ڈاکٹر سلیم خان بحیثیت افسانہ نگار بہت زیادہ مشہور و معروف نہیں ہیں۔ بحیثیت سماجی کارکن اور صحافی وہ زیادہ جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعہ حصار کی اشاعت سے ان کا یہ جوہر ان کے جاننے والوں پر کھلا ہے۔ اردو کے نقادوں، فن کے پارکھوں اور ادب کے اجارہ داروں تک ابھی ان کا یہ مجموعہ نہیں پہنچا ہے۔ ان نقادوں کی اپنی الگ دنیا ہے۔ امراؤ جان اداؔ کی طرح کوئی روزہ کھلوائے تو یہ روزہ رکھتے اور کوئی کتاب پڑھوائے تو یہ پڑھتے ہیں۔ لکھنے کا مرحلہ تو بہت بعد میں آتا ہے۔ بیچارے فن کار کو تو یہ کہتے ہوئے صبر کر لینا پڑتا ہے:
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
انسان کی شہرت اس کی عظمت کی دلیل ہرگز نہیں ہے اور اسی طرح کسی فن کار کا گوشۂ گمنامی میں پڑا رہنا اس کی عظمت کے منافی نہیں۔ بہت سارے فن کار ایسے ہیں جن کو ان کے مرنے کے بعد شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ حفیظ میرٹھی نے کہا تھا:
تو جوہری ہے تو زیبا نہیں تجھے یہ گریز
مجھے پرکھ میری شہرت کا انتظار نہ کر
یہ مضمون ادب کے طلبہ کی طرف سے فرض کفایہ ادا کرنے کیلئے لکھا جا رہا ہے۔ ادب سماج کا آئینہ ہے مگر ڈاکٹر سلیم خان کے افسانے محض سماجی مسائل کی گتھیوں کو سمجھنے اور سلجھانے تک محدود نہیں ہیں۔ ان کے افسانوں کا سر رشتہ انسانی علوم کے سب شعبوں سے ملتا ہے۔
فلسفہ، نفسیات، اسلامیات، سیاسیات، سماجیات، معاشیات، ادبیات، تجارت، سائنس، ٹکنالوجی اور تاریخ سارے علوم کی ضوفشانیاں ان کے افسانوں میں موجود ہیں۔ ایک ماہر آرٹسٹ کی طرح انہوں نے قوس و قزح کے ہر رنگ سے کام لیا ہے۔ وہ وسیع مطالعہ، عمیق تجربہ اور مشاہدے کے حامل فنکار ہیں۔ سماجی، سیاسی، ملکی اور بین الاقوامی سلگتے مسائل پران کی گرفت مضبوط ہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی بے لاگ جرأت مندانہ اور فنکارانہ اظہار خیال ہے۔ وہ کہیں کسی سطح پر کسی سے مرعوب نظر نہیں آتے اور نہ کسی کی رعایت کرتے ہیں۔ کسی سے کوئی کمٹمنٹ نہیں۔ حق گوئی اور سچائی ہی ان کا مسلک و مذہب ہے۔ تعمیر و ترقی ان کا مطمح نظر ضرور ہے لیکن یہاں بھی کسی مخصوص گروہ یا جماعت یا نظریے کی تبلیغ نہیں۔ اسلامی اقدار سے محبت اور سربلندی کی تمنا ضرور ہے لیکن وہ بھی اس لئے کہ وہ اسلام کو انسانیت کی فلاح اور نجات کا ذریعہ سمجھتے اور اس پر یقین رکھتے ہیں اور اس کے اصولوں کو پیش کرنے اور اس کی تائید کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہیں کرتے۔
قصہ گوئی کے فن پر ان کو کامل عبور ہے۔ نہ صرف ماجرا نگاری بلکہ علامتوں اور تمثیلات کے ذریعے خوبصورت پیرایہ میں اپنی بات کو پیش کرنے کا فن ان کو خوب آتا ہے۔ اگرچہ ان کے یہاں سیاسی مسائل، قومی اور بین الاقوامی احوال و واقعات کے تجزیے بکثرت ہیں لیکن یہاں بھی نظریات کی پیش کش میں فن کے تقاضوں کو متاثر ہونے نہیں دیا گیا۔ کردار نگاری میں وہ منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ان کے افسانے کے کردار ایسے جاندار ہیں کہ قاری ان کو اپنی نگاہوں کے سامنے چلتے پھرتے اور حرکت و عمل کرتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔ ان کی افسانہ نگاری کی سب سے بڑی خوبی، ان کی مکالمہ نگاری ہے۔ طویل اور مختصر افسانوں میں ان کے مکالمے اتنے برجستہ اور جاندار ہوتے ہیں کہ افسانے کی طوالت قاری کے ذہن پر گراں بار نہیں ہوتی۔ ان کے افسانوں میں ڈرامائیت کا عنصر کم ہوتے ہوئے بھی نقطۂ عروج بہت جاندار اور اختتامیہ بہت خوبصورت ہوتا ہے اور قاری ان کے مطالعہ سے ایک خاص قسم کی مسرت محسوس کرتا ہے۔ عبرت و نصیحت قصہ گوئی کا بنیادی عنصر ہے۔ آسمانی کتب میں انبیاء، سابقین اور ان کی امتوں کے جو احوال و واقعات بیان ہوئے ہیں وہ بھی عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم خان نے اپنی افسانہ نگاری میں اس عنصر کو غالب رکھا ہے۔ ان کی ہر کہانی سبق آموز ہے۔
اردو کے معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق، ڈاکٹر سلیم خان کے مجموعہ پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حصار کے بیشتر افسانے اظہاریاتی اور تاثراتی اسلوب میں لکھے گئے ہیں۔ افسانہ نگار کا بیانیہ تجریدیت کی ژولیدگی اور ابہام کی پیچیدگی سے پاک ہے۔ بعض کہانیوں میں تمثیل نگاری سے کام لیا گیا ہے جو کہانی کو تہہ دار بنا دیتی ہے۔
ان کہانیوں میں پلاٹ، کردار اور مکالمہ یعنی روایتی کہانی کے سارے عناصر بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ اگرچہ بعض کہانیاں وسیع تر آفاقی صداقتوں کے برعکس ایک خاص آئیڈیالوجی کے حصار میں محصور نظر آتی ہیں تاہم ہر کہانی میں ماجرائی ارتقاء کہانی کی دلچسپی کو شروع سے آخر تک برقرار رکھتا ہے۔ اسی لیے نظریاتی اختلاف یا اتفاق سے قطع نظر قاری پوری کہانی پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔‘‘
مشہور افسانہ نگار انور قمر نے ڈاکٹر سلیم خان کی افسانہ نگاری پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے:
’’ڈاکٹر سلیم خان کے افسانوں کا بنیادی وصف اُن کے دل چسپی کے ساتھ قابلِ مطالعہ ہونے میں ہے۔ ہر افسانے میں کسی نہ کسی حد تک قصے کا سا چٹخارہ ہم آمیز کر دیا گیا ہے۔ افسانہ شروع ہی کسی واقعے کا تصویری پس منظر بیان کرنے سے ہوا ہے۔ واقعے کی باطنی کیفیت کے مطابق فضا سازی کی گئی ہے اور جو ماحول تخلیق کیا گیا ہے‘ اُس میں سکوت نہیں بلکہ حرکت اور عمل کی کارفرمائی ہے۔
ڈاکٹر صاحب ایک سائنس داں ہونے کے باوجود ایک دین دار شخص ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ملّتِ اسلامیہ کے ملکی اور غیر ملکی مسائل کے سلسلے میں وہ ذہنی اور روحانی طور پر متردّد رہتے ہیں۔ اُن کی بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر ہے۔ چناں چہ انھوں نے اپنے بعض افسانوں میں مسلمانوں کے نہایت پیچیدہ قضایا اور اُلجھے ہوئے مسائل کے حل تجویز کیے ہیں۔ معاملہ افغانستان کا ہو‘ پاکستان کا یا عراق کا یا فلسطین کا ہو‘ شام کا یا ایران کا‘ بھارتی سرزمین سے متعلق ہو یا امریکی علاقے سے‘ انھوں نے توسیع پسندی کی پالیسی پر قائم ممالک کی نشان دہی کرنے میں کسی لاگ لپٹ سے کام نہیں لیا ہے بلکہ نہایت دو ٹوک انداز میں اُن سے لوہا لینے کے گُر بھی بتا دیئے ہیں۔
آج کل جس ڈھب کے افسانے لکھے جا رہے ہیں اُن میں ڈاکٹر سلیم خان کے بعض افسانے اپنے موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے نہ صرف مختلف ہیں بلکہ قارئین کی دلچسپی اور استفادے کے پیشِ نظر بھرپور روشنی میں لائے جانے کے قابل بھی ہیں‘‘۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
اس مجموعہ میں زیادہ تر طویل افسانے ہیں۔ لیکن افسانوں کی خوبی یہی ہے کہ قاری ایک بار شروع کر دے تو اسے ختم کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ افسانہ ’بدلے ہوئے پیمانے‘ میں افسانہ نگار نے جمہوریت کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے عوام کی سادہ لوحی بیان کر کے انتخابی نظام پر بڑی خوبصورت تنقید کی ہے: ’’کسی اور کو کامیاب کرنے یا شکست دینے کی خاطر عام لوگ ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے۔ لڑنا کسی اور کو تھا اور جیتنا کسی اور کو۔ مرنا کسی اور کو تھا اور ہارنا کسی اور کو۔ وہی پرانا کھیل ایک نئے انداز میں پھر سے کھیلا جا رہا تھا‘‘۔
’’باتوں باتوں میں‘‘افسانہ نگار نے فلسطین کے بے کس و بے بس عوام کے موقف کو خود کو سوپرپاور سمجھنے والے امریکہ کے سامنے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک فلسطینی اور ایک کناڈین میں یہ مکالمہ ملاحظہ کیجئے جو برطانیہ جانے والی فلائیٹ میں ہم نشیں ہیں:
’’میرا تعلق فلسطین سے ہے۔ میرے والد اسرائیلی حملے میں شہید کر دیئے گئے میری بے سہارا ماں اپنے بھائی کے پاس سعودی عرب آ گئی۔ میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد اپنے باپ کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے دوبارہ فلسطین جانے کا فیصلہ کیا تو میری ماں نے مجھے منع کر دیا۔ میں نے سمجھا کہ میری ماں ڈر گئی ہے میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے مجھے بتایا بیٹے اسرائیل تو ایک شاخ ہے فتنہ کی جڑ تو امریکہ ہے جس نے نہ صرف فلسطین بلکہ عراق اور افغانستان کو جہنم زار بنا رکھا ہے۔
جس کے ارادے نہ ایران کی بابت ٹھیک ہیں نہ شام کے بارے میں اچھے ہیں۔ جو سوڈان کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے اور لبنان کو بھی۔ اس کی بدولت ہم ہر جگہ غیر محفوظ ہیں۔ اسی لئے میں نے سوال کیا تھا کہ آپ تو اپنے محفوظ مقامات پر چلے جاؤ گے لیکن ہم کہاں جائیں گے؟
اس سوال کا انٹن کے پاس جواب نہ تھا۔ اس نے کہا۔ یہ تو ٹھیک ہے لیکن تم بھی تو امن کی تلاش میں برطانیہ ہی جا رہے ہو۔
نہیں میں جانتا ہوں کہ امریکہ اور برطانیہ بھی ہمارے لیے محفوظ نہیں ہے۔ وہاں معصوم لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر بھون دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی میں وہاں جا رہا ہوں تاکہ لوگوں کو اپنے قلم اور اپنے عمل سے امن و امان کا مطلب سمجھاؤں۔ میں وہاں جا کر لوگوں کو بتاؤں گا کہ اگر اپنی خیرو سلامتی چاہتے ہو تو دوسرے کا سکون غارت نہ کرو۔ اگر یہ بات الفاظ سے ان کی سمجھ میں آ جائے تو ٹھیک ورنہ پھر مجھے اپنے عمل سے یہ بات سمجھانی ہو گی۔
عمل کیسا عمل؟ انٹن نے سوال کیا
ایسا عمل جو دلوں کو دہلا دے جو لوگوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا کر دے تاکہ وہ اپنی حفاظت کا انتظام کریں اور دوسروں کے تحفظ کا احترام کریں‘‘۔
کہانی ’’لوک پرلوک‘‘ میں انسان کی بے شمار نفسیاتی الجھنوں کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے:
’’یہ دنیا محض دوکانداری نہیں ہے جہاں صرف فائدے اور نقصان کی بنیاد پر کاروبار چلتا ہو۔ یہاں تو بغیر کسی فائدے کے نقصان اٹھا کر بھی بہت کچھ کیا جاتا ہے‘‘۔
’’موت اور اس کا وقت طے ہے نہ وہ اپنے وقت سے پہلے آئے گی اور نہ اس کی گھڑی ٹلے گی۔ اس لیے موت کا خوف اپنے دل سے نکال دو۔ زندگی اور موت لازم و ملزوم ہیں۔ موت سے ڈر کر جینے والا زندہ لاش ہوتا ہے‘‘۔
’’کبوتر خانہ‘‘ ایک نہایت خوبصورت تمثیلی کہانی ہے۔ اس میں مسابقت اور رشک و حسد کے جذبات کا تجزیہ بڑی خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔
’’اوپر جانے کے لئے خود اوپر جانا ضروری نہیں ہے۔ اگر دوسرے کی ٹانگ کھینچ کراسے نیچے لے آیا جائے تب بھی کام ہو جاتا ہے‘‘۔
’’انتخاب و آزادی‘‘ ایک متاثر کرنے والی معاشرتی کہانی ہے۔ اس کہانی میں سعودی عرب کی فضا اور یہاں کی معاشرتی زندگی اور مسائل پیش کئے گئے ہیں۔ لیکن افسانہ نگار نے اس میں چند آفاقی اصول و نظریات اور معاشرتی اور نفسیاتی الجھنوں کا علاج نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ اولاد کی تربیت میں والدین کی محبت کو کیا دخل ہے اس افسانے میں اسے نہایت پر اثر انداز میں پیش کیا گیا ہے:
’’خیر خواہی کا تقاضہ مخاطب کے نقطۂ نظر کو سمجھنا بھی ہے۔ اس پر اپنا حکم تھوپنے کے بجائے اس کو سمجھانے کی کوشش کرنا ہے اور اس میں ناکامی ہو جائے تو ان کی بات کو تسلیم کر لینا بھی دانشمندی ہے۔ اگر تم سب باہم محبت کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا سیکھو۔ بغاوت اپنے آپ ختم ہو جائے گی‘‘۔
اس مجموعے میں شامل دوافسانے ’’بندیا‘‘ اور ’’جیون ساتھی‘‘شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کہانیوں میں عورت اور مرد کے جذبات و احساسات، محبت اور بے زاری کی نفسیات کو اس خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے کہ یہ افسانے آفاقی نوعیت کے اعلیٰ درجہ کے فن پارے بن گئے ہیں۔ ان دونوں افسانوں میں ڈاکٹر سلیم خان کا فن انتہائی بلندی پر نظر آتا ہے۔ ان افسانوں کو اردو کے عظیم افسانوں کی صف میں رکھا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم خان کے اکثر افسانے اس قابل ہیں کہ ان کو ہندوستان کی دوسری زبانوں میں پیش کیا جانا چاہئے۔ ہندوستانی سماج جو مختلف مسائل سے نبرد آزما ہے اس میں یہ افسانے بڑے کارآمد ثابت ہوں گے۔ اور ان مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کریں گے۔
ڈاکٹر سلیم خان کے اس مجموعے کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے اندر زبردست تخلیقی صلاحیت موجود ہے۔ اگر وہ سنجیدگی کے ساتھ افسانہ نگاری اور ناول نگاری کی طرف توجہ دیں تو علم و ادب پر بڑا احسان کریں گے۔ مقصدیت سے بھرپور ان کہانیوں میں یقینی طور پر عقلمندوں کے لئے عبرت و نصیحت ہے۔ لیکن محض اتنی ہی بات نہیں ہے۔ ڈاکٹر سلیم خان جب یہ افسانے پیش کرتے ہیں تو ان کا حسن بیان اپنے عروج پر ہوتا ہے اور قاری ہر ہرسطرسے مسرت و بصیرت حاصل کرتا ہے۔ اچھے کردار سے ہمدردی اور محبت کا جذبہ دل میں ابھرتا ہے اور برے کردار کے لئے نفرت و غصہ۔ تھوڑی دیر کے لئے وہ بھول جاتا ہے کہ یہ کوئی حقیقی واقعہ نہیں بلکہ محض خیالی چیز ہے۔ کردار نگاری کے ساتھ منظر نگاری بھی ان افسانوں کو خوبصورت اور جاندار بناتی ہے۔ قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے وہ ان سنہری وادیوں کی خود سیر کر رہا ہے۔ ان کا یہ مجموعہ اہل ادب کیلئے قابلِ فخر سرمایہ ہے۔ (اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ آمین)
(اردو بک ریویو ۲۰۰۶ء)
٭٭٭