حسن عا بد ی
یہ مجموعہ دیدہ زیب ہونے کے علاوہ قاری کو دعوتِ فکرو نظر بھی دیتا ہے۔اس میں ایک بے چین روح اور متجسّس نگاہوں کی وارداتِ قلبی کو شعرکے پیکر میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے۔لیکن اس مجموعے کو آپ محض آپ بیتی بھی نہیں کہ سکتے بلکہ شاعر نے دوسروں کے کے دکھوں کو اپنے دکھوں میں اس خو بصورتی سے سمویا ہے کہ ان کو ایک دوسرے سے جدا کر نا بہت مشکل نظر آتا ہے اور یہی شا عر کا کمال ہے
مجموعے پر سر سری نظر ڈالنے سے ہی یہ بات وا ضح ہو جا تی ہے کہ انہیں زبان و بیان پر قدرت حا صل ہے۔ وہ زندگی کے بعض دقیق حقائق کو اس آسانی سے بیان کر دیتے ہیں کہ سامنے کی باتیں معلوم ہو تی ہیں حا لانکہ یہ بات دیکھنے میں جتنی آسا ن نظر آ تی ہے اس کو برتنے میں اتنی ہی مشکل پیش آتی ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ا نہوں نے روایتی انداز پر شعر نہیں کہابلکہ ان کی سوچ اور اس کے اظہار میں ایک جدّت اور اپچ ہے۔ وہ عام مشاہدے اور تجربے کو بھی اپنے اندازِ بیان سے ایک نیا روپ دے دیتے ہیں اس کے علاوہ ان کے اظہارِ بیان میں بھی بڑی بیبا کی اور خلوص ہے اس لئے ان کا شعر آسانی سے دل میں گھرکرلیتا ہے ۔تشبیہوں کے استعمال میں انہوں نے خاصے سلیقے اورخوش ذوقی کا مظاہرہ کیا ہے ۔بعض مقامات پربالکل اچھوتی تشبیہوں کے ذریعے انہوں نے غیر مرئی احساسات کو ٹھوس حقیقتوں کے قالب میں ڈھال دیاہے
مثلاَ یاد یوں دل میں کسی کی آئی روشنی جیسے نظر تک پہنچی
( یا یہ شعر) رات کے ساتھ مہ و نجم کا رشتہ ہے مگر جیسے ظالم کا تعلق ہو مراعات کے ساتھ
جیسا کہ انہوں نے کتاب کے مقد مہ میں کہا ہے کہ ان کا تعلق شاعری میں کسی خاص مکتبۂ فکر سے نہیں وہ شاعری کو آتش لکھنویؔ کی طرح صنّا عی بھی تصوّ رنہیں کر تے بلکہ بقول ان کے شاعری صنّا عی نہیں بلکہ خلّا قی ہے۔
مجھے آپ کی غزل اور نظم دونوں میں بہت کچھ لطف اور ذہنی اور روحانی با لید گی کا سا مان ملا ۔آپ نے اپنے وسیع مطالعے کو بھی اپنی شاعری میں جگہ جگہ سمویا ہے۔ شمس ا لر حمان فا روقی