بنکم چٹرجی فٹ پاتھ پر ادھر ادھر دیکھتا ہوا چلا جا رہا ہے کہ اچانک اس کے سامنے سے بندوق کی ایک گولی سنسناتی ہوئی گزر جاتی ہے۔ وہ پیچھے ہٹتا ہے تو ایک اور گولی پیچھے سے گزرتی ہے۔ اب بنکم زمین پر بیٹھ جاتا ہے۔ گولیوں کا اس کے آس پاس سے گزرنا جاری ہے۔ یہاں تک کہ وہ زمین پر اوندھے منہ لیٹ جاتا ہے۔ چند منٹ بعد جب گولیوں کی بوچھار بند ہو جاتی ہے تو وہ اپنی جگہ کھڑا ہو کرآس پاس نظر دوڑاتا ہے اور نہایت اطمینان کے ساتھ سامنے والی پان کی دوکان کے پاس آ کر پوچھتا ہے کالیداس کا گھر کہاں ہے؟
اس کے گرو سوامی پرم آنند نے اسے یہی نشانی بتائی تھی کہ دیکھو بنکم جب تم کالیداس کے گھر کے قریب پہنچو گے تو وہاں گولی باری ہو رہی ہو گی۔ تمہیں اس سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں وہ تمہارا کوئی نقصان نہیں کر سکتی اس لئے کہ آگے تمہارے بھاگیہ میں بہت کچھ لکھا ہے۔ اس پر بنکم نے چہک کر پوچھا تھا گرو جی اور کیا کیا لکھا ہے یہ بھی بتلا نے کی کرپا کریں گرو دیو۔ پرم آنند نے مسکرا کر جواب دیا تھا نہیں ششیہ میں فی الحال تمہیں اس سے زیادہ کچھ اور نہیں بتا سکتا۔
میرا ہی بھاگیہ مجھ ہی سے گپت رکھنے کا کیا کارن ہے گرو دیو؟ ویسے بھی آپ تو سب کچھ جانتے ہی ہیں۔ اس سوال کے جواب میں پرم آنند نے صرف اتنا کہا تھا کہ دوسروں کے بارے میں جاننا منشیہ کیلئے اتنا ہانی کارک(نقصان دہ) نہیں ہوتا جتنا سویم اپنے وشیہ میں جاننا ہوتا ہے۔ اس لئے دھیرج رکھو اور آگے بڑھو۔ میں تمہارے لئے پرارتھنا کروں گا کہ ایشور تمہیں یش پردان (کامیاب و کامران)کرے۔
گرو دیو کے آشیرواد نے بنکم کو خوش کر دیا تھا وہ بولا گرو دیو آپ کی اِچھّا (مرضی) میرے لئے آدیش ہے۔ آپکی پرارتھنا میرا سب سے بڑا وردان ہے۔ سوامی جی نے بنکم کے سر پر ہاتھ رکھا اور بنکم ان کے چرنوں کو چھو کر نکل پڑا۔ سوامی جی پر بنکم کو اس درجہ وشواس تھا کہ گولیوں کے سنسناہٹ میں وہ ایک لمحہ کیلئے بھی نہیں گھبرایا بلکہ اسے یقین ہو گیا کہ وہ اپنے لکش(ہدف) کے سمکش (سامنے) ہے۔
پان والے نے اس کا سوال سن کر اسے غور سے دیکھا اور بولا کون؟ کالیداس؟
بنکم کا جی چاہا کہ کہے وہی کالیداس جو میری بیوی پروفیسر شکنتلا کے ساتھ کلکتہ سے فرار ہو کر ڈھاکہ آ گیا ہے۔ لیکن اس نے اپنے آپ کو سنبھال کر کہا وہی کالیداس جو تمہارا یار غار ہے۔ کیا اب وہ یہاں نہیں رہتا؟
کیسی بات کرتے ہیں صاحب وہ لال دروازے والا مکان کالیداس کا ہی تو ہے
لیکن اس پر تو تالہ پڑا ہوا ہے؟
جی ہاں لیکن اس کی چابی میرے پاس نہیں ہے۔ وہ تو اسی کے پاس ہے۔ آپ چاہیں تو میرے کٹیا میں وشرام کر سکتے ہیں۔
مجھے وشرام نہیں ہے کالیداس چاہئے۔
پان والے نے دانت نکال دئیے اور بولا کاش میرے پاس علاؤ الدین کا چراغ ہوتا اور میں اسے گھس کر جن کو آدیش دیتا کہ وہ کالیداس کو اسی شن آپ کے سمیپ اپستھت کر دے لیکن میں شما چاہتا ہوں کہ ایسا نہیں کر سکتا۔
بنکم بولا اچھا تو کیا تم مجھے یہ بتا سکتے ہو کہ وہ کہاں گیا ہوا ہے اور کب آئے گا؟
آپ کے دو پرشنوں میں سے ایک کا اتّرتو میرے پاس ہے لیکن دوسرے کا تو شاید خود کالیداس کے پاس بھی نہیں ہے۔
اچھا تو جو جانتے ہو وہی بتا دو۔
اس بیچ دوکان پر ایک گاہک آ گیا۔ پان والا بولا شما کیجئے شریمان لکشمی کی اپستھتی میں دوسرے سارے کاریہ استھگت کرنا انواریہ ہے۔
جب گاہک چلا گیا تو پان والا پھر بولا۔ جی ہاں شریمان آپ پوچھ رہے تھے کہ کالیداس کہاں گیا ہے اور کب آئے گا؟ بنکم نے سر ہلا کر تائید کی تو وہ بولا وہ کب آئے گا یہ کوئی نہیں جانتا بلکہ آئے گا بھی یا نہیں؟ یہ بھی کسی کو نہیں پتہ ہاں وہ گیا تو ہسپتال تھا۔ اب وہاں پہنچا یا نہیں؟ اس کا مجھے گیان نہیں ہے۔
کون سے ہسپتال گیا ہے کالیداس؟
اپولو ہسپتال اور کہاں؟ اسی میں تو وہ کام کرتا ہے۔
اچھا تو وہ ڈیوٹی پر ہے؟
جی نہیں پچھلے ایک ہفتے سے وہ اپنے کسی سگے سمبندھی کی سیوا میں لگا ہوا ہے۔ اس نے کاریالیہ سے چھٹی لے رکھی ہے۔
خیر ٹھیک ہے اب ایسا کرو کہ مجھے اپولو ہسپتال کا پتہ بتلا دو۔
کیوں کیا آپ پیدل جانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ وہ تو یہاں سے بہت دور ہے۔
دور ہے تو رکشا سے چلے جائیں گے لیکن پھر بھی پتہ تو چاہئے؟
جی نہیں سرکار اگر آپ رکشا سے جا رہے ہیں تو چنتا کی کوئی جرورت نا ہے سہر کا ہر رکسا والا اپولو ہسپتال کا پتہ جانتا ہے۔
بنکم دھنیہ باد کہہ کر رکشا کی طرف چل پڑا۔
اپولو روگنالیہ کے ککش نمبر تیراسوتین میں جب بنکم پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ شکنتلا کے مرتیو دیہہ کے پاس بیٹھا کالیداس آنسو بہا رہا ہے۔ بنکم نے جب یہ درشیہ دیکھا تو اس کا ہردیہ پسیج گیا۔ اس کے نینوں سے بھی اشرو دھارا بہہ نکلی۔ بنکم نے آگے بڑھ کر کالیداس کے کندھوں پر ہاتھ رکھا تو کالیداس اس کے چرنوں میں گر گیا اور بولا۔ بنکم دا مجھے شما کریں؟ میں بہت پاپی انسان ہوں مجھ سے مہا پاپ سمپنّ ہوا ہے۔ آپ مجھے شما کر دیں۔ آپ آ گئے۔ بڑا اچھا ہوا جو آپ اس سمے یہاں پہنچ گئے۔ یہ ایشور کی کرپا ہے جو اس نے آپ کو یہاں پہنچا دیا ورنہ میں اپنے اس پاپ کے پرایشچت سے ہمیشہ کیلئے ونچت ہو جاتا۔
بنکم نے اسے اٹھا کر سینے سے لگا یا اور بولا کالیداس اپنے اتیت سے باہر نکلو اور بھویشیہ کی اور دیکھو۔ اب جبکہ شکنتلا ہی نہیں رہی تو ہمارے بیچ شتروتا کا کوئی کارن شیش نہیں ہے۔ کب تک یونہی آنسو بہاتے رہو گے، بھوت کال کو بھول جاؤ جو ہوا سو ہوا۔ اٹھو اور شکنتلا کے انتم سنسکار کی تیاری کرو۔ ورنہ اس کی آتما کو موکش پراپت نہیں ہو گا وہ دھرتی اور آکاش کے بیچ بھٹکتی رہے گی۔
کالیداس تو خیر شکنتلا کی آخری رسومات کی تیاری میں مصروف ہو گیا لیکن بنکم خود اپنے ماضی میں کھو گیا۔ اس نے سوچا قدرت کی یہ کیا ستم ظریفی ہے کہ وہ جس وقت شکنتلا کے ساتھ جینا چاہتا تھا کالیداس اسے لے اڑا اور جب اس نے شکنتلا کو موت کے گھاٹ اتارنے کا فیصلہ کر لیا تو موت کے فرشتے نے اس پر بازی مار لی اور اسے اپنے مقصدِ حیات سے محروم کر دیا۔ بنکم اپنی دوسری ناکامی پر خوش تھا اس لئے کہ شکنتلا کو تو اس وقت مرنا ہی تھا اگر یہ فرشتہ کچھ تاخیر سے آتا تو زندگی بھر کیلئے اس کی پیشانی پر اپنی زوجہ کے قتل کا کلنک لگ جاتا۔
انتم سنسکار کے پشچات پنڈت جی نے شکنتلا کی راکھ کواستھی کلش میں ڈالکرکالیداس کی اور دیکھا پوچھا ججمان اب آگے کی کیا یوجنا ہے؟
کالیداس نے بنکم کی جانب دیکھا تو وہ بولا ہم اسے گنگا میں بہائیں گے۔
پدما تو یہاں سے بہت دور ہے۔
پدما نہیں گنگا۔
کالیداس بولا بنکم دا گنگا کو یہاں لوگ پدما کہتے ہیں یہ وہی پوتر ندی ہے جو سورگ لوک سے آئی ہے۔
لیکن ججمان کیا تم پدما کے بارے میں گمبھیر ہو؟
پنڈت جی اس میں سنکوچ کیا پرشن؟ یہ استھی کلش اسی ندی میں بہایا جائے گا۔
اچھا تو ٹھیک ہے؟ پنڈت جی بولے لیکن ابھی سندھیا کا سمے ہے ایسا کرتے ہیں کل پراتہ کال نکلتے ہیں تاکہ دوپہر تک اس شبھ کاریہ کو نمٹا کر واپس آ جائیں۔
کالی داس بولا یہ اُچت ہے۔ کیا کل صبح سات بجے کا مہورت ٹھیک رہے گا؟
پنڈت جی نے کہا ہاں ججمان اور گھوشنا کی کہ جو لوگ اس یاترا پر چلنا چاہتے ہیں وہ صبح سات بجے سے پورو کالیداس کے ڈیرے پر پہنچ جائیں۔
لوگ واپس لوٹنے لگے بنکم نے پنڈت جی کو ان کی دکشنا دی تو وہ بولے کل کا اڈوانس بھی دے دیں تو اچت ہو گا۔ بنکم نے روپیوں کی ایک اور گڈی ان کے ہاتھ پر رکھی۔ پنڈت جی دھنیہ واد کہہ کر چلے گئے۔ کالیداس کے ساتھ بنکم اس کے گھر آ گیا۔
دوسری صبح کالیداس کے پانچ دوست اور پنڈت جی کے ساتھ جملہ آٹھ یاتری پدما ندی کی اور چل پڑے۔ گو کہ راستہ گھنے جنگل سے ہو کر گزرتا تھا لیکن پھر بھی پنڈت جی کا اندازہ تھا کہ نو بجے تک وہ لوگ ندی کے کنارے پہنچ جائیں گے۔ جب دس بج چکے اور سورج سر پر آ گیا تو کالیداس کے دوستوں میں سے پان والے نے پنڈت جی سے پوچھا اب اور کتنا راستہ شیش ہے؟ سوریہ دیوتا کا پرکوپ بڑھتا جا رہا ہے۔
پنڈت جی نے کہا یہ ولمب کچھ سمجھ میں نہیں آتا ایسا تو اس سے پورو کبھی نہیں ہوا۔
ان میں سے ایک بولا کہیں ہم لوگ راستہ تو نہیں بھٹک گئے پنڈت جی؟
کیسی بات کرتے ہو ججمان ان راستوں پر تو میں آنکھ موند کر چل سکتا ہوں۔
وہ بولے لیکن ہم کب تک یونہی چلتے رہیں گے۔ ہمیں لگتا ہے کہ واپس جانا چاہئے۔ کالیداس اگر تمہاری آگیہ ہو تو ہم واپس چلے جائیں۔
بنکم نے کہا آپ لوگوں نے جو کشٹ کیا ہم اس کا ابھینندن کرتے ہیں آپ لوگ نسنکوچ واپس جا سکتے ہیں دھنیہ باد۔
چار لوگ لوٹ گئے اور اب بچ گئے صرف چار۔ دو بھاگوں میں بنٹنے سے پورو سب نے مل کر ساتھ لایا ہوا ناشتہ کیا اور وپریت دشا میں پرستھان کیا۔ چار جنگل کی اور جا رہے تھے اور چار شہر کی دِشا میں۔ پنڈت جی بڑی گمبھیر مدرا میں سوچ رہے تھے کہ آخر آج یہ کیا ہو گیا؟ دیکھتے دیکھتے سورج نصف النہار پر پہنچ گیا اب پان والے کا حوصلہ بھی ٹوٹنے لگا تھا اور پنڈت جی تو انتظار ہی میں تھے کب کوئی بولے۔ جیسے ہی پان والے پوچھا پنڈت جی اس طرح تو چلتے چلتے ہم لوگ بھی پرلوک میں پہنچ جائیں گے لیکن پدما ندی کا تٹ ہمیں پراپت نہیں ہو گا۔
پنڈت جی بولے ججمان اتنے سمے میں تو ہم لوگ واپس اپنے شہر میں پہنچ جاتے تھے لگتا ہے کوئی گڑبڑ ہو رہی ہے اس لئے اب میرا بھی من واپس جانے کیلئے کہہ رہا۔ اگر آپ چاہیں تو میں دکشنا لوٹا سکتا ہوں لیکن آگے نہیں جا سکتا۔
بنکم بولاکیسا انرتھ کر رہے ہیں پنڈت جی۔ دکشنا بھی کوئی واپس لیتا ہے۔ میں آپکی سمسیا کو سمجھتا ہوں۔ آپ دونوں اگر چاہیں تو اوشیہ واپس جائیں پرنتو بھوجن کے پشچات۔
پنڈت جی بولے یہ اچت سجھاؤ ہے۔ کھانے کے بعد چاروں نے کچھ دیر وشرام کیا اور پھر دو بھاگوں میں وبھاجت ہو گئے۔ پان والا پنڈت جی کے ساتھ واپس آ رہا تھا اور کالیداس بنکم کے ساتھ آگے کی اور چل پڑا تھا۔
ان دونوں کی یاترا نہ جانے کب تک جاری رہی یہاں تک پیروں سے خون بہنے لگا اور راستے پر نشان بننے لگا اب تو سورج بھی تھک گیا تھا اور رات کے دامن میں چھپ کر سونے کی تیاری کرنے لگا تھا۔ کالیداس نے ایک پیڑ کی جانب دیکھ کر کہا بنکم دا کیوں نہ اس وشال ورکش کے تلے تنک وشرام کر لیا جائے؟ آپ کا اس سبمندھ میں کیا وچار ہے؟
بنکم نے سرہلا کر تائید کی دونوں بیٹھ گئے۔ بنکم نے پوچھا کیا تم اس سے پہلے یہاں آئے ہو؟
ایک نہیں کئی بار آیا ہوں سوامی لیکن دوپہر تک ہم لوگ لوٹ جاتے تھے۔
تو کیا اس بار ہم سے دشا بھول ہو گئی ہے؟
جی نہیں! میں راستہ بھٹک سکتا ہوں لیکن پنڈت جی وہ تو اسمبھو ہے۔
تو پھر کیا کارن ہے۔ ندی کہاں غائب ہو گئی؟
سمبھوتہ صبح سے ہمارے آگے بھاگتے بھاگتے وہ بھی سوکھ گئی ہے۔
سوکھ گئی ہے یہ تم کیا کہہ رہے ہو کالیداس؟ پنڈت جی کہہ رہے تھے پدما ندی گنگا، جمنا، سرسوتی اور برہمپترا کے سنگم سے بنی ہے۔ اگر ان چاروں کا پانی سوکھ جائے تودھرتی پر پرلیہ آ جائے گا۔
مجھے بھی یہی لگتا ہے شیگھر(جلد) ہی پرلیہ آنے والا ہے۔
کیوں تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے؟ وہ دیکھو سامنے جو کٹیا دکھائی دے رہی ہے وہ رشی کانو کا آشرم تھا۔
رشی کانو! جس نے مینکا کے سورگ لوٹ جانے کے بعد شکنتلا کی پرورش کی تھی؟
جی ہاں اسی رشی کانو کا آشرم جس میں شکنتلا کی ملاقات راجہ دشینتا سے ہوئی تھی۔
اچھا یہ تمہیں کیسے پتہ؟
میں کالیداس ہوں سوامی میں سب کچھ جانتا ہوں۔
اور دور وہ پہاڑی کا ٹیلہ آپ دیکھ رہے ہیں؟
ہاں ہاں بہت دور مجھے دکھائی دے رہا ہے۔ ابھی میرے نین اتنے شکتی شالی ہیں کہ میں اسے دیکھ سکوں۔
یہ وہی پہاڑی ہے جس پر بیٹھ کر بھرت شیر کے دانت گن رہا تھا اور راجہ دشینتا نے اس سے پریچے پراپت کر کے اسے پہچان لیا تھا۔
اچھا اور وہ جو گڑھا سا نظر آتا ہے سو کیا ہے؟
کالیداس بولا شکنتلا کی سارے دکھ درد کا اپج استھان وہی ہے سوامی۔ اسی مقام پر شکنتلا کی انگلی سے وہ انگوٹھی گر گئی جو اسے دشینتا نے اپنی نشانی کے طور پر دی تھی۔ اگر وہ انگوٹھی نہیں گرتی تو دشینتا اسے پہچاننے سے انکار نہیں کرتا اور کالیداس کی لیکھنی (قلم) پیاسی رہ جاتی۔ اسے وہ مہان اپنیاس لکھنے کی کاسورن اوسر پراپت نہ ہوتا۔
بنکم نے دیکھا اس سوراخ سے آگ کے شعلے اب بھی لپک رہے ہیں۔
کالیداس بولا ایک بات کہوں سوامی۔ آپ برا تو نہیں مانیں گے۔
برا ماننے کا کیا پرشن ہے کالیداس اپنے من کی بات نسنکوچ کہو .
سوامی مجھے ڈر لگ رہا ہے .
کیسا ڈر؟ یہاں جنگل میں کون ہمیں شتی(نقصان) پہنچا سکتا ہے۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن اگر کوئی سنکٹ آ جائے تو اس ایکانت ویوستھا میں کوئی ہماری سہایتا بھی تو نہیں کر سکتا۔
لیکن ہمیں کسی سہایتا کی اوشیکتا ہو تب نا؟
مجھے لگتا ہے کہ کوئی بہت بڑی درگھٹنا ہونے والی ہے بڑا انرتھ ہماری پرتکشا کر رہا ہے ورنہ پدما ندی کا اتنی دور چلا جانا اور پھر سوکھ کر کانٹا بن جانا کیا یہ سب یونہی ہو رہا ہے۔ کداپی نہیں۔ اگر آپ مجھے آگیہ دیں تو میں واپس جانا چاہتا ہوں سوامی۔
میں تمہیں روکنے والاکون ہوتا ہوں، مجھے اس کا ادھیکار نہیں ہے کہ کسی کو بل پوروک اپنے سنگ رکھوں۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ کب تک یونہی چلتے جائیں گے۔ آپ وشواس کریں یہی ندی کا تٹ ہے اور پدما کاجل یا تو دھرتی ماتا نے نگل لیا ہے یا سوریہ دیوتا نے چوس لیا ہے
کالیداس اس سوراخ میں مجھے شکنتلا کی آتما دکھائی دیتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ست یگ کے اندر شکنتلا کا مرتیو سے پورو دشینتا سے مدھر ملن تو ہو گیا اور وہیں پر تم نے اپنے اپنیاس کو سماپت کر دیا پرنتو مرتیو کے پشچات شکنتلا کی آتما کو موکش نہیں ملا وہ اس یگ سے کل یگ تک بھٹکتی رہی ہے۔ اگر میں نے اس کے استھی کلش کو پدما میں نہیں بہایا تو نہ جانے کب تک وہ موکش کی پرتکشا کرتی رہے گی۔ میں اسے اپنی ماتا مینکا کے پاس پہنچائے بغیر واپس نہیں جاؤں گا چاہے اس کاریہ میں میرا سارا جیون ہی کیوں نہ ویتیت ہو جائے۔
کالیداس بولا سوامی میں آپ کی اِچھآ شکتی کو پرنام کرتا ہوں اور پرارتھنا کرتا ہوں کہ وہ آپکی منو کامنا پورن ہو۔ اندھیرا پھیلنے ہی والا ہے، کیا میں پرستھان کروں؟
جی ہاں کالیداس اب تم جا سکتے ہو۔ اس اندھیارے میں آگے جانے کی میرا بھی سا ہس نہیں ہے۔ میں کل صبح سوریہ اودئے تک یہاں وشرام کروں گا اور پھر اس کے پرکاش میں آگے کی یاترا آرمبھ کروں گا۔
کالیداس نے پرنام کر کے بنکم کے چرن چھوئے اور واپس لوٹ گیا۔
کالیداس کے چلے جانے کے بعد شتج پر پھیلی لکشمی کی لالی کو شکتی کی کالی نے نگل لیا۔ بنکم نے اپنے دائیں ہاتھ کو تکیہ بنایا اور کروٹ بدل کر سو گیا۔ ابھی ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ دکشن سے چندرما نے اپنا آنچل سرکا یا دیکھتے دیکھتے سارا آکاش اور دھرتی اس کی دودھیا چاندنی میں نہانے لگے۔ بنکم بے خبر سورہا تھا کہ اسے انوبھو ہوا کوئی اس کے پیروں کے گھاؤ دھو رہا ہے۔ اس کومل اسپرش نے بنکم کے نیتروں سے ندرا کو بھگا دیا پرنتو تھکن کے کارن اس نے اپنی آنکھوں کو بند ہی رکھا اور بولا۔ تم کون ہو؟ یہاں کیا کر رہی ہو؟ اس ون میں تمہیں یہ امرت سمان جل کہاں سے پراپت ہو گیا؟ بنکم کو لگ رہا تھا مانو اس کے چرنوں کے اور آتما کے گھاؤ دونوں ایک ساتھ دھل رہے ہیں۔
کوئی جواب نہ پا کر بنکم نے پھر پوچھا، ہے سورگ اپسرا کیا تم میرے پرشنوں کا اتر دینے کا کشٹ نہیں کرو گی؟
جواب ملا ہے سوامی آپ اپنی آنکھوں کو کھول کر دیکھیں۔ آپ کے سارے پرشنوں کا آترپراپت ہو جائے گا۔
بنکم چونک پڑا، یہ کیا؟ یہ تو شکنتلا کا سوور(آواز) ہے۔ بنکم نے آنکھیں کھولیں تو اس کے چرنوں میں شاکسات شکنتلا بیٹھی ہوئی تھی۔ شکنتلا نے وہی وستر دھارن کر رکھا تھا جس میں وواہ کے پشچات بنکم سے اس کی پرتھم بھینٹ ہوئی تھی۔
بنکم اپنے استھان پر اٹھ بیٹھا۔ اسے اپنے نینوں پروشواس نہیں ہو رہا تھا۔ چندرما کے پرکاش نے پھر ایک بار شکنتلا کو نوودھو بنا دیا تھا۔ بنکم دیکھ رہا تھا کہ شکنتلا استھی کلش سے پانی انڈیل کر اس کے پیر دھو رہی ہے۔ یہ دوسرا آشچریہ تھا۔ استھی کلش میں تو وہ راکھ لے کر چلا تھا۔ یہ جل دھارا اس کلش کے بھیتر؟ بنکم کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔ وہ بولا شکنتلا اس کلش میں تو استھی تھی؟
کس کی استھی؟
تمہاری اور کس کی؟
میری استھی اس کلش میں کیسے ہو سکتی ہے؟ میں تو تمہارے سمکش بیٹھی ہوں۔
وہی تو میں سوچ رہا تھا کہ تم یہاں اس بن میں اچانک کیسے پہنچ گئیں؟
اچھا! آپ تو بہت اچھا وینگ کر لیتے ہیں۔ آپ ہی نے تو کچھ سمے پورو کالیداس کو وہ سوراخ بتلایا تھا جس میں میری آتما نرتیہ کر رہی تھی۔ اسے وشواس نہیں ہوا وہ لوٹ کر چلا گیا لیکن آپ کو تو پورن وشواس تھا؟
وشواس تو اب بھی ہے۔
پھر یہ پرشن کیوں کر رہے ہیں آپ؟
بس یونہی! یونہی انایاس یہ پرشن مستکش میں آ گیا۔ کوئی وشیش کارن نہیں ہے
شکنتلا مسکرائی تو سارا برہمانڈ ہنس پڑا۔ شکنتلا بولی ہے سوامی کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کون سا ورکش ہے؟
جی ہاں یہ بڑ کا پیڑ ہے۔ اس کی لمبی لمبی جٹائیں آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہیں
وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ اس کا اتہاس نہیں جانتے۔
اتہاس؟ میں کیسے جان سکتا ہوں؟
میں بتاتی ہوں سوامی۔ یہ وہی وشال ورکش ہے جس کی چھایا میں بیٹھ کر میرے پتا شری رشی وشومترا نے ایسی تپسیا کی کہ دیو لوک میں اس سے ہلچل مچ گئی
اچھا؟
اور وہاں وہ سامنے چبوترہ آپ کو دکھلائی دے رہا ہے؟
ہاں ہاں کیوں نہیں؟
اسی چبوترے پر اندر دیو نے سورگ سے میری ماتا اپسرا مینکا کو دھرتی پر اتارا تھا
بنکم اپنی کلپنا شکتی سے مینکا کو نرتیہ کرتا ہوا دیکھ رہا تھا اور پھر اس نے دیکھا کہ جٹا دھاری وشوا متر بھی اپنی تپسیا تیاگ کر اس کے سنگ نرتیہ کرنے لگے ہیں اور پھر دیو اور دانو سب مل کر ان کے وواہ سماروہ کا آنند لے رہے ہیں۔ اس کے بعد اسی وشال ورکش نے نیچے مینکا اپنی چاند سی بیٹی کو جنم دیتی ہیں اور وشوامتر اسے اپنی ماں کے سنگ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ شیگھر کال کے پشچات اس بچی کی ماتا شری بھی اس ننھی سی جان کو پکشیوں کے حوالے کر کے سورگ میں لوٹ جاتی ہے اور سامنے سے رشی کانو جب اس پوتر آتما کو شکنتا پکشیوں کے بیچ دیکھتے ہیں تو اس کا ناما کرن ہو جاتا ہے ’’شکنتلا‘‘۔
بنکم کو وشواس نہیں ہوا کہ اس کا بھاگیہ اسے کہاں سے کہاں لے آیا ہے۔ وہ کیسے کل یگ سے پلک جھپکتے ست یگ میں پہنچ گیا۔ پر کرتی کے مہانتم چمتکار کا درشن بنکم اس سمے کر رہا تھا اور شکنتلا چپ چاپ اس کے چرنوں کو امرت کلش سے دھو رہی تھی۔
بنکم نے پوچھا وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن یہ جل وہار اب بھی میرے لئے آشچریہ کا کارن ہے۔ تم نہ جانے کب سے اسے بہا رہی ہو اور یہ مٹکی ہے کہ اس کا پانی سماپت ہونے کا نام ہی نہیں لیتا؟
شکنتلا بولی۔ سوامی یہ پانی کیسے سماپت ہو سکتا ہے؟ اس گاگر میں پدما ندی سمائی ہوئی ہے۔ کیا یہ سمبھو ہے کہ گنگا، جمنا، سرسوتی اور برہمپترا کا جل سماپت ہو جائے۔
اچھا لیکن وہ اس میں کیوں آ گیا؟
شکنتلا بولی اس لئے تاکہ تم اس میں میری استھی کو وسرجت نہ کر سکو۔ میرے بھاگیہ میں موکش نہیں ہے اور تم میرے پتا شری کے سمان پر کرتی سے یدھ کر رہے ہو۔ وشوکرما کو وچلت کرنے کیلئے مینکا کو بھیجا گیا تھا اور آپ کو۔۔۔۔۔۔۔ شکنتلا رک گئی۔
شکنتلا کو بھیجا گیا ہے۔ بنکم نے واکیہ کو پورن کیا۔
اچھا تو اب میں کیا کروں؟
آپ! آپ میرے موکش کی کلپنا اپنے ہردیہ سے نکال دیں اور میری آتما کو اسی طرح بھٹکتا چھوڑ دیں۔ اس لئے کہ میرے بھاگیہ میں موکش پراپتی نہیں ہے میرے سوامی بنکم۔ میں پرلیہ تک اسی طرح ماری ماری پھرتی رہوں گی۔ میرا پیچھا نہ کریں بنکم۔ مجھے یونہی ایکانت کے حوالے کر کے آپ بھی لوٹ جائیں تاکہ پدما ندی کا پانی لوٹ آئے اور وہ پھر سے بہنے لگے۔ مانو جاتی کا کلیان اسی میں ہے۔
بنکم نے دیکھا اس کے چرنوں کے گھاؤ بھر چکے ہیں سمبھوتہ یہ واپس جانے کا سنکیت ہے۔ شکنتلا سے اس کی جدائی کی گھڑی آن کھڑی ہے۔
دونوں ایک دوسرے کے سمکش کھڑے ہو گئے ایک دوجے کو پریم سے انتم بار دیکھا اور مڑ کر ویپریت دشا میں چل دئیے۔
٭٭٭
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے
کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
“اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تمام زمین سے جمع کی گئی مٹھی بھر خاک سے پیدا فرمایا۔
آدم علیہ السلام کی اولاد بھی (طرح طرح کی) مٹی سے پیدا ہوئی۔
ان میں سفید فام بھی ہیں، سرخ بھی اور سیاہ بھی
اور ان کے درمیانی رنگوں کے بھی
(اسی طرح) نیک اور بد، نرم خو اور سخت طبیعت اور درمیانی طبیعت والے۔ “
(الحدیث)
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید