۔۔۔۔۳۰مارچ کو میرا گزشتہ کالم”عراق پر اینگلو امریکن حملہ“ آن لائن ہوا۔ اس کے آخر میں ،میں نے آسمانی اور دینی کتب کے حوالے سے ایک واضح بات کی تھی۔ اسی دن میں نے بعض خاص احباب کو اس کے بارے میں اطلاع دی۔مجھے خوشی ہے کہ ۳۱مارچ کومعروف ٹی وی چینل اے آر وائی کے پروگرام ویوز آن نیوز میں اسی حوالے سے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب سے گفتگو کرکے اس زاویے سے آنے والے دنوں کو سمجھنے کے لئے کوشش کی گئی۔ڈاکٹر اسرار احمد پاکستان کے ممتاز اور معتبر علماءمیں شمار ہوتے ہیں۔لیکن افسوس کہ قرآن و حدیث سے در پیش حالات کے بارے میں کوئی ٹو دی پوائنٹ بات کرنے کے بجائے وہ فروعی اور متنازعہ نوعیت کے حامل دینی مسائل میں الجھ کر رہ گئے ۔اس میں ان کا کوئی قصور نہیں وہ زیر بحث موضوع پر زیادہ غور و خوض ہی نہیں کرپائے تھے۔ چنانچہ میں اپنی طرف سے اسی موضوع پر اپنا موقف بیان کردینا مناسب سمجھتا ہوں۔
۔۔۔۔اصل موضوع کی طرف آنے سے پہلے اپنے قارئین کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کا احساس میرے ذہن میں ایک عرصہ سے اضطراب پیدا کرتا رہا ہے۔اس کے نتیجہ میں میں نے اسی ایک موضوع پر تین مختلف کہانیاں لکھی تھیں۔پہلی کہانی ۱۹۸۰ءکے آخر میں لکھی گئی اور ادبی جریدہ”اوراق“ لاہور کے شمارہ فروری مارچ ۱۹۸۱ءمیں شائع ہوئی تھی۔اس میں، میں نے قرآن شریف اور دیگر آسمانی اور دینی کتب کے ایسے حوالے یکجا کئے تھے جو واضح طور پر ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کی نشاندہی کرنے والے تھے۔بنیادی طور پر یہ کہانی دینی کتب کی پیشین گوئیوں پر استوار ہوئی تھی۔اس کہانی میں ایک جگہ عربوں کی تیل کی دولت کا ہلکا سا سیاسی اشارا بھی دیا گیا تھا۔چنانچہ اس کے نتیجہ میں مجھ سے ۱۹۸۲ءمیںپھر ایک کہانی لکھی گئی”گلاب شہزادے کی کہانی“ ۔ ۔۔۔اس میں ایٹمی جنگ کو عربوں کی تیل کی دولت اور عالمی قوتوں کی تیل کی ہوس کے پس منظر میں داستانوی انداز سے بیان کیا گیا تھا۔ایک لمبے وقفہ کے بعد پھر ۱۹۹۲ءمیں مجھ سے ایک اور کہانی لکھی گئی۔”کاکروچ“کے نام سے لکھی گئی میری تیسری کہانی میں ایٹمی جنگ کے بعد کی فضا کومذہبی کتب یا آئل مافیا کی سیاست کی بجائے سائنسی تناظر میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی۔یہ تینوں کہانیاں بنیادی طور پر کہانی کے تقاضوں کے مطابق لکھی گئی تھیں،اور انہیں پڑھتے ہوئے کسی مضمون کی طرح نہیں لینا چاہئے،لیکن ان سے یہ اندازہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ایٹمی جنگ کے خطرات کو میں تب سے سنجیدگی سے اور تخلیقی سطح پر لے رہا تھا جب ہمارے اردو کے تخلیق کاروں اور دانشوروں کواس کا وہم و گمان بھی نہیں تھا۔(دلچسپی رکھنے والے احباب ویب سائٹwww.haiderqureshi.com پر میرے افسانوں کے سیکشن میں پہلی دونوں کہانیاںمیرے افسانوی مجموعہ”روشنی کی بشارت“ میں اور تیسری کہانی میرے افسانوی مجموعہ ”قصے کہانیاں“میں دیکھ سکتے ہیں)۔
یہاں میں افسانہ ”حوا کی تلاش“میں درج وہ حوالے من و عن پیش کر رہا ہوں جو میں نے قرآن شریف سے اوردیگر مذہبی کتب سے لئے تھے۔ان نو حوالوں میں سے پہلے تین اور آخری دو حوالے قرآن شریف کے ہیں ۔پہلے یہ سارے حوالے دیکھ لیجئے۔
۱۔”تجھے کیا معلوم ہے کہ حطم(ایٹم)کیاشے ہے؟ یہ اللہ کی خوب بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو دلوں کے اندر تک جاپہنچے گی تاکہ اس کی گرمی ان کو اور بھی زیادہ تکلیف دہ محسوس ہو“(سورہ ہُمزہ)
۲۔”دنیاپر ایک شدید مصیبت آنے والی ہے اور تجھے کیا معلوم ہے کہ وہ مصیبت کیسی ہے؟ اور ہم پھر کہتے ہیں کہ اے مخاطب! تجھے کیامعلوم ہے کہ یہ عظیم الشان مصیبت کیاچیز ہے؟ یہ مصیبت جب آئے گی تو اس وقت لوگ پراگندہ پروانوں کی طرح ہوں گے اور پہاڑ اس پشم کی مانند ہوجائیں گے جو دھنکی ہوتی ہے۔“( سورہ القارعہ)
۳۔”جب زمین کو پوری طرح ہلادیاجائے گا۔اور زمین اپنے بوجھ نکال کرپھینک دے گی اور انسان کہہ اٹھے گاکہ اسے کیاہوگیاہے؟“(سورہ زلزال)
۴۔”خداوند کہتاہے کہ میں نے اپنی غیرت سے اور قہر کی آتش سے کہا یقینااسی دن اسرائیل کی سرزمین میں ایک زلزلہ ہوگا۔ یہاں تک کہ سمندر کی مچھلیاں اور آسمان کے پرندے اور زمین کے چرندے اورسارے کیڑے مکوڑے جو زمین پر رینگتے پھرتے ہیں اور سارے انسان جو روئے زمین پر ہیں میرے سامنے تھرتھراجائیں گے اور پہاڑ اٹھائے جائیں گے اور کڑاڑے بیٹھ جائیں گے اور ہر ایک دیوار زمین پر گر پڑے گی ایک شدت کا مینہ اور بڑے بڑے اولے اور آگ اور گندھک برساؤں گا۔ اسی طرح میں اپنی بزرگی اور تقدیس کراؤں گا اور بہتیری قوموں کی نظروں میں پہچاناجاؤں گا اور وہ جانیں گے کہ خداوند میں ہوں“
۵۔”دیکھ میں ترامخالف ہوں اے جوج رُوش اور مسک اور تو بال کے سردار! میں تجھے پلٹ دوں گا اور میں تجھے ہر قسم کے شکاری پرندوں اور میدان کے درندوں کو خوراک کے لئے دوں گا۔تو کھلے ہوئے میدان میں گرپڑے گا اور میں ماجوج پر اور ان پر جوجزیروں میں بے پروائی سے سکونت کرتے ہیں ایک آگ بھیجوں گا اور آگے کو میں ہونے نہ دوں گا کہ وہ میرے پاک نام کو بے حرمت کریں“
۶۔”اور دنیامیں ایک حشر برپاہوجائے گا اور وہ اول الحشر ہوگااور تمام بادشاہ آپس میں ایک دوسرے پر چڑھائی کریں گے اور ایسا کشت و خون ہوگاکہ زمین خون سے بھرجائے گی اور ہر ایک بادشاہ کی رعایابھی آپس میں خوفناک لڑائی لڑے گی۔ ایک عالمگیر تباہی آوے گی اور ان تمام واقعات کا مرکز ملک شام ہوگا“
۷۔”اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔ میں شہروں کو گرتے دیکھتاہوں اور آبادیوں کو ویران پاتاہوں“
۸۔”کیا یہ زمین میں نہیں پھرے کہ دیکھتے کہ ان سے پہلوں کاکیاانجام ہوا؟وہ ملک میںان سے تعداد اور طاقت میں بھی زیادہ تھے اور عمارت وغیرہ کے فنون میں بھی زیادہ ماہر تھے۔ لیکن ان کے اعمال نے ان کو کوئی نفع نہیں دیا تھا۔ اور جب ان کے پاس ان کے رسول نشانات لے کر آئے تو ان کے پاس جو تھوڑا بہت علم تھا اس پر فخر کرنے لگے اور جس عذاب کی ہنسی اُڑاتے تھے اسی نے ان کو گھیر لیا۔ پھر جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھاتو کہہ اٹھے ہم تو اللہ کو ایک قرار دیتے ہوئے اس پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے ساتھ جن چیزوں کو ہم شریک قرار دیاکرتے تھے ان کا ہم انکار کرتے ہیں۔ پس جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو ان کے ایمان نے ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ یہی اللہ کی مقررہ سنّت ہے جو اس کے بندوں میں جاری چلی آتی ہے“۔
(سورہ المومن۔آیت ۸۲تا آخر)
۹۔”تم پر آگ کاایک شعلہ گرایاجائے گا اور تانبا بھی گرایاجائے گا پس تم دونوں ہرگز غالب نہیں آسکتے اب بتاؤکہ تم دونوں اپنے رب کی نعمتوں میں سے کس کس کا انکار کروگے۔“
(سورہ رحمن۔آیت ۳۵)
۔۔۔۔یہاںحوالہ نمبر۱یک کے بارے میں ایک وضاحت کردوں کہ” سورہ ہُمزہ“ کی ان آیات میں حطمہ یا حطم کو میں ایٹم ہی قرار دیتا ہوں اور میرایہ استدلال ۱۹۸۰ءسے ہے۔ حطم اور ایٹم کی لسانی ہم آہنگی اپنی جگہ۔۔۔ میری درج کردہ آیات کے ساتھ سورت کی اگلی آیات کو ملا کر پڑھا جائے تو ایٹمی حملہ کے نتیجہ میں ہونے والی تباہی کے اثرات بالکل اسی طرح عیاں ہو جاتے ہیں جیسے سائنسدان اسے بیان کرتے ہیں، ایٹمی شعلوں کی تصویریں لمبے ستونوں جیسی دکھائی دیتی ہیں۔تابکاری اثرات پہلے دل کو گرفت میں لیتے ہیں اور پھر سارے جسم کو لپیٹ لیتے ہیں۔اسی منظر کو اس سورةمیں اتنے واضح الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے کہ حطم کو ایٹم کہنا بالکل درست دکھائی دیتا ہے۔
۔۔۔۔ حوالہ نمبر تین کے بارے میں خاص طور پر اور بعض دوسرے قرآنی حوالوں کے بارے میں عام طور پر قیامت کا تصور لیا جاتا ہے۔میرے ایک بہت ہی اچھے اور بزرگ دوست فضل من اﷲ صاحب تھے۔ہمارے درمیان فکری بُعد بہت زیادہ تھا لیکن ان کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ مجھے نہ صرف عزیز رکھتے تھے بلکہ میری ادبی حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے تھے۔جب وہ جماعت اسلامی کے ادبی رسالہ”سیارہ“کے مدیر تھے،تب انہوں نے مجھے اس رسالہ میں بھی شائع کرنے کی ہمت کی۔میرے اس افسانہ کو انہوں نے بحیثیت افسانہ بہت پسند کیا تھا لیکن اس میں شامل بعض آیات پر اور خاص طور پر سورت زلزال کی آیات پر میرے استنباط سے اختلاف کرتے ہوئے مجھے لکھا کہ یہ توقیامت کے بارہ میں آیات ہیں۔تب میں نے انہیں لکھا تھا کہ یہ ایک عالمگیر تباہی کی خبر ہے۔ جس میں کچھ نہ کچھ لوگ زندہ بچ رہیں گے۔اسی لئے تو وہ پکار اٹھیں گے کہ یہ ایسی ہنستی بستی دھرتی کو کیا ہو گیا ہے؟ اگر یہ قیامت کے بارے میں آیات ہیں تو پھر قیامت کے دن کون سے انسان ہوں گے جو قیامت کے باوجود زندہ بچ رہیں گے اور یہی الفاظ دہرائیں گے۔میرے جواب پر انہوں نے مزید بحث نہیں کی تھی۔
۔۔۔۔حوالہ نمبر۵جوبائبل کی کتاب حزقی ایل سے ہے۔اس میں جوج کے نام سے واضح طور پر روس،ماسکو اور توبال کو مخاطب کیا گیا ہے۔ ماجوج سے مراد پانی والا جوج ہے(پانی کو عربی میں ما کہتے ہیں)جو محفوظ سمندروں میں گھرا ہوا امریکہ ہے۔پس ایٹمی جنگ سے تباہ تو سب نے ہی ہونا ہے۔سورہ رحمن(حوالہ نمبر۹)میں تو صاف لفظوں میں دونوں قوتوں کی مکمل تباہی کی خبر درج ہے۔ان وضاحتوں کے باوجود ہر دوست کو ان پیشین گوئیوں کے بارے میں اپنی اپنی رائے اور اپنے اپنے تحفظات رکھنے کا حق حاصل ہے۔
۔۔۔۔یہ ساری پیشین گوئیاں ایٹمی جنگ کے حوالے سے ہیں۔ اس کے بہت زیادہ امکانات ہونے کے باوجود ضروری نہیں کہ ایٹمی جنگ ابھی ہو جائے۔مجھے بخاری شریف سے ایک بہت خوف دلانے والا حوالہ ملا ہے ۔ اس سے مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ ہو سکتا ہے ابھی ایٹمی جنگ نہ ہو اور گریٹر اسرائیل کے نقشہ پر عملدرآمدکی سازش کے نتیجہ میں ابھی ہمیں بہت زیادہ ذلت کے دن دیکھنا پڑجائیں۔میں اس حدیث کا متن بعد میں درج کروں گا پہلے یہاںایک اور خطرے کے امکان کی نشاندہی کردوں۔انڈیا میں جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا تب انتہا پسند ہندوحلقوں کے ایک لیڈر نے اشتعال انگیزی کے ساتھ یہاں تک کہہ دیا تھا کہ تم مسلمان جواس مسجد کو رام مندر بنانے میں رخنہ ڈال رہے ہوابھی تو ہم نے اپنا مکہ والا بڑا مندر بھی تم لوگوں سے لینا ہے جو تم لوگوں نے زبردستی ہم سے چھین لیا تھا۔اُن دنوں میں شدید رد عمل کو دیکھتے ہوئے بی جے پی کی مرکزی قیادت نے ایسے بیانات سے اپنی بریت ظاہر کر دی تھی لیکن اس بیان میں پوشیدہ مکروہ عزائم کو مد نظر رکھا جائے اور ہندوؤں کی انتہا پسند قیادت کے اسرائیل سے غیر معمولی طور پر بڑھتے ہوئے تعلقات کی گرمجوشی کو دیکھا جائے تو قلب اسلام پر عالمی گِدھوں کے منڈلانے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔کیا گریٹر اسرائیل کا خواب دیکھنے والوں نے انڈیا کے انتہا پسند ہندوؤں کی قیادت کو مکہ میں ان کا حصہ دلانے کاکوئی وعدہ تو نہیں کر لیا؟
۔۔۔۔خدا کرے یہ سب مفروضے ہوں لیکن حالات کی چاپ بہت سے وسوسے پیدا کر رہی ہے۔ان سارے امکانی اندیشوں کوذہن میں رکھیں اور یہ بھی خیال رہے کہ امریکی افواج کے افسران میںکئی بلیک لوگ شامل ہیں ۔اب ”تجرید بخاری “جلد اول کی کتاب ”وجوب حج اور اس کی فضیلت کا بیان“کی روایات نمبر۷۶۹اور ۷۷۲ملاحظہ فرمائیں۔
”حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں حضور انورﷺنے فرمادیا تھا کہ کعبہ ایک حبشی ،جس کی پنڈلیاں بہت چھوٹی ہوں گی ویران کردے گا۔“
”حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں (ایک روز حضور انور ﷺ)نے فرمایا میں اس وقت گویا اس شخص کو دیکھ رہا ہوںجو خانہ کعبہ کو ویران کر دے گا۔سیاہ رنگ ہوگا۔پاؤں کے تلوے اٹھے ہوں گے“
۔۔۔۔میںان احادیث کی روشنی میں مزید کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔ان احادیث کا علم رکھنے والے کوئی دوست حوصلہ دلانے والی اور دل رکھنے والی کوئی بات بتا سکیں تو اس سے مجھے بھی کچھ تسلی ہو جائے گی۔اﷲ تعالیٰ تمام مسلمانوں کے انفرادی اور اجتماعی گناہوں کو معاف فرمائے ۔اوریہ احادیث انذاری پیشین گوئیوں کی طرح پوری ہونے کے بجائے ٹل جائیں۔ ہم تو دعا کے سوا کچھ بھی نہیںکر سکتے۔
اے خاصہءخاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے
اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
٭٭٭