء مولانا کے اس عمل کو خلاف شریعت جانتے تھے۔
آپ مریدوں اور معتقدین کا خلوص سے سجدہ کرنا روا سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ تشکر احسان مندی کے اظہار کا تھا اورسجدہ حقیقت میں خدا کوہوتا تھا۔
موت کی صورت میں روح کی جسم سے رہائی اور محبوب سے وصال کی خوشی منانے کے لیے جنازے کے جلوس کے ساتھ باجے، تاشے اور گانے کو مستحسن کہتے تھے۔ لیکن علماء اس کو بدعت شنیعہ قرار دیتے تھے۔ بہرکیف مولانا کی محبت و مقبولیت لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ قائم رہی۔
مولانا کا باطنی سلسلہ اُن کے بڑے بیٹے سلطان ولد سے چلا جو اُن کے منتخب پہلے خلیفہ حسام الدین کے دور سے شروع ہوا۔ ان کے واسطے سے مولویہ یا جلالیہ شیخیت اور سجادہ نشینی آج تک آپ کی نسل میں قائم ہے آپ کے مزار کی تولیت اگرچہ ترکی حکومت کے ہاتھ میں ہے جس پر سرکاری عملہ متعین ہے تاہم مشیخییت مولانا کے خاندان میں باقی ہے۔ دوسرے مزارات اور مقابر کی طرح مولانا کی تربت کو بھی مرجع خلائق ہے اور زیارت کے لیے کھلا رکھا ہے۔
مولانا کی تصانیف میں ایک ضخیم دیوان ۵۰۰۰۰پچاس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ ایک مجموعہ رباعیات، اقوال کا مجموعہ، فیہ مافیہ اورایک خطوط کا مجموعہ ملفوظات ہیں۔ مگر سب سے اہم عالمگیر شہرت کی حاصل تصنیف جس کے مولانا کو زندہ جاوید بنا دیا۔ مثنوی و معنوی ہے۔ جو ادبی اہمیت کے علاوہ شریعت، طریقت اور آداب و اخلاق کا مخزن ہے اوران کے عقاید، افکار ومشاہدات کا قابلِ اعتماد آئینہ ہے۔ یہ ہر طبقے میں مقبول ہے۔ وعظ و تذخیر کی مجالس میں حرارت ایمان پیدا کرنے کے لیے پڑھی جاتی ہے۔ سلسلہ مولویہ کا گویا یہ الہامی صحیفہ ہے۔ چنانچہ مثنوی خوانی نہ صرف رواج و شعار بن گیا ہے بلکہ مثنوی خوانی ایک فن کی صورت اختیار کر گئی ہے جو ہندو پاک میں بھی دیکھی جاتی ہے۔
اب مولانا کی فنی خوبیوں پر اجمالاًنظر ڈالتے ہیں۔ مولانا کی تعلیم وتربیت ایسے گھرانے میں ہوئی جہاں علوم ظاہری اور معارفِ باطنی ہر دو موجود تھے۔ وہ دونوں سے فیض یاب ہوئے وہ اپنے عہدکے ممتاز عالم اورکثرت سے ریاضت گزار صوفی تھے۔ شمس تبریز کی صحبت نے احوال کو کشف و وجد کی اصلیت سے آشنا کیا۔ قال سے زیادہ حال کو اہمیت دیتے جس سے زہد و درویشی میں جذب و شوق کی چاشنی پیدا ہوئی۔ عالمانہ عزو تفاخر نے فقر و استغنا کے لیے جگہ خالی کی۔ لفظوں سے زیادہ معانی پر توجہ ہو گئی اور پوست کی بجائے معزز پر توجہ دینے لگےؤ شاعرانہ جوہر جو ان کی فطرت میں مخفی تھا مثنوی میں پوری تابانی سے روشن ہوا۔ مثنوی ایک طرف مروجہ علوم میں مولانا کی مہارت کی شہادت ہے۔ دوسری طرف خانقاہی معارف و مشاہدات کا آئینہ ہے۔ اس میں اپنے زمانے کے عام مزاج کی طرف اشاروں کے علاوہ وقت کی تہذیب و مدنیت کے بارے میں بہت کارآمد و دلکش معلومات ہیں۔
شاعری کے اعتبار سے مثنوی قدرتِ کلام کا اعلیٰ و دلپذیر مرقع ہے جس میں تصنع اور معائب سخن کو چھپانے کی کوشش نہیں بلکہ نسیم بہار کی آمد کی طرح گلستانِ خیالات میں سرورانگریز روانی ہے۔ کہیں کہیں کلام میں ابہام دِقت فہم ہو سکتا ہے تاہم اُن کے بے تکلف اندازِ بیاں ، نظر کی گہرائی و شدتِ احساس سے اُن کا کلام اتنی بلندی پر نظر آتا ہے ، جہاں اساتذہ کا کلام بھی عام سا لگتا ہے۔ ان کے مصرعے اور اشعار مثالیں و کہاوتیں بن گئے ہیں۔ چنانچہ مجموعی حیثیت سے دنیائے ادب و میں شاہ نامہ، فردوسی، گلستانِ سعدی اور دیوانِ حافظ کی بعد فارسی میں چوتھی مؤثر ترین تصنیف مولانا کی مثنوی ہے اور یہ حددرجہ مسرت کی بات ہے کہ ان چار لازوال کتب میں پانچویں تصنیف علامہ اقبال کا جاوید نامہ قرار دی گئی ہے جو مطالب ، معانی، مقاصد اور فنی اوصاف میں کئی ارباب علم و ادب کے نزدیک ان سب سے ارفع ہے۔ بہرکیف کو فارسی میں قرآن کا درجہ دیا گیا ہے۔ مولانا جامی نے کہا ہے:
مثنوی و مولوی و معنوی
ہست قرآن در زبانِ پہلوی
اگرچہ بعض معترض حضرات کے نزدیک مثنوی میں بعض تمثیلات و حکایات قرآں حکیم کے تقدس کو مجروح کرتی ہیں میرے خیال میں یہ غلط تاثر ہے۔ بعض آیات کی تاویل مولویانہ ہونے اور فلسفانہ ہونے کے باعث تو علماء کو منظور نہیں لیکن اس سے قرآن حکیم کا تقدس ہرگز ہرگز مجروح نہیں ہوا ۔معانی و مفہوم میں وسعت اور عقائد میں صفائی ہوئی ہے پہلے دفتر میں مسئلہ تقدیر اس کا ثبوت ہے۔مگر یہ سوچنا چاہیے کہ مثنوی لکھتےہوئے مولانا کے سامنے اپنے زمانے کے لوگوں کا مذاق اور مزاج تھا۔ جس کے لیے کبھی کبھی ویسا ہی انداز مؤثر تھا۔ جو مولانا نے اختیار کیا۔ غرضیکہ متنوع و مضامین و موضوعات، قصص و حکایات کی فراوانی کا بیان ظاہر و باطن کے بارے میں اسرار و الائف اور قادر الکلامی نے مثنوی رنگبرنگ پھولوں کا دلکش گلدستہ بنا دیا ہے۔ اور تعلیم و تاثیر کے اثرات کو قائم رکھا ہے۔
مثنوی کا اصل موضوع تصوف و سلوک ہے۔ کثرت موضوعات کی تفاصیل کے باوجود مثنوی کا یہ محو اپنی جگہ قائم رہتاہے۔ یہ ایک طویل منظم نامہ ہے جس کے چھ جزو ہیں۔ اور آٹھ سال میں تکمیل کو پہنچا۔ مثنوی کا طرز استدلال عقل سے زیادہ احساس کو متاثر کرتا ہے اور دماغ سے زیادہ دل کو۔ مولانا دقیق سے دقیق مسائل کو دلچسپ تفصیلات سے اس طرح واضح کر دیتے ہیں کہ ان میں کوئی ابہام نہیں رہتا۔ اور وہ روز مرہ کا تجربہ بن جاتے ہیں۔مولانا کے اصحاب اورمخلصین جن کا انھوں نے تفکر واثر قبول کیا ہےوہ ہیں حکیم سنائی کا الٰہی نامہ و معصیت نامہ ، شیخ عطار کی منتطق اطیر اور اپنے مرید خاص شیخ حسام الدین کی درخواست، جس پر انھوں نے اس انداز میں مثنویشروع کی ۔ ان کے علاوہ مولانا نے اپنے استاد مکرم سید برہان الدین محقق ترمذی اور اپنے والد گرامی سلطان العلماکے رسالے معارف بہار کو بھی مثنویکے ماخذوں میں شمار کیا ہے۔ علاوہ شمس تبریز کے بہت سے مقالات، افعال اور قفص کو بھی اپنے معارف و تاثرات کا ماخذ قرار دیا ہے۔ جن سے مولانا کا تعلق زندگی کا ایک تاریخی موڑ ہے جن کے رُوپوش ہونے کے بعد مولانا کا کہنا تھا کہ شمس کے کمالات میرے کمالات ہیں اور شمس تبریز میں خود ہوں۔
قیامِ دمشق کے دوران مولانا کی شیخ اکبر ابن عربی سے کافی صحبتیں رہیں ہیں یہ خیال بے جا نہیں کہ مثنوی میں ابنِ عربی کے فکرکے اثرات بہت نمایاں ہیں۔مگر اس کے ساتھ کچھ اور حقیقتیں بھی ہیں۔ جنھیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ واقع یہی ہے کہ مولانا کا باطنی سلسلہ ابن عربی سے الگ ہے اور تربیتیں بھی جدا جدا ہیں۔ کچھ معاصرانہ چشمک بھی وجہ ہو سکتی ہے مولانا کا اپنا انداز یہ ہے کہ حکیم سنائی، شیخ فرید الدین عطار اوران کی مثنویوں کی تعریف و توصیف اپنے اصحاب اورمخلصین کی مجالس میں کرتی تھے اور مثنوی میں ان بزرگوں اور کتابوں کا بڑی عقیدت سے ذکر کیا۔ لیکن ابن عربی یا اس کی کسی کتاب کا ذکر مثنوی میں نہیں کیا۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ مولانا شیخ اکبر ابن عربی سے متاثر ہوں بھی تو ان کی خصوصی فکر سے نہیں۔ ابن عربی کے تاثرات میں بعض کے نزدیک یہ امر وضاحت طلب ہے کہ مولانا ابن عربی کے تصوّر وحدت الوجود کے حامی ہیں۔ ہرگز نہیں وحدت الوجود جبرے ارادہ اختیار کے قائل ہیں۔
ابن عربی مسلم صوفیا میں پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے وحدت الوجود کو ایک واقعیت کی صورت میں پیش کیا اور روحانی و مادی کائنات کی اس خیال سے توجیہہ کی کہ مولانا کے اشعار کا خاصہ حصہ توحیدی اثرات سے تعلق رکھتا ہے اور غالباًاشعار کی بنا ء پر مولانا کو وجودی وحدت کے قائلین میں شمار کر لیا گیا ہے۔ مثنویکے شارحین نے بالعموم مثنوی کی شرح ابن عربی کے وحدت الوجود کے زیر اثر کر ڈالی ہے۔ اورمولانا کی مثنوی کو توضیحات و تاویلات سے وحدت الوجود کی معتقد بنا دیا ہے۔ بلاشبہ مثنوی میں ایسے اشعار کافی تعداد میں ہیں جن سے توحیدِ وجودی کا مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کا اصل تعلق حال و قال و جذب و استغراق سے ہے نہ کہ ابن عربی کے فلسفہ وحدت الوجودسے۔ ان کی تالیفمناقب العارفین جس میں مولانا کے بہت سے ملفوظات ہیں۔ اس میں مولانا کا کوئی بیان نہیں جو اُن کے توحید وجودی کے عقیدے کو ظاہر کرتا ہو۔ مولانا کی تصنیف فیہ ما فیہ میں بھی اس خبال کا کوئی اظہار نہیں۔ اس لیے صریح رائے کے اظہار کے بغیر محض انفرادی تجربات و مشاہدات سے محسوس ہونے والی وجودی وحدت کو مولانا کا صوفیانہ مسلک نہیں قرار دیا جا سکتا۔ بلکہ مولانا اپنے کلام میں ارادتاًابن عربی کی اصطلاحات سے بچتے تھے تاکہ توحید وجودی کے متاثرین میں ان کا شمار نہ ہو اور وہ ابن عربی کی طرح کائنات کی ہر شے کو خدا تعالیٰ کی ذات کا حصہ نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ ناصر کائنات کو بحرِ حیات یعنی اللہ تعالیٰ کی ہستی کی سطح پر بلبلے، جھاگ، لہریں سمجھتے ہیں جو بنتے ، بگڑتے اور فنا ہوتے رہتے ہیں ۔ کچھ ایسا خیال غالب کے شعر سے بھی ظاہر ہے۔
ہے مشتمل نمودِ صور پر وجودِ سحر
یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں؟
جب کہ ابن عربی کے نزدیک کل شیاء ھالک الا وجھہہ یعنی ہر فنا ہو جانے والی شے اصل شے سے مل جاتی ہے۔ گویا فنا ہونے والی شے اپنی ہستی کو کھو کر اصل ہستی سے مل جاتی ہے کیونکہ وہ باری تعالیٰ کا ہی حصہ ہے۔
مثنوی میں قرآنی آیات و احادیث کے بھی کافی حوالہ جات پائے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ تقریباًایک تہائی حصہ حکایات ، قصص اور امثال پر مبنی ہے۔ جن میں کافی تعداد دوسری کتابوں سے ماخوذ ہے۔ مثلاًمقالاتِ شمس تبریز، خواجہ عطار ، امام غزالی اور انوری کے خیالات اور کلیلہ دمنہ جیسی تصفانیف سے ماخوذ ہیں۔ ان کو بیان کرنے کا مطلب مقصد صرف دلچسپی بڑھانا نہیں بلکہ حقائق و معرفت ، ارشاد، تلقین و ہدیت ہے جو مثنوی کا اصل مقصد ہے۔
رومی مثنوی میں صوفیانہ اسلام کا تصور پیش کرتے ہیں جس میں نہ متکلمانہ عقلیت ، نہ محققانہ ظاہریت ہے بلکہ فقیہانہ شدت و فلسفیانہ آزادی خیال سے الگ گہری جذباتیت، روداری، تحمل حلیمی اور ولاہانہ ایمان و ایقان، ارادت، خوش اعتقادی کی آٖیزش کا احساس پیدا ہوتا ہےؤ مولانا کا سلام تنگ نظری رسوم و قیود کی بے جاپابندی سے دور ہے۔ اصل اہمیت مغرومعنی کو حصل ہے ظاہری پوست، و عظمیت و عقلیت پرستی کی اس میں گنجائش نہیںؤ
اب موضوعِ مضمون کے لحاظ سے اقبال کے مولانا روم کے ساتھ گہری وابستگی کا ذکر کرتے ہیں۔جو آٹھ سو برس پہلے جہانِ فانی سے کوچ فرما چکے ہیں۔ اقبال آغازِ شاعری سے رومی کے پرستار نہ تھے۔ اگرچہ اُن کے تمام اردو کلام میں۲۳بار رومی کا نام آتا ہے اور بانگِ درا میں جو ان کی شاعری کی ابتدائی کتاب ہے صرف ایک شعر ہے جس میں رومی کا ذکر ہے
گفت رومی ہر بنائے کہنہ کا آباداں کنند
می نہ دانی اوّل آں بنیاد را ویراں کنند
اس کے برعکس فارسی شاعری میں رومی کا نام ۷۶جگہ آیا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ اقبال نے یورپ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دوران مفکرین اسلام کا وسیع مطالعہ کیا۔ جس کی نتیجے میں رومی نے انھیں سب سے زیادہ متاثر کیا اور رومی رفتہ رفتہ اقبال کے مرشد بن گئے اور اقبال مرید ہندی۔
اقبال کی اردو شاعری میں رومی کا تذکرہ جس انداز میں ملتا ہے اُس میں رومی قافلۂ عشق کا سالارہے۔ رومی بننے کے لیے آہِ سحر گاہی ضروری ہے ابال مزید کہتے ہیں۔ آج دنیا کے لیے رومی ناگزیر ہے۔ اتباع رسول ﷺرومی سے سیکھو۔ میں نے سوز و ساز اور تڑپ رومی سے حاصل کی ہے۔ میری فکر رومی کے افکار کی خوشہ چین ہے۔ رومی عشق، جگر کاوی اور عمل کا بہتا دریا ہے۔گذشتہ زمانے میں رومی تھا اور میں آج کے دور میں ہوں۔ میں نے سب کچھ رومی سے حاصل کیا ہےؤ چنانچہ اقبال نے عرفان اور سوزِ رومی کو فلسفۂ پیچ و تابِ رازی پر ترجیح دی اورپوری طرح رومی کے حلقۂ عقیدت میں آگیا اور یوں اعتراف کیا :
نَے لہرہ باقی نَے مہرہ بازی
جینا ہے رومی ہارا ہے رازی
گویا اقبال نے حکیم فقیہہ کے مقابلے میں کلیم کو اعلیٰ مقام دیا ہے
صحبتِ پیر روم سے مچھ پہ ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سربجیت ایک کلیم سربکف
حکیم عقل کا نمائندہ ہے جو تخمین وظن کے اندیشے میں مبتلا رہتا ہے۔ اورکلیم عشق کی مدد سے مسائلِ حیات حل کر دیتا ہے۔ رومی کو اقبال اعلیٰ روایات کا امین جانتا ہے۔ اگر آج مسلمان سحرِ فرنگ میں گرفتار ہو گئے ہیں اور اپنی درخشندہ روایات بھول چکے ہیں ۔ اس غلامی کاعلاج اقبال کے نزدیک رومی ہے
علاج آتشِ رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
ہمیں فرنگی عقل کے بجائے رومی کی دانش نورانی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ جو علوم کے حصول کی تلقین کرنے کے ساتھ محبت اور اخلاص کے تابع رکھتی ہے۔ کیونکہ فرنگی دانش ملمع، استحصال، تباہی، استعماری ظلم اور غیر اخلاقی ہتھکنڈوں کی حامل ہے۔ اگرمسلمانوں میں رومی جیسا رہنما رونما ہو جائے تو ان کی کھوئی ہوئی عظمت پھر حاصل ہو سکتی ہے۔
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زروں سے
وہی آب و گل ِ ایراں وہی تبریز ہے ساقی
یہاں یہ ذکر مناسب ہو گا کہ رومی کو اپنا مرشد بنناے میں رومی نے خود اقبال کو منتخب کیاتھا۔ تفصیل اس طرح ہے کہ یورپ سے واپسی کے بعد اقبال کی شاعری کا آخری دور شروع ہوگیا۔ یورپ کی تعلیمی اور صنعتی ترقی سے اقبال ذہنی طورپر بہت متاثر تھےؤ اس کے مقابل اُس کے ہم وطن شکست خوردہ، مایوس، مفلس ، تقدیر اور قسمت کو ذلت و زوال کا سبب ٹھہرا رہے تھے۔ مگر اقبال کے نزدیک یہ حالت اُن کی تقدیر اور تقلید پرستی کے سبب سے تھی۔ جو علومِ جدید سے لا تعلقی کٹھ ملائیت اور وحدت الوجود کے علمبردار صوفیا کے پھیلائے ہوئے اور پیدا کردہ بے عملی کا نتیجہ تھی۔ اس انحطاطی اور مایوس ذہنی حالت سے نکالنا ہی مسلمانوں کا علاج تھااور یہ فریضہ اقبلا نے بطور حکیم الامت بڑی کامیابی سے سرانجام دیا۔ لوگوں کو مایوسی کے اندھیروں سے نکالنے اُن میں خود اعتمادی اورکھوئی ہوئی عظمت کے حصول کے لیے نیاعزم و ولولہ پیدا کیا اور یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے انھیں خودی کا تصور دیا۔ چنانچہ وہ مثنوی روم کی طرح مثنوی لکھ کر عوام تک اپنا اپنا پیغام پہنچانا چاہتے تھے۔ اس ضمن میں واقعہ کا ذکر بے محل نہ ہوگا۔ جو یکم اگست ۱۹۱۲ء کو خواجہ حسن نظامی کے اخبار توحید میں شائع ہوا۔جو یوں ہے کہ اقبال نے خواب میں دیکھا کہ مولانا انھیں مثنوی لکھنے کو کہہ رہے ہیں۔ اقبال نے جواباًکہا کہ مثنوی کا حق تو آپ بخوبی ادا کر گئے ہیں۔ رومی نے کہا وہ چاہتے ہیں کہ اقبال بھی مثنوی لکھے۔ اقبال نے جوابا عرض کیا کہ آپ خود تو خودی مٹانے کی بات کرتے ہیں جب کہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ قائم رکھنے کی چیز ہے۔ مولانا نے کہا اُن کا مقصد بھی وہی ہے جو اقبال سمجھتے ہیں ۔ اس خواب سے اقبال بیدار ہوئے تو ان کی زبان پر فارسی اشعار جاری تھے۔ چنانچہ خواب کے اس واقعے کو خواجہ حسن نظامی نے اسراری خودی کے عنوان سے شائع کر دیااور ۱۹۱۴ء میں اقبال کی مثنوی بھی اسرارخودی کے نام سے شائع ہو کر عوام کے سامنے آ گئی۔
اقبال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے مولانا روم کو ہی اپنا مرشد کیوں بنایا؟ جس کے بارے میں اہل فکر و بصیرت کا جواب ہے کہ اس خواب کی تعبیر کے لحاظ سے خود مولانا نے اقبال کو اپنے محبوب مرید کے طورپر منتخب کیا اور سب نے دیکھا کہ شاعرانہ زندگی کے اختتام تک اقبال مولانا روم کے ساتھ اس طرح چلتا ہے جیسے کوئی شاگرد اپنے مرشد کے ساتھ طالبعلمانہ چلتا ہے۔ بالِ جبریل میں اقبال کی مشہور نظم ‘‘پیرومرید’’ اور اُس کی آفاقی شاعری کی تصنیف ، جاوید نامہ جو اقبال کا رومی کی رہنمائی میں معراج ِ نامہ یا سیرِ افلاک ہے اس کا بین ثبوت ہے۔
ویسے بھی مولانا روم اور اقبال میں مشابہت کے واقعات لحاظ سے کئی پہلو ہیں۔ دونوں نے اپنے زمانے کے تقاضوں کے پیش نظر قرآنی تعلیمات کی توضیح کی ۔ انھوں نے اپنے علاقے کی زبان کی بجائے دوسری زبان میں شاعرع کی مولانا کے علاقے کے زبان ترکی تھی اور ہندوستان کے عام زبان اردو مگر دونوں نے فارسی کو ذریعۂ اظہار بنایا۔ اگرچہ اقبال کی اردو شاعری بھی بڑی وسیع او راہمیت کی حامل ہے۔ دونوں کی تخلیقات نے بےحد شہرت حاصل کی اوران کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں کے گئے۔ دونوں کے کلام پر قرآن پاک کی تعلیمات کے گہرے اثرات ہیں۔ دونوں نے اپنی بعد آنے والی نسلوں کو فکری طور پر بے حد متاثر کیا۔ دونوں اپنے زمانے کے سائنسی اور فلسفیانہ علوم سے آگاہ تھے اورانھیں کلام میں مقصد واضح کرنے کے لیے استعمال کیا۔ دونوں کے افکار کا منبع قرآنِ حکیم ہے۔ بقول اقبال رومی عصرِ کہن کے فتنوں کا علاج تھے اور وہ خود دورِ حاضر کے مسائل اور فتنوں کا۔
چو رومی دَر حرَم دادم اذاں من
ازُو آمو ختم اسرارِ جاں من
بہ دَورِ فتنۂ عصرِ کہن اُو
بہ دَورِ عصر رواں من
اقبال نے مثنوی اسرار خودیکی ابتدا ہی رومی کے اشعار سے کی
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گردِ شہر
کز دام و دَد ملولم و انسانم آرزو است
یعنی رومی کو معاشرے کے لیے ایسے انسان کی تلاش تھی جو اعلیٰ اخلاق حسنہ اورکمالات کا مرقع ہو اور زبانِ اقبال کے مطابق اپنی خودی کی تکمیل کی منازل طے کر چکا ہو۔ رومی اور اقبال نے افراد کی تعمیر کی اہمیت پر اس لیے زور دیا ہے کہ افراد سے ہی قومیں بنتی اور سر بلند ہوتی ہیں۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
مولانا روم حکیم سنائی وعطار کو اپنا پیش رو قرار دیتے ہیں اور اُن کی مدح میں کئی اشعار کہے ہیں۔ اقبال بھی اُن کے مقام کا قائل ہے تاہم اُن کے تصورِ افلاس و جسمانی نقاہت، ضعف پسندی سے اتفاق نہیں کرتے کہ ایسے افراد اور قوم کمزور و بے عمل بنانے والے عناصر ہیں۔ وہی قوم اپنے دشمنوں، مخالفین اور زمانے کے چیلنجوں سے عہدہ براہ ہو سکے گی۔ جس میں اخلاقی اوصاف کے ساتھ دنیاوی وسائل، مال و متاع و قوی جسم کے افراد ہوں گےؤ مادی وسائل نہ صرف دنیاوی حاجات ، اصلاحی کاموں کے لیے کام آتے ہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اُن کی ضرورت ہوتی ہے اور صحت مند و جفاکش مضبوط انسا ن ہی کیا امن کیا جنگ، کمزور و ناتواں سے بہتر کارگردگی دکھا سکتے ہیں۔ البتہ اقبلا نے ذاتی تعیش ، امیرانہ ٹھاٹھ بھاٹھ کی بے حد مذمت کی ہے اور طبیعت میں فقر و استغنا کو اختیر کرنے کے لیے تاکید کی ہے ۔اُن کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں :
نہ فقر کے لیے موزوں نہ سلطنت کے لیے
وہ قوم جس نے گنوایا متاعِ تیموری
میں ایسے فقر سے اے اہلِ حلقہ باز آیا
تمھارا فقر ہے بے دوستی و رنجوری
بچھائی ہے جو کہیں عشق نے بساط اپنی
کیا ہے اُس نے فقیروں کا وراثِ پرویز
خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں
زِرہ اگر کوئی محفوظ رکھتی ہے تو استغنا
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
کافر ہے مسلماں تو نہ شاہی نہ فقیری
مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی
کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلماں
مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیرِ الٰہی
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
اُس کی شدید خواہش ہے کہ ماضی کی طرح مسلمانوں کو پھر شان و شوکت حاصل ہوا۔ اور وہ اس ضمن میں پُر امید تھے۔
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی، ذحنِ ہندی، نُطقِ اعرابی
یا سنجر و طُغرل کا آئینِ جہانگیری
یا مردِ قلندر کے اندازِ ملُوکانہ
اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ افلاس اور ضعف و ناتوانی کوئی قابل قدر اشیاء نہیں۔ ہاں دولت و اقتدار کے ہوتے ہوئے فقر و استغنا اصل جوہر ہیں۔
کمالِ ترک نہیں آب و گل سے مہجوری
کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نُوری
رشی کے فاقوں سے ٹوٹا نہ برہمن کا طلسم
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
غرضیکہ افلاس میں توکّل و ضعف و ناتوانی میں حُسن ، ترکِ دنیا میں معرفت، بیکاری و بے عملی میں شانِ بے نیازی۔ یہ دراصل وحدت الوجود کے مضرِ تحائف ہیں۔ جن سے رومی اور اقبال مسلمانوں کو چھٹکارا دلانا چاہتے ہیں ۔
اس کے علاوہ اقبال اپنے مرشد رومی کی رہنمائی میں اپنی عظیم تصنیف جاوید نامہ میں سیرِ افلاک کو جاتا ہے اورہر ملک پر مشاہیر سے الگ الگ ملاقات و سوال و جواب کرتا ہے۔ جو دراصل اہلِ زمین کی مشکلات و مسائل حل کرنے کے لیے ایک منظوم تمثیل اور حیرت انگیز مناظرے کا مرقع ہےگویا جاوید نامہ افلاکی سفر نامہ کی صورت میں محض ذحنی تعیش کے لیے نہیں لکھا گیا۔ بلکہ اپنی ملّت پر گزرے ہوئے کٹھن حالات و مصائب سے دو چار ہونے کے بعد موجودہ پس ماندگی، شکستہ اور پژمردہ قوم میں جذبہ آزادی، حریت و حمیّت بیدا کرنے اوران کے لیے درخشاں مستقبل کی نوید کا حامل ایک پیغمبرانہ صحیفہ ہے۔ اقبال نے اپنے عزیز معتقد ڈاکٹر محمد دین تاثیر نے خود کہا کہ اس تصنیف کے بعد میرے دل و دماغ نچڑ گئے ہیں۔
اقبال نے رومی کے کلام کی تشریح و توضیح اس طرح کی ہے کہ رومی درِ جدید کے رہنما کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ بقول استاد الاساتذہ ڈاکٹر سیّد عبداللہ۔ اقبال سے پہلے رومی کی نوعیت جزوی اور انفرادی تھی۔ ‘‘یہ اقبال ہی تھے جن کے طفیل رومی کے افکار کی تشریح ہوئی۔ جس سے وہ حیاتِ اجتماعی اور ارتقاء انسانی کے ایک بڑے ترجمان اور محرم اسرار ثابت ہوئے۔ ’’اقبال رومی کے کلام کی شرح کی طرف اس لیے متوجہ ہوئے کہ ان کے ہاں عصرِ حاضر کے مسائل کا حل ملتا ہے اور بڑی حد تک اقبال کے نظریات سے مطابقت بھی رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ بالِ جبریل کی نظیم پیر و مرید میں رومی کے مرید کی طرح ان سے سوالات کرکے زندگی کی پیچیدگیوں کو حل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک مکالمہ یوں ہے :
مرید ہندی:
چشم بینا سے ہے جاری جوئے خُوں
علم حاضر سے ہے دیں زار و زبُوں
جواب رومی:
علم را برتن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود
اقبال اور رومی دونوں کے ہاں دل کی بڑی اہمیت ہے۔ رومی بتاتے ہیں کہ خدا دل میں ہے۔ لہٰذا اُس کی تلاش دل میں کریں۔ اقبال خودی اور خدائی کو معنوی طور پر قریب لے آتے ہیں
خودی کا نشمین ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تِل میں ہے
خودی میں گم ہے خدائی تلاش کر غافل
یہی ہے ترے لیے اب اصلاحِ کار کی راہ
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
[ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
رومی کے نزدیک خودی تکبر، غرور ، رعونت کے معنی رکھتی ہے جو مستحسن رویّے نہیں… مگر اقبال نے خودی کو انسان کی سب سے بڑی متاع قرار دیا ہے۔ دراصل یہ فرق رومی اور اقبال کے مختلف زمانوں کی وجہ سے ہے۔ رومی کے زمانے میں اسلامی حکومت تھی۔ مگر اقبال کے دَور میں ہندوستان غلام تھا۔ اقبلا نے خودی کو ذات کی تکمیل کے معنی دے کر قوم کو بیداری اور حصولِ آزادی کے عمل کے طورپر استعمال کرنے پر مائل کیا۔ اقبال کہتا ہے کہ جن کی خودی خام ہو وہ ناکام رہتے ہیں۔ خودی پختہ ہو تو اس کی مرضی خدا کی رضا ہو جاتی ہے۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کار کشا کارساز
منصور حلال کے نعرۂ اناالحق کو رومی اور اقبال دونوں خودی کا مظہر قرار دیتے ہیں اور اُس کی سزا کو خون ناحق سمجھتے ہیں
کم نگاہوں فتنہ ہا انگیختند
بندۂ حق را بدار آویختند
رومی و اقبال دونوں عشق کے پرستار ہیں۔ رومی خدا کے عشق میں فنا ہونے کے قائل ہونے کے باوجود بقا کے قائل ہیں اس کی مثال اس طرح دیتے ہیں کہ لوہا آگ میں پڑ کر آگ کی صفات پیدا کر لیتا ہے۔ مگر وہ لوہاہی رہتا ہے اور اپنا وجود برقرار رکھتا ہے۔ اس مثال میں اقبال کے تصورخودی کا عکس بھی موجود ہے ۔
اقبال قطرے کو دریا میں مل کر فنا ہونے کے برعکس صدف میں موتی کی حیثیت اختیار کرنے کو کہتے ہیں کہ سمندر میں ہوتے ہوئے اپنی انفرادیت، وجود و احساس بندگی کو زندہ رکھ کر خدا سے الگ اپنی ذات اور مقائم قائم رکھے ۔ بقول اقبال:
گراں بہا ہے تو حفظِ خودی سے ہے ورنہ
گہر میں آبِ گہر کے سوا کچھ اور نہیں
متاعِ بے بہا ہے سوز و سازِ آرزو مندی
مقامِ بندگی دے کر نہ ہوں شانِ خدا وندی
[
گویا مولانا کے نزدیک عشق فناء ذات کی مانند ہے مگر اقبال کے ہاں عشق تعمیرِ ذات کا باعث ہے۔
رومی اور اقبال عشق کو انسانیت کی بیماریوں کا علاج اور طاقت، ہمت، عزم و استقامت کا ذریعہ جانتے ہیں ۔
رومی کہتے ہیں :
شادباش اے عشقِ خوش سودائے ما
اے طبیب جملہ عِلّت ہائے ما
اے دوائے نخوت و نامُوسِ ما
[ اے تو افلاطون و جالینوس ما
اور اقبال یوں گویا ہیں:
بیا اے عشق اے رمزِ دل ما
اے کشتِ ما اے حاصل ما
عشق خلیل بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق معرکۂ وجود م یں بدر وحنین بھی ہے عشق
عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات
عشق ہے نارِ حیات عشق ہے نورِ حیات
عشق دمِ جبرئیل عشق دلِ مصطفی
عشق خدا کا رسولؐ عشق خدا کا کلام
رومی او ر اقبال عقل و عشق کی آویزش میں اگرچہ عشق کا ساتھ دیتے ہیں۔ مگر پوری طرح عقل کو رد نہیں کرتے اور اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں ۔ عقل کو اقبال جویائے راہ اور عشق کو دانائے راہ قرار دیتے ہیں۔ دونوں تسلیم کرتے ہیں کہ عقل ایک حد تک رہنمائی کرتی ہے اس کے بعد ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔ جیسے واقعہ معراج میں جبرئیل سدرۃ المنتیٰ پر پہنچ کر کہتا ہے:
اگر ایک سرِ مُوئے برتر پرم
فروغ تجلی بسوزد پرم
دونوں کے نزدیک عقل ایک حد تک کارآمد ہے
خرد سے راہر و روشن بصر ہے
خرد کیا ہے چراغ رہگزر ہے
درُونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغِ رہگزر کو کیا خبر ہے؟
عقل گو آستاں سے دُور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے
مولانا کو مرشد بنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ تقدیر کے مسئلہ پر اقبال کے ہم خیال ہیں۔ انھوں نے رومی کے مقابلے میں امام رازی کواس لیے مسترد کر دیا کہ وہ جبر کے قائل تھے۔ جب کہ رومی قدر کے حامی تھے۔ اقبال مسلمانوں کو جدوجہد کی تعلیم دینا چاہتے تھے۔ جو غلامی کی زنجیروں میں جکرے ہوئے تھے۔ انھیں غلامی سے نجات دلانا چاہتے تھے مگر تقدیر کا مسئلہ ان کی راہ میں حائل تھا کہ جو تقدیر میں خدا نے لکھ دیا ہے وہی ہوتا ہے ہمارے کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ رومی اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ تقدیر کے لکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے بلکہ یہ کہ ہر کام کی جزاء اور تاثیر مقرر کردی گئی ہے۔ اگراچھا کام کروگے تو اچھا نتیجہ ہوگا اور بُرا کرو گے تو بُرا ہوگا ۔ یعنی لیس للاانسان الا ما سعی کہ انسان کو وہی ملے گا جس کی وہ کوشش کرے۔ چنانچہ اچھے اور بُرا کام کرنے کا نتیجہ مقرر کر دیا گیا۔ اقبال افسوس سے تقدیر پرستوں کی سوچ کے بارے میں کہتے ہیں کہ :
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
بلکہ وہ جتلاتا ہے :
عبث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟
اقبال رومی سے طلانی یا را ہبی کے بارے میں دریافت کرتے ہیں
کاروبارِ خسروی یا راہبی
کیا ہے آخر غایتِ دینِ نبی؟
تو رومی جواب میں کہتے ہیں :
مصلحت در دین ما جنگ و شکوہ
مصلحت در دینِ عیسیٰ غارِ کوہ
اس سے تقدیر کے جبر کی حد اور عمل کی قوت تغیر و تسخیر کے بارے میں بات واضح ہو جاتی ہے۔ غرضیکہ اقبال کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کوبااختیار بنا کر خود اپنے آپ پر پابندی عاید کر رکھی ہے کہ وہ انسان کے عمل میں مداخلت نہیں کرے گا جو اپنے اعمال کا ذمہ دار ہوگا۔ یہ انسان پر منحصر ہے کہ نیکی، بدی، جبر واختیار میں کون سا راستہ اختیار کرتا ہے۔
اقبال اور رومی دونوں نظریہ ارتقاء کے قائل ہیں۔ اقبال نے مولانا کے شعر اپنے خطبات میں نقل کیے ہیں کہ زنگی کا ظہور جمادات سے ہوا تھا۔ پھر نباتات کی شل میں ، پھر حیوان اور آخر میں انسان کے قالب میں داخل ہوئی اقبال کے نزدیک نظریۂ ارتقاء انسان کو مستقبل سنوارنے کی تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ اُس کی اپنی شاعری میں یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے۔ اس ارتقاکو بعض نا سمجھ مخالفین تضاد کہتے ہیں۔ حالانکہ اقبال ہر لمحہ تغیّر اور حرکت کا علمبردار ہے۔
تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی
دما دم رواں ہے یمِ زندگی
ہر اک شے سے پیدا رمِ زندگی
اقبال اور رومی میں ایک اختلاف یہ ہے کہ مولانا تو باطنی مفہوم کے قائل ہیں۔ مگر اقبال باطنی مفہوم کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک وہی معنی درست ہیں جن کو الفاظ کے مطابق عام لوگ سمجھتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے حافظ شےرازی کے کلام پر تنقید کی تھی کہ اس کا ظاہری مفہوم قوم کے لیے غیر مفید ہے۔ گویا باطنی مفہوم کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ اقبال کہتے ہیں کہ حقیقت میں مذہب یا قوم کے دستور العمل میں باطنی مفہوم پیدا کرنا اصل دستور العمل کو مسخ کر دیتا ہے۔ یہ ایک فنکارانہ یا منافقانہ طریقۂ تنسیخ ہے۔ یہ طریقہ وہی قومیں اختیار کرتی ہیں جن کی طبیعت میں گوسفندی ہو اور سردانگیِ عمل و جدوجہد کے اوصاف سے محروم ہو چکی ہوں۔ اسی بنا پر اقبال نے اسرار خودی کے دیباچہ میں حافظ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے اسے قوم کے لیے نہایت ضرر رساں قرار دیا۔ مگر جب اس کی حد درجہ مخالفت ہوئی تو مذمت کو یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ لوگوں کو اصلیت سے آگاہی ہو گئی ہے۔ اس لیےاب اس کی ضرورت نہیں رہی۔ پھر اپنے آخری دور میں وہ خود بھی کسی حدتک وحدت الوجود اور ابن عربی کے نظریات سے اتفاق کرنے لگ گئے۔ اس طرح حافظ کے کلام پر تنقید سے جو تلخی پیدا ہوئی تھی اسے رومی کی دوستی نے ختم کردیا۔
رومی اور اقبال کے نظریات میں مماثلت کو ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم نے اس طرح سمیٹا ہے۔
۱۔ اقبال کے نظریۂ خودی کا تصور رومی کے ہاں ملتا ہے۔ عام صوفیاء نے فنا اور ترک پر زور دینا عین دین بنالیا ہے۔ مثنوی نے اس کو بقا میں بدل دیا ہے۔ رومی اور اقبال دونوں کے ہاں خودی کا استحکام لازم ہے۔
۲۔ عجمی تصوف نے ترک حاجات کو خدارسی کا ذریعہ قرار دیا تھا مگر رومی کے نزدیک حاجت منبوع اثبات وجود اور ذریعۂ بہبود ہیں بشرطیکہ حاجات پست اورحیات کُش نہ ہوں۔ اقبال کے کلام میں جا بجا اس نظریے کی توثیق میں اشعار ملتے ہیں۔
۳۔ اقبال کا فکر، عقل، آرزو، جسجتو کا نظریہ رومی کے افکار میں بھی ملتا ہے کہ ناھی کی وجہ سے جذبوں کا تموج اور احساسات کی حرکت کبھی نہیں تھمتی۔ یعنی
زندگی در جسجتو پوشیدہ است
اصل اُو دَر آرزو پوشیدہ است
۴۔ رومی اور اقبال دونوں وجود کے فنا کے بعد بقاء دوام کے تصور پر یقین رکھتے ہیں۔ فنا حقیقت ہے مگر مرد مومن کے عمل میں رنگِ ثباتِ دوام ہے۔ ابن عربی کے نظریۂ وحدت الوجود سے دونوں کو اتفاق نہیں ہے۔
۵۔ دونوں کے یہاں عقل و عشق کا باہمی ساتھ زندگی کا تقاضا ہے۔ عقل و عشق اپنے اپنے مقام پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ عقل عشق کی اولین مظہر ہے جو مادرائی حد پر پہنچ کر عشق کے حق میں دستبردار ہو جاتی ہے۔
۶۔ دونوں جبر کے منکر ہیں اور تقدیر کی اس تعبیر کوردّ کرتے ہیں جو انسان کی ذہنی و جسمانی ارتقا کی رفتار کو روکتی ہے۔
مندرجہ بالا معروضات سے واضح ہو گیا ہوگا کہ علامہ رومی سے کس قدر متاثر ہیں۔ اگرچہ زمانوں کے فرق کی وجہ سے بعص امور پر اقبال کو رومی سے ایک حد تک اختلاف بھی ہے۔ جو قدرتی امر ہے تاہم عام طورپر وہ رومی کے اخذکردہ نتائج سے اتفاق کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ رومی اور اقبال دونوں نابغۂ عصر انسان ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عطا کیے ۔ اقبال کی محبت رومی سے خصوصاًاس سبب سے بھی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے مروجہ علوم پر حاوی ہونے کے ساتھ اسلام کی عظٖت سے ہمارے دلوں کو معمور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے موجودہ زمانے کے لیے ایسے رہنما کی موجودگی کی آرزو کی ہے جو رومی کی طرح نہ صرف اسلام اور علوم جدید سے آگاہ ہو بلکہ ہم نسوں کے لیے اس کا دل محبت سے منوّر ہو۔ جو فلسفۂ رازی کی پیچیدگیوں میں اُلجھانے کی بجائے قوم کے نادر بے ہام کو سُوئے قطار لے آئے۔ جو منزل کی طرف جاتی ہو یعنی بقولِ ؟؟؟
شعر کجا و من کجا ساز سخن بہانہ ایست
سوئے قطاری کشم ناقۂ بے زمام را